پیغمبر اسلام ۖکے بقیہ معجزات
ہم اس سے پہلی بحث میں بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کریم وہ معجزہ ہے جو آخر الزمان کی امت پر منت کے طور پر رکھا گیا ہے اور پیغمبر اکر م ۖ پر نا زل ہوا ہے تاکہ قیامت تک امت رسول کے ہاتھوں میں رہے اور امت اس سے اسلام کی حقانیت کی راہ کو طے کر ے اور اپنی سعا دت کی راہ کی معرفت حا صل کرے ۔ اب یہ سوال در پیش ہے :
کیا پیغمبر اسلام ۖ کو قرآن کے علاوہ دوسرے معجزے بھی عطا کئے گئے ہیں یا نہیں ؟
قرآن مجید میں خود اس کے معجزہ ہونے اور اس میں غیبی خبروں کے مندرج ہو نے کے علاوہ پیغمبر اسلامۖ کے بعض معجزات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اسی طرح خداوند عالم نے متعددمرتبہ جو پیغمبر اسلام ۖ اور آنحضرت کی امت کی غیب سے مدد فرما ئی ہے اس کی طرف بھی اشارہ ہو ا ہے جن میں سے ہر ایک اپنے مقام پر ایک معجزہ شمار کیا جاتا ہے جو پیغمبر اسلام ۖ کی بر کت کے ذریعہ اس امت کو عطا کیا گیا ہے ۔ان معجزات میں سے بعض معجزات کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں :
شقّ ا لقمر
(اِقتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ القَمَرُ۔وَاِنْ یَرَوْاآ یَةً یُعْرِضُوا وَیَقُولُواسِحْر مُّستَمِرّ)(١)
''قیامت قریب آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے اور یہ کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تومنھ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک مسلسل جادو ہے ''
اس آیۂ شریفہ سے کہ رسول اللہ کے دور حیات میں چاند کے دو ٹکڑے ہوئے اور یہ اللہ کی نشانی تھی ،چو نکہ اللہ اس کے بعد یہ فر ماتا ہے :(وَ اِنْ یَرَوْاآیَةً یُعْرِضُوْا )''اوریہ کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تومنھ پھیر لیتے ہیں ''اس کے
..............
١۔سورئہ قمر آیت١۔٢۔
باوجود کہ چا ند دو ٹکڑے ہوا لیکن کفار و مشرکین دشمنان پیغمبر کہتے ہیں :
(سِحْرمُسْتَمِرّ)
''یہ ایک مسلسل جا دو ہے ''۔
اس آیۂ شریفہ کے سلسلہ میں دوسرے نظریہ بھی ہیں جو ان افراد کے ہیں جومعجزاتی چیزوں پر ایمان نہیں رکھتے ہم ان میں سے بعض نظریات کی طرف اشارہ کر تے ہیں :
بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ آیت قیامت سے متعلق ہے ۔یعنی قیا مت میں چاند دو ٹکڑے ہو گااور اس کی نشاندہی ا س سے ہو تی ہے کہ اس کے بعد (اِقْتَرَ بَتِ السَّا عة) بیان ہوا ہے ۔
لیکن جیساکہ قا رئین کرا م آپ نے ملاحظہ فر مایا کہ آیۂ شریفہ کا ظا ہراس نظریے سے سازگار نہیں ہے ، چونکہ ''اِنْشَقَّ الْقَمَرْ ''ایک وقوع پذیر ہو نے والے واقعہ کی نشا ندہی کر تا ہے۔قیامت کے سلسلہ میں فر مایا گیا ہے ''اِقْتَرَبَتِ السَّا عَة '' ''قیامت نز دیک آگئی '' لیکن انشقاق قمر (چاند کا دو ٹکڑے ہو نا)کے متعلق فر ماتا ہے ''وَ انْشَقَّ الْقَمَرْ ''یہ نہیں فرمایا کہ ''اِقْتَرَبَ اِنْشِقَا قَ الْقَمَرُ'' یا ''اِقْتَرَبَتِ السَّاعَة وَاِنْشِقَا قُ الْقَمَر''۔یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم میں قیا مت کے آثار کوبیان کیا گیاہے جس کو روایات میں ( اشرا ط السا عة )کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کو عام طور پرکلمہ'' اِذَا '' سے بیان کیا جاتا ہے :(اِذَاالسَّمَا ئُ انْفَطَرَتْ ، اِذَاالسَّمَا ئُ انْشَقَّتْ)لیکن اس مقام پرانشقّ القمر فر مایا ہے ۔اس کے علاوہ بعد والی آیت اس بات کی شاہد ہے کہ یہ ایک آیت تھی جس کالوگوں نے خود مشاہدہ کیا اوراس کو جا دو سے منسوب کرد یا،خدا فر ماتا ہے کہ یہ اس کے علاوہ دوسری آیت کو بھی دیکھیں گے تو اسی کو جادو کہدیں گے :(وَ اِنْ یَرَوْ اآیَةً یُعْرِضُوْاوَیَقُوْلُوْا سِحْر مُسْتَمِرّ ) ان کے اس قول کی یہاں اس سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے کہ قیا مت میں شق القمر ہو گا یالوگ جس آیت کو دیکھتے ہیں اسے جا دو کہدیتے ہیں یعنی کیا قیامت میں بھی جا دو کہیں گے؟! وہاں حقیقتیں ظاہر ہوں گی اور کو ئی شخص ان حقیقتوں کا انکار نہیں کر سکتا ۔ پس ظا ہر ہے کہ یہ آیت اسی دنیا سے مر بوط ہے ۔
دوسرے بعض افراد کا کہنا ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہو نا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ چاند زمین سے جدا ہو ا ہے اور یہ ایک علمی حقیقت ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے ۔دنیا کی معرفت حا صل کر نے کی ایک تھیوری یہ ہے کہ زمین سورج سے جدا ہو ئی ہے اور چاند زمین سے جدا ہوا ہے، اس بنا پر چاند زمین کا چکر لگاتا ہے اور قمر زمین ہے ۔پس قرآن اس نظریہ کی تا ئید کر تا ہے کہ چاند زمین سے جدا ہوا ہے ۔
اس نظریہ پر بھی پہلے والا اعتراض ہوتا ہے کہ یہ آیت ظاہر کے خلاف ہے ،اس لئے کہ یہ ایک آیت کا بیان معجزہ کی حیثیت سے تھا ایک فطری اور تکو ینی لحا ظ سے نہیں تھا ۔اس کے علاوہ کلمۂ '' انشَقّ''چاند کے زمین سے جدا ہو نے کے با رے میں نہیں ہے ۔اِنْشقَّ یعنی شگافتہ ہو گیا یاپھٹ گیا اگر خدا وند عالم یہ فر مانا چاہتا کہ چاند زمین سے جدا ہوا تو اِشْتَقَّ یا اِنْفَصَل فر مانا چا ہئے تھا۔
بہر حال ہم تو اس سلسلہ میں کو ئی شک ہی نہیں کر تے کہ'' اِنْشَقَّ القمر''سے مراد وہی شق القمر ہے جو پیغمبر اکرم ۖ کے دست مبارک کے ذریعہ وقوع پذیر ہوا تھا ،شیعہ اور اہلسنت سے اس با رے میں متعدد روایات نقل ہو ئی ہیں کہ مہینہ کی چو دہویں رات تھی اور چاند ابھی نکلا ہی تھا کہ پیغمبر اکر م ۖ نے اشارہ کیا اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور کچھ دیر تک اسی طرح با قی رہا اور پھر دو نوں ٹکڑے آپس میں مل گئے اور پہلے کی طرح مکمل ہوگئے ۔ یہاں تک کہ بعض اہلسنت علما ء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ شق القمر کے سلسلہ میں بعض روایات متوا تر ہیں ۔
اس بارے میں بھی کچھ علمی اعتراضات ہو ئے ہیں کہ ایک آسمانی کرہ کا دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جا نااس کا کیا مطلب ہے؟ یا اگر ایسا ہو ا تھا تودوسرے افراد بھی اس کا مشا ہدہ کرتے،اور یہ تا ریخ میں نقل ہوتااسی طرح کے متعد د اعتراضات کئے ہیں ۔
ہما رے بزرگ علما نے ان سوالوں کے یہ جوابات دئے ہیں :
١۔یہ معجزہ ایک اتفاقی اور اچانک واقعہ تھا ۔ لوگ ہمیشہ بیٹھکر آسمان کی طرف یہ نہیں دیکھاکر تے ہیں کہ کیا کیا حا دثے رو نما ہو رہے ہیں ۔ جو لوگ آسمان کے سلسلہ میں زیادہ جستجو کر تے ہیں وہ اس چیز کے منتظر رہتے ہیں کہ کیا اس طرح کا کو ئی حادثہ واقع ہو سکتا ہے یا نہیں وہ دیکھتے ہیں ۔
٢۔اُس وقت ایسے حالات نہیں تھے کہ تمام حوادث ا ورواقعات تحریر کر لئے جا تے ہوں اور ان سے سب کومطلع کردیا جائے اس زمانہ میں ایک دوسرے سے رابطہ کر نے والے مو جود ہ و سیلے نہیں تھے کہ جن سے فوری طور پرساری دنیا کو مطلع کر دیا جاتا اس کے علا وہ جب کرہ ٔ زمین کے کسی ایک مقام پر اس طرح کا کو ئی واقعہ پیش آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب جگہ اس کا مشاہدہ کیا جا ئے۔چو نکہ رات کی ابتداء میں یہ واقع ہوا اور اس وقت چاند بہت سے مقامات پر طلوع بھی نہیں ہوتا ۔
لو گوں کے ادراک میں تصرف
قرآن فرماتا ہے کہ بعض جنگوں میں خدا وند عالم نے مسلمانوں اور مشرکین کے اذہان میں اس طرح تصرف کیا ہے کہ وہ کسی جنگ میں فوجیوں کی تعداد کو کم یا زیادہ دیکھتے تھے اور اس طرح کہ خداوندعالم مسلمانوں کوجو کا میابی دینا چا ہتا تھا وہ حا صل ہو جا تی تھی ۔دو آیات میں اس مسئلہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :
(قَدْ کَانَ لَکُم آیَةفِی فِئَتَیْنِ الْتَقَتَافِئَة تُّقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ وَأُخرَیٰ کَافِرَة یَرَوْنَہُمْ مِثْلَیْہِمْ رَأیَ العَیْنِ وَاللَّہُ یُؤَ یِّدُ بِنَصْرِہِ مَنْ یَّشَآئُ اِنَّ فِی ذَلِکَ لَعِبْرَةً لِّاُوْلیِ الاَبْصَٰر)ِ (١)
''تمہارے واسطے ان دو نوں گرو ہوں کے حالات میں ایک نشانی مو جو د ہے جو میدان جنگ میں آمنے سامنے آئے کہ ایک گروہ راہ ِ خدا میں جہاد کر رہا تھا اور دوسرا کافر تھا جوان مو منین کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہا تھا اور اﷲ اپنی نصرت کے ذریعہ جس کی چا ہتا ہے تا ئید کرتا ہے اور اس میں صاحبان نظر کے واسطے سامان عبرت و نصیحت بھی ہے '' ۔
مفسرین قرآن کے ما بین جملہ ''یَرَوْنَھُمْ مِثْلَیْھِمْ ''کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلافات پا ئے جا تے ہیںکہ ''یَرَوْنَ''کا فا عل کو ن ہے ؟اور پہلی ضمیر '' ھُم ''کس کی طرف پلٹتی ہے اور ''مِثْلَیْھِمْ ''کی ضمیر ''ھُمْ ''کا مر جع کیا ہے ؟اس بارے میں کئی وجہیں بیان کی گئی ہیں :
بعض مفسرین کہتے ہیں :مومنین خود کو دو گنا دیکھ رہے تھے تاکہ اپنی کا میابی کی امید لگا ئے رکھیں۔ یہ داستان جنگ بدر سے متعلق ہے ۔مسلمان ٣١٣افراد تھے خدا وند عالم نے ان کی تعداد خود انھیں دو گنا دکھلائی ۔پس یَرَوْنَ کا فاعل اور ضمیر ''ھُمْ '''' یَرَوْنَھُم ْ '' اور '' مِثْلَیْھِمْ ''میں سب مو منین کی طرف پلٹتی ہیں۔
بعض مفسرین کا کہنا ہے :ضمیر یَرَوْنَ کا فاعل کفا ر ہیںلیکن ضمیر''ھُمْ ''مو منین کی طرف پلٹتی ہے یعنی کفار مومنین کو دو گنا دیکھتے تھے ۔یہ کفار کے اذہان پر تصرف تھا جس کی وجہ سے کفار یہ سمجھتے تھے کہ مو منین کی تعداد ٦٢٦ ہے حالانکہ ان کی تعداد تین سو تیرہ سے زیادہ نہیں تھی ۔
اور بعض دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ :یَرَوْنَ کا فاعل کفار ہیں اور مِثْلَیْھِمْ کی ضمیر کفار کی طرف پلٹتی ہے۔ یعنی کفار مو منین کو دو گنا دیکھتے تھے ۔ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی اور مو منین کی تعداد تین سو تیرہ تھی لیکن کفار سو چتے تھے کہ مو منین دو ہزار افراد ہیں ۔یعنی کفار تعدا د کو دو گنا دیکھ رہے تھے مو منین کی تعداد کے دو گنا نہیں ۔
مر حوم علامہ طبا طبائی نے اس احتمال کی تا ئید فر ما ئی ہے کہ یَرَوْنَ کا فاعل کفار ہیں لیکن دو سری دونوں ضمیریں ''ھُمْ ''مو منین کی طرف پلٹتی ہیں یعنی کفار مو منین کو دو گنا دیکھتے تھے یعنی ٦٢٦ آدمی دیکھتے تھے ۔
بہر حال کچھ بھی ہو اس آیت سے ہما رے مقصد کو کو ئی ضرر نہیں پہنچتا ۔یعنی خدا وند عالم نے لوگو ں کے اذہان
..............
١۔سورئہ آل عمران آیت١٣۔
میں تصرف کیا کہ وہ ایک تعداد کو دو گنا دیکھیں اور یہ مو منین کی کا میابی میں مو ٔثر تھا :
(وَاِذْیُرِیْکُمُوْھُم اِذِالْتَقَیْتُمْ فِیْ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلاً وَیُقَلِّلُکُمْ فِیْ اَعْیُنِہِمْ لِیَقْضِیَ اللَّہُ اَمْراًکَانَ مَفعُوْلاً ۔۔۔)(١)
''اور جب خدا مقابلہ کے وقت تمہاری نظروں میںدشمنوں کو کم دکھلا رہا تھا اور ان کی نظر میں تمھیں کم کرکے دکھلا رہا تھا تا کہ اس امر کا فیصلہ کردے جو ہو نے والا تھا اور سارے امور کی بازگشت اﷲہی کی طرف ہے '' ۔
یہاں دو اعتراض در پیش ہیں :
جب طرفین ایک دو سرے کو کم دیکھیں تو اس سے تو کا میابی میں کو ئی فرق نہیں پڑتا ۔ اگر ایک طرف کے افراد دو سری طرف کے افراد کو زیادہ دیکھتے ہیں تویہ اس بات کا باعث ہو نا چا ہئے تھا کہ جس طرف زیادہ افراد دکھا ئی دیں وہ غلبہ حا صل کر لیں چو نکہ اس کا نفسیاتی اثر ہو تا ہے لیکن جب دونوں طرف کے افراد ایک دو سرے کو زیادہ دیکھیں تو دونوں کی نسبت ایک ہے لہٰذا کا میابی میں اس کا کو ئی اثر نہیں ہوگا ۔وہ ایک ہزار آدمی ہوں اور یہ ٣١٣ یا مثال کے طور پروہ ٥٠٠ افراد ہوں اور یہ ١٥٥ افرادہوں پھربھی دونوں کی نسبت ایک ہے۔
ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ کیسے جمع ہو سکتی ہے حالانکہ پہلی آیت میں خداوندعالم نے مو منین پر یہ احسان کیا کہ وہ ان کو دو گنا دیکھتے ہیں ۔یہاں پر بھی احسان کر رہا ہے کہ تم کو کم دیکھتے ہیں۔ان میں مو ٔثر کو نسا ہے ؟اور کس طرح ان کو جمع کیا جا سکتا ہے ؟
ان دو نوں آیات کو اس طرح جمع کیا جا سکتا ہے کہ کفا رمسلمانوں کو جوکم دیکھتے تھے اس میں ایک مصلحت ہے ،اور مو منین کفار کو کم دیکھتے تھے اس میں دوسری مصلحت ہے اور مومنین کو زیادہ دیکھنے میں تیسری مصلحت ہے ۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی وقت میں نہیں تھا ۔ایک مرتبہ کفار مو منین کو کم دیکھتے تھے اور دوسری مر تبہ زیادہ دیکھتے تھے ۔
لیکن یہ سوال کہ کم دیکھنا کس طرح مو منین کی کا میابی میں مؤثرہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر مو منین کفار کی تعداد کو اسی طرح دیکھتے جتنے کہ وہ تھے تو وہ ڈر جاتے اور جنگ کر نے کی ہمت نہ کر پا تے لہٰذا خدا وند عالم نے کفار کی تعداد مو منین کو کم دکھلا ئی تا کہ مو منین خوف نہ کریں ۔
اور کفار کے مو منین کی تعداد کو کم دیکھنے کی مصلحت یہ ہے کہ اگر وہ شروع ہی سے مو منین کی تعداد کو زیادہ دیکھتے
..............
١۔سورئہ انفال آیت٤٤۔
تو فرار کر جا تے اور جنگ ہی نہ ہو تی نتیجتاًجو حکمت اس جنگ کے واقع ہو نے اور مسلمانوں کی کامیابی میں مخفی تھی وہ سا منے نہ آتی ۔خدا وند عالم نے ابتداء میں ان کو مو منین کی تعداد کم دکھلائی تا کہ کفاریہ کہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہیںہم جلدہی ان کا خا تمہ کر ڈالیں گے ۔لیکن جب جنگ شروع ہو گئی اور بھا گنے کا کو ئی مو قع نہ رہ گیا تب انھوں نے مو منین کو اپنے سے دو گنادیکھا لہٰذااُن پر مو منین کا رعب طاری ہو گیا اور وہ شکست کھا گئے ۔
لہٰذا تینوں چیزیں صحیح ہیں اور خدا وند عالم کی طرف سے مو منین کے او پر یہ ایک طرح کی نعمت ہے ۔مو منین کو کم دیکھنے کی مصلحت یہ تھی کہ وہ جنگ کر نے کے لئے قدم بڑھا ئیں ۔'' لِیَقْضِی اللہُ اَمْراً کَانَ مَفْعُوْلاً ''۔
مو منین بھی ان کو کم دیکھتے تھے تا کہ پہلے ہی سے ہا ر نہ مان لیں اور اتفاق سے اسی آیت سے پہلے یہ بیان ہوا ہے کہ خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم ۖ کو خواب میں کفار کی تعداد کم دکھلا ئی ۔پیغمبر اکرم ۖ نے خواب میں دیکھا کہ آپ مشرکوں کے کچھ افراد کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں اور اس آیت کے ذیل میں فر ماتا ہے :( وَلَوْاَرَا کَھُمْ کَثِیْراً لَفَشِلْتُمْ )اگر خدا وند عالم خواب میں پیغمبر اکرم ۖ کو ان کی بہت زیادہ تعداد دکھلا دیتا اور پیغمبر اکرم ۖ اس ما جرے کو مو منین کے سا منے بیان فر مادیتے تو مو منین اپنے کمزور ہو نے کا احساس کر تے اور نتیجہ میں کفارسے شکست کھا جا تے ۔
خلاصہ :یہ آیات اس بات پر دلالت کر تی ہیں کہ مو منین اور کفار کے اذہان پر خداوند عالم کی طرف سے ایسا تصرف واقع ہوا جو مو منین کے نفع میں تھا ۔
''القاء رُعب ''اور'' نزول سکون و اطمینان''
خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے نفع اور کا میابی میں غیر معمولی طریقہ سے ''القا ء رعب'' کا مسئلہ واقع ہوا۔ یہ مسئلہ بھی کئی آیات اور کئی مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ روایات میں بھی بیان ہوا ہے کہ پیغمبراکرم ۖ کا رعب و دبدبہ تھا ۔جب مو منین کفار پر حملہ کر تے تھے تو ان کفار کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ جنگ میں مات کھا جاتے تھے ۔اس مطلب کو کئی آیات میں بیان کیا گیا ہے جن میں سے چند آیات ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں :
(سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الذَّیْنَ کَفَرُوْاالرُّعْبَ)(١)
'' ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں تمھارا رعب ڈال دیں گے ''۔
..............
١۔سورئہ آل عمران آیت١٥١۔
(سَاُ لْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الذَّیْنَ کَفَرُوْا الرُّعْبَ)(١)
''میں عنقریب کفار کے دلوں میں رعب پیدا کروں گا ''۔
مجمو عی طور پر قرآن کریم میں اس کا تذکرہ چا ر مقامات پر کیا گیا ہے کہ خدا وند عالم کفارکے دلوں میں خوف ایجاد کر تا تھا جو ان کی شکست کا باعث ہو تا تھا ۔
(وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوبِھِمُ الرُّعْبَ)(٢)
''اور ان کے دلوںمیں ایسا رعب ڈال دیا ''۔
اور اس کے با لمقابل مو منین کے دلوں میں ''سکینہ''سکون و اطمینان پیدا کردیتا تھا۔
(ثُمَّ اَنْزَلَ اللَّہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیٰ رَسُوْلِہِ وَعَلَیٰ الْمُؤْمِنِیْنَ)(٣)
''پھر اسکے بعد خدانے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا'' ۔
اور دو سری آیت:
(فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ)(٤)
''پھر خدانے اپنی طرف سے پیغمبر پرسکون نازل کردیا ''۔
یہ آیت پیغمبر اکرم ۖ کے سلسلہ میں ہے ۔البتہ یہ پیغمبر اکرم ۖ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے متعلق ہے کہ جب آپ نے'' غار ثور'' میں قیام فر مایاتھا ۔
دوسری آیات :
(ھُوَالَّذِیْ أَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُومِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْا اِیْمَاناًمَعَ اِیْمَانِھِمْ)(٥)
''وہی خدا ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا ہے تاکہ ان کے ایمان میںمزید اضافہ ہوجائے ''۔
..............
١۔سورئہ انفال آیت١٢۔
٢۔سورئہ احزاب آیت٢٦،سورئہ حشر آیت٢۔
٣۔سورئہ توبہ آیت٢٦۔
٤۔سورئہ توبہ آیت٤٠۔
٥۔سورئہ فتح آیت٤۔
(فَأَ نْزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْہِمْ وَاَثَٰبَہُمْ فَتْحاً قَرِیْباً)(١)
''تو اس نے ان پر سکون و اطمینان اتار دیا اور انھیں قریبی فتح عنایت کردی ''۔
(فَأَ نْزَلَ اللَّہُ سَکِیْنَتَةُ عَلَیٰ رَسُوْلِہِ وَعَلیَ الْمُؤْمِنِیْنَ)(٢)
''تو اﷲنے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کردیا ''۔
ان مقا مات پر ''انزال سکینہ ''کے بعد دوسری بات بیان فر ماتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا وند عالم آسمان سے فوج بھیجتا تھا کہ لوگ دیکھنے نہ پا ئیں اور وہ فوج مو منین کی مدد کرے :
(وَاَنْزَلَ جُنُوْداً لَّمْ تَرَوْھَا)(٣)
''اور وہ لشکر بھیجے جنھیں تم نے نہیں دیکھا ''۔
دو سری آیت :
(وَاَیَّدَہُ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا)(٤)
''اور ان کی تائید ان لشکروں سے کردی جنھیں تم نہ دیکھ سکے ''۔
پس ایک کرامت جس کے ذریعہ سے خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم ۖاور مو منین کی مدد فرمائی وہ غیبی لشکرہیںکہ خو د مو منین بھی اس کو دیکھ نہیں پا تے تھے لیکن وہ مو منین کی کامیابی میں مو ٔثر کردار ادا کر تا بعض آیات میں جنود(بہت سے لشکروں )کے علاوہ (ریح)(یعنی ہوا )کا بھی ذکر ہوا ہے۔ یعنی خدا وندعالم نے ہوا(آندھی) بھیجی جو مسلمانوں کی کا میابی اور کفار کی شکست کا سبب بنی:
(اِذْجَائَ تْکُمْ جُنُود فَأَرْسَلْنَاعَلَیْہِمْ رِیْحاًوَجُنُوداً لَّمْ تَرَوْھَا)(٥)
''جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا ''۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ جنود کون افراد تھے ؟احتمالی طور پر وہ ملائکہ (فرشتے ) ہی تھے ۔بعض آیات میں صاف
..............
١۔سورئہ فتح آیت١٨۔
٢۔سورئہ فتح آیت٢٦۔
٣۔سورئہ توبہ آیت٢٦۔
٤۔سورئہ توبہ آیت٤٠۔
٥۔سورئہ احزاب آیت٩۔
صاف یہ بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم نے ملائکہ کو بھیجا ،لیکن ان کے دیکھنے یا نہ دیکھنے کا ذکر نہیںہوا ہے :
(وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللَّہُ بِبَدْرٍوَاَنْتُمْ أَذِ لَّة فَاتَّقُوْااللَّہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ) (١)
''اور اﷲنے بدر میں تمہاری مدد کی ہے جب کہ تم کمزور تھے لہٰذا اﷲسے ڈرو شاید تم شکر گذار بن جائو ''۔
رہا مسئلہ یہ کہ خدا وند عالم نے اس آیت میں مومنین کو ذلیل سے کیوں تعبیر کیا حالانکہ خود اس کا فرمان ہے : (اَلْعِزَّةُ للَّہِ وَلِلْمُوْمِنِیْنَ )''عزت اللہ اور مو منین کے لئے ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر ذلت کفار کے مقابلہ میں یاتو مو منین کی ظا ہری حالت کی مناسبت سے ہے کہ مو منین کی تعداد بہت کم تھی اور جنگی ساز و سامان بھی بہت کم تھا چھ عدد زرہیں اور چند تلواروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔ حالانکہ کفار ہر طرح سے مسلح تھے یا یہ کہ اگر خدا وند عالم کی عطا کردہ عزت نہ ہو توانسان بذات خود ذلیل ہے یعنی بذات خود تم ذلیل تھے اگر خدا وند عالم تم کو عزت نہ دیتا جیسا کہ خدا وند عالم اپنے پیغمبر اکرم ۖسے فرماتا ہے : (وَوَجَدَ کَ ضَالّاًفَھَدی)ٰ ''اور کیا تم کو گم گشتہ پا کر منزل تک نہیں پہنچایا ہے '' اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی موجود کی بذات خود کو ئی عزت نہیں ہے یہ خدا ہے جس نے تم کو با عزت بنا یاہے ۔اور تم کو یہ یا د دلاتا ہے کہ تم بذات خود کوئی عزت نہیں رکھتے ہو ۔خدا نے تم کو عزت عطا کی ہے بہرحال وہ یہ فر ماتا ہے کہ تم جنگ بدر میں ذلیل تھے اور خداوند عالم نے تمہا ری مدد فرمائی (فَاتَّقُوْااللَّہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )
اس کے بعد فر ماتا ہے :
(اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُوْ مِنِیْنَ اَلَنْ یَکْفِیَکُمْ أَنْ یُمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَةِ ئَ الَافٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ مُنْزَلِیْنَ )(٢)
''اس وقت جب آپ مومنین سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیںہے کہ خدا تین ہزار فرشتوں کو نازل کرکے تمہاری مدد کرے ''
مو منین اپنے دلوں میں کمزوری کا احساس کر تے تھے اور کبھی کبھی اس کو اپنی زبان سے بھی بیان کیا کر تے تھے کہ ہم اتنے کم افراد اور وہ اُتنے زیادہ کفار وہ بھی پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ ہم ان کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں ؟
اس کے بعد خدا دو بنیادی چیزوں یعنی صبر اور تقویٰ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فر ماتا ہے:
..............
١۔سورئہ آ ل عمران آیت١٢٣۔
٢۔سورئہ آل عمران آیت١٢٤۔
(بَلَیٰ اِنْ تَصْبِرُوْاوَتَتَّقُوْاوَیَأَتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھَٰذَایُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَةِ ئَ الَافٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ مُسَوِّمِیْنَ)(١)
''یقینا اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے اور دشمن فی الفور تم تک آجائیں گے تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جن پر بہادری کے نشان لگے ہوں گے ''۔
اس آیت میںیہ وعدہ کیا گیا ہے کہ خدا وند عالم ملائکہ (فرشتوں )کو تمہا ری مدد کے لئے بھیجے گا لیکن کیا خداوند عالم نے بھیجا یا نہیں ؟
(اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاْسَتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍِ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ مُرْدِفِیْنَ)(٢)
''جب تم پروردگار سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں ایک ہزار ملائکہ سے تمہاری مدد کررہاہوں جو برابر ایک کے پیچھے ایک آرہے ہیں ''۔
جنگ بدر میں پیغمبر اکرم ۖ اور مو منین نے اپنے ہا تھو ں کو خداوندعالم کی بارگاہ میں بلند کر کے دعا کی اور اس سے مدد کی درخواست کی اور خدا نے بھی ان کی دعا کو مستجاب فر مایا ۔استجابت دعا بھی یہی تھی کہ خدا وندعالم نے فرمایا میں ایک ہزار فر شتوں کو تمہا ری مدد کے لئے نا زل کر وں گا ۔
اب یہ سوال در پیش ہے کہ اس آیت میں پیغمبر اکرم ۖ نے وعدہ کیا تھا کہ تین ہزار فرشتے اور اس کے بعد خدا وند عالم نے بھی فر مایا تھا اگر صبر اور تقویٰ سے کام لیا تو پا نچ ہزار فرشتے بھیجوں گا لیکن اس آیت میں فر ماتا ہے کہ ہم نے ایک ہزار فرشتے بھیجے ؟
جواب یہ ہے کہ یہ ہزار فرشتے مقد مہ تھے ،اس بات کا شاہد یہ ہے کہ خداوندعالم فرماتا ہے (مُرْدِفِیْنَ) مردف اس مقام پر استعمال ہو تا ہے کہ جب کوئی آگے آگے چلتا ہو اور دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آرہا ہو ۔ ابتداء میں یہ ایک ہزار فرشتے نا زل ہو ئے اور اپنے بعد دو ہزار فرشتوں کو لا نے والے تھے ۔پس وہی تین ہزار فرشتے نا زل ہو ئے۔
اب ان ملائکہ نے نا زل ہو کر کیا کیا ؟
(اِذْیُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰئِکَةِ أَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوْا الَّذِیْنَ آمَنُوْا)(٣)
..............
١۔سورئہ آل عمران آیت١٢٥۔
٢۔سورئہ انفال آیت٩۔
٣۔سورئہ انفال آیت١٢۔
''جب تمہارا پروردگار ملائکہ کو وحی کررہا تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں لہٰذا تم صاحبان ایمان کو ثبات قدم عطا کرو ''۔
ملائکہ نے جنگ بدر میں نا زل ہو کر کیا کردار ادا کیا ،کیا انھوں نے جنگ کی یا کو ئی دو سرا کردار ادا کیا ؟ روایات میں وارد ہوا ہے کہ جنگ بدر میں نا زل ہو نے والے فرشتوں نے کسی شخص کو قتل نہیں کیا ۔جنگ بدر میں اکثر مقتولین کو حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے اصحاب نے قتل کیا تھا، ملائکہ کا کام فقط مو منین کی روحی اور معنوی طاقت کو تقویت دینا تھا ۔اس آیت میں بھی فر مایا گیا ہے کہ خدا وند عالم نے ان پر وحی کی کہ میں تمہا رے ساتھ ہوں تم مومنین کو ثابت قدم رکھنا ،ان کے اندر اطمینان و سکون پیداکر نا ۔اس کے بعد اسی آیت میں فر ماتا ہے:
(فَاضْرِبُوافَوْقَ الْاَعنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ )(١)
''لہٰذا تم کفار کی گردن کو مار دو اور ان کی تمام انگلیوں کو پور پور کاٹ دو ''۔
ان دو جملوں کے سلسلہ میں مفسرین کے ما بین اختلاف ہے کہ یہ خطاب کس سے ہے ؟کیا یہ خطاب ملائکہ سے ہے یا مو منین سے ؟
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ خطاب ملائکہ سے ہے اور ان کو جنگ کر نے کا حکم دیا گیا ہے ۔یہ وجہ روایات کے مد نظر اور آیۂ شریفہ کے پہلے جملہ سے ساز گا ر نہیں ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں ملا ئکہ سے خطاب ہے لیکن (اضْرِبُوْافَوْ قَ الْاَعْنَاقِ ۔۔۔)سے مراد سریا ہا تھ یا پیروں کا قطع کر نا نہیں ہے بلکہ ان کا کمزور کر نا مراد ہے ، یعنی فرشتوں نے دو کر دار اداکئے ہیں :ایک یہ کہ مو منین کو تقویت پہنچائیں اور دو سرے یہ کہ دشمنوں کو کمزور کریں ان کے سر پر ما ریںیعنی ان کو ذلیل کریں ، ان کی روحا نی طاقت کو کمزور کریں ،ان کے ہاتھوں پر ضرب لگائیں تاکہ ان کے ہاتھ سست ہو جا ئیں نہ یہ کہ ان کے ہاتھ کٹ جا ئیں ۔
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آخری جملہ میں مو منین سے خطاب کیا گیا ہے ۔اب جبکہ ہم نے تمہاری مدد کے لئے ملائکہ کو بھیج دیا ہے تو تم اپنی ہمت با ندھے رکھنا اور ان کو نیست ونا بود کر دینا ۔
اس آیت سے متعلق ان تینوں وجہو ں کو بیان کیا گیا ہے اور ممکن ہے دوسری وجہ سب سے بہتر ہو اس لئے کہ( خیرالاموراوسطہا)ہے۔یہ وہ تمام آیات تھیں جو اس بات پر دلالت کر تی ہیں کہ خدا وند عالم کی غیبی طاقت اکثر جنگوں میں مو منین کے شامل حال رہی ہے۔
..............
١۔سورئہ انفال آیت١٢۔
لیکن پیغمبر اکرم ۖ کرامات و معجزات کے سلسلہ میں شیعہ اور اہلسنت سے متعدد روایات نقل ہو ئی ہیںاور چو نکہ ہما ری بحث قر آن سے متعلق ہے لہٰذا ہم ان کو بیان کر نے سے قاصر ہیں لیکن بہت زیادہ متواتر حدیثوں میںہے کہ پیغمبر اکرم ۖسے اتنے زیادہ معجزات ظاہر ہو ئے ہیں کہ ان کا شمار کر نا بہت مشکل کام ہے ۔ کبھی کبھی ایسا اتفاق ہو تا تھا کہ آپ سے ایک ہی دن میں متعددمعجزاتی باتیں ظاہر ہو تی تھیں ۔ان میں سے بعض کفار کی خوا ہش کی وجہ سے اور اپنی نبوت کے اثبات کے لئے ہوا کر تی تھیں ،جبکہ بہت سی دوسری چیزیں اپنی نبوت کے اثبات کے لئے نہیں ہو تی تھیں۔مثال کے طور پر پیغمبر اکرم ۖ جب بیابان میں خیمہ کے اندر تشریف لاتے تھے اور وہاں پر کو ئی بکری ہو تی تھی تو آپ اپنا دست مبارک اس پر رکھ دیتے تھے تو وہ فربہ ہو جا تی تھی اور دودھ دینے لگتی تھی ۔اگر بیمار ہو تی تو شفا پا جا تی تھی وغیرہ وغیرہ اس طرح اور بہت سی مثالیں موجودہیں ۔
کثیر احا دیث میں نقل ہوا ہے کہ کفار پیغمبر اکرم ۖ سے کہا کر تے تھے کہ اگر آپ نے فلاںکام انجام دیدیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔مشہور و معروف واقعہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ اگر آپ سچ فر ما تے ہیں کہ میں خدا کا نبی ہوں تو وسط بیا بان میں کھڑے اس درخت سے کہئے کہ وہ آگے بڑھ کر آئے اور آپ کی رسالت کی گو اہی دے یا یہ سنگریزے آ پ کے دست مبارک میں آکرکلام کریں آنحضرت ۖ نے ان سنگریزوں کو اپنے دست مبارک میں اٹھا یا تو وہ سنگر یزے تسبیح الٰہی کر نے میں مشغول ہو گئے اور اسی طرح کی بہت سی چیزیں بے شمار روایات میں ذکر ہو ئی ہیں۔
|