مقالات خطیب اعظم
 

آئیے خواب دیکھیں مگر۔
خواب ہم روزہ دیکھتے ہیں۔ مگر خواب کی حقیقیت ہم کو نہیں معلوم۔ اپنی ہی حقیقت سے بےخبر ہونے کے بعد بھی ہمارا اپنے بارے میں یہی خیال ہے کہ ہم نے زیادہ باخیر پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ دو منزلہ جہالت ہے جس کو علماٗ لوگ جہل مرکب کہتے ہیں۔ خیر
ہم خواب روز دیکھتے ہیں مگر ہمارے اکثر خواب جھوٹے ہوتے ہیں جو ہمارے معدہ کی پیداوار ہوتے ہیں۔ معدہ ٹھیک ہوتا ہے تو اچھے اچھے خواب نظر آتے ہیں اور معدہ چوپٹ ہوتا ہے تو ڈروؤنے خواب ہم کو کئے کئے دن تک طوپٹ رکھتے ہیں ڈراؤنے خواب کے ڈر کو باقی رکھنا بھی چوپٹ معدہ کا کام ہوتا ہے چوپٹ معدہ اپنے کو خود جتنا چوپٹ رکھتا ہے۔ اپنی اس ڈیوٹی ( ڈر باقی رکھنے میں) اتنا ہی چوکس رہتا ہے۔ اور اس کی چوکسی ہم کو خواب کی تعبیر پوچھنے پر مجبور کرتی ہے۔ ملاجی ، مولوی صاحب عامل صاحب پنڈت جی کے پاس ہم کو ہمارا یہ معدہ لے جاتا ہے۔ ان کو اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں معلوم تو وہ ہمارے خواب کی تعبیر کیا بتلائیں گے۔ مگر معدہ کی بھی ایک برادری ہے اور برادری کا خیال برادری والا نہ کرےگا تو کون کرےگا۔
ملا ، مولوی ، عامل ، پنڈت سب کے معدے خالی پڑے تھے۔ ہمارا چوپٹ معدہ ہم کو ان کے پاس لے گیا۔ انھوں نے علم یا عقل کے مطابق نہیں کیونکہ علم و عقل ان کے پاس ہوتے ہی کب ہی البتہ اپنے خالی معدوں کے مطابق تعبیر بتلا دی۔ خواب نے تو چوپٹ کیا ہی تھا کہ ہم بوکھلائے ہوئے بلکہ بولائے ہوئے تعبیر پوچھتے پھر رہے تھے۔ تعبیر نے اور بھی چوپٹ کیا۔ عقل تو ماری ہی گئی تھی۔ دولت بھی ماری گئی۔ کسی کو پیسہ دیا۔ کسی کو مرغا دیا۔ کسی کو لوبان اور زعفران دیا۔ کسی کو گپ رقم دی تاکہ جو بلا آنے والی ہے وہ دفع ہو جائے۔ غرضکہ ہمارے چوپٹ معدہ نے اپنی برادری کی مدد کی۔ خالی معدے بھ گئے بلکہ اتنے بھرے کہ وہ بھی چوپٹ ہو گئے۔ اور برادری تب مکمل ہوئی جب ملا۔ مولوی ۔ عالم ۔ پنڈت کو بھی ڈراؤنے خواب نظر آنے لگے۔ یہ ہے خوابوؓ کا چکر۔ یہ چکر صرف اردو کا چکر نہیں ہے کہ سر چکرانے پر ختم ہو جائے بلکہ علماٗ لوگ اسے دور کہتے ہیں اور ایجوکیٹڈ لوگ اسے سر کل کہتے ہیں۔ غرض کہ خوابوں کا یہ دور تسلسل کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ حتی کہ تعبیر کے نام پر لوٹنے والے ملا۔ مولوی عالم پنڈت کو خواب میں تعبیر پوچھنے والے ان کا گلا گھوٹتے دیکھائی دیتے ہیں۔
البتہ کوئی خواب سچا بھی ہوتا ہے۔ مگر ہم جب خواب دیکھتے ہین تو اس وقت ہم کو اس کی سچائی کا علم نہیں ہوتا اور جب وہ سچا ثابت ہوتا ہے تو ہم کچھ کرنے سے مجبور ہوے ہیں۔ یہ ہے خوابوں کی وہ مجبوری۔ جس کو اگر ہم اپنی گرہ میں باندھ لیں تو پہلے اپنے معدے سے جھٹک دیں اور اپنے کاموں میں مصروف ہو جائیں۔ لوگوں کو خیال ہوتا ہے کہ ٓبح کی نماز کے وقت خواب دیکھا ہے لہذا ضرور سچا ہوگا مگر خواب تو سچا نہ ہوگا البتہ یہ بات ضرور سچی ہو جائےگی کہ ہم نماز کے وقت بھی نماز صبح پڑھنے کے بجائے خواب ہی دیکھتے ہیں۔ کیونکہ دین ایک خواب ہے جو ہم نے ماں کی گود میں دیکھا تھا۔ دین کی باتیں ہمیں بھولی بھولی خواب کی طرح یاد آ جاتی ہیں۔ لیکن دین ہمارے خیال میں نہیں ہے۔ اور ہمارا خیال اتنا بڑا بھی نہیں ہے کہ اس میں دین اور دنیا دونوں کو جگہ مل سکے۔ دنیا کی اس مختصر زندگی میں ہم دین کا خیال بھلا کہاں کر سکتے ہیں۔ البتہ قبر میں ہزاروں سال سونا ہوگا دین کے خواب وہاں دیکھ لیں گے مگر سنا ہے کہ جو دنیا میں دین کا خیال نہیں کرتا ہے ۔ ملائکہ اسے قبر میں پہلے ہی دن گرز مار کر قیامت تک کے لئے اس کی قبر کو آگ سے بھر دیتے ہیں پھر قیامت کے دن قبر نکال کر دوزخ میں ٹھونس دیتے ہیں لہذا اچھا تو یہی ہے بلکہ ضروری ہے بلکہ ضروری سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ قبر میں چین سے سونے کے ل۴ے اور جنت میں اڈمشن ملنے کے لئے دنیا میں پہلے دین کا خیال کریں۔ تو خدا ہماری دنیا کا بھی خیال کرےگا اور دین کا بھی۔ مگر بس بات دل کو قابو میں رکھنے کی ہے۔ اور یہ کام کچھ مشکل بھی نہیں۔ البتہ اپنے کو دل کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے دل کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔ مگر ہماری عادت تو دوسروں کے دلوں کو توڑنے کی پڑ گئی ہے دلوں کو ہاتھوں میں لینا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں ہے۔
خیر ۔ بات خواب کی چل رہی تھی۔ بعض لوگوں کو خوابوں میں بشارتیں ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ یہ ہدایت بھی ہوتی ہے کہ ایک درجن خطوب میں یہ بشارت لوگوں کو لکھ کر بھیجو ورنہ آفت میں پھنسوگے اور جسے لکھواے بھی ایک درجن خطوب میں بشارت لکھنا لازم ہے ورنہ وہ بھی آفت میں پھنسے گا شیطان بھی کیا کیا چکر چلاتا ہے۔ قرآن و حدیث لاکھ بیان ہو کہ نماز ۔ روزہ ۔حج ۔ زکوٰۃ ۔ خمس ۔ اطاعت والدین و غیر واجبات نہ ادا کروگے تو ضرور آفت میں پھنسو گے۔ جس سے چھٹکارا ملنے والا نہٰ ہے مگر ہم اسلام کے اقرار کے آگے عمل اور احکام کی پابندی میں پھنسے پر تیار نہیں ہیں۔ لیکن بشارت کے جھوٹے ۔ فرض خطوط کے شیطانی چکر سے ہم اپنے کو نہیں نکال سکتے۔ سب کو شک آتا ہے کہیں کوئی آفت نہ آ جائے عورتوں کو زیادہ۔ ان سے زیادہ مالداروں کو۔ ان سے زیادہ ظالم رشوت خور افسروں کو شک آتا ہے لہذا خطوط لکھے جائیں گے۔ لکھوائے جائیں گے۔ سائکواسٹائل ہوں گے فوٹو اسٹیٹ کا پیاں نکلائیں جائیں گی۔ پھر پتے ڈھنڈھے جائیں گے۔ ملک میں نہیں ملیں گے رو فارن کے پتوں پر بشارتی خطوط روانہ ہوں گے۔ ہم مشہور آدمی ہیں لہذا فرضی بشارتی خطوط سے ہماری روی کی توکری خالی نہیں رہتی ۔ اور روی کی ٹوکری کے پاس شیطان بیٹھا منہ بسورتا رہتا ہے اور ہم خدا کے فضل سے ہمستے رہتے ہیں اور اللہ نے چاہا تو ہمارا یہ مضمون شیطان کو موٹے موٹے آنسوں سے رلائےگا مگر وہ بڑا شیطان ہے اور کوئی طریقہ ایجاد کر لےگا۔ فرضی بشارتیں ۔ فرضی کہانیاں ۔ فرضی معجزہ سب اسی ملعون کے ہتھکنڈے ہیں۔ جن سے صرف معرفت و ایمان و یقین والے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ ان کو شک نہیں آتا باقی سب پھنس جاتے ہیں۔
مقدس خواب والوں کی ایک قسم زیارت والوں کی ہے کسی کو نبی کی زیارت ہوتی ہے کسی کو امام کی زیارت ہوتی ہے۔ کسی کو معسومہ۶ اور کسی کو شہدٗ اکی زیارت ہوتی ہے۔ یہ لوگ بذریعہ بیان اپنے خواب کی زیارت دوسرقں کو کراتے ہیں اور جس کے چہرہ پر ان کو زیارت کی بشارت کے بجائے سناٹا دکھائی دیتا ہے۔ ان کو اس کے ایمان ۔ اسلام بلکہ حالی ہونے میں شک ہو جاتا ہے۔ اور اگر یہ اعلان ہو گیا کہ جسے شک ہو وہ مسلمان اور مومن نہیں ہے تو شک والے اپنے شک کا اظہار لردیں گے لیکن اگر یہ اعلان ہوا کہ صرف حلالی ہی کو یقین آتا ہے تو ہر شخص اپنی ماں کی عزت کی خاطر اقرار کر لیتا ہے۔
اب تک ان جوابوں کا ذکر تھا جو ہم سوتے میں دیکھتے ہیں۔ اب ان کوابوں کا بھی ذرا چرچا ہو جائے جو ہم جاگتے میں دیکھتے ہیں۔ بغیر پرھے پاس ہو جانے کا خواب ۔ بغیر کمائے دولت مند ہا جانے کا خواب۔ یہ لاٹری اور معمہ کے ذریعہ بہت دیکھے جاتے ہیں۔ پہلے لاٹری کے خواب ماہوار آتے تھے اب ہر ہفتہ بلکہ روزانہ آنے لگے ہیں۔ بغیر آمدنی سے قرض لینا اور ادا ہو جانے کا خواب بھی دیکھا جاتا ہے۔ الکشن جیتنے کا خواب ان کو بھی دکھائی دیتا ہے جن کو کوئی نہیں جانتا۔ بعض لوگوں کو شادی ۔ شاعری ۔ ذاکری ۔ مصنف ہونے کے بھی خواب دکھائی دیتے ہیں جن کے تعبیر ہمیشہ الٹی ہوتی ہے۔ اب الٹی تعبیرں سنئے۔
لڑکے فیل ہوتے ہیں۔ گھ اور کالج سے نکالے جاتے ہیں اور سڑک چھاپ زندگی بسر کرتے ہیں۔ دین دنیا دونوں برباد ہو جاتی ہے لاٹری نہیں نکلتی ہے ایک دن فٹ پاتھ پر مرتے ہیں اور چندہ سے کفن دیا جاتا ہے۔ قرض ادا نہیں ہوتا ہے جائداد مع عزت کے نیلام ہوتی ہے سر چھپانے کی جگہ نہیں رہ جاتی۔ مگر سب سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ الکشن میں ضمانت ضبط ہوتی ہے۔ شادی کے نام پر بےوقوف بنائے جاتے ہیں۔ شزعری کے ذریعہ بے عزتی کراتے ہیں۔ ذاکری میں ہوٹنگ نصیب ہوتی ہے۔ تصنیف کے شوقین صرف اپنی ناکارہ زندگی کے مصنف بنتے ہیں۔ ان سے گھ روالے عجز رہتے ہیں مگر وہ کاغذ گودا کرتے ہیں۔ آخر میں ملک الموت کا غذات لے کر آجاتے ہیں۔ اور نامہ عمل شکل میں ان کی زندگی تصنیف ان کے ہاتھوں میں دی جاتی ہے۔
اگر ہم ایسے سارے خوابوں کے دیکھنے والوں کو محروم ۔ بدنصیب کام چور قرار دیتے ہیں تو ایک خواب ایسا ہے جو ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ نہ دین جانیں گے نہ دین پڑھیں گے نہ دین کی باتیں پوچھیں گے بلکہ جو سن لیں گے اسے یا جھٹلائیں گے ورنہ کم از کم عمل نہ کریں گے بلکہ ہر واجب طھوڑ دیں گے اور ہر حرام کرتے رہیں گے اور خواب دیکلھیں کہ جنت مل جائے گی۔ قبر بھی جنت کا باغ بن جائے گی مگر جب تعبیر الٹی ہوگی تو کیا ہوگا۔ اگر یہ بات ہم سوچ لیں تو جنت کا خواب دیکھنے کے بجائے جنتی زندگی دین کے سایہ میں بسر کرنا شروع کریں۔