معرفت خدا کے دس سبق
چھٹا سبق: خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ
ب۔بیرونی راستہ
ہم جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں،اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ کائنات درہم برہم نہیں ہے بلکہ تمام موجودات ایک معیّن راہ پر
گا مزن ہیں اور کائنات کا نظم ایک بڑی فوج کے مانند ہے جو مختلف اور منظم یونٹوں میں تقسیم ہو کر ایک معین مقصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
مندر جہ ذیل نکات اس سلسلہ میں ہر شبہہ کو دور کرسکتے ہیں:
۱۔ہر زندہ مخلوق کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کے لئے ضروری ہے کچھ خاص قوا نین اور حالات ایک دوسرے سے جڑُے ہوئے پائے جائیں ۔مثلاً ایک درخت کے وجود میں آنے کے لئے:زمین،مناسب آب وہوا اور ایک معیّن دھوپ اور گر می کی ضرورت ہو تی ہے تا کہ بیج کو ڈالا جائے اور وہ اچھی طرح سے غذا حاصل کرے ،تنفس کرے ،سبز ہو جائے اور نشو ونما پائے ۔
ان حالات کے بغیر اس کی نشو ونما ممکن نہیں ہے ،ان حالات کو منتخب کر نے اور ان مقد مات کو فراہم کر نے کے لئے عقل اور علم ودانش کی ضرورت ہے۔
۲۔ہر مخلوق کا اپنا ایک خاص اثر ہو تا ہے ،پانی اور آگ میں سے ہر ایک کا اپنا خاص اثر ہے ،جو ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا ہے بلکہ ہمیشہ ایک ثابت اور پائدار قانون کی پیروی کر تا ہے ۔
۳۔زندہ مخلوقات کے تمام اعضاء آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کر تے ہیں مثال کے طور پر یہی انسان کا بدن جو بذات خود ایک عالم ہے ،عمل کے وقت اس کے تمام اعضاء شعوری اور لا شعوری طور پر ایک خاص ہماہنگی سے کام کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی خطرہ سے دوچار ہو جائے تو تمام اعضاء دفاع کے لئے متحد ہو جاتے ہیں ۔یہ نزدیک رابطہ اور تعاون،کائنات کے نظم کی ایک اور علامت ہے ۔
۴۔کائنات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ایک زندہ مخلوق کے اعضاء وجسم بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات بھی آپس میں ایک خاص ہماہنگی رکھتی ہیں۔ مثلاً زندہ مخلوقات کی نشو ونماکے لئے سورج چمکتا ہے ،بادل برستا ہے ،ہوا چلتی ہے ،زمین اور زمین کے منابع اس کی مدد کرتے ہیں ۔یہ کائنات میں ایک معین نظام کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔
”نظم وضبط“اور ”عقل“کا رابطہ
یہ حقیقت ہر انسان کے ضمیر پر واضح ہے کہ جہاں کہیں بھی نظم پایا جاتا ہو وہ”عقل،فکر،نقشہ اور مقصد“کی دلیل ہے۔
کیونکہ انسان جہاں کہیں بھی ایک ثابت نظم وضبط اور قوانین کا مشاہدہ کرے وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی علم وقدرت کے ایک مبدا کی بھی تلاش اور جستجو کر نی چاہئے اور اپنے ضمیر کے اس ادراک میں کسی استدلال کی ضرورت کا احساس بھی نہیں کرتا ہے۔
وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ایک اندھا اوران پڑھ شخص ہر گز ایک ٹائپ مشین سے ایک اچھا مضمون یاایک اجتماعی و تنقیدی مقالہ نہیں لکھ سکتا ہے ،اور ایک دوسال کا بچہ کاغذ پر نامنظم صورت میں قلم چلاکر ہر گز ایک اچھی اور گراں قیمت نقا شی نہیں کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر ہم ایک اچھا مضمون یا گراں قیمت مقالہ دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اور عقل و شعور والے کسی شخص نے اسے لکھا ہے ،یااگر کسی نمائش گاہ میں نقاشی کا ایک اچھا نمو نہ دیکھتے ہیں تو اس بات میں شک وشبہہ نہیں کرتے ہیں کہ اسے ایک ہنر مند نقاش نے بنایا ہے ،اگر چہ ہم نے کبھی اس ہنر مند نقاش کو نہ دیکھا ہو۔
اس لئے جہاں کہیں بھی نظم وضبط پا یا جائے اس کے ساتھ عقل و ہوش ضرور ہو گا اور یہ نظم جس قدر بڑا،دقیق تر اور دلچسپ ہو گا ،جس علم و عقل نے اسے خلق کیا ہے وہ بھی اسی قدر بڑا ہو گا ۔
بعض اوقات اس بات کو ثابت کر نے کے لئے کہ ہر منظم چیز کے لئے عقل ودانش کے سر چشمہ کی ضرورت ہے ،ریاضیات عالی میں ذکر شدہ ”احتمالات کے حساب“سے مدد لی جاتی ہے اور اس طریقہ سے ثابت کرتے ہیں کہ مثلاًایک ان پڑھ شخص اگر ٹائپ مشین کے ذریعہ اتفاقی طور پر مشین کے بٹن دبا نے سے ایک مقالہ یا چند اشعار کو لکھنا چاہے تو”احتمالات کے حساب “کے مطابق اس میں اربوں سال لگ جائیں گے کہ حتی کرئہ زمین کی پوری عمر بھی اس کے لئے کافی نہیں ہوگی ۔(اس کی مزید وضاحت کے لئے کتاب”آفرید گار جہان“یا کتاب ”در جستجو خدا“کا مطالعہ فر مائیں)
قرآن مجید فر ماتا ہے:
<سنریھم آیٰتنا فی الاٰفاق وفی اٴنفسھم حتّیٰ یتبیّن لھم اٴنّہ الحقّ اٴو لم یکف بربّک اٴنّہ علیٰ کل شیءٍ شھید>(سورہ فصلت/۵۳)
”ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تا کہ ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ برحق ہے اور کیا تمھارے پرور دگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے۔کہ وہ ہرشے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے۔“
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔صنعتی کار خانوں کی چند مثالیں(سبق میں بیان کی گئی مثال کے علاوہ )پیش کیجئے ،جن کے مشاہدہ سے خالق کائنات کے وجود کا علم حاصل ہو جائے۔
۲۔”آفاق“اور ”انفس“میں کیا فرق ہے؟آفاق اور انفس میں خدا کی نشانیوں کی چند مثالیں بیان کیجئے۔
ساتواں سبق:نظام خلقت کے چند نمونے
پوری کائنات میں ”نظم“،”مقصد“اور”نقشہ“کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔اب توجہ فر ما یئے کہ ہم ان کے چند نمونوں کو بیان کرتے ہیں:
ہم نے یہاں پر آپ کے لئے چند چھوٹے بڑے نمونے اکٹھا کئے ہیں۔
خوشبختی سے آج طبیعی علوم میں ترقی کے نتیجہ میں عالم طبیعت میں انسان،حیوان،پودوں،خلیوں اور ایٹم کی حیرت انگیز عمارت کی باریک بینیوں اور ستاروں کے حیرت انگیز نظام نے ہم پر معرفت خدا کے دروازے کھول دئے ہیں۔اس لئے جر اٴت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ طبیعی علوم کی تمام کتابیں تو حید اور معرفت خدا کی کتابیں ہیں ،جو ہمیں عظمت پروردگار کا درس دیتی ہیں،کیونکہ یہ کتابیں کائنات کی مخلوقات کے دلکش نظام سے پردہ اٹھاتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ خالق کائنات کس قدر عالم وقادر ہے۔
ملک بدن کی حکمرانی کا مرکز
ہماری کھوپڑی کے اندر خاکی رنگ کا ایک مادہ ہے ،جسے ہم مغز کہتے ہیں ۔یہ مغزہمارے بدن کے اہم ترین اور دقیق ترین حصہ کو تشکیل دیتا ہے ،کیو نکہ اس کاکام بدن کے تمام قوا کو فر مان جاری کرنا اور ہمارے جسم کے تمام اعضاء کو کنٹرول کرنا ہے۔اس عظیم مرکز کی اہمیت کو بیان کر نے کے لئے مناسب ہے پہلے آپ کے لئے یہ خبر بیان کریں:
جرائد میں یہ خبر نقل کی گئی تھی کہ ایک شیرازی طالب علم کو خوزستان میں ایک ٹریفک حادثہ کے نتیجہ میں مغز پر چوٹ لگ گئی تھی ،بظاہروہ سالم نظر آتا تھا ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تمام یاد داشتیں کھو بیٹھا تھا۔اس کا دماغ بخوبی کام کر تا تھا ۔مطالب کو سمجھتا تھا،لیکن اگر اپنے ماں یا باپ کو دیکھتا تو انھیں نہیں پہچانتا تھا۔جب اس سے کہتے تھے کہ یہ تمھاری ماں ہے ،وہ تعجب کرتا تھا ۔اسے اپنے گھر شیراز لے جایا گیا اور اس کی دستکاری۔۔جو اس کے کمرہ کی دیوار پر نصب تھی ۔۔اسے دکھائی گئی تو وہ تعجب سے ان پر نگاہ کر نے کے بعد کہتاتھا کہ میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
معلوم ہوا کہ اس مغزی چوٹ کے نتیجہ میں اس کے دماغ کی خلیوں کا ایک حصہ، جو حقیقت میں فکر اور حافظہ کے مخزن کے در میان رابطہ کے تار کا رول ادا کرتا ہے ،بیکار ہوا ہے اور جیسے بجلی کا فیوزاڑ جانے کے نتیجہ میں بجلی منقطع ہو کر تاریکی پھیل جاتی ہے ،اسی طرح اس کی سابقہ یادوں کا ایک بڑا حصہ فرا موشی کی تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔
شاید اس کے مغز کا بیکار شدہ حصہ ایک پن کی نوک سے زیادہ نہیں ہوگا ،لیکن اس نے اس کی زندگی پر کس قدر اثر ڈالا ہے !اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے مغز کا سسٹم کس قدر پیچیدہ ہے اور اہم ہے۔
مغز و اعصاب کا سلسلہ دواہم حصوں سے تشکیل پاتا ہے :
۱۔ارادی اعصاب :ہمارے بدن کے تمام اختیاری حرکات،جیسے:راہ چلنے دیکھنے ،باتیں کر نے و....کا سرچشمہ اعصاب کا یہی حصہ ہے ۔
۲۔غیر ارادی اعصاب:اعصاب کا یہ حصہ ،دل کی دھڑکن،معدہ وغیرہ جیسے اعضاء کا کنٹرول کرتا ہے۔مغز کے اس حصہ کا ایک ذرہ بیکار ہو نے کے نتیجہ میں ممکن ہے انسان کا قلب یاکوئی دوسرا عضو مختل ہو کر رہ جائے۔
دماغ کا ایک عجیب وغریب حصہ:
”مخ“(بھیجا)دماغ کا وہ چھوٹا حصہ ہے جو دماغ کے دوحصوں کے در میان واقع ہے ،مغز کا یہ بالکل چھوٹاحصہ ہوش ،ارادہ اور شعور کا مرکز ہے۔یہ مغز کا ایک اہم ترین حصہ ہے بہت سے جذباتی رد عمل ،جیسے غضب اور ترس وغیرہ اسی سے مربوط ہیں ۔
اگر کسی جانور کا ”مخ“الگ کر دیا جائے ،لیکن اس کے باقی اعصاب اپنی جگہ پر صحیح وسالم ہوں تو وہ جانور زندہ رہتا ہے لیکن فہم وشعور کو بالکل ہی کھو دیتا ہے۔ایک کبو تر کا ”مخ“نکالا گیا ۔وہ ایک مدت تک زندہ رہا۔لیکن جب اس کے سامنے دانہ ڈالتے تھے وہ اسے تشخیص نہیں دے سکتا تھا اور بھوکا ہو نے کے باوجود اسے نہیں کھاتا تھا ۔اگر اسے اڑاتے تھے ،تو وہ پرواز ہی کرتا رہتا تھا ،یہاں تک کہ کسی چیز سے ٹکراکرگر جاتا تھا۔
دماغ کا ایک اور حیرت انگیز حصہ،”حافظہ“ ہے۔
کیا آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ ہماراقوئہ حافظہ کس قدر حیرت انگیز ہے؟اگر ایک گھنٹہ کے لئے ہم سے حافظ چھین لیا جائے تو ہم کس مصیبت سے دو چار ہو جائیں گے؟!
حافظ کا مرکز ،جو ہماے دماغ کا ایک چھوٹا حصہ ہے ،ہماری پوری عمر کی یادوںکو تمام خصوصیات کے ساتھ ریکارڈکرتا ہے ۔جس شخص نے بھی ہم سے رابطہ قائم کیا ہو،اس کی تمام خصوصیات جیسے،قد،شکل وصورت،رنگ ،لباس،اخلاق اور جذبات کو ریکارڈ کر کے محفوظ رکھتا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک الگ فائل تشکیل دیتا ہے۔لہذا جوں ہی ہم اس شخص سے روبرو ہو تے ہیں ،ہماری فکر تمام فائلوں میں سے اس شخص کی فائل کو نکال کر فوری طور پر اس کا مطالعہ کرتی ہے ۔اس کے بعد ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اس کے مقابلہ میں کون سا رد عمل ظاہر کریں۔
اگر وہ دوست ہے تو اس کا احترام کریں اور اگر دشمن ہے تو اظہار نفرت کریں۔ لیکن یہ تمام کام اس قدر سرعت کے ساتھ انجام پاتے ہیں کہ وقت کے ذراسا بھی فاصلہ کا احساس تک نہیں ہو تا۔
اس مسئلہ پر تعجب اس وقت اور زیادہ ظاہر ہو تا ہے جب ہم اپنے حافظ میں موجود چیزوں کو تصویر کے ذریعہ کاغذپر تر سیم کر نا چاہیں یا انھیں کیسٹ میں ضبط کر نا چاہیں تو ہم بیشک کاغذ اور کیسٹ کی بڑی تعداد کو مصرف میں لاتے ہیں جو ایک انبار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔عجیب تر یہ ہے کہ ان کیسٹوں اور کاغذات میں سے ایک کو باہر نکالنے کے لئے ہمیں بہت سے مامورین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ،جبکہ ہمارا حافظہ ان تمام کاموں کو آسانی کے ساتھ فی الفور انجام دیتا ہے۔
بے شعورطبیعت کیسے باشعورچیزوں کی تخلیق کرسکتی ہے؟
انسان دماغ کے عجائبات کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان میں سے بعض کاکالجوں اور یونیورسٹیوںکی کتابوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔کیا اس پر باور اور یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ غیر معمولی ،انوکھا،دقیق،پیچیدہ اورپر اسرار دماغ کسی بے شعور طبیعت کی تخلیق ہوگی؟اس سے بڑھ کر کوئی بات تعجب انگیز نہیں ہوسکتی ہے کہ ہم بے عقل طبیعت کو عقل کا خالق جانیں!
قرآن مجید فر ماتا ہے:
<وفی اٴنفسکم اٴفلا تبصرون>(ذاریات/۳۱)
”خود تمھارے اندر بھی (خدا کی عظمت اور قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں)کیاتم نہیں دیکھ رہے ہو؟“
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔کیاآپ انسانی دماغ کے عجائبات کے بارے میں کچھ اور مطالب جانتے ہیں؟
۲۔خداوند متعال نے گوناگون حوادث کے مقابلہ میں انسانی دماغ کے تحفظ کے لئے کون سی تد بیریں کی ہیں؟
آٹھواںسبق: ایک چھوٹے سے پرندے میں حیرت انگیزدنیا
چمگادڑ اور اس کی عجیب خلقت
اس درس میں ہم اپنے بدن کے عظیم ملک سے۔۔کہ ہم نے اس کے سات شہروں میں سے ایک گلی کی بھی سیر نہیں کی ہے ۔۔باہر آکر تیزی کے ساتھ ادھر ُادھر گھوم پھر کر مخلوقات کے حیرت انگیز نظام کے چند نمو نے اکٹھا کریں گے:
ہم رات کی تاریکی میں آسمان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ہم ظلمت کے پردوں کے در میان ایک غیر معمولی پرندے کو پراسرار سایہ کی صورت میں دیکھتے ہیں جو پوری شجاعت کے ساتھ اپنی غذا حاصل کر نے کے لئے ہر طرف پرواز کر رہاہے۔
یہ پرندہ وہی ”چمگا دڑ“ ہے،جس کی ہر چیز عجیب ہے۔لیکن رات کی تاریکی میں اس کی پرواز عجیب تر ہے۔
اندھیری رات میں چمگا دڑ کا انتہائی سرعت کے ساتھ پروازکرنا اور کسی چیز سے اس کا نہ ٹکرانا اس قدر تعجب انگیز ہے کہ جتنا بھی اس پر غور کیا جائے اس پر اسرار پرندہ کے بارے میں نئے نئے اسرار معلوم ہو تے ہیں۔
یہ پرندہ رات کی تاریکی میں اسی سرعت وشجاعت کے ساتھ پرواز کرتا ہے کہ جیسے ایک تیز اڑنے والا کبوتر دن کے اجالے میں پرواز کر تا ہے ۔یقینا اگر اس پرندہ میں مانع کے بارے میں اطلاع دینے کا کوئی وسیلہ نہ ہو تا تو بڑی احتیاط سے اور آہستہ آہستہ پرواز کر تا۔
اگر اس پرندہ کو ایک تنگ و تاریک اورپرپیچ وخم اور سیاہی سے بھرے ٹنل(سرنگ)میں چھوڑ دیاجائے تووہ تمام پیچ وخم سے گزر جاتا ہے بغیر اس کے کہ ایک بار بھی ٹنل کی دیوار سے ٹکرائے اور ایک ذرہ سیاہی بھی اس کے پروں پر بیٹھے چمگادڑ کی یہ عجیب حالت اس کے وجود میں پائی جانے والی خاصیت کے سبب ہے جو کہ راڈار کی خاصیت کے ماند ہے۔
یہاں پر ہمیں راڈار کے بارے میں تھوڑی سی آگاہی حاصل کر نی چاہئے تا کہ ہمیں اس چھوٹے سے چمگادڑ میں اس راڈار کی حالت معلوم ہو جائے۔
علم فزیکس میں آواز کے سلسلہ میں ماورائے صوت کی امواج کے بارے میں ایک بحث ہے ۔یہ وہی امواج ہیں جن کا وقفہ اور طول اس قدر زیادہ ہے کہ انسان کے کان اسے درک کر نے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں ،اسی لئے انھیں ماورائے صوت کہتے ہیں ۔
جب اس قسم کی امواج کو ایک قوی ٹرانسمیٹر کے ذریعہ ایجاد کیا جاتا ہے ،تو یہ امواج ہر طرف پھیلتی ہیں ۔لیکن جوں ہی فضا میں کسی جگہ پر کسی رکاوٹ (دشمن کے جہاز یا کسی اور مانع)سے ٹکراتی ہیں ایک فٹ بال کے دیوار سے ٹکرانے کے مانند واپس پلٹتی ہیں بالکل اسی طرح کہ جب ہم ایک اونچے پہاڑ یا دیوار کے سامنے آوازبلند کرتے ہیں تو اس آواز کی گونج پہاڑ یا دیوار سے ٹکرا کر واپس لوٹتی ہے ۔ان امواج کی باز گشت کی مدت کے مطابق اس مانع کے فاصلہ کا صحیح انداز کیا جاسکتا ہے۔
بہت سے ہوائی جہازوں اور کشتیوں کو راڈرار کے ذریعہ سے ہی ہدایت کی جاتی ہے جہاں کہیں بھی وہ جانا چاہیں ۔اسی طرح دشمن کے ہوائی جہاز اور کشتیوں کو معلوم کر نے کے لئے بھی راڈار سے استفا دہ کیا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس چھوٹے سے پرندہ میں راڈار کے مانند ایک مشین موجود ہے ۔اس کا ثبوت یوں ملتا ہے کہ اگر چمکادڑ کو ایک بند کمرے میں پرواز کرائیں اور اسی لمحہ ماورائے صوت کی امواج کو سننے کے قابل امواج میں تبدیل کر نے والے ایک مائیکر وفون کو کمرہ میں رکھا جائے تو پورے کمرہ میں ایک نامفہوم گوش خراش آواز پھیل جائے گی اور ہر سیکنڈمیں ۳۰ سے ۶۰ مرتبہ ماورائے صوت کی امواج چمگادڑ سے سنی جائیں گی۔
لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ چمگادڑ کے کس عضو سے یہ امواج پیدا ہوتی ہیں یعنی اس کا ٹرانسمیٹرکون سا عضو ہے اور مائیکر و فون کون سا عضو ہے؟
اس سوال کے جواب میں سائنسدان کہتے ہیں:یہ امواج چمگادڑکے حلق کی نالی کے قوی پٹھّوں سے پیدا ہوتی ہیں اور اس کی ناک کے سوراخوں سے باہر نکلتی ہیں اور اس کے بڑے کان امواج کو حاصل کر نے میں مائیکروفون کاکام انجام دیتے ہیں۔
اس لئے چمگادڑاندھیری رات کی اپنی سیر و سیاحت کے دوران اپنے کانوں کا مر ہون منت ہے۔”جورین“نامی ایک روسی سائنسدان نے تجربے سے ثابت کیا ہے کہ اگر چمگادڑ کے کان کاٹ دئے جائیںتو وہ تاریکی میں کسی مانع سے ٹکرائے بغیر پرواز نہیں کرسکتا ہے۔جبکہ اگر اس کی آنکھوں کو بالکل ہی نکال دیا جائے تو پھر بھی وہ پوری مہا رت سے پرواز کر سکتا ہے ،یعنی چمگادڑ اپنے کانوں سے دیکھتا ہے،نہ اپنی آنکھوں سے اور یہ ایک عجیب چیز ہے۔(توجہ کیجئے!!)
اب ذرا غور کیجئے کہ اس چھوٹے سے پرندہ کے اس نازک جسم میں ان دو عجیب اور حیرت انگیز مشینوں کو کس نے خلق کیا ہے اور ان سے استفادہ کر نے کے طریقہ کو کس نے اسے سکھایا ہے تاکہ اس اطمینان بخش وسیلہ کے ذریعہ رات کے وقت اپنی پرواز کے دوران بہت سے خطرات سے محفوظ رہ سکے؟واقعاًکس نے سکھایا ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بے شعور اور بے عقل طبیعت ایسا کام انجام دے سکے؟اور ایک ایسی مشین کو آسانی کے ساتھ اس پرندہ کے بدن میں قرار دے ،جسے بڑے بڑے سائنسدان کافی رقو مات خرچ کر کے بناتے ہیں؟
شاعر کہتا ہے:
شائستہ ستائش آن آفریدہ گاری اس کارچنین دلاویز نقشی زماء وطینی
وہ خالق جہان ہی تعریف کے ہی لائق جو آب وگل دکش جہاں بنادے
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں چمگادڑ کی خلقت کے بارے میں ایک مفصل خطبہ میں فر مایا ہے:
”لاتمتنع من المضی فیہ لغسق دجنتہفسبحان الباری لکل شیء علی غیر مثال“(خطبہ /۱۵۵)
”وہ (چمگادڑ)شدید اندھیرے کی وجہ سے ہر گز اپنی راہ سے پیچھے نہیں ہٹتا ہے پاک ومنزّہ ہے وہ خدا جس نے کسی نمونہ کے بغیر ہر چیز کو خلق کیا ہے“
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔چمگادڑ کی خلقت کے بارے میں آپ کونسے مزید دلچسپ اطلاعات رکھتے ہیں؟
۲۔کیا آپ جانتے ہیں کہ چمگادڑ کے پر ،بچے کی پرورش کا طریقہ اور یہاں تک کہ اس کاسونا دوسرے حیوانات سے متفاوت ہے یعنی یہ مکمل طور پر ایک استثنائی پرندہ ہے
نواں سبق :حشرات اور پھولوں کی دوستی!
موسم بہار میں ایک دن ،جب ہوا رفتہ رفتہ گرم ہو رہی ہو،سرسبز اور خوبصورت باغوں اور کھیتوں کی ایک سیر کیجئے ۔آپ وہاں پر چھوٹے چھوٹے حشرات،شہد کی مکھیاں،طلائی مکھیاں ،تتلیاں اور چھوٹے چھوٹے مچھروں کو گروہوں کی صورت میں مشاہدہ کریں گے جوآہستہ آہستہ کسی قسم کے شور وغل کے بغیر ادھر اُدھردوڑتے پھرتے ہیں،ایک پھول سے اٹھ کر دوسرے پھول کی طرف پرواز کر تے ہیں ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی کی طرف اڑتے ہیں ۔
یہ حشرات اس قدر سر گرم عمل ہیں کہ جیسے کوئی مرموز طاقت ایک منتظم کے مانند انھیں حکم دیتی ہے اور ایک کارخانہ میں وردی پوش مزدوروں کی طرح ان کے پر وبال پھولوں کی زردی سے آغشتہ ہو کر مزدوروں کی شکل وصورت اختیار کر لیتے ہیں اور نہایت تندی اور لگن سے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔
حقیقت میں یہ ایک اہم ماموریت اور کام انجام دیتے ہیں ۔ان کی یہ ماموریت اس قدر عظیم ہے کہ پروفیسر رلئون برٹن اس سلسلہ میں کہتا ہے:
”بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ حشرات کے وجود کی بغیر ہمارے میوؤں کی ٹوکریاں خالی پڑی رہ جائیں گی“
ہم اس دانشور کے قول کے ساتھ اس جملہ کا اضافہ کرتے ہیں:”برسوں کے بعد ہمارے باغ اور لہلہاتے کھیت اس طراوت اور شادابی مکمل طور پر کھودیں گے ۔“اس لئے حقیقت میں حشرات میوؤں کی پرورش کرنے والے اور پھولوں کے بیج مہیّا کر نے والے ہیں۔
آپ ضرور پوچھیں گے کیوں کر؟اس لئے کہ پودوں کا حساس ترین حیاتی عمل یعنی عمل لقاح (fertilization )انہی حشرات کے ذریعہ انجام پاتا ہے ۔آپ نے ضرور یہ بات سنی ہوگی کہ بہت سے حیوانوں کے مانند پھولوں میں نر و مادہ پائے جاتے ہیں اور جب تک ان کے در میان ملاپ اور پیوند کا کام انجام نہ پائے ،بیج ،دانہ اور ان کے نتیجہ میں میوہ حاصل نہیں ہو گا ۔
لیکن کیا آپ نے کبھی اس پر غور کیاہے کہ پودوں کے بے حس وحرکت مختلف حصے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جذب ہوتے ہیں اور نر پھولوں کی خلیہ ،جو مرد کے نطفہ(sperm)کے حکم میں ہے،مادہ پھولوں کی خیلہ سے ،جو مادہ کے نطفہ ( )کے حکم میں ہے، ملتی ہے اور ان کے در میان ازدواج کے مقد مات فراہم ہو تے ہیں؟
یہ کام بہت مواقع پر حشرات کے ذریعہ انجام پاتا ہے اور بعض مواقع پر ہواؤں کے ذریعہ۔
لیکن یہ بات اتنی آسان نہیں ہے جیسا ہم خیال کرتے ہیں۔یہ مبارک اور بابرکت نکاح جو حشرات کی خواستگاری سے انجام پاتا ہے ۔اس کی ایک حیرت انگیز اور طولانی تاریخ ہے۔یہاں پر ہم اس کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں:
دوقدیمی اور جگری دوست
علم طبیعت کے سائنسدان مطالعات و تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نباتات اور پھول زمین شناسی کے دوسرے دور کے دوسرے حصہ میں وجود میں آئے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اسی دوران میں حشرات بھی وجود میں آئے ہیں اور یہ دونوںحوادث و واقعات سے پُرخلقت کی پوری تاریخ میں ہمیشہ دو وفادار اور جگری دوستوں کے مانند زندگی بسر کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لازم و ملزم رہے ہیں۔
پھولوں نے اپنے دائمی دوستوں کی محبت کو حاصل کر نے اور ان کے دہن کو شرین کر نے کے لئے ایک بہت ہی لذیز مٹھائی کو اپنے اندر ذخیرہ کیا ہے اور جب حشرات نر پھولوں کی خلیہ کو پیوند اور لقاح کے مقد مات مہیا کر نے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے زحمت اٹھاتے ہوئے پھولوں کے اندر داخل ہوتے ہیں!تو پھول انھیں اس مٹھائی کو مفت میں پیش کرتے ہیں،یہ مخصوص قند حشرات کے لئے اتنا میٹھا اور لذیز ہو تا ہے کہ انھیں بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
علم نباتات کے بعض ماہرین کا اعتقاد ہے کہ پھولوں کے خوبصورت رنگ اورخوشبوبھی حشرات کو اپنی طرف کھینچنے میں موثر ہیں ۔شہد کی مکھیوں پر کئے گئے تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ وہ رنگوں کو تشخیص دیتی ہیں اور پھولوں کی خوشبو کو درک کرتی ہیں۔
حقیقت میں یہ پھول ہیں جو خود کو حشرات کے لئے سجاتے ہیں اور خوشبو پھیلاتے ہیں تاکہ بازوق تتلیوں اور نفاست پسند شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔وہ بھی دل کھول کر اس دعوت کو قبول کر کے کام کے مقد مات کو فراہم کرتے ہو ئے ان کی مٹھائی کو تناول کر تے ہیں ۔یہی مٹھائی اور خاص قند ہے جو حشرات کی غذا شمار ہوتی ہے اور جب یہ بہت ڈھیرہو جاتی ہے تو یہی شہد بن جاتا ہے ۔کیو نکہ جب حشرات پھولوں کے پاس آتے ہیں ،تو اس مٹھائی سے تھوڑا سا کھاتے ہیں اور اس کا زیادہ تر حصہ بے تکلّف مہمانوں کی طرح اپنے ساتھ لے جاکر اپنے چھتوں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔پھولوں اور حشرات کے در میان دوستی و محبت کا یہ معاہدہ دوطرفہ منافع کی بنیاد پر ہمیشہ تھا اور رہے گا۔
توحید کاایک درس
جب انسان حشرات اور پھولوں کی زندگی میں ان حیرت انگیز نکات کا مطالعہ کرتا ہے ،توغیر شعوری طور پر اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے:پھولوں اور حشرات کے در میان اس دوستی و محبت کے عہد و پیمان کو کس نے برقرار کیا ہے؟
پھولوں کو یہ مخصوص مٹھاس اور لذیز غذا کس نے دی ہے ؟یہ دلکش اور خوشنما رنگ اور یہ خوشبو پھولوں کو کس نے عطا کی ہے کہ اس طرح حشرات کو اپنی طرف دعوت کرتے ہیں؟
حشرات،تتلیوں ،شہد کی مکھیوں اور بھڑوں کو یہ نازک پاؤں اور خوبصورت اندام کس نے عطا کئے ہیں تاکہ پھولوں کی خلیہ کونقل وانتقال دینے کے لئے مستعد و آمادہ رہیں؟
شہد کی مکھیاں کیوں ایک مدت تک خاص ایک ہی قسم کے پھولوں کی طرف رخ کرتی ہیں اور پھولوں اور حشرات کی خلقت کی تاریخ کیوں ایک ساتھ شروع ہوئی ہے؟
کیا کوئی شخص،جس قدر بھی ہٹ دھرم ہو،باور کر سکتا ہے کہ یہ سب واقعات پہلے سے مرتب ہوئے کسی نقشہ اور منصوبہ کے بغیر انجام پائے ہیں؟اور فطرت کے بے شعور قوانین ان حیرت انگیز مناظر کو خودبخود وجود میں لائے ہیں؟نہیں ،ہر گز نہیں
قرآن مجید فر ماتا ہے:
<واوحیٰ ربّک إلی النّحل ان اتّخذی من الجبال بیوتاًومن الشّجر وممّا یعرشون۔ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاسلکی سبل ربّک ذللاً >(سورئہ نحل/۶۸،۶۹)
”اور تمھارے پر وردگار نے شہد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ پہاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر بنائے اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نر می کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے۔“
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔پھولوں کی تہ میں پائی جانے والی مٹھاس اور ان کے رنگ و خوشبو کے کیا فائدے ہیں؟
۲۔شہد کی مکھیوں کی زندگی کے عجائبات میں سے آپ کیا جانتے ہیں؟
دسواں سبق:نہایت چھوٹی مخلوقات کی دنیا
چونکہ ہم اس عالم خلقت کے عجائبات کے در میان زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہم ان حیرت انگیز مخلوقات کی اہمیت سے اکثر غافل رہ جاتے ہیں ،مثال کے طور پر :
۱۔ہمارے ارد گرد بہت چھوٹے چھوٹے حیوانات اور حشرات پائے جاتے ہیں۔ کہ شایدان میں سے بعض کا جسم ایک یادو ملی میٹر سے زیادہ نہیں ہو گا ،پھر بھی یہ حیوانات ایک بڑے حیوان کے مانند ہاتھ پاؤں ،آنکھیں اور کان،یہاں تک کہ دماغ وہوش ،پٹھوں کا سلسلہ اور نظام ہاضمہ رکھتے ہیں۔
اگر ہم ایک چیونٹی کے دماغ کو مائیکر و سکوپ کے نیچے رکھ کر اس کی حیرت ناک بناوٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا عجیب اور دلچسپ بناوٹ ہے !اس کے مختلف حصے،جن میں سے ہر ایک حصہ اس چیونٹی کے چھوٹے سے اندام کے ایک حصہ کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے،ایک دوسرے کے ساتھ منظم صورت میں قرار پائے ہیں اور ان کی حالت میں معمولی سا خلل ان کے بدن کے ایک ہی حصہ کو مفلوج کر تا ہے۔
تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ اس چھوٹے سے دماغ میں، جو یقینا ایک پن کی نوک سے بھی بہت چھوٹا ہے،ہوش،ذہانت ،تمدن ،ذوق اور ہنر کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔بہت سے سائنسدانوں نے سالہا سال تک اس حیوان کی زندگی کے حالات پر تحقیق و مطالعہ کر نے میں اپنی عمر صرف کی ہے اور اس کے بارے میں دلچسپ اور حیرت انگیز نکات اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں۔
کیا جس نے اس قسم کے ایک چھوٹے سے حشرہ میں اس قدر ہوش،فطانت اور ذوق کو جمع کر دیا ہے ،وہ ایسی طبیعت ہو سکتی ہے جس میں ایک سوئی کی نوک کے برابر ہوش وذہانت نہ ہو؟
۲۔ایٹم کی پراسرار دنیا کے بارے میں ،ہم جانتے ہیں کہ سب سے چھوٹی مخلوق جس کے بارے میں بشر کو اب تک معلو مات حاصل ہوئی ہیں ایٹم اور اس کے اجزاء ہیں۔ایٹم اتنا چھوٹا ہے کہ طاقتور ترین مائیکرو سکوپ ،جو ایک تنکے کو پہاڑوں کی شکل میں دکھاتا ہے ،وہ بھی اسے دیکھنے میں عاجز ہے۔
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ایٹم کتنا چھوٹا ہے،تو بس اس قدر جانئے کہ پانی کے ایک قطرہ میں روئے زمین کی پوری آبادی سے زیادہ ایٹم موجود ہیں ۔اگر ہم ایک سینٹی میٹر باریک ترین تار کے پرو ٹونوں کو گننا چاہیں اور ایک ہزار افراد سے مدد بھی لیں اور ہر سیکنڈ میں ہر شخص ایک پرو ٹون کو جدا کرے تو ۳۰سے ۳۰۰ سال تک ایٹموں کے اختلاف کے مطابق ہمیں دن رات بیدار رہنا پڑے گا تاکہ ان کو گن سکیں۔
اب جبکہ ہمیں معلوم ہوا کہ ایک سینٹی میٹر باریک تار میں اس قدر ایٹم موجود ہیں، تو ذراسوچئے آسمان ،زمین ،آب وہوا،کہکشانوں اور ہمارے منظومہ شمسی میں کتنے ایٹم ہو ں گے ؟کیا انسان کا ذہن اس کے تصور سے خستہ نہیں ہو جائے گااور خالق کائنات کے علاوہ کوئی اس کا حساب لگا سکتاہے؟
ایٹم ،توحید کا درس دیتے ہیں
آج کل کی سائنسی بحث میں ایٹم شناسی اہم ترین بحث ہے ۔یہ انتہائی چھوٹی مخلوق ہمیں توحید کا درس دیتی ہے،کیونکہ ایٹم کی دنیا میں دوسری چیزوں سے زیادہ اس کے مندرجہ ذیل چار نکتے توجہ کو اپنی طرف مبذول کرتے ہیں:
۱۔غیر معمولی نظم وضبط۔ اب تک ایک سو سے زیادہ عناصر منکشف ہوئے ہیں ۔ان کے الیکٹرون تدریجاً ایک سے شروع ہو کر ایک سو سے زیادہ پر ختم ہوتے ہیں ۔یہ عجیب نظام ہرگز کسی بے شعور عامل کا پیداوار نہیں ہو سکتا ہے۔
۲۔قوتوں کا توازن۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کی مخالف برقی رویں ایک دوسرے کو جذب کرتی ہیں ۔اس لحاظ سے ایک ایٹم کے اندر موجود الیکٹرون جو منفی برقی رورکھتے ہیں ،ان کا مرکز(nucleus) ،جو مثبت برقی رو کا حامل ہے ،ان کو ایک دوسرے کو جذب کر نا چاہئے ۔
اور دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ نیو کلیس کے گرد الیکٹرونوں کی گردش سے قوئہ دافعہ(مرکزسے دور ہونے کی طاقت)وجود میں آتی ہے ۔اس لئے یہ قوئہ دافعہ الیکٹرونوں کو ایٹم کے دائرہ سے دور کر نا چاہتی ہے تاکہ ایٹم کا تجزیہ ہو جائے اور ادھر سے قوئہ جاذبہ الیکٹرو نوں کو جذب کر کے ایٹم کو نابود کر نا چاہتی ہے ۔
یہاں پر قابل توجہ بات ہے کہ ایٹموں کے اندر کس دقیق حساب سے قوئہ جاذبہ ودافعہ منظم ہوئی ہیں کہ الیکٹرون نہ بھاگتے ہیں اور نہ جذب ہو تے ہیں ،بلکہ ہمیشہ ایک توازن کی حالت میںاپنی حرکت کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔کیا یہ ممکن ہے کہ اس توازن کوایک اندھی اور بہری طبیعت نے وجود میں لایا ہو؟
۳۔ ہر ایک اپنے معین راستہ پر گامزن ہے۔
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ بعض ایٹموں کے متعدد الیکٹرون ہوتے ہیں لیکن یہ سب الیکٹرون ایک مدار پر حرکت نہیں کرتے ،بلکہ یہ متعدّد مداروں پر حرکت کرتے ہیں ۔
یہ الیکٹروں لاکھوں سالوں سے ایک معین فاصلہ پر اپنے حدود میں بڑی تیزی کے ساتھ حرکت میں ہیں اور ان میں آپس میں کسی قسم کا ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا ہے۔
کیاان میں سے ہر ایک کو ان کے معین مداروں میں قرار دینا اور ایک حیرت انگیز نظام کے ساتھ ان کو حرکت میں لانا ایک آسان کام ہے؟
۴۔ایٹم کی عظیم طاقت۔
ایٹم کی طاقت کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے صرف اس بات پر غور کر نا کافی ہے:
۱۹۴۵ء ء میں میلکسیکو کے ایک بے آب و علف صحرا میں ایک ایٹمی تجربہ انجام دیا گیا ۔ایک چھوٹے سے ایٹم بمب کو ایک فولادی ٹاور پر چھوڑ دیا گیا ۔اس نے پھٹنے کے بعد اس فولادی ٹاور کو پانی میں تبدیل کر دیا پھر اسے بھاپ میں تبدیل کر دیا اور ایک مہیب بجلی اور آواز بلند ہو ئی ۔جب سائنسدان اس جگہ پر پہنچے تو ٹاور کا کوئی نام ونشان نہیں پایا۔
اسی سال جاپان پردو چھوٹے ایٹم بم پھینکے گئے ۔ایک کو شہر ناکاسا کی پر اور دوسرے کر شہر ہیروشیما پر۔پہلے شہر میں ۷۰ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے اور اتنے ہی لوگ مجروح ہوئے اور دوسرے شہر میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے اوراتنے ہی لوگ مجروح بھی ہوئے،جس کے نتیجے میں جاپان نے مجبور ہو کر امریکہ کے سامنے بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈال دئے ۔
کیا ایٹم کے صرف ایک ذرّہ کے اسرار کا مطالعہ کر نا انسان کو خالق کائنات کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟
لہذا وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس کائنات میں موجود ایٹموں کی تعداد کے برابر خدا کے وجود کے دلائل موجود ہیں۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:
<ولواٴنما فی الارض من شجرة اٴقلام والبحر یمدّہ من بعدہ سبعة اٴبحر مانفدت کلمات اللّٰہ> (سورئہ لقمان/۲۷)
”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کا سہار دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الہٰی تمام ہو نے والے نہیں ہیں۔“
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔کیا آپ چیونٹیوں کی زندگی کے اسرار کے بارے میں کچھ اور
معلو مات رکھتے ہیں؟
۲۔کیا آپ ایک ایٹم کی بناوٹ کا خاکہ تختہ سیاہ پر کھینچ سکتے ہیں؟
دسویں سبق کی ایک تکمیلی بحث
خداوند متعال کی عظیم الشان صفات
صفات خدا
قابل غور بات ہے کہ جس قدر خلقت کائنات کے اسرار کا مطالعہ کر نے کے طریقہ سے خدا کو پانا یعنی وجود خدا کے بارے میں علم حاصل کر ناآسان ہے،اسی قدر خداوند متعال کی صفات کو بھی دقّت اور کافی احتیاط کے ساتھ پہچاننے کی ضرورت ہے۔
آپ ضرور پوچھیں گے کیوں ؟اس کی دلیل واضح ہے، کیونکہ خدا وند متعال ہماری کسی چیز سے یا جو کچھ ہم نے دیکھا ہے یا سنا ہے ان سب سے شباہت نہیں رکھتا ہے ۔ اسی لئے خدا کی صفت کو پہچاننے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اس مقدس ذات سے مخلوقات کی تمام صفات کی نفی کریں ۔یعنی خداوند عالم کو اس محدود عالم طبیعت کی مخلوقات میں سے کسی ایک سے بھی تشبیہ نہ دیں یہ ایک بہت ہی نازک مرحلہ ہے،کیونکہ ہم اس طبیعت کے اندر نشوونما پائے ہیں ،ہم طبیعت سے متصل ومرتبط رہے ہیں ،اس سے اُنس پیدا کر چکے ہیں ،اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہرایک چیز کو اس کے پیمانہ پر تولیں۔
دوسرے الفاظ میں ہم نے جو دیکھاہے وہ جسم اور جسم کی خاصیت رکھنے والی چیزیں تھیں،یعنی ایسی موجودات جوایک معین زمان و مکان کی حامل تھیں،ان کے مخصوص ابعاد اور اشکال تھیں ۔اس حالت میں ایک ایسے خدا کا تصورکہ نہ جسم رکھتا ہے اور نہ زمان و مکان ،اس کے باوجود تمام زمان و مکان پر وہ احاطہ رکھتا ہے اور ہر لحاظ سے لا محدود ہے، ایک مشکل کام ہے۔یعنی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس راستہ پر دقت کے ساتھ قدم رکھیں۔
لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا انتہائی ضروری ہے کہ ہم خدا وند متعال کی ذات کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہو سکتے اور اس کی ہمیں توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے ،کیونکہ اس قسم کی توقع اس بات کے مانند ہے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ ایک عظیم سمندر کو ایک چھوٹے سے کوزے میں سمو دیں یا ماں کے بطن میں موجود بچے کو باہر کی تمام دنیا سے مطلع کردیں،کیا ایسا ممکن ہے؟
اس نازک مرحلہ پر ممکن ہے ایک چھوٹی سی لغزش انسان کو معرفت خدا کے راستہ سے کوسوں دورلے جاکر پھینک دے اور بت پرستی ومخلوق پرستی کی سنگلاخ وادیوں میں آوارہ کر دے۔(توجہ کیجئے!) مختصر یہ کہ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ صفات خدا کا مخلوقات کی صفات سے کبھی موازنہ نہ کریں۔
صفات جمال و جلال
عام طور پر خداوند متعال کی صفات کو دوقسموں میں تقسیم کیاگیا ہے :صفات ثبوتیہ یعنی وہ صفات جو خداوند متعال میں پائی جاتی ہیں اور صفات سلبیہ یعنی وہ صفات جن سے خداوند متعال منزّہ ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا وند متعال کی ذات کتنی صفتوں کی مالک ہے؟اس کا جواب یہ ہے :خداوند متعال کی صفات ایک لحاظ سے لامحدود ہیں اور دوسرے لحاظ سے خداوند متعال کی تمام صفات ایک صفت میں خلاصہ ہو تی ہیں کیو نکہ خداوند متعال کی تمام ثبوتی صفات کو مندر جہ ذیل ایک جملہ میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:
خدا وند متعال کی ذات،ہر جہت سے لا محدود اور تمام کمالات کی مالک ہے۔
اس کے مقابلہ میں سلبی صفات بھی اس جملہ میں خلاصہ ہوتی ہیں:ذات باری تعالٰی میں کسی لحاظ سے کوئی نقص نہیں ہے۔
لیکن چونکہ دوسرے لحاظ سے کمالات اور نقائص کے در جات ہیں ،یعنی لا محدود کمال اور لا محدود نقص کا تصور کیا جاسکتا ہے،لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا وند متعال لا محدود صفات ثبوتیہ اور لا محدود صفات سلبیہ رکھتا ہے۔کیو نکہ جس کمال کا بھی تصور کیا جائے وہ خدا میں مو جود ہے اور جس نقص کا بھی تصور کیا جائے خداوند متعال اس سے پاک و منزّہ ہے۔لہذا خدا وند متعال کی ثبو تی و سلبی صفات لا محدود ہیں۔
خدا کی مشہور ترین صفات ثبوتیہ
خدا وند متعال کی معروف ترین صفات ثبوتیہ وہی ہیں ،جن کو مندرجہ ذیل مشہورشعر میں ذکر کیا گیا ہے:
عالم و قادروحیّ است و مرید ومدرک ہم قدیم ازلی پس متکلم صادق
۱۔خدا وند متعال عالم ہے،یعنی ہر چیز جانتا ہے۔
۲۔قادر ہے،یعنی ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
۳۔حیّ ہے،یعنی زندہ ہے،کیونکہ زندہ موجود وہ ہے جو علم وقدرت رکھتا ہو چونکہ خداوند متعال عالم وقادر ہے،اس لئے زندہ ہے۔
۴۔مرید ہے،یعنی صاحب ارادہ ہے اور اپنے کاموں میں مجبور نہیں ہے جو کام بھی انجام دیتا ہے اس کا کوئی مقصد اور فلسفہ ہوتا ہے اور زمین وآسمان میں کوئی بھی چیز فلسفہ اور مقصد کے بغیر نہیں ہے۔
۵۔خداوند متعال مدرک ہے،یعنی تمام چیزوں کو درک کر تا ہے،تمام چیزوں کو دیکھتا ہے،تمام آوازوں کو سنتا ہے اور تمام چیزوں سے آگاہ وباخبر ہے
۶۔خدا وند متعال قدیم اور ازلی ہے،یعنی ہمیشہ تھا اور اس کے وجود کا کوئی آغاز نہیں ہے ،کیونکہ اس کی ہستی اسی کی ذات کے اندر سے ابلتی ہے ،اسی وجہ سے ابدی اور جاودانی بھی ہے ۔اس لئے کہ جس کی ہستی اس کی ذاتی ہو اس کے لئے فنا اور نابودی کوئی معنی رکھتی۔
۷۔خداومد متعال متکلم ہے،آواز کی لہروں کو ہوا میں ایجاد کر سکتا ہے تا کہ اپنے انبیاء ومرسلین سے بات کرے،نہ یہ کہ خدا وند متعال زبان،ہونٹ اور گلا رکھتا ہے۔
۸۔خداوند متعال صادق ہے ،یعنی جو کچھ کہتا ہے سچ اور عین حقیقت ہے،کیونکہ جھوٹ بولنا یا جہل و نادانی کی وجہ سے ہو تا ہے یا ضعیف وناتوانی کی وجہ سے،چونکہ خداوند متعال عالم اور قادر ہے اس لئے محال ہے کہ وہ جھوٹ بولے۔
خدا کی مشہورترین صفات سلبیہ ۔
خدا وند متعال کی معرو ف ترین سلبی صفات مندرجہ یل شعرمیں ملاحظہ فر مائیں:
نہ مرکب بود وجسم ،نہ مرئی نہ محل بی شریک است ومعانی ،توغنی دان خالق
۱۔وہ مرکب نہیں ہے۔یعنی اس کے اجزائے ترکیبی نہیں ہیں ،کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے اجزاء کی احتیاج پیدا کر تا ،جبکہ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔
۲۔خداوند متعال جسم نہیں ہے ،کیونکہ ہر جسم محدود،متغیر اورنا بودی کے قابل ہو تا ہے ۔
۳۔خداوند متعال مرئی نہیں ہے یعنی دکھائی نہیں دیتا ،کیونکہ اگر وہ دکھائی دیتا تو جسم ہو تا اور محدود اور قابل فنا ہو تا۔
۴۔خدا وند متعال کو ئی محل نہیں رکھتا ہے ،کیو نکہ وہ جسم نہیں ہے تاکہ اسے محل کی ضرورت پڑے۔
۵۔خدا کا کوئی شریک نہیں ہے ،کیو نکہ اگر اس کا شریک ہو تا تو اسے ایک محدود مو جود ہو نا چاہئے تھا ،چونکہ دو لا محددودمو جودات ہر جہت سے نا ممکن ہیں،اس کے علاوہ اس دنیا کے قوانین کی وحدت اس کی وحدا نیت کی علامت ہے۔
۶۔خداوند متعال کے معانی نہیں ہیں، کیونکہ اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں۔
۷۔خداوند متعال محتاج اور نیاز مند نہیں ہے ،بلکہ غنی اور بے نیاز ہے،کیو نکہ علم و قدرت اور ہر چیز کے لحاظ سے ایک لا محدود وجود،کسی قسم کی کو ئی کمی نہیں رکھتا ہے ۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:
<لیس کمثلہ شیءٍ> (سورہ شوری ٰ آیت/۱۱)
”اس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے۔“
__________________
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔کیا خدا کی وحدانیت اور اس کے لاشریک ہو نے کے بارے میں آپ کے پاس کوئی اور دلیل موجود ہے؟
۲۔کیا آپ نے سنا ہے کہ بعض مذاہب تین خداؤں اور بعض دو خداؤں کے قائل ہیں ؟یہ کون سے مذاہب ہیں؟
|