فصل سوم :گروہ مفوضہ کا نظریہ
اشاعرہ کے مقابلے میں متکلمیں میں سے ایک گروہ معتزلہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ علل معدّہ اپنی علیّت میں مستقل ہیں اور علة العلل پر محتاج نہیں ہیں ۔ خدا نے اس کائنات کو خلق فرمایا اور فارغ ہوگیا ۔ اب یہ کائنات مستقل طور پر حرکت کر رہی ہے کسی محرک کی ضرورت نہیں ۔ جیسے آگ کالکڑی کو جلانے میں ، ہوا کا چلنے میںاور انسان اپنے اختیاری کاموں میں مستقل ہیں ۔ ارادۂ انسان کے علاوہ کوئی اور طاقت یا قدرت درکار نہیں کہ یہ جس کام کو چاہے انجام دیتا ہے اور جسے چاہے ترک کرتا ہے۔
دلیل مفوضہ
• جب انہوں نے جبریہ کے اقوال کے مفاسد کو دیکھا تویہ گمان کرنے لگے کہ بندہ اپنے کاموں میں مستقل اور آزاد ہے ۔
جس طرح یہودیوں نے کہا: ید اللہ مغلولة کہ ان کا عقیدہ کہ خدا نے اس کائنات کو ایک ہفتے میں خلق کیا اور ہفتہ کے دن تعطیل کیا! اور خدا بالکل لا تعلق ہوا ۔ جس طرح گھڑی ساز گھڑی بنانے کے بعد لا تعلق ہوتا ہے ۔ پھر بھی گھڑی کی سوئیاں چلتی رہتی ہے۔ اسی طرح یہ کائنات بھی خود بخود چلتی رہتی ہے ۔
یہ خلاف عقل ہے کیونکہ ہر ایک کیساتھ یہ اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ بہت سے کاموں کو سارے انسان تمام تر کوششوں کے ساتھ شروع کرتے ہیں اور تمام علل و اسباب بھی اسے فرہم ہوتا ہے لیکن کبھی کامیاب ہوتا ہے کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا :عرفت اللہ بفسح العزائم الھمم۔ یعنی میں نے لوگوں کے عزم وارادہ کے خلاف نتیجہ نکلنے سے خدا کو پہچانا۔کیونکہ کبھی لوگ ثروت مند اور دولت مند ہونے کے خاطر بہت محنت کرتے ہیں لیکن اسے تنگدستی اور فقر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اور کبھی اس کے برعکس بھی نتیچہ نکلتا ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ خدا کی حیثیت گھڑی ساز کی ہے ،یہ سلطنت مطلقہ کی توہین ہے۔
ثانیا آیات اور روایات بھی اس بات کے خلاف ہیں ۔ مذکورہ مثال کی طرف توجہ کریں کہ :ایاک نعبد و لا حول ولا قوة الا باللہ اور بحول للہ و قوتہ اقوم و اقعد ۔ ۔۔ ۔ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خدا کی مخلوقات ہمیشہ اور ہر ہر سکینڈ کیلئے خدا کی ذات پر محتاج ہیں-1-۔
• خدا نے امور دین کو پیامبراکرم(ص) کے ہاتھوں سونپ دیا ہے۔ اور انہوں نے ائمہ اور اولیاء کو تفویض کیا ہے۔ جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے سو رۂ نجم میںپیغمبر(ص)کے بارے میں فرمایا : و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی-2-۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے۔اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔
یہ آیت صریح کیساتھ کہہ رہی ہے کہ پیامبر(ص) جو کچھ بھی بولے وہ خدا کی وحی کے مطابق ہوگا۔ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ جب پیامبر اسلام (ص)جاتے ہوئے مجھے علم اور معفرت کے ہزار دروازے عطا کئے اور میں نے بھی ان ہزار دروازوں سے ہزار دروازے اور کھول دئے ۔امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں جو علوم اور معارف علی(ع)کو عطا ہوئے ہیں ، ارث میں ملا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اخبار تفویض کسی بھی صورت میں ادعای مفوضہ کے ساتھ مربوط نہیں ۔ کیونکہ مفوضہ کا ادعی یہ ہے کہ انسان کو تکوینیات میں اپنا نائب قرار دیا ہے ۔ لیکن ان روایا ت میں جو اختیار دیا گیا ہے وہ عالم تشریع میں ہے ۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً-3- ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔
کہ خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اور ائمہ(ع) کی اطاعت واجب ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ خدا نے اپنے امور کو رسول اکرم(ص) اور اولی الامر کو تفویض کیا ہے ۔ یہاں ہم یہ جواب دینگے کہ اس تفویض کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کسی کو ایک ملک کا حاکم بنا دے اور تمام امور سلطنت کو اس کے ہاتھوں میں سونپا ہو اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ فلانی کی اطاعت کرو ۔ جو بھی اس حاکم کی نافرمانی کرے تو فلان سزا دونگا ۔ کیونکہ اس کا حکم میرا حکم ہے۔ -4-
---------------
1 ۔ بہشتی نژاد ، پرسش وپاسخ اعتقادی،ج ١ ،ص٩٧.
2 ۔ نجم ۳،۴۔
3 ۔ نساء ۵۹۔
4 ۔ معاد و عدل ،ص٥٩۔
انسان کے مختار ہونے پر دلائل قرآنی
ارسال رسل وانزال کتب
اگر انسان مختار نہ ہو تو اصولاً پیامبروں کا آنا اور کتب آسمانی کا نازل ہونا بیہودہ ہوگا ۔ اور خدا وند بیہودہ کام نہیں کرتا ۔ پس ارسال رسل اور انزال کتب اس بات کی دلیل ہے کہ خدا وند اور انبیاء انسان کو مختار جانتے ہیں ۔
امتحان
اگر قرآن پر ایمان رکھنے والا ہو تو ماننا پڑے گا کہ امتحان کو ایک سنت الہی قرار دیا گیاہے ۔ جیسا کہ متعدد آیتوں میں ذکر کیا ہے :
١ ۔ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا-1- یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے سماعت اور بصارت والا بنادیا ہے۔
٢۔ إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا-2- بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ۔
۳۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ -3-اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموالًنفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں ۔
پس امتحان ایسے افراد سے لیا جائے گا جو مجبور نہ ہو بلکہ آزاد ہو ۔ اور ہدف امتحان بھی معلوم ہے کہ انسان کو بلند وبالا مقام تک پہنچانا مقصود ہے ۔ لیکن اگر ہر ایک کو زیرو دینا مقصود تھا یا ہر ایک کو سو کے سو نمبر دینا ہوتا تو امتحان بے معنی ہوجائے گا ۔
وعدہ و وعید
یہ وہ صفات ہیں جنہیں خدا نے نبیوں کو عنایت کی ہے ، فرمایا : كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ -4- (فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے . پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر-----------
تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دے دی اور انہوں نے اختلافات میں حکم الٰہی سے حق دریافت کرلیا اور وہ تو جس کو چاہتا ہے صراظُ مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔ اگر انسان مختار نہ ہو تو کسی فعل پر بشارت دینا اور کسی فعل سے بھی ڈرانا اور اسی طرح درمیان میں اختلاف پیدا کرنا اور ان کے درمیان فیصلہ کرنا بے معنی ہوجائے گا ۔
---------------
1 ۔ دھر ٢۔
2 ۔ کہف٧۔
3 ۔ بقرہ ۱۵۵۔
4 ۔ بقرہ ٢١٣۔
|