ہدایت الہی کے اقسام
ہدایت الہی دوقسم کے ہیں:
١۔ ہدایت عامہ
آیات قرآنی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کی ہدایت الہی کسی ایک فرد سے مخصوص نہیں بلکہ تمام عالم کون ومکان کیلئے عام ہے ۔ خواہ عاقل ہو یا غیر عاقل ۔ اس ہدایت کو دو ہدایتوں میں خلاصہ کیا گیا ہے ۔
الف: ہدایت عامہ تکوینی:
وہ آیات بتاتی ہیں کہ خدا نے جس چیز کو بھی خلق کیا تو فوراً اسے اس کی غایت اور ہدف کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا : فلان ہدف اور غرض کیلئے تمہیں خلق کیا ۔ چنانچہ موسی کلیم اللہ کی زبان پر جاری کیا : قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى -1- موسٰی نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے۔
ایک دانہ گندم کی مثال لیں کہ جب ہم زمین میں اسے بھوتے ہیں تو وہ اپنی نازک بال کے ذریعے سخت مٹی کو چیرتا ہو اکھلی فضا میں آتا ہے ۔ اور نشو نما پاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک تناور پودے کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اور اپنا ثمرہ دینا شروع کرتا ہے ۔ اسی طرح حیوانات اور انسان بھی ہیں ۔ اور فرمایا: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىوَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى-2- اپنے بلند ترین رب کے نام کی تسبیح کرو ۔ جس نے پیدا کیا ہے اور درست بنایا ہے ۔ جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت دی ہے
یہ آیت بتاتی ہے کی خدا نے ہر شیی کو خلق کیاایک خاص تقدیر کی بنیاد پر پھر ہدایت عامہ بھی عطا کی ۔یہ آیتیں تو عموم ہدایت تکوینی کو ساری موجودات عالم کیلئے ثابت کرتی ہیں لیکن یہاں کچھ اور آیتیں ہیں جو ایک خاص وجود اور خاص ہدایت پر دلالت کرتی ہیں۔مثلا شہد کی مکھی کے بارے میں فرمایا: وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ -3-
اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ پہاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر بنائے اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے جس کے بعد اس کے شکم سے مختلف قسم کے مشروب برآمد ہوں گے جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفا کا سامان ہے اور اس میں بھی فکر کرنے والی قوم کے لئے ایک نشانی ہے ۔
سبحان اللہ !! یہ آیت تو صاف صاف بیان کر رہی ہے کہ شہد کی مکھی کو خدا نے کس طرح ہدایت اور نصیحت کی ہے کہ کہاں اپنا گھر بنائیں اور کہاں سے تغذیہ کریں ۔ او ریہ سارا اہتمام خدانے کس کیلئے کیا ہے؟ اس انسان ظلوم و جہول کیلئے ، کہ اس شہد میں اس کیلئے دوا اور شفا قرار دیا ہے اور آخر میں فرمایا : اس قوم کیلئے جو خدا کی ان نعمتوں اور حکمتوں میں غور و فکر کرتی ہیں ۔ اس شہد کی مکھی میں بڑی نشانیاں نظر آئیں گی ۔
اور ہدایت بغیر کسی استثناء کے تمام شہد کی مکھیوں کو فرداً فرداً دی گئی ہے ۔ اسی طرح تمام انسانوں کیلئے بھی ہدایت عامہ عطا کی ہے ۔ لیکن زمان و مکان اور ظرفیت کے مطابق کچھ فرق کیساتھ ۔ شہد کی مکھی کو جو ہدایت دی گئی ہے وہ مادی اور معنوی دونوں زندگی سے مربوط ہے۔ چنانچہ فرمایا ؛ أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْن ِوَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ۔ 4
تاکہ وہ ان دو آنکھوں سے حکمت الہی کو دیکھا کرے ۔ اور لبوں کے ذریعے ورد کرے ۔ خیر کا راستہ اور شر کا راستہ بھی بتادے ۔اب یہ انسان اپنی پاک فطرت کے ذریعے حسن و قبح کو جان لیتا ہے اور کسی کے ہاں تلمّذ کرنے سے پہلے اچھائی اور برائی کی تمیز کرسکتا ہے ۔ یہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کے اندر تکویناً ہدایت عامہ موجود ہے۔
---------------
1 ۔ طہ٥٠ ۔
2 . اعلیٰ،١۔٣۔
3 ۔ نحل ٦٩۔۔٦٨
4 ۔ بلد١٠۔۔٨۔
ب : ہدایت عامہ تشریعی
چنانچہ معلوم ہوا کہ ہدایت عامہ تکوینی تو ہر انسان کی فطرت میں پائی جاتی ہے لیکن ہدایت عامہ تشریعی عوامل خارجی جیسے انبیا و اولیاء الہی اور ان کے جانشینوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے ۔ چنانچہ فرمایا: إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ-1- ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ -2- بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس میں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں اور اس لئے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون ہے جو بغیر دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور یقینا اللہ بڑا صاحبِ قوت اور صاحبِ عزت ہے۔
یہ آیتیں تشریعی ہدایت عامہ پر دلالت کرتی ہیں ۔ جو پورے عالم انسانیت کیلئے ارسال کی گئی ہے۔
پس ہر مکلف میں ہدایت عمومی تشریعی کے ثابت ہونے پر جبرکی نفی اور اختیار ثابت ہوتا ہے ۔ جب ہر انسان کو اپنی ظرفیت اور سوچ کے مطابق ہدایت مل جائے تو جبر کیلئے گنجائش باقی نہیں رہتا ۔ بعض آیتوں میں صریحا بیان ہوا ہے کہ جب تک انبیاء الہی کو مبعوث نہیں کیا کسی قوم کو عذاب میں مبتلانہیں کیا : مَّنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً-3- جو شخص بھی ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں ۔
وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ -4- اور آپ کا پروردگار کسی بستی کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک کہ اس کے مرکزمیں کوئی رسول نہ بھیج دے جو ان کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کرے اور ہم کسی بستی کے تباہ کرنے والے نہیں ہیں مگر یہ کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔ پس اگر جبر اور اختیار کا ملاک ہدایت الہی کا وسیع یا محدود ہونا ہے تو یہ آیتیں صریحا عمومیت پر دلالت کرتی ہیں ۔ جو جبر کو باطل اور اختیار کو ثابت کرتی ہیں ۔
لیکن ہدایت یا ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے ، سے کیا مراد ہے درج ذیل بحث سے معلوم ہوگا ۔
---------------
1 ۔ فاطر ٢٤۔
2 ۔ الحدید ٢٥۔
3 ۔ اسراء ١٥۔
4 ۔ قصص٥٩۔
ب :ہدایت خاصہ :
جہاں ہدایت عامہ تکوینی اور تشریعی ہے وہاں ہدایت خاصہ بھی ہے ۔ جو بعض انسان اور افراد سے مخصوص ہیں ۔ اور یہ خصوصیت بھی بغیر کسی ملاک اور معیار کے حاصل نہیں ہوتیں ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس ملاک اور معیار کا حصول خود انسان کے اختیار میں ہے ۔ اور یہ ملاک اور معیار تکوینی اور تشریعی ہدایت عامہ کے نور سے حاصل ہو جاتی ہے ۔ اور عنایت الہی اس کیلئے شامل حال ہوتی ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی خصوصی ہدایت انسانوں کیلئے نصیب ہوتی ہیں جو منیب یا توبہ کرنے والے ،جہاد کرنے والے اور ہدایت حاصل کرنے والے ہوں۔
شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ-1-۔
اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبر تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیمعلیھ السّلام, موسٰیعلیھ السّلام اور عیسٰیعلیھ السّلام کو بھی کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے پائے مشرکین کو وہ بات سخت گراں گزرتی ہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کے لئے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے ۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ-2-۔
اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا اللرُحسن عمل والوں کے ساتھ ہے۔ پس یہ ہدایت خاصہ صرف خواص سے مخصوص ہے ۔ پس ہدایت خاصہ مشیت الہی کے تابع ہے ۔ اسی طرح گمراہی اور ضلالت بھی اگر کسی کا مقدر بنتی ہے تو یہ بھی بغیر کسی ملاک اور معیار کے مشیت الہی شامل حال نہیں ہوسکتا ۔ یعنی اگر انسان اس ہدایت عامہ الہی سے روگردانی کرے تو خداوند اس سے صفات عالیہ کسب کرنے کی توفیق کو سلب کرتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا:
4 بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ -3- یہ بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے آیات الۤہی کی تکذیب کی ہے اور خدا کسی ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔
يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللّهُ مَا يَشَاءُ-4-۔
اللہ صاحبان هایمان کو قول ثابت کے ذریعہ دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے اور ظالمین کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور وہ جو بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے۔ پس ضلالت اور گمراہی سے مراد یہی ہدایت عامہ سے روکناہے ۔ اور یہ امتناع بھی انسان کا اپنا کردار اور برے عمل کی وجہ سے ہے ۔یعنی ارسال رسل اور انزال کتب کے بعد ہدایت حاصل نہ کرے تو ہدایت خاص اسے حاصل نہیں ہوگی۔
ان تمام آیتوں سے فقط ایک ہی معنی ہمیں ملتا ہے اور ثابت ہوتی ہے کہ انسان مختار ہے۔
---------------
1 .۔ شوری١٣۔
2 ۔ عنکبوت ۶۹۔
3 ۔ جمعہ٥ ۔
4 ۔ ابراہیم٢٧۔
علم ازلی خدا وند اور اختیار انسان
جبریوں کی ایک دلیل یہ ہے خدا وند تمام انسانوں کے افعال اور کردا رسے با خبر ہے کہ :
• کافر کبھی ایمان نہیں لائے گا ، لیکن اگر کافر نے ایمان لایا تو علم خدا جہل میں بدل جائے گا۔ اور یہ ممکن نہیں ۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ شخص کافر سے ایمان کا صادر ہونا ممتنع ہے ۔ اور وہ مجبور ہے کہ ایمان نہ لائے ۔ ان کی اس ادعی کو خیام شاعر نے یوں بیان کیا ہے:
من مے خورم وہرکہ چوں من اہل بود مے خوردن من ، بہ نزد وی سہل بود
مے خوردن من حق زازل می دانست گر مے نہ خورم ، علم خدا جہل بود
ساتھ اس کا جواب بھی دیتے ہوئے کہتا ہے:
علم ازلی علت عصیان کردن نزد عقلاء زغایت جہل بود
• کسی علم کو علم اس وقت کہا جاتا ہے کہ معلوم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ لہذا اگر خدا کو معلوم تھا کہ کافر ایمان نہیں لائے گا (علم عدم ایمان) لیکن جب کافر نے ایمان لایا تو گویا وجود ایمان اور عدم ایمان دونوں جمع ہوگا ۔ اور یہ اجتماع نقیضین محال ہے ۔ پس اگر خدا کو علم تھا کہ ایمان نہیں لائے گا ، تو اس کا ایمان لانا محال ہوجائے گا ۔ لیکن اگر متعلق علم خدا وند ایمان لانا ہوگا تو اس کا ایمان نہ لانا ممتنع ہوجائے گا ۔ پس اس شخص کا یا ایمان لانا یا نہ لانا ضروری ہوگا ہر صورت میں انسان مسلوب الاختیار ہے ۔
• خدا نے بعض لوگوں کے ایمان نہ لانے کی خبر پہلے ہی دے چکا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرما رہا ہے : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ-1-۔
اے رسول! جن لوگوں نے کفر اختیار کرلیا ہے ان کے لئے سب برابر ہے. آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ پس اگر ان لوگوں نے ایمان لایا تو اس کا لازمہ یہ ہے کی خدا وند جو یقینا صادق ہے نعوذباللہ من ذالک ،کاذب ہوجائے گا۔ او ریہ بھی محال ہے لہذا اس گروہ کا ایمان لانا بھی محال ہے۔
جواب: معتزلہ کا کہنا ہے کہ قول اشاعرہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قدرت خدا ، اختیار انسان پر دلالت کرتی ہے ۔ اگر علم خداافعال کے وجوب یا امتناع کا موجب بن جائے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا وند کسی بھی فعل پر قدرت نہیں رکھتا ۔ کیونکہ جس چیز پر خدا کا علم ہو ، کہ واقع ہوگی تو وہ ( واجب الوقوع ) ہوجائے گی ۔ اور کسی بھی علت یا قدرت الہی سے بے نیاز ہوجائے گی ۔ اور جس چیز کے عدم وقوع پر خدا کو علم حاصل ہو تو وہ ممتنع الوقوع ہوجائے گی ۔ اور اس سے قدرت الہی لا تعلق ہوجائے گی ۔ کیونکہ قدرت الہی صرف ممکنات سے متعلق ہوتی ہے۔
علم کا معلوم پر کوئی تأثیر نہیں:
دلیل دوم کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی چیز پر علم ہونا یعنی اس شیی کی تمام حقیقی خصوصیات کیساتھ علم ہونا ہے ۔ اسی لئے اگر معلوم حقیقت میںممکن ہے تو بعنون امر ممکن جاناجاتا ہے ۔ اور اگرحقیقت میں واجب ہے تو بعنوان امر واجب جانا جائیگا ، اور یہ بھی معلوم ہے کہ ایمان اور کفر ذاتی طور پر ممکنات میں سے ہیں ۔ اور اگر علم خداسے متعلق ہونے کی وجہ سے واجب میں بدل جائے توعلم کا معلوم میں مؤثر ہونا لازم آتا ہے ۔ جسکی پہلی دلیل میں نفی کرچکا ہے ۔
فخر رازی جواب دیتا ہے کہ علم خدا کا متعلق یہ ہے کہ افعال انسان ذاتا تو ممکن ہے لیکن قدرت اور ارادئہ الٰہی سے متعلق ہونے کی وجہ سے ایک زمان خاص میں واجب ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ایک چیز ذاتا ممکن ہو اور بالغیر واجب ۔
اختیاری حرکت ہی جمادات اور انسان کے درمیان فرق
اصحاب معتزلہ نے نفی جبر پر اس طرح دلیل پیش کی ہے : اگر علم خدا اور اس کا خبر دینا اختیار انسان کا مانع بنے تو انسان کیلئے اپنے افعال کی نسبت کوئی قدرت باقی نہیں رہتی ۔ کیونکہ وہ افعال تو علم خدا کی ضمن میں یا واجب ہوگا یا ممکن ۔ اور فعل واجب یا فعل ممتنع ، انسان کی قدرت سے خارج ہے ۔ پس اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسانی حرکات و سکنات بھی جمادات کی حرکات و سکنات کی طرح ہے ۔ لیکن واضح ہے کہ یہ امر بھی باطل ہے کیونکہ اگر کسی نے دوسرے انسان کو عمدا قتل کیا تو اس قاتل کی مذمت کی جائے گی نہ اس خنجر کی ۔
فخر رازی کہتا ہے: فعل انسان ، علم الٰہی کے متعلق ہونے کی وجہ سے واجب الوقوع نہیں ہوسکتا بلکہ خدا نے انسان میں قدرت اور انگیزہ خلق کیا ہے کہ افعال اسے ایجاب کرتی ہے۔ اس کے منتخب ہونے کی صورت میں فعل بھی واجب الوقوع میں بدل جاتا ہے۔پس علم خداوند ایجاب کنندہ فعل نہیں ہے بلکہ صرف اس فعل کا بعد میں واقع ہونے کو کشف کرتا ہے۔بالفاظ دیگر علم خدا کاشف وقوع فعل ہے نہ باعث انجام فعل۔
|