مقالات خطیب اعظم | |||||
محرم آ رہا ہے
ہمارے سماج کی پریشانیوں مین سے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ محرم آ رہا ہے۔ بلکہ عورتیں رجب کے مہینہ سے ٹھنڈی سانس لے کر یہ کہنا شروع کر دیتی ہیں کہ بس اب محرم ہی خرچ کا زمانہ آ رہا ہے رجب میں کونڈے کرنا ہیں۔ شعبان میں شبرات کرنا ہے۔رمضان میں افطاری سحری کا انتظام کرنا ہے اگر بے روزہ گھرانہ ہے تو اُسے افطاری ، سحری کی فکر نہ سہی مگر عید کی فکر تو بہرحال ہوتی ہے۔ اور وہ فکر عید میں روزہ داروں سے زیادہ رمضان میں ڈبلے ہو جاتے ہیں۔ اللہ اللہ کر کے رمضان ختم ہوا عید میں بچوں کے کپڑے سینے کے انتظام سے چھٹی ملی تو فطرہ کی فکر کھائے جاتی ہے۔ فطرہ ہی وہ خوش نصیب دینی حکم ہے جس پر زیادہ سے زیادہ مومنین عمل کرتے ہیں۔ کیونکہ ثواب کے علاوہ فطرہ جان کی حفاظت کرتا ہے۔ اور عہد حاضر کا مومن دین کو بھی دنیا کے لئے مانتا ہے۔ جب چاہے تجرببہ کر لیجئے دس نمازیں ، بیس دعائیں ، تیس سورے نبتائے جن کے ذریعہ گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ ایک مومن بھی آپ سے پوچھنے نہ آئےگا۔ کہ کیا بیان کیا تھا۔ لیکن اگر بیان کیجئے کہ نماز عشاٗ کے بعد پابندی سے سورہ واقعہ پڑھنے والے کو روزی کی تنگی کبھی نہ ہوگی تو مرد تو مرد عورتیں بچوں کو بھیج کر پوچھیںگی۔ کہ اس سورہ کا نام لکھوا لاؤ۔ کس پارہ میں ہے ؟ یہ بھی پوچھ لینا ۔ ہم آپ کو بغیر پوچھے بتائے دیتے ہیں ستائنسیوں پارہ میں ہے۔ پڑھ کر دیکھئے انشاٗ اللہ روزی کی پریشانی نہ ہوگی۔ اگر چہ فطرہ کو محافظ جان ہونے کی وجہ سے مقبولیت حاصل ہے۔ مگر پھر بھی فطرہ اللہ کی راہ میں نکالنا ہے۔ لہذا مومنین کی سالانہ حساب فہمی کا قومی مظاہر فطرہ کی قیمت طے کرتے ہیں ہوتا ہے۔ فطرہ میں تین کلو گیہوں یا جو دینا ہیں۔ جو گیہوں یا جو نہ دیں سکے وہ اتنی قیمت دے جتنے قطرہ پانے والا ۳ کلو گیہوں یا جو خرید سکے۔ فطرہ پانے والا بازار سے خریدے گا۔ فطرہ لگانے والا سرکاری غلہّ کی دوکان کا نرخ لگائے بیٹھا ہے۔ فطرہ لینے والے کو آج خریدنا ہے جبکہ غلہّ مہنگا ہو چکا ہے مگر دینے والے نے چونکہ فصل پر سستا خریدا تھا لہذا وہ اسی بھاؤ سے قیمت لگانا چاہتے ہیں۔ سو کا سیدھا جواب یہ ہے کہ گیہوں یا جو دی دیجئے۔ قیمت کے چکر میں نہ پڑیے۔ مگر ماہرین حساب جمع ہوتے ہیں۔ ایک کہتا ہے ۵/ روپیہ ۱۳ پیسے ہوتے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے ۵ روپیہ ۱۱ پیسے ہوتے ہیں۔ ۲۲ رمضان سے بحث شروع ہوتی ہے۔ عید گزر جاتی ہے مگر حسابی مہارت کا لوہا منوانے والے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سوچیئے اگر دو نئے پیسے خدا کی راہ میں زیادہ ہی چلے گئے تو کیا حرج ہے۔مگر ریٹائرڈ اکاؤنٹینٹ مصر ہیں کہ نہیں حساب حساب ہوتا ہے جو۔ جو جو ہوتا ہے۔ بخشش کی بات الگ ہے۔ وہ سو سو ہو سکتی ہے۔ مگر کوئی ان سے پوچھے۔ آپ اپنے لئے کیا پسند کرتے ہیں خدا جو جو کا حساب لے یا سو سو کی بخشش کرے۔ جو اپنے لئے پسند کیجئے وہی رو راہ خدا کے لئے اختیار کیجئے۔ مگر ہماری بدنصیبی یہی ہے کہ عید کے لئے کپڑے جوتے ، سوئیاں کوشش کر کے اچھی خریدیں گے کہ جب لینا ہی ہے تو اچھی چیز لو۔ کچھ پیسے زیادہ لگ جائیں تو بھلے لگ جائیں مگر چیز تو ڈھنگ کی ہو۔ مگر فطرہ کے ذریعہ ڈھنگ کا ثواب لینے کی فکر کسی کو نہیں فطرہ اس طرح خریدتے ہیں جیسے جنت بس یہی سامان عید ہے۔ فطرہ نکال کر ایک مہینہ خالی بیٹھیے۔ کیونکہ خالی کا مہینہ آ گیا ۔ ہمارے معاشرہ میں خالی کے مہینہ کا بڑا چرچا ہے۔ اس میں کوئی خوشی کا کام ہم نہیں کر سکتے اگرچہ خدا نے آٹھویں امام کو اسی مہینہ میں پیدا کیا ہے۔ ہمارے گھروں میں خالی کے مہینہ میں بچے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ پیدائش پر ہمارا اختیار نہیں ہے۔ ویسے تاریخ پیدائش تو ہمیشہ ہمارے اختیار میں رہتی ہے۔ خالی میں پیدا ہونے والا بچہ منحوس نہیں ہے۔ ۱۱/ ذیقعدہ کو امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔ بڑی خوشی کی تاریخ ہے۔ مگر یہ اللہ کے کام میں وہ خالی کے مہینہ میں کے مہینہ میں جو چاہے کر دالے مگر ہم بندے اس منحوس مہینہ میں کوئی کوشی کا کام کوئی شادی نیا کام نہیں کر سکتے۔ خالی کا مہینہ ان ہی لوگوں کے لئے منحوس ہے جن کے لئے خالق کا مہینہ (رمضان) مبارک نہیں۔ ورنہ ہر دن کا مالک خدا ہے جن دنوں کو اس نے نحس بنا دیا ہے۔ اُن کے علاوہ کسی دن یا مہینہ کو منحوس کہنے کا ہمیں کیا حق۔ مگر ہمارے سماج کا ایک جواب ہے جس کا کوئی جواب نہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ مگر ہمارا دل نہیں بھرتا ہمیں شک آتا ہے۔ ہمارے یہاں اس مہینے میں خوشی کا کام نہیں ہوتا۔ اس " ہم " کا علاج خدا کے پاس ہے مگر اس نے علاج کا ایک دن معین کر دیا ہے۔ مگر اس دن کے بعد نہدوا ہے نہ غذا بس سزا ہی سزا ہے۔ ذیقعدہ کو خالی کا لقب عورتوں نے دیا ہے اور سماج کا پارلمینٹ اسمبلی کو نسل سب عقرتیں ہیں جو کچھ یہ پاس کر دیں وہی قانون ہے۔ ان کے قانون کو کوئی چیلینج نہیں کر سکتا ۔ جو چیلینج کرے وہ پہلے گھ سے پھر خاندان سے پھر سماج سے نکال باہر کیا جائےگا۔۔ ایسے میں کون نکوّ بنے۔ جس طرح انگوٹھا چھاپ منسٹر پڑھے لکھوں پر حکومت جھاڑتے ہیں اسی طرح عورتوں کے ذریعہ جاہلانہ رسوم، جاہلانہ شکوک ، جاہلانہ عقیدے ، جاہلانہ مصارف جاہلانہ عقیدتوں کی گرفت سماج پر مضبوط ہے۔ آئے خالی کی خالی خولی بحث سے آگے بڑھیں خالی کے بعد بقرعید کا مہینہ آ گیا بکرے کی یا قربانی کے حصہ کی فکر سب کو ہے کیونکہ قربانی سماج میں رائج ہے۔ اگرچہ مذہب میں سنت ہے۔ مگر سماج میں واجب ہے۔ مذہب کا واجب چھوڑا جا سکتا ہے مگر سماج کا مستحب چھوڑنا بھی ناممکن ہے۔ مذہب کے حرام کا اترکاب بے خوف اور بغیر کسی جھجھک کے زندگی بھر کیا جا سکتا ہے۔ مگر سماج کے مکروہ کے بجا لانے کی ہمت کسی میں نہیں۔ نماز ، روز ، حج ، زکوٰۃ ، خمس سب چھوٹ سکتے ہیں۔ روپیہ نہ ہو تو اس کو حاصل کرنے کے لئے چوری ، رشوت ، جھوٹ ، جیل سب ممکن ہے مگر باراتیوں کو بڑا کوشت کیسے کھلایا جا جا سکتا ہے۔ ناک گٹ جائے گی۔ لوگ تھو تھو کریںگے لڑکی کا معاملہ ہے جیسے بھی ہو کرنا ہے۔ ہاں اللہ کا معاملہ ہو تو دیکھ جائےگا۔ کون ابھی قیامت آئی جاتی ہے۔ اللہ معاف کر دےگا مگر بندے نہیں معاف کریںگے لہذا سماج کے احکام کی تعمیل کرو اور خدا کے احکام کی توہین کرو، ہنسی اُڑاؤ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے مسائل کا حل سماج کے احکام کی تعمیل مٰیں نہیں ہے۔ بقرعید عید سے ہلکی ہوتی ہے نئے کے بجائے دُھلے کپڑوں میں کام چل جانا ہے۔ البتہ بقرعید کے بعد ہی پورے سماج پر " محرم آ رہا ہے " کی بےچینی چھا جاتی ہے۔ کسی کو امامباڑہ کی پتائی کی فکر ہے۔ کسی کو پرانے پنجے اور پٹکے بدلوانے کی فکر ہے۔ کوئی ضریح کے لئے پریشان ہے کوئی سر پکڑے بیٹھا ہے کہ خاندانی عزاداری کا خرچ کیسے پورا کیا جائے کوئی سالانہ مجلس کے ل۴ے فکر مند ہے۔ کسی کو شب بیداری کی فکر ہے۔ کسی کو سبیل کی فکر ہے۔ کسی کو ۸/ محرم کی نذر کی فکر ہے۔ کسی کو اپنی انجمن کی فکر ہے۔ کسی کو اپنے ذاکر کی فکر ہے اور ذاکروں کو اپنے عشروں کی فکر ہے۔ محرم میں حلوائی سے لےکر ذاکروں تک سب کو کمانے کی فکر ہوتی ہے اور امیر عزاداروں سے لے کر غریب عزاداروں تک سب کو خرچ کی فکر ہے وہ فکر مند ہیں۔ کمانے میں کمی نہ رہ جائے۔ یہ فکر مند ہیں کہ خرچ میں ایسی کمی نہ رہ جائے کہ عورتوں کو شک آ جائے یا سماج انگلی اٹھائے۔ مگر جس کے دم سے محرم ہے اس ضسیں۶ کے مقصد شہادت کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ ورنہ ہم صرف عزادار یا ذاکر نہ ہوتے بلکہ خود بھی دیندار ہوتے اور محرم میں دیندار بنانے کی مہم بھی چلاتے۔ کل حسین شہید ہوئے تھے مگر دشمنوں کے ہاتھوں ۔ آج مقصد حسین شہید ہو رہا ہے عزاداروں کے ہاتھوں۔ یعنی محرم آ رہا ہے اور حسین جا رہے ہیں ۔ ہے کوئی جو حسین سے رکنے کی درخواست کرے۔ |