معجزہ قرآن کی روشنی میں
ہم اس سے پہلے عرض کر چکے ہیں کہ عقلی طور پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ لو گو ں پر حجت تمام کر نے کے لئے انبیا ء علیہم السلام کے پاس خدا کی طرف سے کو ئی نشانی ہو نی چاہئے اسی لئے کہتے ہیں کہ پیغمبر کے لئے صاحب ِمعجزہ ہو نا ضروری ہے ،جب تک اتمام حجت معجزہ پر مو قوف ہو پیغمبر کا صاحبِ اعجاز ہو نا یقینا ضرو ری ہے لیکن اگر اتمام حجت معجزہ پر مو قو ف نہ ہو تو پھر معجزہ کی ضرورت پر کو ئی عقلی دلیل نہیں ہے لہٰذا اجمالی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ انبیاء کوصاحب ِاعجاز ہو نا چا ہیے۔آئیے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معجزہ کے با رے میں قر آن کیا فر ماتا ہے ؟
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جس معنی میں ہم لفظ ِمعجزہ کا استعمال کرتے ہیں قرآ ن میں استعمال نہیں ہوا ہے ، قرآ ن میںلفظ معجزہ یقینی طور پر کہیں نہیں آیا ہے لیکن اس سے ملتے جلتے الفاظ مثلاًلفظ (معجز) آیا ہے لیکن جس معنی میں ہم استعمال کرتے ہیں اس سے وہ معنی مراد نہیں، قرآن میں معجزہ کے بجائے کلمہ (آیت ) استعمال ہوا ہے یعنی قرآن میںبہت سے مقامات پر کلمہ (آیت)سے مراد معجزہ ہے۔قرآنی مفہوم سے آشنائی اور لفظ (آیت ) کے استعمال کی جگہ جاننے کے لئے کہ کن مقامات پر کلمہ ( آیت)معجزہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ہم قرآن میں لفظ آیت کے استعمال کے با رے میں تھوڑی سی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں:
آیت
لغت میںآیت علامت پہچان اور نشانی کو کہتے ہیںخواہ وہ نشانی قابلِ مشاہدہ ہو یعنی آنکھوں میں سما جانے والی ،پرُ کشش اور جاذب نظر ہو اور کسی بات کی علامت یا نشانی ہو خواہ وہ نشانی عقلی ہو۔قرآن کی زبان میں دنیا کے تمام موجودات اﷲ کی نشا نیا ں ہیں۔یعنی ان کے بارے میں غور وفکر کرنے سے انسان خداوند عالم کی ذات اور اس کے صفات علم ، قد رت،حکمت اور عظمت وغیر ہ کی طرف متو جّہ ہوجاتا ہے اور ایک ذرا سی گہری نظر کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ہر چیز کاوجود ''آیت'' ہے۔ کیونکہ وجود ایک رابطہ ہے اور اگر اس کوصحیح طور سے محسوس کیا جائے تو اس کے پرتو میں واجب الوجود خدا کا وجود مشاہدہ کیا جاسکتا ہے دوسرے لفظوں میں چونکہ تمام مخلوقات میں خدا کا جلوہ ہے جو لوگ باطنی بصیرت کے حامل ہیں اور جن کی نگاہوں میں معرفت کی روشنی ہے ان جلووں کے پس منظر میں متجلّی صاحب ِجلوہ کا دیدار کر سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے سب کی آنکھوں میں اتنا دم کہاں ہو سکتا ہے، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
(مارأیتُ شیئاالا ورایت اﷲ قبلہ )
'' میں نے کوئی شئے نہیں دیکھی مگر یہ کہ اس سے پہلے اﷲ کا نظارہ کرلیا '' ۔
قرآن میں کلمہ آیت کے استعمال کے مقامات
آیت کے اس گہرے عرفانی مفہوم سے قطع نظر'' آیت '' کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ انسان اس کے بارے میں سو چتا ہے، اس میں ایک اور وجود کا مشاہدہ کرتا ہے کہ یہ اسی کی ایک نشانی ہے۔ قرآن کہتا ہے :
( وَکَأَیِّنْ َمِّنْ آیَةٍ فِیْ السَّمَٰوَٰتِ وَا لْاَرْضِ یَمُرُّوْن َعلَیْھَاوَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ)(١)
''آسمانوں اور زمین میں کس قدر نشانیاں ہیں جن سے یہ لوگ گذر تے ہیں اور ان سے منھ پھیر ے رہتے ہیں ''۔
یعنی اگر ان موجودات میں ایک ایک کے بارے میں غوروفکر کریں تو خدا کے وجود اور اس کی صفات تک پہنچ جائیںگے لیکن توجّہ نہیں کرتے، منھ موڑ کر گذر جاتے ہیں۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :
( وَجَعَلْنَا السَّمَائَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا وَھُم ْعَنْ آیَا تِھَا مُعْرِضُوْنَ)(٢)
''اور ہم ہی نے آسمان کوایک محفوظ چھت بنایا پھر بھی یہ (کافر )لوگ اس کی نشانیوں سے منھ پھیرے ہوئے ہیں )''۔
یعنی کائنات اور اس کی فضائوں میں پھیلی موجودات کے بارے میں غورو خوض نہیں کرتے کہ ا ن موجو دات کے پرتو میں ان کو پیدا کرنے اور قائم وباقی رکھنے والے پروردگار کو دیکھ سکیں اور اس کی معرفت حاصل کریں ۔
اسی طرح بہت سی آیات میں خداوند عالم نے کائنات کی موجو دات کا ذکر کیا ہے اور ان آیات کے ذیل میں
..............
١۔سورئہ یوسف آیت ١٠٥۔
٢۔سورئہ انبیاء آیت ٣٢۔
کہا ہے :
( اِ نَّ فِیْ ذَ ا لِکَ لَآ یَا تٍ لِقَوْ مٍ یَتَفَکَّرُ وْ ن(َ ،یعَْقِلُْون َ،یُوْ مِنُوْ نَ))
''یعنی اہل فکر،اہل عقل اور اہل ایمان کے لئے ان میں (اﷲکی)نشانیاں ہیں ''۔
لہٰذا اس معنی میں لفظ آیت کا تمام موجودات اور مخلوقاتِ خدا پر اطلاق ہوتا ہے ۔
کبھی قرآن نے ان میں سے موجودات کو خاص طور پر توجہ کا مرکز قرار دیا ہے اور لوگوں کوان پر غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے اور ان سے مخصوص نتائج نکالے اور پیش کئے ہیں چنانچہ سو رئہ یس میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَآیَة لَھُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ اَحْیَیْنَا ھَاوَاَخْرَجْنَٰاھَامِنْھَاحَبّاًفَمِنْہُ یَاکُلُوْنَ)(١)
''او ر ہما ری قدر ت کی ایک دلیل یہ ہے کہ ہم مر دہ زمین زندہ کر دیتے اور اس سے دانہ اُگا تے ہیںپس اسے یہ لوگ کھایا کر تے ہیں ''۔
اسی سور ے کی ایک اور آیت میں ار شاد ہو تا ہے :
(وآیَة لَّھُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّھَارَ فَاِذَاھُمْ مُّظْلِمُوْنَ )( ٢)
''اور ان کے لئے ایک اور دلیل رات ہے جس سے ہم دن (کا اُجالا ) کھینچ لیتے ہیں تو اس وقت یہ لوگ اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں ''۔
پھر ایک اور آیت میں خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے:
(وَآیَة لَّھُمْ اَنَّاحَمََلْنَاذُرِّیَّتَھُمْ فِی الفُلْکِ المَشْحُوْنِ ) (٣)
'' اور ان کے لئے (میری قدرت کی )ایک اور دلیل یہ ہے کہ ان کے بچوں کو (انبار سے ) لدی ہو ئی کشتی میں سوار کر دیا''
یا سورئہ روم میں مخصوص مو جو دات کو بنیاد قرار دیتے ہو ئے فر ماتا ہے :
(وَمن آیاَتہ کَذَا ٠٠٠وَمن آیا تہ کَذَا ۔۔۔) (٤)
..............
١۔سورئہ یس آیت٣٣۔
٢۔سورئہ یس آیت ٣٧ ۔
٣۔سورئہ یس آیت٤١۔
٤۔ سورئہ روم آیت٢١،٢٤۔
وہ مو جو دات کہ جن کے با رے میں اگر انسان فکر کرے تو فو راً پر ور دگار عالم کی طرف متو جہ ہو جاتا ہے ۔ معلو م ہو ا کہ مندر جہ بالا تمام آیات میں جو لفظ ''آیت '' یا ''آیات ''کا استعمال ہوا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ کا ئنات کی یہ تمام مو جو دات خدا وند عالم کی نشاندہی کر تی ہیں یا یہ کہ وہ خدا کی نشانی ہیں ۔
''آیت ''کے مصادیق میں آیات تشریعی (یعنی قرآنی آیات )کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن مفہوم کے اعتبار سے اُن میں فرق نہیں ہے کیو نکہ دو نو ں کے ایک ہی معنی ''نشانی ''ہیں ۔جی ہا ں جو با تیں انبیا ء علیہم السلام پر خدا وند عالم کی جانب سے وحی کی صورت میں نازل ہو ئی ہیں ان کو بھی قر آن نے آیت کہا ہے اس لئے کہ کلام متکلم کی نشاند ہی کر تا ہے ۔کلا م کی خصو صیتیں متکلم کی خصو صیات بتا تی ہیں یہی وجہ ہے اس نے انبیاء علیہم السلام پر جو با تیں وحی فر ما ئی ہیں ان کو اپنی آیات کہا ہے ۔قرآن میں ارشاد خدا وندی ہے :
(ھُوَالَذی اَنزَلَ عَلَیکَ الکتَا بَ منہُ آیات مُّحکَماَت ھُنّّ اُمُّ الکتَابَ وَاُخَرُ مُتَشَٰابِھَا ت )(١)
''(اے رسول )وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی اس میں کی بعض آیتیں محکما ت (صاف و صریح ) ہیں جو تمام آیات کے لئے اصل و بنیا د ہیں او ر بقیہ (آیتیں ) متشابہ ہیں ''۔
ظاہر ہے یہاں آیت سے مراد موجو دات ِعالم نہیں ہیں بلکہ قر آ ن کریم کی یہی تلا وت کی جا نے والی آیات مراد ہیں ۔
سو رئہ بقرہ (آیت٢٥٢) اور سورئہ آل عمران( آیت ١٠٨ )میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
( تِلْکَ آیَاتُ اللَّہِ نَتْلُوْھَا عَلَیْکَ باِلْحَقِّ) (٢)
''اے رسول ) یہ خدا کی آ یتیں ہیں جو ہم حق کے ساتھ آپ پر تلا وت کر رہے ہیں ''۔
یہ آ یت مکمل طور پر دلا لت کر تی ہیں کہ (آیت ) سے مراد کو ئی تلاوت کی جا نے وا لی چیز ہے اور ایسے بہت سے مقا مات ہیں جہاں قرآ ن کے جملوں کو آیت کہا گیا ہے ۔ سو رئہ یو سف کی پہلی اور سو رئہ شعراء نیز سورئہ قصص کی دوسری آ یت میں آ یا ہے :
( تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ المُُبِیْنِ )(٣)
..............
١۔سورئہ آل عمران آیت ٧۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت ٢٥٢۔اورسورئہ آل عمران آیت١٠٨۔
٣۔سورئہ یوسف آیت١۔
''کتاب خدا کی آ یتیں ہیں جو حقا ئق کو آشکار کرتی ہیں ''۔
اور (وَکَذَ الِکَ اَنزَلْنَاہُ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ)
''اور ہم نے اس (قر آن ) کو یو ںہی روشنی بخش آیات کی صورت میں نازل کیا ''۔
قرآ ن میں اس طرح کی تعبیریں بہت زیا دہ ہیں اور سیکڑو ں مقامات ایسے ہیں کہ جہاں پر قرآ ن کے بعض ٹکڑ وں کو آ یت یا آیات سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
قر آ ن کریم میں لفظ آیت کے ان دو نوں طرح کے استعمال کے پیش نظر قر آ ن کریم میں ذکر (آیات الٰہی) کو دو حصّو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
١۔تکوینی یا قدرتی آیات ۔
٢۔تشریعی یا قرآ نی آیات ۔
تشریعی آیات سے مراد خدا وند عالم کا کلام ہے اور تکوینی آیات سے مراد خدا وند عالم کی مخلو قات ہیں لیکن بعض مقا مات پر لفظ آیت خاص معنی میں استعمال ہوا ہے اور وہ ان مخلو قات کے لئے ہے جو عام علل و اسباب کے ذریعہ وجو د میں نہیں آئی ہیں کیو نکہ وہ اپنے پیدا کر نے والے پر ذرا واضح انداز میں دلالت کر تی ہیں ،مو جو دات عام علل وا سباب کے ذریعہ وجو د پاتے ہیں انسان ان سے بہت زیا دہ ما نو س ہو جا نے کی وجہ سے ان کے پیدا کرنے والے کی طرف تو جہ نہیں دیتا لیکن جب کو ئی وجود غیر معمولی طریقہ سے وجود پاتا ہے تو وہ سب کی نظروں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے ۔اس وقت ذہن اپنی عام کیفیت سے نکل آتا ہے اور ایک جھٹکا سا محسوس کرتا ہے ۔معلوم ہوا یہ معنای مخصوص یا خاص مقامات غیر معمولی مخلوقات کی تخلیق یا واقعات سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس بارے میں ہم قرآن سے نمونہ کے طور پر چند مقامات بیان کر دیتے ہیں :
حضرت طالوت کی داستان میں جس وقت بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے اپنے پیغمبر سے بھیمطالبہ کیا کہ ان کے لئے ایک فرشتہ معین کریں اور انھوں نے خدا کی طرف سے حضرت طالوت کو معین فرمادیا تو انھوں نے کہا :
(اَنَّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْناَ )(١)
''یہ ہم پر حکومت کی لیاقت نہیں رکھتے ''۔
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٢٤٧۔
ان کا حسب ونسب ہماری طرح نہیں ہے ،ان کے پاس ہماری طرح دولت بھی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ اور خدا کے نبی نے ان کے جواب میں اس آیت کی تلا وت فر ما ئی :
(اِنَّ آیَةَ مُلْکِہِ اَنْ یَاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیہِ سَکِیْنَة مِّنْ رَبِّکُمْ وَبَقِیَّة مِمَّا تَرَکَ آلُ مُوْسَیٰ وَآلُ ھَٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلَٰئِکَةُ)(١)
''اس کے بادشاہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجا ئیگا جس میں تمہارے پرور دگار کی طرف سے تسکین کی چیزیں اور وہ تبّر کات ہوں گے جو موسی اور ہارون کی اولاد چھوڑگئی ہے اور صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوں گے ''۔
یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے لشکر روانہ ہو تا ہے اور ایک صندوق خود بخود ان کے آگے آگے چلنے لگتا ہے تو یہ اس چیز کی علامت ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور خداوند عالم نے ملائکہ کے ذریعہ اس کام کو انجام دیا ہے ۔
اسی طرح ایک اور پیغمبر کی داستان میں خدا وند عالم ارشاد فر ما تا ہے :
(اَوْکَاالَّذِیْ مَرَّعَلَٰی قَرْیَةٍ وَھِیَ خَاوِیَةعَلَٰی عُرُوْشِھَاقَالَ اَنَّٰی یُحْیِ ھَٰذِ ہِ اللَّہُ بَعدَ مَوْتِھَافَاَمَاتَہُ اللَّہُ مِاْئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْماًاَوْبَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِاْئَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلَیٰ طَعَا مِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ واَنْظُرْ اِلیٰ حِمارکَ و لِنَجْعَلَکَ ء ایَةً لِلّنَّاس وَانْظُرْ اِلیَ العِظَامِ کَیفَ نُنْشِزُھَاثُمَّ نَکْسُوھَا لَحْماً فَلَمَّاتَبَیَّنَ لَہُ قَالَ اَعلَمُ ُ اَنَّ اللَّہَ عَلَٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْر)(٢)
''یا اس بندے کی مانند جو ایک گائو ں سے گذرا اور وہ گائوں ایسا اجڑا تھا کہ اس کی چھتیں اپنی بنیاد سے ڈھ گئی تھیں یہ دیکھ کر وہ بندہ کہنے لگا اﷲ اب اس آبا دی کو ان کی موت کے بعد کیو نکر زندہ کرے گا خدا نے اُس (بندہ ) کو سو سال تک موت کی نیند سُلا دیا اور پھر انکو زندہ کر دیا (تب ) پوچھا کتنی دیر یہاں پڑ ے رہے ؟عرض کی ایک دن یا ایک دن سے بھی کم (خدا نے ) فرمایا نہیں تم سو سال سے یہاں پڑے ہو ذرا اپنے کھانے پینے (کی چیزوں ) کو تو دیکھو با لکل نہیں بد لی ہیں اور اپنے گدھے پر نظر ڈالو (کہ اس کی ہڈیاں ڈھیر ہو گئی ہیں )ہم چاہتے ہیں کہ لو گو ں کے لئے تمہیں عبرت کا نمو نہ بنا ئیں اور (اب اس گدھے کی )ہڈیو ں کو دیکھتے ہو کہ ہم کیونکر ان کو جوڑ کر ڈھا نچا بنا تے اور پھر ان پر گوشت چڑھا تے ہیں پس جب ان پر خدا کی قدرت ظاہر ہو گئی تو بول اٹھے کہ میں جانتا ہوںکہ بیشک خدا
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت ٢٤٨۔
٢۔سو رئہ بقرہ آیت٢٥٩۔
ہرچیز پر قادر ہے ''۔
سو سال تک مردہ رہے دوبارہ زندہ ہو ئے ان کی سواری کا گدھا بھی ہلا ک ہو گیا اور خدا نے اس کو دوبا رہ زندہ کیا اور خدا وند عالم واقعے کے ذیل میں فرماتا ہے :
(وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ)
''اور اﷲ تم کو لو گو ں کے لئے نشانی یا نمونہ بنا نا چاہتا ہے''۔
یقینا تمام چیزیں اﷲ کی نشانیاں ہیں لیکن غیر معمو لی چیزو ں کا ظاہر ہو نا اپنی طرف زیادہ توجہ مر کوز کر لیتا ہے ، اس وجہ سے اسکو خاص طور پر (آیت) کہا گیا ہے ،اور اسی طرح کے مقامات پر لفظ آیت کا اطلاق اسی لئے ہے کہ اس کی دلالت زیادہ واضح ہے اور اپنی طرف لو گو ں کی توجہ زیادہ کھینچتی ہے۔
اسی طرح بنی اسرائیل کے دستر خوان کی داستان ہے ، جب بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ خدا وند عالم سے کہئے :
ہما رے لئے نعمتو ں سے بھراخوان نازل کرے تو اسوقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھوں کو اٹھا کرعرض کی تھی :
( اَللََّھُمَّ رَبَّنَآاَنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَآئِ تَکُونُ لَنَاعِیْدًا لِاَوَّلِنَاوَآخِرِنَاوَآیَةً ًمِّنْکَ )(١)
''اے ہما رے پالنے والے ہم پر آسمان سے ایک خوان (نعمت ) نازل فرما کہ وہ ہم لو گو ں کے لئے ہمارے اگلوں او ر پچھلو ں کے لئے بھی عیدی قرار پا ئے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو''۔
چو نکہ یہ ایک غیر معمو لی واقعہ ہے لہٰذا آیت اور نشانی ہے خدا وند عالم نے بھی دعا مستجاب کر تے ہو ئے فرمایا جو شخص بھی اس آ یت کے نازل ہو نے کے بعد فرمان الہٰی سے گریز کرے گا اس پر عذاب نا زل ہو گا علا وہ ازیں جن مقا مات پر انبیاء علیہم السلام نے اپنی نبوت کی نشانی کے طور پر معجزات پیش کئے ہیں وہاں پر بھی لفظ ''آیت '' استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت صالح علیہ السلام نے پہا ڑ کے دامن سے نا قہ نکا لا ہے، فر ما یا تھا :
(ھذہ ناَقَةُ اﷲ آیَة )(٢)
''یہ اﷲ کا ناقہ تمہا رے لئے واضح دلیل ہے ''۔
..............
١۔سورئہ مائدہ آیت ١١٤ ۔
٢۔سورئہ اعراف٧٣۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ کی ولا دت بھی ایک غیر معمو لی واقعہ تھا لہٰذا خدا وند عالم نے فرمایا :
(وَ جَعَلنَا ابْنَ مَر یَمَ وَاُمُّہُ آ یَةً )(١)
''اور ہم نے مریم کے بیٹے اور ان کی ماں کو آیت قرار دیا ''۔
ظاہر ہے یہاں پر لفظ آیت عام مخلو قات کے لئے استعمال کئے گئے لفظ آ یت سے الگ ہے یہ مقام ایک خصوصیت رکھتا ہے۔کیو نکہ عام طریقہ سے الگ یہ ایک غیر معمو لی واقعہ ہے اور خدا وند عالم نے معجزہ کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا ہے لہٰذا اسکو (آیت ) قرار دیا ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کے اور تمام معجزات کے با رے میں بھی لفظ آیات اور آیت کا استعمال ہو ا ہے مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے با رے میں خدا وند عالم فر ما تا ہے :
( وَلَقَد آ تَینَا مُوسیٰ تِسْعَ آیَاتٍ بَّیّناتٍ )(٢)
'' ہم نے موسی کو نو معجزے با لکل واضح و آشکار عطا کر دیئے ''۔
البتہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو ان کے علا وہ بھی معجزات اور کرا مات عطا کی گئیں تھیں لیکن یہ معجزے نبو ت کی نشانی اور دلیل کے طور پر تھے ۔وہ سب وہ کرا مات تھیں جو آ پ کی زند گی میں متعددمر تبہ بنی اسرائیل کے سا منے رو نما ہو ئیں اور وہ سب بھی ایک معنی میں معجزات ہی تھے لیکن جو چیزیں نبوت کی دلیل کے عنوان سے ابتداء میں آپ کو ملیں دو چیزیں تھیں ایک عصا اور دوسرے ید بیضاء اس کے بعد دو سرے سات معجزے ملے اور یہ سب حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو خدا وند عالم کی طرف سے نبوت کی دلیل کے طور پر عطا کئے گئے تھے ۔
حضرت رسو ل خدا ۖ اور قرآن کے با رے میں بھی لفظ آیت کا استعمال ملتا ہے۔چنا نچہ خدا وند عا لم کا ارشاد ہو تا ہے :
(اَوَلَم یَکُن لَّھُمْ آیَة اَن یَعلَمَہُ عُلَمَائُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ )(٣)
''کیا یہ پہچان ان کے لئے کا فی نہیں ہے کہ بنی اسرا ئیل کے علماء ان سے با خبر ہیں ''۔
البتّہ یہاں پر لفظ '' آیت '' معجزہ کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیاہے بلکہ وہ نشانی اور پہچان ہے جولوگو ں پر حجت تمام کر تی ہے ۔ جب ان کو معلوم تھا کہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام نے ایک ایسے آ نے والے نبی کی خبر دی ہے۔ تو وہ
..............
١۔سورئہ مو منو ن آیت ٥٠۔
٢۔سورئہ اسراء آیت ١٠١ ۔
٣۔سورئہ شعراء آیت ١٩٧۔
گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی پیشینگو ئیاں اور علماء بنی اسرائیل کا با خبر ہو نا، صداقت کی نشانی اور پہچان ہے ۔ پیغمبر اکرمۖ کے زمانہ میں بہت سے ایسے واقعات بھی رو نما ہو ئے کہ ان کے با رے میں بھی کلمہ ٔ آیت کا استعمال ہو ا ہے :
(قَدْ کَانَ لَکُمْ آیَة فِیْ فِئْتَیْنِ الْتَقَتَافِئْة تُقَاتِلُ فی سَبِیْلِ اللَّہِ وَاُخْرَٰی کَافِرَة یَرَوْنَھُمْ مِثْلَیْھِمْ رَأْیَ العَیْنِ۔۔۔ )(١)
''ان دونو ں (کافر ومومن )جما عتو ں میں یقینا تمہا رے لئے عبرت اور نشانی تھی جو آپس میں گتھ گئیں تھیں ایک جما عت خدا کی راہ میں جہاد کر رہی تھی اور دوسرا کا فروں کا گروہ تھا جن کی نگا ہو ں میں (مو منو ں کا لشکر ) دو گُنا نظر آرہا تھا ''۔
جب سپا ہ اسلا م کفار سے رو برو ہو ئی تو اسوقت کرا مات ظاہر ہو ئیں منجملہ یہ کہ کفّار مسلمانو ںکو اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے اور اسی وجہ سے ان کے دل میں ڈر پیدا ہو گیا تھا اور ان کا جذ بہ کمزور پڑ گیا تھا جس نے ان کی شکست میں مدد کی یہ بھی ایک الہٰی (آیت )ہے ۔
گزشتہ قو مو ں پر خدا وند عالم کی جا نب سے نا زل ہو نے والے عذاب کو بھی آ یا ت سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ استعمال بھی دو طرح کے ہیں : کبھی عذاب کا جو اثر باقی رہ جا یا کرتا تھا اس اثر کو قر آ ن نے ''آیت '' قرار دیا ہے اور کبھی خود واقعہ کو قر آ ن نے ''آیت ''کہا ہے ۔ فر عون کے با رے میں قرآن فر ما تا ہے :
(فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَ نِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً)(٢)
''پس آج تیرے بدن کو ہم (تہ نشین ہو نے سے ) بچائیں گے تا کہ تو اپنے بعد والو ں کے لئے عبرت بن جائے ''۔
فرعو ن کا دریا میں غرق ہو نا بنی اسرائیل کے لئے اﷲکی مدد تھی لیکن خدا وند عالم نے اس کے بعد فر عو ن کے بدن کو دریا کے با ہر پھینک دیا تا کہ آیندہ آ نے والی نسلو ں کے لئے یہ بدن با قی رہے اور اس چیز کی نشاندہی کرا ئے کہ خدا وند عالم اپنے دشمنو ں کو کس طرح نیست و نا بو د کر تا ہے :
(لِتَکُوْ نَ لمَن خلْفَکَ آیةً)
''تاکہ تو اپنے بعد والو ں کے لئے عبرت بن جا ئے ''۔
اسی طرح قرآن کریم میں جناب نوح اور ان کی قوم کے با رے میں فر ما تا ہے :
..............
١۔سورئہ آل عمران آیت ١٣ ۔
٢۔سو رئہ یونس آیت ٩٢ ۔
( فَاَنجَیْناَہُ وَاَصْحَابَ السَّفِیْنَةوَجَعَلْنَاھَا آیَةً لِلْعَالَمِیْنَ )(١)
''ہم نے ان کو اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیو ں کو نجات عطا کردی اور اس کشتی کو دنیا والو ں کے لئے نشان عبرت بنا دیا''۔
اور اس آیت میں فر ما تاہے :
(وَلَقَد تَرَکناَھَا آیَة فَھَل مِنْ مُدَّکِرٍ )(٢)
''بیشک ہم نے اس (کشتی )کو نشانی بنا دیا ہے آیا کو ئی نصیحت لینے والا ہے ؟''۔
اور قوم لو ط کے با رے میںارشاد فر ماتا ہے :
(وَتَرَکناَ فیھَا آیة للَذ ینَ یَخا فُو نَ العَذابَ الالیمَ )(٣)
''اور اس سر زمین پر درد ناک عذاب سے ڈرنے والو ں کے لئے ایک نشانی چھو ڑ دی ''۔
اسی طرح سورئہ شعراء میں آٹھ مقامات پر گزشتہ قو موں پر نازل ہو نے والے عذاب کے واقعات نقل ہوئے ہیں اور ان سب کے ذیل میں قرآن فر ماتا ہے :
( اِنَّ فیِ ذاَلِکَ لَآیَة وَمَا کانَ اَکثَرھُم مُومِنِیْنَ )
''اس میں ہما ری ایک نشانی ہے اور ان میں زیا دہ تر لوگ مو من نہیں تھے ''۔
یہ آٹھ کے آٹھ مقا مات ان انتہائی پریشان کن عذاب کے با رے میں ہیں جو گزشتہ قو مو ں پر نا زل ہو ئے ہیں ۔
مندر جہ بالا تمام مقا ما ت پر لفظ ''آیت ''کے استعمال میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض وقت قر آن نے ایک غیر معمولی واقعہ کو بنیا د بنا کر اسے ایک'' آیت '' قرار دیا ہے اور یہی چیز ہماری بحث سے مر بوط ہے یعنی قر آ ن کریم میں لفظ'' آیت'' کا معجزات کے لئے استعمال ہو ا ہے اب اگر لفظ ''آیت'' مشترک معنوی بھی ہو تو بھی لفظ ''آیت'' کے محل استعمال میں سے ایک اس کاخاص طور سے معجزات کے معنی میں استعمال ہو نا ہے۔معلوم ہوا کہ قرآ ن میں ''معجزہ ''کی لفظ نہیں آئی ہے معجزہ کی جگہ مخصوص طور پر لفظ ''آیت'' کا استعمال ہو ا ہے یہ سب کچھ ہم نے معجزہ کے مفہوم
..............
١۔ عنکبوت آیت ١٥۔
٢۔سورئہ قمر آیت ١٥۔
٣۔سورئہ ذاریات آیت٣٧۔
کی وضا حت کے لئے عرض کر دیاکہ قر آن میںلفظ معجزہ کی جگہ مخصوص طور پر لفظ ''آیت'' کا استعمال ہو ا ہے البتہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جہاں بھی لفظ ''آیت'' استعمال ہو ا ہو اس کامطلب معجزہ ہی ہو ۔بلکہ مخصوص مقامات پر لفظ آیت معجزہ کے معنی میں بھی استعمال ہو ا ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کے معجزات
کیا انبیاء علیہم السلام صاحب معجزہ تھے ؟قر آ ن اس با رے میں کیا فر ماتا ہے ؟
بلا شبہ قر آ ن نے بہت سے مقامات پر کہا ہے کہ ہم نے انبیاء علیہم السلام کو معجزے عطا کئے ہیں ۔
البتہ بعض مقا مات پر ظاہر بیان سے پتہ چلتا ہے کہ جب انبیا ء علیہم السلاممبعوث ہو تے تھے اور اپنی قوم میں تبلیغ شرو ع کرتے تھے تو دعوت کے ابتدائی مرا حل میں ہی اپنے معجزہ کی نشاندہی کر دیاکر تے تھے اور بعض مقامات پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگ انبیاء علیہم السلام سے معجزہ کا مطالبہ کیا کر تے تھے تو وہ اس وقت اپنے معجزے پیش کیا کر تے تھے ۔
منجملہ جن مقامات سے صاف طور پرپتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام ابتدائے تبلیغ میں خود ہی اپنے صاحب معجزہ ہو نے کا اعلا ن کر دیتے تھے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مر یم کا واقعہ ہے جن کے لئے اعلان ہو رہا ہے :
(وَرَسُولا اِلَٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ )(١)
''ہم نے حضرت عیسیٰ کو رسو ل کی حیثیت سے بنی اسرائیل میں بھیجا ''۔
اور پھر انھو ں نے کہا :
(اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُم بآ یَةٍ مِنْ رَّبِّکُم اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ )(٢)
''میں معجزہ کے ساتھ تمہا رے پر ور دگار کی طرف سے تمہا رے در میان آیا ہو ںتمہا رے سا منے مٹی سے پرندہ جیسی چیز بنا ئو ںگا ''۔
..............
١۔آل عمران آیت٤٩۔
٢۔ سورہ آل عمران آیت٤٩۔
اس آیت سے ظا ہری (بلکہ صریحی )طور پر پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی ابتداء دعوت سے ہی لو گو ں کے سامنے فر مایا کر تے تھے کہ میں نشانی لیکر آ یا ہوں ۔
لیکن بعض مقا مات پر قرآن کی آ یتیں اس بات پر دلا لت کر تی ہیں کہ گو یا انبیاء علیہم السلاممبعوث ہو تے تھے اور اپنی دعوت کا اعلان کر تے تھے اور لو گو ں کے مطالبے پر اُن کو معجزہ دکھلا تے تھے ۔چنانچہ حضرت مو سی ٰ علیہ السلام کے متعلق قرآ ن فرماتا ہے کہ جب حضرت مو سیٰ علیہ السلا م نے فر عو ن اور فر عو ن والو ں کو دعوت دی اور ان کے سامنے اپنی رسالت کا اظہار کیا توفر عون نے کہا:
(اِنْ کُنْتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فٰا تِ بِھَا اِنْ کُنْتَ مِنَ ا لصَّا دِ قِیْنَ )(١)
''اگر خدا کی طرف سے کو ئی نشانی تمہا رے پاس ہے تو پیش کرو اگر تم سچّو ں میں سے ہو ''۔
اس وقت حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا چھو ڑا جو اژدھا بن گیا ۔اس آ یت سے بظاہر لگتا ہے کہ اس وقت تک حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے ان کے سا منے معجزہ پیش نہیں کیا تھا ۔
حضرت صالح علیہ السلام کے ذکر میں ہے کہ ان کی قوم (قو م ثمود )نے عرض کی :
(مَااَنْتَ الاّبَشَرمِّثْلُنَافَاتِ بآیَةٍ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِ قِیْنَ قَالَ ھٰذِہِ نَاقَة لَھَا شِرْب وَلَکُم شِرْبُ یَوْمٍ مَعلُوْم ٍ)(٢)
''تم بھی ہما رے جیسے انسان ہو (ورنہ ) اگر سچّے ہو تو نشانی دکھا ئو حضرت صالح نے فر مایا :یہ اونٹنی ہے ،چشمے سے پانی پینے کا حق ایک دن اس کو حاصل ہو گا اور ایک دن تم کواور آ پ نے تاکید کے ساتھ فر ما یا:
( وَلا تَمَسُّوْھَا بِسُوْئٍ فَیَا خُذَ کُم عَذَابُ یَو مٍ عَظِیمٍ )(٣)
''اس کو تکلیف نہ پہنچانا (ورنہ )روز عظیم (قیامت )کا عذاب تم کو گھیر لے گا '' ۔
گو یا آیت میں اس سوال کا جواب بھی دیدیا گیا ہے انبیاء علیہم السلام اپنی نبو ت کے آغاز میں ہی معجزہ پیش
..............
١۔سورہ اعراف١٠٦۔
٢۔سورئہ شعراء آیت ١٥٤۔١٥٦ ۔
٣۔ سورئہ شعراء آیت ١٥٦۔
کر دیتے تھے یا لو گوں کی در خواست کے بعد معجزہ دکھلا یا کر تے تھے ۔
بظاہر بلکہ صاف طور پر آیات شریفہ کا جواب یہ ہے کہ انبیا ء علیہم السلا م کبھی اپنی نبوت کے آغاز میں ہی اور کبھی لوگوں کے مطالبہ کے بعد معجزے دکھلایا کر تے تھے ۔
علا وہ ازین یہ بھی معلو م ہو گیا کہ قر آن، کلی طور پر انبیاء علیہم السلام کے لئے معجزہ کا قائل ہے حتی آخر کی آیتوں کے لہجہ سے اس با ت کا بھی اندازہ ہو تا ہے کہ لو گو ں کو انبیاء علیہم السلام سے معجزہ کے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔ جس وقت فر عون نے کہا اگر آ پ کے پاس کو ئی نشانی ہے تو پیش کیجئے حضرت مو سی ٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا البتہ خدا وند عالم نے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو یہ دو بر ہان پہلے سے عطا کر دیئے تھے :
( ھٰذَان بُرْھَانانِ مِنْ رَّبِّکُم )
'' یہ تمہا رے پر ور دگار کی طرف سے دو دلیلیں ہیں ''۔
حضرت مو سیٰ علیہ السلام معجزہ پیش کر نے کے لئے آ ما دہ تھے لیکن جب فر عون نے مطالبہ کیا توپیش کردیا۔یہی حال حضرت صالح علیہ السلام کا ہے جیسا کہ مذ کو رہ آ یت کے ذیل میں ہم نے بیان کر دیا ہے۔
معجزہ کی کیفیت
اب بحث یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کس وقت معجزات پیش کیا کر تے تھے ؟کیا وہ ہر وقت اور ہر شخص کے مطالبے پر معجزہ پیش کر دیا کر تے تھے یا ایسا نہیں تھا ؟اور یہ کہ کیا معجزہ اس لئے تھا کہ لوگ قبو ل کرنے پر مجبو ر ہوجائیں یا صرف اتمام حجت کے لئے تھا ؟
اس سلسلہ میں بہت سی آیات بتا تی ہیں کہ لوگ کبھی کبھی معجزات کا مطالبہ کیا کر تے تھے اور مخصوص خواہشیںپیش کر تے تھے لیکن انبیاء علیہم السلام ان کا کو ئی جواب نہیں دیتے تھے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ معجزہ اس لئے نہیں ہے کہ لوگ مجبور ہو کر دین حق کو قبول کر لیں بلکہ اس کا مقصد لو گو ں پر حجت تمام کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر ان کے پاس ایک دلیل مو جود ہو ۔چنانچہ کبھی کبھی خداوند عالم اپنے لطف کی وجہ سے کسی پیغمبر کو دو ،تین ، پانچ ،یا دس دس معجزے عطا کر دیتا ہے یایہ کہ اس کی نبو ت ثابت ہو نے کے بعد اس کے ذریعہ کچھ کرا متیں بھی ظا ہر ہو جاتی ہیں ۔یہ سب خدا وند عالم کا فضل ہے ورنہ انبیاء کو معجزہ دینے کی بنیاد اتمام حجت کرنا ہے اور بس، اس سے آگے محض خدا وند عالم کی مصلحت ہے جس کو خدا بہتر جانتا ہے۔اگر مصلحت ہو ئی تو خدا دوسرا معجزہ دیدیتا ہے اور اگر مصلحت نہیں ہو تی تو پہلے معجزہ پر اتمام حجت کر دیتا ہے۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت مو سیٰ کو نبوت کے آغاز ہی سے دو معجزے عطا کر رکھے تھے۔ حضرت عیسیٰ کے پاس کئی معجزے تھے۔مٹی سے پرندے بنادینا مردوں کو زندہ کرنا اندھوں کو بینائی عطا کرنا بر ص کے مریضو ں کو شفاء دینا اور اسی طرح غیب کی خبریں دینا وغیرہ۔
( وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاکُلُوْنَ وَمَا تَدَّ خِرُوْنَ فِیْ بُیُوْ تِکُمْ ۔۔۔)( ١)
''اور تم کو اس بات کی خبر دونگا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو ''۔
یہ سب خداوند عالم کی مصلحت سے وابستہ ہے کہ وہ کب کسی پیغمبرکو ایک معجزہ عطا کرتا ہے اور کب ایک سے زیادہ ،اس کا کوئی اصول اور فار مولا ہمارے سامنے نہیں ہے اور نہ ہی ہم کو اس کا علم دیا گیا ہے اجمالی طور پر قرآن نے بیان کردیا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام ایک سے زیادہ معجزہ رکھتے تھے لیکن ایسا نہیں تھا کہ لوگ جس کا بھی مطالبہ کر تے وہ انجام دید یتے تھے قرآن نے کچھ ایسے مقامات بھی بیان کئے ہیںجہاں لو گوں نے کسی مخصوص معجزہ کا مطالبہ کیا اور انبیاء علیہم السلام نے اسے رد کردیا ۔پہلے کلی طور پر کہتا ہے کہ جس نبی کو بھی معجزہ پیش کر نا ہو خدا کے اذن سے پیش کرنا چاہئے ایسا نہیں ہے کہ معجزہ کے سلسلے میں نبی خود مختار ہو بلکہ خدا کی اجازت سے ہی'' معجزہ ''پیش کرے گا ۔ خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :
( وَمَاکَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَا تِیَ بِآیَةٍاِلَّا بِاذْنِ اللَّہِ)(٢)
''اور کسی پیغمبر کے بس میں نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ دکھائے''۔
کچھ مقامات پر خاص طور سے فرماتا ہے کہ لوگوں نے معجزات کی فرمائشیں کیں لیکن انبیاء نے معجزہ نہیں پیش کیا ۔ حتی بعض آیات کے لہجہ سے اگر دوسری آیات نہ ہو تیں تو یہ وہم پیدا ہو جاتا کہ انبیاء علیہم السلام کو سرے سے معجزہ دیا ہی نہیں گیا تھا اور یہ معجزہ کا انکار کر نے وا لو ں کے لئے ایک دستاویز بن جاتی لیکن ان کے مقابل انبیاء علیہم السلام کے صاحب اعجاز ہو نے پر صاف و صریح آیات مو جو د ہیں اور ان آ یتو ں پر ذرا سی تو جّہ سے اُ ن آ یات کا ابہام دور ہو جاتا ہے کہ جن سے بظا ہر یہ وہم ہو تا تھاکہ انبیاء علیہم السلام سرے سے معجزہ دکھا نے سے انکار کرتے تھے یعنی وہ اتمام حجت کے بعد، معجزہ دکھلا نے کی فر مائش قبول نہیں کر تے تھے یا یہ کہہ لیجئے کہ نا معقول قسم کے خلا فِ مصلحت مطالبے پو رے کر نے سے پر ہیز کر تے تھے مثال کے طو رپر اگر اس طرح کی در خواست کی جاتی کہ جس سے
..............
١۔سورئہ آل عمران ٤٩۔
٢۔سوررئہ مومن آیت ٧٨۔
لو گوں کے سا منے اختیار کا راستہ بند ہو جاتا تو ایسا کرنا حکمت الہٰی کے خلاف تھا اور اصل غرض فوت ہوجاتی ہے معجزہ اس لئے ہو نا چاہئے کہ لو گو ں کو معلوم ہو جا ئے کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے اور لوگ پو رے اختیا ر کے ساتھ اس کی اطاعت کریں۔ اب اگر معجزہ ایسا ہو کہ جس سے لو گو ں کا اختیار ان سے سلب ہو جائے تو اس سے خلقت کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ۔معلو م ہو ا کہ انبیاء علیہم السلام اس طرح کی فر ما ئشیں قبول نہیں کر تے تھے اور اسی طرح جو مطالبے لوگ حرص و ہوس کے تحت کر تے تھے اور جن کو پورا کر نے کے لئے نبی کو صبح سے شام تک چو کا لگاکر بیٹھنا پڑے کہ جو شخص جو بھی مطالبہ کرے اس کو نبی انجام دیتا رہے اس طرح کے تمام مطالبو ں سے انبیاء علیہم السلام صرف نظر کر تے تھے۔چونکہ یہ سب غرض خلقت اور حکمت الہٰی کے خلا ف ہے نبی کو ایک مر تبہ لو گو ں کے سامنے اپنی نبوت ثابت کر دینا چاہئے کہ ان پر حجت تمام ہو جا ئے اور بس لیکن اگر ایک شخص نبی سے آ کر کہے کہ اس پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹا دیجئے دو سرا شخص کہے کہ اس در یا کو خشک کر دیجئے تیسرا کہے اس طر ح کیجئے اور چو تھاکہے اس طرح کیجئے تو انبیاء علیہم السلام اس طرح کی چیزو ں کو قبول نہیں فر ما تے تھے یا لوگ طرح طرح کے بہانے کیا کرتے تھے مثال کے طور پر کہا کرتے تھے کہ ہم آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ کے پاس ایک باغ نہ ہو اور اس میں نہریں اور محل نہ ہو ں تو اس میںمصلحت نہیں پائی جاتی یا یہ کہ آسمان سے سو نے کے کنگن آئیں اور آپ کے ہاتھ میں چلے جائیں یااسی طرح کی دوسری باتیں انبیاء علیہم السلام قبول نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ مصلحت صرف اتنا چاہتی تھی کہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے اور ان کی نبوت ثابت ہوجائے۔ بعض آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کبھی کبھی انبیا ء علیہم السلام پر لوگوں کی طرف سے بہت زیادہ دبائو ڈالا جاتا تھا کہ اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو فلاں کام انجام دیجئے لیکن اس میں خدا کی مصلحت نہیں ہوتی تھی ،جب لوگوں پر حجت تمام ہوجاتی تو پھر معجزے کے لئے ان کی دوسری در خواستوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔لوگ اصرار کرتے اور نبی پر دبائو بڑھ جاتا تھا بلکہ بعض او قات تواگر ان کو خداوند عا لم کی تا ئید حاصل نہ ہوتی تووہ دبائوکے تحت ان کے مطالبوں کو جامہ عمل پہنا دیتے۔
لیکن پیغمبر معصو م ہو تے ہیں خدا ن کی خودحفا ظت کرتا ہے اور وہ مصلحت ِحق کے خلاف ارادہ نہیں کرتے لیکن حالات ان کو سخت دبائو میں مبتلا کر دیتے تھے اور با لآ خر ان کو جواب دینا پڑتا تھا کہ ہماری رسالت تو یہی ہے جس کا تم مشاہدہ کر رہے ہو خداوند عالم نے ہم کو جو امر دیا تھا وہ ہم نے تم تک پہنچا دیا اب تم ایمان لائو یا نہ لائو مختلف قسم کی باتیں اس سلسلے میں کیا کر تے تھے چنانچہ پیغمبر اکرم ۖ کے بارے میں آیات سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم پر لوگوں کا دبائو اس قدر بڑھا ہواتھا کہ خداوند عالم کو وحی کرنا پڑتی تھی کہ اے ہمارے نبی مصلحت نہیں ہے آپ ان کے اس طرح کے مطالبے قبول نہ کیجئے گا :
( وَقَالُوْا لَولَا نُزِّلَ عَلَیْہ ِآیَة مِنْ رَبِّہِ)
''نبی پر ان کے پر ور دگار کی طرف سے کیا کو ی معجز ہ نازل نہیں ہوتا ''۔
یہ تو ایسی با ت ہے گو یا نبی اکرم ۖنے ابتک کو ئی معجزہ نہ پیش کیا ہو اور ان کی نبوت کے لئے کوئی دلیل مو جود نہ ہو ،کہتے ہیں کہ نبی اکرم ۖ پر کوئی آیت یعنی معجز ہ کیوں نازل نہیں ہوا ؟ ظاہر ہے ان تمام دلایل اور معجزات پیش کرنے کے باوجود اس طرح کی باتیں محض بہا نہ تلاش کرنا ہے ۔ لہٰذا خدا وند عالم نے ان کے جواب میں فرمایا ( اے ہمارے نبی! )
( قُلْ اِنَّ اللَّہَ قَادِرعَلَٰی اَنْ یُّنَزِّلَ آیَةً وَلٰکِنَّ اَکْثرَھُمْ لَا یَعلَمُوْنَ)( ١)
''(آپ ان سے) کہدیںکہ خدا معجزے کے نازل کرنے پر ضرور قادر ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ (خدا کی مصلحتو ں کو ) نہیں جانتے ''۔
بعض آیات بتاتی ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖبہت زیادہ دبائو میں تھے۔قرآن کا بیان ہے :
(فَلَعَلَّکَ تاَرِک بَعْضَ مَایُوْحَیٰ اِلیَْکَ وَضَائِق بِہِ صَدْرُکَ اَنْ یَقُوْلُْوْا لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیہ ِکَنْز اَوْجَائَ مَعْہُ مَلَک۔۔۔ )( ٢)
''توکیا آپ وہی کے ذریعہ بھیجی گئی بعض باتیں صرف اس خیال سے چھو ڑدیں گے کہ آپ کا دل اس طرح کی باتوں سے بھرگیاہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل کیا گیا یا تصدیق کے لئے ساتھ میں کوئی فرشتہ کیو ں نہیں آیا ''۔
شاید ہم کلمہ (لعلّ) کے با رے میںکہیں بیان کرچکے ہیں :
قرآن میں لعلّ کبھی بولنے والے کے لحاظ سے ،کبھی سننے والے کے لحاظ سے اور کبھی مقام اور حالات کے تقاضے و لحاظ سے استعمال ہوتا ہے۔لعلّ، ترجّی یعنی (شاید)کے معنی میں ہے لیکن اس کے محل ا ستعمال میں فرق ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ شاید فلاں کام ہوجائے یعنی یہ شاید مخاطب کے یہاں پائی جانے والی امید کے لحاظ سے اور کبھی یہ شاید خود متکلم کی تو قّع کو بیان کرتاہے لیکن بعض وقت یہ شاید دونوں میں سے کسی ایک کی بھی توقع اورامیدسے تعلق نہیں
..............
١۔سورئہ انعام آیت ٣٧۔
٢۔سورئہ ہود آیت١٢۔
رکھتابلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ مقام اور حالات اسی چیز کا تقاضا کرتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں بھی جب خداوند عالم یہ فرماتا ہے :
(فَلَعَلَّکَ تَارِک بَعْضَ۔۔۔)ظاہر ہے ایک نبی کے ذہن اقدس میں اپنے فریضۂ رسالت کے چھوڑنے کا تصورپیدا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی خدا اپنے نبی کے بارے میں اس طرح کی توقع رکھتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت حالات اتنے سخت ہوچکے تھے کہ ایک عام انسان، انسان ہونے کے نا طے یہ کہنے پر مجبور ہوتا کہ اب میں رسالت کا یہ فریضہ چھوڑ کر اپنے کامو ں میں مشغول ہوجاتا ہوں۔
پس یہ جملہ (فَلَعَلَّکَ تَارِک بَعْضَ مَا یُوْحٰی اِلَیَْکَ)حالت کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے خود پیغمبر کے اعتبار سے استعمال نہیں ہوا ہے۔(وضائق بہ صدرک )اور آپ کا سینہ بہت زیادہ تنگ آچکا ہے ؟ کس بات سے ؟ اس بات سے کہ کفار کہتے ہیں :
(اَنْ یَقُولُوا لَولَا اُنْزَلَ عَلَیْہِ کَنْز اَوْجَائَ مَعَہُ مَلَک )
''ان پر کو ئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہو تا یا ان کے ساتھ فرشتہ کیو ں نہیں آیا ؟تو آپ کا دل تنگ ہے کہ ان کو کیا جواب دے ؟(اِنَّمَااَنْتَ نَذیروَاﷲُ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ وَکِیْلٍ )
''آپ تو صرف ( عذاب سے ) ڈرا نے والے ہیں اور خدا ہر چیز کا ذمہ دار ہے ''۔
آپ اس کے ذمہ دار نہیں کہ کون ایمان لا تا ہے اور کون ایمان نہیں لا تا:
(وَاﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَکِیلٍ )''خدا ہر چیز کا ذمہ دار ہے''۔
آپ صرف اپنا فریضہ انجام دیجئے اس سے زیا دہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ خدا اپنے بندوں کی ہدایت کرتا ہے، چاہیں تو قبول کریںاور چاہیں تو قبول نہ کریں ،آپ سے ان کے افعال کے با رے میں سوال نہیں ہو گا ۔
اسی طرح خدا وند عالم کا یہ فرمان(وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَ اضُھُم ْ)(١)اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖپر بہت سخت تھا کہ میں بشر کی نجات کے لئے حق کے ایسے پیغامات لیکر آیا ہوں لیکن یہ پھر بھی مجھ سے رو گردانی کر تے ہیں چنانچہ نبی اکرم ۖسے خطاب کر کے خداوند عالم فرماتا ہے :
(وَاِنْ کَانَ کَبُرَعَلَیْکَ اِعْرَاضُھُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغَِ نََفَقًافِی الْاَرْضِ اَوْسُلَّما ًفِی ْالسَّمَآئِ فَتَأْتِیَھُمْ بِآیَةٍ)(٢)
..............
١۔سو رئہ انعام آیت ٣٥ ۔
٢۔سورئہ انعام آیت٣٥۔
''اگر ان لوگوں کی روگردانی آپ پر اس قدر سخت ہے تو جائیے اگر ہوسکے تو زمین کی تہو ں میں کوئی سرنگ ڈھونڈھ نکالئے یا آسمان پہ چڑھنے کے لئے سیڑھی لگا لیجئے اور کوئی ایسی نشانی لاکر دکھا دیجئے (کہ یہ لوگ قبول کرلیں اور ایمان لے آئیں ''۔
یعنی خدا کبھی ایسے کام انجام نہیں دیگا اس کے کام لوگوں کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتے اور آپ بھی اس طرح کے کام انجام نہیں دیں گے اور دے بھی نہیں سکتے۔کیونکہ خدا اس کی اجازت نہیں دے گا۔(پھر بھی ) اگر انجام دے سکتے ہوں تو انجام دیجئے ۔اس کے بعد خدا فرماتا ہے :
(وَلَوْشَائَ اللَّہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدَیٰ )
''اگر خدا چا ہتا کہ سب کے سب حتمی طور پر ایمان لے آئیں تو وہ عاجز نہیں تھا ایک کام ایسا کردیتا کہ وہ سب کے سب ایمان لے آتے لیکن خدا کی حکمت اس کی اجازت نہیں دیتی۔اس کا تقاضا ہے کہ انسان راہ حق کو خود اختیار کرے خدا تو صرف اختیار کے استعمال کی زمین فراہم کردیتاہے۔ وہ لوگوں کو مجبور نہیں کرتا کہ سب کے سب راہ حق کو منتخب کر لیں خدا کا یہ مقصد نہیں ہے۔خدا کسی سیاست داں کی مانند نہیںہے کہ وہ ہر روز ایک نئی چال سے لوگوں کو ایک خاص راستہ کی طرف لگادے اور جب ایک طریقہ سے کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرلے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کردیتا ہے کہ وہ صحیح راہ سے واقف ہو جائیں :
اب آگے انسان کو خودصاحب اختیار ہے۔خدا وند عالم فرماتا ہے :
(فَمَنْ شَائَ فَلْیُوْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ)(١)
''پس جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کا فر ہوجائے''۔
خدا وند عالم کا ارشاد ہو تا ہے:
(وَلَوشَائَ اﷲُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدَیٰ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْجَاھِلِیْنَ)(٢)
''(نادانی نہ کرو )اگر چاہے سب کو ہدایت پر جمع کردیتا (مگر وہ نہیں چاہتا کہ سب مجبور ہو کرایمان لے آئیں )پس آپ اپنا شمار نادانوں میں نہ ہونے دیں ''۔
ایک مقام پر خدا ارشاد فرماتا ہے:
..............
١۔سورئہ کہف آیت ٢٩۔
٢۔سورئہ انعام٣٥۔
(لَعَلَّکَ بٰخِعنَفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ۔ اِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآئِ آیَة ًفَظَلَّتْ اَعْنَاقُھُمْ لَھَاخَاضِعِیْنَ )(١)
''شاید (اس فکر میں آپ)اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے کہ یہ کفار ایمان کیو ں نہیں لاتے اگر ہم چاہتے کہ ہر قیمت پریہ لوگ ایمان لے آئیں تو ان لوگوں پر آسمان سے کوئی ایسا معجزہ نازل کردیتے کہ ان لوگوں کی گر دنیں اسکے سامنے جھک جاتیں''۔
ان سے ملتی جلتی دوسری تعبیر یں بھی ہیں لیکن بہ ظاہر ان کے دوسرے معنی ہیں۔ بعض مقامات پر ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ آیت کیوں نازل نہیں ہوتی ؟شاید پہلی نظر میں یہ خیال آئے کہ وہ کہتے تھے کوئی معجزہ کیوں نہیں لاتے لیکن غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قرآن کی آیات ہیں یعنی کبھی کبھی وحی نازل ہوئے کئی دن ہوجایا کرتے تھے اس وقت منافقین یا کفّار کہا کرتے تھے کہ ان کا جبرئیل کہاں ہے ؟کوئی آیت کیوں نازل نہیں ہوتی ؟کبھی کبھی توہین آمیز الفاظ استعمال کیا کرتے مذاق اڑانے کے لئے کہا کرتے تھے :جائو کہیں سے ایک آدھ گڑھ لائو ۔ پیغمبر اکرم ۖکو ان سب کے یہ طعن وطنز برداشت کرنے پڑتے تھے ۔
سورئہ اعراف میں اس کی طرف اشارہ ہے :
(وَاِذَالَمْ تَأْتِھِمْ بِآیَةٍ قَالُوْا لَوْلَااجْتَبَیْتَھَا قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِع ُمَایُوْحَیٰ اِلَیَّ مِنْ رَبِِّیْ۔۔۔)(٢)
''اور جب آپ ان کے پاس کو ئی آیت نہ پیش کرتے توکہتے آپ نے اسے کیوں نہیں بنا لیا (اے رسول ) آپ کہد یجئے کہ میں تو بس اسی وحی کا پا بند ہوں جو میرے پر ور دگا ر کی طرف سے میرے پاس آتی ہے''۔
لولا اجتبیھا (اجتبائ)''یعنی طول دینا کہیں سے اپنی طرف جذب کر نا''بہ ظاہر اس سے یہ مراد ہے کہ اگر رسول پر کوئی آیت نازل نہ ہوتی، اور وحی میں دیر ہوجاتی تو کہتے آپ ادھر ادھر کہیں سے خود کیوں نہیں بنالیتے ان سے جواب میں کہدیں میں تو بس خدا کی وحی کا پابند ہو ں جب وہ مجھ پر وحی کر ے گا میں پہنچا دونگا اور جب وحی نہ کرے گا تو میں اپنی طرف سے کچھ نہیں پیش کرسکتا ۔
(قُل انَّمَا ا تَّبعُ مایُوحیٰ الیَّ مِنْ رَبّیْ ) بظاہر اس آیت میں ''بآیةٍ ''سے مراد قر آن کی آیت ہے ۔
اسی مضمون سے ملتی جلتی دوسری آیت بھی ہے اس کے با رے میں بھی یہی احتمال پایا جاتا ہے:
..............
١۔سورئہ شعرا ء آیت٣۔٤۔
٢۔سورئہ اعراف آیت ٢٠٣۔
( وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْلَااُنْزِ لَ عَلَیْہِ آیَة مِنْ رَبِّہِ فَقُلْ اِنَّمَا الغَیْبُ لِلَّہِ فَا نْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِنَ المُنْتَظِرِیْنَ )(١)
''اور کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر کو ئی آیت کیوں نہیں نازل ہو تی تو (اے رسول ) کہد یجئے کہ غیب کا علم تو صرف خدا کے واسطے ہے انتظار کرو اور میں (بھی )تمہا رے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہو ں ''۔
یہاں بھی احتمال ہے کہ آیت سے مراد قر آنی آیات کے نازل ہو نے کا مطالبہ ہو ارشاد ہو تا ہے کہ علم غیب خدا سے مخصوص ہے۔آیات الہٰی غیب سے تعلق رکھتی ہیںاور میرے ہا تھ میں نہیں ہیں،جب خدا چاہتا ہے نازل کرتا ہے میں بھی انتظار کر رہا ہوں جب خدا وحی کرے گا میں تمہارے سامنے بیان کردو نگا ۔
ا لبتہ ایک دوسرا احتمال یہ بھی دیا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر کوئی دوسرا معجزہ کیوں نہیں لاتے ۔
اور پھر ارشاد ہوتا ہے :(انّما الغیب لّلہ) یعنی معجزہ کا تعلق بھی غیب سے ہے اور وہ خدا کے قبضہ قدرت میں ہے۔
اسی طرح قرآن نے بعض اہل کتاب کا قول نقل کیا ہے :
(اَلَّذِیْنَ قَالُوْااِنَّ اللَّہَ عَہِدَ اِلَیْنَا اَ لَّانُوْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتَّیٰ یَاتِیَنَابِقُرْبَانٍ تَاکُلُہُ النَّارُ۔۔۔)
'' وہ کہتے تھے کہ خدا نے ہم سے عہد لیا ہے کہ جب تک کوئی رسول ایک قربانی نہ کرے اور اس کو (آ سمانی ) آگ خاکستر نہ بنا دے اس وقت تک ہم اس پر ا یمان نہ لا ئے ''۔
اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں تو یہ کام انجام دید یجئے پیغمبر اسلام ۖ کو حکم ملتاہے کہ جواب میں کہد یجئے :
( قُلْ قَدْ جَائَکُمْ رُسُل مِنْ قبَْلِی بِا لَبیِّنَاتِ وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْھُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ )(٢)
''( اے رسول ) کہد یجئے کہ اگر تم اپنے قول میں سچّے ہو کہ اس طرح کا عمل انجام پانے کے بعد تم ایمان لے آئو گے تو بتائو مجھ سے پہلے کے نبیوں نے جب یہ کام کیا تو ان پر ایمان کیوں نہ لائے؟ نہ صرف یہ کہ ایمان نہ لائے بلکہ تم نے انھیں قتل کر دیا ؟''۔
..............
١۔ سو رئہ یو نس آیت ٢٠۔
٢۔سورئہ آل عمران آیت١٨٣۔
قرآن ان کے ارادوں کو فاش کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور ایمان ہی نہیں لانا چاہتے:
اوّ لا ً قرآن اس کی تائیدنہیں کرتاکہ خدانے ایسی کوئی سفارش کی ہو بلکہ قرآن فرماتا ہے : اس سے پہلے پیغمبر آئے واضح اور بیّن دلایل لیکر آئے اس عمل کو بھی انجام دیا توکیوں تم ایمان نہیں لائے اور ان کو قتل کر ڈالا ؟
اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خداوند عالم لوگوں کی خواہشات نفسانی کا تابع نہیں ہے کہ وہ جو کچھ در خواست کریں خدا اس کو انجام دیدے بلکہ خدا کا کام خود اسی کی اپنی حکمت کی اساس وبنیاد پر ہے جس کو وہ خود جانتا ہے اور صرف جس حد تک اتمام حجت کی ضرورت ہو تی ہے، ضروری جانتا ہے او ر اس سے زیا دہ اس کی مخصوص مصلحتو ں کے تا بع ہے۔
پیغمبر پر کچھ اور معجزات کیو ں نہیں نا زل ہو تے اس کے جوا ب میں قرآ ن فر ما تا ہے :
(وَمَامَنَعْنَا اَنْ نُرْسِلَ بِالآ یَا تِ اِلَّا اَن کَذَّبَ بِھَاالآوَّلُونَ وآ تَیْنَاثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْابِھَاوَماَنُرْسِلَ بِالآیَاتِ اِلَّاتَخْوِیْفاً ) (١)
''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کو ئی وجہ مانع نہیں ہے کہ گزشتہ قو مو ں نے انھیں جھٹلا دیا اور ہم نے قو م ثمو د کو کھلے معجزے کے طور پر او نٹنی عطا کی جو (ہما ری قدرت ) ظاہر کرتی تھی تو ان لو گو ں نے اس پر ظلم کیا اور ہم تو معجزے صرف ڈ را نے کی غرض سے بھیجا کر تے ہیں ''۔
اس مطلب کی ذرا وضاحت ضرو ری ہے آیت کے ظا ہری معنی میں کچھ ابہا م پایا جاتا ہے کہ دو سرو ںکی تکذیب معجزہ لا نے میں کیسے مانع ہو سکتی ہے ؟اس کے مختلف طریقو ں سے جواب دیئے گئے ہیں ۔ منجملہ یہ :
چو نکہ پہلے'' آ یتو ں'' کے بھیجنے سے کو ئی نتیجہ نہ نکل سکا اب اگر اس کے بعد بھی آیتیں بھیجے تو یہ فعل عبث ہو گا اور خدا وند عالم عبث کام انجام نہیں دیتا لیکن اتنا بیان کر دینا بھی کا فی نہیں ہے کیا خدا نہیں جانتا تھا کہ ان معجزو ں کا بھیجنا بے سو د ثابت ہو گا ؟یعنی اگر خدا جا نتا تھاکہ اس سے پہلے بھیجی جا نے والی آیات کا کو ئی فائدہ نہیں ہے تو ان کو نہ
بھیجتا ؟ یہ وجہ جو بیان کی گئی ہے مبہم ہے گو یا خدا کو پہلے یہ علم نہیں تھا کہ اس کا فائدہ ہو گا یا نہیں ہو گا ۔لہٰذا گزشتہ قو مو ں میں بھیج کر امتحان کیا اور جب یہ دیکھ لیا کہ اس کا کو ئی فائدہ نہیں ہے تو کہہ دیا اب نہیں بھیجو ں گا یقینا یہ بات صحیح نہیں ہے اور یقینا کہنے وا لے کا بھی یہ مقصد نہیں ہے پس ہم اس بیان کی اسطرح تکمیل کر سکتے ہیں :
پہلے جو آیت بھیجی گئی وہ اتمام حجت کے لئے تھی اور خدا بھی جانتا تھا کہ لوگ چا ہے ایمان نہ لا ئیں لیکن اتمام حجت کے لئے آ یت کے بھیجنے میں ہی مصلحت ہے اور یہ کام لغو یا بے فا ئدہ نہیں ہے لیکن اب اگر اتمام حجت کے بعد
..............
١۔سو رئہ اسراء آیت ٥٩ ۔
دو بارہ آیت بھیجے تو یہ لغو و بے فائدہ ہو گا۔
بعض دو سرے مفسرین اس آیت کی اس طرح تفسیر کر تے ہیں : اس آیت میں ''آیات '' سے مراد وہ عذاب ہیں جو گزشتہ قو مو ں پر نازل ہو ئے ۔ گزشتہ قو مو ں پر نا زل ہو نے والے عذاب، عذاب استیصال کی صورت میں نازل ہو ا کر تے تھے ۔یعنی پوری قوم نیست و نا بود ہو جایا کر تی تھی ۔ اس طرح کا واقعہ تاریخ میں متعد د مر تبہ پیش آیا ہے ۔ خدا نے کو ئی نشانی نازل کی لو گو ں نے اس کی تکذیب کی اور ان پر عذاب نازل ہو گیا اگر خدا وند عالم اس اُمت پر بھی اُسی طرح کی آیات نازل کر ے تو یہ بھی عذاب کی مستحق ہو گی لیکن اس امت کے ہلا ک کئے جانے میں مصلحت نہیں ہے اس امت کو تو قیامت تک باقی رہنا ہے لہٰذا اس امت پر تباہ کنندہ عذاب نازل نہیں ہو گا مر حو م علامہ طبا طبائی نے اسی مطلب کی تائید کی ہے۔
بہر حال مجمل طور پر ان آ یتو ں سے پتہ چلتا ہے کہ ہر پیغمبر سے جو کچھ مطالبہ کیا جا ئے وہ اس کو انجام دیدے ایسا نہیں ہے ،بلکہ ان سے بہت زیا دہ مطالبے کئے جا تے تھے اور ان پر بہت زیا دہ زور دیا جاتا تھا لیکن انبیاء علیہم السلام ان کو قبول نہیں کر تے تھے کیو نکہ مصلحت نہیں تھی اور حجت بھی تمام ہو چکی تھی۔
نتیجتاًقر آ ن بھی اس بات کی تا ئید کر تا ہے کہ معجزہ ،حجت تمام کر نے کے لئے ہے او ر اس سے زیادہ کی کو ئی ضرو رت بھی نہیں ہے اور ان مخصوص مصلحتو ں کی تا بع ہے جو ہر زمانہ میں مو جو د رہی ہے۔
|