راہ اور رہنما کی پہچان
 

نبوّت قرآن کی نگاہ میں
قرآن کریم میں نبوت اور اس سے متعلّق مسائل کے بارے میں بہت سی آیتیں ہیں ظاہر ہے ہم ان تمام آیتوں پر تحقیقی بحث نہیں کر سکتے لہٰذ ا ان آیا ت میں کی گئی اہم بحثوں کا ہی ہم نے انتخاب کیاہے اورحسب ضرورت ان مباحث سے متعلق آیات کی وضاحت کریں گے تو آئیے سب سے پہلے بعثت انبیاء علیہم السلام کے اہداف و مقاصد پر گفتگو کرتے ہیں۔

بعثت انبیاء علیہم السلام کے مقاصد

تشریعی ہدایت (الٰہی رہنمائی )
در اصل قرآن کریم میں نبوّت کا مسئلہ انسان کی خلقت کے ساتھ ہی بحث میں آیا ہے کیو نکہ اس دنیا میں انسان کی زند گی کی بنیاد الٰہی (اور مذہبی ) رہنمائی پر قائم ہوئی ہے ۔اس دنیا میں انسا ن کی خلقت کے مقصد کو دیکھتے ہوئے اس بات کو قبول کر نا واضح ہے ۔جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ انسان کو عالم ِ مادہ میں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ اس کی اپنی پسند کا ایک راستہ اسکے سامنے ہو اور وہ اپنے پورے اختیار سے اپنی تقدیر کی بِنا رکھے تو ظاہر ہے خدا کی جانب سے ہی اس کے سامنے ایک ایسا راستہ ہو نا چاہئے کہ جس کے دو پہلو ہوں ایک پہلو کمال کا ہو اور دوسرا پہلو نقص کا ایک کی انتہا ء کا میابی و نجات پر ہو اور دوسرے کا اختتام ناکامی و بد بختی پر تا کہ اپنے آزادانہ انتخاب کے ذریعہ انسان اُن میں سے ایک کو چُن لے ۔
قرآ ن کی بعض آیا ت سے پتہ چلتاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جس وقت زمین پر آئے اسی وقت ان پر وحی ہوئی کہ جب خدا کی جانب سے تمہاری رہنمائی ہو تو اس کو قبول کرنا ۔اگر قبول کیا اور ا س پر عمل کیا تونجات مل جائے گی اور اگر مخالفت کی تو بد بخت ہو جائو گے قرآ نِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
( قُلنَااھْبِطُوْامِنھَا جَمِیْعاً فَاِمّایاَتِینَّکُم مِنِّیْ ھُدًی۔۔۔)(١)
''اور جب آدم سے کہا کہ بہشت سے نکلو (تو سا تھ میں یہ بھی کہہ د یاتھا )کہ اگر تمہا رے پاس میری طرف
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت ٣٨۔
سے ہدایت آئے تو (اُس کی پیروی کر نا ) '' ۔
کیونکہ اس کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو پیروی کر کے نجات پا جائو یا مخا لفت کر کے بد بخت ہو جائو۔
(فَمَن تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوف عَلَیْھِم وَلَاھُمْ یَحْزَنُونَ۔ وَالَّذِینَ کَفَرُوْاوَ کَذَّ بُوْابِآیَٰتِنَااُولَٰئِکَ اَصحَابُ النَّارِھُمْ فِیھَا خَالِدُونَ )(١)
''جو لو گ میری ہدایت پر چلیں گے اُن پر ( قیا مت میں )نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہونگے اور جن لوگو ں نے انکار کیا اور ہماری آ یتو ں کو جھٹلایا وہی لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ دوزخ میں پڑے رہیںگے'' ۔
یعنی زمین پر آدم کی آمد کے آغاز سے ہی اُن پر یہ بات روشن کر دی گئی تھی کہ آپ کے سامنے دو راستے ہوں گے اور خداکی طرف سے رہنمائی کی جا ئیگی ۔
اسی سے ملتی جُلتی یہ آیت بھی ہے :
(قَا لَ اھْبِطَامِنْھَاجَمِیْعاً)
''(آدم و حوّا سے خطاب ہے)کہ دونوں جنّت کو چھوڑ دو اور زمین پر چلے جائو ''۔
اور ممکن ہے یہ خطاب حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس سے ہو کیونکہ ا ِس کے بعد ارشاد ہو تا ہے : (بَعضُکُم لِبَعْضٍ عَدُوّفَاِمَّا یَا تِیَنَّکُم مِنِّیْ ھُدًی فَمَنِ اتّبَعَ ھُدَا یَ فَلَا یَضِّلُ وَلَا یَشْقَٰی )(٢)
'' تم میں سے ایک ایک کا دشمن ہے پھر اگر تمہا رے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (تم اس کی پیروی کرنا کیونکہ )جو شخص میری ہدایت پر چلے گا نہ تو وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پھنسے گا ''۔
اسی طرح سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :
(یَٰبَنِیْ آدَمَ اِمَّایاَتِیَنَّکُم رُسُل مِنکُم یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُم آیاَتِی فَمِنِ اتَّقَٰی وَاَصْلَحَ فَلَاخَوْف عَلَیْھِم وَلَاھُمْ یَحْزَ نُوْ نَ۔وَالَّذِیْنَ کَذّبُوابَِٔایَٰتِنَاوَاسْتَکْبَرُوْاعَنْھَاأُولَٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِھُمْ فِیْھَا خَاْلِدُوْنَ)(٣)
''اے اولاد ِآدم جب تم میں سے ہی (ہمارے ) پیغمبر آئیں اور تم سے ہمارے احکام بیان کریں (تو ان کی اطاعت کرنا کیونکہ )جو لوگ پرہیز گار بن گئے اور نیک کام کیا ان کے لئے قیامت میں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ آزردہ
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت ٣٨۔٣٩۔
٢۔سورئہ طہ آیت١٢٣۔
٣۔سورئہ اعراف آیت٣٥،٣٦۔
خاطر ہوںگے اور جن لوگو ںنے ہماری آیت کو جھٹلا دیا اور اُن سے سرتابی کر بیٹھے وہی لوگ جہنمی ہیں اور اُس میں ہمیشہ رہیںگے ''۔
خطاب تمام انسانو ں سے ہے اس آیت کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ کوئی یہ نہ سو چ لے کہ مذ کو رہ خطاب صرف آدم و حو ّا یا ابلیس سے مخصوص تھا ۔دوسرے لوگوں سے اسکا کوئی تعلّق نہیں ہے یہاں خطاب اولاد آدم سے ہے۔ سو رئہ بقرہ میں ''فَمَنْ تَبِعَ '' آیاتھا 'سو رئہ طہ اور سورئہ نور میں (فَمَنِ اتَّبَعَ )تھا ۔یہاںاسکامصداق''فَمَنِ اتّقی وَاَصْلَحَ''بیان کیا جا رہا ہے ۔
لہٰذا وحی ونبوّت کے ذریعہ الٰہی ہدایت کا مسئلہ ایک ایسی چیز ہے جو خلقت میں مضمر اور شامل ہے اور اسکے بغیر روئے زمین پر انسان کی رہائش ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسا ہونا حکمت ِ الٰہی کے خلاف ہے ۔اس چیز کے پیشِ نظر خدا نے ہر آبادی اور ہر قوم کے لئے ایک پیغمبر بھیجا :
(وَاِنْ مِنْ اُمَّةٍ اِلّا خَلَاْ فِیْھَا ْنَذِ یْر)(١)
تو اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی یا جس شہر میں بھی کچھ لوگ آباد ہوں وہاں ایک پیغمبر ہو نا چاہئے یا یہ کہ ہر زمانہ میں ایک پیغمبر ہونا ضروری ہے تا کہ زمانی اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ایک دوسرے سے متصل رہے یا اس کی کوئی اور صورت ہے ؟ قرآ ن نے اس بارے میں صاف صاف کچھ نہیں کہا ہے صرف لفظِ امت کا استعمال ہوا ہے ۔قرآن میں لفظِ امت کے بہت وسیع معنی ہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظِ امت اپنے علمی معنی میں معاشرے کے مترادف ہے لیکن ایسا نہیں ہے قرآن میں لفظِ امت اس کے قطعِ نظر کہ اس جگہ صرف ایک فرد کے لئے استعمال ہوا ہے اورکبھی وقت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جن موارد میں اسکا انسانوں کی ایک جماعت پر اطلاق ہوا ہے اس کے موارد استعمال کے لحا ظ سے قدر ِ مشترک صرف جماعت اور گروہ کا مفہوم ہے ۔مثال کے طور پر قرآن تمام انبیاء علیہم السلام کو ایک امت شمار کر تا ہے(اِنَّ اُمَّتَکُمْ اُمَّةًوَا حِدَةً) جبکہ ان سب کے درمیان وقت ،مقام نیز اقتصادی اور سیاسی تعلّقات کے لحاظ سے اشتراک نہیں پایا جا تا ۔
بہر حال قرآن میں امت گروہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ضروری ہے مطلب کیا ہے ؟(٢)
..............
١۔سورئہ فا طر آیت٢٤۔
٢۔مزید معلومات کے لئے ملا حظہ فر ما ئیں:معا شرہ اور تا ریخ قر آن کی نظر میں۔
ہم دقیق طور پر اسکے معنی معین نہیں کر سکتے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ا س سے مراد انسانوں کا ہر وہ گروہ ہے جو دوسرے انسانو ں سے جدا ہوا اور ان کے روابط اسطرح کے نہ ہوںکہ اِن کی معلومات اُ ن تک منتقل ہو سکے ایسے میں ظاہر ہے اُن میںسے ہر گروہ الگ الگ رہنما کا محتاج ہوگا لیکن اگر لاکھوں انسان دسیوں صدی کے دوران ایسے تعلقات کے حامل ہوںکہ ان کی معلومات ایک دوسرے تک منتقل ہوں ان پر اگر کوئی کتاب نازل ہو اور اُن کے درمیان باقی رہے تو یہ سب امّت ِ واحدہ شمار ہوں گے اس آیت میں بھی جو کہا گیا ہے:
(وَ اِنْ مِنْ اُمَّة اِلّا خَلَا فِیْھا نَذِیْر )(١)
''کوئی امّت ایسی نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نبی نہ ہو ''۔
بہ ظاہر یہی معنی مراد لئے گئے ہیں لیکن یہ کہ ہم مبعوث ہو نے والے تمام انبیاء علیہم السلام کو نہیںپہچانتے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
بعض روا یات میں آیاہے کہ انبیاء علیہم السلام ایک لاکھ چوبیس ہزار ہوئے ہیں اب روا یات کے معتبر ہونے یا نہ ہو نے سے یہا ں ہم کو کوئی مطلب نہیں ہے۔بہر حال ایک بڑی تعداد میں انبیاء علیہم السلام مبعو ث ہوئے ہیں اور قر آن ِ مجید میں تقریباًپچیس انبیاء علیہم السلام کا نام ذکر ہوا ہے باقی انبیاء معروف نہیں یہاں تک کہ اُن کے نام بھی معلوم نہیں ہیں۔سورئہ فاطر کی اِس آیت کے مطابق ہم اجمالی طور پر یہ بات جانتے ہیں کہ مذکورہ معنی میں ہر امت میں ایک نبی رہا ہے ہم نے نبوّت کی ضرورت پر جو دلیل پیش کی تھی اور عرض کیا تھا کہ اُس دلیل کو قرآن کی تائید حاصل ہے اس سے نبوت کی ضرورت اور اسی کے ضمن میں انبیاء علیہم السلام کا مقصد معلوم ہو جاتا ہے اسی طرح سے ہم نے ثابت کر دیاکہ انسان کو چونکہ خود ہی آزادانہ طور پر سعادت یا شقاوت کا راستہ اختیار کر نا ہے اسلئے اُ س کے لئے دونوں راستوں کی شناخت ضروری ہے اور انسان کی عقل اور حواس صحیح یا غلط کی شناخت کے لئے کافی نہیں ہے لہٰذا ایک اور راہ جس کا نام ہم نے وحی رکھا ہے ہو ناچا ہئے ورنہ انسا ن صحیح راستہ نہیں پہچان سکے گا اور پھر ظاہر ہے اس با رے میں جواب دِہ نہیں ہوگا اورچونکہ خدا نے ا نسان کو اس لئے خلق فر مایا کہ وہ ذمہ داری قبول کرے یعنی خود انتخاب کرے تاکہ اپنے اعمال کے نتیجہ تک پہنچ سکے اس لئے خدا نے شناخت کی کوئی راہ بھی ضرور معیّن کی ہو گی ۔ چنانچہ اس دلیل کے مطا بق پہلا مقصدیہ سمجھ میں آتا ہے کہ انسانوں کو صحیح اور غلط کی شناخت ہو نا چاہئے تاکہ جو بھی
..............
١۔سورئہ فاطر آیت٢٤ ۔
جس راستہ کاانتخاب کرے سمجھ بوجھ کر انتخاب کر ے دوسرے الفاظ میں اُس پر حجت تمام ہو چکی ہو ۔اس سلسلہ میں قرآ نِ کریم میں بہت سی آیات پائی جاتی ہیں منجملہ یہ آیت:
(رُسُلاًمُبَشِّرِیْنَ ومُنْذِ رِیْنَ لِئَلَّایَکُوْ نَ لِلنَّاسِ عَلَٰی اللَّہِ حُجَّة بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَا نَ اﷲُ عَزِیْزاً حَکِیْماً)(١)
''اور ہم نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر بھیجے تاکہ خدا کے سامنے لوگوں کے پاس کوئی حجت نہ رہ جائے اور خدا توبڑا ہی عزیز و حکیم ہے''۔
خا ص طور سے آیت کے ذیل میں خداوند عالم نے جو فرمایا ہے: ( وَکَا نَ اﷲُ عَزِیْزاً حَکِیْماً ) اس سے واضح ہوتاہے کہ اتمام حجت حکمت الٰہی کا لازمہ ہے یہ تقر یباً وہی بات ہے جس کا ہم نے اپنے استد لال میں ذکر کیا تھا کہ حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ نبوت کا راستہ انسان کے لئے کھلا رہے ۔ا سی سے ملتی جلتی ایک اور آیت ہے( البتہ یہ آیت جن کا ہم ذکر کررہے ہیں بعض میں مخاطب ایک مخصوص قوم ہے یا کہیں کہیں اہل کتاب سے خطاب ہے یا مشرکین مکہ مخاطب ہیںلیکن مضمون سب کا ایک ہی ہے )
( اَنْ تَقُوْلُوْااِنَّمَااُنْزِلَ الْکِتَا بُ عَلَیٰ طَائِفَتَےْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَاِنْ کُنَّاعَنْ دِ رَاسَتِھِمْ لَغَٰفِلِیْنَ۔اَوْتَقُوْلُوْالَوْاَنَّااُنْزِلَ عَلَیْنَاالْکِتَابُ لَکُنَّااَھْدَیٰ مِنْھُمْ ۔۔)(٢)
ہم نے نبی کو کتاب کے ساتھ بھیجا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب خدا تو بس صرف دو ہی گرو ہوں (یہودو نصاری) پر جو تم سے پہلے تھے نازل ہوئی ہے اور ہم تو ان کے پڑھنے ( پڑھانے ) سے بے خبرتھے یا یہ نہ کہنے لگوکہ اگر ہم پر بھی کتاب ( خدا ) نازل ہوتی تو ہم ان لوگوں سے بہتر طور پر راہ راست طے کرتے''۔
اگر ہم نے تمہارے لئے پیغمبر نہ بھیجا ہوتا توتم کہہ سکتے تھے کہ خدا نے یہودیوں کے لئے پیغمبر بھیجا اور انھوں نے راہ حق کو جان لیا تھا اگرچہ ان میں سے اکثر گمراہ ہو گئے عیسائیو ں کا بھی یہی حال ہوا اگر خدا نے ہمارے لئے پیغمبر بھیجا ہوتا تو ہم اس سے بہتر طور پر راہ حق کی پیروی کرتے اسی لئے ہم نے تمہارے لئے بھی پیغمبر بھیجاتا کہ تمہارا بھی امتحان لیا جاسکے ۔
..............
١۔سورئہ نساء ، آیت ١٦٥ ۔
٢۔سورئہ انعام آیت ١٥٦ و١٥٧ ۔
دلچسب بات یہ ہے کہ قرآ ن میں ایک اور جگہ ارشاد ہو تا ہے کہ لوگو ں نے پیغمبر کی بعثت سے پہلے قسم کھا رکھی تھی کہ اگر خدا ہمارے لئے کوئی پیغمبر بھیجے تو ہم اس کی پیروی کرینگے اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں زیادہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے :
( وَاَقْسَمُوْابِاﷲِ جَھْدَ اَ یْمَا نِھِمْ )
معلوم ہواکہ وہ لوگ پہلے سے خدا پر عقیدہ رکھتے تھے اور انھو ں نے بہت بھاری بھاری قسمیں کھا رکھی تھیں :
(وَاَقْسَمُوْابِاﷲِ جَھْدَ اَیْمَا نِھِمْ )
اور انھوںنے بڑی سختی سے قسمیں کھا رکھی تھیں:
( لَئِنْ جَا ئَ ھُمْ نَذِ یْر لَیَکُوْ نُنَّ اَھْدَیٰ مِنْ اِحْدَ ی الاُمَمِ )
'' کہ اگر ان کے درمیان کو ئی ڈرانیوالا (پیغمبر ) آئیگا تو وہ دوسری تمام امتو ں سے زیا دہ ہدایت یا فتہ ہونگے''۔
(فَلَمَّاجَائَھُمْ نَذِیْرمَاْزَادَھُمْ اِ لَّانُفُوْراً )(١)
''پھر جب ان کے پاس ڈرانے والا (رسول ) بھیج دیا تو اس کی اتباع اورحمایت کے بجائے اور زیادہ اس سے دور بھاگنے لگے ''۔
پس معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد لوگوں پر حجت تمام کرنا رہا ہے ایک اور آیت میں اہل کتاب سے خطاب ہے :
(یَاَھْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلَیٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْامَاجَائَ نَامِنْ بَشِیْرٍوَّلاَنَذِیْرٍفَقَدْجَاْ ئَکُمْ بَشِیْر وَّ نَذِ یْروَاللَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر)(٢)
'' اے اہل کتاب جس وقت پیغمبروں کی آمد رکی ہوئی تھی ہمارا رسول تمہارے پاس آیاکہ تم پر حق آشکار کردے اور تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے درمیان کوئی خو شنجری دینے والا یا عذاب خدا سے ڈرانے والا (نبی ) نہیں آیا ہے تمہارے درمیان خوشنجری دینے والا اور ڈ رانے والا ( پیغمبر ) آچکا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ''۔
البتہ اہل کتاب خود کو ایک نبی کا پیروسمجھتے تھے لیکن اس انتظار میں تھے کہ ایک اور پیغمبر آجائے شاید اس وحی کی بنیاد پر ان کا یہ انتظار تھا جو پہلے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہو چکی تھی اور ان کو آخری نبی کی بشارت دی جا چکی تھی :
..............
١۔سورئہ فا طر آیت ٤٢ ۔
٢۔سورئہ ما ئدہ آیت١٩۔
(بِرَسُوْلٍ یَا تِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہُ اَحْمَدُ )(١)
'' ایک پیغمبر کی کہ جن کا نام احمد ہو گا اور میرے بعد آئیں گے ''۔
میں تم کو بشارت دیتا ہوں بہر حال یہ لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے اور یہ اسلئے تھا کہ تمہارے پاس یہ کہنے کا بہانہ نہ رہے چونکہ پیغمبر نہیں آیا اسلئے ہم گمراہ ہو گئے اس لئے کہ کتاب میں تحریف ہو چکی تھی یا گذشتہ انبیا ء علیہم السلام کی تعلیمات ہم تک نہیں پہنچی تھیں ۔ایک اور نبی کی ضرورت تھی یا یہ کہ چونکہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا اس لئے ہم اس کے منتظر تھے اور جب وہ نہ آیا تو ہم شک میں پڑ گئے تم ایسی با تیں نہ کر سکو اس لئے : (فَقَدْ جَائَکُمْ بَشیْر وَنَذِیْر )
''تمہارے در میان ایک ڈرانے والااوربشارت دینے دالا(رسول )آچکا ہے''۔
دوسری آیت میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَ لَوْاَ نَّااَھْلَکْنَٰھُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِہِ لَقَالُوْارَبَّنَالَوْلَا اَرسَلْتَ اِلَیْنَارَسُوْلاً فَنَتَّبِعَ ئَ ایَا تِکَ مِنْ قَبَلِ اَنْ نَذِ لَّ وَنَخْزَیٰ )(٢)
''اور اگر ہم ان کو رسول کے آنے سے پہلے ہی عذابِ ہلاکت میں مبتلا کر دیتے تو ضرور کہتے کہ اے ہمارے پالنے والے تونے ہمارے پاس (اپنا ) رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم اپنے ذلیل و رسوا ہو نے سے پہلے ہی آیتو ں کی پیروی کر لیتے ''۔
خدا نے لوگوں کو اس لئے خلق فرما یا تھا کہ وہ اپنے اختیار کے ذریعہ صحیح راستہ یا غلط راستہ کا انتخاب کریںاور اگرغلط راستہ کو انتخاب کیا تو اپنے اعمال کی سزا پائیںپس غلط راستہ انتخاب کر نے والوں پر عذاب تو نازل ہو نا ہے لیکن اگر ہم پیغمبر بھیجنے سے پہلے ہی اُن پر عذاب نا ز ل کرتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اچھے اور برے راستہ کو نہیں پہچان سکے تو نے پیغمبر کیو ں نہیں بھیجا ؟ کہ وہ ہماری ہدایت کرتا ؟یا ہم غفلت میں مبتلا تھے تو تونے کسی کو کیوں نہیں بھیجا کہ وہ ہم کو غفلت سے بیدار کر تا ؟لہٰذا اس طرح کے بہانو ں کے سدّ باب کے لئے انبیاء علیہم السلام کا بھیجا جانا ضروری ہے ۔
ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَمَاْکُنَّا مُعَذِّ بِیْنَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُوْلاً )(٣)
..............
١۔سورئہ صف آیت٦۔
٢۔سورئہ طہ آیت١٣٤۔
٣۔سورئہ اسراء آیت١٥ ۔
''اور ہم جب تک کسی رسول کو بھیج کر اتمام حجت نہ کر دیں کسی پر عذاب نہیں کیا کرتے ''۔
یہ آ یات اس بات کی تا ئید کر تی ہیں کہ نبوت کا ایک مقصد کم سے کم اتمام حجت کر کے عذر کی راہیں بند کر نا ہے ۔

لوگوں کی تعلیم
اسی طرح دوسری آ یات بھی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر کو بھیجا گیا کہ وہ لوگو ں کو اُن چیزوں کی تعلیم دیں جو وہ نہیں جانتے اور اسکا نتیجہ بھی تقریبا یہی ہے یعنی جس چیز کو خود لوگ اچھا سمجھتے ہیں اُس پر عمل کریں چاہے کوئی پیغمبر مبعوث نہ بھی ہوا ہو ۔اسی لئے حتی جن محرومین تک پیغمبروں کی دعوت تبلیغ نہیںپہنچی ہے وہ بھی اپنی عقل کے مطابق جواب دہ ہیں ۔بہر حا ل نبوت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے یا خود نہیں سمجھ سکتے ان کو سکھایا جائے ارشاد ہو تا ہے :
(وَ ےُعَلِّمُکُمْ مَاْ لَمْ تَکُوْ نُوْا تَعْلَمُوْنَ )(١)
''اور تم کو وہ باتیں بتائے جن کی تمہیں (پہلے سے )خبر (بھی ) نہ تھی ''۔
اور سورئہ نساء میں ارشاد ہو تا ہے :
(وَ عَلَّمَکَ مَاْ لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ )(٢)
''اور جو باتیں تم نہیں جانتے تھے تمہیں سکھا دیں ''۔
یہ آیتیں بھی تقریباًاسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں ۔
..............
١۔سو رئہ بقرہ آیت ١٥١ ۔
٢۔سورئہ نساء آیت١١٣۔

تحریفات کی اصلاح
بعض آیات سے کچھ دوسرے مطالب بھی معلوم ہوتے ہیں جوشاید تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے نہ ہو ں شاید اصل بحث میں وارد ہونے سے پہلے تمہید کے طور پر ان کا ذکر نامناسب نہ ہو فرض کیجئے کہ خدا نے ایک پیغمبر بھیجا اور کچھ لوگو ں کو راہ حق کی ہدایت کی پھر کچھ زمانہ گزرنے یاکسی اور وجہ سے اس پیغمبر کی تعلیمات میں تحریف کردی گئی اور جو چیز لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ تھی اب ممکن ہے وہی گمراہی کا باعث ہو اور ہم نے تو خو د اپنے زمانے میں بہت سے
ایسے نمو نہ دیکھے ہیں ۔وہ انجیل جو خدا کی طرف سے جناب عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی آج اس کاکوئی ایک حصہ بھی اصل شکل میں موجود نہیںہے۔شایددنیا کے تمام کتب خانو ں میں انجیل کا ایک بھی اصل نسخہ نہ مل سکے ۔جو کچھ ہے وہ ان لوگوں کی تحریر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شاگردوں کے نام سے جانے جا تے ہیں جبکہ اُن افراد کی طرف مو جو دہ انجیلوں کی نسبت بھی یقینی نہیں ہے ۔ان مختلف انجیلوں کا لہجہ اور طرز تحریر کسی تاریخی کتاب کی طرح ہے مثلاً فلاں دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے شاگر دوں کے در میان آ ئے اور یہ کہا اور انھوں نے سوال کیا اور آپ نے یہ جواب دیا وغیرہ وغیرہ ۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ وہ کتاب نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اسی کتاب میں ایسے مطالب ہیں جو عقل کے بھی خلاف ہیں اور آسمانی شریعتوں کا جن باتوں پر اتفاق ہے اسکے بھی خلاف ہیں اس میں شر ک کی باتیں بھی ہیں اور آسمانی کتابوں کے متفقہ احکام میں تحریف بھی ہوئی ہے لہٰذا یہ وہ بات ہے جسکا امکان موجود ہے (ادل دلیل علی امکان الشی وقوعہ) (یعنی کسی شئی کے ممکن ہو نے کی محکم ترین دلیل اُسکا واقع ہو نا ہے )لہٰذا ممکن ہے خدا کسی پیغمبر کو بھیجے اُ ن لوگوں کو حق کا راستہ بھی بتادے اُن پر کوئی کتاب بھی نازل کر دے اور بعد میں اُس کتاب میں تحریف ہو جا ئے ۔ایسی حالت میں بھی یہ لوگ اُن لوگوں کی طرح ہیں کہ جن کے درمیان کوئی پیغمبر اور کتاب نہ آئی ہو ۔ضرورت ہے کہ کوئی پیغمبر آئے اور کم سے کم اُن تحریفات کی اصلاح کرے ۔اب چاہے نئی شریعتیں آئیں یا نہ آئیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن لو گو ں کو انحراف و گمراہی سے نکال کر حق کی طرف دعوت دینا خود اپنی جگہ نئے نبی کی آمد کی ایک معقول وجہ ہے ۔

دینی اختلاف کا بر طرف کرنا
بعض آیات اس مطلب کی طرف اشارہ کر تی ہیں کہ اہل کتاب کے علما ء نے کچھ مطالب لوگوں سے چھپا رکھے تھے اور لوگوں سے نہیں بیان کر تے تھے یہ وہ اختلافات تھے جو علمائے اہل کتاب نے خود اپنے مفادات کی خاطر ایجاد کئے تھے یہ چیز بھی سبب بنتی کہ خدا کوئی پیغمبر بھیجتاتاکہ وہ ان اختلافات کو رفع دفع کر کے لوگوں کے سامنے حق کی نشا ندہی کرے سورئہ ما ئدہ میں ارشادہو تا ہے :
(یَٰآھْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رَسُوْلُنَاْیُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْراًمِمّا تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَعْفُوْاعَنْ کَثِیْرٍ۔۔۔)(١)
..............
١۔سورئہ مائدہ (آ یت ١٥ ۔
''اے اہل کتاب تمہا رے پاس ہما را پیغمبر آ چکا ہے تا کہ( کتاب خدا ) کی بہت سی اُن باتوں کو جنہیں تم چھپایا کر تے تھے تمہا رے سامنے صاف صاف بیا ن کر دے اور تمہاری بہت سی خطائوں کو در گذر کر دے ''۔
تم نے آ سمانی کتاب کے بہت سے مطالب چھپا رکھے تھے واضح ہے کہ اُن میں ایسے علماء موجود تھے جو جانتے تھے اور لوگوںکو نہیں بتا تے تھے البتہ دوسری آیات بھی ہیں جو دلالت کرتی ہیں یہ لوگ کچھ چیزیں خود لکھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ خدا کی جانب سے ہے ۔قر آن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :
(فَوَیْل لِلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْ نَ ھَٰذَامِنْ عِنْدِاللَّہِ)(١)
''پس وائے ہوان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں لوگوں سے کہتے پھر تے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں سے آئی ہے ''۔
اور سورئہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :
(یُحَرِّفُوْ نَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِہِ)(٢)
''یہ لوگ کلام کو ان کے اصل مقام سے ادھر ادھرکر دیتے ہیں ''۔
اہلِ کتاب کے بہت سے علماء کا یہی کام تھا وہ یہی کیا کر تے تھے ۔قرآن فرماتا ہے پیغمبر اسلئے آ ئے ہیں کہ اُن حقائق کو آشکار کریں جن کو تم نے چھپا رکھا تھا خدا وند عالم فر ما تا ہے :
( کَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعْثَ اﷲُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِ رِیْنَ وَاَنزَلَ مَعھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النََّاسِ فِیْماَاخْتَلَفُوْافِیْہِ وَمَااخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّاالَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَاجَائَتْھُمُ الْبَیِّنَٰتُ بَغْیاً بَیْنَھُمْ فَھَدَی اللَّہُ الَّذِیْنَ ء امََنُوْالِمَااخْتَلَفُوْافِیْہِ مِنَ الْحَقّ بِاِذْ نِہِ وَاللَّہُ یَھْدِیْ مَنْ یَشَآئُ اِلَٰی صِرَاطٍ مَُسْتَقِیْمٍ )(٣)
''لوگ ایک امت کی شکل میں تھے پس خدا نے (نجات کی ) خوشخبری دینے والے اور (عذاب سے ) ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا اور اُن پیغمبروں پر برحق کتاب بھی نازل کی تا کہ جن باتوں میں لوگ جھگڑ تے تھے (کتاب خدا اسکا فیصلہ کر دے )لیکن سوائے اُن لوگوں کے کہ جن کو کتاب دی گئی تھی اورجن پر حجت آشکار ہو چکی تھی
..............
١۔سورئہ بقرہ آیت٧٩۔
٢۔سورہ نساء آیت ٤٦۔
٣۔سورئہ بقرہ آیت٢١٣۔
صرف آ پس میں حسد کے سبب ( اُ ن کے بارے میں اختلاف کیا ) ورنہ کسی اور نے ان میں اختلاف نہیں کیا اور خدا نے اپنی مہر بانی سے ایمان داروں کو وہ راہ حق دکھا دی کہ جن میں ان لوگوں نے اختلاف کر رکھا تھا اور خدا جس کوچاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کر دیتا ہے ''۔
اس آیۂ شریفہ ِمیں بہت زیا دہ بحث کی گنجا ئش ہے بہت سے ایسے نکتہ ہیں جو پہلی نگاہ میں مبہم نظر آتے ہیں کہ ا ن کے بار ے میں بحث کی ضرورت ہے منجملہ(کَا نَ النّاسُ امَّة ً وَاحِدَةً) میںایسے زمانے کی طرف اشارہ ہے کہ جب لوگ ایک امت تھے ۔یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ امت واحد سے کیا مراد ہے ؟کیا اعتقا د کے لحاظ سے لو گ ایک تھے یا کسی اور لحاظ سے ؟مثلاً جگہ اور مقام کے اعتبار سے ،یا ایسے لوگ تھے کہ جن کی زندگی میں سادگی اور یکسانیت پائی جاتی تھی اور اگر مراد وحد تِ عقیدہ ہے تو آیا وہ لوگ حق پر تھے یا اُن کے اعتقاد باطل تھے ؟
علّا مہ طبا طبائی طاب ثراہ نے بعد کے جملہ کو قرینہ قرار دیکر اس جملہ کے بارے میں یہ خیال ظاہر فرمایا ہے کہ لوگ ایک سیدھی سادی یکساں زندگی بسر کرتے تھے جناب آدم علیہ السلام کے روئے زمین پر بسنے کے ابتدائی ایّا م میں ہی کچھ لوگ ایسے تھے جن کی اولا دیں بھی تھیں اور وہ با لکل سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے پیچیدہ قسم کے معاشرتی مسائل نہیں پائے جاتے تھے کہ اختلا ف کا سبب بنتے اور اگراختلا ف تھے بھی تو شخصی اختلا ف تھے ۔
بہر حال علا مہ طبا طبا ئی( رضو ا ن اﷲ علیہ) نے اس طرح کا خیال ظا ہر کیا ہے لیکن احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ سب لو گ عقیدہ کے لحا ظ سے ایک عقیدہ حق پر قائم رہے ہوں یعنی ایک ایسا زمانہ گذرا ہو کہ جب سب موحد ہوں اور اپنے انبیاء علیہم السلام اور پیغمبر منجملہ حضرت آدم علیہ السلام کی باتوں پر عمل کرتے رہے ہوں اب اگر کچھ لوگ مخالفت کرتے بھی رہے ہوں گے تویہ مخالفت ہرامت میں ہوتی ہے لیکن مسلک میں اختلاف نہ رہاہوگا ایک توحیدی مسلک تھا جو حضرت آدم انسانوں کے لئے لائے تھے اور معاشرے کا مسلک ومذہب وہی تھا پھر یہ زمانہ ختم ہوگیا مختلف مذاہب ومسالک وجود میں آئے شرک آلود مسالک ، مختلف مذا ہب وجو د میں آجا نے کے بعد جب معا شرہ میں حق گم ہو گیا تو اس بات کی ضرو رت پیش آئی کہ دو سرے پیغمبر مبعو ث ہو ں خود حضرت آدم نبی تھے لیکن ایک مد ت گزر گئی مثلاً ایک ہزا ر سال ، اس وقت ایک ہزا ر سال بھی کچھ نہیں تھے روا یت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر تقر یباًنوسو سال تھی ۔ ایک نسل گزر گئی اور لوگ بھی حضرت آدم علیہ السلام کے دین پر رہے پھر اس کے بعد مثلاً دوسرے ہزا رے میں جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا سے تشر یف لے گئے تو لو گو ں میں کچھ اختلا فات پیش آئے اور شرک آلو د مذا ہب وجو د میں آ گئے : فَبَعْثَ اﷲُ النَّبِیِّیْنَ ''خدا نے حضرت آ دم علیہ السلام پر اکتفا ء نہ کی اور انبیاء علیہم السلام کو بھیجنا شرو ع کر دیا :
''ثُمَّ اَرْسَلْنَارُسُلَنَا تَتْرَا ''۔(١)
''خدا نے یکے بعد دیگرے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ لو گو ں کے در میان پیش آ نے والے اختلا فات بر طرف ہوجا ئیں ''۔
(فَبَعْثَ اﷲُ النَبِیِّیْنَ مُبَشَِّریْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَاَنْزَلَ مَعْھُمُُ الْکِتَابَ۔۔۔)(٢)
''پھر اﷲ نے بشارت دینے اور ڈرا نے وا لے نبیو ں کو بھیجا اور ان کے سا تھ بر حق کتا ب نا زل کی ''۔
شاید اس آیت کی بنا ء پر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آ دم علیہ السلام کو کتاب نہیں ملی تھی بلکہ زبا نی تبلیغ کیا کرتے تھے اور لو گو ں کے درمیا ن کو ئی مدوّن کتاب نہیں تھی ۔ اس کے بعد کے دور میں جب لو گو ں کے درمیا ن اختلا فات وجو د میں آ ئے تو خدا نے انبیا ء علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر کتاب نا زل فر ما ئی یعنی وحی شدہ متن جو لوگوںکے درمیا ن محفو ظ رہا ۔ یہ بات کہ جناب آ دم پر الہا م ہو اکہ لو گو ں کو حج پر جا نے کیلئے کہئے ( کیو نکہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حج خلقتِ آ دم علیہ السلام کے آ غاز سے تھا ) او ر لوگ چو نکہ جا نتے تھے کہ حضرت آدم علیہ السلام پیغمبر ہیں اور ان پر وحی ہو تی ہے لہٰذا عمل کر تے تھے لیکن بعد میں جب اختلا فا ت وجو د میں آئے تو ایک ایسے متن کی ضرورت پیش آئی جو لوگو ں کے در میان محفو ظ رہے نو شتے کی صو رت میں ہو یا کسی اور صورت میں اور اس کی عبارتیں محفو ظ رہیں کتاب کیوں نازل کی ؟ خدا وند عالم فر ما تا ہے :
( لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَااخْتَلَفُوْافِیْہِ )
''تا کہ جن با تو ں میںلوگ جھگڑاکرتے تھے کتاب خدا اْن کے اختلافا ت ختم کر دے اور اپنا فیصلہ سنادے''۔
( وَمَااخْتَلَفَ فِیہِ اِ لَّا الَّذِ ینَ اُوْتُوْہْ )
'' لو گوں میں اختلاف کے علاوہ خود کتاب کے بارے میں بھی اختلاف رونماہوا ، کن لوگوں نے اختلاف کیا؟ اْن لوگوں نے جو عمدا ًکتاب میں تحریف کیا کرتے تھے : ( بَغیاًبَینَھْم ) ظلم و ستم اور سر کشی کی بنیاد پر دین خدا میں اختلافات ایجاد کیا کرتے تھے ۔ ظاہر ہے وہ اپنے مفاوات کی خاطر ایسا کیا کرتے تھے ۔
( فَھَدَی اللَّہُ الَّذِ یْنَ آمَنُوالَمَااخْتَلَفُوْافِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہ وَاللَّہُ یَھِدِیْ مَنْ یََّشَائُ اِلَیٰ صراطٍ مْستَقِیم )
''تب خدا نے ایمان داروں کو راہ حق دکھادی جس میں ان لوگوں نے اختلاف ڈال رکھا تھا اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ''۔
اس آیت کو شاہد قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ جب خدا کے دین میں اختلا ف ہوا تو یہ اختلا فات کی موجودگی اس بات کا سبب بنی کہ کو ئی دو سرا پیغمبر مبعو ث کیا جا ئے جو اس اختلا ف کو بر طرف کر دے وہ اختلاف جو ایک پیغمبر کے چلے جا نے اور امت کے درمیا ن مو جو د نہ رہنے کی بناء پر وجو د میں آ تا تھا ۔اگر چہ یہ اختلاف سر کشی کا نتیجہ تھا اور کچھ لوگ یہ کام عمد اً کیا کر تے تھے لیکن خدا دو سرا پیغمبر اپنے لطف و کرم کی بنا ء پر بھیج دیتا کہ بعد کی نسلیں گمراہ نہ ہوں ۔
انبیاء علیہم السلام کے وجو د کے سلسلہ میں قر آ ن کریم سے اور بھی حکمتو ں اور مصلحتو ں کا پتہ چلتا ہے چنانچہ عقل کی بنیا د پر ان میں سے کچھ (حکمتو ں کا ) پتہ چلا یا جا سکتا ہے ۔اب ہم قر آ ن مجید سے معلو م ہو نے وا لی بعض حکمتیں بیا ن کر تے ہیں :
..............
١۔سو رئہ مو منون آیت ٤٤۔
٢۔سورئہ بقرہ آیت٢١٣۔