معجزہ کا دائر ئہ حدود
معجزہ کے سلسلہ میں ایک یہ مسئلہ بیا ن کیا جاتا ہے کہ کیا معجزہ پیغمبر کی نبوّت کے اثبات سے مخصوص ہے یا معجزہ کا دائرہ نبوّت کے اثبات سے عام ہے ؟یعنی وہ غیر معمولی امور کہ جن کو قرآن نے معجزہ کے عنوان سے بیان کیا ہے آیا وہ ان امور سے ہی مخصوص ہے جو کسی پیغمبر کو اس کی نبو ت کے اثبات کے لئے دیا گیا ہے یا ان مقامات سے مخصوص اور منحصر نہیں ہے ؟
قرآن کریم میں معجزہ کے واقعات کی تحقیق وجستجو سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ معجزہ صرف نبوت کے اثبات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی نبوت کے اثبات کے علاوہ بھی معجزے دکھلائے ہیںاور انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے خاصان خدا نے بھی خداوند عالم کی عطا کردہ طاقت وقوَت کے ذریعہ معجزات دکھلائے ہیںاور دنیا میں ایسے بھی واقعات رو نما ہوئے ہیں جو ایک انسان کے بس کی بات نہیں ہوسکتے لیکن قدرتی اصولوں کے خلاف محض ارادہ الٰہی کے تحت عالم فطرت سے مافوق بنیادوں پر رو نما ہوئے ہیں ۔ منجملہ خود انسان کی پیدائش، قرآن کریم کی رو سے، قوانین فطرت کے مطابق نہیں تھی ۔یعنی ایسا نہیں تھا کہ مادہ نے مخصوص حالات سے گزرنے کے بعد خود بخود انسان کی شکل اختیار کرلی ہو۔قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کا واقعہ ایک غیرمعمولی امر کی صورت میں بیان ہوا ہے اور اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلقت کا واقعہ اور کچھ دوسرے واقعات بھی ہیں جن کی طرف ہم اشارہ کرینگے۔یہ سب اثبات نبوت کے لئے معجزہ کے عنوان سے بیان نہیں کئے گئے ہیں ۔لہٰذا بنیادی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی خلقت ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔قوانین فطرت کے بر خلاف ہواہے اسی طرح دوسرے انسان با وجودیکہ اپنے سے پہلے انسانوں کے ذریعہ پیدا ہوئے اور بعد میں پیدا ہونے والوں انسانوں کے لئے ایک قانون فطرت فراہم آگیا لیکن پھر بھی کبھی کبھی اسی قانون آفرینش میں بعض غیر معمولی واقعات بھی وجود میں آئے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادی اسباب وعوامل کے بغیر غیر معمولی طور پر خلق ہوئے۔اسی طرح نبوت کی بنیاد بھی ایک غیر معمولی امر ہے یہ کہ ایک انسان پر وحی ہواور اس کو علم عطا کردیا جائے ایک غیر معمولی واقعہ ہے دینوی اسباب اس بات کے متقاضی نہیں ہوتے کہ ایک انسان کسی مافوق ذات سے اس طرح کا رابطہ نبی کے عنوان سے بر قرار کرے۔در حقیقت خود نبوت قوانین فطرت سے الگ ایک غیر معمولی امور کا ایک سلسلہ ہے جو عذاب کی شکل میں مختلف قوموں پر نازل ہوا اور وہ بھی نبوت کے اثبات کے لئے نہیں تھا۔جیسے حضرت نو ح نے ایک ہزار سال کے بعد خدا وند عالم سے اپنی قوم پر عذاب نا زل کرنے کی دعا فرمائی اور خدا وند عالم نے عذاب نازل کیا اور وہ سب کے سب نیست و نا بود ہو گئے ۔ یہ واقعہ بھی نبوت کے اثبا ت کے لئے معجزہ کی صو رت میں نہیں تھا ۔ بلکہ ایک عذاب الہٰی تھا جو ظا ہراً قدرتی اسباب و عوا مل کے تحت نہیں تھا۔ کیو نکہ اس با رے میں قر آ ن کریم کے لہجے سے لگتا ہے کہ یہ ایک غیر معمو لی واقعہ تھا ۔ اسی طرح قوم عاد،قوم ثمود ،قوم لوط اوردو سری قو مو ں پر جو عذاب نازل ہو ئے یہ سب غیر معمولی انداز میں واقع ہو ئے ہیں یعنی ملائکہ نازل ہو تے عذاب نازل کر تے اور قوم نیست و نا بود ہو جایا کرتی تھی یہ سب واقعات بھی نبو ت کے لئے نہیں تھے۔بلکہ سر کشو ں اور کا فروں کا فیصلہ کر نے کے لئے تھے یہ سب عذاب استیصا ل تھے اوراصو لی طور پر قرآ ن کریم میں عذاب کی جن قسمو ں کو عذاب استیصال کے نام سے بیان کیا گیا ہے وہ سب غیر معمو لی عذاب ہیں جو بہر حال نبو ت کو ثابت کر نے کی غرض سے نہیں تھے۔
اسی طرح جو عذاب تنبیہ کے طور پر کسی قوم یا جماعت پر نازل ہو تے تھے اور وہ سب کے لئے نہیں ہو تے تھے ان کے بھی غیر معمو لی طور پر نازل ہو نے کا امکان پایا جا تا ہے جیسے بنی اسرائیل کے بعض لو گو ں کا بندر اور سُور میں تبدیل ہو نا ( وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَةَ وَالخَنَا زیرَ)''اور ان میں سے کسی کو (مسخ کر کے )بندر اور (کسی کو ) سور بنا دیا ''یہ بھی غیر معمو لی امو ر ہیں جو نبو ت کے اثبات کے لئے نہیں ہیں۔
ان کے علا وہ بھی واقعات ہیں جو قرآ ن کریم میں بہت بڑی تعداد میں مو جو د ہیں جو خاص نو عیت کے غیر معمو لی واقعہ کی نشاندہی کر تے ہیںلیکن نبوت کو ثابت کر نے کے لئے نہیں پیش آ ئے ہیں۔حضرت زکریا کا بوڑھاپے میں صاحب او لا د ہو نا ،اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کاصاحب فر زند ہو نا وغیرہ ۔
اس طرح کے امور کبھی کبھی بعض مومنین کے ایمان پختہ کرنے کیلئے ہوتے تھے اور کبھی دوسری مصلحتوں کو مدّ نظر رکھکر انجام پا تے تھے۔
حتی معجزہ کا دائرہ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے افراد نے بھی معجزات دکھائے ہیں ۔قرآن کریم میں بہت سے ایسے غیر معمولی امور کا ذکر ہے جو انبیائے کرام سے مخصوص نہیں ہیں ۔خاص طور سے وہ علوم جو بعض افراد کو عطا کئے گئے یا وہ الہامات جو بعض افراد پر کئے گئے سب غیر عادی رہے ہیں۔
لہٰذا اس سوال کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ معجزہ کا دائرہ صرف ایسے غیر معمولی امور سے مخصوص نہیں ہے جو نبوت کو ثابت کرنے کے لئے انجام دئے جاتے ہیں ۔
اب ہم ان میں سے بعض معجزاتی واقعات بیان کرتے ہیں :
اگر ہم مختلف قوموں پر نازل شدہ عذاب کی تحقیق و جستجو کرنا چاہیں تو بحث طولانی ہوجا ئیگی کیونکہ قرآن کریم میں اس طرح کے مسائل جگہ جگہ تکرار کے ساتھ بیان ہوئے ہیں کہ کس قوم پر کو نسا عذاب نازل ہوا ہے اور یہ بحث انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کی تاریخ کے موضوع سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔لہٰذا ہم ان کو یہاں بیان نہیں کرینگے جو مخصوص اشخاص کے لئے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیںیا انبیاء علیہم السلام کے ان معجزوں کو بیان کریں گے جو نبوت کے اثبات کے لئے قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئے ہیں :
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان دو نشانیوں کے علاوہ جو آپ کو اپنی نبوت کے اثبات کیلئے عطا کی گئیں تھیں بنی اسرائیل کے مصرسے نکل جانے اور فرعونیوں کے چنگل سے نجات پانے کے بعد بھی بہت سے معجزے ظاہر ہوئے جن کو قرآن کریم نے نبو ت کی بنیاد بنایا ہے :
الف :ان کا سب سے پہلا مسئلہ دریا کو پار کر نا تھا :قر آن میں ارشاد ہو تا ہے :
( وَجَٰوَزْنَابِبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ الْبَحْرَ۔۔۔)(١)
''اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار کر دیا ''۔
جب بنی اسرائیل نے مصر کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا تو رات کے وقت کھلے اور ایک بڑے دریا کے کنا رے پہنچے جس کو انھیں پار کر نا تھا ۔ تو خدا وند عالم نے دریا کو خشک کر دیا اور بنی اسرائیل اس سے گزر گئے اور یہ کام نبوت کے اثبات کے لئے نہیں تھا اس لئے کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی نبوت بنی اسرائیل پر ثابت ہو چکی تھی اور فر عو نیو ں نے آپ کی نبوت کو مانا ہی نہیں تھا ۔ایسی صورت میں معجزہ کی کو ئی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ معجزہ رو نما ہوا اور دریا خشک ہو گیا ۔
ب:بنی اسرائیل طویل راستہ چلنے کی وجہ سے پیاس سے جاں بلب تھے اور پانی میسر نہیں تھا تو حضرت مو سیٰ
..............
١۔سو رئہ اعراف آیت ٣٨ ١۔
نے خدا وند عالم سے اپنی قوم کیلئے پانی کی درخواست کی تو آواز قدرت آ ئی اے موسیٰ علیہ السلام اپنا عصا ایک پتھرپر مارو تا کہ اس سے بنی اسرائیل کے نبیو ں کی تعداد کے مطابق بارہ چشمے جاری ہو ں چنا نچہ اس واقعہ کے بعد سے وہ اس پتھر کو اپنے ساتھ اٹھا کر چلتے تھے جہاں پر بھی ان کو پیاس لگتی تھی اسی عمل کو انجام دیتے تھے ۔اس بارے میں قرآن کریم فر ماتا ہے :
(۔۔۔وَاَوْحَیْنَا اِلَیٰ مُوسَیٰ اِذِاسْتَسْقٰہُ قَومُہُ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَا کَ الحَجَرَ فَاَنْبَجََسَتْ مِنْہُ اثْنَتَاعَشْرَةَ عَیْناًقَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ ۔۔۔) (١)
''اور جب مو سیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان سے پا نی مانگا تو ہم نے ان پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو (پس ) اس پتھر سے (پا نی کے )بارہ چشمے پھو ٹ نکلے اور ہر قبیلہ نے اپنا چشئمہ آب پالیا ''۔
ج:بنی اسرائیل بیا بان میں گرمی کی شدت سے پریشان تھی تو خدا وند عالم نے ان پر سا یہ کے لئے بادل کے ایک ٹکڑے کو معین فر مادیا کہ وہ ان کو آفتاب کی تمازت سے بچائے۔قرآن کریم میں یہ بات کئی مقامات پر بیا ن ہوئی ہے منجملہ سورئہ بقرہ (آیت ٧ْ٥)میں ہے (وَظَلّلْنَا عَلَیکُمُ الْغَمَامَ۔) (اور ہم نے بنی اسرائیل پر ابر کا سایہ کیا )اور یہ کوئی عام با ت نہیں تھی بلکہ یہ غیر معمولی کام خدا وند عالم کے خاص ارادہ سے واقع ہوا تھا کہ بنی اسرائیل آفتاب کی تمازت سے پریشان نہ ہوں۔
د: چنانچہ بنی اسرائیل (جیسا کہ روایات میں ہے کہ خود بنی اسرائیل کہا کر تے تھے کیو نکہ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کو دھو کہ باز اور ضدی قوم کے عنوان سے تعارف کرایا ہے۔وہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے احکام کی ٹھیک سے اطاعت نہیں کر تے تھے اور دین کے احکام کو جیسا چاہئے تھاقبول نہیں کر تے تھے )نے یہ تجویز رکھی کہ واقعاًیہ احکام خدا وند عالم کی طرف سے ہیں تو اس پہا ڑ کو اس کی جگہ سے ہٹا دیجے ٔاور ان کی یہ درخواست قبو ل بھی ہو ئی :
(وَاِذْنَتَقْنَاالْجَبَلَ فَوْقَھُمْْ کَاَنَّہُ ظُلَّة وَظَنُّوْااَنَّہُ وَاقِع بِھِمْ۔۔۔ )(٢)
''جب ہم نے ان (کے سروں )پر پہاڑ کو چھت کی طرح لٹکا دیا اور وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ان پر ابھی گر پڑے گا ''۔
البتہ بنی اسرائیل حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم کر تے تھے لیکن بہانہ بازی کیا کر تے۔
ر: جس بیا بان میںبنی اسرائیل کچھ مدت تک مقیم رہے وہاں (منّ و سلوی ) کا نزول بھی شاید ایک غیر معمولی
..............
١۔سورئہ اعراف آیت ١٦٠ ۔
٢۔سورئہ اعراف آیت ١٧١ ۔
طریقہ تھا (کیو نکہ بیابان میں سکو نت اختیار کر نے کی وجہ بھی خدا وند عالم کے حکم سے نا فر مانی بنی تھی۔خدا نے حکم دیا تھا کہ شہر میں دا خل ہو کر وہاں کے کا فرو ں سے جنگ کریں ایک بنی اسرائیل نے بھی نہیں مانا اور کہنے لگے موسیٰ علیہ السلام تم اور تمہا را خدا جا ئے ان سے جنگ کرے او ر ان کو شہر سے با ہر کر دے ہم اس کے بعد شہر میں داخل ہو نگے:
(فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَا تِلَا اِنَّا ھَٰھُنَا قَا عِدُوْنَ )(١)
''تم اور تمہارا خدا (جا ئے )اور دو نوں (جا کے )لڑو ہم تو یہیں جمے بیٹھے ہیں''۔
خداوند عالم کے اس حکم کی مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ خداوند عالم نے حکم دیدیا کہ چایس سال تک اسی بیابان میں زندگی بسر کریں ۔
(اربعین سنة یتیھون فی الارض)و ہ چالیس سال تک مصر کے جنگل میں بھٹکتے رہے صبح کے وقت چلنا شروع کرتے اور چلتے رہتے تھے پھر عصر کے وقت یہ دیکھتے تھے کہ جہاں پر صبح کے وقت تھے اب بھی وہیں پرہیں (البتہ قرآن میں اسکا ذکر نہیں ہے ) اور حضرت موسی علیہ السلام بھی اسی چالیس سال کی مدّت کے دوران دنیا سے کوچ کر گئے ۔اس دوران انھوں نے جب خشک بیابان میں کھانے کی فرمائش کی تو خداوند عالم نے ان پر منّ وسلوی( ٢) نازل کیا ۔
قرآن کریم کے ظاہر کلام سے پتہ چلتا ہے کہ (من و سلوی ) کا نزول ایک غیر معمولی چیز تھی، جولوگ معجزوں کے منکر ہیں آسانی سے اس کی تاویل کرسکتے ہیں جیسا کہ کہا بھی ہے : منّ ایک مخصوص گھا س تھی جس سے ایک خاص قسم کا عرق نکلتا تھا اور سلوی بھی ایک قسم کا پرندہ تھاجو اسی جگہ پر ہوتا تھا وہ لوگ اسی گھاس اور پرندوہ کو کھایا کرتے تھے لیکن ظاہر قرآن سے لگتا ہے منّ سلوی کا نزول بھی ایک غیر معمولی طریقے سے ہوتا تھا لیکن ہم کو اس بات پرزیادہ اصرار نہیں ہے چونکہ صاف طور پر بیان نہیں ہوا ہے لہٰذا ہم نے احتمال کے طور پر لکھا ہے کہ(منّ سلوی ) بھی شاید غیر معمولی طریقہ سے نازل ہوتا تھا ۔
بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ایک سلسلہ ہے جو ان کے ہا تھوں بنی اسرائیل کے لئے ظاہر ہوا ہے حالانکہ آپ کی نبوت ثابت ہوچکی تھی اور اپنی نبوت کو ثابت کرنے کیلئے معجزہ دکھلانے کی ضرورت نہیں تھی ۔
..............
١۔سورئہ ما ئدہ آیت ٢٤۔
٢۔من و سلوی کے مختلف معنی ہیں لیکن مشہور ومعروف یہ ہیں کہ (منّ) تر نجین کو کہتے ہیں اور ( سلوی ) بھنا ہوا گو شت یا (تیتر یا بٹیر ) کے مانند پرندہ ہوتے تھے جنکا وہ شکار کرتے تھے اور ذبح کر کے کھا جاتے تھے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دستر خوان کا وا قعہ ہے جس کا سورئہ ما ئدہ میں ذکر ہے اور اسی مناسبت سے اس سورہ کانام مائدہ (خوان )رکھا گیا ہے اور یہ نبوت کو ثابت کر نے کیلئے نہیں تھا کیونکہ حوار ئین، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے اور آپ کے شاگرد تھے ایک دن ان کے ذہن میں آیا کہ اس طرح کی فرمائش کرنا چاہئے اور انھوں نے کھانے کے لئے حضرت عیسیٰ سے آسمان سے خوان نازل ہونے کی در خواست کردی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی یہ پیشکش قبول کرلی اور خداوند عالم کے حضور دعا مانگی تو خداوند عالم نے اس طرح کا خوان نازل فرمایا اور سب نے کھا یا ۔ یہ بالکل واضح سی بات ہے یہ ایک غیر معمولی بات تھی حضرت عیسیٰ کی درخواست پر آسمان سے خوان نازل ہوا جبکہ یہ نبوت کے اثبات کیلئے نہیں تھا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات
الف :حضرت ابراہیم علیہ السلام بو ڑھے ہوچکے تھے اور حالانکہ آپ کے کوئی اولاد نہ تھی آپ خود بھی بہت بوڑھے ہوگئے تھے اور آپ کی زوجہ (سارہ ) بھی با نجھ تھیں۔جس وقت قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کی غرض سے فرشتے نازل ہوئے وہ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے چونکہ حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی تھے اور آپ کی ہی طرف سے تبلیغ کرتے تھے اور حضرت لوط نبی تھے لیکن حضرت ابراہیم کی (شریعت کی )اتباع کرتے تھے(١)۔
ملائکہ ابتدا ء میں انسانوں کی شکل میں ظاہر ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خیال کیا کہ آپ کے پاس مہمان آئے ہیں آپ نے ان کی مہمانی کیلئے گوسفند ذبح کرکے حاضر کر نے کا حکم دیا جب کھانالگایا گیا تو انھوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا اور عام رواج میں یہ چیز بہت معیوب سمجھی جاتی تھی کہ کسی کے گھر مہمان آئے اور میزبان اس کے سامنے کھانا لگا ئے اور مہمان کھا نا کھانے سے پرہیز کرے اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو دشمنی اور کینہ کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ لوگ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو پریشان ہوگئے کہ کیا
..............
١۔بعض انبیائ، رسول اور صاحب شریعت ہیں (اگر چہ تمام رسول بھی صاحب شریعت نہیں ہیں)اور دوسرے انبیاء (چاہے وہ ایسے زمانے میں ہو ںیا بعد والے زمانے میں )صاحب شریعت نبی کے تابع ہوتے ہیں چنانچہ حضرت لوط حضرت ابراہیم کی شریعت کے تابع تھے ۔
بات ہے کھانا کیوں نہیں کھاتے ؟ انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیرت کو دور کرنے کیلئے کہا کہ ہم خداوند عالم کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور شہر لوط کو زیر وزبر کرنے کیلئے آئے ہیں۔اسی موقع پر انھوںنے حضرت ابراہیم کو یہ اطلاع دی کہ خداوند عالم آپ کو دو بیٹے عطا کرے گابعض آیات میں ایک بیٹے کا ذکر ہے اوربعض دوسری آیات میں دوبیٹوں کاتذکرہ ہے لیکن زیادہ ترآیات میں صرف حضرت اسحٰق علیہ السلام کا تذکرہ ہے ۔ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ بشارت دی تو آپ کی زوجہ آپ ہی کے پاس تھیں جب انھوں نے سنا:
(فَاَ قْبَلَتِ امْرَأَتُہُ فِی صَُّرَّةٍ فَصَکَّتْ وَجْھَہَا وَقَالَتْ عَجُوْزعَقِیْم )
''تو ابراہیم کی بی بی چلاتی ہوئی انکے سامنے آئیں اور اپنا منھ پیٹ لیا اور کہنے لگیں ایک تو (میں) بڑھیا (اس پر ) بانجھ لڑکا کیونکر ہوگا ''۔
یہ عورتوں کی عادت ہے کہ کسی تعجب خیز واقعے کے وقت وہ گلا پیٹتی ہیں اس آیت میں مکمل طور پر اس کی منظر کشی کردی گئی ہے (فَصَکَّتْ وَجْھُھَا)اپنے گال پیٹ کر کہا میں صاحب اولاد ہونگی؟ ملائکہ نے کہا (کذلک قال ربک)آپ کے رب نے یو نہی فر ما یا ہے آپ صاحب اولا د ہونگی؟ (فَبَشّرَنَاھَابِاِسحَٰقَ وَ مِنْ وَرَاء اِسْحَٰقَ یَعْقُوْبَ ) مقصود یہ ہے کہ یہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔سارہ بھی بانجھ تھیں اور خود حضرت ابراہیم بھی بوڑھے ہوچکے تھے شاید اس وقت آپ کی عمر سو سال ہوگی اسی حالت میں خدانے آپ کو صاحب اولاد ہونے کی بشارت دی۔(١)
ب ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرودیوں کی آگ سے نجات دینے کا واقعہ بھی بہ ظاہرنبوت کے اثبات کے لئے نہیں تھا کیونکہ یہ مسئلہ ثابت ہوچکاتھا اس کے بارے میں بحث کرچکے تھے اورا گرحضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی نبوت کے اثبات کے لئے معجزہ دکھانا لازم تھا تو آپ معجزہ دکھلا چکے تھے اوراور حضرت براہیم علیہ السلام کو آگ میںڈالنے کی ضرورت کہ خدا وند عالم حضرت ابرا ہیم کی پیغمبری کے اثبات کے لئے ان کو آگ سے نجات دے
..............
١۔سورئہ انبیاء آیت ٦٩۔یہ بشارت کا واقعہ قر آن کریم میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے منجملہ :سورئہ ہود آیت ٧١۔٧٣، سورئہ حجر آیت ٥٣۔٥٥، سورئہ والذاریات آیت٢٨۔٣٠۔
نہیں رہ گئی تھی ۔ بظاہر یہ بھی نبوت کو ثابت کر نے کے لئے نہیں تھابلکہ یہ منجانب اﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ایک کرامت تھی۔اگر چہ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ خداوند عالم اس کے ذریعہ ان کو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پیغمبر ہیں۔اس واقعہ کا بھی قرآن کریم میں بہت زیادہ تذکرہ ہے منجملہ ارشاد ہوتا ہے :
(قُلْنَایَانَارُکُوْنِی بَردًاوَسَلَاماً عَلَٰی اِبرَاہِیْمَ )(١)
''تو ہم نے کہا اے آگ تو ابراہیم پر با لکل ٹھنڈی اور سلامتی کا باعث بن جا (کہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے''
ج:حضرت ابراہیم کے ذریعہ پرندوں کے زندہ ہونے کا واقعہ بھی ہے جب آپ نے خداوند عالم سے درخواست کی تھی کہ اے پروردگار :
(رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَیٰ)(٢)
''اے میرے پروردگار مجھے دکھادے کے تو مردے کو کیونکر زندہ کرتا ہے''۔
حکم ہواابراہیم چارپرندوںکوذبح کرکے ان کے گو شت الگ الگ مقام پر رکھدو۔۔۔اور پھر ان کو آواز دواور جب آپ نے ان کو آواز دی تو وہ زندہ ہوگئے۔یہ بھی نبوت کے اثبا ت کے لئے نہیں تھا کیونکہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ شاید آپ کے پاس اور کوئی نہیں تھا ایک بیابان میں جہاں آپ کے (اردگرد ) دسیوں پہاڑ پھیلے ہوئے تھے آپ نے یہ کام انجام دیا ممکن ہے کسی اور نے دیکھا بھی نہ ہو ۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی کرامت
انبیاء علیہم السلام سے ظاہر ہونے والی کرامات میں سے حضرت زکریا کا واقعہ بھی ہے جس کاقرآن کریم نے دو مقامات پر ذکر کیا ہے ارشاد ہے :
(ذِکْرُرَحْمَةِ رَبِّکَ عَبْدَہُ زَکَرِیَّا)(٣)
''یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی کا ذکر ہے جو(اس نے )اپنے بندہ زکریا کے ساتھ کی تھی''۔
حضرت زکریا علیہ السلام بہت بوڑھے ہوچکے تھے جیسا کہ قرآ ن کریم میں خود جنا ب زکریا کی زبانی آیا ہے :
..............
١۔سورئہ انبیاء آیت٦٩۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت٢٦٠۔
٣۔سورئہ مریم آیت ٢۔
(قَالَ رَبِّ اِنِّی وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّی )عرض کی اے میرے پالنے والے میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں۔
(وَاشْتَعْلَ الرَّأْسُ شَیْبًا)''اور سر کے بال اور بھویں مکمل طور پر سفید ہوچکی ہیں''۔
(وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً)اور ان کی بیوی بھی اس وقت تک بانجھ تھیں۔پھر بھی انھوں نے خداوندعالم سے فرزند کی دعا کی اور خدا نے بھی آپ کی دعا مستجاب فرمائی اورآپ کو حضرت یحییٰ جیسا فرزند عطا کیا۔
سورئہ آل عمران میں اس بات کا معمولی تمہید کے ساتھ بڑے لطیف انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔یعنی پہلے حضرت مریم علیہا لسلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ آپ کا بیت المقدس میں ایک حجرہ تھا جس میں آپ عبادت میں مشغول رہا کرتی تھیں۔(١)
حضرت زکریا علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے آپ بیت المقدس کے منتظم تھے ظاہرہے آپ ہی حضرت مریم علیہا السلام کی خبر گیری رکھتے تھے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی روز مرہ کی ضروریات پورا کرے لیکن :
(کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَعِنْدَھَارِزْقاً)(٢)
''جب بھی زکر یا ان کے پاس محراب عبادت میں جاتے تو مر یم کے سامنے غذا مو جود پاتے''۔
یہ بھی ایک کرامت تھی جو ایک غیر نبی کے لئے انجام پائی (جن کا ہم نے یہاں پر اپنے مو ضو ع کی مناسبت سے ذکر کر دیا ہے )جناب زکریا علیہ السلام پو چھتے :
(قَالَ یَامَرْیَمُ اَنَّٰی لَکِ ھَٰذَا)
''اے مریم !یہ (کھا نا )تمہا رے پاس کہاں سے آیا ''۔
(قَالَتْ ھُوَمِنْ عِنْدِاللََٰہِ اِنَّ اللَّہَ یَرْزُقُ مَنْ یَشَآئُ ُبِغَیْرِحِسَا بٍ )
''تو مریم یہ کہہ دیتی کہ یہ خدا کے یہاں سے (آیا )ہے بیشک خدا جس کو چا ہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے ''۔
..............
١۔بنی اسرائیل میں رواج تھا کہ کبھی کبھی اپنی اولاد کو بیت المقدس میں عبادت اور خدمت کے لئے وقف کردیتے تھے حضرت مریم کے باپ نے نذر کی تھی کہ اگر خدا نے ان کو اولاد دی تو وہ اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گے ان کے ذہن میں لڑ کا تھا لیکن جب لڑ کی دیکھی تو کہا (فَلَمّاَ۔۔۔کَالاُنثَٰی) جب اپنے بچہ کو دیکھا تو کہا پرور دگار یہ تو بچی ہے اور خدا بہتر جانتا ہے اس نے کیا پیدا کیا ہے اور لڑکا لڑکی کے مانند نہیں ہے لیکن جیسا کہ نذر کی تھی حضرت مر یم کوبیت المقدس میں لے گئے اور شاید یہ پہلا مو قع تھا کہ ایک لڑکی بیت المقدس میں خدمت اور عبا دت کے لئے لا ئی گئی تھی ۔
٢۔آل عمران آیت ٣٦۔
ایک دو مر تبہ نہیں بلکہ :(کُلَّمَا دَخَل۔۔۔)جب بھی (زکریا ) ان کی محراب عبادت میں جاتے تو مریم کے سا منے غذا مو جو د پا تے ۔یعنی حضرت مریم علیہا لسلام کی روزی آسمان سے نازل ہوا کرتی تھی۔جب حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیہا لسلام کے لئے ان چیزو ں کا مشاہدہ کیا کہ خدا اپنے صالح بندوں پر اسی طرح لطف و کرم کرتا ہے تو آپ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں بھی اپنے خدا سے ایک فر زند کی خواہش کروں اور آپ نے دعا کی :
(ھُنَا لِکَ دَعَاْ زَکَرِیَّا رَبَّہُ )
یہ ماجرا دیکھا اور خدا سے دعا کر بیٹھے بہر حال یہ بھی ایک کرامت ہے جو آپ کو عطا کی گئی تھی ۔
حضرت مریم کی کرامت
(اِذْقَاْلَتِْ الْمَلَائِکَةُ یَامَرْیَمُ اِنَّ اللَّہَ یُبَشِّرُ کِ بِکَلِمَةٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَیٰ ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھاًفِیْ الدُّ نْیَاوَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ )(١)
''(جب فرشتوں نے (مریم سے ) کہا اے مریم !خدا تم کو اپنے کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسی ابن مریم ہو گا اور وہ دنیا وآخرت میں آبرو اور خدا کے مقرب بندوں میں ہو گا ''۔
جس وقت حضرت مریم اپنے حجرے میں عبا دت میں مشغو ل تھیں تو فرشتے نے آپ پر وحی کی (اب حضرت مریم نے اس وقت کو اپنی آنکھو ں سے دیکھا یا نہیں یہ آیت سے پتہ نہیں چلتا) آپ کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا۔
اس کا نام بھی خدا وند عالم نے رکھ دیا ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم ،اور اس کی خصو صیات بھی بیان فر ما دی ہیں کہ وہ بچپن میں لو گو ں سے با تیں کرے گا اور اسکے بعد ایسا ویسا کرے گا :
(وَیُکَلِّمَ النَّاس فِی الْمَھْدِ وکَھلاً وَمِنَ الصَّالِحِیْنَ )
''اور جب وہ جھو لے میں پڑا ہو گا اور بڑی عمر کا ہو جا ئیگا لو گو ں سے با تیں کرے گا اور نیکو کا روں میں ہو گا ''
اس وقت حضرت مریم علیہا السلام نے کہا :
(قَالَتْ رَبِّ اَنَّیٰ یَکُوْنُ لِیْ وَلَد وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَر۔۔۔ )
''میں کیسے صا حب فر زند ہوں گی جبکہ میں نے شا دی نہیں کی ہے اور کسی مرد نے مجھے ہاتھ نہیں لگا یاہے''۔
فرشتو ںنے کہا:(قَالَ کَذَ لِکِ اللَّہُ یَخْلُقُ مَایَشَائُ ۔۔۔)
..............
١۔آل عمران آیت ٤٥۔
''خدا کا یہی فیصلہ ہے کہ آپ صا حب ادلا د ہوں''۔
حضر ت مریم علیہا السلام کے صاحب فرزند ہو نے کی بشارت کا واقعہ بھی غیر معمو لی تھااور اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان (اگر چہ پیغمبر نہ ہو )فرشتوں کے ذریعہ خدا وند عالم کے مخاطب بن سکتے ہیں اور ان پر الہام (یا عام معنی میں ان پر وحی کی جا سکتی ہے۔)
اس کے بعد حضرت مر یم علیہا السلام نے نا گہاں ایک انسان کو اپنی مخصوص محراب عبادت میں جہاں حضرت زکریا علیہ السلام کے علا وہ اور کو ئی نہیں آ سکتا تھا دیکھا جو ایک خو بصورت جوان کی شکل میں ظاہر ہو ا تھا حضرت مریم نے کہا :
(قَالَتْ اِنِّیِ اَعُوذُبِالرَّحْمَٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیّاً )
حضرت مریم علیہا السلام نہیں سمجھ سکیں کہ یہ جوان فرشتہ ہے آ پ نے خیال کیا کہ کو ئی ایسا شخص ہے جوشاید کسی برے قصد سے یہاں پر آیا ہے لہٰذا اس فرشتہ نے کہا :
(قَالَ اِنَّمَااَنَارَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلَاماًزَکِیّاً )
ایک انسان کے سامنے فرشتہ کا ظا ہر ہو نا بھی ایک غیر معمولی بات ہے اور اسکے بعد حضرت مریم علیہا السلام کا اسباب طبیعی کے بغیر صاحب فر زند ہو نا بھی غیر معمو لی واقعہ ہے جو ایک غیر نبی کے لئے رو نما ہو ا ہے۔
|