تتمہ : اشکالات اور شبہات
جبر و اختیار پر مختلف قسم کے اشکالات وارد ہوئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
١۔ کیا نازیبا افعال کے انجام دینے میں بھی ارادہ ٔخدا شامل ہے؟!
اختیار انسان کو اختیار خدا کے ماتحت ثابت کرنے کے بعد ذہن میں یہ خطور پید اہوتا ہے کہ انسان جو برے افعال انجام دیتا ہے اس میں ارادہ خدا شامل ہے؟
جواب: نہیں ایسا نہیں ۔ بلکہ شرور ، برائیاں ، گناہ ، ظلم و۔ ۔ ۔ بندہ کی جانب سے ہیں نہ خدا کی طرف سے۔ چنانچہ آیات اور روایات اس بات پر گواہ ہے ۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ -1- ۔
جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو اِرا دہ کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوگا اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔
روایت امامرضا(ع) : ابن وزاء نے امام سے نقل کیا ہے کہ : خدا نے کہا اے اولاد آدم! جو برے اور نازیبا افعال انجام دیتے ہو جس کا مجھ سے زیادہ تو سزاوار ہے اور جو اچھے اور زیبا افعال نجام دیتے ہو تم سے زیادہ میں سزاوار ہوں دیکھنے میں یہ ایک کوتاہ جملہ ہے لیکن یہ علم و معرفت کا ایک سمندر ہے ۔ شرور اور برائیاں ، امر عدمی میں سے ہیں جونفسانی ماہیات سے پیدا ہوتی ہیں نہ اصل وجود سے ۔ کیونکہ اصل وجود تو خیر محض ہے وجود اور خیر مساوی ہے لیکن عدم اور شر عموم و خصوص مطلق ہے ۔اور خدا خالق خیر ہے نہ خالق شر۔ یہ برائیاں کج فکری ، تجری اور گناہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جن کا ٹھکانا جھنم ہوگا-2-۔
مفہوم خیر صرف امر وجودی میں پایا جاتا ہے لیکن وجود خیر کو علت اور معلول کے ساتھ مقایسہ کرے ۔ کیونکہ علت اور معلول کے درمیان سنخیت شرط ہے ۔ پس اگر اصل وجود خیر ہے تو اس کی علت (خدا ) کوتمام خوبیوں کا منبع ہوناچاہئے ۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ شر عدمی ہے اگر عدمی نہ ہو تو تمام موجودات خیر نہیں ہوسکتیں ۔ اس کا لازمہ یہ گوگا کہ خیر ہونا وجود کا لازمہ نہیں ہوسکتا ۔ در حالیکہ علم فلسفہ میں ایک مسلمہ اصل ہے ہر وجود برابر ہے اچھائی کے ۔3-
حضرت علی(ع) اور غازی کے درمیان مناظرہ
جب امیر المؤمنین (ع) جنگ صفین سے اپنے لشکر کیساتھ واپس آرہے تھے تو ایک سپاہی نے کہا: یا امیرالمؤمنین (ع) یہ بتائیں کہ شامیوں کیساتھ کیا ہماری جنگ قضاء و قدر کا نتیجہ تھا؟!
امام(ع)نے فرمایا: ہاں۔
سپاہی : پس یہ ساری مشقتیں جو ہم نے جنگ میں برداشت کی ہیں ان کا کوئی فائدہ اور اجرو ثواب نہیں ہے ؟
امام(ع) : نہیں ا یسا نہیں بلکہ خدا وند ہمیں اجر و ثواب عطا کرے گا۔ کیونکہ تمھیں کسی نے مجبورنہیں کیا ہے ۔ شاید تم نے خیال کیا ہے کہ الہی قضا و قدر لازم نے تمہیں اس حرکت پر مجبور کیا ہے! اگر ایسا ہوتوثواب و عقاب ، وعدہ وعید ، امر ونہی کرنا سب لغو اور باطل ہوگا ۔ اور یہ عقیدہ شیطان صفت افراد اور دشمنان خدا کا عقیدہ ہے۔ خدا نے کبھی تکلیف مالا یطاق وضع نہیں کی:لا یکلف اللہ نفساً الّا وسعھا اور کسی کو اپنی عبادت اور بندگی کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔ اور کبھی قرآن اور رسول کو بے ہودہ نازل نہیں کیا ۔ اس کے بعد قرآن کی اس آیت کی تلاوت کی : وقضی ربک ان لا تعبدوا الا ایاہ ۔یہ سن کر شامی کو اتنی خوشی ہوئی کہ درج ذیل اشعار کو پڑھتے ہوئے اٹھے:
انت الامام الذی نرجوا بطاعتہ یوم النشورمن الرحمن رضوانا
اوضحت من دیننا ما کان ملتبسا جزاک ربک عنا فیہ احسانا -4-
---------------
1 ۔ فصلت ٤٦
2 ۔ معاد شناسی،ج١٠،ص٢٦٦۔
3 ۔ دہ مقالہ مبداء ومعاد،ص٢٣٣۔
4 ۔ بحار ،ج٥،ص٩٦ ۔
امام صادق(ع) اور کافرکے درمیان مناظرہ
حشام روایت کرتے ہیں کہ ایک کافر نے امام صادق (ع)سے سوال کیا: خدا نے کیوں تمام انسانوں کو اپنا مطیع اور مؤحد خلق نہیں کیا ؟ باوجود یکہ خدا اس چیز پر قادر تھا ۔
امام(ع) : اگر کسی کو مطیع خلق کرتا تو اسے ثواب نہیں ملتا ۔ کیونکہ اس کی اطاعت کرنا خود انسان کے اختیار میں نہیں اور بہشت و جہنم کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔ لیکن انہیں خلق کرکے اطاعت اور بندگی کا دستور دیا ۔ اور مخالفت کرنے سے منع فرمایا ۔ ارسال رسل اور انزال کتب کے ذریعے حجت تمام کردی ۔ اور ہر قسم کے بہانے کے سارے راستے کو مسدود کردیا ۔
کافر: کیا بندہ کا جو اچھا اعمل اس کا ہے تو بر اعمل بھی اسی کا ہے؟
امام(ع) : نیک کاموں کو بندہ انجام دیتا ہے ۔ جس کا خدا وند نے حکم دیا ہے ۔ اور برے کاموں کو بھی بندہ انجام دیتا ہے لیکن خدا نے اسے اپنی طرف نسبت دینے سے گریز کیا ہے۔
کافر: کیا برے اعمال کو بھی انہی اعضاء و جوارح سے انجام نہیں دیتا جسے خدا نے ترکیب دیا ہے۔؟
امام(ع) :کیوں نہیں ۔ لیکن جن اعضاء و جوارح سے اچھے اعمال انجام دیتا ہے ، انہیں سے برے اعمال بھی انجام دینے پر قادر ہیں ۔ لیکن اس سے خدا نے منع کیا ہے۔
کافر : کیا بندہ کیلئے اختیار حاصل ہے ؟
امام(ع) : کسی بھی کام سے اسے منع نہیں کیا مگر یہ کہ ترک کرنے پر قدرت رکھتا ہو ۔ اور کسی کام کے انجام دینے کا حکم اس وقت تک نہیں دیا کہ جب تک انجام دینے پر قادر نہ ہو ۔ کیونکہ خداوند عادل ہے ظالم نہیں:
لا یکلف اللہ نفسا الّا وسعھا ۔
کافر: اگر کسی کو کافر خلق کیا تو کیا اس میں ایمان لانے کی قدرت پائی جاتی ہے؟ اور کیا خداوند قیامت کے دن مؤاخذہ کر سکتا ہے کہ تم نے ایمان کیوں نہیں لایا؟
امام(ع): تمام انسانوں کو خدا نے مسلمان خلق کیا ہے ، کفر منحرف ہونے کے بعد کا نام ہے۔ اور کفر کا مرحلہ حد بلوغ تک پہنچنے اور حجیت تمام ہونے کے بعد آتا ہے۔
اشکال :ہدایت اور ضلالت خدا کے ہاتھ میں
اگر انسان اپنے اعمال میں مختار ہے تو ان آیتوں کو کیا کریں گے ۔ جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ہدایت اور ضلالت صرف خدا کے ہاتھ میں ہے :
امام(ع) : یہ عدل الہی کے خلاف ہے کہ اپنے بندہ کیلئے شر کو مقدر کرنے کے بعد اس سے ہاتھ اٹھانے کا حکم دے ۔ جس کو ترک کرنے پر قادر بھی نہ ہو-1- ۔
کافر : ممکن ہے خدا شر کو بندہ کیلئے مقدر کرنے کے بعد اچھائی کی دعوت دے رہا ہو ۔ جبکہ وہ اچھا کام انجام دینے پر قادر نہ ہو۔ اور اس لئے اسے عذاب کرے ! یضل من یشاء ویھدی من یشاء ۔
اگر اختیار سے مراد یہ ہے کہ انسان جس نے ہدایت کو اختیار کیا اور ضلالت کو ترک کیا تو اس پر یہ دونوں مفروضہ نہیں ہونا چاہئے :
١۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔-2- اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا اسی کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ لوگوں پر باتوں کو واضح کرسکے اس کے بعد خدا جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے وہ صاحب هعزّت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ۔
٢۔ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلكِن يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ -3- اور اگر پروردگار چاہتا تو جبراتم سب کو ایک قوم بنادیتا لیکن وہ اختیار دے کر جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچادیتاہے اور تم سے یقینا ان اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا جوتم دنیا میں انجام دے رہے تھے ۔
ہدایت اور ضلالت کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کی تفسیر کو شأن نزول کے ساتھ اگر بیان کرے تو یہ تمام ظاہری تضاد ختم ہوجاتی ہیں ۔ اور ایک ہی معنی پر دلالت کرتی ہیں ۔ کیونکہ بعض آیات کا معنی قرینہ کے ذریعے بدل جاتا ہے اور ایک آیت میں اسی لفظ کئی معنی ہیں۔ دوسری آیت میں کچھ اور ۔ ہم جب تفسیر موضوعی کے اوراق پلٹاتے ہیں اور ساری آیتوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کچھ آیات کو دوسرے آیات کیلئے قرینہ قرار دیتے ہیں تو سب آیتوں کا ایک ہی مقصد بنتا ہے ۔ چنانچہ گذشتہ بحثوں سے واضح ہوا کہ کچھ آیتوں کو جبریوں نے اپنے ادعی پر دلیل کے طور پر پیش کئے اور کچھ آیتوں کو مفوضہ والوں نےاور یہ اختلافات صرف اسی وجہ سے پیدا ہوگئی ہیں کہ صرف ایک دستہ آیات کو لیا ہے ۔ اور دوسرے دستے سے غافل ہوئے ہیں اور اگر دونوں گروہوں کو ساتھ لیتے تو گمراہ نہ ہوتے ۔
---------------
1 ۔ مناظرات ، ج٢، ص ٢٧٣۔
2 ۔ ابراہیم٤۔
3 ۔ نحل٩٣۔
|