حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی کرامت
قرآن کریم میں نبی کے لئے بیان کی جا نیوالی کرا متو ں میں سے ایک حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی ما در گرا می کی داستان ہے: (وَاَوْحَیْناَ اِلَٰی اُمِِّ مُوْسَٰی اَنْ اَرْضِعِیْہِ )(١)
یعنی خدا کی جانب سے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے پاس وحی ہوئی کہ تم اس بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا ئے نیل میں ڈال دو اور یہ خوش خبری بھی دیدی گئی کہ ہم اس کو پھر تمہارے پاس پہنچادیں گے اور اس کو (اپنا رسول )بنائیں گے۔
..............
١۔سورئہ قصص آیت٧۔
طا لوت کی کرامت
غیر معمولی واقعات میں سے ایک واقعہ طالوت کے تابوت کا بھی ہے طالوت پیغمبر نہیں تھے لیکن خداوند عالم
نے ان کے لئے یہ معجزہ ظاہر کیا تا کہ بنی اسرائیل ان کی حکومت تسلیم کرلیں البتّہ یہ کہاجا سکتا ہے کہ یہ بھی ایک پیغمبر کا معجزہ تھا جن کو روایات میں (صموئیل )کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
لیکن قرآن میں آیت کا لہجہ اس طرح نہیں ہے بلکہ قرآن کہتا ہے :
(وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ آیَةَ مُلْکِہِ اَنْ یَاتِیَکُمُ الَّتابُوتُ فِیہِ سَکِینَة مِنْ رَبِّکُم)(١)
''ان کے (من جانب اﷲ)باد شاہ ہونے کی یہ پہچان ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسکین کی چیزیں ہیں''۔
بہر حال اس میں دو احتمال دیئے جاتے ہیں کہ یاتو یہ صموئیل کیلئے جو نبی تھے معجزہ ہے اگر چہ یہ اثبات نبوت کیلئے نہیں تھا یا پھر یہ طالوت کیلئے کرامت و معجزہ ہے جو خود پیغمبر نہیں تھے۔
ارمیا اور حضرت یونس علیہ السلام کے معجزات
اسی طرح (ارمیا )(یا عزیز )کا واقعہ ہے جو سو سال مردہ رہنے کے بعد دو بارہ زندہ کئے گئے یہ واقعہ بھی نبوت کے اثبات کیلئے نہیں تھا بلکہ پیغمبر کیلئے ایک غیر معمولی قسم کا واقعہ تھا ۔
اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے شکم سے نجات پاجانے کا واقعہ ہے : جب حضرت یونس اپنی قوم کی اصلاح سے ناامید ہوگئے تو آپ نے دریا کی راہ لی اور کشتی پر سوار ہوگئے اتفاقاًدریا میں تلاطم ہوااور کشتی ڈوبنے لگی ۔اس زمانہ میں یہ رسم تھی کہ جب کو ئی دریائی جانور کشتی پر حملہ کر تا تھا تو اس سے نجات پانے اور کشتی سے دورکر نے کے لئے قر عہ ڈالا جاتا تھا اور اسکے مطابق کشتی میں بیٹھے کسی ایک شخص کو در یائی جانور کے منھ میں ڈال دیا جاتا تھا ، قرعہ ڈالا گیا تو حضرت یونس علیہ السلام کا نا م نکل آیا دوسری اورتیسری مرتبہ بھی آپکا ہی نام نکلا آخر کا ر آ پ کو دریا میں ڈالا گیا ۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کے جانور کے منھ میں جا نے کے بعدانسان کے بچنے کا کو ئی سوال باقی نہیں رہ جاتا ۔ مچھلی آپ کو نگل گئی آپ نے مچھلی کے شکم میں یہ کہا :
(فَنَادَیٰ فِیْ الظُّلُمَٰتِ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن۔ فَاسْتَجَبْنَالَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَالِکَ نُنْجِی الْمُوْمِنِیْنَ )(٢)
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٢٤٨۔
٢۔سورئہ انبیاء آیت٨٧۔٨٨۔
''پس ( یو نس نے بطن ما ہی کے )اندھیر ے میں آواز دی کہ (پر ور دگارا !)تیرے سوا کو ئی معبود نہیں تو (ہر عیب سے ) پاک و پاکیزہ ہے بیشک میں ظلم کر نے والو ں میں سے ہوں تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں رنج سے نجات دی اور ہم تو ایما ندارو ں کو یو نہی نجات دیا کرتے ہیں'' ۔
قر آن کریم میں یہ واقعہ کئی جگہ بیان ہو ا ہے اور بعض جگہو ں پر اس کو تفصیل سے بیا ن کیا گیا ہے کہ مچھلی نے آپ کو در یا کے با ہر اگل دیااور خدا نے آپ پر سایہ کے لئے کدو کا درخت اُگا دیا وغیرہ ۔۔۔
بہر حال یہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ تھا جو اثبات نبوت کیلئے نہیں تھا۔چونکہ آپ کئی سال تک اپنی نبوت کے فرائض انجام دے چکے تھے اور اپنی قوم سے نا امید ہو چکے تھے۔
حضرت دائو د علیہ السلام کے کرامات
قرآن کریم میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے با رے میںآیات زیادہ ہیں کہ خداوند عالم نے ان دونوں باپ بیٹے پر اپنا خاص لطف وکرم رکھا ہے منجملہ یہ کہ حضرت دائود کو زرہ بنانے کی صفت سے نوازا اور آپ کے ہاتھ میں لوہے کو موم کی طرح نرم کردیا تھا البتہ یہ بھی ایسا نہیں ہے کہ قابل تاویل نہ ہو چنانچہ معجزہ کا انکار کرنے والوں نے اس کی بھی بڑ ی آسانی سے تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جو قرآن فرماتا ہے :( وَعلَمَّنا ہ صنَعَةَ لبوُسٍ) یہ اس وجہ سے ہے کہ خداوند عالم کی صفت ہے کہ وہ تمام اشیاء کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے چنانچہ یہ ایک توحیدی انداز بیان ہے اور لوہے کو نرم کرنا بھی کو ئی غیر معمولی طریقہ سے نہیں تھا بلکہ خدا وند عالم نے آپ کو تعلیم دیدی تھی کہ مثال کے طور پر لو ہے کو نرم کرنے کی ایک بھٹی بنائو اور آپ نے خود تجربوں سے ان تمام چیزوں کو سیکھ لیا تھا کہ کس طرح لو ہے کو نرم کرکے اس کے حلقے تیار کرکے زرہ بنائی جاتی ہے لیکن اس بارے میں قرآن کا انداز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کو یہ سب معجزہ کے عنوان سے عطا کیا گیا تھا اورخدا لوگوں پر احسان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ داوئو د کو زرہ بنانے کی تعلیم ہم نے دی تا کہ :
(لتُِحْصِنَکُم مِن بَأْسِکُمْ )(١)
''جنگ کے وقت وہ تمہاری حفاظت کریں'' ۔
(اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْد ) سے بھی نہیں ظاہر ہوتاکہ حضرت داوئو د بھٹی میں لوہا رکھ کر نرم کیا کرتے تھے بلکہ ظاہر
..............
١۔سورئہ انبیاء آیت٨٠ ۔
مطلب یہی ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا ۔اسی طرح حضرت داوئو د علیہ السلام زبور کی تلاوت کیا کرتے تھے آپ کا لحن اتنا اچھا تھا کہ پہاڑ اور پرندے آپ کے ساتھ خدا کی تسبیح میں شریک ہوجاتے تھے ۔معجزہ کا انکار کرنے والے اس کی بھی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب حضرت داوئود علیہ السلام پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر زبور کی تلاوت کرتے تھے توآپ کی آواز پہاڑ سے ٹکراتی تھی اور یہ وہی آواز کی گونج تھی جو لوگ سنتے تھے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور کچھ پرندے بھی ایسے ہیں جن کوانسان کی اچھی آواز بہت پسند ہے اور وہ جمع ہوجاتے ہیںلیکن قرآن کا لہجہ اس بارے میں کسی عام طرح کے واقعہ کی نشاندہی نہیں کرتا ۔
مثال کی طور پر قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَسَخَّرْنَامَعَ دَاوُوْدَالْجِباَلَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ )(١)
''اور ہم نے داوئو د کے ہمراہ پہاڑ اور پرندوں کو بھی تسخیر کرلیا کہ (خداکی )تسبیح کریں''۔
کیا یہ تعبیر آواز کے مر تعش ہونے سے میل کھاتی ہے ؟''والطیر''یعنی''وسخرناالطیریُسَبِّحْنَ ، (وَکُنَّافَاعِلِیْنَ )اس بات کی مزید تاکید ہے کہ اس کام کو ہم نے (یعنی خدا نے) انجام دیا۔ اگر یہ ایک عام واقعہ تھا تو (وکنا فا علین )کی ضرورت نہیں تھی۔
دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَلَقَدْ اٰتَیْنَادَاوُدَمِنَّا فَضْلا ًیَٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہُ وَالطَّیْرَوَاَلَنَّالَہُ الْحَدِ یْدَ۔اَنِ اعْمَلْ سَابِغَٰاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ۔۔۔ )(٢)
''اور ہم نے یقیناً داود کو اپنی طرف سے بزرگی عنایت کردی کہ اے پہاڑ و ںاور اے پرند وں ان کے ہم آواز ہوجائو اور ان کے واسطے لو ہے کو نرم کردیا تھا اور ان کو حکم دیا کہ فراخ وکشادہ زرہیں بنائو اور (کڑیوں کے ) جوڑنے میں اندازہ کا خیال رکھو ۔۔۔''۔
یہ بھی بہ ظاہر آواز کا قدرتی ارتعاش نہیں ہے البتّہ یہ تمام چیز یں انھیں نبوت ثابت کرنے کیلئے نہیں عطا کی گئی تھیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے کرامات
١۔حضرت سلیمان علیہ السلام کوایک معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ آپ پرندوں کی باتوں کو سمجھ لیتے تھے:
..............
١۔سورئہ انبیاء آیت٧٩ ۔
٢۔سورئہ سبا آیت ١٠ ۔١١ ۔
(وَوَرِثَ سُلَیْمَٰانُ دَاوُدَ وَقَالَ یَااَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِوَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ۔۔۔)(١)
''سلیمان داود کے وارث ہوئے اور کہا لوگوہم کو پرندوں کی بولی بھی سکھائی گئی ہے اور ہمیں (دنیا کی)ہرچیز عطا کی گئی ہے''۔
شاید اس آیت سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ حضرت داود بھی ایسے ہی تھے کیو نکہ آیت میں (عُلَّمْنَا )کہا گیا ہے جو جمع کا صیغہ ہے اور(عُلِمْتُ )نہیں ہے۔
٢۔اور ان آیات سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ جانوروں کی زبان کا جاننا صرف پرندوں تک محدود نہیں تھا بلکہ دوسرے حیوان بھی شامل ہو جا تے تھے چو نکہ حضرت سلیمان علیہ السلام چیونٹیوں کی آواز بھی سن سکتے تھے:
(یَااَیُّھَاالنَّمْلُ ادْخُلُوْامَسَٰکِنَکُمْ ) (٢)
''اے چیو نٹیوںاپنے اپنے سوراخوں میں گھس جائو''۔
حضرت سلیمان نے اسکو سنا اور سمجھ لیا :
(فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًامِنْ قَوْلِھَا۔۔۔ )
'' پس سلیمان اس کی بات سن کر ہنس پڑے۔۔۔''۔
٣۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک معجزہ یہ تھا کہ خدا وند عالم نے آ پ کے لئے ہو ا کو مسخّر کر دیا تھاکہ آپ جس جگہ چا ہتے تھے ہو ا آپ کے حکم سے آپ کے تخت کو اٹھا کر لیجاتی تھی لیکن معجزہ کا انکار کر نے والے کہتے ہیںکہ یہ ایک طرح کا ہو ائی جہاز تھا جو اس زمانہ میں بنا یا گیا تھا لیکن قر آ ن کریم کے لہجہ سے ایسا نہیں لگتا :
(وَلِسُلَیْمانَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْروَرَوَاحُھَٰا شَھْر )(٣)
''اور ہم نے ہوا کو سلیمان کا تابع بنا دیا تھا وہ ایک صبح میں ایک مہینہ کی (مسافت )طے کرلیتے تھے اور رات میں بھی ایک مہینہ کی راہ طے کرتے تھے''۔
اسی سلسلہ کی ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے :
(فَسَخَّرْنَالَہُ الرِّیْحََ تَجْرِیْ بِاَمْرِہِ رُخَائً حَیْثُ اَصَابَ )(٤)
..............
١۔سورئہ نمل آیت ١٦۔
٢۔سورئہ نمل آیت١٨۔١٩۔
٣۔سورئہ سبا آیت ١٢۔
٤۔سورئہ ص آیت ٣٦۔
''پس تو ہم نے ہوا کو ان کا تابع کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے تھے ان کے حکم کے مطابق دھیمی چال سے چلتی تھی''۔
٤۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک اور معجزہ تھا کہ خداوند عالم نے ان کے لئے تا نبے کا ایک چشمہ ظاہر کردیا تھا گویا تانبہ پگھلانے کی صنعت ان کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے خداوند عالم فرماتا ہے :
(وَاَسَلْنَالَہُ عَیْنَ الْقِطْرِ )
''اور ہم نے ان کیلئے تانبے (کو پگھلا کر اس)کا چشمہ جاری کردیا تھا ''۔
٥۔اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک اور معجزہ یہ تھا کہ جن اور شیا طین ان کے قبضے میں تھے قرآن کریم فرماتا ہے :
(وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہِ وَمَنْ یَزِغْ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَانُذِ قْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ )(١)
''اوردیو کی ایک جماعت ان کے پروردگار کے حکم سے ان کے کام (کاج )کرتی تھی اور ان میں سے جس کسی نے ہمارے حکم سے انحراف کیا اسے ہم آگ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے''۔
اورپھر اس کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ جنات کیا کیاکام کرتے تھے :
(یَعْمَلُوْنَ لَہُ مَایَشَائُ مِنْ مَحَارِیبَ وَتمَٰثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَواب وَقُدُوْرٍ ٍرَاسِیَاتٍ)(٢)
''سلیمان جو کچھ بنوانا چاہتے یہ جنّات او نچے محل اور مجسمے اور حوض کے برابر پیالے اور (بڑی بڑی) دیگے بنادیتے تھے ''۔
اس آیت سے بہ ظاہر پتہ چلتا ہے کہ محل وغیرہ کی سجاوٹ کیلئے تصویر وغیرہ ۔۔۔بنا تے تھے ۔
اسی سلسلہ کی دوسری آیت میں آیا ہے :
(۔۔۔وَالشَّیَٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّائٍ وَغَوَّاصٍ۔ وَآخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِیْ الاَصْفَٰادِ)(٣)
''اور دیو کو ان کمے قابو میں کردیا جو عمارت بنانے والے اور غو طہ لگانے والے تھے اور اس کے علاوہ بھی دوسرے
دیوئو ں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑ ے ہوئے تھے''۔
..............
١۔سورئہ سبا آیت١٢۔
٢۔سورئہ سبا آیت١٣۔
٣۔سورئہ ص٣٧۔٣٨۔
اصحاب کہف
غیر نبی کیلئے ظاہر ہو نے والی کرامت میں سے ایک اصحاب کہف کا واقعہ بھی ہے جو ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ان لو گوں کے لئے جو پیغمبر بھی نہیں تھے خداوند عالم نے ان کو تین سو سال گہری نیند سلا دیا اور پھر ان کوبیدارکیاو۔۔۔''۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی کبھی غیر معمولی واقعات انسان کے اراد ہ کے تابع نہیں ہوتے یعنی ضروری نہیں ہے ہمیشہ غیرمعمولی کام انسان کے ارادے اور اختیار سے ہی انجام پائیں بلکہ ممکن ہے فرشتوں کے ارادہ سے انجام پائیں البتہ اس میں انسان کے ارادہ کی بھی نفی نہیں کی گئی ہے لیکن اصحاب کہف کا واقعہ اس طرح ہے کہ خود انھوں نے تین سو سال سونے کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ کچھ دیر آرام کے بعد دوبارہ اپنے راستہ پر آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن خود ان کے یا کسی دوسرے انسان کے چاہے بغیر خداوند عالم نے ان کو تین سو سال سلا ئے رکھا :
عقلی نکتہ
یہاں پر نامناسب نہ ہوگا اگر ایک عقلی نکتے کی طرف اشارہ کردیا جائے :
غیر معمولی واقعات جب کسی انسانی نفس سے منسوب ہوں تو ہم اس وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وجود فلاں موجود کو متا ثر کرنے کرنے یا وجود میں آنے کا ذریعہ بنا ہے اور چونکہ اس کا بدن سے تعلق ہے اس میں مادی شرطیں پائیں جاتی ہیںلیکن جب تقریباً کسی غیر مادی علّت سے منسوب ہو تو یہ سوال پیش آتا ہے کے مجرد تام کی نسبت تمام چیزوں اور تمام جگہوں سے ایک ہوتی ہے تو کیسے ایک مجرد تام بہ درجہ کوئی مخصوص مادی واقعہ کسی جگہ ایجاد کر سکتا ہے ؟ یہ وہ اعتراض ہے جن کا فلسفہ اور معجزات کا عقلی تجزیہ کر نے والوں کو سامنے کرنا پڑ تا ہے اس کے جواب میں وہی بات کہدینا کافی ہے جو خود فلسفہ تمام عادی امور میں دیتے ہیں اور وہ یہ ہے :کوئی بھی مادہ جب (وجود کیلئے ) تیار ہوجاتا ہے عقل وفعّال کے ذریعے اس کو صورت دی جاتی ہے وقت اور جگہ سے اس کا مخصوص ہونا یہ قابل استعداد پر منحصر ہے فاعل کی تاثیر نہیں ہے۔اصحاب کہف کے اندر یہ استعدادجو پیدا ہوئی تھی اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سی استعدادتھی لیکن ان کے اندر کچھ ایسے حالات کا پایا جانا کہ جن کا تقا ضا اس طرح کا تھا طے ہے تو معلوم ہوا کہ اس کا فاعل کسی مجرد تام کو مان لے جو ان موجودا ت کا باعث ہوا ہو لیکن اس کا ان افراداور اس زمان سے مخصوص ہونا خود فا عل کی طرف سے ہو تو ان کے ما بین کوئی منافات نہیں پائی جاتی۔
نتیجہ
اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غیر معمولی واقعات خواہ وہ علم کی صورت میں ہوں ،خواہ فرشتوں کے تکلّم یا مخصوص افعال کا نتیجہ ہو انبیاء علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہیں اور نہ ہی مقام اور نبوت کے اثبات سے مخصوص ہیں۔عقل کی بنیاد پر جو بات ضروری ہے وہ یہ کہ جب کسی پیغمبرکی نبوت کا اثبات معجزہ پر موقوف ہو تو معجزہ دکھلا یا جانا چاہئے تا کہ حجت تمام ہوجائے لیکن تمام مقامات پر یہ ایک طرح کا خدا کا فضل اور لطف ہے اور جب بھی اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے تو وہ ایک غیرمعمولی کام معجزہ یا کرامت کی صورت میں انجام دیدیتا ہے۔
|