راہ اور رہنما کی پہچان
 

قضا وت
جیسا کہ خود قر آ ن کریم سے پتہ چلتا ہے انبیا ء کے وجود کا ایک فا ئدہ یہ تھا کہ وہ اصل حکم اور قانون پہنچانے کے علا وہ اس حکم کے مصا دیق بھی معین فر ما دیتے تھے اور لو گو ں کے درمیا ن رو نما ہو نے وا لے اختلا فات کے فیصلے فرما تے تھے (اب سوا ل یہ ہے کہ تمام انبیا ء علیہم السلام اسی طرح کے تھے یا بعض انبیا ء علیہم السلام ایسے تھے)
حضرت دا ؤد علیہ السلام ان ہی انبیا ء علیہم السلا م میں سے ہیں جو منصب کے اعتبار سے خدا کی جا نب سے لو گو ں کے ما بین اختلا ف کے فیصلے کے لئے مبعوث ہو ئے تھے ۔
اور بظا ہر یہ کام بعض انبیا ء علیہم السلام سے ہی مخصو ص رہا ہے۔ ارشا د ہوتا ہے :
(یَٰادَاوُوْدُاِنَّاجَعَلْنَٰکَ خَلِیْفَةً فِیْ الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ)(١)
''اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں( اپنا )خلیفہ قرار دیا پس تم لو گو ں کے در میا ن حق کی بنیا د پر ٹھیک فیصلے کیا کرو '' ۔
پیغمبر اکرم ۖکے با رے میں ارشاد ہو تا ہے :
(اِنَّااَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَا بَ بِا لْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّا سِ بِمَا اَ رَاکَ اﷲُ وَ لَا تَکُنْ لِلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْماً )(٢)
..............
١۔سور ئہ ص آیت ٢٦ ۔
٢۔سورئہ نساء آیت١٠٥۔
''ہم نے اس کتا ب کو تم پر بر حق طو ر پر اس لئے نا زل کیا ہے کہ جس طرح خدا نے تمہا ری ہدا یت کی ہے اسی طرح لو گو ں کے در میا ن فیصلہ کرو اور خیا نت کر نے وا لو ں کے طر فدار نہ بنو ''۔
واضح ہے کہ یہا ں پر حکو مت اور فیصلہ سے مراد اختلا فات کے سلسلہ میں لو گو ں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے۔

حکو مت
بعض انبیا ء علیہم السلام منصف اور قا ضی کی حیثیت سے او نچا مقام رکھتے تھے یعنی با قا عدہ طور پر معا شرہ اور حکومت کے سر براہ تھے اور لو گو ں پر ان کی اطا عت کر نا فرض تھا ۔ قر آن کی ایک آیت میں مجمو عی طور پر کہا گیا ہے کہ ہم نے ہر پیغمبر کو لو گو ں کے درمیا ن اس لئے بھیجا کہ لوگ ان کی اطا عت کریں ۔ لہٰذا جو پیغمبربھی جس چیز کے لئے دعوی ٰ کرے کہ یہ خدا کی جا نب سے ہے اور اس پر عمل کا حکم دے لو گو ں پر اس کی با ت ما ننا ضروری ہے۔ اگر وہ لوگوںسے کہے
کہ میں انصاف کر نے کے لئے بھیجا گیا ہو ں تو لو گو ں کے لئے قبو ل کر نا ضرو ری ہے ۔اگر وہ کہے کہ میں لو گو ں کے حا کم کے عنوا ن سے آ یا ہو ں سیاسی اور معاشرتی امور میں میری پیر و ی کرو تو لو گو ں پر اس کی پیر وی ضروری ہے مجموعی طور پر ہر پیغمبر جس آبا دی میں بھیجا گیا ہو (اس کی نبوت ثابت ہو جا نے کے بعد ) خدا کی طرف سے بس جو بھی دعو یٰ کرے لو گو ں پر اس کا قبو ل کر نا لا زم ہے :
(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِِ اﷲِ )(١)
''اور ہم نے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر اس و اسطے کہ خدا کے حکم سے لو گ ا س کی اطا عت کریں ''۔
اگر ایسا ہو کہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ نبی کی کو نسی با ت خدا کی طرف سے ہے اور کو نسی با ت اپنی طر ف سے ہے اور اس کے یہا ں بعض حالا ت میں یہ احتما ل ہو کہ وہ جھوٹ بھی بو ل سکتا ہے تو یہ امر مقصد کے خلا ف ہو گا اور اس پر اعتما د نہیں رہے گا ۔
لہٰذا جب نبی کی نبو ت ثا بت ہو جا ئے تو لا محا لہ طور پر بے چو ن و چرا اس کی اطاعت کر نی چا ہئے مگر یہ کہ وہ خود یہ کہے کہ میں یہ بات اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ،اب اگر وہ یہ دعو یٰ کرے کہ اس کو خدا کی طرف سے کو ئی منصب دیا گیا ہے تو لو گو ں کو اس کی با ت بہر حال ما ننا چا ہئے ۔
یقیناً بعض مقا ما ت پر بعض انبیا ء علیہم السلام نے خود حکو مت اپنے ہا تھ میں نہیں لی ہے بلکہ خدا کی جا نب سے انھو ں نے کسی اور شخص کی حکو مت کی تا ئید کر دی ہے ۔ چنا نچہ روا یا ت کی روشنی میں بنی اسرا ئیل کے کچھ افراد اپنے
..............
١۔سورۂ نسا ء آیت٦٤۔
نبی صمو ئیل کے پاس آئے اور آ کر کہا :
(ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُقَا تِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ )(١)
''ہما رے واسطے ایک باد شا ہ مقر ر کیجئے تا کہ ہم را ہ ِ خدا میں جہاد کریں ''۔
ظا ہر ہے خود صمو ئیل نبی با دشاہ نہیں تھے ۔ور نہ لو گ ان سے یہ نہ کہتے کہ خد ا سے در خوا ست کیجئے کہ وہ ہمارے لئے ایک با دشا ہ مقرر کر دے ، معلو م ہو ا کہ ہر پیغمبر خدا کی طرف سے حکو مت کا حا مل نہیں ہو تا ،البتہ یہ یقین کے سا تھ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ خدا کی طرف سے حکو مت کے حا مل تھے اسی طرح گذ شتہ انبیا ء علیہم السلام میں بھی بعض انبیاء علیہم السلام منجملہ حضرت سلیمان حکو مت کے حا مل تھے۔ قرآن صاف صاف کہتا ہے کہ ہم نے ان کو ملک عطا کیا ۔ رسو لِ خدا ۖ کے با رے میں بہت سی دلیلیں ہیں خود قرآن کریم میں یہ جملہ مو جو د ہے:
(اَلنَّبِیُّ اَوْ لَیٰ بِا لْمُوْمِنِیْنَ )(٢)
''یعنی نبی مو منین کی جا نو ں پر ان سے زیا دہ حق رکھتے ہیں ''۔
اس کے علا وہ بھی کئی مقا ما ت ہیں مگر فی الحال ان کا بیان بحث سے خا رج ہے ۔ لہٰذا نبو ت کے ثا نوی مقا صد میں سے ایک مقصد جو بعض نبو تو ں میں محقق ہو ا یہ تھا کہ زمین پر ایک حکومت حقہ قا ئم کریں کہ جس کے سا یہ میں لو گو ں کی دنیا اور آ خرت دو نو ں کی اصلا ح ہو جا ئے ۔
انبیا ء علیہم السلام کی رسا لت کے ذیل میں جو سیاسی مقا صد مدنظر قرار دیئے گئے ہیں ان کی ایک مثال جناب موسیٰ کا وا قعہ ہے کہ جہاں انھو ں نے فر عون کو عبا دت الٰہی کی دعوت دی اور ضمنی طور پر فر ما یا: (فَاَرْسِلْ مَعِی بَنِیْ اِسْرَا ئِیْل)یہ آپ کے اغراض و مقا صد میں سے ایک امر تھا جس کی آپ نے فر عون سے پہلی ہی ملاقات میں وضاحت کرتے ہو ئے کہہ دیا :اے فر عون میں تیری طرف خدا کا رسول بن کر آ یا ہو ں۔ (فاَرْسِلْ مَعِی بَنِیْ اِسْرَا ئِیْل )
''بنی اسرا ئیل کو میرے ہمراہ کر دے ''۔
لو گو ں کو آ زادانہ زند گی بسر کر نے کے لئے ایک ظالم حکمراں کے تسلط سے نکا ل کر دوسری سر زمین پرلیجا نا ایک سیا سی اور اجتما عی کا م ہے اور یہ حضرت مو سیٰ علیہ السلا م کی رسالت کے مقا صد کا ایک حصہ تھا اور قر آن کریم کی آیات سے مکمل طو ر پر یہ بات واضح ہے:
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت ٢٤٦۔
٢۔سورئہ احزاب آیت ٦۔
(وَقَالَ مُوْسَٰی یَافِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلمِّنْ رَّبِّ الْعَٰا لَمِیْنَ۔حَقِیْقعَلَٰی اَنْ لَّآ اَقُوْ لَ عَلَی اللَّہِ اِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَبِّکُمْ فَاَ رْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ)(١)
''اور مو سیٰ نے (فر عون ) سے کہا اے فر عون میں یقیناًپر ور دگا ر عا لم کی جا نب سے رسو ل ہو ں مجھ پر واجب ہے کہ خدا کے با رے میں سچ کے سوا (کو ئی با ت )نہ کہو ں میں تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے وا ضح و رو شن معجزہ لیکر آ یا ہو ں پس بنی اسرا ئیل کو میرے ہمراہ کر دے ''۔

یاد دہا نی
قرآن کریم سے نبو ت کے جن فو ائد بلکہ اغراض و مقاصد کاپتہ چلتا ہے ان میں سے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ لوگ جن چیز و ں کوسمجھ سکتے ہیں یا وہ جن با توں کو مبہم انداز میں سہی تھو ڑا بہت سمجھتے ہیں ان کو یا د دہانی کے لئے ایک توجہ دلا نے یا سمجھا نے وا لے کی ضرورت ہے جو ان کو ادھوری یا نامفہو م بات پوری طرح سمجھا سکے اور قر آن کریم کے الفاظ میں لوگ غفلت سے نکل کر با خبر وآگاہ ہو جا ئیں ۔
قر آن کریم میں خود قرآن کریم کے لئے اور بہت سی دو سری آ سمانی کتا بو ں کے لئے جو ذکر ،ذکریٰ، تذکرہ، اور مذکر کی ما نند الفا ظ استعمال ہو ئے ہیں ،اسی مو ضو ع کی طرف اشارہ کر تے ہیں ۔
ذکر، یا د دہانی کو کہتے ہیں یعنی وہ بات جس کو انسان جانتا ہے لیکن مکمل طور پر یا اس کا ایک حصہ بھول گیا ہے یا بے تو جہ ہو گیا ہے اس کو یا د دلا نا اورظا ہر ہے انتخاب میں علم اسی وقت مؤثر یا مفید ہو تا ہے جب اس کی طرف انسان متو جہ ہو ممکن ہے معا شرہ کچھ ایسے حا لات کا شکا ر ہو جا ئے کہ جس کے سبب یہ غفلت عام ہو جا ئے اور معا شرہ کی فضا ایسی شکل اختیار کر لے کہ انسان کے ذہن سے یہ مسا ئل با لکل نکل گئے ہو ں اور لو گو ں کا اپنے آپ ان کی طرف متوجہ ہو نا بھی میسر نہ ہو ۔ ایسے مقام پر انبیائعلیہم السلام کا کام لو گو ں کو اس غفلت سے نکا لنا ہے ۔ اسی با رے میں نہج البلاغہ کے اس مشہو ر و معروف جملہ میں اشا رہ ہے:
(لِیَسْتَادُوْھُمْ میِْثَاقَ فِطْرَتِہِ وَ یُذَ کِّرُوْھُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِہِ)(٢)
''ان سے فطرت کے عہد و پیمان پو رے کرا ئیں اور انھیں بھو لی ہو ئی اﷲکی نعمتیں یا ددلا ئیں''۔
..............
١۔سو رئہ اعراف آیت ١٠٤۔١٠٥۔
٢۔نہج البلاغہ خطبہ اول در ذکر اختیا ر الانبیاء علیہم السلام۔
خدا کی معرفت اور خدا کی بندگی ایک فطری امر ہے لیکن لو گ اس سے غا فل ہو جا تے ہیں بہت سی چیزو ں کو لو گو ں کی عقل درک کر تی ہے لیکن یہ عقل ڈھیروں خو ا ہشات نفسا نی کے اندر دفن ہو کر رہ جا تی ہے۔ انبیاء کا کام یہ ہے کہ ان مد فون عقلو ں کو ابھا ر کر سا منے لا ئیں :
(وَ یَحْتَجُّوْا عَلَیْھِمْ بِالتَّبْلِیغ ِوَ یُثِیْرُوْا لَھُمْ دَفَا ئِنَ الْعَقُوْلَ)(١)
''اور تبلیغ یعنی رسا لت الٰہی کے ذریعہ لو گو ںپر حجت تمام کریں اور ان کی مد فون عقلو ں کو با ہر نکا لیں ''۔
اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کی طرف ہم متو جہ کر نا چا ہتے ہیں یعنی الٰہی رسالت اور تبلیغ کے ذریعہ لو گو ں پر حجت تمام کیا جانا نبوت کے اہداف میں شا مل ہے معلو م ہو ا یا د دہا نی یعنی لو گو ں کو غفلت سے نکا لنا ،اور فطری طور پر لوگ جن چیز و ں کو درک کر تے ہیں یا جن چیز و ں کی وہ اپنی عقل کے ذریعہ شنا خت پیدا کر تے ہیں اُن کی طرف تو جہ دلانا انبیا ء علیہم السلام کے فر ائض میں ہے اور انبیا ء کے وجود سے ہی یہ تمام فو ائد وا بستہ ہیں ۔

ڈرانا اور خو شخبری دینا
قرآنی آیات سے ایک اور یہ نکتہ سمجھ میں آتاہے کہ کبھی کبھی انسان کسی چیز کو جا نتا ہے یہا نتک کہ اس کی طرف تو جہ بھی ہو تی ہے لیکن عمل کا جذ بہ نہیں ہو تا ۔اس صو رت میں انسان کو کسی محرک کی ضرورت ہو تی ہے اور انبیاء علیہم السلام ''منذر ''(ڈرا نے وا لے )اور مبشِّر (بشا رت دینے وا لے ) کے عنوان سے یہ کام انجام دیتے ہیں اور لوگوں کو ا بھا ر تے اور جذ بہ پیدا کر تے ہیں اور ان کی سو ئی ہو ئی خو ا ہشو ں کو بیدار کر تے ہیں ۔ ہر انسان عذا ب سے ڈرتا ہے یہا ں تک کہ اس کا معمو لی ترین احتما ل بھی مؤ ثر ہے اگر چہ عملی طور پر لو گو ں میں اس کا اثر دکھا ئی نہیں دیتا لیکن جب پیغمبر آ کر آخرت کے عذا بو ں کی تفصیل بیا ن کر تا ، اور بہشت کی نعمتو ں کا شما ر کرا تا ہے یہ ڈرانا اور بشارت دینا لو گو ں کے ،خو ا ہشات کو عملی اور علم کو آگا ہی میں بدل دیتا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیا ن کیا تھا انسان کی روح میں دو کا ر خا نے کام کر تے ہیں : ایک عقل و بصیرت او ر دو سرے خو ا ہش و رغبت ۔ انبیا ء علیہم السلام خو ف اور بشا رت یعنی خدا وند عالم کی نعمتو ں کی خو شخبری اور اس کے عذاب کی طرف سے خبر دار کر کے انسا ن کی خو اہشات و رجحانا ت کو مہمیز کر تے ہیں ۔
اگر آ پ قر آ ن کریم کی تحقیق و مطالعہ کریں تو آ پ کو معلو م ہو گا کہ آ یات کا ایک بڑا حصہ چا ہے وہ پیغمبر اسلامۖ
..............
١۔نہج البلاغہ خطبہ اول در ذکر اختیار الانبیاء علیہم السلام ۔

کی زبا نی ہو یا پچھلے انبیاء علیہم السلام کی زبا ن سے نقل کئے ہو ئے ہو ں سب انذار و بشارت سے متعلق ہیں یعنی ان میں آخرت کے عذاب اور آخرت کی نعمتو ں کا ذکر ہے قرآن کریم میں یہ مسائل اتنی اہمیت کے حا مل ہیں کہ پیغمبر کو (نذیر )کہا گیا ہے سورئہ فاطر میں ارشا د ہو تا ہے :
(وَ اِ نْ مِنْ اُ مَّةٍ اِ لَّا خَلَا فِیْھَا نَذِ یْر)(١)
''کو ئی امت نہیں ہے مگر یہ کہ ان کے درمیان ڈرا نے والا ''نذیر''ضرور آ یا ہے ''۔
یہ نبی کی سب سے نما یاں صفت ہے اور مکمل طور پر اس کی ضرورت کا احساس کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ معاشرہ میں کو ئی ایسا ہو نا چا ہئے جو لو گو ں کو مستقبل کے خطر وں سے آ گا ہ کر تا رہے ۔ مختصر یہ کہ آ پ نے مذ کو رہ آیات میں مشا ہدہ کیا کہ ان میں مبشّر اور منذر کی صفت بار بار دہرا ئی گئی ہے :
( رُسُلاً مَُُبشِّرِیْْنَ وَ مُنْذِ رِیْنَ ۔۔۔)اور (فَبَعْثَ اﷲُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ)۔
قر آ ن کریم میں خود چند مقا مات پر پیغمبر اکرم ۖکے او صاف میں بھی ''بشیر ''اور ''نذیر '' آ یا ہے پس معلو م ہو ا کہ یہ بھی نبو ت کا ایک ہدف ہے ۔

ظلم اور برائی سے مقا بلہ
انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کے سلسلہ میں جن اغراض و مقاصد کا پتہ چلتا ہے ، علمی طو ر پر اس ظلم اور برائی سے مقابلہ بھی ہے جو ان کے زما نہ میں رائج رہے ہیں ۔ قر آ ن کریم سے جیسا کہ پتہ چلتا ہے کہ جس قو م کے در میا ن بھی کو ئی پیغمبر مبعو ث ہو ا ہے ان کے درمیان ضرور کو ئی بد عنوا نی یا مخصوص برائیا ں را ئج رہی ہیں اگر چہ کسی استثناء کے بغیر تمام انبیا ء کا ایک بنیا دی ہدف لو گو ں کو خدا ئے وا حد کی بند گی کی طرف دعوت دینا رہا ہے ۔ خدا وند عالم ارشا د فرماتا ہے :
(وَلَقَدْ بَعَثْنَافِیْ کُلِّ اُمَّةٍرَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُ وْااللَّہَ وَاْجْتَنِبُوْاالطَّاغُوْت)(٢)
یعنی''اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول ضرور بھیجا کہ خدا کی عبا دت کرو اور طا غوت سے بچے رہو ''۔
لیکن اس معمو لی ہد ف کے ساتھ کہ جس کا ایک کلی عنوان خدا کی عبا دت اور اس کے تمام احکام ''کرو اور نہ کرو '' کے سا منے سر تسلیم خم کر نا ہے ہر پیغمبر نے اپنے زمانہ میں رائج برائیوں کی اصلاح کوبنیاد قراردیاہے مثال کے طورپرجہاں حضرت شعیب علیہ السلام کے واقعہ کاذکرہے وہیں:
..............
١۔سو رئہ فا طر آیت٢٤۔
٢۔سورئہ نحل آیت ٣٦۔
(وَزِنُوْابِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ)(١)
''اورجب کچھ( تولنا ہوتو) بالکل صحیح ترازوسے تولاکر و''۔
اور(وَلَاتَبْخَسُوْاالنَّاسَ اَشْیَائَ ھُمْ)(٢)
''اور لوگوں کوان کی(خریدی ہوئی )چیزیں کم نہ دیا کرو ''کابھی ذکر اس کے ساتھ موجود ہے یاجب حضرت لوط علیہ السلام مبعوث ہوئے تو ان کے زمانہ میں ایک خاص برائی رائج تھی جس کا انھوں نے مقابلہ کیا،قرآن کریم میں اس طرح کے نمونہ بہت ہیں یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اہداف میں سے ایک ہدف اپنے زمانہ کی برائیوں سے مقابلہ کرنا بھی رہاہے۔

لوگوں کو توحید اور معاد کی طرف متوجہّ کرنا
ہم نے اس بحث کے آغاز میں اس بنیاد پر ضرورت نبوت کی دلیل قائم کی تھی کہ انسان اپنے اختیار کے ساتھ کمال وارتقاء کے لئے پیدا کیاگیا ہے اور وہ اس دنیا میں اپنے اچھے اور برے اعمال کے ذریعہ آخرت میں اپنے لئے سعادت یاشقاوت فراہم کرتا ہے پس اس کو اس دنیا میں انجام دئے جانے والے اپنے افعال کے اخروی نتائج کے ساتھ رابطے سے آگاہ ہوناچاہئے تاکہ وہ اچھے یا برے اعمال آزادانہ طورپر اختیار کرسکے دوسرے لفظوںمیں اس کیلئے اس چیزکا جاننا ضروری ہے کہ کون سے کام اچھے ہیں کہ ان کوانجام دے سکے اور کونسے کام برے ہیں کہ ان کو انجام نہ دے اور چونکہ انسان کی عقل دقیق طورپر ان رابطوں کو معلوم نہیں کرسکتی لہٰذا حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ وہ بشرکیلئے اس علم تک پہنچنے کے لئے کوئی راہ مقررفرمائے اور وہ راہ وہی وحی اور نبوت کی راہ ہے ۔
اس کے بعد کی بحث میں ہم نے عرض کیا تھاکہ قرآن کی آیات کریمہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر خدا انبیاء علیہم السلام کو نہ بھیجتا تو لوگوں پر حجت تمام نہ ہوتی اور ہم نے اس ذیل میں کہا تھا چونکہ انسان کی عقل ،خیروشرکی شناخت کیلئے کافی نہیں ہے اور وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ ہمیں کون سے کام نہیںانجام دینا چاہئیں اور کون سے کام انجام نہیں دینا چاہئیں ۔
بحث کے ضمن میں ہی ایک اور نکتہ بھی واضح ہوگیا جس کی بنیادپر ہم''نبوت کی ضرورت''پر دوسری دلیل قائم کرسکتے ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ :کبھی کبھی انسان حتّیٰ ان مسائل میں کہ جہاں انسان کی عقل اس کودرک کرنے کے لئے
..............
١۔سورئہ اسراء آیت ٣٥۔
٢۔سورئہ اعراف آیت٨٥۔
کافی ہے۔بعض عوامل کی وجہ سے غفلت کاشکار ہوجاتاہے مثال کے طورپر وجود خدااورتوحید کے اثبات کے لئے انسان کی عقل کافی ہے لیکن کبھی کبھی سماجی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اپنی عقل کے استعمال سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یعنی معا شرہ کی فضاء وہ شکل اختیا ر کر لیتی ہے کہ انسان اس حقیقت سے غا فل ہو جا تا ہے اور اپنی عقل اس با رے میں کہ تو حید حق ہے یا نہیں، استعمال نہیں کر تا ۔یہ وہ حقیقت ہے جس کو کم و بیش سبھی افراد ما نتے ہیں ۔ فرض کر لیجئے کہ کسی گھرا نے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہو کہ جس نے جب سے اپنی آ نکھیں کھو لیں اپنے ماں باپ کو بتو ں کی پر ستش کرتے دیکھا اور جب مدر سہ میں دا خل ہوا تو وہاں بھی اس کو شر ک آ میز تعلیم دی گئی ۔ ظا ہر سی با ت ہے کہ کوئی مذہب اپنے مذ ہب کی حقا نیت کی دلیل کے لئے بہت سی غلط با تیں بیا ن کر سکتا ہے اور ان غلط با تو ں سے بچہ کا ذہن جب ما نوس ہو گیا ہو اور معا شرہ کی فضا نے بھی اس کی مدد کی ہو او ر تو حید و خدا پرستی کی بحث بھی با لکل اس کے کان سے نہ ٹکرائی ہو ، تو ان تمام حا لات میں ایک انسان کا مشرک ہو جانا انہو نی بات نہیں ہے اس کے ذہن میں ممکن ہے یہ سوال ہی پیدا نہ ہو کہ کیا یہ راستہ حق کا ہے یا باطل ؟
اسی طرح ہم نے معاد کے با رے میں بھی عرض کیا تھا کہ عام طور سے معاد یا قیا مت کے اثبات کیلئے انسان کی عقل کا فی ہے لیکن اگر کو ئی شخص ایسے ما حو ل میں زند گی بسر کر رہا ہو کہ آ خرت کی زند گی کے نا م سے با لکل اس کے کان آ شنا نہ ہو ں اور وہ اس مسئلہ کی طرف متو جہ ہی نہ ہو ا ہو ، جو کچھ بھی اس نے دیکھا ، سُنا ،اور پڑھا ہو وہ سب محض دنیا ی زند گی اور اس کی لذ تو ں سے مر بو ط ہو ، یا وہ عقل کو عام طور پر اپنی معا شی حا لت سد ھا ر نے اور اجتماعی امو ر کو انجا م دینے میں لگا ئے رہا ہو تو ظا ہر ہے ایسے شخص کو خود بخود عالم آخرت کی فکر نہیں ہو گی اور اگر کبھی خیال آ یا بھی تو ممکن ہے اس کے ذہن میں اس قدر شکو ک پیدا کر دیئے جا ئیں کہ وہ اس پر یقین ہی نہ کر سکے پس یہاں تک کہ ان امو ر میں بھی کہ جہاں انسان اپنی عقل سے بذات خود دلیل قا ئم کر کے حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ۔ کبھی کبھی حالات اس طرح کے ہو جا تے ہیں کہ انسان کی عقل کا فا ئدہ با قی نہیں رہتا اور ہم یہ جا نتے ہیں کہ یہ دو مسئلے یعنی تو حید اور معاد (اﷲاور قیا مت پر ایمان) اد یان کے سب سے اہم مسا ئل ہیں ۔اگر کسی کے لئے حل نہ ہو پا ئیں تو وہ مجمو عی طو ر پر آخرت کی کا میابی کے لئے کو ئی راستہ نہیں نکال سکے گا اور اس طرح کے مسا ئل میں ہمارا مشا ہدہ یہی ہے کہ کبھی کبھی معا شرہ کے حا لات کی وجہ سے انسا ن ان سے غا فل ہو جا تا ہے ۔
اس بناء پر جس اﷲنے انسان کو آخرت کی کا میابی کے لئے پیدا کیا ہے ،(وہ کا میابی جو اﷲ اور آخرت پر ایمان کے ذریعے ملتی ہے )اس کو یہ بھی علم ہے کہ انسا نو ں کے سا منے کچھ ایسے حا لات پیش آ جا تے ہیں کہ وہ اُن مسائل کو کلی طور پر بُھلا دیتا ہے لہٰذا اس طرح کے حا لات میں حکمت الٰہی کا یہ تقا ضا ہے کہ کچھ ایسے مصلحین اور تعلیم دینے وا لے اور یاد دہا نی کرا نے وا لے افراد بھیجے جولو گو ں کو اُن با تو ں کی طرف متوجہ کریں جن کی فطرت گو اہی دیتی ہے اور عقل جن با توں پر دلا لت کر تی ہے اگر چہ وہ ان با تو ں سے غا فل ہی کیو ں نہ ہو گئے ہو ں ۔
مو لا ئے کا ئنا ت کے کلام میں یہ جملے ''یُذَکِّرُوْھُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِہِ''''انھیں اﷲکی بھو لی ہو ئی نعمتیں یا د دلائیں ''، وَ یُثِیْرُوْا لَھُمْ دَ فَا ئِنَ الْعُقُوْل''''اور ان کی مد فو ن عقلو ں کو با ہر نکا لیں''ممکن ہے اسی با ت کی نشاندہی کر رہے ہوں یعنی کبھی کبھی انسا نو ں کی عقلیں خو ا ہشات ، شکوک و شبہات اور معا شرتی ما حول کے پر دوں میں دفن ہوجا تی ہیں اور کسی کا م کی نہیں رہ جا تیں ۔ اس طرح کی عقل کا وجود یا عدم کو ئی فرق نہیں کر تا وہ عقل رکھتے ہیں لیکن اُن کی عقل ان کو نور نہیں بخشتی ایسے حا لات میں بھی لا زم ہے کہ خدا اپنی حکمت متعا لیہ کی بنیا د پر پیغمبروں کو مبعوث فرمائے تا کہ وہ لو گو ں کو اس غفلت سے نجا ت دلا ئیں اور ان پر یہ مسئلہ وا ضح کر دیں کہ خدا ایک اور اکیلا ہے تم اپنی عقلوں کی طرف رجو ع کرو اور اس با رے میں غور و فکر سے کام لو یا اگر لوگ شکوک و شبہا ت میں مبتلا ہو ں تو اُن کے شبہا ت دور کر دیں ہم اس طریقہ سے بھی نبوت کی ضرورت پر دلیل قا ئم کر سکتے ہیں اس دلیل کا پہلی دلیل سے فرق یہ ہے کہ پہلی دلیل میں اس با ت پر زور دیا گیا تھا کہ کچھ با تیں انسان کو جا ننا چا ہئے تھا لیکن جا ن نہیں سکتا تھا لیکن یہاں اس چیز پر زور دیا گیا ہے کہ لو گو ں کو ان با تو ں کی طرف متو جہ ہو نا چا ہئے کہ جن سے وہ غا فل ہیں۔
جب ہم قر آ ن کریم کی آیات کا مطا لعہ کر تے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کے اہد اف و مقا صد میں ان دو چیزو ں پر زور دیا گیا ہے ہم نے انبیاء علیہم السلام کو اس لئے مبعوث کیا کہ وہ لو گو ں کو توحید کی دعوت دیں حا لانکہ تو حید خود عقل کے ذریعہ ثا بت ہو تی ہے اور قرآن نے بھی تو حید پر عقلی دلیلیں دی ہیں ۔ پھر بھی خدا وند عالم فر ما تا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد لو گو ں کو تو حید کی دعوت دینا ہے اور اسی طرح دو سرے مقام پر فر ما تا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا ہدف و مقصد لو گو ں کو معا د کی طرف توجہ دلا نا تھا ۔ ہم اس سلسلہ میں بھی قر آن کریم کی بعض آ یتو ں کی طرف اشا رہ کر تے ہیں ۔
(وَلَقَدْ بَعَثْناَفِیْ کُلِّ اُ مَّةٍ رَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْااﷲَ وَاجْتَنِبُوْاالطَّا غُوْ ت)(١)
''اور ہم نے ہر امت میں ایک (نہ ایک )رسو ل اس با ت کے لئے ضرور بھیجا کہ خدا کی عبا دت کرو اور طاغوت سے دور رہو ''۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرما تا ہے :
..............
١۔سورئہ نحل آیت ٣٦۔
(وَمَااَرْسَلْناَ مِنْ قبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ اِ لَّا نُُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہُ لَااِلَٰہَ اِ لَّا اَنَافَاعْبُدُوْنِ)(١)
''اور (اے رسول ) ہم نے تم سے پہلے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس پر وحی کر دی کہ بس میں ہی اﷲ ہوں پس تم میری ہی عبا دت کرو ''۔
ان آیا ت سے بخو بی یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ لو گو ں کو اﷲ کی عبا دت کی دعوت دینا انبیاء علیہم السلام کے اہم فر ائض میں سے تھا قر آن کریم نے بہت سے مسا ئل میں انبیا ء علیہم السلام کے وا قعات ذکر کئے ہیں اور تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں سر فہرست اسی مسئلۂ تو حید کو قرار دیا گیا ہے کہ صرف اور صرف خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبادت کیا کرو : مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ''۔
اسی بات کو بیان کر نامقصود ہے کہ عقیدئہ توحید اگر چہ فطری ہے اور اس پر عقل بھی دلالت کر تی ہے پھر بھی انسان اپنے مخصو ص (معا شرتی ) حا لات میں گھر جا نے کے بعد اس سے غافل ہو جا تے ہیں اسی لئے ضروری ہے کہ انبیا ء علیہم السلام بھیجے جا ئیں تا کہ وہ لو گو ں کو ان کا یہ بھو لا ہو ا سبق یاد دلا ئیں معا د یا قیامت سے متعلق بھی بہت سی آ یا ت ہیں منجملہ یہ آیت:
( یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہِ عَلَیٰ مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہِ لِیُنْذِرَیَوْمَ التَّلاَ قِ( ٢)
''خدا اپنے نبیو ں میں سے جس پر چا ہتا ہے روح کو نا زل کر تا ہے تا کہ وہ پیغمبر (لو گوں کو)قیامت کے دن سے ڈ را ئے ''۔
بہر حال قیامت اور عا لم آخرت کے متو قع خطروں کی طرف لو گو ں کو متو جہ کر نا بھی پیغمبروںکے اہداف میں شا مل رہا ہے۔
..............
١۔سورئہ انبیاء آیت ٢٥۔
٢۔سورئہ مو من(غافر) آیت ١٥۔