جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں
 


میثاق و معاہدہ
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ-1- اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کِھلا ہوا دشمن ہے ۔اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے
خدا نے بنی نوع انسان کے ساتھ عہد لیا ہے کہ شیطان کی اطاعت نہ کرنا ۔ کیونکہ وہ تمھارا دشمن ہے۔ پس اگر انسان صاحب اختیار نہیں تھا تو اس کے ساتھ خدا کا معاہدہ کرنا بالکل بے معنی ہوجائے گا ۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً-2-۔ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپً قرابتداروںً یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا -3- اوراس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیائ علیھ السّلامسے اور بالخصوص آپ سے اور نوح ابراہیم(ع)موسیٰ(ع) اور عیسٰی ابن مریم(ع)سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا ۔
یہ دو آیتیں میثاق خاص کی نشاندہی کرتی ہیں جو خدا نے بنی اسرائیل اور بعض انبیاء سے لیا ہے۔
اختیا ر انسان فطری ہے۔ انسان کا مختار ہونا علم حضور ی کے ذریعے سے بھی واضح ہے کہ زندگی میں بار بار اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ انسا ن دو کاموں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے میں متردد ہوتا ہے۔ لیکن آخر میں کسی جبر اور اکراہ کے بغیر اپنی رضامندی سے ایک کام کو اختیار کر لیتا ہے یہی تردید دلیل ہے انسان کے مختار ہونے پر؛

این کہ گوئی این کنم یا آن کنم
خود دلیل اختیار است اے صنم

اس مطلب کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے : إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا-4- یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ-5-۔ اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے کافر ہوجائے۔

کافروں کو دعوت ایمان دینا اختیار کی علامت
خدا کا عدم وقوع فعل پر علم ہونا اس فعل کے محقق ہونے میں مانع بن جائے تو خدا کا کافروں کو دعوت ایمان دینا اپنے علم کو محو اور جٹھلانے کے مترادف ہے۔ اور چونکہ علم خدا کا اپنے بندوں کے ذریعے نابود ہونا محال ہے ۔اس پر حکم دینا عبث اور بیہودہ ہے اور خدا وند حکیم سے ایسا فعل سرزد ہونا ناممکن ہے۔

جواب فخر رازی
اگر فقط کافروں کو ایمان کی دعوت دینا علم خدا کی تکذیب اور جھل میں تبدیل ہونے کا باعث ہو تو یہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں اور ایسے امور کو ہم نا ممکنات میں شمار کرتے ہیں۔کیونکہ افعال انسان ذاتاً ممکن ہے۔ افعال انسان کے واجب یا ممتنع ہونے میں علم خدا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔
---------------
1 ۔ یس ٦٠۔۔۔٦۱۔
2 ۔ بقرہ ٨٣ ۔
3 ۔ احزاب ٧۔
4 ۔ الانسان۳۔
5 ۔ الکہف ۲۹۔