عدل الٰہی کے دس سبق
چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ
پرور دگار عالم کی عدالت سے مربوط مسائل میں سے ایک مسئلہ ”جبر و اختیار“کا مسئلہ ہے۔کیونکہ عقیدئہ جبر کے قائل لوگوں کے نزدیک انسان کو اپنے اعمال،رفتار اور گفتار پر کسی قسم کا اختیار نہیں ہے اور اس کے اعضاء کی حرکات ایک مشین کے پرزوں کے مانند ہیں۔
اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ عدال الہٰی سے کیا مناسبت رکھتا ہے؟شاید اسی وجہ سے اشاعرہ نے ،جن کے بارے میں ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا اور وہ حسن وقبح عقلی کے منکر ہیں،جبر کو قبول کر کے عدل الہٰی سے انکار کیا ہے ۔کیونکہ جبر کو قبول کر نے کی صورت میں ”عدالت“ کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہ جاتا ہے۔
اس بحث کو واضح کر نے کے لئے چند موضوعات کی دقیق وضاحت کر نا ضروری ہے:
۱۔جبر کے عقیدہ کا سرچشمہ
ہرشخص اپنے وجود کی گہرائیوں میں احساس کر تا ہے کہ وہ اپنے ارادہ میںآزاد ہے،مثال کے طورپر فلاں دوست کی وہ مالی مدد کرے یا نہ کرے یا یہ کہ پیاس کی حالت میں اگر اس کے سامنے پانی رکھا جائے تو وہ اسے پئے یا نہ پئے۔اگر کسی نے اس کے خلاف کوئی ظلم کیا ہو تو وہ اسے بخش دے یا نہ بخشے۔
یا یہ کہ ہر شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کانپنے والے ہاتھ اور اپنے ارادہ سے حرکت کر نے والے ہاتھ کے در میان فرق کرسکتا ہے۔
آزادی ارادہ کا مسئلہ انسان کا ایک عام احساس ہو نے کے باوجود کیوں انسانوں کا ایک گروہ جبر کا عقیدہ رکھتاہے؟!
اس کے مختلف اسباب ہیں کہ ہم ان میں سے ایک اہم سبب کو یہاں پر بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان مشاہدہ کر تا ہے کہ ماحول افراد پر اثر ڈالتا ہے ،تربیت بھی ایک دوسری علت ہے اسی طرح پروپیگنڈے،ذرائع ابلاغ اور سماجی ماحول بھی بلا شبہ انسان کی فکرو روح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کبھی اقتصادی حالات بھی انسان میں تبدیلیاں ایجاد کر نے کا سبب بنتے ہیں ۔وراثت کے سبب ہو نے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ تمام عوامل اس کا سبب بنتے ہیں کہ انسان یہ خیال کرے کہ ہم با اختیار نہیں ہیں بلکہ ہمیں داخلی اور خارجی ذاتی عوامل اکھٹے ہو کر مجبور کرتے ہیں کہ ہم کچھ ارادے اور فیصلے کریں،اگر یہ عوامل نہ ہو تے تو ہم سے بہت سے کام سرزد نہیں ہوتے۔یہ ایسے امور ہیں، جنھیںماحول کے جبر ،اقتصادی حالات کے جبر ،تعلیم وتربیت کے جبر اور وراثت کے جبر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ان عوامل میں سے ”مکتب جبر“فلاسفہ کی زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہے۔
۲۔جبریوں کی غلط فہمی کی اصل وجہ
لیکن جو لوگ ایسا خیال کرتے ہیں وہ ایک بنیادی بات سے غافل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بحث”محر کات و عوامل“اور ”علت ناقصہ“کے بارے میں نہیں ہے بلکہ بحث”علت تامّہ“میں ہے۔دوسرے الفاظ میں :کوئی شخص انسان کی فکر اور اس کے عمل میں ماحول،تہذیب وتمدن اور اقتصادی اسباب کے اثر انداز ہو نے سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔اصل بحث اس میں ہے کہ ان تمام اسباب کے باوجود فیصلہ کا اختیار ہم ہی کو ہے۔
کیونکہ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ سابقہ شہنشاہی نظام جیسے ایک غلط اور طاغوتی نظام میں بھی گمراہ ہو نے کے مواقع فراہم تھے ،لیکن ہم اس کے لئے مجبور نہیں تھے۔ ہمارے لئے اسی نظام اور ماحول میں بھی ممکن تھا کہ ہم رشوت لینے سے پر ہیز کریں، فحاشی کے مراکز کی طرف رخ نہ کریں اور آزادروی سے پرہیز کریں۔
لہذا ان مواقع کو”علت تامّہ“سے جدا کر نا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد غیر مہذب گھرانوں اور برے ماحول میں پرورش پانے یا نامناسب وراثت کے مالک ہو نے کے باوجود اپنے لئے صحیح راہ کا انتخاب کرتے ہیں،یہاں تک کہ بعض اوقات یہی افراد اس قسم کے ماحول اور نظام کے خلاف انقلاب برپا کر کے اسے بدل دیتے ہیں، ورنہ اگر یہ ضروری ہوتا کہ تمام انسان ماحول،تہذیب و تمدن اور پروپیگنڈے کے تابع ہوں تو دنیا میں کبھی کوئی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا اور تمام افراد ماحول کے سامنے ہتھیار ڈال کر جدید ماحول پیدا کر نے سے قاصر رہتے۔
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ تمام مذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک بھی ”تقدیر ساز“نہیں ہے بلکہ یہ اسباب صرف مواقع فراہم کرتے ہیں اور انسان کی تقدیر کو صرف اس کا ارادہ اور عزم بناتا ہے۔
یہ ایساہی ہے کہ ہم ایک انتہائی گرم موسم میں خدا کی اطاعت کرتے ہوئے روزے رکھنے کا عزم کریں جبکہ ہمارے وجود کے تمام ذرات پانی کی خواہش کرتے ہیں لیکن ہم خدا کی اطاعت میں ان کی پروا نہیں کرتے جبکہ ممکن ہے کوئی دوسرا شخص حکم خدا کے باوجود اس خواہش کو قبول کر کے روزہ نہ رکھے۔
نتیجہ کے طور پر ان تمام ”اسباب وعوامل“کے باوجود انسان کے پاس عزم وارادہ جیسی ایک چیز ہے جس سے وہ اپنا مقدر بنا سکتا ہے۔
۳۔مکتب جبر کے سماجی اور سیاسی اسباب
حقیقت یہ ہے کہ ابتداسے ہی ”جبر واختیار“کے مسئلہ کے بارے میں کثرت سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔انسان کے ارادہ کی آزادی کی ”نفی“اور جبر کے عقید کی تقویت کے لئے کچھ خاص عوامل کا ایک سلسلہ بھی موثر کردار ادا کرتا رہا ہے۔ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
الف:سیاسی عوامل
بہت سے جابر وستمگر حکام محروم اور مستضعف لوگوں کے انقلابی جذبہ کو خاموش کر نے اور اپنی غیر قانو نی اور مطلق العنان حکومت کو باقی رکھنے کے لئے ہمیشہ اس فکر کا سہارا لیتے رہے ہیں کہ ہم خود کوئی اختیار نہیں رکھتے،تقدیر کا ہاتھ اور تاریخ کا جبر ہماری قسمت کا فیصلہ کر نے والا ہے۔اگر کوئی امیر ہے اور کوئی غریب تو یہ قضا وقدر کے حکم یا تاریخ کے جبر کے سبب سے ہے!
واضح ہے کہ اس قسم کا طرز فکر کس حد تک لوگوں کے افکار کو بے حس کر سکتا ہے اور جابر حکام کی استعماری اور آمرانہ سیاست کی مدد کرسکتا ہے؟حالانکہ عقلی اور شرعی طور پر ہماری ”تقدیر“ خود ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ”جبر“کے معنی میں قضا وقدر کا بالکل وجود نہیں ہے ۔الہٰی قضا وقدر کی تعیین ہماری حرکات ،خواہشات ،ارادہ،ایمان،جستجو اور کوشش کے مطابق ہوتی ہے۔
ب۔نفسیاتی عوامل
جوکاہل اور سست افراد اپنی زندگی میں اکثر نا کام رہتے ہیں وہ ہر گز اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں کہ ان کی سستی اور خطائیں ان کی شکست کا سبب بنی ہیں۔لہذا اپنے آپ کو بری الذمہ قراردینے کے لئے ”مکتب جبر“کا سہارا لیتے ہیںاور اپنی ناکامی کو اپنی اجباری قسمت کے سر پر ڈالتے ہیں تاکہ اس طرح جھوٹا اور ظاہری سکون پیدا کر سکیں ۔وہ کہتے ہیں :کیا کریں ہماری قسمت کی چادر تو روز اول سے ہی ایسی سیاہ بنیُ گئی ہے جسے زمزم یا حوض کوثر کا پانی بھی سفید نہیں کر سکتا ۔ہم با استعداد بھی ہیں اور ہم نے کوشش بھی کی ہے لیکن افسوس ہماری قسمت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا!
ج۔سماجی عوامل:
بعض لوگ چاہتے ہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ ہو اوہوس کی راہوں پر چلتے رہیںاور اپنی حیوانی خواہشات کے مطابق ہر گناہ کے مرتکب ہوتے رہیں اس کے باوجود خیال کرتے ہیں کہ وہ گناہ کار نہیں ہیں اور سماج میں بھی اس قسم کا تاثر قائم کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔
اس لئے وہ”عقیدہ جبر“کا سہارا لے کر اپنی ہوس رانی کی جھوٹی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :ہمیں اپنے کاموں میں کسی قسم کا اختیار نہیں ہے!
لیکن بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے ،حتی اس قسم کی باتیں کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ ان کے یہ عذر بے بنیاد ہیں۔لیکن عارضی لذتیں اور ناپائیدار منافع انھیں حقیقت کا کھلم کھلا بیان کر نے کی اجازت نہیں دیتے ۔
لہذا ضروری ہے کہ سماج کو اس جبری طرز فکر سے اور قسمت و تقدیر کو جبر کا نتیجہ قرار دینے کے عقیدہ سے بچانے کے لئے کوشش کی جائے۔کیونکہ اس قسم کا عقید ہ
سا مراجی طاقتوں کاآلہ کار اور جھوٹی ناکامیوں کے لئے مختلف بہانوں کا وسیلہ اور سما ج میں آلودگی بڑھانے کا بہت بڑا سبب بنتا ہے۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔”جبر“اور”اختیار“کے نظریہ میں کیا فرق ہے؟
۲۔جبر کا عقیدہ رکھنے والے افراد کس دلیل پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں؟
۳۔ماحول،تہذیب وتمدن اور وراثت کے اثرات کا جواب کیا ہے؟
۴۔ان سیاسی ،نفسیاتی اور سماجی عوامل کی وضاحت کیجئے جن کی جھوٹی توجیہ کے لئے عقیدئہ جبر کا سہارا لیا جاتا ہے۔
۵۔ان عوامل کا مقابلہ کر نے کے لئے ہمیں کیا کر نا چاہئے؟
ساتواں سبق : ارادہ و اختیارکی آزادی پر واضح ترین دلیل
۱۔انسان کا ضمیر جبر کی نفی کرتا ہے
اگر چہ الہٰی فلاسفہ اور علماء نے انسان کے ارادہ میں آزاد ہونے کے سلسلہ میں گوناگوں دلائل پیش کئے ہیں ،مگر ہم اختصار کے پیش نظر ان دلائل میں سے ایک واضح ترین دلیل کو پیش کرتے ہیںاور یہ دلیل ”انسان کا ضمیر“ہے۔
ہم ہر چیز کا انکار کر سکتے ہیں ،لیکن اس بات کا انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ ہر معاشرے میں ۔چاہے وہ خدا پرستوں کا معاشرہ ہو یا مادہ پرستوں کا،مشرقی ہو یا مغربی، قدیم ہو یا جدید،امیر ہو یا غریب ،ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ،معاشرے میں موجود ہر قسم کے افراد اس بات پر متفق ہیں کہ ۔ایک ایسے”قانون“کا ہو نا ضروری ہے کہ جو معاشرے پر حاکم ہو اور لوگ اس قانون کی پیروی میں اپنی”ذمہ داری“پوری کریں اور اس قانون کی خلاف ورزی کر نے والے کو”سزا“دی جائے۔
مختصر یہ کہ”قانون“کی حاکمیت،عوام کی طرف سے قانون کا احترام اور اس کی”ذمہ داری“اوراس قانون کی خلاف ورزی کر نے والوں کو اس کی”سزا“جیسے مسائل پردنیا کے تمام عقلاء کا اتفاق ہے ،البتہ صرف وحشی اور غیر مہذب اقوام ان تینوں باتوں کو قبول نہیں کرتے۔
یہ مسئلہ،جسے ہم”تمام دنیا کے افرادکے ضمیر“کے نام سے تعبیر کرتے ہیں، انسان کے اپنے ارادہ میں آزاد ہو نے پر واضح ترین دلیل ہے۔
یہ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے ارادہ وعمل میں مجبور ہو اور کسی قسم کا اختیار نہ رکھتا ہو لیکن قوانین کا احترام اور ذمہ داری اس کے لئے ضروری ہو اورقوانین کی خلاف ورزی کر نے پر اس سے باز پرس بھی ضروری ہو کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟اور ایسا کیوں نہیں کیا؟
اور خلاف ورزی ثابت ہو نے پر کبھی اس کو جیل کی سزا اورکبھی سزائے موت کا بھی سامنا کر نا پڑے۔
اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ہم پہاڑوں سے پھسل کر سڑک پر گر نے والے پتھروں ،جو مسافروں کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں ،کو عدالت میں لاکر ان کے خلاف مقدمہ چلائیں۔
یہ صحیح ہے کہ بظاہر ایک انسان اور پتھر کے ٹکڑے کے در میان بہت فرق ہے۔لیکن اگر ہم انسان کو اپنے ارادہ میں آزاد نہ جانیں تو یہ فرق بالکل ختم ہو جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں انسان اور پتھردونوںجبری عوامل کے تابع ہو جائیں گے۔پتھر قانون جاذبہ کے تحت سڑک کے بیچ میں آگرتا ہے اور انسان جبری عوامل کی وجہ سے مجرم،قاتل اور سرکش بن جاتا ہے ۔عقیدئہ جبر کے قائل افراد کے مطابق ان دونوں کے در میان کسی بھی قسم کا فرق نہیں ہے اور چونکہ کسی نے اپنے ارادہ سے کام انجام نہیں دیا ہے ،لہذا ایک کو عدالت کی کچہری میں کھڑا کر نا اور دوسرے کو چھوڑ دینا کیسے صحیح ہو گا؟!
ہم ایک دورا ہے پر کھڑے ہیں :یا تمام افراد کے عمومی ضمیر کو غلط اور خطا قراردیں اور تمام قوانین ،عدالتوں،مجرمین کو دی جانے والی سزاؤں کو بیہودہ،بلکہ ظالمانہ کام قرار دیں یاپھر ”عقیدہ جبر“ کا انکار کریں۔
بیشک دوسری ہی بات قابل ترجیح ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسفی عقیدہ وتفکر کے لحاظ سے عقیدئہ جبر کا دم بھرنے والے افراد بھی جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ عملی طور پر ”آزادی ارادہ“ کے عقیدہ پر عمل کرتے ہیں!
کیونکہ اگر کوئی شخص ان کے حقوق کو پامال کرے یا ان کو تکلیف پہنچائے تو اس کو سزا کا مستحق سمجھتے ہیں اور عدالت میںجاکر اس کے خلاف شکایت کرتے ہیں اور کبھی اتنا چیختے چلّاتے ہیں کہ جب تک اس کو سزا نہ مل جائے،چین سے نہیں بیٹھتے۔
پس اگر انسان اپنے ارادہ میں آزاد نہیں ہے تو یہ سرزنش،شکایت اورشور وغوغا اور داد و فریاد کس لئے کرتا ہے؟!
بہر حال دنیا کے عقلا کا عمومی ضمیر اس بات پر زندہ دلیل ہے کہ ”ارادہ کی آزدی“کی حقیقت کا اقرار تمام انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حامی اور طرفدار رہے ہیں اور اپنی زندگی کا ایک دن بھی اس عقیدہ کے بغیر نہیں گزار سکتے ہیں اور اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو اس کے بغیر نہیں چلاسکتے ہیں۔
عظیم اسلامی فلاسفر،”خواجہ نصیرالدین طوسی “جبر واختیار کی بحث کے دوران ایک مختصر اور جامع عبارت میں فر ماتے ہیں :
”والضر ورة فاضیة باستناد افعالنا الینا “(تحریر العقائد ،بحث جبرو اختیار)
”ہمارا ضمیراس بات کا متقاضی ہے کہ ہمارے تمام اعمال خود ہم سے مربوط ہیں۔“
۲۔”جبر“کی منطق کا مذہب کی منطق سے تضاد
مذکورہ گفتگو کا تعلق اس بات سے تھا کہ جبر کا عقیدہ دنیا کے عقلاء کے عمومی ضمیر سے تضاد رکھتا ہے خواہ یہ عقلاء کسی مذہب کے ماننے والے ہوں یا لا مذہب۔
لیکن ہم مذہبی طرز فکر کے لحاظ سے بھی ایسے قطعی اور یقینی دلائل رکھتے ہیں جو عقیدئہ جبر کے باطل ہو نے پر دلالت کرتے ہیں ۔کیونکہ مذہبی عقائد ہرگز جبر کے عقیدہ کے موافق نہیں ہیں کیونکہ عقیدئہ جبر کو قبول کر نے کی صور ت میں مذہبی اصول وقوانین بھی مخدوش ہو جائیں گے ۔اس لئے کہ ہم گزشتہ بحث میں واضح طور پر ثابت کئے گئے عدل الہٰی کو جبر کے عقیدہ کی روشنی میں ثابت نہیں کرسکتے ہیں ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند متعال کسی کو برا کام انجام دینے پر مجبور کر کے اور پھر اس کو ایسا کام انجام دینے کے جرم میں سزا دے اور بازپرس کرے کہ کیوں یہ کام انجام دیا؟یہ کسی بھی منطق و عقل کے مطابق نہیں ہے!
لہذا جبر کے عقیدہ کو قبول کر نے کی صورت مین ثواب وعقاب اورجنت و جہنّم بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات میں نامہ اعمال،سوال و جواب،الہٰی حساب،بد کاروں کی مذمت اور صالحین کی ستائش میں ذکر ہو ئے مفاہیم بھی بے معنی ہو جائیں گے۔کیونکہ اس عقیدہ کی بنیاد پر نیک اور بد کار افراد کے ارادہ واختیار میں کچھ نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ہم مذہب میں سب سے پہلے انسان کی ”تکلیف اور ذمہ داری“سے مواجہ ہوتے ہیں ۔لیکن اگر انسان مجبور ہو تو کیا پھر اس ”تکلیف اور ذمہ داری“کا کوئی مطلب اور مفہوم ہے؟!
کیا ہم رعشہ کے مرض میں مبتلا کسی مریض کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے ہاتھ کی تھر تھراہٹ کو روک لے یا کسی ترائی میں پھسلنے والے شخص کو کہہ سکتے ہیں کہ رک جائے؟
یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام ایک مشہور روایت میں مکتب جبر کو بت پرستوں اور شیطان کی جماعت کامکتب قرار دیتے ہوئے فر ماتے ہیں:
”تلک مقالہ اخوان عبدة الاوثان وحضماء الرحمان وحزب الشیطان“ (اصول کافی ج۱،ص۱۱۹ باب جبر والقدر)
”یہ بت پرستوں کے بھائیوں ،خدا کے دشمنوں اور شیطان کے گروہ کی باتیں ہیں۔“
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔جبر کے بطلان کی واضح ترین دلیل کیا ہے؟
۲۔ارادہ کی آزادی کے سلسہ میں دنیا کے لوگوں کے ضمیر کی وضاحت کیجئے۔
۳۔کیا جبر کا عقیدہ رکھنے والے عملی طور پر بھی ”جبر“کے مطابق عمل کرتے ہیں؟
۴۔کیا”جبر کا عقیدہ“عدل الہٰی کے موافق ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟
۵۔ارادہ کی آزادی ہر قسم کی ذمہ داریوں کو قبول کر نے کی بنیاد کس طرح ہے؟
آٹھواں سبق:”امر بین الامرین“(یاوسطی مکتب)کیا ہے؟
۱۔”جبر“کے مقابلہ میں ”عقیدئہ تفویض“
افراط پر مبنی”عقیدئہ جبر“کے مقابلہ میں ”تفویض“کے نام سے ایک دوسرا مکتب موجود ہے۔یہ مکتب ”تفریط“پر مبنی ہے۔
عقیدئہ تفویض کے معتقد افراد کا کہنا ہے :خدا وند متعال نے ہمیں پیدا کر نے کے بعد تمام کام ہمارے سپرد کر دیئے ہیں اور اب خدا کا ہمارے اعمال وافعال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔لہذا ہم اپنے اعمال کے قلمرو میں مکمل اور مستقل طور پر آزاداور حاکم ہیں!
بیشک،یہ عقیدہ بھی ”عقیدئہ توحید“کے بالکل موافق نہیں ہے ،کیونکہ ”توحید“نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ تمام کا ئنات خدا کی ملکیت ہے اور کوئی چیز اس کی دسترس سے خارج نہیں ہے،حتی کہ ہمارے اعمال ہمارے ارادہ کی آزادی کے باوجود اس کی دسترس اور قدرت سے ہرگز باہر نہیں ہوسکتے ورنہ شرک لازم آئے گا۔
واضح تر عبارت میں:ہم دوخداؤں کے قائل نہیں ہو سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک بڑا خدا ہو جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور دوسرا چھوٹا خدا یعنی ”انسان“جو اپنے تمام اعمال وافعال میں اس قدر آزاداور با اختیار ہے کہ خدا وند متعال بھی اس کے اعمال و افعال پر اثر انداز نہیں ہو سکتا!
یہ واضح شرک ہے اور دو یا چند خداؤں کی پرستش ہے ۔حق بات یہ ہے کہ ہم انسان کو آزاد اور با اختیار بھی تسلیم کریں اور خدا وند متعال کو اس پر اور اس کے اعمال پر حاکم بھی مانیں۔
۲۔در میانی مکتب
باریک نکتہ یہی ہے کہ ہم یہ خیال نہ کریں کہ ان مذکورہ دو باتوں کے در میان تضاد موجود ہے ۔اس امر میں گہری فکر کی ضرورت ہے کہ ہمیں خدا وند متعال کی ”عدالت“کو بھی مکمل طور پر قبول کر نا چاہئے ،اس کے بندوں کے لئے ”آزادی“اور”ذمہ داری“ کا بھی قائل ہو نا چاہئے ،اس کے علاوہ پوری کائنات پر اس کی حاکمیت اور توحید کابھی قائل ہو نا چاہئے اور یہ وہی چیز ہے جسے”امربین الامرین “سے تعبیر کیاگیا ہے۔(یعنی وہ عقیدہ جو افراط وتفریط کے در میان واقع ہوا ہے)
چونکہ یہ بحث ذرا پیچیدہ اور دقیق ہے،لہذا ہم اس کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔
فرض کیجئے آپ بجلی سے چلنے والی ایک ریل گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور اس ٹرین کے ڈرائیور بھی آپ ہی ہیں ۔ٹرین کے پورے راستہ پر بجلی کا ایک قوی تارکھینچا گیا ہے اور ٹرین کی چھت پر لگا ہوا ایک مخصوص دائرہ (کڑا)بجلی کے اس تار سے ملا ہوا ہے اور حر کت کر رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بجلی کو ایک قوی مر کز سے ٹرین کے انجن میں اس طرح منتقل کر رہا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی اس قوی مرکز سے ٹرین تک بجلی نہ پہنچے تو ٹرین فوراً رک جائے گی۔
اس ٹرین کے ڈرائیورکی حیثیت سے بیشک آپ آزاد ہیں کہ راستے میں جہاں پر بھی چاہیں ٹرین کو روک سکتے ہیں ،اسے آہستہ یا تیز چلا سکتے ہیں لیکن اس تمام آزادی کے باوجود بجلی کے مرکز یعنی بجلی گھر میں بیٹھا ہوا شخص جب چاہے بجلی کو منقطع کر کے آپ کی ٹرین کو روک سکتا ہے ۔کیونکہ آپ کی ٹرین کی حر کت بجلی کی مر ہون منت ہے اور اس کی چابی مرکز برق میں بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ہے۔
اس مثال میں غور کر نے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ٹرین کا ڈرائیور تمام تر آزادی ،اختیار اور ذمہ داری کے باوجود کسی اور کے کنٹرول میں ہے اور یہ دونوں امر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔
دوسری مثال:
فرض کیجئے کو ئی شخص کسی بیماری یا حادثہ کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کے اعصاب سے محروم ہو جاتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو حرکت دینے پر قادر نہیں ہو تا ہے۔اگر اس کے اعصاب کو ایک خفیف اور ملایم برقی رو سے ارتباط دیا جائے تو اس کے اعصاب گرم ہو کر دوبارہ حرکت میں آسکتے ہیں ۔اب یہ شخص اسی ہاتھ سے کوئی بھی کام انجام دے سکتا ہے۔مثلاً اگر یہ شخص اسی ہاتھ سے کہ جس سے برقی روکا اتصال ہے کسی پر ظلم کرے ،کسی کے چہرے پر طمانچہ مارے یا کسی بے گناہ کے سینے میں چھرا گھونپ دے تووہ اپنی اس حر کت پر یقینا جواب دہ ہو گا ۔کیونکہ اس نے اپنی قدرت اور اختیار سے اس کام کو انجام دیا ہے۔اور قادر ومختار شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو تا ہے ۔
لیکن اس کے باوجود اس انسان کے ہاتھ میں برقی رو داخل کر نے والا شخص بھی اس پر حاکمیت رکھتا ہے اور یہ انسان اپنی تمام آزادی و اختیار کے باوجود اس کے قبضئہ قدرت میں ہے۔
اب ہم اصلی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں:
خدا وند متعال نے ہمیں ہمت اور طاقت عطا کی ہے ،ہمیں عقل وہوش اور جسمانی طاقت سے نوازا ہے ۔یہ تمام وسائل ہمیں لمحہ بہ لمحہ خدا وند متعال کی طرف سے عطا ہو رہے ہیں اگر ایک لمحہ کے لئے بھی خداوند متعال کا لطف وکرم ہم پر رک جائے اور اس سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جائے تو ہم نابود ہو کر رہ جائیں گے۔
اگر ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں تو یہ اسی کی طرف سے عطا کردہ قوت کے نتیجہ میں ہے جو لمحہ بہ لمحہ جاری ہے حتی کہ ہماری آزادی اور اختیار بھی اسی کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم آزاد ہوں اور اس کی عظیم نعمتوں کے سایہ میں کمال کی منزل تک پہنچنے کا راستہ طے کریں۔
پس ہم اختیار اور ارادہ کی آزادی کے باوجود اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اوراس کی بار گاہ میں سر جھکائے ہو ئے ہیں اور اس کی حاکمیت کے قلمرو سے باہر نہیں ہو سکتے ۔ہم تمام تر قدرت اور توانائی کے باوجود اسی کے مرہون منت ہیں اور اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔”الامر بین الامرین“کا یہی معنی و مفہوم ہے ،کیو نکہ ہم نے کسی بھی موجود کو اس کے مثل قرار نہیں دیا ہے کہ شرک لازم آئے اور نہ ہی خدا کے بندوں کو ان کے اعمال میں مجبور جا نتے ہیں کہ ظلم لازم آئے ۔(غور فر مائیے!)۔
ہم نے یہ درس مکتب اہل بیت علیہم السلام سے حاصل کیا ہے،کیو نکہ ان حضرات سے سوال کیا جاتا تھا کہ کیا جبر و تفویض کے در میان کوئی تیسرا راستہ بھی ہے؟ تو وہ فر ماتے تھے :
”ہاں ،تیسرا راستہ بھی موجود ہے جو زمین و آسمان کے در میان فاصلہ سے وسیع تر ہے۔“(اصول کافی:ج۱،ص۱۲۱ باب الجبروالقدر والامر بین الامرین)
۳۔قرآن مجید اور جبرو اختیار کا مسئلہ
قرآن مجید انسان کے ارادہ میں آزادی کے مسئلہ کو واضح طور پر ثابت کرتا ہے اور اس سلسلہ میں قرآن مجید میں سینکڑوں آیات ذکر ہوئی ہیں۔
الف۔وہ تمام آیات جن میں امر ونہی ،ذمہ داریوں اوراصول وقوانین کا ذکر کیا گیا ہے ،اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار میں آزاد ہے، کیونکہ اگر انسا ن آزاد نہ ہو تو اس کو بعض کاموں کا حکم دینا اور بعض کاموں سے روکنا لغو و بیہودہ شمار ہو گا۔
ب۔بد کاروں کی مذمت اور نیک لوگوں کی ستائش میں بیان شدہ آیات انسان کے خود مختار ہو نے پر دلالت کرتی ہیں ۔کیونکہ ”جبر“کی صورت میں مذمت اور مدح و ستائش بے معنی ہو گی ۔
ج۔جن تمام آیات میں قیامت سے متعلق سوال ،اور اس دن کے فیصلے کا دن ہو نے اور پھر اس کے نتیجہ میں جزاو سزا اور جنت و جہنم کا ذکر ہوا ہے ،وہ انسان کے با اختیار ہو نے پر دلا لت کر تی ہیں ۔کیونکہ جبر کی صورت میں ان آیات کا کوئی مفہوم نہیں ہو گا اور سوال و جواب،روز قیا مت کی عدالت میں پیشی اور بد کاروں کو سزا ملنا ”ظلم محض“شمار ہو گا۔
د۔انسان کو اس کے ا عمال کا مرہوں منت قرار دینے والی آیات،جیسے:
”کل نفس بما کسبت رھینة “ ( سورہ مدثر/۳۸)
”ہر نفس اپنے اعمال میں گرفتار ہے“
”کلّ اُمری ءٍ بما کسبت رھین“ (سورہ طور/۲۱)
”ہرشخص اپنے اعمال کا گر وی ہے ۔“
یہ آیات واضح طور پر انسان کے صاحب اختیار ہونے کو ثابت کرتی ہیں ۔
ھ۔<إنا ھدینا السّبیل إمّا شاکراًوامّا کفوراً>
( سورہ دہر/۳)
”یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کر نے والا ہوجائے“
مذکورہ آیت بھی ہمارے اس مدعا کو ثابت کرتی ہے
قرآن مجید میں بعض ایسی تعبیرات وارد ہو ئی ہیں جو”امر بین الامرین “کے عقیدہ پر دلالت کرتی ہیں ۔لیکن بعض ناآگاہ لوگوں نے غلط فہمی سے ان آیات کو عقیدہ جبر کے حق میں ثابت کر نے کی کوشش کی ہے،مثلاً:
<وما تشاء ون إلاّان یشاء اللّٰہ > (سورہ دہر/۳۰)
”اور تم لوگ تو صرف وہی چاہتے ہو جو پرور دگار چاہتا ہے۔“
واضح ہے کہ مذکورہ آیت اور اس جیسی دوسری آیات انسان سے اختیار کو سلب کر نا نہیں چاہتی ہیں بلکہ اس حقیقت کو ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ تم تمام اختیارات اور آزادی کے باوجود خدا وند متعال کے قبضہ قدرت میں ہو۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔”تفویض“سے کیا مراد ہے؟اور اس عقیدہ میں کونسا عیب ہے؟
۲۔”امربین الامرین“کے عقیدہ کی تعلیم ہم نے ائمہ اہل بیت (ع)سے حاصل کی ہے ،اس مطلب کی مثال کے ساتھ وضاحت کیجئے۔
۳۔”جبر“و”اختیار“ کے مسئلہ کے بارے میں قرآن مجید کی آیات کیا کہتی ہیں؟
۴۔اگر ہم جبر کے عقیدہ کو صحیح جان لیں تو پھر قیا مت کے دن،جنت و جہنّم اور سوال و جواب کے عقیدہ پر کیا اثر پڑے گا؟
۵۔کیا ”وما تشا ء ون الاّ ان یشاء اللّٰہ “اور اس جیسی دوسری آیات ”جبر“پر دلالت کرتی ہیں؟
نواں سبق :ہدایت وگمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے
۱۔ہدایت و گمراہی کی اقسام:
ایک مسا فر ایڈرس ہاتھ میں لئے ہو ئے آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے راہنمائی کا تقاضا کرتا ہے ۔آپ کے پاس اسے مقصد تک پہنچانے کے لئے دو راستے ہیں:
ایک یہ کہ اس کے ساتھ جاکر کمال نیکی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے منزل مقصود تک پہنچادیں اور خدا حافظ کہہ کر واپس آجائیں۔
دوسرا یہ کہ ہاتھ کے اشارہ اور مختلف نشانیوں کے ذریعہ اسے مطلوبہ جگہ کی طرف راہنمائی کریں۔
بیشک آپ نے دونوں صورتوں میں منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے اس کی راہنمائی کی ہے ۔لیکن ان دونوں طریقوں میں ایک واضح فرق ہے۔دوسرا طریقہ صرف راستہ دکھاناہے جبکہ پہلاطریقہ”مطلوبہ مقصد تک پہنچانا“ہے ۔قرآن مجید اور اسلامی روایات میں ”ہدایت“مذکورہ دونوں معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔
ایک اور اعتبار سے کبھی ہدایت صرف ”تشریعی “صورت کی حامل ہوتی ہے یعنی قوانین اور دستورار کے طریقہ سے واقع ہوتی ہے اور کبھی”تکوینی“صورت کی حامل ہو تی ہے ،یعنی خلقت کے نظام کی راہوں سے ہدایت کی جا تی ہے ،جیسے ایک مکمل انسان بننے کے لئے نطفہ کی مختلف مراحل میں ہدایت۔یہ دونوں معانی بھی قرآن مجید اور روایات میں ذکر ہوئے ہیں ۔ہدایت کی اقسام واضح ہو نے کے بعد ہم اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں۔(ہدایت کے مقابلہ میں گمراہی بھی اسی طرح ہے)۔
ہم بہت سی آیات میں پڑھتے ہیں کہ ہدایت اور گمراہی خدا کا کام ہے۔بیشک ”راستہ دکھانے“کا تعلق خدا سے ہے ،کیونکہ اس نے انبیاء کو بھیجا ہے اور آسمانی کتا بیں نازل کی ہیں تاکہ انسان کی راہنمائی کریں۔
لیکن جبری طور پر ”مقصد تک پہنچانا“یقیناارادہ و اختیار کی آزادی کے خلاف ہے۔ چونکہ خدا وند متعال نے منزل مقصود تک پہنچا نے کی تمام قوتیں ہمارے اختیار میں دے رکھی ہیںاور ہمیں توفیق بخشنے والا وہی ہے ،لہذا ہدایت کے یہ معنی بھی خداوند متعال کی طرف سے ہیں،یعنی خدا وند متعال نے تمام عوامل اور مقدمات کو انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے تا کہ وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے۔
۲۔ایک اہم سوال
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی بہت سی آیات میں پڑھتے ہیں: ”خدا وند متعال جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کر تا ہے:جیسے یہ آیت:
<فیضلّ اللّٰہ من یشاء ویھدی من یشاء وھو العزیز الحکیم> (سورہ ابراھیم/۴)
”خدا جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔“۱#
بعض افراد قرآن مجید کی دیگر آیات اور خود آیتوں کی ایک دوسرے کی تفسیر کو مد نظر رکھے بغیر ،اس قسم کی آیات کا مشاہدہ کر کے اعتراض کی زبان کھولتے ہیں اور سوال کرتے ہیں :یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا جسے چاہے ہدایت کرے اور جسے چاہے گمراہ کرے؟پس ہمارا کیا قصور ہے؟!
اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر کے وقت ہمیشہ دوسری آیات کے ساتھ ان کے رابطہ کو مد نظر رکھنا چاہئے تا کہ ہم ان کے اصلی اور حقیقی مفہوم سے آشنا ہو جائیں۔ہم یہاں پر ہدایت و گمراہی سے مربوط چند دوسری آیات کی نمونہ کے طور پر وضاحت کرتے ہیں تاکہ انھیں مذ کورہ آیت کے ساتھ ملا کر آ پ خود ضروری اور اصلی مطلب کو حاصل کر سکیں :
سورئہ ابراھیم کی آیت نمبر ۲۷ میں آیا ہے:
<ویضلّ اللّٰہ لظّلمین>
”خدا وند متعال ظالمین کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے ۔“
۱# اس آیہ شریفہ کا ترجمہ اگر یوں کیا جائے تو مذکورہ اشکال دور ہو جائے گا :”خدا اسے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے جو(گمراہی)چاہتا ہے اور اسے ہدایت دیتا ہے جو”ہدایت“چاہتا ہے ۔توجہ فر مائیے۔
ہم سورہ غافر کی آیت نمبر ۳۴ میں پڑھتے ہیں :
<کذلک یضلّ اللّہ من ھو مسرف مرتاب>
”خدا زیادتی کر نے والے اور شکی مزاج انسانوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے“
سورئہ عنکبوت کی آیت نمبر ۶۹ میں ہے:
<والّذین جاھدوا فینا لنھد ینّھم سبلنا>
”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے“
جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ خدا وند متعال کی مشیت اور اس کا ارادہ بلاوجہ نہیں ہے ،نہ وہ کسی کو بلا وجہ ہدایت کی تو فیق عطا کر تا ہے اور نہ کسی سے بلا وجہ سلب توفیق کر تا ہے۔
جو لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہین ،جنگ کی مشکلات کو برداشت کرتے ہیں ،اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرتے ہیں ،خدا کے دشمنوں کے خلاف ثابت قدمی کا ثبوت دیتے ہیں ،خدا وند متعال نے انھیں ہدایت کر نے کا وعدہ دیا ہے اور یہ وعدہ عین عدالت ہے۔
لیکن جو لوگ ظلم وستم کی بنیاد ڈالتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں زیادتی ،شک وشبہہ اور وسواس ایجاد کر نے کی کوشش کرتے ہیں ،خدائے متعال ان سے ہدایت کی تو فیق کو چھین لیتا ہے اور ان اعمال کے نتیجہ میں ان کا دل تاریک اور سیاہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ سعادت کی منزل تک پہنچنے سے محروم ہو جاتے ہیں ۔خدا کی طرف سے گمراہ کر دینے کے معنی یہی ہیں کہ خداوند متعال ہمارے اعمال کے نتیجہ کو ہمارے اختیار میں دے دیتا ہے اور یہ بھی عین عدالت ہے (توجہ فر مائیں!)
۳۔کیا خدا کا ازلی علم گناہ کی علت ہے؟!
آخری مطلب جو جبر واختیار کی بحث میں بیان کر ناضروری ہے ،وہ جبری عقیدہ کے قائل بعض لوگوں کا ”خدا کے ازلی علم“کے عنوان سے پیش کیا جانے والا بہانہ ہے۔
وہ کہتے ہیں:کیا خدا وند متعال جانتاتھا کہ فلاں شخص فلاں وقت کسی کو قتل کرنے یاشراب پینے کے جرم کا مرتکب ہو گا؟ اگر آپ کہیں خدا نہیں جانتاتھا ،تو آپ خدا کے علم کا انکار کرتے ہیں ،اور اگر کہیں کہ وہ جانتا تھا تواس شخص کووہ کام ضرور انجام دینا چاہئے ورنہ خدا کا علم واقع کے خلاف ہو گا ۔
لہذا خداوند متعال کے علم کو سچ ثابت کر نے کے لئے گناہ گاروں کومجبوراًمرتکب گناہ ہو نا چاہئے اور اطاعت کرنے والوں کو مجبوراً اس کی اطاعت کرنی چاہئے۔
لیکن ایسے افراد اپنے گناہوں اور خطاؤں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بہانہ تراشیاں کرتے ہیں ۔حقیقت میں وہ ایک نکتہ سے غافل ہیں کہ ہم کہتے ہیں خداوند متعا ل ازل سے ہی جانتاتھا کہ ہم اپنے ارادہ واختیار سے اطاعت یاگناہ انجام دیتے ہیں،یعنی ہمارا اختیار وارادہ بھی خدا کے علم میں ہے۔پس اگر مجبور ہو جائیں توخدا کا علم جہل میں تبدیل ہو جائے گا ۔(توجہ فر مائیں)
اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
فرض کیجئے ایک معلم جانتا ہے کہ فلاں شاگرد اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے فیل ہو جائے گا ۔اس کا یہ علم سو فیصد صحیح ہے کیونکہ یہ اس کے کئی برسوں کے تجربوں پر مبنی ہے۔
کیا فیل ہو نے کی صورت میں وہ شاگرد اپنے معلم کا گریبان پکڑ کر کہہ سکتا ہے کہ آپ کی پیشین گوئی اور علم نے مجھے فیل ہونے پر مجبور کیا؟!
اس سے بھی بہتر مثال یہ کہ فرض کریں ایک نیک اور بے خطا انسان ایک برے حادثہ کے وقوع سے پہلے اس کے بارے میں آگاہ ہو جاتا ہے اور کسی مصلحت کی بناء پر اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرتا ہے ،کیا اس نیک اور بے گناہ انسان کاعلم مجرم کی ذمہ داری کو سلب کرے گا اور اسے جرم کا مرتکب ہو نے پر مجبور کرے گا ؟!(دقت فر مائیں)
یا فرض کریں کہ ایک ایسی جدید مشین ایجاد ہو جو آئندہ رونما ہو نے والے حادثہ کے بارے میں چند گھنٹے پہلے ہمیں خبر دے ۔ہمیں یہ مشین دقیق اطلاع دیتی ہے کہ فلاں شخص اپنے مکمل اختیار و ارادہ سے فلاں وقت فلاں کام انجام دے گا ۔کیا یہ پیشین گوئی کسی کے لئے جبر و زبر دستی کا سبب بن سکتی ہے ؟!
مختصر یہ کہ علم خدا ہرگز کسی کو کسی کام پر مجبور نہیں کرتا ہے۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔ہدایت کی اقسام بیان کر کے ان کی وضاحت کیجئے ۔
۲۔ قرآن مجید کی آیات سے ایک ایسی آیت بیان کیجئے جس میں ہدایت وگمراہی کو خدا کی طرف نسبت دی گئی ہو۔
۳۔خدا کی ہدایت اور خدا کی گمراہی سے کیا مراد ہے؟
۴۔ خداوند متعال کے”ازلی علم “ سے کیا مراد ہے ؟
۵۔ کیا خدا کا ازلی علم ہمارے اختیار اور ذمہ داریوں کو سب کر دیتا ہے؟ اس سلسلہ میں ایک مثال کے ساتھ وضاحت کیجئے ۔
دسواں سبق:عدل الہٰی اور مسئلہ ”خلود“
ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید نے کفار اور گناہگاروں کے ایک گروہ کے بارے میں واضح طور پر دائمی سزا دینے یعنی دوسرے الفاظ میں ”خلود“کا ذکر کیا ہے۔
سورئہ توبہ کی آیت نمبر۶۸ میں آیا ہے:
<وعداللہّٰ المنٰفقین والمنٰفقٰت والکفّار نار جھنّم خٰلدین فیھا>
”اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں سے اور تمام کافروں سے آتش جہنّم کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
اسی طرح اس آیت کے ذیل میں باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہشت کے باغوں کا ہمیشہ کے لئے وعدہ کیا ہے:
<وعداللّٰہ المؤمنین والمومنٰت جنّٰت تجری من تحتھا الانھار خٰلدین فیھا> ( سو ر ہ توبہ/۷۲)
”اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔“
یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس بات کو کیسے قبول کیا جائے کہ ایک انسان جس نے دنیا میں زیادہ سے زیادہ اسی سال یا سو سال زندگی گزاری ہو اور اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو ،اسے کروڑوں سال بلکہ ہمیشہ ہمیشہ سزادی جائے؟!
البتہ یہ مطلب نیک اعمال کی جزا کے بارے میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیو نکہ خدا کی رحمت کا سمندر وسیع ہے اور جزا جتنی زیادہ ہو خدا کی بے انتہا رحمت اور اس کے فضل و کرم کی علامت ہو گی ۔لیکن برے اعمال اور محدود گناہوں کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لئے اس کو کیسے عذاب میں مبتلا رکھا جاسکتا ہے ۔خداوند متعال کی عدالت کے پیش نظر اس کی کیا وجہ بیان کی جاسکتی ہے؟
کیا گناہ اور اس کی سزا کے در میان ایک قسم کا تعادل بر قرارنہیں ہو نا چاہئے؟
جواب:
اس بحث اور سوال کے قطعی حل اور جواب تک پہنچنے کے لئے چند نکات پر دقت کے ساتھ غور وفکر کر نے کی ضرورت ہے:
الف:قیامت کے دن کی سزائیں اس دنیا کی سزاؤں سے ہر گز شباہت نہیں رکھتی ہیں ۔مثلاًاگر کوئی شخص دنیا میں کسی جرم ،جیسے چوری وغیرہ کا مرتکب ہو جائے تو اسے ایک خاص مدت تک جیل میں ڈال دیا جاتاہے،لیکن قیامت کی سزائیں اکثر انسان کے اعمال کے آثار اور اس کے کاموں کی خاصیتوں کے اعتبار سے ہو تی ہیں۔
واضح ترعبارت میں گناہگاروں کی تمام سزائیں ،جن کا سامنا انھیں دوسری دنیا (قیامت)میں کرنا پڑ تا ہے در حقیقت ان کے اپنے کئے گئے گناہوں کا نتیجہ ہے جو ان کے دامن گیر ہو تے ہیں۔
اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ایک واضح تعبیر موجود ہے،فر ماتا ہے:
<فالیوم لا تظلم نفس شیئاًولا تجزون إلاّ ماکنتم تعملون> (سورہ یٰس/۵۴)
”پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا اور تم کو صرف ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا،جیسے اعمال تم کر رہے تھے۔“
ایک آسان مثال سے ہم اس حقیقت کو واضح کرسکتے ہیں:
ایک شخص منشیات یا شراب پینے کا عادی ہے ،جتنا بھی اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلی چیزیں تیرے معدہ کو خراب،تیرے دل کو بیمار اور تیرے اعصاب کو مجروح کردیں گی ،وہ پروا نہیں کر تا ہے ۔چند ہفتے یا چند مہینے ان مہلک چیزوں کی خیالی لذت میں غرق رہتا ہے اور اس کے بعد بتدریج زخم معدہ ،عارضہ قلب اور اعصاب کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر دسیوں سال عمر بھران بیماریوں میں مبتلا ہو کر شب وروزان کے عذاب میں گزارتا ہے ۔کیا یہاں پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس شخص نے تو چند ہفتہ یا چند مہینے سے زیادہ عرصہ منشیات یا شراب کا استعمال نہیں کیا تھا ،دسیوں سال عمر بھر کیوں امراض میں مبتلا ہو گیا؟
اس کے جواب میں فوراً کہا جائے گا یہ اس کے عمل کا نتیجہ واثر ہے !حتی اگر وہ حضرت نوح﷼ کی عمر سے بھی زیادہ یعنی دسیوں ہزار سال بھی عمر پائے اور مسلسل رنج و عذاب میں رہے تب بھی ہم یہی کہیں گے کہ اس نے جان بوجھ کر اور آگاہانہ طورپر اس چیز کو اپنے لئے خریدا ہے۔
قیامت کے دن کی سزائیں زیادہ تر اسی طرح ہیں ،اس لئے عدالت الہٰی پر کسی قسم کا اعتراض باقی نہیں رہتا ہے۔
ب:بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سزاؤں کی مدت گناہ کی مدت کے برابر ہونی چاہئے ،یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے ،کیونکہ گناہ اور اس کی سزا کے در میان زمانہ کے اعتبار سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ سزا کا تعلق اس گناہ کی کیفیت اور نتیجہ سے ہوتا ہے۔
مثلاًممکن ہے کوئی شخص ایک لمحہ میں ایک بے گناہ انسان کو قتل کر ڈالے اور اس دنیا کے بعض قوانین کے مطابق اسے عمر قید کی سزا دی جائے ۔یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ گناہ انجام دینے کی مدت صرف ایک لمحہ تھی جبکہ سزا کی مدت دسیوں سال (عمر بھر)ہے،اور کوئی شخص اس سزا کو ظالمانہ شمار نہیں کرتا ہے،کیو نکہ یہاں پر منٹ،گھنٹے،مہینے یا سال کی بات نہیں ہے بلکہ گناہ کی کیفیت اور نتیجہ مد نظر رکھا جاتا ہے۔
ج:جہنم میں”خلود“ہمیشگی ،اور دائمی سزائیں ان لوگوں کے لئے ہیں ،جنہوں نے نجات کے تمام راستے اپنے اوپر بند کر لئے ہوں اور جان بوجھ کر فساد،تباہی اور کفر و نفاق میں غرق ہوئے ہوں اور گناہوں نے ان کے سارے وجود کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہو کہ حقیقت میں وہ خود گناہ و کفر کا روپ اختیار کر گئے ہوں۔
قرآن مجید میں یہاں پر ایک خوبصورت تعبیر ہے:
<بلیٰ من کسب سیّئة واحاطت بہ خطیئتہ فاولٰئک اصحٰب النّار ھم فیھا خٰلدون> (سورہ بقرہ/۸۱)
”یقینا جس نے کوئی برائی حاصل کی اور اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا،وہ لوگ اہل جہنّم ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
اس قسم کے افراد خداوند متعال کے ساتھ اپنے رابطہ کو مکمل طور پر منقطع کر لیتے ہیں اور نجات کے تمام راستوں کو اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں ۔
ایسے افراد کی مثال اس پرندہ کے مانند ہے جس نے جان بوجھ کر اپنے پروں کوتوڑ کر آگ لگا دی ہو اور وہ مجبور ہے ہمیشہ زمین پر رہے اور آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر نے سے محروم رہے ۔
مذکورہ بالا تین نکات اس حقیقت کو واضح کر دیتے ہیں کہ دائمی عذاب کا مسئلہ جوکہ منافقین اور کفار کے اےک خاص گروہ کے لئے مخصوص ہے ہر گز”عدل الہٰی“کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ان کے برے اعما ل کا نتیجہ ہے اور ان کو پہلے ہی اس بات سے انبیاء الہٰی کے ذریعہ آگاہ کیا جا چکا ہے کہ ان کاموں کا نتیجہ اتنا تلخ اور برا ہے۔
اگر یہ افراد جاہل ہوں اور انبیاء کی دعوت ان تک نہ پہنچی ہو اور جہالت اور نادانی کی وجہ سے ایسے اعما ل کے مرتکب ہوئے ہوں تو وہ یقینا اس قسم کی سزا کے مستحق نہیں ہوں گے ۔
اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور اسلامی روایتوں سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ گناہگاروں کے ایک بڑے گروہ کو بھی بخش دیا جائے گا:
کچھ لوگ شفاعت کے ذریعے
کچھ لوگ معافی کے ذریعے
کچھ لوگ معمولی نیک اعمال کے ذریعہ خدا کے فضل وکرم سے کثیر اجرپا کر بخش دئے جائیں گے۔
اور کچھ لو گ ایک مدت تک جہنم میں اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنے اور الہٰی بھٹی سے گزر کر پاک و صاف ہو نے کے بعد رحمت و نعمت الہٰی سے بہرہ مند ہوں گے ۔
صرف ایک گروہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گاجو حق کے خلاف اپنی دشمنی اور ہٹ دھر می ،ظلم وفساد اور بے حد نفاق کی وجہ سے سرتا پا کفر اور بے ایمانی کی گہری تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔جہنم کی دائمی سزا کو بعض افراد نے کیونکر عدل الہٰی کے خلاف شمار کیا ہے؟
۲۔کیا آخرت کی سزائیں اس دنیا کی سزاؤں کے مانند ہیں؟ اگر نہیں تو وہ سزائیں کیسی ہیں؟
۳۔کیا عدالت،گناہ کی مدت اور سزا کی مدت برابر ہو نے کا تقاضا کرتی ہے؟
۴۔دوزخ کی دائمی سزائیں کن لوگوں کے لئے ہیں؟
۵۔عفو الہٰی سے کون لوگ بہرہ مند ہوں گے؟
|