راہ اور رہنما کی پہچان
 

پیغمبروں کا بشر ہو نا
نبوت کی ضرورت کی دلیل اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ( عقلی راستہ کے علاوہ جو سب کی دسترس میں ہے ) کوئی ایسی راہ ہو جو ابدی سعادت اور شقاوت تک پہنچنے کا راستہ بتائے لیکن یہ راہ دوسری تمام خصوصیات کو بیان نہیں کرتی یعنی یہ دلیل نبوت اور وحی کی کیفیت بیان نہیں کرتی کہ کیا ہر فرد پر وحی ہوسکتی ہے ؟ کیا نبی کو بھی ہر حال میں انسانوں کی ایک فرد ہونا چاہئے ؟ کیا ہر معاشرے یا ہر شہر میں ایک پیغمبر ہونا ضروری ہے ؟ یہ دلیل ان جزئیا ت کی وضاحت نہیں کرتی البتہ خارجی قرائن کے ذریعہ یہ چیز یں سمجھی جاسکتی ہیں لیکن دقیق طور پر یہ جزئیات خود اس دلیل سے حاصل نہیں ہوسکتے تھے ۔
قرآن کریم نے ان مسائل کے بارے میں بحث کی ہے منجملہ قرآ ن کریم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نبی کو ہر حال میں بشر ہونا چاہئے اور ضمنی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان براہ راست خداوندعالم سے رابطہ بر قرار کرکے خیر و شر کا علم اس سے حاصل نہیںکر سکتاایک طرف تو یہ کہ تمام انسان نبی نہیں ہوسکتے اور دوسری طرف نبی کو انسانوں کے درمیان سے ہی مبعوث ہونا چاہئے ۔یہ بات عام طور پر لوگوں کی بہانہ باز یوں کے جواب میں بیان کی گئی ہے یعنی قرآن کریم فرماتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جاتے تھے تو لوگ ان کی دعوت قبول نہ کرنے کیلئے بہانے کیا کرتے تھے منجملہ کہا کرتے تھے کہ ''اگر خدا ہماری راہنمائی ہی کرنا چاہتا ہے تو اچھا ہوتا کہ وہ ہماری راہنمائی کے لئے کسی فرشتہ کو بھیج دیتا'' یاوہ کہا کرتے تھے :جب تک ہم خدا کو نہ دیکھ لیں گے ایمان نہیں لائینگے۔یا یہ کہا کرتے تھے : اگر خدا ہماری ہدایت کرنا چاہتا ہے تووہ نبی کے ہمراہ کسی فرشتہ کو بھی بھیجتا کہ ہم بھی اس فرشتہ کا دیدار کرتے اور اسی طرح کی باتیں، اسی طرح قرآن کلی طور پر فرماتا ہے : تمام قومیں انبیاء علیہم السلام سے کہا کرتی تھیں : آپ بھی ہمارے ہی جیسے بشر ہیں اور ہم اپنے ہی جیسے بشر کی پیروی نہیں کرسکتے اور یہی وہ مقام ہے جہاں قرآ ن کریم فرماتا ہے : (پیغمبر کو ہر حال میں انسان ہی ہونا چاہئے ) اور یہ خداوند عالم کی سنت ہے کہ وہ ہمیشہ انسانوں کے درمیان سے کسی کو رسالت کیلئے منتخب کرتاہے۔فرشتہ عام انسانوں کے سامنے ظاہر نہیں ہوسکتا ہاں ایک وقت ہے جب تمام انسان ملک کادیدار کرسکتے ہیں لیکن یہ و ہ وقت ہے کہ جب انسان کا آخری وقت آجاتا ہے یعنی اس پر موت کی نشانیاں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ عالم ملکوت کی طرف کوچ کرنے لگتا ہے ۔
ان آیات سے ہم یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ نبوت منتخب انسانوں کو ہی ملنا چاہئے ورنہ تمام انسانوں پروحی نازل نہیں ہو سکتی ۔اس لئے کہ ان کی روح اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ رابطہ قائم کرسکیں لیکن اگر خدا کی طرف سے انسانو ں کے درمیان کوئی ایسی شخصیت نہ ہوتو حکمت خدا باطل ہو جائیگی اور انسان کی خلقت کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا ۔معلوم ہوا خداوند عالم کو خلقت کی شرطوں کو اس طرح فراہم کرنا چاہئے کہ ا نسانو ںکے درمیان کوئی اس قابل ہوکہ جس پر اپنی و حی نازل کرکے دوسروں تک پہنچا سکے ۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
(وَقَاْلُوْالَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَک)(١)
'' لوگ کہتے کہ اس (نبی ) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ''۔
یقیناپیغمبر پر فرشتہ اور ملک نازل ہوتے تھے لیکن ان قومو ںکا مقصد یہ تھا کہ فرشتے اس طرح کیو ں نہیں نازل ہوتے کہ ہم بھی ان کو دیکھ سکیں ۔
قرآن کریم ان کے جواب میں فرماتا ہے :
( وَ لَوْاَ نْزَلْنَا مَلَکاً لَقُضِیَ الْاَمْرُثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ )(٢)
''حالا نکہ اگر ہم فرشتہ بھیج د یتے تو (انکا )کام ہی تمام ہوجاتا (اور )پھر انھیں (اس طرح کے سوال کرنے کی ) مہلت ہی نہ ملتی ''۔
یعنی لوگوں کی زندگی اور فرشتوں کے دیدار کے درمیان ایک تکونیی رابطہ موجود تھا عام لوگ زندگی کے عام حالات میں فرشتہ کا دیدار نہیں کرسکتے فقط موت کی صورت میں ہی انکا دیدار ممکن ہے اگر ہم فرشتہ کو اس طرح نازل کرتے کہ یہ لوگ بھی اس کو دیکھیں توان کو موت آجا تی اور انکا قصہ ہی تمام ہوجاتااور پھر بعثت اور ہدایت کا ہدف باطل ہوجاتا چونکہ ہمارا مقصد ان کو راہ و راستہ سے آشنا کرانا تھا کہ وہ راستہ پہچان لیں اور اسکے بعد اپنے انتخاب کے مطابق عمل کریں ۔اگر یہ قرار ہوتا کہ فرشتہ نازل ہو اور یہ لوگ اس کو دیکھ کر مرجائیں تو اس صورت میں بعثت کا ہدف
..............
١۔سورئہ انعام آیت ٨۔
٢۔سورئہ اانعام آیت٨۔
ختم ہوجاتا اور ان کے نزول کی ضرورت پوری نہ ہوتی ۔
اس کے بعد قرآن کریم فرماتا ہے :اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ لوگ اس حالت میں فرشتہ کا دیدار چا ہتے ہیں تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ فرشتہ انسانی شکل میں مجسم ہوکر سامنے آ ئے لیکن اگر فرشتہ انسانی شکل وصورت میں ان کے سامنے ظاہر ہوتا تو یہ لوگ یہی کہتے کہ تم بھی ہماری طرح کے انسان ہو معلو م ہوا یہ لوگ فرشتوں کو ان کی حقیقی صورتو ں میں دیکھنا چاہتے تھے اور یہ فی الحال ان کیلئے ممکن نہیں تھا ۔دوسرے لفظوں میں قرآن فرماتاہے کہ اس مسئلے کی دو صورتیں ہیں : اول یہ کہ تم فرشتہ کو اس کی حقیقی صورت میں دیکھنا چاہتے ہو جس کی تم میں فی الحال قا بلیت نہیں پائی جاتی کیو نکہ اگر تم اس کو دیکھ لو گے توتمہارا دم نکل جائیگا اور اگر انسان کی شکل وصورت میں دیکھو گے توتمہاری دل کی مراد پوری نہیں ہو گی لہٰذا فرشتہ کا دیدار ہونا ممکن نہیں ہے ۔ البتہ بعض مخصوص انسان اپنی قابلیت کے تحت وحی کے واسطہ سے فرشتہ سے رابطہ قائم کرسکتے ہیںکہ جس کی تم میں قابلیت نہیں پائی جاتی ۔
اس کے بعد کی آیت میں قرآن کریم اعلان کرتا ہے :
(وَلَوْجَعَلْنَا ہُ مَلَکاً لَجَعَلْنَا ہُ رَجُلاً وَلَلَبَسْنَاْ عَلَیْھِمْ مَاْیَلْبِسُوْنَ )(١)
''اور اگر ہم فرشتہ کو نبی بنا کر بھیجتے تو (آخر)اس کو بھی انسانی صورت میں بھیجتے تو گویا ہم بھی ان کو اسی شبہ میں مبتلا کر دیتے کہ جس کے یہ مرتکب ہوئے ہیں''۔
اور دوسرے مقام پر قرآ ن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
(قَالَتْ رُسُلُھُمْ اَ فِی اللَّہِ شَک فَا طِرِالسَّمَٰوَٰتِ وَالْاَ رْضِ )( ٢)
''ان کے پیغمبروں نے (ان سے ) کہا کہ خدا کے بارے میں کہ جس نے سارے آسمان وزمین کو پیدا کیا شک کیا جا سکتا ہے ؟'' ۔
ان کے جواب میں لوگ کہتے تھے:( قَا لُوْااِنْ اَنْتُمْ اِلّابَشَرمِثْلُنَا )
''تم بھی تو بس ہمارے ہی جیسے آدمی ہو ''۔
..............
١۔سورئہ انعام آیت٩۔
٢۔سورئہ ابرا ہیم آیت١٠۔
(لَومَاتَاْتِیْنَابِاِلْمَلََٰئِکَةِ اِ نْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ )(١)
''اگر تم اپنے دعوے میں سچّے ہو تو فرشتو ں کو ہما رے سامنے کیوں نہیں لا کر کھڑ ا کرتے ''۔
یعنی فرشتو ں سے ہماری ملا قات کیو ں نہیں کرا تے ؟
خدا وند عالم ان کے جواب میں فر ماتا ہے :
(مَا نُنَزِّلُ المَلَا ئِکةَ اِلّاَ بِالْحَقِّ وَمَاکانُوْااِذاًمُّنْظَرِیْنَ )(٢)
''ہم فرشتوں کو نہیں بھیجا کر تے مگر یہ کہ حق کے ساتھ اور اس وقت اُن کو (ہدایت ہو تی ہے) کہ (جان بچانے کی )مہلت بھی نہ دیں ''۔
ملا ئکہ کا نازل کرنا کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ اس کے لئے کچھ شرطوں کا ہو نا ضروری ہے اگر ہم فرشتو ں کو ان کی نگا ہو ں کے سامنے کھڑ ا کر دیں تو پھر وہ اس دنیا میں زندہ ہی نہیں رہ سکتے اور ان کو اس دنیا میں رہنے کی مہلت نہیں ملے گی۔
قرآ ن کریم میںارشاد ہو تا ہے:
(وَمَامَنَعَ النَّاسَ انْ یُؤْمِنُوْااِذْجَائَ ھُمُ الھُدَیٰ اِلَّااَنْ قَالُوْااَبَعَثََ اللَّہُ بَشَراًرَسُْولًا) (٣)
''اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ چکی تو اُن کو ایمان لانے سے اس کے سوا اور کسی چیز نے نہ روکا کہ وہ کہنے لگے کہ کیا خدا نے آ دمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے''۔
خدا وند عالم ان کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے :
(قُلْ لَوْکانَ فی ْالَارْضِ مَلَائِکَة یَمْشُوْنَ مُطمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَاعَلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآئِ مَلَکاً رَسُوْلاً)(٤)
''اے رسول تم کہدو کہ ا گر زمین پر فرشتے (بسے ہوئے )ہو تے جو اطمینان سے چلتے پھر تے نظر آتے تو ہم ان لوگوں کے پاس فرشتہ ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے ''
ایک دو سرے مقام پر کفار کا قول قر آن نقل کرتا ہے :
..............
١۔سورئہ حجر آیت ٧۔
٢۔سورئہ حجر آیت ٨۔
٣۔سورئہ اسراء آیت ٩٤۔
٤۔۔سورئہ اسراء آیت ٩٥۔
(وَقَالُوْاماَلِ ھَٰذَ اَالرَّسُوْلِ ِیَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الاَسْوَاقِ لَوْلَااُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَک فَیَکُوْنَ مَعَہُ نَذِیْراً) (١)
''اوران لو گو ںنے ( یہ بھی ) کہا کہ یہ کیسارسو ل ہے جو کھانا کھا تا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتاہے اس کے پاس کو ئی فرشتہ کیوں نہیں نازل ہو ا تا کہ وہ بھی اس کے ساتھ (خدا کے عذاب سے) ڈرائے '' ۔
یہ سب (لو تا تینا با لملائکہ )کی ما نند ہے یعنی نبی کے ساتھ ایک فرشتہ آئے کہ جس کو دیکھ سکیں البتّہ اسکے علا وہ بھی وہ بہت با تیں کیا کر تے تھے جو ہماری بحث سے تعلق نہیں رکھتیں ۔
خد ا وند عالم ان کے جواب میں فرماتا ہے :
(وَمَااَرْسَلنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْناَ بَعضَکُم لِبَعْضٍ فِتْنَةً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْراً)(٢)
''اور (اے رسول )ہم نے آ پ سے پہلے پیغمبر نہیں بھیجے مگر یہ کہ سب کے سب ہی آ پ کی ہی ما نند کھا نے کھا تے تھے اور با زا رو ں میں چلتے پھر تے تھے اور ہم نے آ پ میں سے بعض کو بعض کے لئے سبب ِ آ زمائش بنایا کہ خدا کی طاعت میں آ یا آپ لوگ صبر کر تے ہیں (یا نہیں ) اور آ پ کا پر ور دگار بڑا دیکھنے والا ہے''۔
انسان اس دنیا میں امتحان کے لئے پیدا کیا گیا ہے جب اس کے لئے کسی چیز کا حق ہو ناثا بت ہو جا ئے تو اس کا امتحان اس طرح ہو تا ہے کہ کیا وہ حق کو قبول کر تا ہے یا خوا ہشات ِ نفسانی کی وجہ سے قبول نہیں کرتا ؟
ہم نے پیغمبروں کو بھیج کر اپنی حجت تمام کردی ،لوگو ں کے لئے ان کا پیغمبر ہو نا ثابت ہو جا تا ہے تو اس وقت ان کا امتحان ہو تا ہے کہ وہ اپنی ہی جنس کے ایک انسان کی اطاعت کر تے ہیں یا اُن کاجذ بۂ تکبران کو اطاعت سے روک دیتا ہے (وَجَعَلنَا بَعْضَکُم لِبَعْضٍ فِتْنَةً )آ پ تمام لوگ انسان ہیں لیکن بعض انسانو ں کا بعض انسانوں کے ذریعہ امتحان ہو تا ہے پیغمبروں کا امتحان بھی اس طرح ہو تا ہے کہ جب لوگ ان کی دعو ت ِتبلیغ کو نہیں مانتے تو وہ آیا تبلیغ سے دست بر دار ہو جا تے ہیں؟ یا تبلیغ کو جا ری رکھتے ہیں ۔اور صبر کر تے ہیں :(اَ تَصبِرُونَ وَکَانَ رَبُّک بَصِیْراً )۔
ارشاد خدا وندی ہے :
..............
١۔سو رئہ فرقان آیت ٧۔٨ ۔
٢۔سورئہ فر قان آیت ٢٠۔
(وَمَاْاَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّارِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْمَلُوْ نَ )(١)
''اور (اے رسول ) ہم نے آ پ سے پہلے بھی آد میوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا کہ ان کے پاس وحی بھیجا کر تے تھے تو اگر تم لوگ خود نہیں جا نتے ہو تو عالموں سے پوچھ لو''۔
یہو د و نصا ریٰ اور دو سری قوموں سے سوال کرو کہ ان کے انبیاء علیہم السلام انسان تھے یا نہیں؟ اہل خبرہ اور امت کے دانشوروں سے سوال کرو تو وہ تم کو بتلائیں گے کہ گذشتہ انبیاء علیہم السلام بھی انسان تھے ۔
سورئہ انبیاء میں ارشادفر ماتا ہے :
(وَمَاجَعَلنَاھُم جَسَداً لا یَاکُلُونَ الطَّعَامَ وَمَاکَانُواخَالِدِینَ )(٢)
''اور ہم نے ان (پیغمبروں )کے بدن بیجان نہیں بنا ئے تھے کہ انھیں کھا نے پینے کی احتیا ج نہ ہو اور نہ وہ (بدن سے آزاد روح تھے ) کہ ہمیشہ زندہ رہیں ''۔
سورئہ فرقان میں ارشاد ہو تا ہے:
( وَقَالَ الَّذِیْنَ لَایَرجُو نَ لِقائَنَالَولَا اُنْزِلْ عَلَیْنَاالْمَلَائِکَةُ اَوْنَرَیٰ رَبَّنَالَقَدِ اسْتَکْبَرُوافِی اَنفُسِھِم وَعَتَوْعُتُوّاًکَبِیْراً۔یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلَائِکَةَلاَ بُشْرَیٰ یَومَئِذٍ لِلْمُجْرِمِیْنَ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَحْجُوْرًا)(٣)
''اور جو لوگ (قیامت میں )ہماری ملا قات کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ آخر فرشتے ہمارے پاس کیوں نہیں آتے ؟پروردگار کو( کیوں نہیں ) دیکھتے ؟ان لوگوں نے دراصل اپنے کو(بہت ) بڑا سمجھ لیا اور بڑی سرکشی پر اتر آئے (حالا نکہ )جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن گنہگاروںکوکچھ خوشی نہ ہوگی وہ فرشتوں کو دیکھ کر کہیں گے دوررہو ''۔
( ذَٰلکَ بِاَنَّہُ کَانَتْ تاَ تِیْھِمْ رُ سُلُھُمْ بِالْبَیِّنَا تِ فَقَالُوْا اَبَشَر یَھْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْاوَاسْتَغْنَی اللَّہُ وَاللَّہُ غَنِیّ حَمِیْد )(٤)
''یہ اس وجہ سے ہے کہ جب ان کے پاس ان کے پیغمبر کھلے معجز ے لیکر آ ئے تھے تو کہتے تھے کہ کیا (ہمارے جیسے ) آدمی ہمارے رہبر بنیں گے ؟ پس (یہ کہہ کر ) کا فر ہوگئے اور منھ پھیر بیٹھے توخدا نے بھی (ان کی ) پروانہ کی اور
..............
١۔سو رئہ انبیاء آیت ٧۔
٢۔سورئہ انبیاء آیت ٨۔
٣۔سورئہ فر قان آیت ٢١۔٢٣۔
٤۔سو رئہ تغابن آیت٦ ۔
خدا تو ہر اک سے بے نیاز اورسزاو ا ر حمد ہے '' ۔
یہا ں قر آ ن نے کلی طو ر پر تمام قو مو ں کا حال نقل کیا ہے کہ جب انکے درمیا ن انبیاء علیہم السلاممبعو ث کئے جا تے تھے تو وہ کہا کر تے تھے :(اَبَشَر یَھْد ُونَناَ)کیا بشر ہماری ہدایت کرے گا؟
(فَکَفَرُواوَتَوَلّوا )وہ (نبیوں ) کا انکار کر تے اور رو گر دانی اختیار کر لیتے تھے جبکہ (خود) خدا ان سب سے بے نیاز ہے ۔حکمت ِخدا کا تقا ضا بس اتنا ہی ہے کہ وہ ان کے درمیان انبیاء علیہم السلام مبعو ث کر کے ان پر اپنی حجت تمام کر دے۔خدا کو اس بات پر اصرار نہیں ہے کہ ان کو ہر حال میں انبیاء علیہم السلام کی اتباع کر نی ہو گی (کیونکہ)خدا کو ان کی کو ئی ضرورت نہیں ہے (وَاسْتَغْنَی اﷲُ واَﷲُ غَنِیّ حَمِید)حکمتِ خدا کا تقا ضا بس اس قدر ہے کہ ان کے لئے راستہ کی وضاحت کردے تاکہ وہ اپنے اختیار اور خواہش سے راہِ حق یا راہِ باطل کو منتخب کر لیں۔
یہا ںتک کہ ہم نے جو کچھ عرض کیا ہے آیات کلی طو ر پر تمام انبیاء علیہم السلام کے بارے میں تھیں لیکن بہت سے مقا مات پر ہر نبی کے لئے الگ الگ بھی مطلب بیا ن ہو ئے ہیں کہ ان کی قوم والو ں نے اس نبی کے مقابل اسی طرح کی باتیں کہی ہیں منجملہ حضرت نوح علیہ السلام کے سلسلہ میںخدا وند عالم ار شاد فر ماتا ہے :
( فقَالَ الْمَلَائُ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْامِنْ قَوْمِہِ مَاھَٰذَآ اِلَّابَشَر مِثْلُکُمْ یُرِ یْدُ اَنْ یَتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْشَائَ اللَّہُ لَاَنْزَلَ مَلَٰئِکَةً مَاسَمِعْنَابِھَٰذَافِیْ آبَائِنَاالْاَوَّلِیْنَ )(١)
''ان کی قوم کے سرداروں نے جو کا فر تھے کہا کہ یہ بھی تو بس تمہارے ہی جیسا انسان ہے (مگر) اس کی خواہش ہے کہ تم پر برتری حاصل کرلے (ورنہ ) اگر خدا ( پیغمبر نبی بھیجنا چا ہتا ) تو فرشتو ں کو نازل کرتا ہم نے تو (کبھی ) ایسی بات اپنے باپ دادائو ں کے سا منے نہیں سنی تھی ''۔
قو م نو ح علیہ السلام اس سلسلہ میں شاید سچ کہتی چونکہ حضرت آ دم علیہ السلام سے لیکر حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ تک اتنا فاصلہ ہو گیا تھا کہ لوگو ں کو ما سبق انبیاء علیہم السلام کی کوئی دقیق خبر نہیں تھی لیکن بعد کی قو موں کے لئے یہ باتیں با لکل صحیح نہیں تھیں اور ایسا نقل بھی نہیں ہو ا ہے کہ بعد والی قو مو ں نے یہ کہا ہو کہ ہم نے اس طر ح کی با تیں نہیں سنی ہیں ۔اسی طرح قو مِ نوح کے سر دار قوم والو ں سے کہتے تھے :
(اِنْ ھُوَ اِلَّا رَجُل بِہِ جِنَّة فَتَرَبَّصُوْا بِہِ حَتَّٰی حِیْن )(٢)
..............
١۔سورئہ مو منون آیت٢٤۔
٢۔سور ئہ مو منون آیت ٢٥۔
''در حقیقت اس آدمی (حضرت نوح ) پر جنو ن طا ری ہے لہٰذ ا کچھ دن حالات کا انتظا ر کر لو'' ۔
دوسری آیت میں ایک اور پیغمبر کی زبا نی (البتہ اس پیغمبر کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے) قر آن نقل فر ماتا ہے :
( وَقاَلَ الْمَلَاُ مِنَ قَوْمِہ الذین کَفَرُوْا وَکَذَّ بُوْابِلِقَائِ الآخِرَةِ وَاَ تْرَفْنَٰھُمْ فی الحَیَٰوةِ الدُّ نْیَامَاھَٰذا اِلَّابَشَرمِّثْلُکُمْ یَأکُلُ مِمَّا تَأکُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرِبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ وَلَئِن اَطَعْتُمْ بَشَراً مِّثْلَکُمْ اِ نَّکُمْ اِذاً لَخَٰسِرُوْنَ )(١)
''اور ان کی قوم کے چند سرداروں نے جوکافر تھے اور (روز )آخرت کی حاضر ی کو بھی جھٹلا تے تھے اور دنیا کی (چند روزہ ) زند گی میں ہم نے انھیں عیش اور نعمت بھی دے رکھی تھی (قوم والو ں سے ) کہہ دیا یہ تو بس تمہا رے ہی جیسا آدمی ہے جو چیزیں تم کھا تے ہو یہ بھی کھا تا ہے اور جو چیزیں تم پیتے ہو یہ بھی پیتا ہے اور اگر تم لوگو ں نے اپنے ہی جیسے آد می کی اطا عت کر لی تو تم ضرور گھا ٹے میں رہو گے''۔
حضرت صالح علیہ السلام کے با رے میں قر آن کریم فرماتا ہے کہ ان کی قوم نے اُن سے کہا :
( قَالُوْااِنَّمَآاَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ مَااَنْتَ اِلَّابَشَر مِثْلُنَا )(٢)
''وہ لوگ بولے کہ تم پر تو بس جادو کر دیا گیا ہے (کہ ایسی باتیں کر تے ہو )تم بھی تو آخر ہما رے ہی ایسے آدمی ہو ''۔
حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں بھی اسی طرح کی باتیں ملتی ہیں کہ ان کی قو م نے اُن سے کہا :
( قَالُوْااِنَّمََآاَنْتَ مِنَ المُسَحَّرِیْنَ۔وَمَااَنْتَ اِلَّابَشَرمِثلُنَا وَاِن نَظُنُّکَ لَمِنَ الکَاذِبِینَ )(٣)
''وہ لوگ کہنے لگے تم پر تو بس جادو کردیا گیا ہے ( کہ ایسی باتیں کر تے ہو ) اور تم بھی تو ہما رے ہی ایسے آدمی ہو اور ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ تم جھو ٹ بول رہے ہو ''۔
خدا وند عالم قرآنِ کریم کے سورئہ یس میں ایک واقعہ اس طرح نقل فرماتا ہے :
(وَاَضْرِبْ لَھُم مَثَلاً اَصحَا بَ القَرْ یَةِ اِذْجَآئَ ھَاالْمُرْسَلُوْنَ۔ اِذْاَرسَلْنآاِلَیھِمُ اَثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْھُمَافَعَزَّزْنَابِثَا لِثٍ فَقَالُوااِنَّآاِ لَیکُم مُرسَلُونَ۔ قَالُوْامَااَنْتُمْ اِلَّا بَشَرمِثلُنَا ۔۔)(٤)
..............
١۔سورئہ مو منون آیت٣٣،٣٤۔
٢۔سو رئہ شعراء آیت ١٥٣ ۔١٥٤۔
٣۔سو رئہ شعراء آیت ١٨٥ و١٨٦ ۔
٤۔سورئہ یس آیت ١٣۔١٤۔١٥۔
''اور (اے رسول )تم (ان سے )مثال کے طور پر ایک آبادی کا قصہ بیان کرو کہ جب وہاں (ہمارے ) پیغمبر آئے اس طرح کہ پہلے ہم نے ان کے پاس دو پیغمبر بھیجے تو ان لوگو ں نے دو نو ں کو جھٹلا یا ،تب ہم نے ایک تیسرے (پیغمبر ) کو (ان دونوں کی ) مدد کے لئے بھیجا تو ان تینوں نے کہا ہم تمہا رے پاس (خدا کے ) بھیجے ہو ئے (آئے ) ہیں تو وہ لوگ کہنے لگے کہ تم لوگ بھی تو بس ہما رے ہی جیسے آدمی ہو اور خدا نے کچھ نازل نہیں کیا ہے تم سب کے سب با لکل جھو ٹے ہو ''۔
روایات میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ملک شام کے شہر انطاکیہ میں پیش آیا جو اَ ب تر کی میں ہے۔
بہر حال، قرآنِ کریم میں ہے :
( اِذْجَائَ تْھُمُ الرُّسُلُ مِن بَینِ اَیدِ یھِمْ وَ مِن خَلْفِھِم اَلَّاتَعْبُدُ وْااِلَّااللَّہَ)(١)
''کہ ہم نے ان کے پاس ان کے سامنے اوران کے بعد (مختلف صورتوں سے مختلف شہروں میں ) انبیاء بھیجے جو ( یہ خبر لے کر ) آ ئے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ''۔
تو لوگو ں نے ان کے جواب میں کیا کہا ؟
(قَالُوْالَوْشَائَ رَبُّنَالَاَنْزَلَ مَلَٰئِکَةً فَاِنَّابِمَآاُرْسِلْتُمْ بِہِ کَافِرُوْنَ )
''کہنے لگے اگر ہمارا پرور دگار چا ہتا تو فرشتے نازل کرتا پس جس بات پر تم لوگ مبعوث کئے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے ''۔
قرآ ن کریم کا ان سے سوال ہے :
(ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَْن یَا تِیَھُمُ اللَّہُ فِی ظُلَلٍ مِنَ الْغَمََامِ وَالْمَلَٰئِکَةُ وَقُضِی الْاَمْرُوَاِلَی اللَّہِ تُرْجَعُ اْلاُ مُورُ )(٢)
''کیا وہ لوگ اسکے منتظر ہیں کہ سفید ابر کے سا ئبا نوں (کی آڑ ) میں خدا ( عذاب کے فرشتوں کے ساتھ ) ان پر ظاہر ہو اور سب جھگڑ ے تمام کر دے حالا نکہ کل امر خدا کی ہی طرف پلٹنے ہیں ''۔
..............
١۔سو رئہ فصلت آیت ١٤۔
٢۔سو رئہ بقرہ آیت٢١٠۔
جی ہاں !اس طرح کا انتظار حقیقتا موجو د تھا جیسا کہ اس سے قبل کی آیات میں بھی بیان ہو چکا ہے کہ ان کا کہنا تھا :جب تک ہم خدا کو نہ دیکھ لیں گے ایمان نہیں لا ئیں گے او ر ہم پر ملا ئکہ کیو ں نہیں نازل ہو تے ؟! قر آ ن کریم نے اسی کا ذکر کیا ہے :
( ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّااَنْ تَاتِیَھُمُ الْمَلَٰئِکَةُ اَوْیَاتِیَ رَبُّکَ اَویَا تِیَ بَعضُ آیَا تِ رَبِّکَ یَوْ مَ یَاتِی بَعْضُ آیَا تِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْساًاِیمَانُھَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبلُ اَوْکَسَبَتْ فِی اِیمَانِھَاخَیْراً قُلِ انْتَظِرُوْااِنَّامُنْتَظِرُوْنَ )(١)
'' آیا یہ لوگ صرف اس کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا اس سے بالا تر خود پرور دگار کی آمد کے منتظر ہیں ؟پرور دگار کی کچھ نشانیاں دیکھنا چا ہتے ہیں (آخر کیو نکر سمجھا یا جائے) حالانکہ جس دن تمہا رے پروردگار کی بعض نشانیا ں آ جا ئیںگی۔۔۔''۔
''یقینا اﷲکی نشانیاں تکو ینی ہوں یا تشریعی کا ئنات کی تخلیق اور کتاب و نبوّت کی صورت میں معجزے کے طور پر بہت زیا دہ ہیں لیکن وہ لوگ ان کے خواہاں نہ تھے بلکہ وہ ایسی نشانیاں چاہتے تھے جو دنیا کو بدل ڈالے اور دنیا میں کوئی بنیا دی اثر رو نما ہو جائے ''۔
(یَومَ یَا تِی بَعْضُ آ یَاتِ رَبِّکَ لَا یَنفَع۔۔۔) تو جس دن خدا وند عا لم کی بعض ایسی نشانیاں ظا ہر ہوںگی اس دن جو ایمان نہیں لا ئے ہیں ان کا ایمان لا نا ان کیلئے کو ئی فائدہ نہ پہنچا ئے گا مثال کے طور پر اگر عذاب ہو نے لگے اور وہ لوگ عذاب نا زل ہو تے وقت ایمان لا ئیں تو کیا فائدہ ؟! جیسے فر عو ن نے غر ق ہو تے وقت کہا تھا: ( آ مَنتُ بِمَا آ مَنَتْ بہِ بَنُوا اِسرَا ئِیل)فر عو ن کو جواب دیا گیا :اب ؟اب ایمان لا نے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے؟ (یَو مَ یَا تِی بَعضُ آیَاتِ ربِّکَ ۔) اگر اس طرح کی نشا نیاں ظاہر ہو نے لگیں تو لوگو ں سے اختیار سلب ہو جائے گا اور پھر زبر دستی کا ایمان کس کام کا ہو گا ؟اسی طرح اگر کار ِخیر انجام نہ دیا جا ئے اور اس طرح کی صو رت دیکھنے کے بعد کار خیر انجام دیں تو اسکا کو ئی فا ئدہ نہیں۔ (اَوکَسَبَت فِی اِیمَانِھَاخَیرا ) اس کے بعد فر ما تا ہے ( قُلِ انتَظَرُوا )''کہد یجئے اپنے نشہ میں پڑے رہو اور انتظار کرو ہم بھی انتظار کر تے ہیں ''۔
قر آنِ کریم میں ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے :
..............
١۔سورئہ انعام آیت١٥٨۔
(ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَأْوِیْلَہُ یَوْمَ یَا تِیْ تَاْوِیْلُہُ یَقُوْلُ الَّذِ یْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَائَتْ رُسُلُ رَبِّنَابِالْحَقِّ فَھَلْ لَنَامِنْ شُفَعَائَ فَیَشْفَعُوْالَنَآاَوْنُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِ یْ کُنَّا نَعْمَلُ قَدْخَسِرُوْااَنْفُسَھُمْ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَاکَانُوْایَفْتَرُوْنَ )(١)
اس آیت میں ایک اور تعبیر ہے !کیا وہ تاویل قرآ ن کے ظاہر ہو نے کے علا وہ کسی اور چیز کے منتظر ہیں ؟ ہم نے تا ویل ِقر آ ن کی بحث میں پہلے عرض کیا تھا کہ اس آیت اور اس کے مشابہ آیات میں تا ویل قرآ ن کے حقیقی مصادیق وہ مطالب ہیں جو قر آن میں بیا ن ہو ئے ہیں توکیا وہ حقیقت ِ قرآن کے ظہو ر کے منتظر ہیںیعنی جب قرآن فر ماتا ہے کہ قیا مت ہے ،عالمِ آخرت ہے ، ملائکہ ہیں تو کیا یہ لوگ خود قیامت یا ملائکہ کو دیکھ کر ان پر ایمان لانا چا ہتے ہیں ؟جبکہ جس دن قر آ ن کی بیان کر دہ یہ حقیقت ظا ہر ہو گی اور ان مطا لب کے مصا دیق محقّق ہو ں گے کسی کے لئے ایمان لا نے کاوقت باقی نہ رہ جائے گا ۔
اس وقت جو لوگ ان حقائق کو بھو لے ہو ئے تھے اور ایمان نہیں لا ئے تھے وہ کہیں گے: (قدجَا ئت رُسُلُ رَبِّنَابِالحَقِّ) ہاں پیغمبر جو کچھ فر ما تے وہ بالکل سچ فر ما تے تھے اب ہم کیا کریں! (فَھَلْ لَنَا مِن شفعا ء فَیَشفَعُوالَنَا اَو نُرَدُّ فَنَعمَل غَیرَالَذِی کُنَّا نَعمَل )
ظا ہر ہے ان کی موت کے وقت تا ویل قر آ ن ظاہر ہو گی وہ کہیں گے کہ کیا ہم کو دنیا میں وا پس پلٹا یا جا سکتا ہے پتہ چلا جس دن تا ویل قرآ ن ظاہر ہو گی وہ ان کی موت کا دن ہو گا یہی وہ دن ہو گا کہ جب وہ حقا ئق کہ جن کا وعدہ کیا گیا ہے او ر جو لو گو ں کی آ نکھو ں سے غا ئب رہی ہیں ظا ہر ہو ںگی اور وہ خود ان کا مشا ہدہ کریں گے اور کہیں گے (قَد خَسِرُوا اَنفُسَھم )ہم اپنے جی سے ہار چکے ہیں اب ہما رے ہا تھ میں کچھ نہیں رہا ہم نے اپنی زندگی کھو دی ، بہت نقصان اٹھا یا (وَ ضَلَّ عَنْھُمْ مَاکَا نُوْْا یَفتَرُوْنَ) انھوں نے جن کو خدا کا شریک قرار دیا تھا ، اور خدا پر افتراء و بہتان با ندھے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ ہما ری شفاعت کریں گے ہم کو خدا کے عذاب سے بچالیں گے اب وہ خو د مشا ہدہ کریں گے کہ یہاں کسی بت کا کو ئی نشان نہیں ہے کسی کا کو ئی بس نہیں چلتا۔خدا کا حکم ہے جو نازل ہو رہا ہے اور اس سے بھا گنے کی کو ئی جگہ بھی نہیں ہے ۔
قر آ نِ کریم میںایک جگہ اور ارشاد ہو تا ہے :
( ھَلْ یَنظُرُونَ اِلَّآاَن تَاتِیَھُمُ المَلَٰئِکَةُ اَوْیَاتِیَ اَمرُرَبِّکَ کَذَا لِکَ فَعْلَ الَّذِینَ مِن قَبْلِھِمْ
..............
١۔سو رئہ اعراف آیت ٥٣۔
وَمَاظَلَمَھُمُ اللَّہُ وَلَٰکِنْ کَانُوْااَنفُسَھُم یَظْلِمُوْنَ )(١)
''کیا یہ (اہل مکہ )اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے (قبض روح کے لئے ) آجا ئیں یاتمہارے
پر ور دگار کا حکم آ پہنچے جو لوگ ان سے پہلے گذ رے ہیں وہ بھی ایسی با تیںکر تے تھے اور خدا نے ان پر (ذرا بھی )ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود (کفر کی وجہ سے ) اپنے او پر ظلم کر تے رہے ''۔
پس نتیجۂ بحث یہ نکلا کہ : خد وند عالم کی حکمت اگرچہ تقا ضا کر تی ہے کہ وہ عقل کے علا وہ کسی دو سرے طریقہ سے انسانو ں کی ہدا یت کرے لیکن ہدایت کی یہ راہ بعض ایسے انسانو ں کی استعداد اور قا بلیت پر منحصر ہے کہ (جن کو خدا پہچا نتا ہے )خدا ان افراد کو بھیجے کہ لو گ ہدایت یافتہ ہو جا ئیں ۔
(وَاﷲاَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَہُ) (خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں قرار دے )۔
..............
١۔سو رئہ نحل آ یت٣٣۔