نبوت کےدس سبق:
چھٹا سبق :قرآن مجید کے اعجاز کی ایک جھلک
حروف مقطعات کیوں؟
قرآن مجید کی بہت سی سورتوں کے آغاز میں ”حروف مقطعات“ جیسے:”الم”،المر اور ”یٓس“آئے ہیں۔
بعض اسلامی روایتوں کے مطابق ”حروف مقطعات“کا ایک فلسفہ اور رازیہ ہے کہ خداوند متعال یہ دکھا نا چاہتا ہے کہ یہ عظیم اور لافانی معجزہ قرآن مجید کیسے ان سادہ حروف ”الف،با“سے وجود میں آیا ہے۔کیسے یہ ایک عظیم کلام ایسے حروف اور الفاظ سے بنا ہے،جن کو ہر چند سالہ بچہ بھی پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،حقیقت میں اتنے عظیم کام کا ایسے کلمات والفاظ سے وجود میں آناہی سب سے بڑا معجزہ ہے۔
سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن مجید کتنے پہلوؤں سے معجزہ ہے؟کیا صرف فصاحت و بلا غت کے لحاظ سے اور دوسرے الفاظ میں:صرف عبارتوں کی مٹھاس،مطالب کے رسا ہو نے اور ان کے غیر معمولی نفوذ سے یا دوسرے پہلوؤں سے بھی معجزہ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جب ہم قرآن مجید پر مختلف زاویوں سے نظر ڈالتے ہیں تو ہر زاویہ اور ہر دریچہ سے اس کے اعجاز کے چہروں میں سے ایک چہرہ نظر آتا ہے،جیسے:
۱۔فصاحت و بلاغت :اس کے الفاظ اور مفاہیم میں غیر معمولی مٹھاس اور کشش اور عجیب وغریب قوت جاذبہ پائی جاتی ہے۔
۲۔قرآن مجید ہر لحاظ سے بلند مطالب و مفاہیم پیش کرتا ہے ،بالاخص ہر قسم کے خرافات سے پاک عقائد بیان کر تا ہے۔
۳۔علمی معجزات :یعنی ایسے مسائل کے رخ سے پردہ اٹھانا جو اس زمانے تک انسان کے لئے پوشیدہ تھے۔
۴۔مستقبل میں رونما ہو نے والے بعض واقعات کے بارے میں واضح اور دقیق پیشین گوئی (قرآن مجید کی غیبی خبریں)۔
۵۔قرآن مجید میں کسی بھی قسم کے اختلاف ،تضاد اور تعارض کا نہ ہو نا ان کے علاوہ بھی اعجاز قرآن کے بہت سے پہلو ہیں۔
مذکورہ پانچ مسائل کے بارے میں بحث بہت طولانی ہے۔لیکن ہم چند اسباق کے ضمن میں اس بحث کے کچھ دلچسپ گوشوں کو تحقیق کے سا تھ بیان کریں گے:
فصاحت وبلاغت
ہم جانتے ہیں کہ ہر کلام کے دو پہلو ہوتے ہیں”الفاظ“ اور ”مفا ہیم“۔
اگر کلام ،کے الفاظ اور کلمات، خوشنما ،شائستہ ،منظم ،منجسم اور ھماھنگ ہوں اور پیچیدگی سے پاک ہوں اور اس کے جملوں کی ساخت معنی ومطلب کو کا مل طور پر دلچسپ اور جذاب صورت میں پیش کرے تو اس کلام کو فصیح و بلیغ کلام کہتے ہیں ۔
قرآن مجید عالی ترین حد تک ان دو خصو صیات کا حامل ہے، اسی لئے آج تک کوئی شخص اس قسم کی آیات اور سورتیں نہیں لاسکا ہے جن میں ایسی کشش ،جذابیت، مٹھاس اور زیبائی پائی جاتی ہو۔
ہم گزشتہ سبق میں پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین عرب کا منتخب شخص،”ولید بن مغیرہ“ قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت سن کر مضطرب اور پریشان ہو کر فکر واندیشہ میں غرق ہو گیا ،اس نے ایک مدت تک غور وفکر اور مطالعہ کے بعد قرآن مجید سے مقابلہ کر نے کے لئے قریش کے سرداروں کو حکم دیا کہ قرآن مجید کو ”جادو“اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جادو گر کہیں!
کفار نے پیغمبر اسلام کو متعدد بار ساحر کی نسبت دی ،اگر چہ وہ اس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی مذمت کر نا چاہتے تھے لیکن وہ حقیقت میں آپکی تعریف وتمجید کر رہے تھے،کیونکہ یہ سحر کی نسبت قرآن مجید کے غیر معمولی نفوذ کا اعتراف تھا ،چونکہ عام طور پر اس کی توجیہ نہیں کی جاسکتی تھی اس لئے انھیں اسے ایک مر موز اور نامعلوم جاذبہ کی حیثیت سے قبول کر نے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔
لیکن کفار اس بات کے بجائے کہ حقیقت کو قبول کریں،قرآن مجید کو معجزہ شمار کریںاور ایمان لائیں،اس کے خلاف ایک بات گڑھ کر گمراہ ہو گئے اور اسے جادو قرار دیا۔!
تاریخ اسلام میں ایسے واقعات بہت پائے جاتے ہیں کہ ضدّی،تند خواور جھگڑا لو افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جیسے ہی آتے تھے اور آنحضرت سے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت سنتے تھے تو فوراً اپنا عقیدہ بدل دیتے تھے ،کیونکہ قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اسلام کا نور چمکنے لگتا تھا،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی کشش اور فصاحت و بلاغت یقینا ایک معجزہ ہے۔
ماضی ہی کی بات نہیں ،موجودہ زمانے میں بھی عربی ادبیات کے ماہرین جس قدر قرآن مجید کو پڑھتے ہیں اور اس کی تکرار کرتے ہیں وہ اس سے نہ صرف نہیںتھکتے اور سیر نہیں ہوتے بلکہ زیادہ سے زیادہ لذت محسوس کرتے ہیں۔
قرآن مجید کی عبارتیں انتہائی دقیق اور منظم ہیں ۔یہ تعبیرات بیان کی پاکیزگی اور سنجیدگی کے علاوہ واضح اور گویا ہیں ۔ضرورت کے وقت محکم اور منہ توڑ جواب دینے والی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کے نازل ہو نے کے زمانے میں ادبیات کے لحاظ سے عربی زبان ترقی کے عروج پر پہنچی ہوئی تھی ۔اسی لئے عصر جاہلیت کے عربی اشعار آج بھی عربی ادبیات کے بہترین نمو نے شمار ہوتے ہیں۔
مشہور ہے کہ ہرسال حجاز کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر”بازارعکاظ“نامی ایک تجارتی اور ادبی مرکز میں جمع ہو کر اپنے بہترین اشعار کے نمونے پیش کرتے تھے ۔ان میں سے سب سے بہتر شعر کو”سال کے بہترین شعر“کے عنوان سے انتخاب کیا جاتا تھا اور اسے لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے زمانے میں ”معلقات سبع“کے نام سے اس قسم کے سات نمونے خانہ کعبہ میں موجود تھے۔
لیکن قرآن مجید کے نازل ہو نے کے بعد اس کی فصاحت و بلاغت کے مقابلہ میں یہ اشعار اس قدر پھیکے پڑ گئے کہ نہ صرف انھیں بتدریج وہاں سے ہٹا دیا گیا بلکہ انھیں فراموش بھی کر دیا گیا!
مفسرین قرآن نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق قرآن مجید کی مختلف آیتوں کے عجیب وغریب باریکیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔آپ ان تفا سیر کی طرف رجوع کر کے اس حقیقت سے آگاہ ہو سکتے ہیں ۔
قرآن مجید سے آشنائی اور معرفت حاصل ہو نے پر معلوم ہو گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ ذیل کلام میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے:
”ظاھرہ انیق وبا طنہ عمیق لاتحصی عجائب ولا تبلی غرائبہ۔“
”قرآن مجید کا ظاہر خوش آئند اور زیبا ہے اور اس کا باطن گہرا اور عمیق ہے۔اس کے عجائب ناقابل شمار اور اس کے غرائب ناقابل زوال ہیں۔“
مکتب قرآن کے سب سے بڑے شاگرد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں نہج البلاغہ میں فر ماتے ہیں:
”فیہ ربیع القلب وینا بیع العلم وما للقلب جلاء غیرہ“
”قرآن مجید دلوں کے لئے بہار ہے ،اس سے علم و دانش کے چشمے ابلتے ہیں اور انسان کے قلب و روح کو جلا بخشنے والا صیقل اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔“
________________________________________
غور کیجئے و جواب دیجئے
۱۔قرآن مجید کے ”حروف مقطعات“کا فلسفہ کیا ہے؟
۲۔کیا قرآن مجید صرف ایک اعتبار سے معجزہ ہے یا کئی اعتبار سے معجزہ ہے؟
۳۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو مخالفین کیوں ساحر کہتے تھے؟
۴۔فصاحت وبلاغت کے در میان کیا فرق ہے؟
۵۔”معلقات سبع“کس زمانے سے مربوط ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟
ساتواں سبق: خداشناسی کے بارے میں قرآن مجید کا
طرز بیان
سب سے پہلے ہمیں اس معاشرے اور ماحول کا فکری اور ثقافتی اعتبار سے تجزیہ کر نا چاہئے ،جس میں قرآن مجید ناز ل ہوا ہے۔
تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ،اس زمانے میں سر زمین حجاز دنیا کا پسماندہ ترین خطہ تھا اور عصر جاہلیت کے لوگوں کو وحشی یا نیم وحشی اقوام کے نام سے یاد کیا جاتاتھا۔
عقیدہ کے لحاظ سے وہ لوگ بت پرستی میں غرق تھے۔ان کی تہذیب وتمدن پر مختلف شکلوں میں پتھر اور لکڑی کے بنائے ہوئے بتوں کا منحوس سایہ وسیع پیمانے پر چھایا ہوا تھا،یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کجھور کے بت بناکر ان کے سامنے دوزانو بیٹھ کر پوجا کرتے تھے ،لیکن قحط سالی کے وقت انھیں کھا جاتے تھے !
بیٹیوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ انھیں انتہائی بے دردی سے زندہ در گور کر دیتے تھے ،اس کے باوجود فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے !اور خداوند متعال کی ذات کو انسان کی حد تک گرادیتے تھے۔
توحید اور یکتا پرستی پر سخت تعجب کرتے تھے،جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں یکتا پرستی کی دعوت دی تو انہوں نے نہایت تعجب اور حیرانی کی حالت میں کہا:
<اٴجعل الاٰلھة إلٰھاًوّاحداً إنّ ھٰذا لشیء عجاب> (سورہ/۵)
”کیا اس نے سارے خداؤں کو جوڑ کر ایک خدا بنادیا ہے یہ تو انتہائی تعجب خیز بات ہے۔“
جو بھی شخص ان کی خرافات ،ان کے جھوٹے افسانوں اور نظریات کے خلاف زبان کھولتا تھا ،وہ اسے دیوانہ کہتے تھے ۔
ان کے معا شرے پر قبائلی نظام انتہائی شدت سے حکم فر ما تھا اور مختلف قبیلوں کے درمیان اختلا فات کا یہ عالم تھا کہ ان کے در میان جنگ کے شعلے کبھی خاموش نہیں ہو تے تھے ،بار بار روئے زمین پر ایک دوسرے کے خون کی ہولی کھیلتے تھے،قتل و غارت گری ان کا روز مرہ کا معمول بن گیا تھا اور اس پر فخر و مباہات کرتے تھے۔
ان کے اہم ترین مر کزی شہر،مکہ میںچند گنے چنے ہی پڑھے لکھے افراد تھے اور عالم ودانشور تو شاذو نادر ہی پائے جاتے تھے۔
اسی ماحول اور معاشرے میں ایک ایسا شخص اٹھا ،جس نے نہ کسی مدرسہ کا رخ کیا تھا اور نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا تھا وہ ایک ایسی کتاب لے آیا جو مفہوم و معنی کے لحاظ سے اس قدر عظیم ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی صاحبان علم ودانش اس کی تفسیر میں مشغول ہیں اور ہر دور میں نئے نئے حقائق کا انکشاف کرتے ہیں ۔
قرآن مجید کا ئنات اور اس کے نظام کے بارے میں نہایت دقیق حساب شدہ تصویر پیش کر تا ہے ۔تو حید کو اس کی مکمل صورت میں بیان کر تا ہے ۔زمین و آسمان کی پیدائش اور شب وروز ،چاند ،سورج،جمادات ونباتات اور انسان کی تخلیق کے اسرار کو خدائے وحدہ لاشریک کی نشانیوں کی دلیل کے طور پر اپنی مختلف آیات میں مختلف انداز،تعبیرات اور تشبیہات کے ساتھ پیش کر تا ہے۔
کبھی وہ انسان کے وجود کی گہرائیوں میں اتر کر فطری توحید کی بات کر تا ہے:
<فإذا رکبوا فی الفلک دعوا اللّٰہ مخلصین لہ الدّٰین فلمّا نجّٰھم الی البرّ اذا ھم یشرکون> (سورہ عنکبوت/۶۵)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں،پھر جب وہ نجات دے کر انھیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراًشرک اختیار کر لیتے ہیں۔“
کبھی عقل وشعور کے ذریعہ استد لال کرتے ہوئے توحید کو ثابت کرتا ہے اور اس وسیع کائنات اور اپنے نفس کے بارے میں غور وفکر کر نے کی دعوت دیتا ہے ۔زمین وآسمان ،حیوانات ،پہاڑوں،سمندروں ،بارش کے برسنے ،باد نسیم کے جھونکوں اور انسان کے جسم و روح کے انتہائی دقیق،منظم اور پیچیدہ تخلیقی اسرار و رموز سے پر دہ اٹھا تا ہے۔
خداوند متعال کی صفات کو بیان کر نے کے لئے انتہائی گہرے اورد لکش طریقے کا انتخاب کرتا ہے ۔ایک جگہ فر ماتا ہے:
<لیس کمثلہ شیء> (سورہ شوری/۱۱)
”کوئی بھی چیز اس کے مانند نہیں ہے“
دوسری جگہ پر فر ماتا ہے:
”ھواللّٰہ الّٰذی لا إلٰہ إلاّ ھو عالم الغیب والشّھادة ھو الرّحمٰن الرّحیم ھواللّٰہ الّذی لا إلٰہ إلاّھو الملک القدّوس السّلٰم المؤمن المھیمن العزیز الجبّار المتکبّر سبحٰن اللّٰہ عمّا یشرکون ھواللّٰہ الخالق الباریء المصوّر لہ الاسماء الحسنیٰ یسبّح لہ مافی السمٰوات والارض وھو العزیز الحکیم>
( سورہ حشر/۲۲۔۲۴)
”وہ خدا وہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ حاضر و غائب سب کا جاننے والا،عظیم اور دائمی رحمتوں کا مالک ہے۔وہ اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کو ئی خدا نہیں ہے ۔وہ بادشاہ، پاکیزہ صفات،بے عیب، امان دینے والا، نگرانی کر نے والا، صاحب عزت ،زبر دست اور کبر یائی کا مالک ہے ۔اللہ ان تمام باتوں سے پاک وپاکیزہ ہے جو مشرکین کیا کرتے ہیں۔وہ ایسا خدا ہے جو پیدا کر نے والا ،ایجاد کر نے والا اور صورتیں بنانے والا ہے ۔اس کے لئے بہترین نام ہیں، زمین و آسمان کا ہرذرہ اسی کے لئے محو تسبیح ہے اور وہ صاحب عزت و حکمت ہے۔“
خداوند متعال کے علم کی توصیف اور اس علم کے لا محدود ہو نے کے بارے میں حسین ترین تعبیر کے ساتھ یوں بیان کر تا ہے:
<ولواٴنّما فی الارض من شجرة اقلام والبحر یمدّہ من بعدہ سبعة اٴبحرٍما نفدت کلمٰة اللّٰہ> (سورہ لقمان/۲۷)
”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور (سیا ہی کے طور پر)سمندر کا سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الہٰی تمام ہو نے والے نہیں ہیں“
خداوند متعال کے تمام چیزوںپر حاوی ہو نے اور اس کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہو نے کے سلسلہ میں قرآن مجید ایسی اعلیٰ تعبیرات پیش کرتا ہے کہ وہ تعبیرات صرف قرآن مجید سے ہی مخصوص ہیں:
<وللّٰہ المشرق والمغرب فاینما تولّوا فثمّ وجہ اللّٰہ>(سورہ بقرہ/۱۱۵)
”اور اللہ کے لئے مشرق بھی ہے اور مغرب بھی،لہذا تم جس جگہ کی طرف رخ کر لو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے“
<وھو معکم این ماکنتم واللّٰہ بما تعملون بصیر>(سورہ حدید/۴)
”اور وہ تمھارے ساتھ ہے تم جہاں بھی رہو اور وہ تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے۔“
جب معاد اور قیامت کی بات کرتا ہے تو مشرکین کے تعجب اور انکار کے مقابلہ میں کہتا ہے:
”(انسان اپنی خلقت کو بھول کر کہتا ہے)ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے؟“
”آپ کہدیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے ۔
”اس نے تمھارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہو۔(وہ خدا جس نے آگ کے شعلوں کے ساتھ پانی کو بھی وجود بخشا ہے وہی مرنے کے بعد پھر زندہ کرسکتا ہے) کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیدا کر دے؟یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کر نے والا اور جاننے والا ہے اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہوجا،تو وہ شے ہو جاتی ہے۔“ (سورہ یٓس/۷۸۔۸۲)
جب فوٹو گرافی اور ٹیب ریکارڈ ر کا تصور بھی نہیں تھا،قرآن مجیدنے انسان کے اعمال کے بارے میں اس وقت فر مایا ہے:
<یومئذٍ تحدّث اخبارھباٴنّ ربّک اوحیٰ لھا>
(سورہ زلزل/۴۔۵)
”اس(قیامت کے)دن وہ (زمین)اپنی خبریں بیان کرے گی کہ تمھارے پرور دگار نے اسے اشارہ کیا ہے۔“
اور کبھی قرآن مجید ہاتھ ،پاؤں اور بدن کی جلد کی گواہی کے بارے میں ذکر کرتا ہے:
<الیوم نختم علیٰ افواھھم وتکلّمنا اٴیدیھم وتشھد اٴرجلھم> (سورہ یٓس/۶۵)
”آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔“
<وقالوا لجلودھم شھد تم علینا قالوا اٴنطقنااللّٰہ الذی انطق کل شئی> (سورہ فصلت/۲۱)
”اور وہ اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی ؟تو وہ جواب دیں گے ہمیں اسی خدا نے گو یا بنا یا ہے جس نے سب کو
گو یائی عطا کی ہے۔“
قرآن مجیدکے معارف کی قدر وقیمت،اس کے مضامین ومفاہیم کی عظمت اور ان کے معار ف کا خرافات سے پاک و منزّہ ہو نا اس وقت واضح ہو تا ہے جب ہم اس کا مقائسہ موجودہ تحریف شدہ توریت و انجیل سے کرتے ہیں ،مثلاًہم دیکھیں کہ آدم کی تخلیق کے بارے میں توریت کیا کہتی ہے اور قرآن مجیدکیا کہتا ہے؟
انبیاء علیہم السلام کی داستانوں کو توریت کس انداز میں پیش کرتی ہے اور قرآن مجید کا انداز بیان کیا ہے؟
توریت اور انجیل خدا وند متعال کی کیسے توصیف کرتی ہیں اور قرآن مجید کس طرح خدا کی توصیف کرتا ہے؟
اس صورت میں قرآن مجید اور توریت وانجیل کے در میان فرق واضح طور پر معلوم ہو جائے گا۔
(اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے ”رہبران بزرگ“نامی فارسی کتاب کا مطا لعہ کریں)
________________________________________
غورکیجئے اور جواب دیجئے
۱۔جس معاشرہ میں قرآن مجید نازل ہوا ہے،اس کے ماحول کی خصوصیات بیان کیجئے۔
۲۔اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والوں کے افکار پر بت پرستی نے کیا اثرات ڈالے تھے؟
۳۔فطری اور استدلالی توحید کے در میان کیا فرق ہے؟
۴۔پروردگار عالم کی معرفت اور اس کی صفات کے بارے میں قرآن مجید کے بیان کی روش کیسی ہے ؟مثالوں کے ساتھ واضح کیجئے۔
۵۔قرآن مجید کے مطالب و مفاہیم کو بہترین صورت میں کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟
آٹھواںسبق: قرآن مجید اورجدید سائنسی انکشافات
بیشک قرآن مجید علوم طبیعیات یا علم طب ،علم نفسیات اور علم ریاضی کی کتاب نہیں ہے۔
بلکہ قرآن مجید ہدایت اور انسان سازی کی کتاب ہے اور جو کچھ اس سلسلہ میں ضروری ہے وہ اس میں پایا جاتا ہے۔
ہمیں قرآن مجید سے توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ ہمارے لئے مختلف علوم کا دائرة المعارف ہو۔بلکہ ہمیں قرآن مجید سے نور ایمان و ہدایت ،تقویٰ وپرہیز گاری، انسانیت واخلاق اور نظم وضبط کے قوانین کامطالبہ کر نا چاہئے اور قرآن مجید میں یہ سب چیزیں موجود ہیں۔
لیکن قرآن مجیدمذکورہ مقاصد تک پہنچنے کے لئے کبھی علوم طبیعیات کے بعض مسائل اور خلقت کے اسرار اور کائنات کے عجائبات کی طرف بھی کچھ اشارے کرتا ہے۔ بالخصوص توحید کی بحث میں ”برہان نظم“کے تناسب سے خلقت کائنات کے بعض اسرار سے پردہ اٹھاکر ایسے مسائل کو واضح کرتا ہے کہ اس ماحول اور زمانہ کے دانشوروں کے لئے بھی نا معلوم تھے ۔
قرآن مجید کے اس قسم کے بیانات کے مجموعہ کو ہم ”قرآن مجید کے علمی معجزات“ کہتے ہیں ۔
یہاں پر اس قسم کے چند معجزات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
قرآن مجید اور قوت جاذبہ کا قانون
مشہور سائنسدان”نیوٹن“سے پہلے کسی نے قوت جاذبہ کے کلی قانون کا مکمل طور پر انکشاف نہیں کیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دن ”نیوٹن“سیب کے ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک سیب درخت سے جدا ہو کرزمین پر گر گیا ۔اس چھوٹے اور معمولی واقعہ نے نیوٹن کے ذہن کو اس قدرسوچ میں مبتلا کر دیا کہ وہ برسوں تک اس سلسلہ میں غور وفکرکرتا رہا کہ یہ کون سی طاقت ہے جس نے سیب کو اپنی طرف کھینچ لیا؟ کیوں یہ سیب آسمان کی طرف نہیں گیا ؟بالآخر برسوں کی فکر کے بعد اس نے قانون جاذبہ کا انکشاف کیا کہ”دوجسم اپنے جسموں کی براہ راست نسبت سے اور ان کے در میان فاصلہ کی مجذور معکوس نسبت سے ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔“
اس قانون کے انکشا ف سے معلوم ہوا کہ نظام شمسی کہاں پر واقع ہے؟ یہ بڑے بڑے سیارے کیوں اپنے مدار میں سورج کے گرد گھومتے ہیں ؟کیوں یہ فرار کر کے مختلف اطراف کی طرف نہیں چلے جاتے؟ وہ ایک دوسرے پر کیوں نہیں گرتے؟یہ کونسی طاقت ہے جس نے ان سیاروں کو اس لامتناہی فضا میں ایک خاص اور دقیق مدار میں گردش کی حالت میں رکھاہے اور وہ ذرہ برابر بھی اس سے انحراف نہیں کرتے ہیں؟!
جی ہاں!”نیوٹن“نے انکشاف کیا:ایک جسم کا دائرہ کی صورت میں گھومنا اس کے مرکز سے دور ہو نے کا سبب بنتا ہے اور قانون جاذبہ اسے مرکز کی طرف کھینچتا ہے۔اگر یہ دو قوتیں (دافعہ و جاذبہ)مکمل طور پر تعادل رکھتی ہوں،یعنی ”اجسام“اور ان کے در میان”فاصلے اتنی قوت ”جاذبہ“پیدا کریں کہ قوت”دافعہ“ کی دورانی حرکت کی سرعت اور مرکز سے دور ہو نے کا سبب بنیںتو ”جاذبہ“و ”دافعہ“ کا یہ تعادل انھیںدائمی طور پر اپنے مدار میں رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
لیکن قرآن مجید نے چودہ سوسال پہلے اس حقیقت کو سورئہ رعد کی دوسری آیت میں یوں بیان کیا ہے:
<اللّٰہ الّذی رفع السمٰوٰت بغیر عمدٍ ترونھا ثمّ استویٰ علی العرش وسخّر الشّمس والقمر کلّ یجری لاجلٍٍ مسمیً یدبّر الامر یفصّل الاٰیٰت لعلکم بلقآء ربّکم تو قنون>
”اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کردیا ہے ،جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ،اس کے بعد اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا اور آفتاب و ماہتاب کو مسخر بنایا کہ سب ایک معینہ مدت تک چلتے رہیں گے،وہی تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اپنی آیات کو مفصل طور سے بیان کر تا ہے کہ شاید تم لوگ پروردگار کی ملا قات کا یقین پیدا کر لو۔“
اسی آیت کے ذیل میں حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل کی گئی ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے:
الیس اللّٰہ یقول بغیر عمد ترونھا؟
قلت:بلی،قال:ثم عمد لکن لا ترونھا!
(امام نے فر مایا:)کیا خدا نہیں فر ماتا ہے کہ ہم نے نظر نہ آنے والے ستونوں (کے ذریعہ اسے بلند کیا)؟راوی کہتا ہے میں نے امام کے سوال کے جواب میں عرض کی :جی ہاں۔امام(ع) نے فر مایا:لہذا ستون موجود ہیں،لیکن تم انھیں نہیں دیکھ پاتے ہو۔“
کیا ”قوت جاذبہ“کے مفہوم سے عام لوگوں کو آگاہ کر نے کے لئے عربی زبان میں ”عمدٍ لا ترونھا “(غیر مرئی ستون)سے زیادہ واضح اور آسان تعبیر موجود ہے؟!
ایک اور حدیث میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فر ماتے ہیں:
”ھذا النجّوم التی فی السماء مدائن مثل المدائن التی فی الارض مر بوطة کل مدینة الی عمود من نور“
”آسمان پر موجودہ یہ ستارے ،زمین پر موجود شہروں کے مانند شہر ہیں۔ ہر شہر دوسرے شہر کے ساتھ (ہر ستارہ دوسرے ستارے کے ساتھ)نور کے ستون کے ذریعہ جڑا ہوا ہے“!
آج کے سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آسمان پر موجود ستاروں میں کروڑوں کی تعداد میں ایسے ستارے ہیں جن میں زندہ اور عقل وشعور رکھنے والی مخلوقات ساکن ہیںاگر چہ ان کی تفصیلات اور جزئیات ابھی تک انسان کی دسترس میں نہیں ہیں۔
زمین کے اپنے اور سورج کے گرد گھومنے کا انکشاف
مشہور ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اس بات کا انکشاف کیا کہ زمین اپنے گرد گھومتی ہے ،وہ تقریباًچار سو سال پہلے اٹلی میں رہنے والا ،”گلیلیو“نام کا ایک ماہر فلکیات تھا ۔سوسال اس انکشاف سے پہلے دنیا کے دانشور اور ماہرفلکیات،ایک مصری دانشمند ”بطلیموس“کے نظریہ ہیئت پر عمل پیرا تھے کہ وہ کہتا تھا:زمین کائنا ت کا مرکز ہے اور تمام دوسرے سیارے (کرّات)اس کے گرد گھومتے ہیں۔“
البتہ ”گلیلیو“کو اس علمی انکشافات کے جرم میں کلیسا کے حامیوں کی طرف سے حکم کفر دیا گیا۔اس نے اپنے اس نظریہ کے بارے میں بظاہر تو بہ اور اظہار ندا مت کر کے موت سے نجات پائی ۔لیکن آخر کار اس کے بعد والے دانشوروں اور سائنسدانوں نے اس کے نظریہ پر تحقیق جاری رکھی اور آج یہ مسئلہ نہ صرف ایک مسلم علمی حقیقت کے عنوان سے قبول کیا جا چکا ہے ،بلکہ قابل حس تجربوں سے بھی ثابت ہو چکا ہے کہ زمین اپنے گرد گھومتی ہے ۔فضائی پر وازوں کے بعد یہ مسئلہ عینی مشاہدات کے مرحلہ سے بھی گزر چکا ہے۔
مختصر یہ کہ زمین کی مرکزیت کا مسئلہ غلط ثابت ہوا اور معلوم ہو گیا کہ یہ ہماری آنکھوں کا دھوکہ ہے کہ ہم زمین کو ساکن اور تمام ستاروں اور سیاروں کو زمین کے گرد گھومتے محسوس کر رہے ہیں ۔حالانکہ ہم خود حرکت میں ہیں اور ستاروں اور سیاروں کو حرکت میں فرض کرتے ہیں ۔
بہر حال ”بطلیموس“کا نظریہ تقریباً پندرہ سو سال تک علماء اور دانشوروں کے ذہنوں پر چھایا رہا،حتی قرآن مجید کے ظہور کے وقت بھی کوئی اس نظریہ کی مخالفت کر نے کی جراٴت نہیںکرتاتھا۔
لیکن جب ہم قرآن مجید کی آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ سورئہ نمل کی آیت نمبر ۸۸ میں زمین کی گردش پر واضح صورت میں روشنی ڈالی گئی ہے:
<وتری الجبال تحسبھا جامدة وھی تمرّمرّ السّٰحاب صنع اللّہ الّذی اٴتقن کلّ شیءٍ انّہ خبیر بما تفعلون> (سورہ نمل/۸۸)
”اور تم پہاروں کو دیکھو گے توسمجھو گے کہ جیسے وہ اپنی جگہ پر جامد ہیں حالانکہ یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے ۔یہ اس خدا کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو محکم بنایا ہے اور وہ تمھارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔“
مذکورہ آیت واضح الفاظ میں پہاڑوں کی حرکت کا ذکر کرتی ہے جبکہ ہم سب انھیں ساکن تصور کرتے ہیں ۔اور ان کی حر کت کی بادلوں کی حر کت سے تشبیہ دینا اس کی سرعت ،نرمی اور سکوت اور بغیر شور وغل کے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ”زمین کی حرکت“کو پہاڑوں کی حر کت سے تعبیر کر کے اس حقیقت کی عظمت کو آشکار کیا جارہاہے ،کیونکہ یہ مسلم ہے کہ پہاڑ اپنے اطراف کی زمینوں کی حرکت کے بغیر کوئی حرکت نہیں رکھتے بلکہ دراصل ان کی حرکت زمین کی حر کت ہے (اپنے گرد گھومنا یا سورج کے گرد گھومنا یا دونوں حرکتیں )۔
ذرا غور کیجئے : ا یک ایسے زمانے میں جب دنیا کی تمام علمی محافل اور دانشور زمین کے ساکن وثابت ہو نے اور سورج اور تمام سیاروں اور ستاروں کے حرکت میں ہونے کے نظریہ کو باضابط طور پر قبول کر چکے تھے،یہ اعلان کر نا کہ زمین حرکت میں ہے،کیا یہ ایک عظیم علمی معجزہ شمار نہیں کیا جائے گا؟!
اور یہ اعلان بھی ایک ایسے شخص کے توسط سے کہ جس نے نہ صرف کسی سے کوئی سبق نہیں پڑھا تھا بلکہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہا تھا جو علم و تہذیب سے دور شمار ہو تا تھا ،کیا یہ انکشاف اس آسمانی کتاب کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے۔؟
________________________________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔قرآن مجید کے علمی معجزات سے کیا مراد ہے؟
۲۔”قانون جاذبہ“کا سب سے پہلے کس نے انکشاف کیا ہے اور وہ کس زمانہ میں زندگی بسر کر تا تھا؟
۳۔قرآن مجید کس آیت میں اور کس تعبیر سے ”قانون جاذبہ“کو بیان کر تا ہے؟
۴۔”زمین کے سکون کا نظریہ “کس نے پیش کیا ہے اور یہ نظریہ کتنے سال تک دنیا والوں کے افکار پر چھایا رہا؟
۵۔قرآن مجید نے کس آیت میں اور کس تعبیر سے ”زمین کی حرکت“کو بیان کیا ہے؟
نواں سبق: پیغمبر اسلام (ص) کی حقّانیت پر ایک اور دلیل
نبوت کا دعویٰ کر نے والے کسی شخص کی دعوت کی حقانیت معلوم کر نے یا اس کے جھوٹ کا سراغ لگانے کے لئے معجزہ کے مطالبہ کے علاوہ دوسرا ایک طریقہ بھی ہے اور یہ طریقہ مقصد تک پہنچنے کی ایک اور زندہ دلیل ہو سکتا ہے ۔اور وہ طریقہ درج ذیل قرائن کی تحقیق وجمع آوری سے حاصل ہو سکتا ہے:
۱۔اخلاقی خصوصیات اور اجتماعی ریکارڈ۔
۲۔دعوت کے ماحول پر چھائے ہوئے حالات۔
۳۔زمانہ کے حالات۔
۴۔دعوت کے مطالب۔
۵۔نفاذ واجراء کے اصول وضوابط اور مقصد تک پہنچنے کے وسائل۔
۶۔معاشرے پر دعوت کے اثرات کا اندازہ۔
۷۔مقصد کے بارے میں داعی کے ایمان وفداکاری کا اندازہ۔
۸۔انحرافی تجویزوں اور مشوروں کی موافقت نہ کر نا ۔
۹۔عمومی افکار پر تیزی سے اثر انداز ہو نا۔
۱۰۔ایمان لانے والے لوگوں کے بارے میں تحقیق کر نا کہ وہ کس قسم کے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں؟!
حقیقت میں اگر ہم ہر مدعی کے بارے میں مذکورہ دس مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر اور بحث و تحقیق کریں تو ہم اس کے سچ اور جھوٹ کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔
مندرجہ بالا بیان شدہ مطالب کے پیش نظر ہم مذکورہ دس مسائل کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ایک مختصر تحقیق و تجزیہ پیش کریں گے اگر چہ ان کے بارے میں متعدد کتابیں تالیف کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۔دوست اور دشمن کی لکھی گئی تاریخوں سے جو کچھ ہمیں پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجتماعی سر گر میوں کے دوران آپ کی اخلاقی خصوصیات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے ،وہ یہ ہے کہ آپ اس قدر پاک و پاکیزہ اور ایماندار تھے کہ حتی جاہلیت کے زمانے میں بھی آپ کو ”امین “کا لقب دیا گیا تھا۔تاریخ کہتی ہے:مدینہ کی طرف ہجرت کرتے وقت آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مامور فر مایا تھا کہ آپ کے مدینہ روانہ ہونے کے بعد لوگوں کی امانتوں کو ان تک پہنچادیں۔
آپ کی شجاعت ،استقامت ،حسن اخلاق،وسعت قلبی ،جوانمردی اور عفو وبخشش جیسی خصوصیات کا مشاہدہ جنگ وصلح کی حالت میں کیا جاسکتاہے بالخصوص فتح مکہ کے موقع پر آپ کی طر ف سے شکست خور دہ خونخوار دشمنوں کے حق میں عام معافی کا اعلان ان خصوصیات کی ایک زندہ مثال ہے۔
۲۔سب جانتے ہیں کہ عام لوگ،حتی غیرمعمولی ذہانت کے مالک لوگ بھی،خواہ نخواہ ماحول کے حالات سے متاثر ہو تے ہیں ،البتہ بعض لوگ زیادہ اور بعض کم تر۔
اب ذراغور کیجئے کہ جس شخص نے اپنی زندگی کے چالیس سال جہل و بت پرستی کے ماحول میں گزارے ہوں،ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزاری ہو کہ جس کے لوگوں کی تہذیب وتمدن کے تانے بانے شرک و خرافات کی بنیاد پر مستحکم ہوئے ہوں ،اس کے لئے کیسے ممکن ہے کہ وہ فقط توحید کا دم بھرتے ہوئے شرک کے تمام مظاہر سے مقابلہ کرے؟!
یہ کیسے ممکن ہے کہ جہالت کے ماحول سے علم کے اعلیٰ ترین جلوے نمودار ہو جائیں؟!
کیا یہ قابل یقین ہے کہ ایک ”ماورائے طبیعت“تائید الہٰی کے بغیر ایسا عجیب مظہر وجود میں آئے ؟!
۳۔ہمیں دیکھنا چاہئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہورکس زمانے میں ہوا ہے؟ایک ایسے زمانے میں کہ دنیا قرون وسطیٰ کے دور سے گزر رہی تھی ،وہ مطلق العنانیت ،استبداد،امتیازی سلوک اور قومی و طبقاتی ظلم کا دور تھا۔بہتر ہے ہم اس سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام کی زبان سے سنیں ،جو ظہور اسلام سے پہلے اور بعد والے دور کے عینی شاھد تھے،آپ(ع) فر ماتے ہیں:
”خداوندمتعال نے آپ کو ایک ایسے زمانے میں رسالت پر مبعوث فر مایا،جب دنیا کے لوگ حیرت کی وادی میں گمراہ ودربدر تھے،ان کی عقلیں جان لیواہواوہوس کی تابع تھیں ۔غرور و تکبر نے انھیں زوال سے دوچار کر دیا تھا ۔جاہلیت کی تاریکیوں نے انھیں گمراہ کر دیا تھا اور وہ جہل واضطراب کی حالت میں سر گرداں و پریشان تھے۔“ (نہج البلاغہ،خطبہ نمبر۹۱ )
اب ذرا غور کیجئے کہ جس دن کا لائحہ عمل انسانوں کی مساوات ،قومی اور طبقاتی تعصبات کو ختم کر نا اور”انّما المومنون اخوة“(مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں)ہو،وہ دین اس زمانے کے حالات سے کیا مطابقت رکھتا ہے؟
۴۔آپ کی دعوت کا موضوع ،تمام جہات میں توحید،تمام ظالمانہ امتیازات کو ختم کر نا ،عالم انسانیت کا اتحاد ،ظلم وستم سے مقابلہ کر نا،ایک عالم گیر (عادلانہ) حکومت کا منصوبہ ،مستصعفین کا دفاع اور انسانی اقدار کے اہم ترین معیار کے طور پر تقویٰ،پرہیز گاری ،پاکیزگی اور امانت داری کا پر چار تھا ۔
۵۔آپ نے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی صورت میں بھی اس نا معقول نظریہ پر عمل نہیں کیا کہ” مقصد وسیلہ کی توجیہ کرتا ہے “۔کہ آپ اپنے مقدس مقاصد تک پہنچنے کے لئے مقدس وسائل سے استفادہ کرتے تھے۔
آپ دوٹوک الفاظ میں فر ماتے تھے:
<ولا یجرمنّکم شنان قوم علی الّا تعدلوا>
(سورہ مائدہ/۸)
”اور خبر دارکسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف ترک کردو“
میدان جنگ میں اخلاقی اصولوں کی رعایت کر نے،غیر فوجیوں (عام انسانوں) کو اذیت و تکلیف نہ دینے ،درختوں اور نخلستانوں کو نابود نہ کرنے،دشمن کے لئے پینے کے پانی کو آلودہ نہ کر نے ،جنگی قیدیوں سے محبت سے پیش آنے اور اس قسم کے دسیوں مسائل کے بارے میں آپ کے احکام اس حقیقت کے واضح ثبوت ہیں۔
۶۔اس معاشرے میں آپ کی دعوت کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ اسلام کے دشمن ،لوگوں کے آپ کے قریب آنے سے گھبراتے تھے ،کیونکہ وہ آپ میں غیر معمولی قوت جاذبہ اورآپکے کلام میں نفوذ کا اثر دیکھتے تھے ۔بعض اوقات آپ کی گفتگو کے دوران شور وغل بر پا کرتے تھے تاکہ لوگ آپ کے کلام کو سن کر آپ کے گرویدہ نہ ہو جائیں ،اسی لئے آپ کے معجز نما اثر و رسوخ پر پردہ ڈالنے کے لئے آپ کو ”ساحر“ اور آپ کے کلام کو ”سحر“ سے تعبیر کرتے تھے کہ یہ بذات خودآپ کی دعوت کے غیر معمولی اور عجیب اثر کا اعتراف تھا۔
۷۔اپنی دعوت کی راہ میں آپ کی جاں نثاری کے پیش نظر معلوم ہو تا ہے کہ آپاپنے لائے ہوئے دین کے بارے میں دوسروں سے زیادہ مؤمن و پابند تھے۔
بعض جنگوں کے میدانوں میں، جہاں تازہ اسلام لائے ہوئے افراد بھا گ گئے لیکن آپ انتہائی سختی سے دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے رہے۔اور جہاں پر دشمن لالچ اوردھمکی،مختصر یہ کہ ہر راہ سے سامنے آتاتھا آپ ان تمام مسائل کی پروا کئے بغیر اپنے عقیدہ پر سختی سے ثابت قدم رہتے تھے اور کمزوری اور شک و شبہہ سے دوچار ہوکر ہرگز آپ کے قدم نہیں ڈگمگاتے تھے۔
۸۔ کئی بارکوشش کی گئی کہ آپ کو منحرفین کی سازش کے جال میں پھنسا یا جائے، لیکن آپ کبھی نہ پھنسے، آپ فرماتے تھے: ”اگر سورج کو میرے ایک ہاتھ میںاورچاند کو دوسرے ہاتھ میں دیدیا جائے(یعنی پورے نظام شمس کو میرے قبضہ میں دے دیاجائے تا کہ میں اپنے مقصد سے دست بردار ہوجاؤں) تو بھی میں اپنے مقصد سے دست بردار نہیں ہوں گا۔“
۹۔ آپ کی دعوت کا عام لوگوں کے افکار پر اثر نہ صرف عجیب تھا بلکہ اس کی سرعت بھی معجزنما تھی۔ جن لوگوں نے اسلام کے بارے میں مغربی مستشرقین کی لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان تمام مستشرقین نے اسلام کے تیزی کے ساتھ پھیلنے پر تعجب کیاہے مثال کے طور پر ” تاریخ تمدن عرب اور مشرق میں اس کی بنیادیں“ نام کی کتاب لکھنے والے مشہور تین مغربی مصنفین اس حقیقت کا صریحی طور سے اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
” اس بات کو جاننے کے لئے اسلام کیسے اس قدر تیزی سے ترقی کرکے ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں اس زمانہ کی متمدن دنیا کے اکثر علاقوں پر چھاگیا؟ اب تک کی گئی تمام کوششوں کے باوجود بھی یہ راز ایک لاینحل معمے کی صورت میں باقی ہے۔“
جی ہاں حقیقت میں یہ ایک معما ہے کہ اس زمانہ کے وسائل کے ساتھ اسلام کس ژرح اتنی تیزی اور سرعت کے ساتھ کروڑوں انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں نفوذ کرگیا اور بہت سی تہذیبوں اورثقافتوں کو ختم کرکے ایک نئی تہذیب و تمدن کو وجود میں لایا؟
۱۰۔ آخر میں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آپ کے دشمن کفر و استکبار کے سردار، ظالم اور خود خواہ سرمایہ دار تھے، جبکہ آپ پر ایمان لانے والے اکثر پاک دل جوان حق کے متلاشی ، محروم ، مظلوم اور حتی غلام تھے۔ یہ ایسے افراد تھے جن کا سرمایہ سچائی اور پاک دلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور وہ حق کے پیاسے تھے۔
ان بحثوں کے مجموعہ سے کہ جس کی شرح بہت تفصیلی ہے، ہم آسانی کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچتے، ہیں کہ آپ کی دعوت ایک الہی دعوت تھی، ایک ایسی دعوت تھی جس کا سرچشمہ ماورائے طبیعت تھا، یعنی ایک ایسی دعوت جس کو پروردگار عالم نے انسانوں کو برائی، تباہی، جہالت ، شرک، ظلم اور ستم سے نجات دلانے کے لئے بھیجاتھا۔
________________________________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے :
۱۔کیا پیغمبر اسلام کی حقانیت کی پہچان کے لئے معجزہ کے علاوہ بھی کوئی طریقہ موجود ہے؟ وہ کون سا طریقہ ہے؟
۲۔” قرائن کی جمع آوری“ سے کس قسم کے قرائن مراد ہیں؟ اور کن امور کے بارے میں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے؟
۳۔ کیا اسلام سے پہلے اور اس کے بعد عرب معاشرے کے درمیان موازنہ کرنے سے کوئی نتیجہ اخذ کیا سکتا ہے؟
۴۔ عصر جاہلیت میں دنیا بالخصوص عربوں کے بارے میں اگر کچھ جانتے ہیں تو اس کا ایک خلاصہ بیان کیجئے۔
۵۔ اسلام کے دشمنوں نے (صلی الله علیه واله والسلم) پر کیوں سحر کی تہمت لگائی؟
دسواں سبق : (صلی الله علیه واله والسلم) کا خاتم الانبیاء ہونا
خاتمیت کا صحیح مفہوم
(صلی الله علیه واله والسلم) خداوند متعال کے آخری نبی ہیں اور نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوتاہے۔ یہ ”دین اسلام کی ضروریات“ میں سے ہے۔
”ضروری“ کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ جو بھی شخص مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوجائے، جلدی ہی سمجھ لے گا کہ تمام مسلمان اس مطلب کا عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ ان کے نزدیک واضح اور مسلّم ہے۔یعنی جس طرح کوئی شخص مسلمانوں سے سروکار رکھتاہو،تو وہ جانتا ہے کہ مسلمان مذہبی لحاظ ہے”توحید“ کی اصل پر سختی سے قائل ہیں، اسی طرح وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تمام مسلمان (صلی الله علیه واله والسلم) کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ پر اتفاق رکھتے ہیںا ورمسلمانوں کا کوئی گروہ کسی نئے نبی کے آنے کا منتظر نہیں ہے۔
حقیقت میں انبیاء کی بعثت کے ساتھ قافلہ بشریت نے اپنے تکامل کے مختلف مراحل کو یکے بعد دیگرے طے کیا ہے اور بالآخر انسان رشد وتکامل ایک ایسی منزل پر پہنچ گیاہے، جہاں پر وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتاہے۔ یعنی”اسلام کی جامع تعلیمات“ سے استفادہ کرکے اپنی مشکلات کو حل کرسکتاہے۔
دوسرے الفاظ میں، اسلام کمال بشریت کے دور کا آخری اور جامع قانون ہے۔ عقائد کے لحاظ سے دینی بصیرت کا مکمل نمونہ اور عمل کے حوالے سے بھی ایسا منظم قانون ہے جو ہر زمان و مکان میں انسان کی تمام ضروریات کے مطابق ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کی دلیل
اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے دلائل ہمارے پاس کئی موجود ہیں کہ ان میں سے واضح تر درج ذیل تین دلیلیں ہیں:
۱۔ اس مسئلہ کا ضروری ہونا: ہم نے کہا کہ جو بھی شخص دنیا کے مسلمانوں سے جہاں کہیں بھی رابطہ قائم کرے، اسے معلوم ہوگا کہ وہ (صلی الله علیه واله والسلم) کے خاتم الانبیاء ہونے کے قائل ہیں۔ اس لئے اگر کوئی شخص اسلام کو دلیل و منطق کی بنیاد پر قبول کرے، تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ (صلی الله علیه واله والسلم) کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو بھی قبول کرے، کیونکہ ہم نے گزشتہ اسباق میںاس دین کی حقانیت کو بہت سی دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا ہے، لہذٰ (صلی الله علیه واله والسلم) کے خاتم الانبیاء ہونے کے عقیدہ کو بھی قبول کرنا چاہئے، کیونکہ یہ اس دین کی ضروریات میں سے ہے۔
۲۔ قرآن مجید کی آیات بھی (صلی الله علیه واله والسلم) کے خاتم الانبیاء ہونے پر واضح اور روشن دلیل ہیں ، جیسے سورہ احزاب کی آیت نمبر۴۰ میں ارشادہواہے:
< ما کان محمد ابااحد من رجا لکم ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النّبیّن>
” محمد تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں“
قرآن مجید نے یہ تعبیر اس وقت پیش کی ہے جب عربوں میں منہ بولابیٹا بنانے کا رواج تھا۔ وہ کسی دوسرے ماں باپ کے بچے کو اپنے بیٹے کے طور پر لے لیتے تھے اور وہ ایک حقیقی فرزند کے عنوان سے اس خاندان میں داخل ہوتاتھا، محرم ہوتاتھا اور وارث بن جاتاتھا۔
لیکن اسلام نے اس جاہلانہ رسم کو ختم کرتے ہوئے فرمایا:” لے پالک بچے ہرگز حقیقی فرزندوں کی طرح شرعی اور حقوقی قوانین مین شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے ایک ”زید“ بھی تھے جن کی پرورش آنحضرت (ع) نے فرمائی تھی، وہ بھی آپ کے فرزند کہے جا تے تھے۔ لہٰذا قرآن مجید فرماتاہے: بجائے اس کے کہ تم لوگ (صلی الله علیه واله والسلم) کو ان لوگوں مین سے کسی کے باپ کے عنوان سے پکارو آنحضرت کو دو اصلی اور حقیقی اوصاف یعنی”رسالت“ و ” خاتمیت“ کے عنوان سے پکارو۔
اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاخاتم الانبیاء ہو نا آپکی رسالت کے مانند سبوں کے لئے واضح،ثابت اور مسلّم تھا۔
صرف یہ سوال باقی ہے کہ”خاتم“کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟
”خاتم“”ختم“سے بنا ہے۔اس کا معنی ختم کر نے والا اور وہ چیز ہے جس کے ذریعہ کسی کام کو ختم کیا جائے ۔مثلاًہر خط کے اختتام پر لگائی جانے والی مہرکو ” ختم“ کہتے ہیں ۔انگوٹھی کو بھی اس لئے ”ختم“کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں انگوٹھی کا نگینہ کو مہر کی جگہ پر استعمال کیا جاتاتھا ،ہر ایک اپنے خط کے آخر پر اپنی انگوٹھی کے نگینہ سے مہر لگاتاتھا ،جس پر اس کا نام یاکوئی اور نقش کندہ ہوتاتھا ،ہر ایک کی انگوٹھی کا نقش اس شخص سے مخصوص ہوا کرتاتھا۔
اسلامی روایات میں مذکورہے:جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس زمانہ کے کسی بادشاہ یا حکمراںکو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خظ لکھنا چاہتے تھے ،تو آپ کی خد مت میں عرض کی گئی کہ عجم کے بادشاہ مہر کے بغیر خط کو قبول نہیں کرتے ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک بالکل سادہ اور مہر کے بغیر خط تحریر فر ماتے تھے ۔اس تجویز کے بعد آپ نے حکم فر مایا کہ آپ کے لئے ایک ایسی انگوٹھی بنائی جائے جس کے نگینہ پر کلمہ ”لا الہ الا الّلہ محمّٰد رسول اللّٰہ “نقش ہو ۔اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے تمام خطوط پر یہ مہر لگائی جاتی تھی۔
اس لئے ”خاتم“کا اصلی معنی ختم کر نے والا آخر تک پہنچانے والا ہے۔
۳۔بہت سی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جن سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہو نا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے ۔ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں:
الف:جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کی گئی ایک معتبر حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا :
”انبیاء کے در میان میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک خوبصورت عمارت تعمیر کی ہو ،لیکن اس عمارت میں ایک جگہ صرف ایک اینٹ لگانا باقی ہو ،جو بھی اس عمارت میں داخل ہو تا ہے ،اس خالی جگہ پر نظر ڈالتے ہی کہتا ہے:کتنی خوبصورت ہے یہ عمارت لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے ۔میں وہی آخری اینٹ ہوں اور نبوت کا سلسلہ مجھ پر ختم ہو گیا ہے۔“ (تفسیر مجمع البیان )
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں:
”حلال محمد حلال اٴبداًالیٰ یوم القیامة وحرامہ حرام اٴبداً الیٰ یوم القیامة۔“
”حلال محمدہمیشہ ہمیشہ قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد ہمیشہ ہمیشہ قیامت تک حرام ہے“ (اصول کافی ،ج۱،ص۵۸)
شیعہ اورسنّی راویوں سے نقل کی گئی ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فر مایا:
”انت منیّ بمنزلة ھارون من موسیٰ الاّ اٴنہ ّ لا نبیّ بعدی۔“
”آپ کی میرے ساتھ وہی نسبت ہے ،جو ہارون کی حضرت موسیٰ سے تھی ،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔“
اس قسم کی دسیوں احادیث موجود ہیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہو نے کے سلسلہ میں کچھ سوالات ایسے ہیں جن پر غور کر نا ضروری ہے :
پہلاسوال:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر انبیاء کی بعثت خدا کی طرف سے ایک بڑا فیض ہے،تو ہمارے زمانے کے لوگ کیوں اس عظیم فیض وبر کت سے محروم ہیں ؟اسی زمانہ کے لوگوں کی ہدایت و رہنما ئی کے لئے کیوں ایک نئے راہنما کو نہیں بھیجا جاتا؟
جواب:ایسا کہنے والے حقیقت میں ایک اہم نکتہ سے غافل ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں کسی نبی کے مبعوث نہ ہو نے کا سبب اس زمانہ کے لوگوں کا بے لیاقت اور نا اہل ہو نا نہیں ہے،بلکہ اس لئے ہے کہ قافلہ بشریت علم و فکر کے لحاظ سے ایک ایسی منزل تک پہنچ گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے استفادہ کر کے خود آگے بڑھ سکتا ہے۔
اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں پر ایک مثال پیش کرتے ہیں: اولو العزم نبی،یعنی صاحب شریعت اور صاحب کتاب نبی،پانچ ہیں:”حضرت نوح(ع)، حضرت ابراھیم(ع)،حضرت موسیٰ(ع)،حضرت عیسیٰ(ع)،اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ علیہم السلام“۔ان میں سے ہر ایک نے ایک خاص زمانے میں لوگوں کی ہدایت اور ان کے رشد و تکامل کے لئے انتھک کوششیں کی ہیں اور قافلہ بشریت کو ایک مرحلہ سے گزار کر دوسرے مرحلہ میں ایک دوسرے اولوالعزم پیغمبر کے حوالے کیا ہے۔یہاں تک کہ یہ قافلہ اپنی آخری منزل تک پہنچ کر اس قابل ہو گیا کہ خود اپنے راستے پر آگے بڑھ سکے ۔اس کی مثال اس طالب علم کی ہے جو اپنی تعلیم کے مختلف پانچ مراحل طے کر کے فارغ التحصیل ہو تا ہے:(البتہ فارغ التحصیل ہو نا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ اس سے مراد اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر سفر کو جاری رکھنا ہے)
تعلیم کے یہ پانچ مراحل حسب ذیل ہیں :
پرائمری ،مڈل،ہائرسیکنڈری، گریجویشن(بی اے اورایم اے) اور ڈاکٹریٹ۔
اگر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کیا ہواایک شخص سکول یا یونیورسٹی نہیں جاتا ہے،تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ اس قدر علم وآگاہی رکھتا ہے کہ جس کی مدد سے وہ اپنی علمی مشکلات کو حل کرسکتا ہے اور اپنے مطالعات کو جاری رکھتے ہوئے ترقی کے مراحل طے کر سکتا ہے۔
دوسراسوال:
چونکہ انسانی معاشرہ ہمیشہ تغیر وتبدّل کی حالت میں ہوتا ہے ،اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے مستقل،ثابت اور یکساں قوانین معاشرے کی ضروریات کا حل پیش کر سکیں؟
جواب:اسلام میں دو قسم کے قوانین ہیں :پہلی قسم ان قوانین پر مشتمل ہے جو انسان کی خاص صفات کے مانند مستقل اور ثابت ہیں ،جیسے:توحید پر اعتقاد،عدالت کے اصول کا نفاذ،اور ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے مقابلہ کرنا وغیرہ۔
ان قوانین کی دوسری قسم کلی اور جامع اصولوں کے ایک سلسلہ پر مشتمل ہے جو موضوعات میں تبدیلی پیدا ہونے سے نئی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ہر زمانے کی تغیر پذیر ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
مثلاًاسلام میں ”اوفو ابالعقود“ کے عنوان سے ایک کلی قاعدہ ہے۔(یعنی اپنے عہد و پیمان کی وفاداری کرتے ہوئے انھیں پورا کرو)
زمانہ کے گزر نے کے ساتھ یقینا نئے اور مفید تجارتی،سیاسی اور اجتماعی معاہدات و معاملات پیش آتے ہیں۔انسان مذکورہ کلی قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید مسائل کا جواب دے سکتا ہے۔
اسی طرح ایک دوسرا قائدہ بنام”قائدہ لاضرر“ ہے۔اس قائدہ کے مطابق جو بھی حکم اور قانون انسان یا معاشرہ کے لئے مضر ہو اسے محدود ہو نا چاہئے۔
آپ نے ملاحظہ فر مایا کہ اسلام کے یہ کلی قاعدے کس قدر مسائل کو حل کر نے میں کار ساز ہیں ۔اسلام میں اس قسم کے قاعدے کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ہم انہی کلی قواعد اور اصول سے استفادہ کر کے عظیم اسلامی انقلاب کے بعد (بلکہ ہمیشہ)پیچیدہ ترین مسائل اور مشکلات کو حل کرسکتے ہیں۔
تیسرا سوال:
بیشک ہمیں اسلامی معاشرے میں مختلف مسائل کے سلسلہ میں رہبر کی ضرورت ہے۔پیغمبر کی عدم موجودگی اور ان کے جانشین کی غیبت کے پیش نظر رہبری کا مسئلہ معطّل ہو کر رہ گیا ہے ،اور خاتمیت کے اصول کے پیش نظر کسی دوسرے نبی کے مبعوث ہو نے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے،کیا یہ امر اسلامی معاشرہ کے لئے نقصان دہ نہیں ہے؟
جواب:اس زمانہ کے لئے بھی اسلام میں ضروری راہ حل کو مدنظر رکھا گیا ہے،یعنی ”ولایت فقیہ“کے ذریعہ اسلامی معا شرے کی رہبری کی ذمہ داری جامع الشرائط اور اعلیٰ سطح پر علم وتقویٰ اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ایک فقیہ کے ذمہ رکھی گئی ہے۔ایسے رہبر کی پہچان کا طریقہ بھی اسلامی قوانین میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے ،لہذا اس سلسلہ میں بھی کسی قسم کی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔
اس بناپر ”ولایت فقیہ“سلسلہ انبیاء واوصیاء ہی کی ایک کڑی ہے۔”جامع الشرائط فقیہ کی رہبری “اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی معاشرہ سر پرست اور رہبر سے محروم نہیں ہے۔
(اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے مصنف کی فارسی کتاب”طرح حکومت اسلامی“کا مطالعہ فر مائیں)۔
________________________________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔خاتمیت کاصحیح مفہوم کیا ہے؟
۲۔قرآن مجید کی آیات سے خاتمیت کو کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے؟
۳۔ہمارے زمانہ کے لوگ انبیائے الہٰی کی بعثت سے کیوں محروم ہوں؟
۴۔اسلامی قوانین کی کتنی قسمیں ہیں یہ قوانین ہمارے زمانہ کے مسائل کو کیسے حل کر سکتے ہیں ؟
۵۔کیا اسلامی معاشرہ رہبر کے بغیر قائم رہ سکتا ہے ؟ہمارے زمانہ میں رہبری کا مسئلہ کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟
|