مکتب تشیع
 


پہلا باب
ابتدائی باتیں


عقیدے کے اصولوں پر غور کرنا واجب ہے
ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا نے ہمیں سوچنے کی قوت اور عقل کی طاقت دے کر ہم پر لازم کر دیا ہے کہ ہم اس کی مخلوقات کے متعلق سوچیں، بڑے غور سے اس کی خلفت کی نشانیاں دیکھیں اور دنیا کی پیدائش اور اپنے جسم کی بناوٹ میں اس کی حکمت اور تدبیر کی پختگی کا گہرا مطالعہ کریں۔ جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے۔سَنُرِیھِم اٰیٰتِنَا فِی الاٰفَاقِ وَفِی اَنفُسِھِم حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَھُم اَنَّہُ الحَقُّ
ہم بہت جلد دنیا کی اور ان (انسانوں )کی پیدائش میں اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں گے تاکہ ان پر یہ ظاہر ہوجائے کہ خدا ہی حق ہے۔ (سورہ حَم سجدہ ۔ آیت ۵۳ کا جزو)
ایک اور مقام پر خدا ان لوگوں کو جو اپنے بزرگوں اور پرکھوں کی پیروی کرتے ہیں
ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے:
قَالُوا بَل نَتَّبِعُ مَااَلفَینَا عَلَیہِ اٰبَاءَنَااَوَلَوکَانَ اٰبَاؤُھُم لاَ یَعقِلُونَ شَیئًا۔۔۔
انہوں نے کہا ، ہم اس طریقے پر چلتے ہیں جس پر ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے ۔ تو کیا ان کے بزرگ کچھ بھی یہ سمجھتے ہوں پھر بھی (وہ پیروی کے لائق ہیں)؟ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۱۷۰ کا جزو)
اسی طرح خدا ایک دوسرے مقام پر ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اپنے گمان اور مبہم اندازوں پر چلتے ہیں : اِن یَّتَبِعُونَ اِلَّاالظَّنَّ۔
(گمراہ اور مشرک لوگ) صرف گمان پر چلتے ہیں۔ (سورہ انعام ۔ آیت ۱۱۷ کا جزو)
حقیقت میں ہمارا یہ عقیدہ ہماری عقل کا حکم ہے جو ہم سے یہ چاہتی ہے کہ ہم اس پیدا ہونے والی دنیا کے متعلق سوچیں اور اس راستے سے خالق کو پہچانیں۔ اسی طرح وہ ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اس شخص کی دعوت پر غور کریں جو پیغمبر کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے معجزوں کا مطالعہ کریں۔ ان باتوں میں ہمارے لیے دوسرو کی پیروی مناسب نہیں چاہے وہ کتنے ہی اونچے مرتبے کے مالک ہوں۔
قرآن میں علم و معرفت کی پیروی اور غور و فکر کے متعلق جو ترغیب دلائی گئی ہے وہ حقیقت میں سوچ بچار کی اس پختگی اور آزادی کا بیان ہے جس پر تمام عقلمند لوگ متفق ہیں۔ در حقیقت قرآن مجید حقیقتوں کو پہچاننے اور ان کو سمجھنے کی اسی قدرتی صلاحیت سے ہماری روحو کو آگاہ کرتا ہے اور ذہنوں کو تحریک دے کر عقل کے فکری تقاضوں کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے اس لیے یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ انسانی اعتقادی معاملات میں بے پروا رہے اور اپنے لیے کسی ایک راستے کا انتخاب نہ کرے یا اپنے تربیت دینے والوں کی یا ہر شخص کی پیروی کرنے لگے بلکہ عقل کی فطری آواز کے مطابق جس کی تائید قرآن مجید کی واضح آیتوں سے بھی ہوتی ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ سوچے سمجھے اور عقیدوں (۱) کے اصول کا جنہیں اصول دین کہتےہیں بہت دھیا سے مطالعہ کرے۔ ان میں سب ہم توحید (۲) ، نبوت، امامت اور قیامت ہیں۔
جس شخص نے ان اصولوں میں اپنے بزرگوں یا دوسرے لوگوں کی پیروی کی ہے وہ یقیناً غلطی کر بیٹھا ہے اور سیدھے راستے سے بھٹک گیا ہے اسے ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔
..........
(۱) جو کچھ اس کتاب می مذکور ہے ۔ یعنی اصول عقائد ۔ متذکرہ بالامنعوں میں نہیں ہے، بعض عقائد جو اس کتاب میں موجود ہیں مثلاً قضا و قدر اور رجعت وغیرہ ، ان امور میں فکر اور عقلی تحقیق ضروری نہیں ہے بلکہ یہ جائز ہے کہ ایسے علماء کی پیروی کی جائے جو اس قسم کے اعتقادات رسول ﷺ اور اہلبیت رسول ؑ کی صحیح روایات سے سمجھ کر ہیمیں بتائیں۔
(۲) عدالت چونکہ خدائے حکیم سے جدا نہ ہونے والی ایک صفت ہے اس لیے مصنف نے یہاں اس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کا بیان صرف تقابلی مطالعے کے وقت ضروری ہوتا ہے (ناشر)

اس معاملے میں ہمارے عقیدے کا خلاصہ صرف دو باتیں ہیں:
۱:۔ اصﷺل دین کے پہچاننے میں خود تفکر و تدبر کرنا ضروری ہے۔ اس بارے میں کسی شخص کے لیے بھی دوسروں کی پیروی جائز نہیں ہے۔
۲:۔ غور و فکر کے ذریعے سے اصول دین کی پہچان۔۔۔۔۔ حکم شروع سے بھی پہلے ۔۔۔۔ عقل کے حکم کے مطابق واجب ہے، زیادہ صاف الفاظ میں یوں کہیے کہ اگرچہ تحریریں اور روایتیں عقلی دلیل کی تائید کرتی ہیں مگر اصول دین کی پہچان کو واجب ثابت کرنے کے لیے ہم دینی کتابوں اور روایتوں کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کرتے۔
اصول دین کی پہچان کو عقل کی رو سے واجب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ عقل اصول دین کی پہچان کی ضرورت اور اس معاملے میں سوچ و بچار اور غور و خوض کی ضرورت صاف صاف سمجھ لیتی ہے۔

فروعی اور عملی مسائل میں پیروی کی اجازت
اس کے برعکس ""فروع دین "" (عمل سے تعلق رکھنے والے احکام اور قوانین) میں یہ واجب نہیں ہے کہ ہر مسلمان ان کو سوچ بچار اور دلیلوں سے سمجھے بلکہ (جب کوئی بات دین کی طے کی ہوئی اور لازمی باتوں مثلاً نماز، روزہ اور زکات وغیرہ کے وجوب میں سے نہ ہو تو) مندرجہ ذیل تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کرلینے کی آزادی ہے
۔۔۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔ اجتہاد کا درجہ اور اس درجے کی لیاقت حاصل کرکے دلیل اور مباحثے کے ذریعے سے ان احکام تک پہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔ اپنے اعمال میں احتیاط کے مطابق چلے اس طرح کی احتیاط کے موارد سے واقف ہو مثلاً تمام مجتہدوں کے فتوے جمع کرکے جس بات پر اسے یقین ہوجائے اس کا فرض ہے کہ اسے انجام دے(۱)
۔۔۔۔۔۔۔۳۔۔۔۔۔۔ ایسے مجتہد کی تقلید کرے جو جامع الشرائط ہو یعنی عاقل و عادل ہو اور گناہوں سے بچتا ہو۔ اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو، نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہو اور اپنے مولا (خدا) کا حکم ماننے والا ہو۔
اگر کوئی شخص نہ مجتہد ہو نہ احتیاط پر عمل کرتا ہو اور نہ کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید میں ہو تو اس کی تمام عبادتیں ارکات جائیں گی اور قبول نہیں ہوں گی چاہے اس نے اپنی پوری عمر عبادت اور نماز روزے میں گزاری ہو بجز اس صورت کے کہ اس کے پچھلے اعمال اس مجتہد
..........
(۱) اگر مجتہدوں کے فتووں میں اختلاف پایا جائے یعنی بعض کسی عمل کو واجب جانتے ہوں اور بعض مستحب تو احتیاط یہ ہے کہ اس عمل کو بجا لایا جائے لیکن اگر بعض کہیں کہ فلاں عمل مکروہ ہے اور بعض کہیں کہ حرام ہے تو احتیاط یہ ہے کہ اس عمل کو انجام نہ دیا جائے۔ مزید برآں اگر بعض مجتہدین کسی عمل کو واجب کہیں اوربعض حرام کہیں تو اس صورت میں چونکہ احتیاط ممکن نہیں ہے ۔ اور کسی عمل کے کرنے یا نہ کرنے سے فرض کی ادائیگی کا یقین حاصل نہیں ہوگا لہذا ایسی صورت میں اجتہاد یا تقلید کرنا واجب ہے۔ (ناشر)
کے فتوے کے مطابق ہوں جس کی وہ بعد میں تقلید کر لیتا ہے اور اس نے ان (اعمال عبادت ) کے انجام دیتے وقت واقعی قصد قربت (خدا کے لیے اعمال کی انجام دہی) کا خیال کیا ہو۔

اَجتِہاد
ہمارا عقیدہ ہے کہ فروعی مسائل میں اجتہاد تمام مسلمانوں پر واجب اور غیبت (امام آخر الزمان علیہ السلام کی عدم موجودگی ) کے زمانے میں ""واجب کفائی"" ہے ۔ یعنی جب کافی تعداد میں لوگ اس فرض پ رکمر بستہ ہوجاتے ہیں اور اجتہاد کا منصب حاصل کرلیتے ہیں تو دوسرے لوگوں پر اجتہاد و اجب نہیں رہتا ۔ باقی لوگ انہیں پر اکتفا کرلیتے ہیں اور فروع دین اور اعمال کے قوانین اور اصولوں میں انہیں مجتہدوں کی تقلید کرتے ہیں جو اجتہاد کی شرائط پوری کرتے ہیں۔
ہر زمانے میں مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اس مسئلے پر توجہ دیں، جس وقت ان میں سے کچھ لوگوں نے درجہ اجتہاد حاصل کرنے کی کوشش کی اور وہ اجتہاد کے منصب پر پہنچ گئے۔ (اس لیے کہ ہر شخص ، سوائے اس کے جو اس کی صلاحیت رکھتا ہو، اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا) اور انہوں نے اس اہلبیت کی شرائط پوری کردیں کہ لوگ ان کی تقلید کریں تو پھر وہ دینی اعمال اور احکام میں ان کی طرف رجوع کریں اور ان کی تقلید کریں اور جب ایسے افراد نہ مل سکیں تو خود مقام اجتہاد حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جب اس کا حصول بھی سب کے لیے ممکن نہ ہو یا بہت زیادہ مشکل ہو تو اپنے گروہ میں سے کچھ لوگوں کو مقام اجتہاد حاصل کرنے کے لیے آمادہ کریں۔ لیکن یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ اس فرض کو یوں ہی چھوڑ دیں اور مرحوم مجتہدوں کی تقلید کرتے رہیں۔
اسلام کے وہ فروعی احکام اور مقررہ اعمال جو حضرت محمد ﷺ کے لائے ہوئے ہیں، انہیں شرعی دلیلوں پر خوب غوروفکر کرکے سمجھنے اور ان پر عبور حاصل کرنے کو اجتہاد کہتے ہیں، یہ احکام زمانے اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ بدل نہیں سکتے بلکہ
حَلاَلُ مُحَمَّدٍ حَلاَلٌ اِلیٰ یَومِ القِیَامَۃِ
وَحَرَامُ مُحَمَّدٍ حَرَامٌ اِلیٰ یَومِ القِیَامَۃِ
محمد ﷺ کا بتایا ہوا حلال قیامت کے دن تک حلال اور محمد ﷺ کا بتایا ہوا حرام قیامت کے دن تک حرام رہے گا۔

اِجتہاد کے مَآخِذ
۱:۔ قرآن مجید
۲:۔ سنت (رسول اکرم ﷺ اور ائمَّہ اہلبیت ؑ کے اقوال و افعال)
۳۔ اجماع
۴۔ عقل
ان میں سے ہر ایک کے ماخذ و مدرک بننے کی تشریح اصول فقہ کی کتابوں میں کی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مقام اجتہاد کا حاصل کرنا بہت سے علوم و معارف کا محتاج ہے جن کا حاصل کرنا صرف انہیں لوگوں کے لیے ممکن ہے جو بہت زیادہ محنت اور کوشش کرتے ہیں اور اس راہ میں اپنا پورا زور لگادیتے ہیں۔

مَجتَہِد :۔ مرجع تقلید
تقلید کے لیے جملہ شرطیں پوری کرنے والے مجتہد کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ امام ؑ کی غیبت کے زمانے میں ایک طرح ان کا نمائندہ اور قائم مقام ہوتا ہے، وہ حاکم اور مطلق سربراہ ہے (تفصیل کے لیے آیت اللہ خمینی کی کتاب ولایت فقیہ ملاحظہ فرمائیں) قضاوت اور حوادث میں آخری حکم لگانے اور فرمان جاری کرنے میں جو کچھ امام ؑ کے لیے جائز ہے وہی اس کے لیے بھی جائز ہے جو کوئی ایک جامع شرائط مجتہد کی تردید کرتا ہے وہ ایسا ہے جیسے اس نے امام ؑ کی تردید کردی ہے اور امام ؑ کی تردید کرنا خدا کی تردید کرنا ہے اور یہ کام خدا کے ساتھ شرک کرنے کی حد میں آتا ہے امام جعفر صادق ؑ نے یہ بات اسی طرح سمجھائی ہے ۔
اس بنا پر مجتہد کا مقام صرف یہی نہیں ہے کہ لوگ فتوے لینے کے اس کی طرف رجوع کریں بلکہ وہ ولایت عامہ کا منصب بھی رکھتا ہے (یعنی حالات کے متعلق آخری حکم اور فیصلے کے لیے لوگ اس کے پاس آئیں) اور یہ اس کے خصوصی مقامات میں سے ایک مقام ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کے لیے یہ عہدہ داری بالکل اسی طرح جائز نہیں ہے ۔ جس طرح اس کے حکم کے بغیر ""حدود"" اور ""تعزیرات" کا جاری کرنا روا نہیں ہے۔
وہ اموال جن پر امام علیہ السلام کا حق ہے ان کے خرچ کے بارے میں بھی مجتہد سے پوچھا جاتا ہے ۔ عوام کی یہ سرداری اور یہ منصب خود امام ؑ نے جامع الشرائط مجہتد کے سپرد کیا ہے تاکہ مجہتد کےسپرد کیا ہے تاکہ مجتہد ان کی غیبت کے زمانے میں ، ان کا نمائندہ اور قائم مقام قرار پائے۔ اسی لیے مجہتد کو "نائب امام"" کہا جاتا ہے۔