امامت کے دس سبق
چھٹاسبق:امامت ،سنّت نبی کی روشنی میں
اسلامی احادیث سے مربوط کتابوں ،بالخصوص اہل سنت بھائیوں کی طرف سے تاٴلیف کی گئی کتابوں کا مطالعہ کر نے کے دوران انسا ن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث کی ایک کثیر تعداد سے روبرو ہو تا ہے جو واضح طور پر حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ اتنی احادیث موجود ہو نے کے باوجود اس مسئلہ کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہہ باقی نہیں رہ جاتا تو پھر ایک گروہ اہل بیت(ع) کی راہ سے ہٹ کر کو ئی دوسری راہ کیسے اختیار کر لیتاہے؟
یہ احادیث ،جن میں سے بعض کے اسناد سینکڑوں تک ہیں (جیسے حدیث غدیر) اور بعض کے اسناد دسیوں تک اور دسیوں مشہور اسلامی کتا بوں میں نقل ہو ئی ہیں ،ایسی واضح اور روشن ہیں کہ اگر ہم تمام گفتگوؤں کو نظر انداز کردیں اور کسی کی تقلید کر نا چھوڑ دیں،تو ہ مسئلہ ہمارے لئے ایسا واضح ہو جائے گا کہ کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
ان احادیث کے مخزن سے ہم یہاں پر چند مشہور احادیث کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس موضوع پر بیشتر اور گہرے مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کے لئے ہم بعض منابع(کتابوں) کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ان سی استفادہ کریں۔(۱)
۱۔حدیث غدیر
مورخین اسلام کی ایک بہت بڑی تعداد نے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری سال حج بجا لائے ۔فریضہ حج کو بجالانے کے بعد جبکہ حجاز کے مختلف علاقوں سے حج کے لئے آئے ہوئے آپ کے نئے اور پرانے صحابیوںاور اسلام کے عاشقوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی ۔مکہ سے واپسی پر یہ عظیم اجتماع ،مکہ اور مدینہ کے در میان واقع ”جحفہ“نامی ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ”غدیر خم“کے نام پر ایک خشک اور گرم بیابان میں پہنچ گیا ۔در حقیقت یہ ایک چورا ہا تھا ۔جہاں پر حجاز کے تمام لوگوں کے راستے جدا ہوتے تھے۔
یہاں پر حجاز کے مختلف علاقوں کی طرف جانے والے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو رکنے کا حکم دیا۔ جو آگے بڑھے تھے انھیں واپس آنے کا حکم دیا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا گیا،اس طرح سب ایک جگہ جمع ہو گئے ۔ہوا انتہائی گرم اور دھوپ نہایت جھلسا دینے والی تھی۔بیابان میں دوردور تک کہیں کوئی سائبان نظر نہیں آرہا تھا۔مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ظہر کی نماز پڑھی ۔جب ان سب نے نماز کے بعد اپنے خیموں کی طرف جانا چاہا تو پیغمبر اسلام نے حکم دیا کہ سب لو گ ٹھہر جائیں اور ایک مفصل
۱۔بیشتر وضاحت کے لئے کتاب”المراجعات“،”الغدیر“اور ”نوید امن وامان“کی طرف رجوع کریں۔
خطبہ کے ضمن میں ایک اہم الہٰی پیغام کو سننے کے لئے آمادہ ہو جائیں ۔
اونٹوں کے پالانوں کا ایک منبر بنایا گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف لے گئے آپ نے حمد وثنائے الہٰی کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
میں خدا کی دعوت کو لبیک کہتے ہوئے جلدی ہی تمھارے درمیان سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ہو ۔ تم لوگ میرے بارے میں کس طرح کی شہادت دیتے ہو؟
لوگوں نے بلند آواز سے کہا:
” نشہد انک قد بلغت و نصحت و جہدت فجزاک اللّٰہ خیرا“
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے رسالت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ہماری بھلائی کے لئے ہماری نصحیت کی اور ہماری ہدایت میں نہایت کوشش کی،خداوند متعال آپ کو جزائے خیردے۔“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت ، میری رسالت اور قیامت کی حقیقت اور اس دن مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی شہادت دیتے ہو؟
جواب میں سب نے یک زبان ہوکر کہا: جی ہاں ، ہم گواہی دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: خداوندا! گواہ رہنا
آپ نے دوبارہ فرمایا: اے لوگوں ! کیا میری آواز سن رہے ہو؟انہوں نے کہا: جی ہاں۔
اس کے بعد پورے بیابان میں چاروں طرف خاموشی چھاگئی اور ہوا کی سنسناہٹ کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
پیغمبرا سلام نے فرمایا: اب بتاؤ کہ ان دو گرانقدر چیزوں کے ساتھ تم لوگ کیسا سلوک کروگے جومیں تمھارے درمیان یادگارکے طور پر چھوڑے جارہاہوں؟
مجمع میں سے کسی نے بلند آورز سے سوال کیا: کون سی دوگرانقدر چیزیں، یا رسول اللہ؟!
پیغمبر نے فرمایا: پہلی چیز ”ثقل اکبر“ یعنی کتاب الہی”قرآن مجید“ہے۔ اس کے دامن کو ہرگز نہ چھوڑنا تا کہ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ اور دوسری گرانقدر یادگار چیز میرے اہل بیت ہیں۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبردی ہے کہ یہ دوچیزیں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگیں یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے مل جائیں، ان دو نوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور ان سے پیچھے بھی نہ رہنا، کیونکہ اس صورت مین بھی ہلاک ہوجاؤگے۔
اس دوران اچانک آپ(ع) نے اپنی نظریں ادھر اُدھردوڑائیں، جیسے کہ آپ کوکسی کی تلاؤ تھی۔ جوں ہی آپ کی نظرحضرت علی(ع) پر پڑی، آپ جھک گئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دے رہی تھی۔ سب لوگوں نے حضرت علی (ع) کو دیکھا اور انھیں پہچان لیا۔
اس موقع پر آنحضرت نے اور زیادہ بلند آواز کے ساتھ رفرمایا:
ایّھا الناس ! من اولی النّاس بالمومنین من انفسھم؟
لوگو! لوگوں میں سے کون شخص مومنین پر خود ان سے بھی زیادہ سزاورا ہے؟
سب نے جواب میں کہا: خدا اور س کا رسول(ع) بہتر جانتاہے۔
پیغمبر نے فرمایا:
” خداوند متعال میرامولا اور رہبر ہے، اور میں مؤمنین کا مولا ورہبر ہوں اور ان کی نسبت خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتاہوں۔“
اس کے بعد فرمایا:
”فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“
”جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں، اس اس کے علی(ع) بھی مولاہیں“
آنحضرت نے اس جملہ کوتین مرتبہ دہرایا، بعض راویان حدیث کے مطابق اس جملہ کو چار مرتبہ دہرایا، اس کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرکے فرمایا:
”اللّہم وال من والاہ و عاد من عاداہ واحب من احبہ، وابغض من ابغضہ، وانصرمن نصرہ، واخذل من خذلہ، وادار الحق معہ حیث دار“
”خداوندا! اس کے دوستوں کو دوست رکھ اور س کے دشمنوں سے دشمن رکھ، جو شخص اسے محبوب رکھے اسے محبوب رکھ اور اس شخص سے بغض رکھ جس کے دل میں اس کا بغض ہو، اس کے دوستوں کی یاری فرما اور اس کا ساتھ چھوڑنے والوں کو محروم فرما، حق کو اس کے ساتھ پھیر جدھر وہ پھرے “
اس کے بعد فرمایا:
”تمام حاضرین اس خبر کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو اس دقت یہاں پر حاضر نہیں ہیں۔“
ابھی لوگ متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبرئیل امین وحی الہی لے کرنازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ آیہ شریفہ لے آئے:< الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی>(سورہ مائدہ/۳))
”آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیاہے“
اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
”اللّٰہ اکبر ،اللّٰہ اکبر ،علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والو لایة لعلی من بعدی۔“
”خدا کی بزرگی کا اعلان کرتا ہوں ،خدا کی بزرگی کا اعلان کر تا ہوں، اس لئے کہ اس نے اپنے دین کو کامل اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کر دیا ہے اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع) کی ولا یت سے راضی ہو نے کا اعلان فر مایا ہے۔“
اس وقت لوگوں میں شور وغوغا بلند ہوا،لوگ حضرت علی (ع) کو اس مرتبہ کی مبارک باد دے رہے تھے ،یہاں تک کہ ابوبکر اور عمر نے لوگوں کے اجتماع میں علی(ع) سے مخاطب ہو کر یہ جملہ کہا:
”بخ بخ لک یابن ابیطالب اصبحت و امسیت مولای ومولا کل مؤمن ومؤ منة“
”مبارک ہو آپ کو ،مبارک ہو آپ کو ،اے فرزند ابیطالب آپ میرے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا اور رہبر ہو گئے ہیں۔
مذکورہ بالاحدیث کو علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے مختلف عبارتوں میں، کہیں مفصل اور کہیں خلاصہ کے طور پراپنی کتا بوں میں درج کیا ہے ۔یہ حدیث متواتر احادیث میں سے ہے اور کوئی بھی شخص اس کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ہونے پر شک وشبہہ نہیں کرسکتا ہے ،یہاں تک کہ مصنف و محقق ”علامہ امینی “نے اپنی مشہور کتاب ”الغدیر“ میں اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب اور تین سو ساٹھ اسلامی علماء کی کتابوں سے نقل کیا ہے۔یہ حدیث اہل سنت بھائیوں کی اکثرتفسیر و تاریخ اور حدیث کی کتا بوں میں درج ہے ،یہان تک کہ علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کے سلسلہ میں مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلہ میں ایک گرانقدر اور بے نظیر مستقل کتاب لکھی ہے اور اس میں چھبیس ایسے علمائے اسلام کے نام درج کئے ہیں جنہوں نے ”حدیث غدیر “کے متعلق مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔
بعض اشخاص نے حدیث کی سند کو ناقابل انکار پاتے ہوئے اس کی امامت وخلافت پر دلالت کے بارے میں شک وشبہہ ایجاد کر نے کی کوشش کی ہے ،اور مولا کے معنی کو ”دوست“کے عنوان سے جھوٹی تو جیہ کر نے کی کو شش کی ہے،جبکہ حدیث کے مضمون ،زمان ومکان کے شرائط اور دوسرے قرائن پر غور کر نے سے بخوبی معلوم ہو تا ہے کہ” مولا“کا مقصد ،بمعنی مکمل رہبری و قیادت اورمسئلہ امامت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ہے:
الف:آیہ تبلیغ ،جس کا ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا ،اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اس میں موجود تندوسخت لہجہ اور قرائن اس بات کی بخوبی گواہی دیتے ہیں کہ یہ عام دوستی اور رفاقت کی بات نہیں ہے ،کیونکہ یہ امر پریشان کن نہیں تھا اور اس کے لئے اتنی اہمیت اور تاکید کی ضرورت نہیں تھی۔اسی طرح اس واقعہ کے بعد نازل ہو نے والی آیہ ”اکمال الدین“ اس امر کی گواہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک غیر معمولی مسئلہ تھا اور رہبری وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے علاوہ کوئی اور مسئلہ نہیں تھا۔
ب۔اس حدیث کا ان تمام مقد مات کے ساتھ اس تپتے ہوئے بیان میں ایک تفصیلی خطبہ کے بعد بیان کیا جانا اور اس حساس زمان و مکان میں لوگوں سے اقرار لینا یہ سب ہمارے دعویٰ کی مستحکم دلیل ہے۔
ج۔مختلف گرہوں اور شخصیتوں کی طرف سے حضرت علی (ع)کو مبارک باد دینے کے علاوہ اس سلسلہ میں اسی روز اور اس کے بعد کہے گئے اشعار،اس حقیقت کے گویا ہیں کہ یہ مسئلہ علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بلند منصب پر منصوب ہو نے سے مربوط تھا نہ کسی اور چیز سے۔
__________________
غورکیجئے اور جواب دیجئے
۱۔داستان غدیر کو بیان کیجئے۔
۲۔”حدیث غدیر “پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتنے اسناد سے اور کتنی اسلامی کتابوں میں نقل ہوئی ہے؟
۳۔”حدیث غدیر“میں ”مولا“ کیوں ”رہبر و امام“ کے معنی میں ہے اور دوست کے معنی میں کیوں نہیں ہے؟
۴۔غدیر کے واقعہ کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کے حق میں کون سی دعاکی؟
۵۔ ”غدیر“اور ”جحفہ“کہاں پر ہیں؟
ساتواں سبق:حدیث ”منزلت“اور حدیث ”یوم الدار“
بہت سے عظیم شیعہ وسنی مفسرین نے حدیث ”منزلت“کو سورئہ اعراف کی آیت نمبر ۱۴۲ کے ذیل میں نقل کیا ہے۔اس آیہ شریفہ میں حضرت موسی(ع) کے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر جانے اور اپنی جگہ پر ہارون کو جانشین مقرر کر نے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
حدیث یوں ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ مشرقی روم کے بادشاہ نے حجاز،مکہ اور مدینہ پر حملہ کر نے کے لئے ایک بڑی فوج کو آمادہ کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کواپنے خاص انسانی اور حریت و استقلال کے نظام کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچنے سے پہلے ہی ،نابود کر دیا جائے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مدینہ میں حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر فر ماکر ایک عظیم لشکر کے ہمراہ تبوک کی طرف روانہ ہو گئے (تبوک جزیرہ عرب کے شمال میں مشرقی روم کی سلطنت کی سر حد پر واقع تھا)
حضرت علی(ع) نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں عرض کی:کیا مجھے بچوں اورعورتوں کے درمیان چھوڑ رہے ہیں ؟(اور اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ آپکے ہمراہ میدان جہاد میں چل کر اس عظیم افتخار کو حاصل کروں؟)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
”الاترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسی الا انّہ لیس نبی بعدی؟“
”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمھاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون(ع) کی موسی(ع) سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا؟“
مذکورہ عبارت اہل سنت کی مشہور ترین حدیث کی کتابوں ،یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہے ،صرف اس فرق کے ساتھ کہ صحیح بخاری میں پوری حدیث درج ہے اور صحیح مسلم میں ایک مرتبہ پوری حدیث اور دوسرے مرتبہ صرف جملہ ”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ لّا انّہ لا نبی بعدی“ایک کلی اور تمام جملہ کی صورت میں نقل کی گئی ہے۔(۱)
اس کے علاوہ یہ حدیث اہل سنت کی دوسری کتابوں ،جیسے:”سنن ابن ماجہ“،”سنن ترمذی“اور بہت سی دوسری کتابوں میں نقل کی گئی ہے اور اصحاب رسولپر مشتمل اس حدیث کے راویوں کی تعدادبیس افراد سے زیادہ ہے،جن میں جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو سعید خدری،عبداللہ بن مسعود اور معاویہ بھی شامل ہیں۔
ابو بکر بغدادی نے ”تاریخ بغداد“میں عمر بن خطاب سے یوں نقل کیا ہے:عمر بن خطاب نے ایک شخص کو حضرت علی(ع) کے خلاف برا بھلا کہتے ہوئے دیکھا ،عمر نے اس شخص سے کہا :مجھے لگتا ہے کہ تم منافق ہو، کیونکہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے
۱۔صحیح بخاری ج۶،ص۳۔ صحیح مسلم ج۱،ص۴۴۔اور ج۴،ص۱۸۷۔
کہ آپ فرما تے تھے:
”انّما علیّ منّی بمنزلة ھارون من موسی(ع) الّانہ لا نبیّ بعدی“ (تاریخ بغداد ،ج۷،ص۴۵۲)
”علی علیہ السلام کی نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کی موسی(ع) سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“
قابل توجہ بات ہے کہ احادیث کے معتبر منابع و ماٴخذ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات (حدیث منزلت) صرف جنگ تبوک کے موقع پر ہی نہیں فر مائی ہے بلکہ درج ذیل سات مواقع پر بیان فر مائی ہے جو اس کے عام اور واضح مفہوم کی دلیل ہے:
۱۔”مکہ کے پہلے مواخات کے دن“۔یعنی جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں اپنے اصحاب سے برادری اور اخوت کا عہد و پیمان باندھا،اس موقع پر آپ نے یہی جملہ تکرار فر مایا۔
۲۔”مواخات کے دوسرے دن“۔جب (مدینہ منورہ میں) مہاجر وانصار کے در میان برادری و اخوت کا عہد وپیمان باندھا تو اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث منزلت کو دوسری بار بیان فر مایا۔
۳۔جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے گھروں کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں اور صرف حضرت علی (ع) کے گھر کا دروازہ کھلا رہے،توآپ نے اس پر بھی اس جملہ (حدیث منزلت )کو دھرایا۔
۴،۵،۶ و۷۔اسی طرح غزوہ تبوک کے دن اور اس کے علاوہ تین اور مواقع پر آنحضرت نے اس حدیث کو دھرایا ہے کہ ان کے مدارک اہل سنت کی تمام کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں، لہذا نہ سند کے لحاظ سے اس حدیث کے بارے میں کوئی شک وشبہہ باقی رہتا ہے اور نہ اس کے عام مفہوم (دلیل) مفہوم ہو نے کے لحاظ سے ۔
حدیث منزلت کا مفہوم
اگر ہم اپنے ذاتی نظریات سے ہٹ کر،غیر جانبدارانہ طور پر مذکورہ حدیث پر تحقیق و تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ حضرت ہارون کو جو تمام مناسب اور عہدے بنی اسرائیل میں حاصل تھے ،حضرت علی علیہ السلام بھی صرف نبوت کے علاوہ ان تمام عہدوں پر فائز تھے،کیونکہ اس حدیث میں نبوت کے عہدے کے علاوہ کوئی اور قید وشرط موجود نہیں ہے۔
اس لئے یہ نتیجہ نکلتا ہے:
۱۔علی(ع) امت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل تھے۔ (کیونکہ ہارون کا مرتبہ بھی ایسا ہی تھا)۔
۲۔علی(ع)،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر،خاص نائب اور رہبری میں آپ کے شریک تھے،کیونکہ قرآن مجید نے حضرت ہارون کے لئے یہ تمام منصباور عہدے ثابت کئے ہیں ۔(سورہ طہ،آیت ۲۹ سے ۳۲ تک)
۳۔علی (ع) ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ تھے ،آپ(ع) کے ہوتے ہو ئے کوئی دوسرا شخص اس عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا تھا ،کیونکہ حضرت موسی(ع) کی نسبت حضرت ہارون (ع) بھی یہی مقام و منزلت رکھتے تھے۔
حدیث ”یوم الدار“
اسلامی تواریخ کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے تیسرے سال خدا کی طرف سے امر ہوا کہ اپنی خفیہ دعوت اسلام کو آشکار فر مائیں ، چنانچہ سورہ شعراء کی آیت نمبر ۲۱۴میں ارشاد ہوا ہے:
<وانذر عشیرتک الا قربین>
”اور پیغمبر!آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے چچا حضرت ابو طالب(ع) کے گھر میں کھا نے کی دعوت دی ،کھانا کھانے کے بعد فر مایا:
”اے عبد المطلب کے فرزندو!خدا کی قسم عرب میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جواپنی قوم کے لئے مجھ سے بہتر کوئی چیزلایا ہو ،میں تمھارے لئے دنیا وآخرت کی نیکیاں لایا ہوں اور خدا وند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو اس دین (اسلام )کی طرف دعوت دوں ،تم میں سے کون(اس کام میں) میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ،وصی اور جانشین بن جائے“؟
سوائے علی علیہ السلام کے کسی بھی شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک نہیں کہی ۔حضرت علی (ع) ان میں سب سے کم سن تھے،اٹھے اور عرض کی :”اے رسول خدا !میں اس راہ میں آپ کا یار ویاور ہوں ۔“پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی گردن پر اپنا دست مبارک رکھ کر فر مایا:
”ان ھٰذا اخی ووصی وخلیفی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ“
”یہ تم لوگوں میں میرا بھائی،وصی اور جانشین ہے،اس کی بات سنو اور اس کے حکم کی اطاعت کرو۔“
لیکن اس گمراہ قوم (قریش)نے نہ فقط پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ آپ کا مذاق بھی اڑایا۔
مذکورہ حدیث جو کہ حدیث ”یوم الدار“روز دعوت ذو العشیرہ کے نام سے مشہور ہے، کافی حد تک واضح اور گو یا ہے ۔اور سند کے ساتھ بہت سے اہل سنت علماء،جیسے:ابن ابی جریر ،ابن ابی حاتم ،ابن مردویہ،ابونعیم،بیہقی،ثعلبی،طبری،ابن اثیر،ابو الفداء اور دوسرے لو گوں نے اسے نقل کیا ہے۔(۱)
اگر ہم مذکورہ حدیث کے بارے میں بھی غیر جانبدارانہ طور پر تحقیق و تجزیہ کرین گے تو حضرت علی(ع) کی ولایت وخلافت سے مربوط حقائق بالکل واضح ہو جائیں گے کیونکہ اس حدیث میں بھی مسئلہ خلافت و ولایت کے بارے میں صراحت سے ذکر کیاگیا ہے۔
__________________
۱۔مزید تفصیلات کے لئے کتاب” المراجعات“،ص۱۳۰سے الخ اورکتاب ”احقاق الحق“،ج۴،ص۶۲الخ کی طرف رجوع کیا جائے۔
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔حدیث ”منزلت“کیا ہے؟ اور یہ حدیث کتنے مواقع پر بیان کی گئی ہے؟
۲۔حدیث”منزلت“کا مفہوم حضرت علی (ع) کے لئے کون سے منصب اور عہدے ثابت کرتا ہے؟
۳۔قرآن مجید کی روشنی میں حضرت ہارون (ع)کو حضرت موسی(ع) کی نسبت کون سا مرتبہ حاصل تھا؟
۴۔حدیث ”منزلت“کو کن علماء نے نقل کیا ہے؟
۵۔حدیث ”یوم الدار“،اس کا مفہوم،سند اور اس کا نتیجہ بیان کریں۔
آٹھواں سبق:حدیث ”ثقلین“اور حدیث”سفینہ“
حدیث ثقلین کے اسناد
اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی ایک بڑی جماعت نے بلا واسطہ (براہ راست)آنحضرت سے نقل کیا ہے بعض بزرگ علماء نے اس حدیث کی روایت کر نے والے اصحاب کی تعداد تیس سے زیادہ بتائی ہے۔۱)
مفسرین،محدثین اور مور خین کے ایک بڑے گروہ نے اس حدیث کو اپنی کتا بوں میں درج کیا ہے۔اس طرح اس حدیث کے متواتر ہو نے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔
بزرگ عالم سید ہاشمۺ بحرانی نے اپنی کتاب”غایة المرام“میں اس حدیث کو اہل سنت علماء کے ۳۹ اسناد اور شیعہ علماء کے ۸۰ اسناد سے نقل کیاہے ۔اور عالم بزرگوار میر حامد حسین ۺ ہندی نے اس حدیث کے بارے میں مزید تحقیقات انجام دی ہیں اور تقریباً دوسو اہل سنت علماء سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس حدیث کے سلسلہ میں تحقیقات کو اپنی عظیم کتاب(احقاق الحق) کی چھ جلدوں میں جمع کیا ہے ۔
جن مشہور اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ،ان میں :ابو سعید خدری ،ابوذر غفاری،زید بن ارقم،زید بن ثابت،ابورافع،جبیر بن مطعم ،یاخذیفہ،ضمرہ اسلمی ،جابر بن عبداللہ انصاری اور ام سلمہ قابل ذکر ہیں۔حضرت ابوذرغفاریۺ کے بیان کے مطابق اصل حدیث یوں ہے :ابوذر غفاری اس حال میں کہ خانہ کعبہ کے دروازے کو پکڑے ہوئے تھے، لوگوں کی طرف مخاطب ہو کربیان کر رہے تھے :میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے سنا کہ آپ فر ماتے تھے :
<إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ وعترتی وانھمالن تفترقاحتی یرد اعلی الحوض>
( جامع ترمذی،طبق نقل ینابیع المودة،ص۳۷)
”میں تمھارے درمیان دویاد گار گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جارہاہوں، قرآن مجیداور میرے اہل بیت(ع)۔یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں ،پس تم ان کا خیال رکھنا اور دیکھنا تم میری وصیت کا ان کے بارے میں کس قدر لحاظ رکھتے ہو۔“
یہ روایت اہل سنت کے معتبر ترین مآخذ، جیسے ” صحیح ترمذی“، ”نسائی“،”مسند احمد“، کنزالعمال“ اور ” مستدرک حاکم“ و غیرہ میں نقل ہوئی ہے۔
بہت سی روایتوں میں”ثقلین“(دوگرانقدر چےزیں) کی تعبیر اور بعض روایات میں ”خلیفتین“(دوجانشین) کی تعبیر آ ئی ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے ان دونوںمیں کوئی فرق نہیں ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر لوگوںکے سامنے بیان فرمایاہے:
”جابربن عبداللہ انصاری“ کی روایت میں آیاہے کہ آنحضرت نے سفر حج کے دوران عرفہ کے دن اس حدیث (ثقلین) کو بیان فرمایا۔
”عبداللہ بن خطب“ کی روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت نے اس حدیث کو سرزمین جحفہ(جو مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں سے بعض حجاج احرام باندھتے ہیں) میں بیان فرمایاہے۔
” ام سلمہ“ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرتنے اس حدیث کو غدیر خم میں بیان فرمایا۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بستر علالت پر بیان فرمایاہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے یہ حدیث مدینہ منورہ میں منبر پر بیان فرمائی ہے(۱)۔
حتی اہل سنت کے ایک مشہور عالم ” ابن حجر“ اپنی کتاب”صواعق المحرقہ“ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
” پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمانے کے بعد حضرت
علی(ع) کے ہاتھ کو پکڑ انھیں بلند کیا اور فرمایا:” یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدانہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے پاس مجھ سے ملیں گے(2)۔“
اس سے واضح ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ پر ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے بار بار تا کید فر ما ئی ہے اور اس قطعی حقیقت کو بیان کر نے کے لئے کو ئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ہے تا کہ اسے کبھی فرا موش نہ کیا جائے۔
حدیث ثقلین کا مفہوم
یہاں پر چند نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔قرآن اور عترت (اہل بیت) کو پیغمبر اسلام کی طرف سے دو ”خلیفہ “ یا دو گرانقدر چیزوں کے عنوان سے پیش کر نا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں کو ہر گز ان دوچیزوں کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہئے ،بالخصوص اس قید وشرط کے ساتھ جو بہت سی روایتوں میں مذکور ہے :” اگر ان دو چیزوں کا دامن نہ چھوڑو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے “اس سے یہ حقیقت تا کید اً ثابت ہو تی ہے۔
۲۔قرآن مجید کا عترت کے ساتھ اور عترت کا قرآن مجید کے ساتھ قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح قرآن مجید ہر قسم کے انحراف اور خطا سے محفوظ ہے،اسی طرح عترت اور اہل بیت پیغمبر بھی مرتبہ عصمت کے مالک ہیں۔
۳۔ان بعض روایتوں میں پیغمبر اسلام نے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت سے
۱۔ الصواعق المحرقہ،ص ۷۵
فر مایا ہے :میں قیامت کے دن تم سے ان دو یاد گاروں کے ساتھ کئے گئے تمھارے برتا ؤ کے بارے میں باز پرس کرونگا تاکہ دیکھ لو کہ تمھارا ان کے ساتھ کیسا سلوک رہا ہے؟
۴۔بلاشک شبہہ،ہم ”عترت واہل بیت“کی جس طرح بھی تفسیر وتوضیح کریں،حضرت علی (ع) ان کے نمایاں ترین مصداق ہیں ۔اور متعدد روایات کے مطابق آپ(ع) کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوئے ہیں اور قرآن مجید بھی آپ(ع) سے جدا نہیں ہوا ہے۔
اس کے علاوہ متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ آیہ ”مباہلہ“ کے نازل ہو نے کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی،فاطمہ حسن اور حسین (علیہم السلام) کو پکار کر فر مایا: ”یہ میرے اہل بیت ہیں۔“(3)
۵۔اگر چہ اس دنیا کی چار دیواری میں مقیّد ہم لوگوں کے لئے قیامت سے متعلق مسائل پوری طرح واضح نہیں ہیں ،لیکن جیسا کہ روایتوں سے معلوم ہو تا ہے ”حوض کوثر“سے مراد بہشت میں موجود ایک خاص نہر ہے جس کے بہت سے خصوصیات ہیں، اور یہ نہر سچے مومنین ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ائمہ اہل بیت(ع) اور ان کے مکتب کے پیروؤں کے لئے مخصوص ہے۔
یہاں تک کی گئی ہماری گفتگو سے واضح ہو تا ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کے رہبر و قائد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور آپ(ع) کے بعد آپ ہی کی نسل سے گیارہ ائمہ ہیں۔
حدیث سفینہ
اہل سنت اور شیعوں کی کتا بوں میں جو دلکش تعبیریں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے نقل ہو ئی ہےں،ان میں سے ایک مشہور حدیث ”سفینہ نوح“ہے۔
اس حدیث کے راوی حضرت ابو ذر فر ماتے ہیں کہ پیغمبر نے یوں فر مایا:
”اٴلا إن ّمثل اھل بیتی فیکم مثل سفینة نوح من رکبھا نجی ومن تخلف عنھا غرق“
”میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے جدا ہوا وہ غرق (ہلاک) ہو گیا۔“
(مستدرک حاکم ،ج۳،ص۱۵۱)
یہ مشہور حدیث بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت پیغمبر کی پیروی و اطاعت کو ضروری اور لازم قرار دیتی ہے۔
چونکہ ایسی عظیم اور عالمگیر طوفان کے وقت صرف حضرت نوح کی کشتی نجات کا ذریعہ تھی ،اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں رونما ہو نے والے گمراہی کے طوفان میں راہ نجات صرف ولایت اہل بیت سے تمسک رکھنا تھا اور ہے۔
__________________
۱۔سیرہ حلی ج۳۳،ص۳۰۸۔
2۔المراجعات،ص ۴۲
۔3۔مشکوة المصابیح ،ص۵۶۸(طبع دہلی)ریاض المنضرہ ،ج۲،ص۲۴۸(بحوالہ مسلم و تر مذی)۔
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔حدیث ثقلین کا مفہوم کیا ہے؟ اور یہ حدیث اہل بیت(ع) کے لئے کون سے امتیازات وخصوصیا ت ثابت کرتی ہے؟
۲۔حدیث ثقلین کو کن لوگوں نے نقل کیا ہے؟
۳۔”ثقلین“کے کیا معنی ہیں ؟کیا احادیث میں اس کی بجائے کوئی دوسری تعبیر بھی ذکر ہوئی ہے؟
۴۔حدیث ”ثقلین“کو پیغمبر اسلام نے کن مواقع پر بیان فر مایا ہے؟
۵۔حدیث”سفینہ“ کو سند اور مفہوم کے اعتبار سے بیان کیجئے۔
نواں سبق :بارہ امام (ع)
بارہ اماموں کے بارے میں روایات
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت و امامت کو ثابت کر نے کے بعد اب ہم باقی اماموں کی امامت کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔
اس سلسلہ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے :
آج ہمارے پاس اہل سنت اور اہل تشیّع کی متعدد ایسی روایتیں موجود ہیں جو کلی طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد”بارہ خلفاء اور ائمہ“کی خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔
یہ احادیث اہل سنت کی نہایت اہم اور مشہور کتا بوں ،جیسے:صحیح بخاری،صحیح تر مذی،صحیح مسلم ،صحیح ابی داؤد اور مسند احمد وغیرہ میں درج ہیں۔
کتاب”منتخب الاثر “ کے مصنف نے اس موضوع پر دوسو اکتھر احادیث جمع کی ہیں جن کی قابل توجہ تعداد اہل تسنن علماء کی کتا بوں سے اور باقی شیعوں کی کتا بوں سے نقل کی گئی ہیں۔
مثال کے طور پر،اہل سنت کی مشہور ترین کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلہ یوں آیا ہے:
”جابر بن سمرة“کہتا ہے کہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فر مایا:
”یکون اثنا عشرامیراً۔فقال کلمة لم اسمعھا فقال ابی انہ قال۔کلھم من قریش۔“ (صحیح بخاری ،ج۹،کتاب الامقام،ص۱۰۰)
”میرے بعد بارہ امیر ہوں گے۔اس کے بعد ایک جملہ فر مایا کہ میں سن نہ سکا ۔میرے باپ نے کہا کہ پیغمبر نے فر مایا تھا :”وہ سب قریش میں سے ہیں “
”صحیح مسلم“میں اس حدیث کو یوں نقل کیا گیا ہے کہ”جابر“نے کہا :میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپنے فر مایا:
”لایزال الاسلام عزیزاًالی اثنا عشر خلیفة ثم قال کلمة لم افھمھا،فقلت لابی ماقال فقال کلھم من قریش“(صحیح مسلم،کتاب الامارہ ،باب الناس تیع لقریش)
”اسلام ہمیشہ عزیز رہے گا یہاں تک کہ میرے بارہ خلیفہ وجانشین ہوں گے ۔اس کے بعد ایک جملہ ارشاد فر مایا کہ میں نہ سن سکا۔ میں نے اپنے باپ سے سوال کیا ،تو انہوں نے کہا پیغمبر نے فر مایا :”وہ سب قریش ہوں گے۔“
کتاب ”مسند احمد“میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا گیا ہے کہ لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے خلفائ
کے بارے میں سوال کیا ۔توآپنے فر مایا:
”اثناعشر کعدة نقباء بنیاسرائیل“ (مسند احمد،ج۱،ص۳۹۸)
”(میرے خلفاء)بنی اسرائیل کے نقباؤرؤسا کی تعداد کے برابر بارہ ہوں گے۔“
ان احادیث کا مفہوم
ان احادیث میں سے بعض میں”اسلام کی عزت“کا دار ومدار بارہ خلیفوں پر قرار دیا گیا ہے اور بعض میں قیامت کے دن کی بقاء اور حیات کو بارہ خلفاء کا مر ہون منت جانا ہے۔سب کو قریش سے اور بعض احادیث میں سب کو خاندان ”بنی ہاشم“سے بتایا گیا ہے۔یہ احادیث مذاہب اسلامی میں سے مذہب شیعہ کے علاوہ کسی مذہب سے تطبیق نہیں کرتی ہیں،کیونکہ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ان کی توجیہ مکمل طور پر بالکل صحیح اور واضح ہے،جبکہ اہل سنت علماء کے پاس ان کی توجیہ کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔
کیا ان(بارہ خلفاء)سے مراد پہلے چار خلفاء اور خلفائے بنی امیہ وبنی عباس ہیں؟
جبکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نہ پہلے خلفاء کی تعدادبارہ تھی اور نہ بنی امیہ کے خلفاء کو ملاکر بارہ بنتی ہے نہ خلفائے بنی عباس کو ملا کر یہ تعداد بارہ بنتی ہے ۔مختصر یہ کہ کسی بھی حساب سے بارہ کی یہ تعداد پوری نہیں ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ بنی امیہ کے خلفاء میں ”یزید“جیسے اور خلفائے بنی عباس میں ”منصوردوانقی “اور ”ہارون الرشید“جیسے افراد بھی تھے جن کے ظالم اور جابر ہونے میں کسی کو شک وشبہہ نہیں ہے ،اس لئے ممکن نہیں ہے ایسے افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء اور اسلام کی عزت وسر بلندی کا سبب شمار ہوں،جس قدر بھی ہم خلافت کے معیار کو گھٹائیں،ایسے افراد قطعاًاس دائرے میں نہیں آسکتے ہیں۔
اس بحث سے قطع نظر،شیعوں کے بارہ اماموں کے علاوہ کسی صورت میں بارہ خلفاء کی تعداد کہیں بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی ۔
بہتر ہے کہ اس بحث کو ہم اہل سنت کے ایک مشہور عالم کی زبانی پیش کریں:
”سلیمان بن ابراھیم قندوزی حنفی “اپنی کتاب ”ینا بیع المودة“میں فر ماتے ہیں:
بعض محققین نے کہا ہے :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدآپ کے بارہ خلفاء پردلالت کر نے والی احادیث مشہور ہیں ۔ یہ احادیث مختلف طریقوں سے نقل کی گئی ہیں۔مرور زمانہ سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس حدیث سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد آپ کے اہل بیت اور عترت سے بارہ جانشین ہیں،کیونکہ اس حدیث کو پہلے خلفاء سے مربوط جاننا ممکن نہیں ہے،کیونکہ ان کی تعداد چار افراد سے زیادہ نہیں تھی ۔اس کے علاوہ یہ حدیث بنی امیہ پر بھی تطبیق نہیں ہوتی ہے ،کیونکہ وہ بارہ سے زیادہ تھے اور وہ عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ سب ظالم وستمگر تھے اور یہ کہ وہ ”بنی ہاشم“سے نہیں تھے ،جبکہ پیغمبر نے فر مایا ہے کہ وہ بارہ کے بارہ بنی ہاشم سے ہیں،جیسا کہ ”عبد الملک بن عمر“نے ”جابر بن سحرہ“سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سوال کے سلسلہ میں کہ وہ (بارہ جانشین)کسی قبیلہ سے ہوں گے؟ آہستہ جواب دینا اس بات کی دلیل ہے کہ بنی ہاشم کی خلافت پر بعض افرادراضی نہیں تھے ۔اسی طرح یہ حدیث خلفائے بنی عباس پر بھی قابل تطبیق نہیں ہے،کیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ تھی۔اس کے علاوہ انہوں نے آیہ مودت”قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودة فی القربیً(سورہ شوریٰ/۲۳)پر عمل نہیں کیا ہے اور حدیث کساء سے چشم پوشی کی ہے!
ان وجو ہات کی بناء پریہ حدیث صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت وعترت سے تعلق رکھنے والے بارہ اماموں پر ہی قابل تطبیق ہے۔
کیونکہ وہ علم ودانش کے اعتبار سے سب پر فضیلت رکھتے ہیں ،اور زہد وتقویٰ کے لحاظ سے بھی سب سے زیادہ زاہد وپرہیز گار ہیں ،اور حسب ونسب کے اعتبار سے بھی سب پر فضیلت رکھتے ہیں اور انہوں نے تمام علوم وفنون کو اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وراثت میں حاصل کیا ہے ۔اس نظریہ کی حدیث ثقلین اور دوسری بہت سی احادیث تائید کرتی ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہو ئی ہیں۔“ (ینابیع المودة،ص۴۴۶)
دلچسپ بات ہے کہ میں نے اپنے سفر مکہ کے دوران علماء حجاز کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کے دوران اس حدیث کے بارے میں ان سے ایک نئی توجیہ سنی ،جس سے ان کی اس سلسلہ میں بے بسی اور عاجزی واضح ہوتی ہے ،وہ کہتے تھے :”شاید بارہ خلفاء اور امراء سے مراد پہلے چار خلیفہ ہیں جو اسلام کی ابتداء میں تھے اور ان کے باقی افراد مستقبل میں آنے والے ہیں جنہوں نے ابھی ظہور نہیں کیا ہے!“
اس طرح ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے واضح ہو نے والے ان خلفاء کے ارتباط سے دیدہ و دانستہ طور پر چشم پوشی کی گئی ہے۔
ہم یہ کہتے ہیںکہ کیاوجہ ہے کہ ہم اس حدیث کی واضح اور روشن تفسیر (جو شیعوں کے بارہ اماموں پر منطبق ہے)کو چھوڑ کر ایسی دلائل میں کود پڑیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔
نام بنام ائمہ کی تعیین
قابل توجہ بات ہے کہ اہل سنت راویوں سے ہم تک پہنچی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض احادیث میں صراحت کے ساتھ بارہ اماموں کے نام ذکر ہوئے ہیں اور ان کی خصوصیات و صفات بھی تفصیل سے ذکر ہوئی ہیں۔
اہل سنت کے معروف اور مشہور عالم ”شیخ سلیمان قندوزی “اپنی اسی کتاب ”ینابیع المودة“میں یوں نقل کرتے ہیں:
”نعثل نامی ایک یہودی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکئی سوالات کے ضمن میں آپ کے خلفاء اور اوصیاء کے بارے میں سوال کیا ۔آنحضرتنے اپنے جانشینوںکا تعارف یوں کرایا:
ان وصیی علی بن ابیطالب وبعدہ سبطای الحسن والحسین تلوہ تسعة ائمة من صلب الحسین۔
قال یا محمّد فسمھم لی۔
قال(ص) اذا مضی الحسین فابنہ علی،فاذا مضی علی فابنہ محمد ،فاذا مضی محمد فابنہ جعفر،فاذامضی جعفر فابنہ موسی ،فازامضی موسی فابنہ علی،فاذا مضی علی فابنہ محمد، فاذا مضی محمد فابنہ علی، فاذا مضی علی فابنہ الحسن، فاذا مضی الحسن فابنہ الحجة محمد المھدی (ع) فھٰؤلاء اثنا عشر۔“ (ینابیع المودة،ص۴۴۱)
”میرے وصی علی بن ابیطالب ہیں اور ان کے بعد میرے دو نواسے حسن اور حسین ہیں اور حسین کے بعد نو امام ان کی نسل سے ہوں
گے ۔“
یہودی نے کہا :اُن کے نام بیان فر ما ئیے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
جب حسین دنیاسے رخصت ہوںگے تو اُن کے بیٹے علی ہوں گے، جب علی دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے محمد ہوں گے ،جب محمد دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے جعفر ہوں گے ،جب جعفر دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے موسیٰ ہوں گے ،جب موسیٰ دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے علی ہوں گے،جب علی دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے محمد ہوں گے ،جب محمد دنیاسے رخصت ہوں گ تو ان کے بیٹے علی ہوں گے ،جب علی اس دنیاسے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے حسن ہوں گے،اور جب حسن اس دنیا سے رخصت ہوں گے توان کے بیٹے حجت محمد المھدی ہوں گے۔یہ بارہ امام ہیں۔“(ینابیع المودة،ص۴۴۱)
اس کے علاوہ اسی کتاب”ینابیع المودة“میں ”کتاب مناقب“سے نقل کی گئی ایک اور حدیث درج ہے ،جس میں بارہ اماموں کے نام اور ان کے القاب بھی بیان کئے گئے ہیں اور حضرت مھدی کی غیبت ،اور اس کے بعد ان کے قیام کر کے دنیا کو عدل وانصاف سے اسی طرح پر کر نے کا ذکر کیا گیا ہے جس طرح دنیا اس سے پہلے ظلم وستم سے بھر گئی ہوگی۔ (ینابیع المودة،ص۴۴۲)
البتہ اس سلسلہ میں شیعوں کی احادیث بہت زیادہ اور حد تواتر سے بڑھ کر موجود ہیں ۔(غور فر مائیے)۔
جوشخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے
دلچسپ بات ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ہے:
”من مات بغیر امام مات میتتة جا ھلیة“
(المعجم المفہرس لالفاظ الاحادیث النبوی،ج۶،ص۳۰۲)
”جو شخص امام کے بغیر مر جائے ،اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔“
شیعہ کتابوں میں یہی حدیث اس عبارت میں نقل ہو ئی ہے:
”من مات ولا یعرف امامہ مات میتتہ جاھلتہ“
”جوشخص مرگیا اور اس نے اپنے امام کو نہیں پہچانا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔“(بحارالانوار ج۶،(طبع قدیم)ص۱۶)
یہ حدیث اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور اور ہر زما نے ایک معصوم امام موجود ہوتا ہے ،اس کو پہچاننا ضروری ہے ۔اس کو نہ پہچاننا اتنا نقصان دہ ہے کہ انسان کفر و جاہلیت کی سر حدمیں پہنچ جاتا ہے۔
کیا اس حدیث میں بیان کئے گئے امام وپیشوا سے مراد وہی لوگ ہیں جو زمام حکومت سنبھالتے ہیں،جیسے،چنگیز خان ،ہارون اور دوسروں کے ایجنٹ اور کٹھ پتلی حکام؟
بے شک اس سوال کا جواب منفی ہے، کیونکہ اکثر حکمران غیر صالح ،ظالم اور کبھی مشرق ومغرب کی طاقتوں سے وابستہ اور اغیار کی سیاست کے آلہ کار ہو تے ہیں،یقیناًایسے حکمرانوں کو امام کی حیثیت سے قبول کر نا انسان کو جہنم میں بھیج دیتا ہے۔
لہذا واضح ہو تا ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایک معصوم امام موجود ہو تا ہے لوگوں کے لئے اس کو تلاش کر کے اس کی رہبری کو قبول کر نا ضروری ہے۔
البتہ ہر ایک امام کی امامت کو مذکورہ بالا طریقوں کے علاوہ قرآنی نصوص اور آنے والے امام کے بارے میں ہر سابق امام کی بیان کی گئی احادیث و روایات نیز ان کے معجزات سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔بارہ اماموں کے بارے میں روایات کن کتا بوں میں نقل ہوئی ہے؟
۲۔ان احادیث کا مفہوم کیا ہے؟
۳۔ان احادیث اور روایات کے بارے میں کی گئی جھوٹی تو جیہات بیان کیجئے۔
۴۔کیا اہل سنت کی احادیث میں بارہ اماموں کے نام آئے ہیں؟
۵۔بارہ اماموں کو ثا بت کر نے کا دوسرا طریقہ کیا ہے؟
دسواں سبق:حضرت مہدی( عج )بارہویں امام اور دنیا کے مصلح اعظم
تاریک شب کا خاتمہ
جب ہم موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں اور ظلم وستم ،قتل وغارت، جنگ وخونریزی،اور بین الاقوامی سطح پر کشمکش،اختلا فات اور روز مرہ بڑھتی ہوئی اخلاقی برائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں،توذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کیا یہی حالت جاری رہے گی؟ اور ظلم و ستم اور برائیوں کا دامن اس قدر وسیع ہوجائے گا کہ انسانی معاشرہ کو ایک دائمی جنگ میں مبتلا کرکے اسے نابود کردے گا ؟ یا اعتقادی انحرافات اوراخلاقی برائیاں اسے ایک متعفّن دلدل کے مانند اپنے اندر غرق کر لیں گی؟
یا نجات و اصلاح کی کوئی امید موجود ہے؟
اس اہم سوال کے دوجواب ہیں:
پہلا جواب، وہ ہے جو بدبینوں اور مادہ پرستوں کی طرف سے دیا جاتاہے کہ دنیا کا مستقبل تاریک ہے اور ہر دور وزمان میں زبردست خطرہ کا احتمال موجود ہے۔
دوسرا جواب دین داروں کا ہے، یعنی جولوگ ادیان الہی کے اصولوں کے معتقدہیں،مخصوصا مسلمان اور بالخصوص شیعہ، وہ اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں:
اس تاریک رات کے پیچھے ایک امید کی صبح بھی ہے۔
یہ سیاہ بادل ،مہلک طوفان اور تباہ کن سیلاب ایک دن ختم ہوں گے اور اس کے بعد صاف آسمان، چمکتا سورج اور آرام و آسائش کا ماحول آنے والاہے۔
یہ خوفناک بھنور ہمارے سامنے نہیں رہیں گے اور جلدی ہی افق پر نجات کا ساحل دکھائی دینے والاہے۔
دنیا ایک مصلح اعظم کے انتظار میں ہے جو ایک انقلاب کے ذریعہ دنیا کو حق وعدالت سے بھردے گا۔
البتہ تمام ادیان کے پیرو اس مصلح اعظم کو الگ الگ ناموں سے جانتے ہیں ۔ شاعر عرب نے کیا خوب کہاہے:
عبارتنا شتی و حسنک و احد وکل الی ذالک الجمال یشیر
” ہماری تعبیریں مختلف ہیں لیکن آپ کا حسن و زیبائی ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے اور ہماری تمام تعبیریں صرف اسی حسن و زیبائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔“
فطرت اور مصلح اعظم کا ظہور
باطنی الہامات کہ جن کی امواج بعض اوقات عقلی فیصلوں سے بھی زیادہ قوی ہوتی ہیں، نہ صرف خدا کی معرفت کے مسئلہ میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں بلکہ تمام مذہبی اعتقادات میں ہماری راہنمائی کرتے ہیں اور مصلح اعظم کے ظہور کے مسئلہ میں بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
اس کی علامتیں حسب ذیل ہیں:
پہلی علامت: عالمگیر عدل و انصاف سے عشق ومحبت، اس لئے کہ دنیا کے تمام لوگ ہر قسم کے آپسی اختلافات کے باوجود اور بغیر کسی استثناء کے صلح و عدالت سے محبت رکھتے ہیں۔ ہم سب اس کے لئے فریاد بلند کرتے ہیں اور اس راہ میں کوشش کرتے ہےں اور پوری قوت سے عالمگیر صلح و عدالت کے خواہان ہیں۔
اس مصلح اعظم کے ظہور کے فطری ہونے کے باری میں اس سے بہتر کوئی اور دلیل ممکن نہیں ہے، کیونکہ ہر جگہ پر ایک کی آرزؤں کا یکساں ہونا ان کے فطری ہونے کی دلیل ہے۔(غور کیجئے)
ہر حقیقی اور فطری عشق، خارج میں ایک معشوق کے وجود اور اس کی کشش کی علامت ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند متعال نے انسان کے اندر اس پیاس کو پیدا کیاہولیکن اس پیاس کو بجھانے کے لئے خارج میں کوئی چشمہ موجود نہ ہو؟
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ انسان کی عدالت طلب فطرت بلند آواز میں کہہ رہی ہے کہ آخر کا رصلح اورعدل و انصاف تمام دنیا میںپھیل جائے گا اور ظلم وستم اور خود خواہی ختم ہوکر رہے گی اور انسانیت تمام دنیا میں ایک ملک کی حثیت سے ایک پرچم تلے مفاہمت اور پاکیزگی کے ساتھ زندگی بسرکرے گی۔
دوسری علامت : عام طور پر دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب میں ایک مصلح اعظم کے انتظار کا عقیدہ پایاجاتاہے۔ تقریبا تمام مذاہب میں اس موضوع پر ایک دلچسپ بات موجود ہے اور بشریت کے جان لیوازخموں پر مرہم رکھنے کے لئے ایک عظیم نجات دہند کے ظہور کا عقیدہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہے، بلکہ اسناد و مدارک سے معلو م ہوتاہے کہ یہ ایک عام اور قدیمی اعتقاد ہے جو مشرق و مغرب کے تمام مذاہب میں موجودرہاہے، اگر چہ اسلام ایک کامل مذہب ہونے کے ناطے اس مسئلہ پر زیادہ تاکید کرتاہے۔
زرتشتوں کی معروف کتاب” زند “ میں ” ایزدان“ اور”اہریمنان“ کے درمیان دائمی جنگ کے سلسلہ میں لکھا گیا ہے:”آخر کار ایزدان کو بڑی کا میابی حاصل ہوگی اوراہریمنان کو وہ نابود کردے گا
” کائنات اپنی اصلی سعادت کو حاصل کرے گی اور انسان نیک بختی کے تخت پر بیٹھ جائے گا۔!“
کتاب”جاماسب نامہ“ میں ”زرتشت“ سے نقل کیا گیا ہے:
”تازیان کی سرزمین سے ایک مرد ظہور کرے گ وہ بڑے سر، بڑے جسم اور بڑی پنڈلیوں والا ایک مرد ہوگا جو اپنے جدکے دین پر ہوگا اور اس کے ساتھ ایک بڑی فوج ہوگی وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔“
ھندؤں کی کتاب”وشنو جگ“ میں یوں آیاہے:
” سرانجام دنیا ایک ایسے شخص کی طرف پلٹے گی جو خدا کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا کے خاص بندوں میں سے ہوگا۔“
ہندؤں کی کتاب” باسک“ میں آیاہے:
” آخری زمانہ میں ایک بادشاہ پر دنیا کا اختتام ہوگا، وہ فرشتوں، جنوں اور انسانوں کا پیشوا ہوگا، حقیقت میں حق اس کے ساتھ ہوگا، جو کچھ سمندروں ، دریاؤں، زمینوں اور پہاڑوں میں پوشیدہ ہے، وہ ان سب چیزوں کو حاصل کرے گا۔جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اس کی خبردے گا اور اس سے بڑی کوئی شخصیت دنیا میں نہیں آئے گی ۔“
عہد قدیم (تورات اور اس کے ملحقات) کی کتاب”مزامیرداؤد“ میں درج ہے:
”شر پسند لوگ نابود ہوجائیں گے لیکن خدا پر توکل کرنے والے زمین کے وارث ہو جائیں گے۔“
اسی کتاب کی اسی فصل میں آیا ہے:
”سچے لوگ زمین کے وارث ہو کر ہمیشہ کے لئے اس کے ساکن ہو جائیں گے۔“
اسی کے مانند عبارت، کتب تورات سے مربوط”اشعیای نبی“ کی کتاب میں بھی آئی ہے۔
انجیل” متی“ کی ۲۴ ویں فصل میں یوں آیاہے:
”جس طرح بجلی مشرق سے چمک کر مغرب تک پہنچتی ہے، اسی طرح فرزند انسان بھی ظہور کرے گ“
انجیل” لوقا“ کی بارہویں فصل میں بیان ہواہے:
” اپنی کمریں کس کے رکھو، اپنے چراغوں کو جلائے رکھو، اوراس شخص کے مانند رہو جو اپنے مالک کے انتظار میں ہوتاہے تا کہ جوں ہی وہ آجائے اور دروازہ کھٹکھٹائے تو فورا اس کے لئے دروازہ کھول دیں!“
کتاب ”علائم الظہور“ میں یوں آیاہے:
” چینیوں کی قدیم کتابوں، ہندوؤں کے عقائد، اسکنیڈینوی باشندوں، حتی قدیم مصر یوں اور میکسیکو کے باشندوں اوران جیسے دوسرے لوگوں میں ایک مصلح اعظم کے ظہور کا عقیدہ پایاجاسکتاہے۔“
عقلی دلائل
الف۔خلقت کا نظام ہمیں یہ سبق سکھاتا ہے کہ عالم بشریت کے لئے سر انجام عدل وانصاف کے قانون کے سامنے ہتھیار ڈال کر ایک عادلانہ نظام اور پائدار مصلح کے سامنے سر تسلیم خم کر ناضروری ہے۔
اس بات کی وضاحت یوں ہے :جہاں تک ہمیں علم ہے،کائنات مختلف نظاموں کا ایک مجموعہ ہے ،اس پوری کائنات میں منظم قوانین کا وجود اس نظام کی وحدت اور ہم آہنگی کی دلیل ہے ۔
نظم وضبط،قانون اور حساب وکتاب اس کائنات کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں۔
عظیم اور وسیع نظاموں سے لے کر ایک ایٹم کے ایک ذرّے تک (کہ لاکھوں ذرّے ایک سوئی کی نوک پر سما سکتے ہیں)سب کے سب ایک دقیق نظام کے تحت ہیں۔
ہمارے بدن کے مختلف اعضاء ،ایک چھوٹی اور حیرت انگیز خلیہ کی بناوٹ سے لے کر مغز واعصاب،پھیپھڑے اور دل کے کام کر نے کے طریقہ تک،ایک ایسے نظام کے تحت چل رہے ہیں کہ بعض دانشوروں نے ان میں سے ہر ایک عضو کو انسان کے بدن میں ایک ایسی صحیح اور دقیق گھڑی سے تشبیہ دی ہے کہ منظم اور پیچیدہ ترین کمپیوٹر بھی اس کے سامنے ناچیز ہے۔
کیا ایسی منظم کائنات میں انسان،جواس ”کل“کا ایک”جزو“ ہے،ایک ناموافق اور نا منظم حصہ کے مانند ،جنگ و خونریزی اور ظلم وستم میں زندگی بسر کر سکتا ہے؟!
کیا بے انصافیاں اور اخلاقی واجتماعی برائیاں ،جو ایک قسم کی بے نظمی ہیں،انسانی معاشرے پر ہمیشہ حاکم رہ سکتی ہیں ؟
نتیجہ:کائنات کے نظام کا مشاہدہ ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ سر انجام انسانی معاشرہ بھی ایک دن نظم وانصاف کے سامنے سر تسلیم خم کر کے اپنی خلقت کی اصلی راہ کی طرف لوٹے گا۔
ب۔معاشروں کا ارتقائی سفر،عالم بشریت کے روشن مستقبل کی ایک اور دلیل ہے، کیونکہ ہم اس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ جب سے انسانی معاشرہ نے اپنے آپ کو پہچانا ہے،وہ کبھی ایک جگہ پر رکا نہیں ہے ،بلکہ ہمیشہ آگے کی طرف حرکت کرتا رہا ہے۔
مادی لحاظ سے انسان کا گھر،لباس،غذااور آمد ورفت اور حمل ونقل کے ذرائع ایک دن بالکل سادہ اور ابتدائی مرحلہ میں تھے۔آج یہی چیزیں ترقی کے ایک ایسے مرحلے پر پہنچی ہیں کہ عقلیں متحیرّر اور آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور ارتقاء کا یہ سفر یقینا جاری ہے۔
انسان، علم و دانش اور تہذیب وتمدن کے لحاظ سے بھی مسلسل ترقی کر رہا ہے اور اس سلسلہ میں ہر روز نئی ایجادات ،تحقیق اور نئے مطالب حاصل کر رہا ہے۔
اس ”قانون ارتقاء“میں سر انجام معنوی اور اخلاقی واجتماعی پہلو بھی شامل ہیں اور انسانیت کو ایک عادلانہ قانون ،پائدار عدل و انصاف ،اخلاقی ومعنوی فضائل کی طرف لے جارہے ہیں ۔اگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشروں میں اخلاقی برائیاں روزبروز اضافہ ہوتی جارہی ہیں ۔یہ سلسلہ تدریجاً خود بھی ایک تکاملی انقلاب کے لئے مواقع فراہم کرے گا۔
ہم کبھی نہیں کہتے کہ برائیوں اور فسادوں کی حوصہ افزائی کی جانی چاہئے ،لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ جب فساد اور برائیاں حد سے گزر جائیں گی ،تو اس کا رد عمل ایک اخلاقی انقلاب ہوگا۔جب انسان اپنے گناہوں کے نامطلوب عواقب کے نتائج میں بے بس ہو جائیں گے تو اس وقت وہ کم از کم ایک الہٰی رہبر کی طرف سے پیش کئے جانے والے قانون کو قبول کر نے پر آمادہ ہو جائیں گے۔
قرآن مجید اور ظہور حضرت مہدی(عج)
قرآن مجید میں ایسی متعدد آیات موجود ہیں جو حضرت مہدی (عج)کے ظہور کی بشارت دیتی ہیں ۔ہم ان آیات میں سے صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں:
سورئہ نور کی آیت نمبر ۵۵میں ارشاد ہو تا ہے:
<وعداللّہ الذین اٰمنوامنکم وعملوا الصّٰلحٰت لیستخلفنّھم فی الارض کما استخلف الّذین من قبلھم>
”اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان وعمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے۔“
اس آیہ شریفہ سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ زمین پر آخر کار ظالم وجابر حکمرانوں کی حکومت ان سے چھین لی جائے گی اور ان کی جگہ پر صالح مؤمن حکومت کریں گے۔
اسی آیت کے آخر میں مذکورہ وعدہ کے علاوہ مندرجہ ذیل تین اور وعدے بھی دئے گئے ہیں:
۱۔دین کا غلبہ اور دلوں میں اللہ کی حکومت کا معنوی نفوذ:
<ولیمکننّ لھم دینھم الّذی ارتضٰی لھم>
”اوران کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے۔“
۲۔ہر قسم کی بدامنی کا امن وامان میں تبدیل ہونا:
<ولیبدّ لنّٰھم من بعد خوفھم امناً>
”اور ا ن کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا۔“
۳۔پوری دنیاسے شرک کا خاتمہ ہو نا:
<یعبدوننی لا یشرکون بی شیئاً>
”وہ لوگ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے۔
حضرت امام علی بن الحسین (زین العابدین)نے اس آیت کی تفسیر میں فر مایاہے:
”ھم واللّہ شیعتنا یفعل اللّہ ذٰلک بھم علی یدی رجل منا وھو مھدی ھذہ الامة“
”خدا کی قسم یہ لوگ وہی ہمارے شیعہ ہیں ،خداوندمتعال ہمارے خاندان کے ایک شخص کے ذریعہ اس موضوع (حکومت الہٰی)کو محقّق فر مائے گا اور وہ اس امت کا مہدی ہے“(تفسیر مجمع النیان ،سورہ نور کی آیت۵۵ کے ذیل میں)
احادیث میں حضرت مہدی(عج)کا ذکر
شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں اس موضوع پر ،کہ صلح وسلامتی ،امن وامان اور عدل وانصاف پر مبنی عالمی حکومت پیغمنر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے مربوط
”مہدی“نامی ایک شخص کے ذریعہ تشکیل پائے گی ،احادیث اس قدر زیادہ ہیں کہ تواتر کی حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں۔
اس کے علاوہ شیعوں کی کتابوں میں بھی اس موضوع پر احادیث متواتر ہیں کہ وہ (مہدی موعود)بارہویں امام ،جانشین پیغمبر ،امام حسین (ع)کے نویں فرزند اور امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند ہیں۔
اہل سنت کی احادیث
اہل سنت کی کتابوں میں ”ظہور مہدی(ع)“سے متعلق احادیث کے متواتر ہونے کے سلسلہ میں اتناہی کافی ہے کہ اہل سنت علماء نے اس موضوع کو اپنی کتابوں میں واضح طور پر ذکر کیا ہے ،یہاں تک کہ حجاز میں اہل سنت کے عالمی سطح کے سب سے بڑے دینی مرکز”رابطہ عالم اسلامی“نے اس موضوع کے بارے میں حال ہی میں اپنے ایک رسالہ میں یوں لکھا ہے:
”وہ (مہدی موعود)بارہ خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ ہیں کہ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحیح احادیث میں خبر دی ہے اور مہدی (عج)سے متعلق احادیث،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہت سے صحابیوں سے نقل کی گئی ہیں“
اس کے بعد حضرت مہدی (عج)سے متعلق احادیث نقل کر نے والے ”بیس اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ذکر کر نے کے بعد لکھتے ہیں:
”ان کے علاوہ بہت سے مختلف گروہوں نے بھی احادیث نقل کی ہیں بعض اہل سنت علماء نے حضرت مہدی سے مر بوط احادیث کے بارے میں خصوصی کتا بیں لکھی ہیں ،جن میں ابو نعیم اصفہانی ،ابن حجر ہیثمی،شوکانی ،ادریس مغربی اور ابو العباس بن مؤمن قا بل ذکر ہیں۔“
اس کے بعد لکھتے ہیں:
”اہل سنت کے گزشتہ و موجودہ علماء کے ایک گروہ نے مہدی(عج)سے مربوط احادیث کے متواتر ہو نے کی تصریح کی ہے۔“
اس کے بعد ان علماء میں سے بعض کا نام ذکر کر نے کے بعد اپنی گفتگو کا خاتمہ اس عبارت پر کرتے ہیں:
”حفّاظ اور محدثین کی ایک جماعت نے واضح طور پر کہا ہے کہ مہدی(عج)سے مربوط احادیث صحیح بھی ہیں اور حسن بھی اور مجموعی طور پر یہ سب احادیث متواتر ہیں اور مہدی کے قیام کا عقییدہ واجب ہے اور یہ اہل سنت والجماعت کے قطعی اور مسلم عقائد میں سے ہے۔ جاہل اور بدعتی افراد کے علاوہ کوئی بھی شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا ہے۔“
شیعوں کی احادیث
اس سلسلہ میں اسی قدر جاننا کافی ہے کہ اس موضوع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار(ع) سے سینکڑوں احادیث نقل کی گئی ہیں،یہاں تک کہ یہ احادیث تواتر کی حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں ۔شیعوں کے نزدیک امام مہدی(عج)کا عقیدہ ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے۔کوئی بھی شخص شیعوں کے نزدیک رہ کر حضرت مہدی(ع) کے ظہور کے بارے میں شیعوں کے عقائد ،حضرت مہدی کی بہت سی خصوصیات ،علائم ظہور ،ان کے طرز حکومت اور نظام کے بارے میں آگاہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔
شیعوں کے بزرگ علماء نے ابتدائی صدیوں سے آج تک اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں اور ان میں اس سلسلہ کی احادیث جمع کی ہیں۔
ہم یہاں پر نمونے کے طور پر چند احادیث کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں
اور تفصیلی مطالعہ کا شوق رکھنے والے قارئین کو درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرنے کی تاکید کرتے ہیں:
” مھدی انقلابی بزرگ“،” نوید امن وامان“ اور علامہ صدرالدین صدرکی کتاب”المھدی“ ۔
پیغمبر اسلام (ع) نے فرمایا:
”لولم یبق من الدھر الّا یوم لطول اللّہ ذٰلک الیوم حتی یبعث رجلا من اھل بیتی یملاُھا قسطاً وعدلًا کما ملئت ظلماً و جوراً“
” اگر دنیا کی زندگی کا صرف ایک دن باقی رہ جائے،خداوند متعال اس دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ میرے خاندان میں سے ایک شخص کو مبعوث کرے تا کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے جس طرح و ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔“
(یہ حدیث اہل سنت اور شیعوں کی اکثر کتابوں میں نقل ہوئی ہے)
ایک دوسری حدیث میں حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:
اذا قام القائم حکم بالعدل و ارتفع الجور فی ایامہ و امنت بہ السبل و اخرجت الارض برکاتھا، و ردکل حق الی اھلہ، و حکم بین الناس بحکم داود و حکم محمّد فحینئذ تظھر الارض کنوزھا، و تبدی برکاتھا، و لا یجد الرجل منکم یومئذ موضعا لصدقتہ ولبرہ، لشمول الغنی جمیع المؤمنین!“
”جب قائم (عج)قیام(ظہور) فرمائیں گے، تو حکومت کو عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم کریں گے، ان کے دور حکومت میں ظلم و ستم کا خاتمہ ہوگا، ان کے وجود کی برکت سے راستے پر امن بن جائیں گے، زمین اپنی برکتوں کو اگل دے گی اور ہر شخص کواپنا حق ملے گا، و ہ حضرت محمّد اور حضرت داؤد(ع) کے مانند لوگوں کے مسائل حل کریں گے،اس وقت زمین اپنے اندر پوشیدہ خزانوں کو آشکار کردے گی اور اپنی برکتوں کو ظاہر کردے گی اور محتاجوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملے گا کیونکہ تمام مومنین بے نیاز اور مستغنی ہوں گے“
(بحار النوار،ج۱۳(طبع قدیم)
ہم جانتے ہیں کہ حضرت مھدی (عج) کی غیبت کے دوران امامت و ولایت کے راستہ کی بقا امام زمانہ (عج)کے عام نائبین یعنی علماء و فقہا کے ذریعہ ہے۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے:
۱۔ دنیا کے مستقبل کے بارے میں خدا پرستوں اور مادہ پرستوں کے نظریات میں کیا فرق ہے؟
۲۔کیا فطرت کے طریقہ سے ظہور مھدی(عج)کو ثابت کیاجاسکتاہے؟ اور کیسے؟
۳۔ کیا ظہور مھدی(عج)کے بارے میں کوئی عقلی دلیل موجود ہے؟
۴۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید کیا فرماتا ہے؟
۵۔ اس موضوع پر سنت کا بیان کیا ہے؟
|