راہ اور رہنما کی پہچان
 

دائمی اعجاز
یہ بیا ن کیا جا چکا ہے کہ اگر انبیاء علیہم السلام کی نبوت کا اثبات معجزہ پر مو قو ف ہو تو حکمت الہٰی تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان کو معجزہ عطا کر دے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖکے با رے میں اس کی کیا صورت ہے قر آ ن کریم فر ماتا ہے کہ گذشتہ انبیا ء علیہم السلام نے پیغمبر اسلا م ۖکے ظہو ر کی بشارت دی تھی یہا ں تک کہ اہل کتاب پہلے سے آپ کے ظہو ر کے منتظر تھے۔اس بنا ء پر ان کے لئے آنحضرت کی نبو ت ثابت تھی اور اتنے واضح وآشکار قرینے اور نشانیاں مو جود تھیں کہ آنحضرت کی نبوت میں کسی شک وشبہ کی کو ئی گنجائش نہیں تھی ۔ جہاں تک دوسرے لو گو ں کا سوال ہے تو جو بشا رتیں انھیں دی گئیں تھیں اور جن کو وہ بیان کیا کرتے تھے (اور بعد میں متحقق ہو ئیں ) ان کی وجہ سے ان پر بھی حجت تمام ہو چکی تھی لیکن چو نکہ پیغمبر اسلام ۖکسی ایک سر زمین اور کسی ایک زمانہ کے لئے مبعوث نہیں کئے گئے تھے بلکہ جب تک انسان اس رو ئے زمین پر زندہ ہیں اور زندگی بسر کر تے ر ہیں گے ان کو پیغمبر اسلامۖ کا اتباع کر نا ہے ایسی صورت میں حکمت الہٰی کا یہ تقا ضا ہے کہ آنحضرت ۖ کو ایساجا ودانہ معجزہ عطا کرے جو کسی خاص زمان اور مکان سے مخصوص نہ ہو۔ چو نکہ تمام انبیا ء علیہم السلام کے معجزات صرف اپنے زما نہ والو ں کے لئے جو ان سے ملا قات کر تے تھے ثابت ہو نا کا فی تھا اور اس کے بعد غا ئبین کے لئے حا ضرین کے نقل کر دینے سے ثابت تھا لیکن یہ طریقہ ہمیشہ کے لئے بہت زیا دہ مفید نہ تھا ۔ یعنی اگر صرف دو سروں کے نقل کر نے پر اکتفاء کر لی جاتی تو ہزا روں سال کی مدت میں یہ محض نقل کر نے کا طریقہ آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ۔لہٰذا کو ئی ایسا (دائمی معجزہ ) ہو نا چا ہئے تھا کہ جس کے ذریعہ لوگ ہمیشہ پیغمبر اسلام ۖ کی نبوت کو پہچان سکیں ۔ اسی وجہ سے خداوندعالم نے پیغمبر اسلام ۖ پر ایسی کتاب نازل فر مائی جو بذات خود بڑا ہی عظیم اور جا ودانہ معجزہ ہے۔

اہل کتاب کے نزدیک پیغمبر اسلام ۖ کی نشانیاں
(اَلَّذِیْنَ آتَیْنَا ھُمُ الْکِتَا بَ یَعْرِفُوْ نَہُ کَمَا یَعْرِ فُوْنَ اَبْنَا ئَ ھُمْ ) (١)
''اہل کتاب جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (اسی طرح )وہ اس (پیغمبر حضرت محمد)کو بھی پہچانتے ہیں''۔
جس ما حول میں یہ آیت نازل ہو ئی اس کی تحقیق کریں توحقائق کے سمجھنے میں بہت مدد ملے گی خدا وند عالم نے اہل کتاب کے با رے میں پیغمبر اسلام ۖسے اس دشمنی کے با وجود جو ان میں سے بعض آپ کے ساتھ رکھتے تھے صاف طور پر فر مایا ہے:
(ےَعْرِفُوْنَہُ کَمَا یَعْرِفُوْ نَ اَبْنَا ئَ ھُمْ )
''وہ آپ کو اپنے بچوں کی طرح پہچانتے تھے''۔
اگر اس مسئلہ میں کو ئی شک و شبہ ہو تا تو وہ اتنا پرو پگنڈہ کر تے کہ جس کا تصور نہیں، ایسا نہیں ہے ہم اس پیغمبر کو نہیں پہچانتے ،ہماری کتا بوں میں ان کے بارے میںکچھ بیان نہیں ہوا ہے لیکن قر آن کریم نے دو مرتبہ صاف طور پر کہا ہے کہ کہ وہ اپنے بچو ں کی طرح اِس پیغمبر کو پہچانتے ہیں اور ان کے پاس کہنے کو اس کا کو ئی جواب بھی نہیں تھا ۔
( وکَانُوامِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِ یْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّاجَائَ ھُمْ مَاعَرَفُوْا کَفَرُوْابِہِ فَلَعْنَةُ اللَّہِ عَلَی الکَافِرِیْنَ )(٢)
''اہل کتاب با وجودیکہ پہلے (آنحضرت کے ظہور کے ذریعے )کافروںپر فتحیاب ہونے کی دعائیں مانگتے تھے پھر بھی ان کے آنے اور پہچان لینے کے بعد بھی انھوں نے انکار کیا (اور ایمان نہیں لائے)پس کافر وں پر خداکی لعنت ہے ''۔
پیغمبر اسلام ۖکے مبعوث ہونے سے پہلے اہل کتاب مشرکوں کے ساتھ گفتگو کے وقت یہ بشارت دیا کرتے تھے کہ تمہارے درمیان سے ایک پیغمبر مبعوث ہونے والا ہے جو ہماری تصدیق کرے گا اس وقت تم لوگ سمجھو گے کہ ہمارا دین حق ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور اس سے ہماری عزت وآبرو بڑھے گی کہ ہمارا دین باطل نہیں تھا یہی لوگ جو مشرکوں سے اس طرح کی گفتگو کیا کرتے تھے جب پیغمبر اسلام ۖ مبعوث ہوئے تو آپ کو
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت ١٤٦ و سورئہ انعام آیت ٢٠۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت ٨٩ ۔
پہچا ننے کے باوجود آپ کے منکر ہوگئے پس کافروں پر خدا لعنت کرے۔
قرآن کلی طور پر فرماتا ہے کہ تورات میں اور انجیل میں بھی اس پیغمبر کے مبعوث ہونے کی بشارت دی گئی تھی :
(اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْباًعِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِیْلِ )(١)
''یعنی جو لوگ ہمارے اس رسول سے نبی امّی کے قدم بہ قدم چلتے ہیں کہ جن کا نام انھوں نے اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا دیکھا ہے''۔
مندرجہ بالا آیت میں اہل کتاب کے مومنین کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ اسی پیغمبر کا اتباع کرتے ہیں کہ جس کی بشارت انھوں نے اپنے ہاں توریت وانجیل میں لکھی ہوئی دیکھی ہے۔
پس قرآن ہم کو یہ سمجھا تا ہے کہ پیغمبر اسلا م ۖکے ظہور کی بشارت تورات اور انجیل میں پہلے سے دیدی گئی تھی اور خاص طور سے حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبانی نقل فرماتا ہے کہ انھوں نے پیغمبر اسلام (حضرت محمد مصطفی ۖکے ظہور کی بشارت دی تھی اور آپ کا نام (احمد)پہلے سے بتایا تھا:
(وَمُبَشِّراًبِرَسُوْلٍ یَاْ تِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہُ اَحْمَدُ )(٢)
''اور ایک پیغمبر جن کا نام احمد ہو گا اور میرے بعد آئینگے ان کی خو شخبری سناتا ہوں ''۔
(اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْارَسُوْلَھُمْ فَھُمْ لَہُ مُنْکِرُوْنَ )(٣)
''آیا یہ اپنے رسول کو نہیں پہچانتے جو اس کا انکار کر بیٹھے ہیں ''۔
معلوم ہو ا اہل کتاب پیغمبر اسلا م ۖسے مکمل طور پر آشنا تھے اور وہ جانتے تھے کہ یہ وہی پیغمبر ہے کہ جس کے ظہور کی بشارت گذ شتہ انبیاء علیہم السلام نے دی تھی پس قرآن کی رو سے اہل کتاب پر حجت تمام ہو چکی تھی لیکن دوسرو ں کی کیا کیفیت ہے ؟یہ بشا رتیں جو اہل کتاب دیا کر تے تھے اور بعض لوگ اس کی تصدیق بھی کیا کر تے تھے اس سے دو سرو ں کے لئے بھی حجت تمام کر دی تھی یعنی جب کچھ لو گو ں نے آکر یہ خبر دی کہ فلا ں زمانہ میں فلاں قبیلہ سے ایک شخص ان خصو صیات کے ساتھ مبعوث ہو گاتو اس وعدہ کا متحقّق ہونا اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ گزشتہ کتا بیںبھی سچی تھیں کہ جن میں سے اس طرح کی خو شخبریاں درج ہیں اور یہ پیغمبر بھی اپنی رسالت کے دعوے میں سچا ہے لہٰذا اہل کتاب جو بشارتیں لو گو ں کے سا منے بیان کر تے تھے اور بعد میں بعض لو گو ں نے بھی اس کی تصدیق کر دی
..............
١۔سورئہ اعراف آیت ١٥٧ ۔
٢۔سورئہ صف آیت ٦۔
٣۔سورئہ مومنون آیت ٦٩ ۔
تھی اس کے سبب دو سرے لو گو ں کے لئے بھی حجت تمام ہو جاتی ہے اس سلسلہ میں قرآن کریم فر ماتا ہے:
(وَشَھِدَ شَاھِد مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلَٰی مِثْلِہِ فَآ مَنَ )(١)
''بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ (شاید ان کے عالم عبد اﷲ سلام کی طرف اشارہ ہے ) گوا ہی بھی دے چکا اور ایمان بھی لے آیا کہ یہ وہی پیغمبر ہے کہ جس کی ہم بشارت دیا کر تے تھے ''۔
ایک اور آیت شریفہ میں ارشاد ہو تا ہے:
( اَوَلَمْ یَکُنْ لَھُمْ آیَةً اَنْ یَعْلَمَہُ عُلَمَآئُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ) (٢)
''کیا ان کے لئے یہ نشانی کا فی نہیں ہے کہ علمائے بنی اسرائیل اس طرح کے نبی کی بعثت سے با خبر ہیں ''۔
معلوم ہو ا گذشتہ کتا بو ں کی بشا رتیں صرف اہل کتاب کے لئے ہی حجت نہیں تھیں بلکہ وہ تمام معا صرین جو ان خو شخبریو ں سے آگاہ تھے اور جنھو ں نے وہ نشانیا ں پیغمبر میں دیکھ لی تھیں ان کے لئے بھی حجت تمام ہو گئی تھی ۔

چیلنج، قر آن کے معجزہ ہو نے کا ثبوت
قا رئین کرام جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں چو نکہ پیغمبر اسلام ۖ کی رسالت ابدی اور عالم گیر ہے آپ کا معجزہ بھی عالم گیر ہو نا چا ہئے اسی بناء پر قر آن خود معجزہ کی صورت میں نا زل ہوا۔
قر آن کریم میں بہت سے مقا مات پر یہ دعویٰ موجو د ہے کہ یہ کتاب معجزہ ہے اور کو ئی شخص قرآن کا مثل نہیں لا سکتا ۔ہم یہا ں پر اس مو ضوع سے متعلق آیات مختصر طور پر عرض کر تے ہیں :
پیغمبر اسلام ۖنے متعدد مقامات پر خد ا وند متعال کی طرف سے لو گو ں کو یہ دعوت دی ہے کہ اگر تم لوگوں کو اس کتاب یا میری رسالت میں شک ہے تو تم بھی اس کے مثل کتاب لے آئو۔اتفاق سے بعض لو گ اس طرح کی باتیں کیا کر تے تھے کہ اگر ہم چا ہیں تو اس طرح کی کتاب لا سکتے ہیں قر آ ن کریم ان کے دعوے کو اس طرح نقل کر تا ہے :
(وَاِذَاتُتْلَیٰ عَلَیْھِمْ اٰیاَتُنَاْقَالُوْاقَدْ سَمِعْنَاَلَوْنَشَآئُ لَقُلْنَاْمِثْلَ ھَٰذَآاِنْ ھَٰذَآاِلَّااَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ )(٣)
''اور جب ان کے سا منے ہماری آیتیں پڑھی جا تی ہیں تو بول اٹھتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اگر چا ہیں تو اس
..............
١۔سورئہ احقاف آیت ١٠ ۔
٢۔سورئہ شعراء آیت ١٩٧ ۔
٣۔سورئہ انفال آیت ٣١ ۔
طرح کی باتیں ہم بھی کہہ سکتے ہیں یہ پچھلے لو گو ں کے افسانوں کے سوا ء اور کچھ نہیں ہے ''۔
مقابلہ کی اس دعوت کو چیلنج کہتے ہیں یہ چیلنج قرآن میں کئی طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ایک یہ کہ اس قر آن کے مثل لے آئو اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کے جیسی کو ئی کتاب یا اس قر آ ن کے سو روں کے مجموعہ جیسا کو ئی مجموعہ لے آئو قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :
(قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَیٰ اَنْ یَاْتُوابِمِثْلِ ھَٰذَاالْقُرْآنِ لاَ یَأْتُوْنَ بِمِثْلِہِ وَلَوْکَاْنَ بَعْضُھُمٍ لِبَعْضٍ ظَھِیْراً)(١)
''اے رسول )کہہ دیجئے کہ اگر دنیا کے تمام آدمی اور جن اکٹھا ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں گے تو اس کے جیسا نہیں لا سکتے اگر چہ (اس کو شش میں ایک دو سرے کی مدد بھی کریں''۔
اور قر آ ن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:
(فَلْیاْتُوْابِحَدِیْثٍ مِثْلِہِ اِنْ کَانُوْاصَادِقِیْنَ )(٢)
''اگر یہ لو گ سچے ہیں تو ایسا ہی کو ئی کلام بنا لا ئیں ''۔
پس ان دو آیتو ں میں یہ چیلینج کیا گیا ہے کہ اس قر آن کی مانند کو ئی کتاب اور کو ئی کلام اگر لا سکیں تو لے آئیں اور بہ ظاہر مجموعۂ قر آن کا جواب مطلوب ہے لیکن بعض آیات میں پو رے قرآن کی بھی بات نہیں ہے ۔جیسا کہ ایک مقام پر دس سو روں کا اور ایک مقام پر صرف ایک سورہ کا جواب لا نے کا چیلنج کیا گیا ہے جو ظا ہراً قر آن کے چھو ٹے سوروں پر بھی صادق آتا ہے۔یعنی اگر قر آن کے کسی چھو ٹے سورہ کے مثل ایک سطر بھی لے آ تے تو اس آیت کے مطابق پیغمبر اس کو قبو ل کر لیتے اور یہ اس چیز کی نشانی ہو تی کہ یہ کتا ب خدا وند عالم کی کتاب نہیں ہے۔ معلوم ہو ا قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر تمام انسان جمع ہوجائیں تو وہ بھی قرآن کے ایک سطر کے برابر کسی چھوٹے سے سور ہ کا جواب نہیںلاسکتے :
(اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُوْابِعشْرِسُوَرٍمِثْلِہِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوْامَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللَّہِ اِنْ کُنْتُمْ صَٰادِقِیْنَ)(٣)
..............
١۔سو رئہ اسراء آیت ٨٨۔
٢۔سورئہ طورآیت٣٤۔
٣۔سورئہ ہودآیت ١٣۔
''یا یہ لوگ کہتے ہیں یہ شخص اپنی طرف سے گڑھ لیتا ہے اور جھوٹ موٹ اسے خدا کی طرف منصوب کردیتاہے تو آپ ان سے صاف صاف کہدیں کہ اگر تم (اپنے دعوے میں )سچّے ہوتو (زیادہ نہیں )ایسے دس سورہ اپنی طرف سے گڑھ کے لے آئو خدا کے سوا جس جس کو تمھیں بلاتے بن پڑے مدد کے واسطے بلالو ''۔
کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو آپ نے خود گڑھ لیا ہے۔تو ان سے کہدیجئے کہ تم بھی اس قرآن کے دس سوروں کے مثل گڑھ کر لے آئو اور جس کو تم چاہو اپنی مدد کے لئے بھی بلاسکتے ہو۔
نہ صرف یہ کہ تم اس کے مثل نہیں لا سکتے بلکہ دوسروں کی مدد کے ذریعہ بھی چاہے جس کسی کو بھی بلالو ایسا نہیں کر سکتے۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
(فَالَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ فَاعْلَمُوْااَنَّمَآ اُ نْزِلَ بِعِلْمِ اﷲِ ۔۔۔)( ١)
''پس اگر وہ قبول نہ کریں تو سمجھ لیجئے کہ یہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور صرف خدا کے علم کی بنیاد پر نازل کیا گیا ہے ''۔
یعنی مقابلے اور چیلنج کی فضا اس قدر آمادہ وتیار ہے کہ اس پر کوئی بھی عاقل انسان اگر غور کرے تو اسے یہ یقین ہوجائیگا کہ یہ کتاب خداوند عالم کی کتاب ہے ۔
کلام عربی زبان میں (بلسانٍ عربی مبین )صاف عربی زبان میں ہے اور انھیں حروف سے ملکر بنی ہے جس میں تمام لوگ باتیں کیا کرتے ہیں ان ہی الفاظ سے بنی جن کا لوگ اپنے محاوروں میںاستعمال کرتے ہیں ، مفردات وہی مفردات ہیں ترکیب نحوی کے لحاظ سے وہی مبتدا خبر، فاعل اور مفعول ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کوئی شخص قرآن کے دس سورں کے مثال نہیں لا سکتا اور چیلنج کا جواب دینے کیلئے بھی بہت سے تقاضے مو جو د ہیں یہ دیکھتے ہوئے کہ کفّارو مشرکین نے پیغمبر اسلام ۖ کی تبلیغ کے اثر کو ختم کر نے کیلئے اپنی تمام طاقتوں کو صرف کر ڈالا تھا اگر ایک ایک سطر کے دس سورے لکھنا ان کے لئے ممکن ہوتا تو یقین ہے وہ ضرور ایسا کرتے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو یہ بتاتا ہے کہ ایک عام انسان کا کام نہیں ہے قرآن نے ایک دوسری آیت میں مقابلے کی شرط کو اور ہلکا کردیا ہے ارشاد ہو تا ہے:
(اَ مْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ قُلْ فَأْ تُوْابِعشرسُوَرٍ مِثْلِہِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صَاْدِقِیْنَ )(٢)
..............
١۔سو رئہ ہودآیت ١٤۔
٢۔سورئہ ہود آیت ١٣۔
''کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص جھو ٹ ہی (قرآن کی ) خدا کی طرف نسبت دیتا ہے تو آپ (ان سے صاف صاف ) کہہ دیجئے کہ اگر تم (اپنے دعوے میں )سچے ہو تو (زیادہ نہیں )صرف ایک سورہ اپنی طرف سے بناکے لے آئو اور خدا کے سوا جس کسی کو تم سے بلا تے بن پڑے مدد کے واسطے بھی بلا لو ''
ہم دس سوروں سے صرف نظر کرتے ہیں صرف ایک سورہ کا جواب لے آئو اور یہ ایک سورہ بھی صرف ایک انسان نہیں بلکہ جس کو بھی تم چاہو اپنی مدد کے لئے بلالو اپنی تمام طاقتوں اور افکار کو جمع کرلو اور قرآن کے جیسی ایک سطر بنا کے لے آئو ۔
اور رہا یہ مسئلہ کہ بعض آیات میں دس سوروں اور بعض آیات میں صرف سورہ کا چیلنج کیوں کیا گیا ہے ،تو اس بارے میںعام طور پر مفسّر ین قرآن یہ کہتے ہیں کہ یہ درجہ بدرجہ چیلنج ہے ۔
یعنی پہلے یہ چیلنج کیا گیا کہ پورے قرآن کا جواب لے آئو اس کے بعد فرمایا کیا اگر پورے قرآن کا جواب نہیں لاسکتے تو دس سوروں کا جواب لے آئو اس کے بعد فرمایا اگر دس سوروں کا مثل بھی نہیں لا سکتے ہوتو ایک سورہ کا ہی مثل لے آئو اور یہ مد مقابل کی عاجزی کو ثابت کرنے کا زیاد بلیغ اور بہتر طریقہ ہے ۔
لیکن یہ بات اس صورت میں صحیح ہو سکتی ہے کہ آیتیں بھی اسی ترتیب سے نازل ہوئی ہوں یعنی پہلے وہ آیات نازل ہوئی ہوں کہ جن میں پورے قرآن کے جواب کا چیلنج ہو ،اس کے بعد وہ آیت نازل ہوئی ہو جس میں دس سوروں کا مثل لانے کا چیلنج کیا گیا ہو اور اس کے بعدوہ آیت نازل ہوئی ہو جس میں ایک سورہ کا مثل لانے کا چیلنج ہولیکن قرآنی سوروں کے نازل ہونے سے متعلق روایات کے ساتھ یہ بات میل نہیں کھاتی ۔کیونکہ دس سوروں کا مثل لانے کا چیلنج سورئہ ہود میں ہے اور ایک سورہ کا مثل لانے کا چیلنج سورہ یونس وسورہ بقرہ میں ہے اور عام طور پر جن لوگوں نے قرآن کے سوروں کے نازل ہونے کی ترتیب بیان کی ہے وہ سورئہ یونس کا سورئہ ہود سے پہلے نازل ہونا بیان کرتے ہیں اگر چہ ایک قول یہ بھی ہے کہ سورئہ ہود سورئہ یونس سے پہلے نازل ہوا ہے لیکن زیادہ تر اقوال میں سورئہ یونس کا پہلے نازل ہونا بیان ہوا ہے۔اس بناء پر مشہور روایات کے مطابق درجہ بدرجہ چیلنج میں شدّت کا نظریہ سوروں کے نازل ہونے کی ترتیب کے ساتھ میل نہیں کھاتا اب یا تو ہم غیر مشہور روایت کے قول کو قبول کریں یا پھر کوئی اور وجہ بیان ہونی چاہئے۔
صاحب المیزان علّا مہ طبا طبائی نے اس کی ایک دوسری وجہ بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے :
ایک سورہ کا جواب لانے کا چیلنج ایک جہت سے ہے اور دس سوروں کا جواب لانے کا چیلنج دوسری جہت سے ہے ۔پورا قرآن بلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہے اس کے ایک سورہ یا کئی سوروں کے ما بین کوئی فرق نہیں ہے ۔ لہٰذا اگر قرآن کے جیسا ایک سورہ بھی لے آئیں جس میں قرآن جیسی بلاغت ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ قرآن کریم خداوند عالم کا کلام نہیں ہے لیکن صرف بلاغت ہی کسی کلام کے مفیدو رسا ہونے کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ مختلف فنون ہیں اور ہر فن کی ایک خاص خصوصیت ہوتی ہے جب خداوند عالم فرماتا ہے کہ دس سوروں کا جواب لے آئو تو گویا یہ کہنا چاہتا ہے کہ کلام میں حُسن پیدا کرنے کے جتنے بھی طریقے اور انداز ممکن ہوسکتے ہیں ان سب کو قرآن چیلنج کرتا ہے گویا یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم کسی بھی اعتبار سے چاہے وہ کلام کا کوئی بھی میدان ہو قرآن کا مثل نہیں لاسکتے ہو۔ قرآن جہاں علوم ومعارف کی بحث ہے تو تم اسکا جواب نہیں لا سکتے ، قرآن جہاں احکام بیان کرتا ہے تم اس کا جواب نہیں لاسکتے قرآن نے جہاں داستانیں اور قصّے بیان کئے ہیں جہاں اخلاق کے موضوع پر باتیں کی ہیں وغیرہ کسی بھی فن میں جن پر قرآن میں گفتگو ہے اگر تم مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو اس کا جواب اسی فن میں لے آئو مثال کے طور پر ایسے دس سورے لے آئو کہ جن میں ہر سورہ کسی خاص روش کا حامل ہو اور کسی خاص فن میں بات ہوئی ہو تمہارے کلام کا قرآن سے اسی وقت مقائسہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تم ان تمام فنون میں مقابلہ کرسکو ۔پس ممکن ہے یہ (سورئہ ہود کی) آیت سورئہ یونس کے بعد نا زل ہوئی ہو اور پھر بھی دس سوروں کا جواب لانے کا چیلنج اس میں کیا گیا ہو۔
بہر حال یہ حقیقت ہے کے خداوند عالم نے پو رے قرآن کا بھی، دس سو رہ کا بھی اور ایک سورہ کا بھی مثل لانے کا چیلنج کیا ہے اگر درجہ بہ درجہ چیلنج آیات کے نزول کے ساتھ ثابت ہو جائے تو وہ وجہ سب سے زیادہ واضح اور قابل قبول ہے مند رجہ ذیل آیت میںبھی ایک سورہ کا مثل لانے کا چیلنج کیا گیا ہے :
(وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمَّاْنَزَّ لْنَاعَلَٰی عَبْدِنَافَاْتُوْابِسُوْرَ ةٍ مِّنْ مِثْلِہِ وَادْعُوْا شُھَدَائَ کُمْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِ قِیْنَ۔فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْاوَلَنْ تَفْعَلُوْافَاتَّقُوْاالنَّارَ الَّتِی وَقُوْدُھاَالنَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ)(١)
''اور اگر تم اس کلام کے با رے میں جو ہم نے اپنے بند ے (محمد )پر نازل کیا ہے شک میں ہو تو اگر تم سچّے ہو تم (بھی ) ایک ایسا ہی سو رہ بنا لا ئو اور خدا کے سواجو تمہا رے گواہ ہو ں ان سب کو (بھی ) بلا لو ،پس اگر تم یہ نہیں کرسکتے ہو اور ہر گز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کے ایندھن بد کار آدمی اور پتھر ہو ں گے اور کا فروں کے لئے تیار کی گئی ہے''۔
تعبیر کے لحاظ سے شاید یہ آیت دوسری آیات سے زیادہ مطلب کو سمجھا سکتی ہو کیو نکہ بحث کے وقت جب دو
..............
١۔سو رئہ بقرہ آیت ٢٣ و ٢٤ ۔
آدمی ایک دوسرے سے بحث کر تے ہیں ایک کہتا ہے کہ اگر تم حق پر ہو تو فلاں کام کر ڈالو زیادہ سے زیادہ یہی تو ہوگا کہ وہ اس کام کو انجام نہیں دے سکے گا اور بحث میں ہار جا ئیگا لیکن قرآن اس پر اکتفا ء نہیں کرتا بلکہ ان کو پوری طرح ابھا رتا اور یہ کام انجام دینے کا شوق دلا تا ہے :
(فَاِ نْ لَمْ تَفْعَلُوْاوَلَنْ تَفْعَلُوْافَاتَّقُوْاالنّاَ رَ ۔۔۔)
صرف تمہارا قبول نہ کرنا اور مثال کے طور پر یہ کہنا کہ ہم اس کا جواب تو لا سکتے ہیں لیکن لا نہیں رہے ہیں کافی نہیں ہے بلکہ یا تو یہ ثابت کرو کہ یہ خدا کا کلا م نہیں ہے یا پھر اگر تم ثابت نہیں کر سکتے تو تم کو قبول کر لینا چا ہئے لیکن اگر تم نے نہ ثابت کیا اور نہ ہی قبو ل کیا تو سمجھ لو کہ انجام بہت ہی برا ہو گا اور اﷲ کا ابدی عذاب تمہا را انتظار کررہاہے ۔
کو ئی بھی عاقل اس طرح کی تہدید سے متا ثر ہو ئے بغیر نہیں رہے گا اگر اس کا ضمیر زندہ ہے تو وہ اس طرح کے چیلنج کا کو ئی اطمینا ن بخش جواب ضرور ڈھو نڈ ے گا ۔ اس لئے کہ عقل ہر عا قل انسان کو اس طرح کا کو ئی صحیح جواب تلاش کر نے پر ابھا ر تی ہے یا تو اِس کا مثل لے آنا چا ہئے کہ یہ معلوم ہو جا ئے خدا کا کلام نہیں ہے یا کم سے کم خود اپنے اطمینان کے لئے کو ئی دلیل فرا ہم کرے یا (ہار مان کر )اس کو تسلیم کر لینا چا ہئے کہ یہ خدا کا کلام ہے لیکن اگر وہ اس کا مثل نہیں لا سکا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے خود اس کا جواب لا نا نہیں چا ہا بلکہ پو ری سنجید گی سے کئے گئے اس چیلنج کی موجودگی اس کی عقل کو مندر جہ بالا دو صو ر تو ں میں سے کو ئی ایک صورت کے انتخاب کر لینے پر مجبور کر دیتی ہے در حقیقت یہ آیت تمام آیتو ں سے زیا دہ بلیغ اور رسا ہے جو مدّ مقابل کو فیصلہ کن مقا بلہ کے لئے با لکل تیا ر کر دیتی ہے ۔
(مِثْلِہِ)کی ضمیر کے با رے میں مفسرین کے در میان اختلاف ہے کہ اسکا مر جع کو ن ہے ؟
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ (مِنْ مِثْلِہِ )یعنی (مِنْ مِثْلِ الْقُرْ آن )اور ( کلمہ مِنْ)تبعیض کے لئے ہے ۔ اس بنا پر سو رئہ یو نس کی آیت اور اس آیت دو نو ں کا نتیجہ ایک ہی نکلے گا ۔
لیکن بعض دو سرے مفسرین کہتے ہیں کہ (مثلہ)کی ضمیر (عَبْدِنَا)کی طرف پلٹتی ہے یعنی اس طرح کے شخص کے مثل سے اس طرح کا قر آن لا ئواور یہ قر آن کے دو جہتو ں سے معجزہ ہو نے کی طرف اشارہ ہے :
ایک یہ کہ کو ئی بھی شخص قر آن کے مثل ایک سورہ بھی نہیں لا سکتا ۔
دوسرے یہ کہ خیال رہے ایک ایسا شخص اس طرح کا کلا م لیکر آیا ہے کہ جس نے کسی کے سا منے زا نو ئے ادب تہہ نہیں کیا ہے ۔حتیٰ اگر بہ فرض محال دنیا کے دانشمند تنہا یا مل جل کر اس کا مثل لے بھی آئیں تو خیال رہے کہ پیغمبر نہ تو کو ئی دانش ور ہیں اور انھو ں نے کسی سے تعلیم حاصل کی ہے۔جو شخص کسی مدر سہ میں نہ گیا ہو اور جس نے کسی استاد کے سا منے زا نو ئے ادب نہ تہہ کئے ہو ں وہ اس طرح کی ایک کتاب لیکر آیا ہے اور یہ بہتر طریقہ سے اس چیز کی نشا ند ہی کر تا ہے کہ یہ کلا م کلام خدا ہے اور شاید آیت میں یہ وجہ زیا دہ قوی اور درست ہو ۔

قرآن کریم معجزہ کیوں ہے ؟
قرآن کریم کس رخ سے معجزہ ہے اس بارے میں کافی بحثیں ہیں، کتابیں بھی لکھیں گئی ہیں۔ اور ہم اپنی بحث مکمل کرنے کیلئے قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی وجہیں اجمالی طور پر بیان کرتے ہیں:

١۔صَرف و انصراف
بعض علما علم کلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم اپنے مطالب و انداز بیان کے اعتبار سے معجزہ نہیں ہے بلکہ قرآن کریم ''صرف یعنی منصرف کردینے ''کی وجہ سے معجزہ ہے ،در حقیقت ایسا نہیں ہے کہ انسان قرآن کی ایک آیت یا سطر کا مثل تیار کرسکے آخر مختلف ترکیبوں سے کام لے کر قرآن کے جیسی ایک سطر کی عبارت تیار کی ہی جاسکتی ہے ۔ بلکہ قرآن تو اس وجہ سے معجزہ ہے کہ خدا لوگوںکو اس طرح کا کام کرنے سے منصرف کردیتاہے ۔
یہ علت ظاہر آیات کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔اس لئے کہ قرآن کا کہنا یہ ہے کہ خود قرآن کریم معجزہ ہے اور کوئی اسکا مثل نہیں لاسکتا نہ یہ کہ خداایسا کرنے سے منصرف کردیتا ہے قرآن کریم بلاغت کی اس منزل پرہے کہ خداوند عالم کی اگر تائید نہ ہوعام انسانوں کی طاقتیں اس کی بلاغت کی سطح تک پہنچنے کیلئے کافی نہیں ہیں ۔اب اگر کوئی شخص کوئی کتاب یا کوئی سورئہ قرآن کریم کے مثل لے آئے تو یہ اس چیز کی نشانی ہے کہ خداوند عالم نے اس کی غیب سے مدد کی ہے ۔یعنی قرآن بذات خود معجزہ ہے ۔

٢۔بلاغت:
عام طور پر ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قرآن کریم بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے بلاغت یہ ہے کہ ''کلام''مقتضائے حال کے مطابق اس طرح بیان کیا جائے کہ متکلم کا مقصد بہترین طریقہ سے ادا ہوجائے ۔ ظاہر ہے ہر کلام کو متکلم کے مقصد اور وقت کے تقاضوں کے تحت پرکھناچاہئے تاکہ اس کے بعدہم یہ مشاہدہ کرسکیں کہ اس کلام میں اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے بہترین طریقہ کا انتخاب کیا گیا ہے یا نہیں بلاغت یہ نہیں ہے کہ صرف الفاظ کی خوبصورتی اور انداز بیان کے لحاظ سے جائزہ لیں بلکہ ان باتوں کے علاوہ متکلم کے مقصد اور مخاطب کے حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے چونکہ خداوند متعال اپنے ہدف کو سب سے بہتر جانتاہے اور اپنے بندوں کی حالت کو بھی سب سے بہتر جانتاہے اور الفاظ کی ترکیبوں پر بھی وہ سب سے زیادہ تسلط رکھتا ہے پس وہ مقتضائے حال کی بنیاد پر اپنے ہدف کو سب سے اچھے طریقہ سے بیان کرسکتا ہے لیکن دوسروں کواس طرح کا تسلط حاصل نہیں ہے ان کو اس کا علم نہیں ہے کہ کلام میں کن کن نکات کی ر عایت ضروری ہے اور تمام مخاطبین کے حال کو کس طرح مد نظر رکھیںاور کس طرح اس پیچیدہ فارمولے کی بنیاد پر کلام کریں۔قرآن کریم کا مثل نہ لا سکنے کا راز یہی تمام نکات ہیں کیونکہ انسا ن کتنا بھی ذہین اور دور اندیش ہی کیوں نہ ہو آخر کار اس کاذہن محدود ہے اور وہ چند محدود مطالب کو ہی اپنی نظر میں معین کرسکتا ہے اور تمام جہات پر تسلط نہیں رکھتا توجب اس کلام کا قرآن کریم سے مقائسہ کیا جاتاہے اس وقت ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں وہ نکات پائے جاتے ہیں جو دوسرے کلام میں نہیں پائے جاتے اور یہی چیز قرآن کریم کو اس کلام سے ممتاز کردیتی ہے ۔
اس مقام پر ایک بہت دور کا احتمال یہ ہو سکتا ہے : الفاظ کی ترکیبیں آخرکار محدود ہیں اوران ترکیبوں کے درمیان قرآن کریم سے مشابہ جملے تیار کئے جاسکتے ہیں چونکہ حروف محدود ہیں ان سے بننے والے الفاظ اور جملے بھی محدود ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص یہ کام انجام نہیں دے سکتا تودو افراد ایک ساتھ بیٹھ کر غور وفکر کریں دودن میں نہیں کرسکتے تو ایک سال تک باہم کو شش کریں یہ کیسے ممکن ہے کہ چند مخصوص و محدود الفاظ اور حروف سے مر کب جملے اس حد کو پہنچ جائیں کہ کوئی شخص قرآن کریم کا مثل نہ لاسکے ؟چند جملوں کی ترکیبوں سے ایک ایسا خوبصورت جملہ نکالا جاسکتا ہے جو قرآن کی طرح کا ہو ۔یہ کہنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم بلاغت کے اس درجہ پرپہنچاہواہے کہ تاریخ کے طویل دور میں تمام انسان ملکر بھی اس کا مثل نہیں لاسکتے ؟ہاں ہم محسوس کرتے ہیں کہ قرآن کریم دوسرے کلاموں سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام ہے اور اپنے اندر پر کشش نکات سموئے ہوئے ہے لیکن قرآن کریم دوسرے تمام کلاموں کے ساتھ لامتناہی فرق نہیںرکھتابلکہ ایک محدود فرق پایا جاتاہے اور ممکن ہے کہ کچھ ایسے انسان پیدا ہو جائیں جو اس فاصلے کو بھی پر کر ڈالیں مختصر طور پرحقیقت سے بعید اس تصور کا سر چشمہ یہ ہے کہ ہم صحیح طور پر یہ نہیں سمجھ سکے کہ کیسے قرآن کریم کیلئے یہ غیر معمولی مقام اور درجہ تصور کیا جاسکتا ہے۔ہا ں اگرچہ شعراء اور ادباء کے کلام سے یقینا بلند درجہ رکھتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی اس کے قریب پہنچ ہی نہ سکتاہو۔
یہ ضعیف اور مو ہوم خیال اس لئے وجود میں آتا ہے کہ ہم صحیح طریقہ سے قرآن کی بلاغت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کی بلاغت کوئی غیر معمولی اور لاجواب چیز نہیں ہے بلکہ اس کا معیاردوسرے کلاموں سے ذرا بہتر اور بلند ہے لیکن کس قدر زیادہ فصیح و بلیغ ہے اسکا اندازہ ہم نہیں کرسکتے ہیں۔
صاحب'' تفسیرالمیزان''علامہ طباطبائی [نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے اس مثال سے استفادہ کیا ہے :
ہم عام طور پر کسی کلام کے ایک دوسرے سے بہتر ہو نے یا ہر با کمال چیز کے لئے دوسری خوبصورت چیز سے کیفیت کے اعتبار سے بہتر ہو نے کا اندازہ اپنے عام پیمانوں سے نہیں لگا سکتے ،ہم دو محدود چیزوں کا ایک دوسرے سے مقا یسہ کریں تو کسی حد تک ان کے فرق کو سمجھ لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جب ہم ایک سینٹی میٹر کی لا ئن کا مقا ئسہ ایک میٹر والی لائن سے کرتے ہیں ،تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک میٹر والی لائن ایک سینٹی میٹر والی لائن کے سو گنا بڑی ہے۔تو ہم اس کا تو اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن اسی طرح ہم کیفیات کا ایک دو سرے سے مقا ئسہ نہیں کرسکتے ۔لہٰذا ہم آجکل کے دور میں یہ مشا ہدہ کر تے ہیں کہ سائنس میں تمام مسائل کو کمّی(تعداد )طریقہ سے بیان کر تے ہیں ۔ اس لئے کہ انسان کا ذہن علم حساب کے اعداد اور فا رمو لوں کو جلدی اخذ کر لیتا ہے ۔ مثال کے طور پر آپ ایک خوبصورت منظر کا دوسرے معمولی منظر سے مقا یسہ کریں تو ملا حظہ کریں گے کہ آسانی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ منظر اس منظرسے کتنا خوبصورت ہے ۔مثلاًجب ایک خوبصورت پھول کا اس سے کچھ کم حسین پھول سے مقا یسہ کرتے ہیں تو اس صورت میں انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلا پھول دو سرے پھول سے کتنا خو بصورت ہے ۔
شروع میں تو انسان یہ خیال کر تا ہے کہ یہ پھول اس پھول سے ایک درجہ بہتر ہے لیکن جب ان کے پاس واسطہ کی صورت میں تیسرا پھول لاکر رکھدیاجا ئے تو فوراً آپ یہ کہیں گے کہ ایک درجہ نہیں بلکہ دو درجہ بہتر ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔مرحوم علامہ طبا طبا ئی [فر ما تے ہیں کہ میں جب کتابت کی مشق کرتا تھا حالانکہ میری کتا بت بری بھی نہیں تھی۔ میں پہلے ایک '' ن ''لکھتا تھا اس کے بعد (میر) کی کتابت سے اس کاموازنہ کر تا تھا کہ ان کی کتابت مجھ سے کتنی اچھی ہے ؟تو میں اس کو نہیں سمجھ پاتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ ان کی تحریر میری کتابت سے ایک دو درجہ بہتر ہے ۔ اس کے بعد بطور مثال میں سو عدد '' ن ''لکھتا تھا جس میں ہر ایک دوسرے سے بہتر ہو تا تھا ۔یعنی سو واں ''ن ''پہلے ''ن '' سے سوگنا بہتر ہو تا تھا۔ اس کے بعد پھراس آخری تحریر سے (میر ) کی کتابت کاموازنہ کر تا تھا تو پھر بھی میں اتنا ہی فرق محسوس کر تا تھا جتنا کہ پہلی مرتبہ میں ،میں خیال کر تا تھا کہ (میر )کی کتابت میری کتابت سے ایک دو درجہ بہتر ہے حالانکہ میں نے اِس وقت پہلے سے سو برابر اچھا لکھا تھا تب بھی میں ایک دو درجہ کا فرق ہی محسوس کر تا تھا ۔
یہ مثال ہم نے اس لئے پیش کی ہے تا کہ انسان یہ سمجھ جا ئے کہ وہ کیفیات میں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ یہ مثال بہت اچھی ہے۔( ہم نے استاد محترم کا شکر یہ ادا کر نے اور ان کی یاد کو تا زہ کر نے کی خا طر اس مثال سے استفادہ کیا ہے )۔بہر حال انسان کا ذہن کیفیات کا موازنہ کر نے اور ان کے درمیا ن فیصلے کر نے کی بہت کم توا نا ئی رکھتا ہے۔بہت ہی مشکل سے آہستہ آہستہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں کے ما بین کتنا فرق ہے ۔
یہی قا عدہ وقا نون حسن اعمال (اچھے اعمال ) میں بھی جا ری ہو تا ہے ۔ مثال کے طور پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کا عمل بہت خالص ہے (یعنی بڑے ہی خلوص کے ساتھ صرف اور صرف اللہ کے لئے عمل انجام دیتا ہے ) توچونکہ اس کا عمل خالص ہے تولہٰذااس کے عمل کی بھی اتنی ہی اہمیت ہو گی لیکن اس کے عمل کی اہمیت کتنی زیادہ ہے ؟ اس کے لئے کیفیت کو کمیت (تعداد ) میں بدل کر مثال کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیںکہ :اگر خالص عمل انجام دینے والے شخص کا جنت میں ایک درخت ہے توزیادہ خلوص کے ساتھ عمل انجام دینے والے کے دو درخت ہیں یعنی اس کے فرق کو دو گنا تصور کر تے ہیں ۔ لیکن اگر کو ئی دقیق معیار ہو جس کے ذریعہ اس فرق کو سمجھا جا سکے تو اس وقت معلوم ہو تا ہے کہ اخلاص کے ان دو مر تبوں کے درمیان زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے ۔ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور بالکل خلوص کے ساتھ نماز پڑ ھتے ہیں ریا کے لئے نماز نہیں پڑھتے لیکن اس نماز اور حضرت امیر المو منین یا دوسرے تمام ائمہ علیہم السلام کی نمازوں کے درمیان کتنا فرق ہے ؟ اتنا فرق ہے کہ اگر ہم ساری عمر بیٹھکر اس کا حساب کریں کہ ان کی نماز ہماری نماز سے کتنا بلند درجہ رکھتی ہے تو ہر گز ممکن نہیں ہے ۔
محسوسات کے اندرخاص طور سے معنویات والی چیزوںمیںجہاں معنویت کو سمجھنابھی ضروری ہے یہ مسائل اتنے دقیق و ظریف ہیں کہ انکوعدد کے معیا روں کی کسوٹی پر نہیں پرکھاجا سکتا ۔
آپ نہج البلاغہ کے کسی حصہ کا ایک بہت بڑے شاعر کے کلام سے مقا ئسہ کر یں تو یہ ملا حظہ کریںگے کہ نہج البلاغہ کا کلام بہت ہی زیبا ہے لیکن کتنا زیبا ہے ؟اس کو ہم دقیق طور پر معین نہیں کر سکتے اور یہ فکر کریں گے کہ اس سے بہتر اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن اگر نہج البلاغہ کے کلام کا قر آن مجید سے مقائسہ کر تے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جتنا فرق شاعر اور قرآن کے کلام میں پایا جاتا ہے اتنا ہی فرق قرآن اور نہج البلاغہ کے درمیان پایا جاتا ہے ۔
یہ مثالیں ہم نے اس لئے بیان کی ہیں کہ کمال اور معنوی امور کے درمیان موجود کیفیت کے فرق کو سمجھنے کے لئے ہمارا ذہن آمادہ وتیار ہو جا ئے اور یہ تسلیم کر لیںکہ یہ مسائل کمیات (عدد )کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہیں اور ان کو عدد کے ذریعہ بیان نہیں کیا جا سکتا ۔اس وقت ہم اس مطلب کو تسلیم کر لیں گے کہ ایک کلام خوبصورتی اور بلاغت کے اعتبار سے اس درجہ پر ہوکہ انسان اس تک نہ پہنچ سکے۔
بہر حال قر آن کے معجزہ ہونے کی ایک وجہ اس کی یہی بلاغت ہے جس کا شاہد یہ ہے کہ ہر ایک کی تمنا ؤں کے با وجود تا ریخ انسانیت میں آج تک کو ئی اس کا مثل نہ لا سکااور لطیف بات تو یہ ہے کہ ہم سے بھی یہ نہیں کہا گیاکہ تم اسکا جا ئزہ لو کہ قر آن کتنا بلند و بہتر و بر تر ہے ،بلکہ یہ کہاگیا کہ اگر تم چا ہتے ہو تو اس کا مثل لے آؤ ۔ورنہ اگر اس کے جا ئزہ کی ذمہ داری ہم کو سو نپ دی جاتی تو ہم کبھی بھی اس کا جا ئزہ نہیں لے سکتے تھے ۔ہم صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ اس کا مثل نہیں لا یا جا سکتا البتہ اس کو بھی محققین اور ماہرین ہی معین و مشخص کر سکتے ہیں ۔

٣۔ اختلاف نہ ہو نا :
قرآن کریم کے معجزہ ہو نے کی ایک اور وجہ جس پر خو د قرآن کا اعتماد ہے وہ اس کے اندر (اختلاف نہ ہونا )ہے :
( اَفَلَا یَتَدَ بَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْکَا نَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللَّہِ لَوَجَدُوْافِیْہِ اِخْتِلَا فاً کَثِیْراً )(١)
..............
١۔سورئہ نساء آیت ٨٢۔
''کیا یہ لوگ قر آن میں غور و فکر نہیں کر تے ہیں کہ وہ اگر غیر خدا کی طرف سے ہو تا تو اس میں بڑا اختلاف ہو تا ''۔
انسان کا کلام ہوتو اختلاف کیوںہو تا ہے اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے :
انسان کے اندر اس دنیا میںتمام ما دی مو جو دات کی طرح تغیر اور تبدیلی ہو تی رہتی ہے۔ ماحول اور انسان کے اندر ہو نے والے تغیر ات انسان کے روحی حالات اور ان سے ظاہر ہو نے والے آثار میں مو ٔثر ہو تے ہیں ۔
ایک طرف تو انسان ہمیشہ تکامل کی حالت میں ہے ،جن چیزوں کو وہ پہلے نہیں جا نتا تھا ان کو سیکھ لیتا ہے ، یہ نئی چیزیں اس کے کلام میں اثر انداز ہو سکتی ہیں ۔ اسی طرح نئے انجام دئے جا نے والے کاموں میں جب اس کے اثر کو دیکھتا ہے تو اس کے ذریعہ بعد والے کاموں کو بہتر طریقہ سے انجا م دینے کے لئے آمادہ رہتاہے ۔اور دوسری طرف انسان کے حالات جیسے :غم اور خوشی ،خوف اور امید وغیرہ۔۔۔بیرونی عوامل اور کبھی کبھی اند رونی عوامل کے ماتحت اس میں تبدیلی کر تے رہتے ہیں اور اس کے کلام میں اثر انداز ہو تے ہیں ۔انسان خو شی کے مو قع پر ایک طریقہ سے بات کر تا ہے اور غم کے مو قع پر دو سرے طریقہ سے بات کر تا ہے ۔پس انسان ایک ما دی مو جودہے اس پرمختلف عوامل اثرانداز ہو تے ہیں اور وہ خودبھی تکامل پیدا کر تا ہے اور اس کی معلو مات میں اضافہ ہو تا ہے ۔اس کے حالات میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے اور ان سب سے اس کے کلام میں اثر پڑتا ہے ، اس بناء پر ایک بھی انسان ایسا نہیں ہے جو اپنی پوری زند گی میں با لکل ایک ہی طریقہ سے با ت کرے جو بلاغت کے اعتبار سے یکنوا خت ہو ،اور مجبوری کے وقت یابھوک اورشکم سیری ،غم اور خو شی ،صحت اور بیماری،اضطراب اور اطمینان ،شکست اور کا میابی وغیرہ کے مو قع پراس کے کلام میں فرق نظرنہ آتا ہو۔
قرآن نے ان تمام چیزوں کے با رے میں گفتگو کی ہے ،اس وقت جب کہ پیغمبرۖبہت زیادہ مشکلوں میں گھرے تھے اور جب آپ فتح و کامرانی کے بلند درجہ پر فا ئز ہو چکے تھے ،جب آپ فقر کی حالت میں زندگی بسر کررہے تھے اور جس دور میں آپ غنی تھے ،جس وقت آپ مریض تھے اور جب آپ صحیح و تندرست تھے اور آخر کار ٢٣سالہ دور میں (جس میں ہر انسان علمی ترقی اور گفتگو میں مہارت حا صل کر تا ہے ) قرآن نے بلاغت کے اعتبار سے ایک ہی اسلوب پر گفتگو کی ہے ۔یہ صحیح ہے کہ ایک کلام خا ص مو قع کے لحاظ سے کہا گیا ہے اور اس کا انداز دوسرے کلام سے جدا ہے لیکن یہ دو نوں صورتیں بلاغت کے اعتبار سے سب سے بلند درجہ کی مالک ہیں ۔پس قر آ ن کے معجزہ ہو نے کی ایک وجہ (اصل بلاغت کے علاوہ )پوری تاریخ نزول میں ایک ہی اسلوب کا باقی رہنا بھی ہے ۔

٤۔پیغمبر امی کی جا نب سے ہے
قرآن کے معجزہ ہو نے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن اس شخص پر نا زل ہو ا ہے جس نے کسی سے سبق نہیں پڑھا ،علما ء اور دا نشمندوں سے جس کا کو ئی سرو کار نہ تھا اور اس کا انداز گفتگو بعثت تک دو سرے عام لوگوں کی طرح تھا (شاید ان سے کچھ بلیغ ہو)لیکن آپ کے لہجہ میں ایک دم تبدیلی آئی اور جو چیز آپ کے کلام میں پہلے نہیں پا ئی جاتی تھی وہ دکھا ئی دینے لگی۔پیغمبر اکر م ۖ کے کلمات میں اگرچہ فصاحت و بلاغت کا بلند درجہ پا یا جاتا ہے لیکن اس کے با وجود رسالت کے بعد بھی آپ کے کلمات کا قر آن سے مقائسہ ممکن نہیں ہے۔جیسا کہ خود قر آ ن کریم نے اس مسئلہ کو یوںبیان فر مایا ہے :
(قُلْ لَوْشَائَ اللَّہُ مَاتَلَوْتُہُ عَلَیْکُمْ وَلَااَدْرَیٰکُمْ بِہِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراًمِنْ قَبْلِہِ اَفَلَاْ تَعْقِلُوْنَ )(١)
''آپ کہد یجئے کہ اگر خدا چا ہتا تو میںتمہا رے سا منے تلاوت نہ کر تا اور تمہیں اس کی اطلاع بھی نہ دیتاآخر میں اس سے پہلے بھی تمہا رے درمیان ایک مدت تک رہ چکا ہوں تو کیا تمہا رے پاس اتنی عقل بھی نہیں ہے ؟''۔
اگر یہ کتاب میری بنائی ہو ئی ہو تی تو فطری طور پر میری پہلی گفتگو کے مشابہ اس میں کو ئی کلام ہو نا چا ہئے تھا۔ یہ مطلب اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام نا گہانی اور الٰہی کام ہے اور خدا وند عالم چا ہتا ہے کہ میں اس طرح کلام کروں ۔اگر خدا وند عالم مجھ پر وحی نہ کر تا تو میں ان کلمات کو ادا نہیں کر سکتا تھا میں وہی شخص ہو ں جو کل تم لوگو ں سے گفتگو کیا کر تا تھا اور تم میری با توں کو سنا کر تے تھے اورمیرے اور تمہارے درمیان کو ئی غیر معمولی امتیاز نہ تھا ۔پس اگر تم عقل رکھتے ہو تو سمجھو کہ بلاغت کا اچانک یہ عروج امر الٰہی کی تا ئید سے ہے ۔
تا کہ یہ مسئلہ تمام لوگوں پر اچھی طرح واضح ہو جا ئے خدا وندعالم نے پیغمبر اسلام ۖ کی تر بیت اس طرح فرما ئی کہ آپ کے پاس درس پڑھنے اور علم حاصل کر نے کی کوئی جگہ نہ تھی ،اور آپ اکثر افراد کی طرح لکھنا اور پڑھنا بھی نہیں جا نتے تھے ،اس دوران کچھ ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا لیکن پیغمبر اسلام ۖنے لکھنا اور پڑھنا بھی نہیں سیکھا تھا :
(وَمَاکُنْتَ تَتْلُوْامِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتَا بٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ اِذاً لاَّرْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ )(٢)
''اور اے پیغمبر آپ اس قر آن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل با طل شبہ میں پڑجا تے ''
اور خدا وند عالم نے آپ کی ایسی تربیت کی کہ تمام لوگوں کو یہ معلوم رہے کہ آپ اس کلام کے آنے سے پہلے
..............
١۔سورئہ یونس آیت١٦۔
٢۔سورئہ عنکبوت آیت ٤٨۔
نہ پڑھتے تھے اور نہ لکھتے تھے تاکہ یہ لوگ سمجھ جا ئیں کہ یہ آپ کا کلام نہیں ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا اورآپ لکھنا اور پڑھنا جا نتے ہوتے تو ممکن تھا کچھ لوگ شک میں پڑجا تے :(اِذاً لاَّرْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ )اورجو لوگ آپ کے دعوے کو با طل کر نا چا ہیں وہ ایسا شبہہ پیداکر سکتے ہیں، لہٰذا کوئی دستا ویز ڈھونڈھ لائیں کہ انھوں نے تو فلاں استاد سے کئی سال تعلیم حا صل کی ہے لیکن آپ اس ماحول ا ور معا شرہ میں پہلے سے مو جود ہیں اور یہ سب آ پ کو پہچا نتے ہیں کہ آپ پڑھنا اور لکھنا نہیں جا نتے تھے اس طرح لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔

٥۔جا معیت :
قرآن کے معجزہ ہو نے کی دوسری چند وجہیں مفسرین نے بیان کی ہیں حتی کہ علما ء کلام نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ جن میں سے بعض کو چیلنج کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے ان میں سے جس کو چیلنج کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے وہ قر آن کی جا معیت ہے ۔یعنی ایک انسان عقاید، سیاست ، اقتصاد ،اخلاق ،فوجی فنون ا ور ایک جملہ میں یہ سمجھئے کہ جن تمام چیزوں کی انسان کو اپنی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے اس میں ماہر ہو ۔ معمولی انسان میں اس طرح کے صفات کا جمع ہو نا محال ہے اور عملی طور پر بھی انسان کی زند گی میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو انسان کسی کام میں تر قی کرنا چاہتاہے وہ اپنی ساری زند گی کو ایک ہی مو ضوع کو حا صل کر نے میں صرف کر دیتا ہے تب کہیں اس علم کا ما ہرہو گا اور لوگوںکی نظروں میںترقی یافتہ شمار کیا جا ئیگا لیکن ایک ہی انسان تمام علوم کا احاطہ کرلے اور ہر شعبہ میں دو سرے تمام ما ہرین سے بہتر ہو جا ئے یہ ایک معمولی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔

٦۔علمی نکات کا اظہار :
قرآن مجید کے معجزہ ہو نے کا ایک اور پہلو وہ علمی نکات ہیں جن کو اس زمانہ میں قبول نہیں کیا جاتا تھا اور تعلیم یافتہ طبقہ ان کو تسلیم نہیں کرتاتھا لیکن پیغمبر اسلام ۖ نے باصراحت اور شجاعت کے ساتھ ان کو بیان فر مایا اور اس کے بعد تدریجی طور پر علوم کی ترقی نے ان کااثبات کیا ہے ۔مثلاً یہی کہ ایک ان پڑھ انسان ایک پست اور پچھڑے ہوئے ملک میں ظہور کر ے اور دنیا کے تمام علمی طبقوں کے با لمقابل مکمل صراحت اور پورے یقین و اعتماد کے ساتھ کسی ایسی چیز کا بیان کر ے جس کے وہ سب مخالف ہوں ،خاص طور سے جس دور میں یہ ثابت ہو جائے کہ جو باتیں انھوں نے بیان فر ما ئی ہیں وہ صحیح ہیںاورجو کچھ دو سروں نے بیان کیا ہے وہ باطل ہے یہ خود اس بات کا شاہد ہے کہ یہ کلام خدا کا ہے ۔ان میں سے ایک نمونہ یہی ہیئت بطلمیوسی کا مسئلہ ہے جس کو دنیا کے علمی طبقوںنے تسلیم کر رکھا تھا لیکن آسمانوں کے سلسلہ میں قرآن کے بیانات افلاک بطلمیوسی کے موافق نہیں تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ افلا ک میں خرق و التیام محال ہے و۔۔۔لیکن قرآن معتقد ہے کہ نہ صرف خرق و التیام محال نہیں ہے بلکہ یہ تمام پاش پاش ہو جا ئیں گے اور قرآن نے کبھی بھی نو آسمانوں پر کوئی تکیہ نہیں کیا ہے وغیرہ۔۔۔۔

٧۔غیبی خبریں :
قرآن کے معجزہ ہونے کی ایک اور و جہ قرآن کا غیبی خبریں دینا ہے۔ یہ خبریں دو حصوں میں تقسیم ہو تی ہیں :
١۔ وہ گذ شتہ خبریں جن کو قرآن نے بیان کیا ہے اور ان سے مطلع ہو نے کے لئے قرآن کے علاوہ اور کو ئی دوسراراستہ نہیں تھا : ذَلِکَ مِنْ اَنْبَائِ الْغَیْبِ نُوْحِیْھَا اِلَیْکَ ۔۔۔)
''پیغمبر یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کر رہے ہیں ۔
اور ایک مقام پر ارشاد ہے :
(وَمَاکُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَٰمَھُم اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمََ۔۔۔)(١)
''جب وہ قر عہ ڈال رہے تھے کہ مر یم کی کفالت کو ن کرے گا ''۔
یہ سب غیبی خبریں تھیں جو غیب کے پیغمبر کے لئے تھیں ان میں کچھ آئندہ کے لئے پیشینگو ئیاںہیں جو قرآن میں بیان ہو ئی ہیں اور ہم ان میں سے ذیل میں دو نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

ایرانیوں پر رومیوں کا غلبہ
(غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔فِیْ اَدْنیَ الْاَرْضِ وَھُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔ فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ۔۔۔)(٢)
'' (یہاں سے) بہت قریب ہے کہ ملک میں رومی (نصار ا اہل فارس آتش پر ستوں سے) ہار گئے مگر یہ لوگ عنقریب ہی اپنے ہا ر جا نے کے بعد چند سالوں میں پھر (اہل فارس پر )غالب آجا ئیں گے ۔۔۔''۔

فتح مکہ
(لَقَدْ صَدَقَ اللَّہُ رَسُوْ لَہُ الرُّؤْیَابِالْحَقِّ لَتَدْ خُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَا مَ اِنْ شَائَ اللَّہُ آمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُؤُسَکُمْ )(٣)
''بیشک خدا وند عالم نے اپنے رسول کو با لکل سچا خواب دکھلا یا تھا کہ خدا نے چا ہا تو تم لوگ مسجد الحرام میں امن و سکون کے ساتھ سر کے بال منڈا کر اور تھو ڑے سے بال کا ٹ کر داخل ہو گے اور تمھیں کسی طرح کا خوف نہ ہوگا ۔۔۔''۔
پس قرآن کی غیبی خبریں بھی اس آسمانی کتاب کے معجزہ ہو نے میں شمار کی جا تی ہیں ۔
..............
١۔سورئہ آل عمران آیت٤٤۔
٢۔سورئہ روم آیت ٢۔٤۔
٣۔سورئہ فتح آیت ٢٧۔