معادکے بارے میں دس سبق
چھٹا سبق:معاد کا اسی دنیا میں مشاہدہ
قرآن مجید کی آیات اس حقیقت کو بخوبی بیان کرتی ہیں کہ بت پرست اور تمام کفار نہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے زمانے میں بلکہ دوسرے زمانوں اور عصروں میں بھی معاد اور موت کے بعد زندہ ہو نے کے مسئلہ پر تعجب اور وحشت کا اظہار کرتے تھے، حتیٰ اس قسم کا اعتقاد رکھنے والوں کو دیوانہ شمار کرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہتے تھے:
<ھل ندلّکم علی رجل ینبئکم إذا مزّ قتم کلّ ممزّق إ نّکم لفی خلق جدید اٴفتریٰ علی اللّٰہ کذباً ام بہ جنّة> (سبا/۷۔۸)
”کیا ان کا کہنا ہے کہ ہم تمھیں ایسے آدمی کا پتہ بتائیں گے جو یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤگے تو تمھیں نئی خلقت کے بھیس میں لایا جائے گا ۔اس نے اللہ پر جھوٹا الزام باندھا ہے یا اس میں جنون پایا جاتا ہے۔“
جی ہاں،اس روز لاعلمی جہالت اور تنگ نظری کے سبب،موت کے بعد والی دنیا اور مردوں کے زندہ ہونے کے عقیدہ کو ایک قسم کی دیوانگی یا خدا پر تہمت شمار کیا جاتا تھا۔اور بے روح مادہ(مرنے کے بعد خاک میں ملے جسم)سے چشمہ حیات کے جاری ہونے کے عقیدہ کو دیوانگی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس قسم کے افکار کے مقابلہ میں مختلف دلائل پیش کی ہیں،کہ ان سے عام لوگوں کے علاوہ بڑے دانشور اور مفکرین بھی اپنی فکری صلا حیتوں کے مطابق استفادہ کر سکتے ہیں۔
اگر چہ قرآن مجید کی ان دلائل کی تشریح کر نے کے لئے ایک مستقل کتاب تاٴلیف کرنے کی ضرورت ہے،لیکن ہم یہاں پر ان کے چند نمونے پیش کر نے پر اکتفا کرتے ہیں :
۱۔کبھی قرآن مجید ان سے کہتا ہے کہ تم لوگ اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی آنکھوں سے ہمیشہ معاد کے مناظرکا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح بعض مخلوقات مرتی ہیں اور پھر زندہ ہوتی ہیں ،کیا اس کے باوجود بھی تم لوگ معاد کے مسئلہ میں شک وشبہہ کرتے ہو؟!
<واللّہ الّذی ارسل الرّیٰح فتثیر سحاباً فسقنہ الیٰ بلد مّیّت فاحیینا بہ الارض بعد موتھا کذٰلک النشور>
( سورہ فاطر/۹)
”اللہ ہی وہ ہے جس نے ہواؤں کو بھیجا تو وہ بادلوں کو منتشر کرتی ہیں اور پھر ہم انھیں مردہ شہر تک لے جاتے ہیں اور زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد اسے زندہ کر دیتے ہیں ،اسی طرح مردے دو بارہ اٹھائے جائیں گے۔“
موسم سر ما میں جب ہم طبیعت کے چہرہ پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر سو موت کے آثار نظر آتے ہیں،درخت پتوں،پھولوں اور میوؤں سے خالی پڑے ہیں اور خشک لکڑی بن کر اپنی جگہوں پر بے حرکت کھڑے ہیں،نہ کوئی پھول مسکراتا ہے اور نہ کوئی کلی کھلتی دکھائی دیتی ہے اور نہ پہاڑوں اور صحراؤں میں کہیں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔
جب بہار کا موسم آتا ہے ،ہوا ملائم ہوتی ہے ،بارش کے حیات بخش قطرات برسنے لگتے ہیں ،دیکھتے ہی دیکھتے پوری طبیعت میں ایک حرکت نمایاں ہو جاتی ہے:سبزے اور پودے اگنے لگتے ہیں،درختوں پرپتے لکل آتے ہیں، کلیاں اور پھول کھل اٹھتے ہیں، پرندے درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھ کر چہچہانے لگتے ہیں اور ”محشر“ کا شور بپا ہوجاتاہے۔
اگر موت کے بعد زندگی کے کوئی معنی نہ ہوتے تو ہم ہر سال اپنی آنکھوں کے سامنے ان مناظر کا مشاہدہ نہیں کرتے، اگر موت کے بعد زندگی ایک ناممکن امر اور دیوانگی کی بات ہوتی تو، ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح محسوس صورت میں اس کی ہرگز تکرار نہ ہوتی۔
آخر زمین کے مرنے کے بعد زندہ ہونے اور انسان کے مرنے کے بعد زندہ نے میں کیا فر ق ہے؟
۲۔ کبھی قرآن مجید ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں ابتدائے خلقت کی طرف لے جاتاہے، ابتدائی خلقت کی یاد دہانی کراتاہے،اس صحرائی مرد کی داستان کی طرف اشارہ کرتاہے جو سڑی گلی ایک ہڈی کا ٹکڑالے کر پیغمبر اسلام کی خدمت میں آگیا اورر چیخ چیخ کر کہنے لگا:” اے محمد! کون اس سڑی ہوئی ہڈی کو پھر سے زندہ کرنے کی طاقت رکھتاہے؟ مجھے بتادو کہ کون یہ کام انجام دے سکتاہے؟“ وہ گمان کررہا تھا کہ مسئلہ معاد کے خلاف ایک دندان شکن دلیل لے آیا ہے۔ لیکن قرآن مجید نے پیغمبر اسلام کو یہ فرمانے کا حکم دیا:
< قل یحییھا الذی انشاھا اوّل مرّة>(سورہ یٓس/۷۹)
” آپ کہدیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ(بے جان مادہ سے) خلق کیا ہے وہی (پھر سے ) زندہ کرے گا“
ابتدائی خلقت اور دوبارہ پیدا کرنے میں کیا فرق ہے ؟
لہذا دوسری آیات میں ایک بالکل مختصر لیکن بامعنی جملہ میں فرماتاہے:
<کما بدانا اول خلق لغید>( سورہ نساء/ ۱۰۳)
” جس طرح ہم نے شروع میں خلق کیا اسی طرح پھر لوٹا دیں گے۔“
۳۔ کبھی قرآن مجید وسیع زمین وآسمان کی خلقت کے بارے میں خداوند متعال کی عظیم قدرت کی یاد دہانی کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:
<اولیس الّذی خلق السّموات و الارض بقدر علی ان یخلق مثلھم بلی وھو الخلّق العلیم ۰انّما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون۰>سورہ یٓس/۸۱۔۸۲
” تو کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیدا کردے۔ یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والاہے۔ اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا تو وہ شے فورا ہوجاتی ہے۔“
ان مسائل میں شک وشبہہ کرنے والے، ایسے افراد تھے جن کی فکر کی فضا ان کے چھوٹے سے گھر کی چار دیواری سے زیادہ نہیں تھی، ورنہ وہ جانتے تھے کہ دوبارہ زندہ کرنا ابتدائی خلقت سے آسان اور سادہ تر ہے اور آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے خدا کی قدرت کے مقابلہ میں مردوں کو زندہ کرنا کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔
۴۔ قرآن مجید کبھی موت کے بعد زندہ کرنے کی پروردگار کی ”طاقتوں“ کو ان کی نظروں میں منعکس کرکے فرماتاہے:
<الّذی جعل لکم من الشجر الاخضر نارا فاذا انتم منہ توقدون>(سورہ یٓس/۸۰)
” اس نے تمھارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہے ۔“
یعنی جو خدا ہرے درخت سے آگ پیدا کرسکتا ہے وہ انسانوں کو مرنے کے بعد زندہ کرنے کی بھی قدرت رکھتاہے ۔
جب ہم قرآن مجید کی اس عجیب و غریب تعبیر پر دقت سے غور کرتے ہیں اور جدید سائنس سے مدد لیتے ہیں تو سائمنس ہمیں تباتی ہے: جب ہم کسی درخت کی لکڑی کو جلاتے ہیں تو اس سے جو آگ نکلتی ہے، یہ وہی سورج کی گری اور نورہے جو سالہا سال سے طاقت (انرجی) کی صورت میں درخت میں درخت میں ذخیرہ ہوئی ہے۔ ہم خیال کرتے تھے وہ نور اور حرارت نابود ہوچکی ہے، لیکن آج دیکھتے ہیں کہ دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں اورحیات کا لباس نوزیب تن کرلئے ہیں۔
کیا اس خدا کے لئے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا مشکل امر ہے، جو یہ قدرت رکھتا ہے کہ دسیوں سال تک آفتاب کے نور و حرارت کو ایک درخت کے جسم مین زخیرہ کرے اور ایک لمحہ میں اس حرارت اور نور کو درخت سے بارہر لے آئے(۱)؟
بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے کیسی مستدل اورواضح منطق سے ان لوگوں کا دندان شکن جواب دیکر معاد کے ممکن ہونے کو واضح طور پر ثابت کردیاہے، جو مسئلہ میں شک و شبہہ ایجاد کرتے تھے اور حتی کہ معاد کا اعتقاد رکھنے والوں کو دیوانہ کہتے تھے۔
__________________
۱۔ قابل غور بات ہے کہ سائنس(علم نباتات) نے ثابت کیا ہے کہ ہرے درخت سورج کی روشنی سے کاربن ڈائی اوکسائڈ گیس کو جذب کرکے اس کاتجزیہ کرتے ہیں اور کاربن کو اپنے اندر ذخیرہ کرتے ہیںا ور اوکسیجن کو چھوڑ دیتے ہیں اس کے علاوہ سورج کی توانای (انرجی) کو بھی اپنے اندر ذخیرہ کرتے ہیں۔
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔ مسئلہ معاد سے مشرکین کیوں تعجب کرتے تھے؟
۲۔ معاد کے منظر کو ہم کیسے ہر سال پودوں میں مشاہدہ کرتے ہیں؟
۳۔ قرآن مجید نے اپنی بعض آیات میں جنین کے دوران کو معاد کی ایک نشانی تبائی ہے، اس کی وجہ کیاہے؟
۴۔ توانائیوں(انرجیوں) کا دوبارہ زندہ ہونا کیاہے؟
۵۔ قرآن مجید نے کیوں” الشجر الاخضر“(ہر ے درخت) سے استدلال کیا ہے؟
ساتواں سبق:معاد اور تخلیق کا فلسفہ
بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے؟
باغبان درخت کو پھل کے لئے لگاتاہے، کسان فصل کاٹنے کے لئے زمین کو کھود کر اس میں کیاریان بناتا ہے اور بیج بوتاہے۔ آخر خلقت کے باغبان نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے؟
کیا خداوند متعال کو کسی چیز کی کمی تھی، جس کی تلافی کے لئے ہمین خلق کیاہے؟ اس صورت میں تو خدا کو محتاج ہونا پڑے گا اور پروردگار کے لئے محتاج ہونا اس کی ذات اور اس کے لامحدود وجود کے شایان شان نہیں ہے۔
مذکورہ سوالات کا جواب مفصل ہے لیکن ان کے جواب چند جملوں میں خلاصہ کرکے واضح کیا جاسکتاہے:
ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم خداوند متعال کی صفات کا اپنی ذات سے موازنہ کرتے ہیں، چونکہ ہم ایک محدود مخلوق ہیں، اس لئے جو بھی کام انجام دیتے ہیں، اپنی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہوتاہے، ہم سبق پڑھتے ہین تا کہ اپنی علمی کمی کو پورا کریں، کام کرتے ہیں تا کہ اپنی مال کمی پورا کریں ۔ علاج و معالجہ کے پیچھے دوڑتے ہین تا کہ صحت وسلامتی حاصل کریں۔
لیکن خداوند متعال، جو ہر لحاظ سے ایک لا محدود وجود ہے، اگر کو ئی کام انجام دے تو ہمیں اس کے مقصد کو اس کے وجود سے باہر جستجو اور تلاش کرنی چاہئے، وہ اس لئے کسی کو پیدا نہیں کرتا ہے تا کہ خود اسے کوئی فائدہ ملے،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ”اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازے“۔
وہ ایک پر نور اور لا محدود سورج ہے ، جو کسی احتیاج کے بغیر اپنا نور پھیلاتاہے تا کہ سب اس کے وجود سے مستفید ہوں ۔ یہ اس کی لامحدود اورپر برکت و پر فیض ذات کا تقاضا ہے کہ تمام مخلوقات کا ہاتھ بکڑ کر انھیں کمال کے راستہ پر گامزن کرتاہے۔
ہماری خلقت اپنے عدم سے کمال کی طرف ایک برجستہ قدم تھا خدا کی طرف سے انبیاء کا بھیجنا،آسمانی کتابوں کا نزول اور قوانین و احکام کا معین ہونا، ہر ایک ہمارے کمال کے مراحل شمار ہوتے ہیں ۔
یہ دنیا ایک عظیم یونیورسٹی ہے اور ہم اس کے طالب علم ہیں(۱)۔
یہ دنیا ایک آمادہ کھیت ہے اورہم اس کے کسان ہیں(۲)۔
یہ دنیا ایک فائدہ بخش تجارتی مرکز ہے اورہم اس کے تاجر ہیں(۳)۔
ہم کیسے انسان کی خلقت کے لئے کسی مقصد کے قائل نہیں ہوسکتے ؟ حالانکہ جب ہم اپنے اطراف پر نظر ڈالتے ہیں اور مخلوقات کے ذرہ ذرہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے ہر ذرہ کا ایک مقصد ہے۔
۱،۲،۳:نہج البلاغہ:کلمات قصار اور حدیث مشہور”الدنیا مزرعة الآخرة“ کامضمون۔
ہمارے بدن کے عجیب وغریب کارخانہ میں کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے یہاں تک کہ ہمارے آنکھوں کی پلکیں اور ہمارے تلوؤں کی گہرائی بھی بے مقصد نہیں ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے وجود کا ہر جز کوئی مقصد رکھتا ہولیکن ہمارا پورا وجود بے مقصد ہو؟
جب ہم اپنے وجود سے باہر آکر اس عظیم کائنات پر نظر ڈالتے ہیں،تو ہم اس کائنات میں موجود ہر چیز کو بامقصد پاتے سورج کی روشنی با مقصد ہے ،بارش کا برسنا با مقصد ہے اور ہوا کاچلنا بھی بامقصد ہے، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ پوری کائنات بے مقصد ہو؟!
حقیقت یہ ہے کہ گویا اس عظیم کائنات کے بیچ میں مقصد کی نشامذہبی کے لئے ایک بڑاسائن بورڈ نصب کیا گیا ہے ہم اس کی عظمت کے پیش نظر کبھی پہلے لمحات میں اسے دیکھ نہیں پاتے ہیں اس سائن بورڈپر یہ عبارت لکھی گئی ہے: ” تربیت و تکامل“۔
اب جبکہ ہم اپنی خلقت کے مقصد کے بارے میں کسی حدتک آگاہ ہوگئے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری اس دنیا کی چند دنوں کی زندگی ان تمام مشکلوں،مصیبتوں اور ناکامیوں کے ساتھ ہماری خلقت کا مقصد ہوسکتی ہے؟
فرض کیجئے میں اس دنیا میں ساٹھ سال زندگی بسر کروں ،ہرروز صبح سے شام تک روزی کمانے کے لئے کوشش کروں اور شام کو تھکا ہوا گھر لوٹوں ،اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ میں اپنی پوری عمر میں کئی ٹن غذا اور پانی صرف کروں ،بڑی زحمتوں اور محنتوں کے بعد ایک گھر تعمیر کروں ،پھر اسے یہیں پر چھوڑ کر اس دنیا سے چلاجاؤں ۔کیا اس مقصد کی یہی اہمیت ہے کہ مجھے درد ورنج سے بھری اس چند روزہ زندگی کی طرف بلایا جائے؟
اگر ایک انجینئر ،ایک بیابان کے بیج میں ایک بڑی عمارت تعمیر کرے اور اس کو مکمل کر نے میں اسے برسوں لگ جائیں اور اس عمارت کو مکمل کر نے کے بعد اس میں تمام سازوسامان فراہم کرے ۔لیکن جب اسے اس عمارت کی تعمیر کے بارے میں سوال کریں کہ آپ کا مقصد کیا ہے؟ تو وہ جواب میں کہے :میرا مقصد یہ ہے کہ جب تک یہ عمارت اس بیابان میں موجود ہے جو بھی مسافر یہاں سے گزرے،اس میں ایک گھنٹہ آرام کرے!کیا یہ جواب سن کر ہم سب تعجب سے یہ نہیں کہیں گے :ایک مسافر کے ایک گھنٹہ آرام کے لئے اس قدر زحمتوں اور محنتوں کی ضرورت نہیں تھی!
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ قیا مت اور موت کے بعد والی زندگی کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیںوہ اس دنیا کی زندگی کو فضول سمجھتے ہیں ۔مادہ پرستوں کی زبان سے یہ جملہ اکثر سنا گیا ہے کہ اس دنیا کی زندگی بے مقصد ہے۔حتی بعض اوقات ان میں سے کچھ افراد خود کشی کر لیتے ہیں کیونکہ وہ اس دنیا کی مادی اور مکرر اور بے مقصد زندگی سے تنگ آجاتے ہین۔
جو چیز زندگی کو مقصد بخشتی ہے اور اسے معقول اور با حکمت بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس زندگی کو دوسری دنیا کے لئے مقدمہ سمجھاجائے اور اس زندگی کے مشکلات کو برداشت کر نا اور اس کے لئے اتنے دکھ درد اٹھانا ایک ابدی زندگی کی راہ میں استفادہ کر نے کے لئے ہو۔
یہاں پر اس دلچسپ مثال کا پھر سے ذکر کر نا مناسب ہو گا جسے ہم نے اس سے پہلے بیان کیا ہے،یعنی اگر ماں کے شکم میں موجود جنین صاحب عقل وشعور ہو تا اور اس سے کہا جاتا :”تیری اس زندگی کے بعد کوئی خبر نہیں ہے ،“تو وہ اپنی زندگی پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا:”پس اس کا کیا مطلب ہے کہ میں اس جگہ قیدی بنا رہوں؟خون پیتا رہوں اور ہاتھ پاؤں باندھے ہو ئے ایک کو نے میں پڑا رہوں اور اس کے بعد کچھ نہ ہو ؟پرور دگار کا میری اس خلقت سے کیا مقصد تھا؟!“لیکن اگر اسے اطمینان دلایا جائے کہ یہ چند مہینے جلدی گزرنے والے ہیں اور یہ دنیا میں نسبتاً ایک طولانی زندگی کی آمادگی کا دور ہے ،وہ دنیا اس جنین کے ماحول سے بہت زیادہ وسیع،پر نور اور با شکوہ ہے اور اس کی نسبت زیادہ نعمتوں سے مالا مال ہے۔“اس وقت وہ مطمئن ہو جائے گا کہ اس کاجنینی دوران ایک با معنی و با مقصد دور ہے اسی لئے قابل برداشت ہے۔
قرآن مجید سورہ واقعہ آیت نمبر ۶۲ میں ارشاد فر ماتا ہے:
<ولقد علمتم النشّاة الاولیٰ فلو لا تذکرون>
”اور تم پہلی خلقت کو تو جانتے ہو تو پھر اس میں غور کیوں نہیں کرتے ہو؟(کہ اس کے بعد بھی ایک جہان ہے)۔“
مختصر یہ کہ یہ دنیا اپنے تمام وجود سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس کے بعد ایک اور دنیا ہے ورنہ یہ دنیا فضول ،بیہودہ اور بے معنی ہوتی ۔
اس بات کو قرآن مجید کی زبانی سنئے کہ سورہ مو منون کی آیت نمبر ۱۱۵ میں ارشاد فر ماتا ہے:
<اٴفحسبتم اٴنّما خلقنکم عبثا وانکم إ لینا لا تر جعون>
”کیا تمھارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمھیں بیکار پیدا کیا اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے؟“
اس کا اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ اگر ”معاد“(جس کی تعبیر قرآن مجید میں خدا کی طرف پلٹنا ہے)کا وجود نہ ہو تا تو انسان کی خلقت عبث اور بیہودگی کے برابر ہوتی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلقت کا فلسفہ کہتا ہے:اس عالم کے بعد ایک اور عالم کا وجود ضروری ہے۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔خدا کی صفات کا مخلوق کی صفات سے کیوں موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے؟
۲۔ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟
۳۔کیا اس دنیا کی زندگی انسان کی خلقت کا مقصد ہوسکتی ہے۔
۴۔جنین کی زندگی کا اس دنیا کی زندگی سے موازنہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟
۵۔قرآن مجید اس دنیا کی تخلیق سے آخرت کے وجود پر کیسے استدلال کرا ہے؟
آٹھواں سبق :روح کی بقاء،قیامت کی ایک علامت
کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ انسان کب سے”روح“کے وجود کے بارے میں فکر کرنے لگاہے۔
صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ انسان ابتداء سے ہی اپنے اور اس دنیا کی دوسری مخلوقات کے در میان فرق کا مشاہدہ کرتا رہا ہے ،اپنے او رپتھر ،لکڑی ،پہاڑ اور صحرا کے در میان فرق،اپنے اور حیوانات کے در میان فرق۔
انسان نے خواب کی حالت کو دیکھا تھا ،اسی طرح اس نے موت کی حالت کو بھی دیکھاتھا ۔وہ دیکھ رہاتھا کہ خواب اور موت کے دوران بغیر اس کے کہ جسم و مادہ میں کوئی تبدیلی ایجاد ہو اس کی حالت میں ایک عظیم تغیر وتحول پیدا ہوتا ہے ،یہیں سے اس نے سمجھا کہ اس جسم کے علاوہ ایک اور گوہر بھی اس کے اختیار میں ہے۔
اس کے علاوہ وہ دیکھ رہا تھا کہ حیوانات سے بھی فرق رکھتا ہے،کیونکہ وہ فیصلے لینے میں اختیار وآزادی کا مالک ہے ،جبکہ حیوانات کی نقل وحرکت فطری اور جبری ہے۔
بالخصوص نیند کی حالت میں جب اس کے بدن کے تمام اعضاء ایک کونے میں خاموش پڑے ہوتے تھے اور وہ خواب میں مختلف مناظر کا مشاہدہ کرتا تھا تو اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ ایک مخفی اور پر ُاسرارطاقت اس کے وجود پر حکم فر ماہے ،تو اس نے اس کا نام ”روح“ رکھا۔
جب عالم بشریت کے مفکرین نے فلسفہ کی بنیاد ڈالی تو ”روح“ایک اہم فلسفی مسئلہ کے عنوان سے دوسرے مسائل کی فہرست میں قرار پائی ۔اس کے بعد تمام فلاسفہ نے اس کے بارے میں اپنے نظریات پیش کئے،یہاں تک کہ بعض اسلامی علماء کے کہنے کے مطابق ،روح کی حقیقت اور اس سے مربوط دوسرے مسائل کے بارے میں تقریباً ”ایک ہزار اقوال ونظریات“پیش کئے گئے ہیں۔ یہ ایک لمبی بحث ہے، لیکن جس اہم مطلب کو جاننا ضروری ہے،وہ اس سوال کا جواب ہے:
کیا روح مادہ ہے یا غیر مادہ ؟دوسرے الفاظ میں :کیا روح مستقل ہے یا مغز واعصاب کے سلسلہ کے مادی اور کیمیاوی خصوصیات میں سے ہے؟
بعض مادی فلاسفہ اس بات پر مصر ہیں کہ روح اور اس سے متعلق مظاہر بھی مادی ہیں اور مغز کے خلیوں کے خواص میں سے ہیں،اور جب انسان مرتا ہے تو اس کے ساتھ روح بھی نابود ہو جاتی ہے ،بالکل اسی طرح کہ ایک گھڑی پر ہتھوڑی مار کر اسے توڑ دیا جائے تو اس گھڑی کا چلنابھی بند ہو جا تا ہے!
اس گروہ کے مقابلہ میں الہٰی فلاسفہ ہیں،حتی بعض مادی فلاسفہ بھی جوروح کی حقیقت کے قائل ہیں ،وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ بدن کے مرنے سے روح نہیں مرتی بلکہ وہ باقی رہتی ہے۔
اس مسئلہ ،یعنی روح کی حقیقت ،استقلال اور بقاء کو ثابت کر نے کے لئے کافی اور پیچیدہ دلائل پیش کی گئی ہیں کہ ہم یہاں پر ان میں سے بعض واضح ترین دلائل کو آسان اور روان عبارتوں میں اپنے عزیز نو جوانوں کی آگاہی کے لئے بیان کرتے ہیں:
۱۔ ایک وسیع کا ئنات ایک چھوٹی جگہ میں نہیں سما سکتی
فرض کیجئے آپ ایک عظیم سمندر کے کنارے بیٹھے ہیں ۔اس کے ساحل پر سربفلک پہاڑوں کاایک سلسلہ ہے ۔پانی کی گرجتی لہریں مسلسل ساحلی چٹانوں سے ٹکراتی ہیں اور غیض وغضب کی حالت میں سمندر کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔
پہاڑ کے دامن میں واقع بڑی بڑی چٹانیں بتارہی ہیں کہ پہاڑوں پر کیا غوغا ہے،نیلگوں آسمان بھی اس پہاڑ اور سمندر پر خیمہ لگائے ہوئے ہے اور رات کے وقت اپنی عظمت و شکوہ کا مظا ہرہ کر رہا ہے۔
ہم ایک لمحہ اس منظر کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے اس منظر کو اپنے ذہن میں اسی شان وشوکت اور عظمت کے ساتھ مجسم کرتے ہیں۔
بے شک اس ذہنی نقشہ اور اس عظیم منظر اور تصور کے لئے ایک مناسب جگہ کی ضرورت ہے،ممکن نہیںہے کہ یہ نقشہ مغز کی چھوٹی خلیوں میں سما سکے ،اگر ایسا ہو تو ایک بڑا نقشہ ایک چھوٹے سے نقطہ پر سمائے گا (جو محال ہے)،جبکہ ہم اس نقشہ کو اس کی تمام عظمتوں کے سا تھ اپنے ذہن میں احساس کرتے ہیں۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم جسم اور مغز کی خلیوں کے علاوہ ایک اور گوہر رکھتے ہیں اور ہر اندازہ کے نقشہ کو اپنے اندر منعکس کر سکتا ہے،یقینا یہ گوہر عالم مادہ سے ماوراء ہے،کیونکہ مادی دنیا میں ہمیں ایسی چیز نہیں ملتی ہے۔
۲۔بیرونی دنیا میں روح کے انعکاس کی خصوصیت
ہم اپنے وجود کے اندر بہت سی طبیعیاتی اور کیمیاوی خاصیتں رکھتے ہیں،معدہ اور دل کی حرکتیں طبیعیاتی عمل ہیں،لیکن آب دہن اور معدہ کی رطوبت کا غذا پر اثر ایک کیمیاوی عمل ہے ۔اور اس قسم کے عوامل ہمارے پورے جسم میں فراواں صورت میں پائے جاتے ہیں۔
اگر روح ،سوچ اور فکر سب مغزکی خلیوں کی مادی ،طبیعیاتی اور کیمیاوی خصو صیتیں ہیں،توان میں اور ہمارے جسم کی دوسری خصوصیتوں میں کیوں فرق پا یا جا تا ہے؟
فکر واندیشہ اور روح بیرونی دنیا کے ساتھ ہمارے رابطہ اور پیوند کو برقرار کرتی ہیں اور ہمارے ارد گرد گزرنے والے حالات سے ہمیں آگاہ کرتی ہیں،لیکن لعاب دہن اور معدہ کی رطوبت کی کیمیائی خصو صیتں اور آنکھ ،زبان،اور دل کی طبیعیاتی حر کتیں ہر گز یہ حالت نہیں رکھتی ہیں ۔
دوسرے الفاظ میں ،ہم بخوبی احساس کرتے ہیں کہ ہمارا وجودبیرونی دنیا سے
مر بوط ہے ،اور ہم اس کے مسائل سے آگاہ ہیں ،کیا بیرونی دنیا ہمارے اندر داخل ہوتی ہے؟ یقینا نہیں،پس مسئلہ کیا ہے؟
یقینا بیرونی دنیا کا نقشہ ہماے پاس آتا ہے اور ہم روح کی بیرونی منظر کشی کی خصوصیت سے استفادہ کے ذریعہ اپنے وجود سے باہر والی دنیا کے بارے میں آگاہ ہوتے ہیں اور یہ خصوصیت ہمارے جسم کے کسی بھی طبیعیاتی اور کیمیائی حصہ میں موجود نہیں ہے۔(غور کریں)
دوسری عبارت میں :بیرونی اور عینی مخلوقات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ان پر ایک قسم کا تسلط اور حاوی ہو نا ضروری ہے ۔یہ کام مغز کی خلیوں کا نہیں ہے،مغز کی خلیے صرف باہر سے متاٴثر ہو سکتی ہیں ،جس طرح جسم کی دوسری خلیے متاٴثر ہوتی ہیں۔
اس فرق سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں پر طبیعیاتی اور کیمیائی تبدیلیوں کے علاوہ ایک اور حقیقت کا وجود ہے جو ہمیں اپنے وجود سے باہر والی دنیا پر مسلط اور حاوی کرتی ہے اور یہ ”روح“کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ،جو مادی دنیا اور مادہ کی خصوصیات سے بالاتر ہے۔
۳۔روح کے حقیقی اور مستقل ہونے پر تجرباتی دلائل
خوش قسمتی سے آج دنیا کے دانشوروں اور سائنسدانوں نے مختلف علمی اور تجربی طریقوں سے روح کی حقیقت اور اس کے مستقل ہونے کو ثابت کیا ہے اوران لوگوں کا داندان شکن جواب دیا ہے جو روح کے مستقل ہو نے کے منکر ہیں اور اسے مادہ کی خصوصیات سے نیز اس کا تابع جانتے ہیں ۔
۱۔مقنا طیسی خواب (ہیپنو ٹزم یا میگنیٹزم)ان محکم دلائل میں سے ہیں جو بہت سے تجربوں کے بعد ثابت ہوئے ہیں ۔بہت سے لوگوں نے انھیں دیکھا ہے ،جن لوگوں نے ان کو نہیں دیکھا ہے،ان کے لئے تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے:
کچھ افراد مختلف علمی طریقوں سے کسی اور شخص کے ذریعہ نیند میں چلے جاتے ہیں،کسی کو نیند میں ڈالنے والے کو”عامل “کہا جاتا ہے اور نیند میں چلا جانے والا ”میڈیم“کہلاتا ہے۔”میڈیم“شخص تلقین ،فکری تمرکز،اور آنکھ کی مقنا طیسی قوت جیسی چیزوں کے ذریعہ ایک گہری نیند میں چلا جاتا ہے ،لیکن یہ نیند عام نیند کے مانند نہیں ہوتی ہے ،بلکہ یہ ایک ایسی نیند ہوتی ہے جس میں سونے والے (میڈیم)سے رابطہ برقرار کیا جاسکتا ہے،اس سے بات کی جاسکتی ہے اور اس کا جواب سنا جاسکتا ہے۔
اسی حالت میں روح سونے والے کو مختلف جگہوں پر بھیجتی ہے،کبھی وہ وہاں سے اپنے ساتھ تازہ خبریں لے آتا ہے اور ایسے مسائل کی اطلاع حاصل کرتا ہے،جن کے بارے میں عام حالت میں اسے کوئی خبر نہیں ہوتی ہے۔
کبھی اس حالت میں ریاضی کے پیچیدہ ترین سوال حل کرتا ہے۔
کبھی اس مقنا طیسی نیند کے دوران اپنی مادری زبان کے علاوہ ایک ایسی زبان میں بات کرتا ہے ،جس سے وہ کبھی آشنا نہیں تھا۔
کبھی کسی مقفّل صندوق میں رکھے ہوئے کاغذ پر کچھ مطالب وہ لکھ دیتا ہے ۔
حتی کہ کبھی ارواح ،شبح (دورسے نظرآنے والے جسم) کی صورت میںاور کبھی واضح سایوں کی صورت میں اس قسم کے اجتماعات میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان کی تفصیل ہم نے کتاب”عودارواح“ میں بیان کی ہے۔
۲۔”اسپرٹزم“ یا”موت کے بعد ارواح سے ارتباط“ روح کی حقیقت اور استقلال کی ایک دلیل ہے۔
اس وقت بھی ”روحیون کی جماعتوں“ کے نام سے دنیا بھر میں کچھ ایسے افراد موجود ہیں۔ جن کے بارے میں مصری دانشور”فریدوجدی“ کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے تقریبا تین سورسالے اورروزنامے دنیا بھر میں شائعے ہوتے ہیں۔ مختلف شخصیتوں پر مشمل معروف افراد ان کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں اور ان کے سامنے ارواح سے رابطہ قائم کیا جاتاہے اور اس کے علاوہ بہت سے غیر معمولی کام بھی انجام دئے جاتے ہیں۔
اگر چہ بعض فریب کار، روح سے ارتباط کے مسئلہ کے بارے میں کسی قسم کا علم رکھے بغیر لوگوں کو دھو کہ دینے کے لئے ارواح سے رابطہ کا دعوی کرتے ہیںا ور اس طرح اس سے کافی حد تک ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں۔ لیکن یہ فریب کاری اس حقیت کے سلسلہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا بڑے بڑے محققین نے اعتراف کیا ہے اور وہ ارواح کے ساتھ رابطہ کا ممکن ہونا ہے(۱)۔
یہ سب انسان کی روح کی حقیقت ، اس کے استقلال اور مرنے کے بعد باقی رہنے کی دلیل ہے، اور معاد اورموت کے بعد زندگی کی حقیقت کے سلسلہ میں ایک مؤثر قدم ہے۔
۳۔ وہ خواب جو ہم دیکھتے ہیں اور خواب کی حالت میں ہمارے سامنے مجسم ہونے والے مناظر کبھی مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث سے پردہ اٹھاتے ہیں اور پوشیدہ مسائل کو آشکار کرتے ہیں، ان کو ہم محض اتفاق نہیں کہہ سکتے، بلکہ یہ بھی روح کی حقیقت و استقلال کی ایک اور دلیل ہیں۔
اکثر افراد نے اپنی زندگی میں سچے خواب دیکھے ہیں اس کے علاوہ سنتے آئے ہیں کہ فلاں دوست نے ایک ایسا خواب دیکھا ہے کہ ایک مدت کے بعد کسی کمی بیش کے بغیر اس کی تعبیر سچ نکلی ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ انسان کی روح کا خواب کی
۱۔ اس کی مزید و ضاحت کے لئے کتاب”عود ارواح“ اورکتاب”معاد وجہان پس از مرگ“ کی طرف رجوع فرمائیں۔
حالت میں دوسرے عوالم سے رابطہ ہوتاہے اور وہ کبھی مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث کا مشاہدہ کرتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ اموربخوبی ثابت کرتے ہیں کہ روح مادی نہیں ہے اور یہ انسان کے مغز کی طبیعیاتی اور کیمیائی خصوصیت نہیں ہے، بلکہ یہ ماورائے طبیعت ایک حقیقت ہے جو اس جسم کے مرنے سے نابود نہیں ہوتی ہے اور یہ امور بذات خود مسئلہ معاد اور موت کے بعد عالم آخرت کو ثابت کرنے کے لئے راہ کوہمرارکرتی ہیں۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔ روح کے مسئلہ میں الہی فلاسفہ اور مادی افراد کے درمیان کیا فرق ہے؟
۲۔ روح کی حقیقت کی ایک دلیل ”بڑی چیز کا چھوٹی جگہ میں نہ سماناہے“ اس سے مراد کیاہے؟
۳۔ ”مقناطیسی خواب“ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
۴۔ ارواح کے ساتھ ارتباط سے کیا مراد ہے؟
۵۔ سچے خواب کس طرح روح کی حقیقت اوراستقلال کی دلیل ہے؟
نواں سبق:جسمانی اورروحانی معاد
معاد کی بحث میں پیش آنے والے اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا ”معاد“ صرف روحانی پہلو رکھتی ہے یا انسان کا جسم و بدن بھی دوسری دنیا میں لوٹ آئے گا؟ اور انسان اسی دنیوی روح وجسم کے ساتھ صرف بلندتر درجہ کے ساتھ دوسری دنیا میں زندگی کوجاری رکھے گا؟
پرانے زمانہ کے بعض فلاسفہ صرف روحانی معاد کے قائل تھے اور جسم کو ایک ایسا مرکب جانتے تھے جو صرف اس دنیا سے مربوط ہے اور موت کے بعد انسان اس کا محتاج نہیں ہوگا، اسے چھوڑ کر عالم ارواح میں پرواز کرے گا۔
لیکن اسلام کے عظیم علما اور بہت سے فلاسفہ کا عقیدہ یہ ہے کہ معاد دونوں صورتوں میں یعنی ”روحانی“ و”جسمانی“ ہوگی۔ صحیح ہے کہ یہ جسم خاک بن جائے گا اور یہ خاک زمین میں پراگندہ ہوکر گم ہوجائے گی، لیکن پروردگار قادر و عالم ان تمام ذرات کو قیامت کے دن دوبارہ اکٹھا کرکے انھیں زندگی بخشے گا اور اس موضوع کو”جسمانی معاد“ کہا جاتا ہے ،کیونکہ روح کے پھر سے لوٹنے کو قطعی سمجھا گیا ہے اور چونکہ بحث صرف جسم کے لوٹنے کی ہے، یہ نام اسی عقیدہ کے لئے رکھا گیاہے۔
بہر حال معاد سے متعلق، قرآن مجید میں مختلف اور کافی تعداد میں موجود آیات بھی ”جسمانی معاد“پر دلالت کرتی ہیں۔
جسمانی معادپر قرآنی شواہد
ہم اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک صحرائی عرب نے ایک بوسیدہ ہڈی کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خد مت میں پیش کر کے سوا ل کیا تھا کہ کون اسے پھر سے زندہ کرسکتا ہے؟اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے حکم سے جواب دیا تھا کہ وہی خدااسے پھر سے زندہ کر سکتا ہے جس نے اسے پہلے خلق کیا ہے،وہی جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سبزے درخت سے آگ نکالی ہے ۔اس واقعہ سے مربوط آیات سورہ یٓس کی آخر میں آئی ہیں۔
قرآن مجید کا دوسری جگہ پر ارشاد ہے:
”تم لوگ قیامت کے دن قبروں سے باہر آؤ گے۔“
( سورہ یٓس/۵۱،قمر/۷)
ہم جانتے ہیں کہ قبریں خاک شدہ جسموں کی جگہ ہیں نہ روح کی۔
بنیادی طور پر معاد کے منکروں کا تعجب اس بات پر تھا کہ وہ کہتے تھے :”جب ہم خاک میں تبدیل ہوجائیں گے اور یہ خاک پرا گندہ ہو جائے گی تو ہم کیسے پھر سے زندہ ہو جائیں گے؟“
<وقالوا ء إذاا ضللنا فی الارض ء إنّالفی خلق جدید>(سورہ سجدہ/۱۰)
اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہو گئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے؟“
قرآن مجید جواب میں ارشاد فر ماتا ہے:
<اولم یروا کیف یبدی ء اللّٰہ الخلق ثم یعیدہ إنّ ذٰلک علی اللّٰہ یسیر>(سورہ عنکبوت/۱۹)
”کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کس طرح مخلوقات کو ایجاد کرتا ہے اور پھر دوبارہ واپس لے جاتا ہے،یہ سب اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔“
ایک عرب جاہل کہتاتھا:
اٴیعدکم اٴنّکم إذا متّم وکنتم تراباً وعظاما اٴنّکم تخرجون) (سورہ مومنون/۳۵)
”کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور ہڈی ہوجاؤگے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤگے؟“
قرآن مجید کی مذکورہ تمام تعبیرات اور اس موضوع سے متعلق دوسری آیات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جگہ پر ”جسمانی معاد“کی بات کرتے تھے اور تنگ نظر مشرکین کا تعجب بھی اسی بات پر تھا۔چنانچہ ہم نے دیکھاکہ قرآن مجید اسی جسمانی معاد کے چند نمونوں کو نباتات وغیرہ کے سلسلہ میں پیش کر کے ان کے لئے تشریح فر ماتا ہے اور ابتدائی خلقت اور خدا کی قدرت کو شاہد کے طور پر پیش کرتا ہے۔
اس لئے ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو اور قرآن مجید سے تھوڑی سی واقفیت رکھتے ہوئے جسمانی معاد کا منکر ہو۔قرآن مجید کی نظر میں جسمانی معاد کا انکار اصل معاد کے انکار کے برابر ہے۔
عقلی شواہد
اس کے علاوہ عقل بھی کہتی ہے کہ روح اور بدن الگ الگ حقیقتیں نہیں ہیں ،یہ دونوں مستقل ہونے کے باوجود آپس میں پیوند اور رابطہ رکھتے ہیں،دونوں ایک ساتھ نشو ونما پاتے ہیں ،اور یقینا ابدی اور جاودانی زندگی کے لئے ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
اگرچہ دونوں(روح اور بدن)برزخی مدت(دنیا وآخرت کے در میان فاصلہ)کے دوران کچھ مدت تک ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں،لیکن ہمیشہ کے لئے یہ دوری ممکن نہیں ہے ۔جس طرح روح کے بغیر جسم ناقص ہے اسی طرح روح بھی جسم کے بغیر ناقص ہے ۔روح حکم فرما اور عامل حرکت ہے اور بدن فر مانبردار اور وسیلہ عمل ہے ،کوئی بھی حکم فر ما،فرما نبردار سے اور کوئی بھی ہنر مند وسیلہ عمل سے بے نیاز نہیں ہوتاہے۔
چونکہ آخرت میں روح اس دنیا کی نسبت ایک بلندتر سطح پر قرار پائے گی اس لئے اسی نسبت سے جسم کو بھی کمال حاصل کر نا چاہئے ،اور ضرور ایساہی ہوگا ،یعنی انسان کا جسم قیامت کے دن اس دنیا کی فرسودگی ،عیوب اور نقائص سے خالی ہوگا۔
بہر حال جسم و روح ایک دوسرے کی ہمزاد اور مکمل کر نے والے ہیں اور معاد صرف روحانی یا صرف جسمانی نہیں ہو سکتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں جسم وروح کی خلقت اور ان کے آپسی رابطہ اور پیوند کی حالت کا مطالعہ اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ معاد جسمانی و روحانی دونوں صورتوں میں واقع ہوگی ۔
دوسری طرف انصاف وعدالت کا قانون بھی یہی کہتا ہے :معاد دونوں پہلوؤں سے (جسمانی وروحانی)ہونی چاہئے ۔کیونکہ اگر انسان کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے ۔تو اس نے اس گناہ کو اس روح اور جسم کے ذریعہ انجام دیا ہے ،اور اگر اس نے کو ئی نیک کام انجام دیا ہے تو وہ بھی اس جسم وروح سے انجام دیا ہے اس لئے اس کی جزا اور سزا بھی اسی روح اور بدن کو ملنی چاہئے ۔اگر صرف جسم ہی پلٹے گا یا صرف روح ہی پلٹے گی اور ان میں سے صرف ایک ہی کو جزا یاسزا ملے گی،تو عدل وانصاف کا قانون نافذ نہیں ہوگا ۔
جسمانی معاد سے متعلق چند سوالات
دانشوروں نے اس سلسلہ میں متعدد سوالات پیش کئے ہیں کہ بحث کو مکمل کرنے کے لئے ان میں سے بعض کاذکر جواب کے ساتھ ضروری ہے:
۱۔علوم طبیعیات( natural sciences)کے دانشوروں کی تحقیقات کے مطابق،انسان کا بدن اس کی پوری عمر کے دوران کئی بار تبدیل ہوتا ہے ۔اس کی مثال اس پانی کے حوض جیسی ہے،جس میں ایک طرف سے پانی داخل ہوتا ہے اور دوسری طرف سے رفتہ رفتہ باہر نکلتا ہے ظاہر ہے کہ ایک مدت کے بعد اس حوض کا پورا پانی تبدیل ہو جاتا ہے ۔
انسان کے بدن میں یہ صورت احتمالاًہر سات سال کے بعد ایک بار پیش آتی ہے ،اس لئے انسان کا بدن اس کی پوری حیات کے دوران کئی بار تبدیل ہو تا ہے!
اب یہ سوال پیداا ہوتا ہے کہ انسان کے جسموں میں سے کون سا جسم قیامت کے دن لوٹے گا؟
اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں :ان میں سے انسان کا آخری بدن لوٹے گا،جیسا کہ مذکورہ آیات میں ہم نے پڑھا کہ خداوند متعال انسانوں کو ان ہی پوسیدہ اور خاک شدہ ہڈیوں سے دوبارہ زندہ کرے گا ۔اور اس بات کے یہ معنی ہیں کہ انسان کا آخری بدن لوٹے گا،اسی طرح قبروں سے مردوں کے اٹھ کر نکلنے سے بھی آخری بدن کے زندہ ہو نے کے معنی نکلتے ہیں۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کا آخری بدن اپنے اندر وہ تمام آثار اور خصو صیات محفوظ رکھتا ہے جو اس کی پوری عمر میں مختلف بدن رکھتے تھے ۔
دوسرے الفاظ میں:جو بدن تدریجاًنابود ہو تے ہیں۔وہ اپنے آثار وخصوصیات کو آنے والے دوسرے بدن میں منتقل کرتے ہیں،اس لئے آخری بدن گزشتہ تمام بدنوں کا وارث ہو تا ہے اور عدل وانصاف کے قانون کے تحت تمام جزا وسزا کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔
۲۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم خاک میں تبدیل ہو جائیں گے اور ہمارے بدن کے ذرات پودوں اور میوؤں میں تبدیل ہو جائیں گے ،اور نتیجہ کے طور پر دوسرے انسان کے بدن کے جزو بن جائیں گے تو قیا مت کے دن کیا ہو گا؟(یہ وہی چیز ہے جسے فلسفہ وکلام کے علم میں ”شبہئہ آکل و ماٴکول“کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)
اگر چہ اس سوال کا جواب تفصیلی بحث کا حامل ہے، لیکن ہم ایک مختصر عبارت میں ضرورت بھر اس پر بحث کر نے کی کوشش کریں گے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے :جس انسان کے بدن کے ذرات خاک میں تبدیل ہو نے کے بعد دوسرے بدن میں منتقل ہوتے ہیں ،وہ یقینا پہلے بدن میں واپس آجاتے ہیں۔(مذکورہ آیات بھی اس دعویٰ کی واضح شا ہد ہیں)
یہاں پر بظاہر جو مشکل نظر آتی ہے ،وہ صرف یہ ہے کہ دوسرا بدن ناقص ہو جائے گا۔
لیکن حقیقت میں یہ دوسرا بدن ناقص نہیں ہو تا ہے بلکہ چھوٹا ہو تا ہے،چونکہ یہ ذرات تمام بدن میں پھیلے ہوئے تھے ،جب اس سے واپس لئے جاتے ہیں تو وہ بدن اسی نسبت سے ضعیف اور چھوٹا ہو جاتا ہے۔
اس لئے نہ پہلا بدن نابود ہوتا ہے اورنہ دوسرا بدن،صرف جو چیز یہاں پر وجود میں آتی ہے وہ دوسرے بدن کا چھوٹا ہو نا ہے اور یہ امر کبھی کو ئی مشکل پیدا نہیں کرتا ہے،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قیا مت کے دن تمام بدن کمال حاصل کریں گے،اور نقائص اور کمیاں دور ہو جائیں گی،جس طرح ایک بچہ نشو ونما پاتا ہے ۔یا ایک زخمی کے زخم میں نئے سرے سے گوشت بھر جاتا ہے اوراس کی شخصیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح قیا مت کے دن چھوٹے اور ناقص بدن مکمل صورت میں زندہ ہوں گے ،کیونکہ قیامت عالم کمال ہے۔
اس طرح اس سلسلہ میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ہے(غورکیجئے ۔مزید وضاحت کے لئے کتاب ”معاد وجہان پس از مرگ“کی طرف رجوع کیجئے)۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔کیا قیامت کے دن انسان کی زندگی ہر لحاظ سے اس دنیا جیسی زندگی ہے؟
۲۔کیا ہم قیامت کے دن جزا وسزا کو اس دینا میں بالکل درک کرسکتے ہیں؟
۳۔کیا بہشت کی نعمتیں اور جہنّم کے عذاب صرف جسم سے مربوط ہیں۔
۴۔اعمال کے مجسم ہونے سے مراد کیا ہے اور قرآن مجید نے اس سلسلہ میں کیسے دلالت کی ہیں؟
۵۔اعمال کے مجسم ہو نے کاعقیدہ معاد کی بحث کی کن مشکلات کا جواب دیتا ہے۔
دسواں سبق:جنّت ،جہنّم اور تجسّم اعمال
بہت سے لوگ اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا موت کے بعد عالم آخرت بالکل اسی دنیا کے مانند ہے یا اس سے فرق رکھتا ہے؟ کیا اس عالم کی نعمتیں،سزائیں ،اور مختصر یہ کہ اس پر حکم فر ما نظام اور قوانین اسی دنیا جیسے ہیں؟
اس کے جواب میںواضح طورپر کہنا چاہئے کہ ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ اس دنیا اور اس دنیا میں کافی فرق ہے، حتی کہ اس حدتک فرق ہے کہ جو کچھ ہم اس دنیا کے بارے میں جانتے ہیں وہ ایک ایسی سیاہی جسم کے مانند ے جسے ہم دور سے دیکھتے ہیں۔
بہتر ہے کہ ہم اس سلسلہ میں اسی ”جنین“ والی مثال سے استفادہ کریں:جس قدر”جنین“ کی دنیا اور اس دنیا میں فرق ہے، اسی قدر یاا س سے زیادہ اس دنیا اور دوسری دنیا کے درمیان فرق ہے۔
اگر ماں کے شکم(عالم جنین) میں موجود بچہ عقل و شعور رکھتا اور باہر کی دنیا، آسمان،زمین،چاند،سورج،ستاروں،پہاڑوں،جنگلوں اور سمندروں کے بارے میں ایک صحیح تصویر کشی کرنا چاہتا تو وہ ہرگز یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔
عالم جنین میں موجود بچہ جس نے اپنی ماں کے انتہائی محدود شکم کے علاوہ کچھ نہین دیکھاہے، اس کے لئے اس دنیا کے چاند،سورج،سمند، امواج،طوفان،بادنسیم، اورپھولوں کی خوبصورتی کا کوئی مفہوم ومعنی نہیں ہے، اس کی لغت کی کتاب صرف چند الفاظ پر مشتمل ہے۔ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ ماں کے شکم کے باہر سے کوئی اس سے بات کرے تو وہ ہرگز اس کی بات کے معنی تک نہیں سمجھ سکتاہے۔
اس محدود دنیا اور اس دوسری وسیع دنیا کے درمیان فرق ایسا ہی یا اس سے زیادہ ہے، لہذا ہم کبھی دوسری دنیا کی نعمتوں اوربہشت برین کی حقیقت کے بارے میں ہرگزآگاہ نہیں ہوسکتے ہیں۔
اسی وجہ سے ایک حدیث میںآیاہے:
” فیھا مالاعین راٴت ولا اذن سمعت ولاخطر علی قلب بشر“
”بہشت میں ایسی نعمتیں ہیں کہ جنھیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے، کسی کان نے نہیں سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں ان کا تصور پیدا ہواہے۔“
قرآن مجید اسی مطلب کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
”<فلا تعلم نفس مااخفی لہم من قرّ اعین جزاء بماکانوا یعملون>“(سورہ سجدہ/۱۷)
” پس کسی نفس کو نہیں معلوم ہے کہ اس کے لئے (وہاں پر)کیا کیاخنکی چشم کا سامان چھپاکر رکھا گیا ہے جوان کے اعمال کی جزاہے۔“
اس دنیا پر حکم فرما نظام بھی اس دنیا کے نظام سے کافی فرق رکھتاہے، مثلا:قیامت کی عدالت میں انسان کے ہاتھ، پاؤں، اس کے جسم کی جلد اوریہاں تک کہ جس زمین پر گناہ یا ثواب انجام دیا ہے اس کے اعمال کے گواہ ہوں گے:
قرآن مجید میں سورہ یٓس کی آیت نمبر۶۵ میں ارشاد ہواہے:
< الیوم نختم علی افواھھم و تکلمنا ایدیھم و تشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون>
” آج ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے۔“
دوسری جگہ پر سورہ فصلت کی آیت نمبر۲۱میں فرماتاہے:
<وقالوا لجلود ھم الّذی انطق کلّ شی>
” اور وہ اپنے اعضاء سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی ؟تووہ جواب دیں گے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے سب کو گویائی عطا کی ہے (تا کہ ہم حقائق بیان کریں)“
البتہ ایک زمانہ میںاس قسم کے مسائل کا تصور کرنا مشکل تھا، لیکن علم کی ترقی کے پیش نظر مناظر اور آواز کو رکارڈ اور ضبط کرنے کے نمونوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ چیز باعث حیرت نہیں ہے۔
بہر حال اگر چہ عالم آخرت کی نعمتوں کے بارے میں ہمارا تصور صرف دور سے نظر آنے والی ایک جسم کی سیاہی کے مترادف ہے اور ان کی وسعت اور اہمیت سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں ہو سکتے ہیں، لیکن اس حد تک جانتے ہیں کہ اس عالم کی نعمتیں اور
سزائیں، جسمانی اور روحانی دونوں صورتوں میں ہیں، کیونکہ معاد دونوں پہلو رکھتی ہے لہذا فطری طور پر اس کی جزاء وسزابھی دونوں جنبوں کے ساتھ ہونی چاہئے۔ یعنی جس طرح مادی و جسمانی جنبوں کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر۲۵ میںارشاد ہوتاہے:
<وبشرّالّذین آمنوا وعملوالصّٰلحٰت انّ لھم جنّت تجری من تحتھا الانھر ولھم فیھا ازواج مطھرة وہم فیھا خالدون>
” پیغمبر:آپ ایمان اور عمل صالح والوں کو بشارت دیں کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں بھی ہوںگی اور انھیں اس میں ہمیشہ رہنا بھی ہے۔“
اسی طرح قرآن مجید ، معنوی نعمتوں کے بارے میں بھی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۷۲ میں ارشاد فرماتاہے:
<ورضوان من اللّٰہ اکبر>
”(بہشتیوں کو ملنے والی) اللہ کی خوشنود ی اور رضایت ان تمام نعمتوں سے برتر ہے۔“
جی ہاں، بہشتی اس احساس سے کہ خداوند متعال ان سے راضی ہے اور پروردگار عالم نے انھیں قبول کیاہے،اس قدر خوشنودی اورلذت کا احساس کرتے ہیں کہ اس کا کسی چیز سے موازنہ نہیں کیا جاسکتاہے۔جہنمیوں کے بارے میںبھی جسمانی عذاب اور آگ کے علاوہ ان پر خداوند متعال کا خشم و غضب اور اس سے ناراضگی ہر جسمانی عذاب سے
بدترہے۔
اعمال کا مجسم ہونا
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے دن ہمارے اعمال زندہ ہوں گے اور مختلف شکلوں میں ہمارے ساتھ ہوں گے، جزاوسزا کی اہم باتوں میں سے ایک یہی اعمال کا مجسم ہوناہے۔
ظلم وستم، کالے بادلوں کی صورت میں ہمارا محاصرہ کریں گے جیساکہ پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک حدیث میں آیا ہے:
<الظّلم ہو الظّلمات یوم القیامة >
” ظلم قیامت کے دن تاریکیاںہے“
ناجائز طریقے سے کھا یا ہوایتیموں کا مال آگ کے شعلوں کے مانند ہمیں گھیر لے گا۔ اس سلسلہ میں سورہ نساء کی آیت نمبر۱۰ مین ارشادہوتاہے:
<انّ الّذین یاکلون اموال الیٰتمٰی ظلماً إنّما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا>
” جولوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کامال کھاجاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میںآگ بھر رہے ہیں اور عنقریب واصل جہنّم ہوںگے۔“
ایمان، نور وروشنی کی صورت میں ہمارے اطراف کو منور کرے گا۔ اس سلسلہ میں سورہ حدید کی آیت نمبر۱۲ میں ارشاد الہی ہے:
<یوم تری المومنین والمومنٰت یسعٰی نورہم بین ایدیھم وبایمانھم>
” اس دن تم باایمان مردوں اور با ایمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ایمان ان کے آگے آگے اور دا ہنی طرف چل رہاہے“
سود خور ، جنھوں نے اپنے برے اور بے شرمانہ عمل سے معاشرہ کے اقتصادی توازن کو درہم برہم کیا ہوگا، وہ مرگی کے مریضوں کی طرح ہوںگے جو اٹھتے وقت اپنا توازن برقرار رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، کبھی زمین پر گرتے ہیں اور کبھی لڑکھڑاتے ہوئے اٹھتے ہیں۔(سورہ بقرہ /۲۷)
جو مال ذخیرہ اندوزوں اور مالدار کنجوسوں نے جمع کرکے اس سے محروموں کا حق ادانہیں کیا ہے، وہ ان کے لئے ایک بھاری طوق کے مانند ان کی گردن میں اس طرح لٹکادیا جائے گا کہ وہ حرکت کرنے کی طاقت نہ رکھیں گے۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۸۰ میں ارشاد ہوتاہے:
<ولا یحسبنّ الذین یبخلون بما اٰتٰھم اللّٰہ من فضلہ ہو خیرا لھم بل ہو شرّ لھم سیطوّقون ما بخلوا بہ یوم القیمة>
” اورخبردار جو لوگ خدا کے دئے ہوئے میں بخل کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ہے۔ یہ بہت براہے اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیاجائے گ“
اسی طرح تمام اعمال اپنی مناسب صورت میں مجسم ہوںگے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ علم وسائنس نے ثابت کیاہے کہ کوئی بھی چیز دنیا میں نابود نہیں ہوتی ہے بلکہ مادہ اورقوت (انزجی) ہمیشہ اپنی شکل و صورت بدلتے رہتے ہیں ۔ ہمارے افعال اور اعمال بھی نابود ہوئے بغیر ان دونوں صورتوں سے خارج نہیں ہیں اور اس قانون کے حکم کے مطابق جاودانی اور ابدی حالت میں ہیں، اگر چہ ان کی شکل و صورت بدل جائے۔
قرآن مجید ایک مختصر اور لرزہ خیز عبارت میںقیامت کے بارے میں فرماتاہے:
<ووجدوا ماعملوا حاضرا>(سورہ کہف/۴۹)
” اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے“
حقیقت میں انسان جو کچھ پاتاہے وہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہوتاہے ، لہذا خداوند متعال اسی آیت کے ذیل میں فورا فرماتاہے:
<ولایظلم ربّک احدا>(سورہ کہف/۴۹)
”تمھارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتاہے“
ایک دوسری جگہ پر سورہ زلزال کی آیت نبمبر۶ میں فرماتاہے:
<یومئذ یصدر النّاس اشتاتا لیروا اعمالھم>
”اس روز سارے انسان گروہ در گروہ قبروں سے نکلیں گے تا کہ اپنے اعمال کو دیکھیں ۔“
اسی سورہ زلزال کی آیت نمبر۷ اور۸ میں ارشاد ہوتاہے:
<فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرّةشرّا یرہ>
”پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا“
مذکورہ آیات میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فرماتا ہے کہ خود ان اعمال کو دیکھے گا۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھنا یعنی اسی دنیا کے ہمارے چھوٹے بڑے اورنیک وبد اعمال کا محفوظ اور ثابت رہنا اور نابود نہ ہونا اور قیامت کے دن ہر جگہ ان کا ہمارے ساتھ رہنا سب کے لئے ایک انتباہ ہوسکتاہے تاکہ ہم اپنے برے اعمال اور گناہوں کے مقابل ہوشیار رہیں اور اپنے نیک اعمال کے چاہنے والے اور ان پر ثابت قدم رہیں۔
تعجب کی بات ہے کہ دوحاضرمیں ایسے آلات ایجاد کئے گئے ہیں کہ اس مسئلہ کے ایک حصہ کو اسی دنیا میں ہمارے لئے مجسم کیا جاسکتاہے:
ایک دانشور لکھتاہے: سائنس دان آج مصری کمہاروں کی دوہزار سال قدیمی آواز کو اسی طرح منعکس کرسکتے ہیں کہ وہ آواز سننے کے قابل ہے۔ کیونکہ مصری عجائب گھروں میں دوہزارسال پرانے کوز ے موجود ہیں کہ انھیں مخصوص چرخوں اور ہاتھوں سے بناتے وقت کمہاروںکی آوازکی لہریں کوزوں کے جسمون میں نقش ہوگئے ہیں اور آج ان لہروںکو نئے سرے سے اس طرح زندہ کیا جارہاہے کہ ہم اپنے کانوں سے انھیں سن سکتے ہیں(۱)۔
بہر حال مسئلہ معاد اورقرآن میں ذکر شدہ نیک لوگوںکی ابدی جزا اور بدکاروں کی دائمی سزاکے بارے میں بہت سے سوالات کا جواب ”اعمال کے مجسم ہونے“ اور ہراچھے اور برے کام کے انسان کے جسم و روح پر اثر ڈالنے اور اس اثر کے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہنے کے پیش نظر دیاجاسکتاہے۔
__________________
۱۔کتاب”راہ طے شدہ“ سے ماخوذ۔
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔ جسمانی معاد سے مراد کیاہے؟
۲۔ جسمانی معاد کے منکرین کیا کہتے ہیں اورقرآن مجید ان کا کیسے جواب دیتاہے؟
۳۔ جسمانی معاد کے لئے عقلی استدلال کیاہے؟
۴۔ عدل و انصاف کے قانون اور جسمانی معاد کے درمیان کو ن سا رابطہ ہے؟
۵۔ شبہہ”آکل وماکل“ سے مرادکیا ہے اور اس کا جواب کیا ہے؟
|