نو جوانوں
کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
 

نبوت کےدس سبق:

پہلا سبق:رہبران الہٰی کی ضرورت
ہمارے علم ودانش کی محدودیت
ممکن ہے بعض لوگ یہ سوچیں کہ کیا اصولی طور پر خدا کی طرف سے لوگوں کی راہنمائی کے لئے انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے؟
کیا ہماری عقل وشعور حقائق کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟کیا انسان کی علمی ترقی پوشیدہ اسرار کو کشف کر نے اور تمام حقائق کو واضح کر نے کے لئے کافی اور مددگار نہیں ہے؟
جو چیزیں ممکن ہیں انبیاء ہمارے لئے لے آئیں وہ دو حالتوں سے خارج نہیں ہیں :یاہماری عقل ان کو بخوبی درک کرتی ہے یا درک کر نے سے قاصر ہے۔
پہلی صورت میں ہم انبیاء کو تکلیف دینے کے محتاج نہیں ہیں ۔جبکہ دوسری صورت میں ہمیں عقل و خرد کے خلاف مطالب کو قبول کر نے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
دوسرے الفاظ میں :کیا یہ درست ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر کسی دوسرے کے اختیار میں دے دے اور اس کی بات کو کسی چون و چرا کے بغیر قبول کرے ؟کیا انبیاء ہمارے جیسے انسان نہیں ہیں ؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنے جیسے انسانوں کے اختیار میں دے دیں؟

جواب
چند نکات کی طرف توجہ کر نے سے ان تمام سوالات کے جواب اور انسان کی زندگی کے نظام میں انبیاء کا مرتبہ واضح ہو جائے گا۔
۱۔ہمیں جاننا چاہئے کہ ہمارا علم وشعور محدود ہے ۔بشر کو نصیب ہوئی تمام علمی ترقی کے باوجود آج جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ ہمارے نہ جاننے کے مقابلہ میں ایک سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ اور ایک پہاڑ کے مقابلہ ایک تنکے کے مانند ہے ۔یا بعض بڑے دانشوروں کے کہنے کے مطابق جو بھی علوم آج ہمارے اختیار میں ہیں وہ کائنات کی کتاب ہستی کے الف با کے برابر ہیں۔
دوسرے الفاظ میں:ہمارے فیصلہ اور عقلی ادراک کا دائرہ ایک چھوٹے سے علاقہ کے مانند ہے کہ علم ودانش کی شعاعوں نے اسے روشن کیا ہے اور ہم اس کے باہر کی دنیا سے بالکل بے خبر ہیں۔
انبیاء آتے ہیں اور اس وسیع علاقہ کو ہماری ہر ضرورت کی حد تک روشن کرتے ہیں۔حقیقت میں ہماری عقل ایک قوی اور تیز روشنی والے لیمپ کے مانند ہے،لیکن انبیاء اور آسمانی وحی کی مثال تمام عالم کو روشن کر نے والے سورج کے مانند ہے۔کیا ایک قوی اور تیز روشن لیمپ رکھنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں سورج کا محتاج نہیں ہوں ؟!
واضح تر عبارت میں:زندگی کے مسائل کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :”معقول“،”غیر معقول“ اور”مجہول“۔
انبیاء ہر گز نا معقول بات،یعنی عقل وخرد کے خلاف نہیں کہتے اور اگر ایسی بات کہیں تو وہ انبیاء نہیں ہیں ۔وہ مجہو لات کو سمجھنے اور درک کر نے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور یہ بات ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
لہذا وہ افراد جو زمانہ ماضی میں کہتے تھے کہ عقل وخرد کے ہوتے ہوئے ہم انبیاء کے محتاج نہیں ہیں ،(جیسے برہمن جو ہندوستان اور بعض دیگر علاقوں میں رہتے ہیں)یا وہ لوگ جوآج یہ کہتے ہیں کہ ان تمام علمی ترقیوں اور کا میابیوں کے بعد انسان انبیاء اور ان کی تعلیمات کا محتاج نہیں ہے ،تو وہ نہ انسان کے علم ودانش کی وسعت سے باخبر ہیں اور نہ انبیاء کی رسالت کا ادراک رکھتے ہیں ۔
ان لو گوں کی مثال اس بچے کی ہی ہے جوپہلی جماعت میں الف با پڑھنے کے بعد کہے کہ میں سب کچھ جا نتا ہوں اور مجھے معلم و استاد کی ضرورت نہیں ہے، کیا اس کی یہ بات بے بنیاد نہیں ہے؟
انبیاء صرف معلم ہی نہیں ہیں، ان کی رہبری کا مسئلہ ایک مستقل بحث کا حامل ہے کہ بعد میں ہم اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
۲۔کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنے ہی جیسے کسی شخص کے اختیار میں دے دے ۔اصل بات یہ ہے کہ انبیاء۔جیسا کہ ہم بعد میں ثابت کریں گے ۔وحی الہٰی یعنی خداوند متعال کے لا محدودعلم سے رابطہ رکھتے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ قطعی دلائل کے ساتھ خداوند متعال سے ان کے رابطہ کو پہچانیں ،صرف اسی صورت میں ہم انبیاء کی باتوں کونہ صرف قبول کریں گے بلکہ ان کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل بھی کریں گے ۔
اگر میں ایک ماہر اور ہمدرد طبیعت کے نسخہ پر عمل کروں تو کیا میں نے کو ئی برا کام کیا ہے؟

انبیاء ہمارے عظیم روحانی طبیب ہیں۔
اگر ہم نے اپنے معلم واستاد کے درس کو ،جو ہماری عقل و فکر کے مطابق ہے،کو قبول کریں تو کیا ہم نے غلط کام کیا ہے؟انبیاء بشریت کے سب سے بڑے معلم ہیں۔
بہتر یہ ہے کہ ہم خدا کی طرف سے انبیاء کی بعثت کی ضرورت کے دلائل پر مزید دقت کے ساتھ بحث کریں ۔
ہمارے پاس تین ایسی واضح اور محکم دلیلیں موجود ہیں ،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ ہم انبیاء کی راہنمائی کے محتاج ہیں:

۱۔تعلیم کے اعتبار سے احتیاج
اگر ہم نور کی ایک خیالی اور افسانوی سواری پر سوار ہو کر تین لاکھ کیلو میٹر (پچاس ہزار فرسخ)فی سیکنڈ کی رفتار سے اس لا محدود کائنات کی سیر کریں تو کسی شک وشبہہ کے بغیر ہمیں حضرت نوح(ع) کی عمر جیسی ہزاروں عمریں در کار ہوں گے تاکہ ہم اس وسیع و عریض کائنات کے صرف ایک گوشے کا نظارہ کرسکیں۔
یہ کائنات اپنی ان تمام حیرت انگیز وسعتوں کے ساتھ یقینا عبث اور فضول نہیں بنائی گئی ہے اور جیسا کہ ہمیں توحید کے اسباق میں معلوم ہوا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بھی فائدہ یا نفع خداوند متعال کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو ہر لحاظ سے کامل،بے نیاز ،لامحدوداورہر نقص وعیب سے پاک ہے۔اس نے اس کائنات کو اس لئے نہیں بنایا ہے کہ اپنے کسی نقص کو بر طرف کرے۔
اس لئے ہم یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں پر جو دو کرم کرے اور تمام موجودات کو تکا مل تک پہنچا دے ،جیسے سورج جو ہم زمین والوں پر چمکتا ہے حالانکہ وہ ہمارا محتاج نہیں ہے ۔سورج کی یہ روشنی صرف ہمارے فائدے کے لئے ہے ورنہ ہم سورج کے لئے کون سی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔
کیا ہمارے لئے رشد و تکامل کی راہ کو طے کرنے اور انسان کامل کے مرحلہ تک پہنچنے کے لئے صرف ہماری معلومات کافی ہیں؟
ہم اس کائنات کے اسرار ورموز میں سے کتنے اسرار کے بارے میں آگاہ ہیں؟ بنیادی طور پر ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟یہ کائنات کب سے وجود میں آئی ہے؟کوئی بھی شخص ان سوالات کے صحیح اور دقیق جوابات نہیں جانتا ۔یہ کائنات کب تک باقی رہے گی ؟اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔
اجتماعی اور اقتصادی زندگی کے لحاظ سے بھی ہر دانشور اپنا ایک خاص نظریہ رکھتا ہے۔
مثلاً ایک گروہ”سر مایہ داری“نظام کا قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ ”سوشلزم“اور ”کمیونزم“ کے نظریات کا حامی ہے اور تیسرا گروہ نہ پہلے کو قبول کر تا ہے اور نہ ہی دوسرے کو بلکہ دونوں گروہوں کے نظریات کو نقصان دہ جان کر مسترد کرتا ہے ۔
اسی طرح زندگی کے دیگر مسائل میں بھی دانشوروں کے نظریات میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔
انسان حیران وپریشان ہو جاتا ہے کہ ان نظریات میں سے کس نظریہ کو قبول کرے۔؟!
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ خلقت کے بنیادی اور حقیقی مقصد یعنی ”انسان کی تمام جہات میں پرورش ،بالید گی اور تکامل“کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایسی تعلیمات کی ضرورت ہے جو صحیح اور حقیقی ہوں اور ہر قسم کی خطاؤں سے پاک اور زندگی کے حقائق کے مطابق ہوں ،ایسی تعلیمات جو اس طویل راہ میں اصلی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے انسان کی مددگار ثابت ہوسکیں۔
اور یہ سب کچھ صرف علم خدا یعنی انبیاء کے ذریعہ حاصل ہو نے والی الہٰی وحی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔اسی وجہ سے جس خدانے ہمیں اس کو طے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ،ضروری ہے کہ وہ ایسا علم ودانش بھی ہمارے اختیار میں قرار دے ۔

۲۔اجتماعی اور اخلاقی مسائل میں رہبری کی احتیاج
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں” عقل وخرد “کے علاوہ ایک اور قوت بھی موجود ہے کہ جس کا نام ”غرائز اور خواہشات“ ہے :خود پسندی کا غریزہ ،خشم وغضب کا غریزہ ،شہوت کا غریزہ اور اس قسم کے بہت سے دیگر غرائز اور خواہشات۔
بیشک اگر ہم اپنے غرائز کو قابو میں نہ رکھیں تو وہ ہم پر مسلط ہو جائیں گے حتی ہماری عقل وخرد کو بھی اسیر بنالیں گے اور انسان تاریخ کے ظالموں اور جابروں کی طرح ایسے بھیڑیے کی شکل اختیار کرلے گا جو ہر اعتبار سے جنگل کے بھیڑیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔
ہم اخلاقی تربیت کے لئے ایک تربیت کرنے والے استادکے محتاج ہیں ،ہم ایک”نمونہ“اور ”اسوہ“کے محتاج ہیں تاکہ”محاکات“ کے اصول کے مطابق اس کی گفتار ورفتار پر عمل کرسکیں۔
یہ ضروری ہے کہ ہر لحاظ سے ایک کامل اور تربیت یافتہ انسان اس خطرناک اور نشیب و فراز سے پر راستے میں ہمارا ہاتھ پکڑ لے اور ہمیں غرائز وخواہشات کے طغیان سے بچائے ،اخلاقی فضائل کے اصولوں کو اپنے کردار وعمل سے ہمارے دل وجان میں نقش کردے اور ہماری روح میں شجاعت،شہامت ،انسان دوستی،مروت،عفو وبخشش، وفادری،سچائی ،امانت داری اور پاک دامنی کو پروان چڑھائے۔
معصوم انبیاء کے علاوہ کون ہمارا ایسا مربی اور راہنما بن سکتا ہے؟
اسی دلیل کے پیش نظر ممکن نہیں ہے کہ ہمارا مہر بان اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا خدا ہمیں ایسے راہنماؤں سے محروم رکھے۔(اس بحث کا باقی حصہ آئندہ سبق میں بیان ہو گا)
________________________________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱۔کیا آپ یہ احساس کرتے ہیں کہ آپ کا علم ودانش جس قدر بھی زیادہ ہو جائے آپ کی جہالت آپ کے علم کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے؟(مثال دیجئے)
۲۔کیا آپ اندھی تقلید اور انبیاء کی پیروی کے در میان فرق کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
۳۔اگر ہم کسی نا معلوم راستے پرراہنما کے بغیر چلیں تو ہمیں کن ممکنہ خطرے کا سامنا پڑ سکتا ہے؟
۴۔ہم انبیاء کی رہبری کے کس قدر اور کس لحاظ سے محتاج ہیں وضاحت کیجئے۔
۵۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس سبق میں کونسا مطلب باقی رہا ہے جو آئندہ سبق میں بیان کیا جائے؟
دوسرا سبق: قانون گزاری کے لئے انبیاء کی ضرورت
ہم گزشتہ درس میں”تعلیم“اور” تربیت“کے حوالے سے انبیاء کی ضرورت کے بارے میں جان چکے ہیں ۔اب اجتماعی قوانین اور اس سلسلہ میں انبیا کے اہم رول پر بحث کریںگے۔
ہم جانتے ہیں کہ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت جواس کی ترقی کا سبب بنی ہے اور اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں مشہود ہے،اس کی وہی پر تلاش اجتماعی زندگی ہے۔
یقینا اگر تمام انسان ایک دوسرے سے الگ تھلگ زندگی بسر کرتے تو تہذیب وتمدن اور فکری لحاظ سے آج وہ سب ”عصر حجر“کے انسان جیسے ہوتے!
جی ہاں!یہ انسان کی اجتماعی تلاش وکوشش ہی ہے،جس نے تہذیب و تمدن کا چراغ جلایا ہے ،یہی اجتماعی تلاش وکوشش ہے جو انسان کی تمام علمی ایجادات اور انکشافات کا سبب بنی ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم چاند تک پہنچنے کے سفر کے مسئلہ پر غورکریں،تو معلوم ہو گا کہ یہ کام صرف ایک یا چند دانشوروں اور سائنسدانوں کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے ،بلکہ ہزاروں برسوں کے دوران لا کھوں علماء اور دانشوروں کے اجتماعی مطالعات ،انکشافات اور تجربیات کا نتیجہ ہے کہ انسان اس عظمت تک پہنچا ہے ۔
اگر ہمارے زمانہ میں ایک ماہر سرجن ایک مردہ انسان کے قابل استفادہ دل کو نکال کر دوسرے قریب المرگ انسان کے سینہ میں پیوند لگاتا ہے اور اسے قطعی موت سے نجات دلاتا ہے،تو یہ پوری تاریخ کے ہزاروں طبیبوں اور جراحوں کے تجربوں کا نتیجہ ہے جو استادوں کے ذریعہ شاگردوں کو منتقل ہوتا رہا ہے۔
لیکن اس اجتماعی زندگی میں ان تمام فوائد کے باوجود کچھ مشکلات بھی ہیں ،اور ہ مشکلات انسانوں کے ایک دوسرے کے حقوق اور منافع کا آپس میں متصادم ہونا ہے جو کبھی حق تلفی اور جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
یہاں پر قوانین ،نظام اور قواعد وضوابط کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے ۔قوانین ہماری تین بڑی مشکلات کو حل کرسکتے ہیں :
۱۔قانون معاشرے کی نسبت ہر فرد کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو اور ہر فرد کی نسبت معاشرے کی ذمہ داریوں اور فرائض کو واضح کرتا ہے،اور قابلیتوں کو بالید گی اور کوششوں کو مربوط کر نے کا سبب بنتا ہے۔
۲۔قانون لوگوں کے فریضوں اور ذمہ داریوں کی انجام دہی پر ضروری نگرانی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
۳۔قانون لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کر نے سے روکتا ہے اور معاشرے کو ہرج و مرج اور مختلف افراداور گرہوں کے در میان تصادم سے بچاتاہے۔ ضرورت پڑنے پر زیادتی کر نے والوں کے لئے مناسب سزائیں معیّن کرتا ہے ۔

بہترین قانون ساز کون ہے؟
اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ انسان کی ضرورت کے مطابق قانون سازی میں مذکورہ تین اصولوں کے ساتھ بہترین قوانین مرتب و منظم کر نے والا کون ہو سکتا ہے؟ تاکہ معاشرے کے افراد اور خود معاشرہ کے اختیارات ،فرائض اور حقوق واضح اور معین ہو جائیںاور لوگوں کے اعمال پر مکمل نگرانی کے علاوہ ظلم و زیادتی کر نے والوں کو بھی روکا جاسکے۔
اس سلسلہ میں ہم یہاں پر ایک واضح مثال پیش کرتے ہیں :
انسانی معاشرہ کو ایک بڑی ٹرین اور حکمراں طبقہ کو اسے چلا نے اور حرکت میں لانے والے انجن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
قانون اس ریلوے لائن کی پٹری کے مانند ہے جواس ریل گاڑی کو منزل مقصود تک پہنچنے کے راستہ کو معین کرتی ہے۔
پہاڑوں اور درّوں کے مختلف پیچ وخم سے گزر نے والی ایک اچھی ریلوے لائن کے لئے درج ذیل خصوصیات کا ہو نا ضروری ہے:
۱۔جس زمین سے ٹرین کو گزر نا ہے ،اس میں اس کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کو برداشت کر نے کی طاقت ہونی چاہئے۔
۲۔ریل کی دوپٹریوں کے درمیان کا فاصلہ مکمل طور پر ٹرین کے پہیوں کے موافق اور ھماھنگ ہو ناچاہئے اور اسی طرح ٹنلوں کی دیواریں اور ان کی بلندی ٹرین کی بلندی کے مطابق ہو نی چاہئے۔
۳۔نشیب و فراز اتنے گہرے اور اونچے نہ ہوں کہ ٹرین کے بریکوں اور اس کے جاذبہ کی قوت کو برداشت نہ کرسکیں۔
۴۔اسی طرح ٹرین کے گزر نے کے راستہ پر پہاڑوں سے پتھروں کے گرنے،سیلاب اور برف کے تودوںکے گرنے کو مکمل طور پر مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ ٹرین صحیح وسالم ان رستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکے۔اسی طرح اور دوسرے خصوصیات بھی اس زمین میں پائے جانے چاہئیں۔
اس مثال کو بیان کر نے کے بعد ہم پھر انسانی معاشرہ کی بحث کی طرف لوٹتے ہیں۔
انسانوں کے لئے بہتریں قانون بنانے والے قانون ساز کو مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہو نا چاہئے:
۱۔نوع انسان کو مکمل طور پر پہچانتا ہو اور ان کے تمام غرائز ،خواہشات،جذبات،ضروریات اور مشکلات سے آگاہ ہو۔
۲۔انسانوں میں پائی جانے والی تمام صلاحیتوں اورتوانائیوں کو مد نظر رکھے اور ان کو اجاگر کر نے کے لئے قوانین سے استفادہ کرے۔
۳۔معاشرے کو ممکنہ طور پر پیش آنے والے ہر قسم کے حوادث اور ان کے رد عمل کے بارے میں قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔
۴۔معاشرہ سے اس کے کسی بھی قسم کے منافع مربوط نہ ہوں تاکہ قوا نین وضع کرتے وقت اس کی فکر خود اپنے شخصی یا اپنے رشتہ داروں یا اپنی جماعت کے منافع کی طرف متوجہ نہ رہے۔
۵۔ضروری ہے کہ یہ قانون بنانے والا مستقبل میں انسان کو حاصل ہو نے والی ہر قسم کی ترقی یا تنزل سے مکمل طور پر آگاہ ہو۔
۶۔یہ قانون ساز ہر قسم کی خطا،غلطی اور فراموشی سے محفوظ ہو ناچاہئے۔
۷۔یہ قانون ساز ایسی طاقت کا مالک ہو ناچاہئے کہ معاشرے کے کسی فرد کی طاقت کے مقابلہ میں مرعوب نہ ہو جائے اور کسی سے نہ ڈرے اور اس کے ساتھ ہی نہایت مہر بان اور ہمدرد ہو نا چاہئے۔
یہ شرائط کس میں جمع ہیں؟

کیا انسان بہترین قانون ساز ہو سکتا ہے ؟
کیا آج تک کسی نے مکمل طورپر انسان کو پہچانا ہے؟جبکہ عصر حاضر کے ایک بڑے دانشور نے انسان کے بارے میں ایک مفصل کتاب لکھی ہے اور اس کا نام”انسان، موجود ناشناختہ “(انسان ایک نا شناختہ مخلوق)رکھا ہے ۔
کیا انسان کی ذہنیت ،میلانات ،غرائز اور جذبات کو مکمل طور پر پہچان لیا گیا ہے؟
کیا انسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کو خداوند متعال کے علاوہ کوئی اورشخص جانتا ہے؟
کیا عام انسانوں میں کوئی ایسا شخص پایا جاسکتا ہے جو معاشرے میں خاص ذاتی منافع نہ رکھتا ہو؟
کیا آپ عام انسانوں کے در میان کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو سہو وخطا سے محفوظ ہو اور معاشرے کے تمام افراد کو در پیش مسائل سے آگاہ ہو؟
لہذا خداوند متعال کی ذات اور خدا سے وحی حاصل کر نے والی ہستی (معصوم) کے علاوہ کوئی بھی شخص مکمل اور بہترین قانون سازنہیں ہو سکتا ہے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں: جس خدا وند متعال نے انسان کو کمال کے مراحل طے کر نے کے لئے پیدا کیا ہے ،اسے چاہئے کہ اس کی ہدایت کے لئے ایسے افراد کو مامور فر مائے جو تمام الہٰی قوانین کو انسان کے اختیار میں دے دیں۔
یقیناجب لوگ جان لیں گے کہ فلاں قانون ،خدا کا قانون ہے تو وہ اسے زیادہ اعتماد اور اطمینان سے قبول کر کے اس پر عمل کریں گے اور دوسرے الفاظ میں یہ آگاہی ان قوانین کے بہترین نفاذ کی ضمانت فراہم کرے گی۔

توحید و نبوت کے در میان رابطہ
ہم یہاں پر اس مطلب پر تو جہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں کہ نظام خلقت بذات خود انبیائے الہٰی اور ان کی رسالت کے وجود پر ایک زندہ گوا ہے ۔
اس مطلب کی وضاحت یہ ہے :اگر ہم کائنات کے حیرت انگیز نظام پر ایک تحقیقی نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ خدا وند متعال نے اپنی مخلوقات کی کسی بھی ضرورت کو اپنے لطف و کرم سے محروم نہیں رکھا ہے ۔مثلاًاگر اس نے ہمیں دیکھنے کے لئے آنکھیں عطا کی ہیں تو ان کی حفاظت اورروشنی کو مناسب طور پر تنظیم کر نے کے لئے پلکیں اور بھنویں بھی عطا کی ہیں ۔
آنکھوں کے گوشوں میں آنسوؤں کے غدود خلق کئے ہیں تا کہ آنکھوں کو مرطوب رکھیں ،کیونکہ آنکھوں کا خشک ہو نا ان کی نابودی کا سبب بن سکتا ہے۔
آنکھ کے گوشوں میں باریک سوراخ بنائے ہیں تا کہ آنکھوں کا اضافی پانی ان سوراخوں کے ذریعہ ناک میں داخل ہو جائے ۔اگر یہ باریک سوراخ نہ ہو تے تو آنسوؤں کے قطرے مسلسل ہمارے چہرے پر بہتے رہتے!
آنکھ کی پُتلی کو اس قدر حساس بنایا ہے کہ وہ خود بخود تیز یا کم روشنی کے مقابلہ میں تنگ یا گشادہ ہو جاتی ہے ،تا کہ ضرورت کے مطابق آنکھ میں روشنی داخل ہو جائے اور آنکھ کو کسی قسم کا صدمہ نہ پہنچے ۔
آنکھ کے حلقہ کے اطراف میں ایسے مختلف پٹھے بنائے ہیں تا کہ سر اور بدن کو ہلائے بغیر آنکھ کو آسانی کے ساتھ ہر طرف گھما کر مختلف مناظر کو دیکھا جا سکے ۔
وہ خدا جو انسان کی مختلف ضروریات کا اس قدر خیال رکھتا ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اسے ایک معصوم اور قابل اعتماد رہنما اور رہبر سے محروم رکھے جو وحی الہٰی کے ذریعہ راہنمائی کرتا ہو؟!
مشہور و معروف فلاسفر بو علی سینا اپنے کتاب ”شفا“میں یوں لکھتا ہے:
”انسان کے لئے اپنی بقا کے تحفظ اور کمال حاصل کر نے کی ضرورت کے پیش نظر انبیاء کا مبعوث ہو نا یقینا پلکوں اور بھنوؤں کے بال اُگنے اور پاؤں کے تلوؤں میں خمیدگی جیسی چیزوں سے زیادہ ضروری ہے۔ممکن نہیں ہے کہ خداوند متعال اپنی ازلی عنایت کے تقاضے کی بناپر مذکورہ ضروری چیزوں کو پیدا کرے لیکن ان سے زیادہ ضروری چیز کو پیدا نہ کرے؟“
________________________________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱۔انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟
۲۔انسان قانون کے بغیر زندگی کیوں نہیں گزار سکتا ہے؟
۳۔انسانی زندگی میں قانون کی اہمیت کو واضح کر نے کے لئے ایک زندہ مثال بیان کیجئے۔
۴۔ایک بہترین قانون ساز کے لئے کن صفات کا ہو نا ضروری ہے؟
۵۔انبیاء کا خود انسانوں میں سے ہو نا کیوں ضروری ہے؟
تیسرا سبق: انبیاء کیوں معصوم ہیں ؟
گناہ و خطا سے پاک ہو نا
بلا شک وشبہہ ہر نبی کے لئے ہرچیز سے پہلے تمام لوگوں کا اعتماد حاصل کر نا ضروری ہے تاکہ لوگ اس کی بات کے بارے میں جھوٹ اور غلطی کا احتمال تک نہ دیں ورنہ اس کی رہبری کا منصب متزلزل ہو جا ئے گا۔
اگر انبیاء معصوم نہ ہوں تو بہانہ تراشی کر نے والے اس وجہ سے کہ انبیاء غلطی کرتے ہیں اور حقیقت پسند لو گ ان کی دعوت کی باتوں میں غیریقینی حالت کی وجہ سے ا ن کی دعوت کو قبول کر نے سے اجتناب کریں گے یا کم از کم اعتماد واطمینان کے ساتھ ان کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔
اس دلیل کو ہم”اعتماد کی دلیل“کہہ سکتے ہیں اور یہ عصمت انبیاء کے دلائل میں سے ایک اہم دلیل ہے۔
دوسرے الفاظ میں: یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند متعال ایک انسان کی بلا قید و شرط اطاعت کر نے کا حکم دیدے جبکہ ممکن ہے وہ انسان خطا یا گناہ کا مرتکب ہو جائے؟ کیا اس حالت میں لوگ اس کی اطاعت کر سکتے ہیں ؟اگر وہ اطاعت کریں تو ان کی اطاعت خطا و گناہ کی پیروی ہو گی اور اگر اطاعت نہ کریں تو اس کی رہبری کا منصب متزلزل ہو گا،خاص کر جبکہ انبیاء کی رہبری دوسروں کی رہبری سے مکمل طور پر متفاوت ہے ،کیونکہ لوگ اپنے تمام اعتقادات اور زندگی کے اصول و قوانین میں ان ہی انبیاء سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب عظیم مفسرین قرآن مجید کی آیہ شریفہ:
”اطیعوا اللّہ واطیعواالرسول واولی الامر منکم “
(سورہ نساء/۵۹)
”اللہ کی اطاعت کرو اور رسول وصاحبان امر کی اطاعت کرو۔“
پر پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں:کس قید وشرط کے بغیر اطاعت کر نے کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ نہ صرف انبیاء معصوم ہیں بلکہ”اولی الامر“بھی معصوم ہیں۔اولوالامر سے مقصود وہ ائمہ ہیں جوپیغمبرکی طرح معصوم ہیں وگر نہ خداوند متعا ل بے قید وشرط ان کی اطاعت کر نے کا حکم نہیں دیتا ۔
ایک دوسرا طریقہ،جس سے انبیاء کے ہر گناہ کے مقابلہ میں معصوم ہو نے کو ثابت کیا جاسکتا ہے،یہ ہے کہ”انبیاء کے وجود میں گناہ کے عوامل واسباب کا میاب نہیں ہو تے ہیں۔“
اس کی وضا حت یوں کی جاسکتی ہے کہ جب ہم اپنے اندر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہم بھی بعض گناہوں یا برے کاموں کے مقابلہ میں تقریباًمعصوم ہیں۔
درج ذیل مثالوں پر غور فر مائیے:
کیا آپ کسی ایسے عاقل انسان کو پیدا کر سکتے ہیں جوآگ کو کھالے؟یاکوڑا کرکٹ اور کسی گندی چیز کو نگل لے؟
کیا آپ کسی باشعور کو بالکل برہنہ ہو کر گلیوں اور بازاروں میں گھومتے ہو ئے پیدا کر سکتے ہیں؟
یقینا کسی با شعورانسان کو ایسا کام کر تے ہوئے پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اگر ہم کسی شخص کو ایسا کرتے دیکھیں تو یقین پیدا کریں گے کہ اس کا دماغ ٹھیک نہیں ہے اور وہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے ورنہ عام طور پر محال ہے کہ کوئی عاقل شخص اس قسم کا کوئی کام انجام دے۔
جب ہم اس قسم کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے اعمال کی برائی ہمارے لئے اس قدر واضح ہے کہ کوئی بھی عاقل انسان ان کاموں کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔
یہاں پر ہم ایک مختصر جملہ میں اس حقیقت کو مجسم کر کے بتا سکتے ہیں کہ ہر عاقل اور صحیح وسالم شخص بعض بُرے اور ناشائستہ کا موں کی نسبت ”محفوظ“یادوسرے الفاظ میں ایک طرح ”معصوم “ہو تا ہے۔
اس مرحلہ سے آگے بھی ہم بعض ایسے اشخاص کو پاتے ہیں جو کئی دوسرے برے کاموں کے مقابلہ میں بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں جبکہ عام لوگوں سے ایسا ممکن نہیں ہے۔
مثال کے طور پر ایک آگاہ اور ماہر طبیب جو جراثیم کے مختلف انواع و اقسام کو بخوبی جانتا ہے ،ہر گز ایسے آلودہ پانی کو نہیں پیتا جس میں خطرناک متعدی بیماریوں میں مبتلا بیماروں کے کپڑے دھوئے گئے ہوں،جبکہ ممکن ہے ایک ان پڑھ اور ناآگاہ شخص اس قسم کی چیز کو اہمیت نہ دے۔
بہر حال ہم ایک سادہ تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ایک موضوع کے بارے میں جس قدر انسان کی آگاہی زیادہ ہو وہ برے کاموں سے زیادہ محفوظ رہ سکتا ہے۔
اس حساب سے اگر کسی کے”ایمان“اور ”علم وآگاہی“کی سطح اس قدر بلند ہو جائے کہ وہ خداوند متعال اور اس کی عدالت کے بارے میں ایسا اعتقاد ویقین پیدا کرے کہ گویا انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے حاضر وناظر مشاہدہ کر رہا ہے ،تو ایسا انسان تمام گناہوں کے مقابلہ میں محفوظ رہے گا اور اس کے سامنے ہر برا کام ویسا ہی ہو گا ،جیسا ہماری نظروں میں کوچہ و بازار میں مادر زاد ننگا گھومنا ہے۔
اس کے لئے حرام مال بالکل آگ کے شعلہ کے مانند ہو گا ،جس طرح ہم آگ کو اپنے منہ میں نہیں ڈالتے ،وہ بھی حرام مال کو اپنے منہ کی طرف نہیں لے جاتا ہے۔
اس گفتگو سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ انبیاء اپنے غیر معمولی علم وآگاہی کے پیش نظرگناہ کے عوامل پرکنٹرول رکھتے ہیں اور گناہ کے ہیجان انگیز ترین عوامل بھی ان کی عقل وایمان پر حاوی نہیں ہو سکتے،اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ انبیاء معصوم ہیں اور ہر قسم کے گناہوں سے پاک ومنزّ ہیں۔
عصمت کا مرتبہ کیسے فضیلت کا سبب بن سکتا ہے؟
بعض افراد جو عصمت کے مفہوم اور گناہوں سے بچنے کے عوامل کے بارے میں
آگاہی نہیں رکھتے ،اعتراض کرتے ہیں کہ اگر خداوند متعال کسی کو گناہ سے بچائے اور گناہ کے عوامل کو اس میں ختم کردے تو یہ اس کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہو سکتی ہے !کیونکہ یہ ایک جبری عصمت ہے اور جبری عصمت فضیلت شمار نہیں ہوتی
لیکن ہماری مندرجہ بالا وضا حت کے پیش نظر اس اعتراض کا جواب مکمل طور پر واضح ہو گیا ہے :
انبیاء کی عصمت میں کسی بھی قسم کا اجباری پہلو نہیں ہے بلکہ ان میں موجود قوی ایمان ،محکم اور غیر معمولی علم وآگاہی ان کے لئے عصمت کی ایک عظیم فضیلت حاصل ہو نے کا سبب بنتے ہیں ۔
اگر ایک آگاہ و ماہر طبیب بیماری پھیلانے والے عوامل کے مقابلہ میں شدید پرہیزکا مظاہرہ کرے تو کیا یہ اس کی مجبوری شمار کی جائے گی ؟!
اگر ایسا شخص حفظان صحت کے اصولوں کی پوری طرح رعایت کرے تو کیا یہ کام اس کی ایک فضیلت شمار نہیں ہوگی؟
اگر ایک قانون دان کسی خطرناک جرم کے عدالت میں ہولناک نتائج کے پیش نظر اس سے سخت پرہیز کرتا ہے تو کیا یہ اس کی فضیلت شمار نہیں ہوگی ؟
پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انبیاء کے معصوم ہو نے میں نہ صرف اختیاری پہلو ہے بلکہ یہ ان کے لئے ایک بڑی فضیلت بھی ہے۔
________________________________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱۔معصوم ہونے کی کتنی قسمیں ہیں؟
۲۔اگر انبیاء معصوم نہ ہوتے تو کیا ہو تا؟
۳۔مرتبہ”عصمت“کی حقیقت کیا ہے؟
۴۔سبق میں بیان شدہ مثالوں کے علاوہ چند اور مثالیں بیان کیجئے جن کی نسبت تمام لوگ یا کچھ لوگ معصوم ہوں۔
۵۔انبیاء کی عصمت اجباری ہے یا اختیاری ؟دلیل بیان کیجئے۔
چوتھا سبق: پیغمبر شناسی کا بہترین طریقہ
بلا شک وشبہہ ہر مدعی کے دعوی ٰکو قبول کر نا عقل و منطق کے خلاف ہے۔
ممکن ہے خدا کی طرف سے پیغمبری اوررسالت کادعویٰ کر نے والا شخص سچا ہو،لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایک موقع پرست اور دھوکہ باز شخص سچے انبیاء کے بجائے جھوٹا دعویٰ کرے۔اس لئے ضروری ہے کہ انبیاء کی دعوت اور ان کے خدا سے رابطہ کی حقیقت کو ثابت کر نے کے لئے ،ہمارے پاس ایک قطعی اور یقینی کسوٹی موجود ہو۔
اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ہمارے پاس مختلف راستے موجود ہیں ،جن میں سب سے اہم مندرجہ ذیل دو راستے ہیں:
۱۔پیغمبر کی دعوت کے مطالب کے بارے میں پوری دقت سے تحقیق اور اس کے بارے میں قرائن و علامات کو اکھٹا کر نا۔
۲۔معجزہ اور خارق العادہ کام۔
ہم پہلے معجزہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں:
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لفظ ”معجزہ“سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں یا معجزوں کو افسانوں اور کہانیوں کے مثل جانتے ہیں ،حالانکہ اگر ہم معجزہ کے معنی ومفہوم پر سنجیدگی کے ساتھ اور علمی پہلو سے غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس قسم کے تصورات بالکل غلط ہیں۔
حقیقت میں معجزہ ایک ناممکن کام اور بے علت معلول نہیں ہے ،بلکہ سادہ الفاظ میں معجزہ ایک خارق عادت کام کو کہتے ہیں جس کو انجام دینا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہو تی اور یہ صرف ایک غیر معمولی طاقت کے ذریعہ ہی انجام پاسکتا ہے۔
اس لئے معجزہ کے درج ذیل شرائط ہیں:
۱۔یہ ایک ممکن اور قابل قبول کام ہے۔
۲۔عام لوگ،حتی غیر معمولی ذہن رکھنے والے افراد بھی انسانی قدرت کے ذریعہ معجزہ کو انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔
۳۔معجزہ پیش کر نے والے شخص کو اپنے کام پر اتنا یقین اور اطمینان ہو نا چاہئے کہ دوسروں کو اس کے مقابلہ کی دعوت کرے۔
۴۔کوئی بھی شخص معجزہ کے مانند کام انجام نہیں دے سکتا ہے ،جیسا کہ معجزہ کے نام ہی سے معلوم ہے کہ اس کے مقابلہ میں لوگ عاجز ہوں۔
۵۔معجزہ کا نبوت یا امامت کے دعویٰ کے ساتھ ہو نا ضروری ہے (اس لئے پیغمبر اور امام کے علاوہ دوسروں سے انجام پانے والے خارق عادت کام معجزہ نہیں کہلاتے بلکہ انھیں کرامت کہا جاتا ہے)۔
چند واضح نمو نے:
ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ مردوں کو زندہ کر نا اور لاعلاج مریضوں کو صحت یاب کر نا تھا۔
کیا ہمارے پاس کوئی ایسی دیل موجود ہے جس سے یہ ثابت کریں کہ انسان کے بدن کا نظام فیل ہو کر مرنے کے بعد پھر سے وہ زندہ نہیں ہو سکتا ہے؟!
کیا ہمارے پاس کوئی ایسی عقلی وعلمی دلیل موجود ہے جس سے ہم ثابت کریں کہ کینسر کی بیماری،جس کے علاج سے ہم عاجز ہیں ،کا کوئی علاج نہیں ہے۔
لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسان موجودہ قدرت اور حالات میں مردوں کو زندہ کر نے یا بعض بیماریوں کا علاج کر نے کی طاقت نہیں رکھتا ہے ،چاہے دنیا کے تمام ڈاکٹر مل کر اپنے تجربات اور علم سے مدد کیوں نہ لیں۔
لیکن اس میں کیا مشکل ہے کہ ایک انسان خدا کی قدرت اور اس کے لامحدود علم کے سمندر سے آگاہی حاصل کر کے ایک پر اسرار اشارہ کے ذریعہ ایک مردہ میں پھر سے روح کو لوٹا دے یا ایک لا علاج مریض کو شفا بخش دے!
علم صرف یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا ہوں اور مجھ میں یہ کام انجام دینے کی طاق نہیں ہے ،لیکن کبھی یہ نہیں کہتا ہے کہ فلاں کام انجام دینا ناممکن اور غیر معقو ل ہے۔
ایک دوسری مثال:
خلائی جہاز کے بغیر چاند کا سفر کر نا کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ،لیکن اس میں کیا حرج ہے کہ ہماری قدرت سے برتر کوئی طاقت انسان کی ایجاد کی گئی سواری سے بالاتر ایک پر اسرار سواری کو ایجاد کر کے کسی کے اختیار میں قرار دیدے اور وہ خلائی جہاز سے مدد لئے بغیر چاند یا اس سے دورتر سیاروں کا سفر کر دے۔!
اگر کوئی شخص حقیقتاًاس قسم کا کوئی خارق عادت کام انجام دے اور اس کے ساتھ ہی نبوت کا دعویٰ بھی کرے اور لوگوں کو مقابلہ کی دعوت بھی دے اور عام لوگ اس کے مقا بلہ میں عاجز ہو جائیں تو یقین کریں گے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ۔

معجزات کو توہمات اور خرا فات سے نہیں ملا نا چاہئے
”افراط“ و”تفریط“ہمیشہ برائی اور تباہی ایجاد کر نے اور حقیقت کے چہرہ کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔
معجزہ کے بارے میں بھی یہی امر صادق آتا ہے ۔جبکہ بعض تجدّد پسندی کے نام نہاد دعوے دار کھل کر یا اشاروں میں ہر قسم کے معجزہ سے انکار کر تے ہیں اس کے مقا بلہ میں کچھ لوگ زیادہ سے زیادہ معجزے گھڑتے ہیں اور مرموز دشمنوں کے توسط سے جعل کی گئی ضعیف روایتوں اور توہمات پر مشتمل افسانوں کو معجزات کے ساتھ ملا دیتے ہیں ۔اس طرح انبیاء کے حقیقی معجزوں کے علمی چہرے پر افسانوں اور خرافات کے پردے ڈال دیتے ہیں۔
جب تک حقیقی معجزات اس قسم کے جعلی افسانوں سے پاک و منزّہ نہ ہو جائیں، ان کا اصلی چہرہ آشکار نہیں ہو گا۔
اسی لئے ہمارے عظیم علماء اور فقہا ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ معجزات وغیرہ کے سلسلے میںاسلامی احادیث اس قسم کے افسانوں سے آلودہ نہ ہو جائیں۔
اسی لئے ”علم رجال“کو وجود میں لایاگیا تاکہ احادیث کے راویوں کو اچھی طرح پر کھا جائے اور”صحیح“اور”ضعیف“احادیث کے در میان فرق معلوم کیا جائے اور توہمات پر مشتمل مطالب حقائق سے ملنے نہ پائیں۔
آج سامراجی اورالحادی قوتیں بیکار نہیں بیٹھی ہیںبلکہ وہ بے بنیاد باتوںکو پاک ومنزہ دینی عقائد سے مخلوط کر دینے کی کوشش کر تی ہیں تاکہ اس طرح سے لوگوں کو حقیقی علم سے دور کر دیں۔لہذا ضروری ہے کہ ہم دشمنوں کی ان تخریبی سازشوں کے بارے میں پوری طرح باخبر رہیں اور ان کو ناکام بنادیں۔

معجزہ کا دوسری خارق عادت چیزوں سے فرق
غالبا ً آپ نے سنا ہو گا کہ کچھ جوگی بعض اوقات خارق عادت کام انجام دیتے ہیں ،ایسے عجیب وغریب کام کا مشاہدہ کر نے والے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے ،یہ ایک حقیقت ہے نہ افسانہ۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ ان خارق عادت کاموں اور انبیاء کے معجزات کے در میان کیا فرق ہے؟ہمارے پاس کونسی کسوٹی ہے جس پر کے ذریعہ ہم ان دوچیزوں کے در میا ن فرق معلوم کر سکیں؟
اس سوال کے کئی جواب ہیں ،ان میں سے واضح تر درج ذیل دو جواب ہیں:
۱۔جوگی ہمیشہ محدود کام انجام دیتے ہیں اور دوسرے الفاظ میں کو ئی بھی جوگی آمادہ نہیں ہو گا کہ آپ کی خواہشی کے مطابق کسی خارق عادت کام کو انجام دے بلکہ وہ ایسا خارق عادت کام انجام دیتا ہے جسے وہ خود چاہتا ہے یعنی اسی کام کو انجام دیتا ہے جس کی اس نے مشق کر کے اچھی طرح سے سیکھا ہے اور اس پر مسلط ہو گیا ہے ۔اس بات کی وجہ واضح ہے ،کیونکہ ہر انسان کی قدرت محدود ہے ،وہ صرف چند ایک کاموں میں مہارت حاصل کر سکتا ہے ۔
اس کے مقابلہ میں انبیاء کے خارق عادت کام کی کوئی محدو دیت نہیں ہے،ان کے لئے کسی قسم کی قید وشرط نہیں ہے ۔وہ ضرورت کے وقت ہر قسم کے مطالبہ شدہ معجزہ کو انجام دے سکتے ہیں ،کیونکہ وہ خدا کی لا محدود قدرت سے مدد لیتے ہیں اور معلوم ہے کہ خدا کی قدرت کی کوئی حد نہیں ہے،جبکہ انسان کی قدرت نہایت محدود ہے۔
۲۔جس کام کو ایک جوگی انجام دیدے ،دوسرا جوگی بھی ویسا ہی کام انجام دے سکتا ہے یعنی وہ کام بشر کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔
اسی لئے خارق عادت کام انجام دینے والا جو گی ہر گز دوسروں کو مقابلہ کی دعوت نہیں دیتا اور دوسرے الفاظ میں وہ چیلنج نہیں کر تا ہے ،کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے اس کے شہر یا دوسرے شہر وں میں اس کے جیسے افراد موجود ہیں جو ایسا کام انجام دے سکتے ہیں۔
لیکن اس کے بر عکس انبیاء مکمل اطمینان کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ”اگر دنیا کے تمام لوگ بھی جمع ہو جائیں تب بھی ہمارے انجام دئے گئے کام کے مانند کام کو انجام نہیں دے سکتے ہیں۔“
سحر و جادو کے بارے میں بھی یہ فرق صادق ہو تا ہے۔مذکورہ فرقوں سے سحر اور معجزہ کے حدود بھی مکمل طور پر معلوم ہو جاتے ہیں ۔(غور کیجئے)
________________________________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱۔”معجزہ“کو معجزہ کیوں کہتے ہیں؟
۲۔کیا معجزہ”قانون علّیت“سے مستثنیٰ ہے؟
۳۔کن طریقوں سے ہم معجزہ کو جوگیوں اور جادوگروں کے کام سے الگ کر سکتے ہیں؟
۴۔معجزہ کی اصلی شرائط کیا ہیں؟
۵۔کیا آپ نے اپنی زندگی میں معجزہ جیسی کو ئی چیز دیکھی ہے؟
پانچواں سبق : پیغمبر اسلام( صلی الله علیه واله والسلم ) کاسب سے بڑا معجزہ
لافانی معجزہ
تمام علمائے اسلام کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ قرآن مجید،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے ۔یہ جو ہم کہتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا معجزہ ہے ،یہ اس لئے ہے کہ :
۱۔قرآن مجیدایک عقلی معجزہ ہے ،جس کا لوگوں کی روح اور فکر سے سر وکار ہے۔
۲۔یہ ایک ابدی،لا فانی اور ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔
۳۔یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو گزشتہ چودہ صدیوں سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے :”اگر تم لوگ یہ کہتے ہو کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئی ہے تو اس کے مانند کوئی اور کتاب پیش کرو۔“
قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کھل کر چلینج کی صورت میں اس قسم کے مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے :
ایک جگہ پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
<قل لئن اجتمعت الا نس والجن علی ان یاٴتوا بمثل ھٰذا القرآن لا یاٴ تون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیراً>(سورہ اسرار/۸۸)
” آپ کہدیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لا سکتے،چاہے سب ایک دوسرے کے مدد گار اور پشت پنا ہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔“
دوسری جگہ پر اس چیلنج کی شرط کو آسان تر کرتے ہوئے فر ماتا ہے :
<ام یقولون افترٰیہ قل فاٴتوا بعشر سور مثلہ مفتریٰت وادعوا من استطعتم من دون اللّٰہ ان کنتم صٰدقین> (سور ہ ہود /۱۳)
”کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہدیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آو۔اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم اپنی بات میں سچےّ ہو۔“
اس کے بعد خاص طور پر مزید فر ماتا ہے کہ اگراس دعوت کو ان لوگوں نے قبول نہیں ،تو جان لینا کہ یہ آیات خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔“ ( سورہ ہود/۱۴)
ایک بار اور مقابلہ کی شرائط کو کم سے کم کرتے ہوئے فر ماتا ہے:
<وإن کنتم فی ریب ممّا نزّلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھدا ئکم من دون اللّٰہ إن کنتم صٰدقین>(سورہ بقرہ/۲۳)
”اگرتمھیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آو ۔اور اللہ کے علاوہ جتنے تمھارے مدد گار ہیں سب کو بلا لو اگر تم اپنے دعوت اور خیال میں سچےّ ہو۔“
اس کے بعد والی آیت میں واضح طور سے فر ماتا ہے:
<فإن لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتّقوا النّار الّتی وقودھا النّاس والحجارةُ اُعدّت للکٰفرین>( سورہ بقرة/۲۴)
”اور اگر تم(کفار) ایسا نہ کر سکے اور یقینانہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافرین کے لئے مہیا کیاگا ہے۔“
قرآن مجید کے منکرین کوپے در پے اس قسم کی دعوت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے معجزہ ہو نے پر زیادہ بھروسہ فر ماتے تھے۔ اگر چہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور بھی متعدد معجزات نقل ہوئے ہیں ،جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔
چونکہ قرآن مجید ایک زندہ معجزہ ہے اور ہم سب کی اس تک آسانی کے ساتھ رسائی ہے ،اس لئے ہم معجزات کی بحث میں زیادہ تراسی پر تکیہ کرتے ہیں۔

اس چیلینج کے مقابلہ میں مخالفین کا عجز
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ قرآن مجید نے مقابلہ کی دعوت کے سلسلہ میںمخالفین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا ہے،اور مختلف بھڑ کانے والی عبارتوں سے ان کو دعوت دی ہے تا کہ کسی کے لئے کوئی بہانہ اور عذر باقی نہ رہے۔جیسے:
”اگر سچ کہتے ہو”ہر گز نہیں کرسکتے “،”تمام لوگوں سے مدد لے لوکم ازکم اس جیسا ایک سورہ لے آؤ۔“اور ”اگر کافر ہوگئے تو جلا دینے والی آگ تمھارے انتظار میں ہے۔“یہ تعبیریں اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں۔
یہ سب ایک طرف،دوسری طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے مخالفین سے کوئی آسان مقابلہ نہیں تھا ،کیونکہ اسلام نے نہ صرف ان کے مذہب کو خطرہ میں ڈال دیاتھا،جس پر وہ سختی سے پابند تھے بلکہ ان کے اقتصادی اور سیاسی منافع حتی ان کے وجود کو بھی خطرہ میں ڈال دیا تھا۔
دوسرے الفاظ میں اسلام کی ترقی اور نفوذ نے ان کی پوری زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا تھا۔لہذا وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کے لئے میدان میں آنے پر مجبور تھے۔
انھیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہتّھا کر نے کے لئے ہر قیمت پر قرآن مجید کی جیسی چند آیتوں کو لانا چاہئے تھا تا کہ اس کے بعد قرآن ان کو چیلینج دے کرانھیں عاجز اور ناتوان نہ کر سکتا اور اپنی حقانیت کی سند پیش نہ کر سکتا۔
انہوںنے اپنے زمانہ کے فصاحت و بلاغت میں کمال رکھنے والے تمام عربوں سے مدد طلب کی ،لیکن جب بھی قرآن مجیدکے مقا بلہ میں آئے ،توشکست سے دو چار ہو ئے اور پیچھے ہٹ گئے کہ اس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔

ولید بن مغیرہ کا واقعہ
قرآن مجید سے مقابلہ کر نے کے لئے بلائے گئے لو گوں میں ”ولید بن مغیرہ“ بھی شامل تھا ۔اس کا تعلق قبیلہء ”بنی مخزوم“سے تھا ۔جو اس زمانہ میں عربوں کے در میان حسن تد بیر اور فکر صائب کے لحاظ سے بڑی شہرت کا حامل تھا
کفار نے اس سے درخواست کی کہ اس سلسلہ میں غور وخوض کر کے قرآن مجید کی عجیب وغریب آیات اور ان کے غیر معمولی نفوذ کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کرے۔
”ولید نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قرآن مجیدکی چند آیات کی تلاوت فر مائیں ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”سورہ حم سجدہ“کی چند آیات کی تلاوت فر مائی ۔
ان آیات نے ولید کے اندر ایسا اضطراب اور ہیجان پیدا کیا کہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور” قبلہ نبی مخزوم“کی منعقد شدہ محفل میں جا پہنچا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا:
خدا کی قسم میں نے محمد(ص) سے ایسا کلام سنا ہے کہ نہ انسان کے کلام کے مانند ہے اور نہ جن اور پریوں کے کلام کے مانند... اس کے بعد ولیدبن مغیرہ نے یوں کہا:
”وان لہ لحلاوةواٴن علیہ لطلاوةواٴن اٴعلا ہ لمثمر و اٴن اسفلہ لمغدق وانہ یعلمو ولا یعلی علیہ۔“
ان کے کلام میں ایک خاص مٹھاس اور زیبائی ہے ،(ایک درخت کے مانند)اس کا اوپری حصہ میوؤں سے بھرا ہوا اور اس کی جڑ مضبوط ہے۔یہ ایک ایسا کلام ہے جو ہر چیز پر غالب ہے اور کوئی چیز اسے مغلوب نہیں کر سکتی ہے۔
ولید کے یہ کہنے سے قریش کے در میان یہ آواز گونجنے لگی کہ ولیدبن مغیرہ محمد کا دلداد ہ ہو گیا ہے!
”ابو جہل“نے فوراً مغیرہ کے گھر جاکر قریش میں پھیلی ہوئی یہ بات اس کو بتائی اور اسے قریش کی مجلس میں آنے کی دعوت دی۔
ولید بن مغیرہ نے قریش کی مجلس میں آکر کہا:
”کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ (محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ ہو گیا ہے ؟کیا تم لوگوں نے کبھی اس میں دیوانگی کے آثار دیکھے ہیں؟!
حاضرین نے کہا:”نہیں“
پھر ولید نے پوچھا:
کیا تم لوگ خیال کرتے ہو کہ وہ جھوٹ بولتا ہے ؟کیا اب تک وہ تم لوگوں میں ایک سچے اور امین شخص کی حیثیت سے مشہور نہیں تھے اور اسے تم صادق وامیں نہیں کہتے تھے؟!
قریش کے بعض سرداروں نے کہا:پھر ہم اس کی طرف کون سی نسبت دیں؟
ولید نے تھوڑی دیر غور وفکر کر کے کہا :تم لوگ کہو:وہ ساحر ہے ۔
اگر چہ کفار اس تعبیر سے قرآن مجید کے چاہنے والوںکو اس سے جدا کر نا چاہتے تھے ۔لیکن یہ تعبیر ”ساحر“خود اس بات پر ایک زندہ دلیل تھی کہ قرآن مجید غیر معمولی طور پر جذب کر نے والی پر کشش کتا ب ہے ،لہذا انہوں نے اس جذب کرنے والی قوت کا نام سحر رکھا،جبکہ اس کا سحر سے کوئی ربط نہیں تھا۔
اس کے بعد کفار قریش نے ہر جگہ اس کازبردست پروپیگنڈا کر نا شروع کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہر جادوگر ہے اور یہ آیات اس کے جادو ہیں،اس سے دوری اختیار کریں اور اس کا کلام سننے سے پر ہیز کریں۔!
لیکن تمام کو ششوں کے باوجودان کی یہ ریشہ دوانیاں کا میاب نہ ہو سکیں اور ہر گوشہ و کنار میں موجودحقیقت کے پاک دل پیاسے جوق در جوق قرآن مجید کی طرف آتے رہے اور اس الہی پیغام کے آب زلال سے سیراب ہو تے رہے ۔اس طرح قرآن مجید کے دشمن شکشت کھا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
آج بھی قرآن مجید تمام دنیا والوں کو چیلینج کرتے ہوئے مقابلہ کی دعوت دے رہا ہے اور پکار پکار کے کہہ رہاہے:اے ہر قوم و ملت کے دانشورو،اے فلاسفہ،اے ادیبو اور اے اہل قلم !اگر تم قرآن مجیدکی آیات کے بارے میں شک وشبہہ رکھتے ہو اور انھیں انسانی عقل وفکر کی اختراع سمجھتے ہو تو تم بھی اس کے مانند کلام لے آؤ!
ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام کے دشمن بالخصوص عیسائی پادری(جو اسلام کو ایک انقلابی اور بامعنی دین کی حیثیت سے اپنے لئے سخت اور خطر ناک رقیب جانتے ہیں)ہر سال اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر نے پر کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور مختلف اسلامی ممالک میں گونا گوں ثقافتی ،علمی ،علاج و معالجہ اور صحت عامہ کے پرو گراموں کی آڑ میں سرگرم عمل ہیں ۔ان کے لئے بہت آسان ہو تا اگر وہ عربی زبان کے عیسائی دانشوروں،شاعروں ،اہل قلم اور فلاسفہ کو دعوت دیتے تاکہ وہ قرآن مجید کی سورتوں کے مانند چند سورتیں لکھ کر ان کی تشہیر کر کے مسلمانوں کا منہ بند کردیں!!
اگر ان کے لئے یہ ممکن ہو تا توقطعاً وہ اس کام کو ہر قیمت پر انجام دینے سے گریزکرتے۔
اس موضوع کے مقابہ میں ان کی ناتوانی قرآن مجید کے مخالفین کی برُی شکست اور قرآن مجید کے لا فانی معجزہ ہو نے پر واضح اور روشن دلیل ہے۔
________________________________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا سب سے بڑا معجزہ کیوں قرآن مجید شمار ہو تا ہے؟
۲۔قرآن مجید کیسا چیلینج کر تا ہے؟
۳۔اسلام کے دشمنوں نے قرآن مجید کو کیوں سحر سے نسبت دی ہے؟
۴۔اسلام، کیوں موجودہ عیسائیت کا سخت رقیب ہے؟
۵۔”ولید بن مغیرہ فخزومی“کا واقعہ کیا ہے؟