• کتاب کا نام: کربلا کی خاک پر سجدہ
• مولف: سید رضا حسینی نسب
• مترجم: محمد اصغر صادقی
• ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)
• پیشکش: مہدی (عج) مشن
مقدمہ
آیت اللہ جعفر سبحانی دامت برکاتہ
مٹی پر سجدہ کرنا روح عبادت ہے
اسلامی محققین اپنی بصیرت کی بنا پر اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ تمام موجودات اپنے خالق سے ایک خاص رابطہ رکھتی ہیں ۔ اگر اس رابطہ کو خالق سے توڑ دیا جائے۔ تو پھر ان موجودات کا وجود ہی فنا کی نذر ہو جائے گا ۔ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ” اے لوگو تم سب کے سب خدا کے محتاج ہو اور ( صرف ) خدا ہی (تمام لوگوں ) سے بے نیازاور حمد و ثنا کا مستحق ہے “ (۱)
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اپنے کو پہچاننا خدا کو پہچاننا ہے کیونکہ حقیقت وجود انسان بھی اس ذات غنی و حمید سے مربوط ہے ۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے کو پہچانے اور اس حقیقی رابطہ کو فراموش کر دے جو اس کے ا ور رب جلیل کے درمیاں موجود ہے ۔
لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ” خدا کو بھولنا خود کو فراموش کرنے کے مترادف ہے“ جیسا کہ قرآن مجید اس چیز کی طرف اس آیہٴ شریفہ میںاشارہ کررہا ہے (اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو خدا کو بھلا بیٹھے تو خدا نے انھیں ایسا کردیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے۔ (۲)
انسان کو ان لوگوں جیسا نہیں ہونا چاہئے جنھوں نے خدا کو بھلا دیا کیونکہ قرآن خود ان کو جواب دیتا ہے کہ انھوں نے اپنی ہستی کو بھلا دیا ہے ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ نمک کھائے اور نمک دان کو بھول جائے ؟!یہ ناشکری کی آخری حد ہے۔خالق و مخلوق کا رابطہ یہ وہ حقیقت ہے جس تک محققین دلیل و برہان کے ذریعہ پہنچے ہیں۔اور عرفاء سیر وسلوک کے ذریعہ کشف و شہود کی منازل کو طے کرنے کے بعد بصیرت کی نگاہوں سے اس رابطہ کا مشاہدہ کیا ہے۔جبکہ بہت سارے عام لوگوں نے بھی فطرت کی طرف رجوع کرکے اس حقیقت کو درک کیا ہے کہ انسانی وجود کا دارو مدار ہر لحاظ سے اسی بے نیازخدا سے رابطہ کے او پر قائم ہے ۔واضح ہے، کہ خدا کی پہچان انسان کے بدن میں ایک جنبہ روحی کی حیثیت سے تجلی اور خودنمائی کرتی ہوئی خدا کے سامنے فروتن و خاضع ہوتی ہے ۔اس لئے کہ تمام کی تمام شریعتیں اور عبادتیں مثلا نماز و روزہ اس لئے ضروری قرار دئے گئے ہیں کہ عقلاء فکر و تدبر سے اور عرفاء کشف و شھود سے اور ایک عام انسا ن ا پنی فطرت کی طرف رجوع کرکے خدا وند عالم کی بارگاہ میں سر بسجود ہو ۔ اسلام کا مقدس نظام گذشتہ شریعتوں کا خلاصہ ا ور نچوڑ ہے ۔
خود یہ نماز انسان کی حس اولیہ کو جلاء و روشنی بخشتی ہے، ہم اس کا احساس نہیں کرسکتے، کیونکہ نماز ایک عبادت توقیفی ہے۔ لہٰذا اسکی تمام خصوصیات کو خداوند عالم ہی جانتا ہے ۔
فقہ امامیہ میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نماز پڑھنے والا صرف زمین ( پتھر ا ور خاک ) اور جو چیز اس سے اگتی ہے اس پر سجدہ کرے ان شرائط کی پابندی کرنا علماء امامیہ کی نظر میں ضروری و لازمی ہے ، اور اس کا فلسفہ یہ ہے کہ زمین ونباتات پرسجدہ فروتنی و خاکساری کی عظیم تجلی گاہ ہے جو نماز کا پہلا مقصد ہے کہ انسان خداوند جلیل کے سامنے اپنے کو ذلیل و حقیر اور پست و نادار شمار کرے جیسا کہ گذشتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔(فاطر ۱۵ )
اب سونے ،چاندی اور قیمتی کپڑے اور لباس پرسجدہ کرنا کیا فروتنی و انکسار ی کے ساتھ سازگاری رکھتا ہے ؟! اس لئے اہل بیت (ع) کے چاہنے والے ، کارخانہ ، مراکز ، مسافرت اور ہر وہ جگہ جہاں پر انکو یہ اندیشہ ہو کہ مٹی نہ ملے گی وہاں اپنے ساتھ پاک و پاکیزہ مٹی لے جاتے ہیں تاکہ نماز کے وقت خدا کے سامنے ( خاک ریز ہوں ) خاک پر سجدہ کریں لہٰذا ایسا کام بدعت اور اسلام میں نوآوری کا باعث نہیں ہے۔ بلکہ عین فروتنی ہے، کیونکہ بزرگان ما سلف کے درمیان بھی ایسی ہی رسم موجود تھی ۔بلکہ واجب ہے کہ انسان ایسا کرے تاکہ نماز تمام شرائط کیسا تھ انجام دی جا سکے ۔ اور یہ بھی کتنی پیاری چیز ہے کہ بعض افراد اپنے گھروں میں ، جھولیوں میں تھوڑی خاک رکھے رہتے ہیں ،تاکہ مجبوری میں اس پر تیمم کر کے اپنے فریضہ سے سبکدوش ہو سکیں ۔ اس لئے کہ ہر وقت انسان کی دسترسی پاک مٹی تک نہیں ہوتی ہے اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے: <صعیداً طیباً >پاک مٹی پر تیمم کر کے اپنے فریضہ کو انجام دو ۔ (کہنا پڑیگا ) علماء اہل سنت زمین اور اس سے اُگنے والی چیزوں پر سجدہ کرنے کے فلسفہ سے آگاہی نہیں رکھتے بلکہ وہ صحابہ و تابعین کی سنت و سیرت سے بھی لا علم ہیں اس کتاب میں خاک پر سجدہ کرنے کا فلسفہ صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، اگر وہ لوگ اسکو دقت اور توجہ سے مطالعہ کریں تو مجبور ہو کر اپنے فریضہ کی ادائیگی میں تجدید نظر اور تبدیلی کی سونچ میں پڑ جائں گے ۔تعجب ہے بہت سارے نادان اور نام نہاد علماء کا خیال خام یہ ہے کہ شیعہ خود مٹی کی عبادت کرتے ہیں جبکہ یہ بات بدیہی اور واضح ہیکہ شیعہ خضوع و خشوع اور فروتنی کے لئے خاک پر سجدہ انجام دیتے ہیں ۔
جس طریقے سے مسلمانوں کے تمام فرقے کسی نہ کسی چیز پر سجدہ کرتے ہیں، (ہم نہیں کہتے کپڑے کی پوجا کرتے ہو ) اسی طرح ہم بھی دو چیزوں پر ( زمین اور اس سے اگنے والی چیز ) سجدہ کرتے ہیں ، جس طریقے سے وہ لوگ کپڑے و کتان پر سجدہ کرنے کو خودکپڑے کی عبادت نہیں کہتے تو ہم مٹی پر سجدہ کرتے ہیں کہاں سے مٹی کی عبادت ہو جائے گی! قارئین محترم آپ حضرات کے سامنے یہ تمام بحثیں وضاحت و تفصیل کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے ۔ پڑھیئے اور محظوظ ہویئے ۔ہم موٴلف عالیقدر حجةالاسلام و المسلمین جناب سید رضا حسینی نسب کے شکر گذار ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کے لکھنے اور تحقیق و تتبع کرنے میں بڑی زحمت برداشت کی ۔ اور دوست عزیز جناب آقای حاجی حسن محمدی پرویزیان کے بھی شکر گذار ہیں کہ انکی بیکراں سفارش اور تاکید کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی اور حکم الدال علی الخیر کفاعلہ ( کار خیر کی راہنمائی مثل انجام دینے کے ہے ) کے مطابق وہ بھی اس ثواب عظیم و اجر جزیل میں موٴلف ارجمند کے ساتھ شریک ہیں ۔ درگاہ خدا میں دست بدعا ہیں کہ یہ رسالہ اتحاد و بھائی چارگی اور تمام مسلمانوں کے درمیان حسن تفاہم کا باعث بنے ۔
جعفر سبحانی
قم موسسہ امام صادق (ع)
۲۵ /۵/ ۱۳۶۹ مطابق ۲۵ محرم الحرام ۱۴۱۱ ھئ
--------------------------------------------------------------------------------
(۱) فاطر/۱۵۔<یَا اَیھَا النَّاسُ اَنتُم الفُقرَاءُ اِلیَ اللّہِ وَاَللّہُ ھُوَا الغَنیُّ الحَمِیدُ>۔
(۲) حشر/۱۹ <وَلَا تَکُونوُا کَا لّذِینَ نَسُو اللَّہِ فَانَسَاھُم اَنفُسَھُم >
|