سنت
-1-پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: السعید سعید فی بطن امہ والشقی شقی فی بطن امہ۔
یعنی خوش بخت انسان اپنی ماں کے پیٹ میں سے خوشبخت بن کر اور بدبخت انسان بھی وہاں سے بدبخت بن کر اس دنیا میں آتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اشکال اور دلیل کو کیسے رد کیا جائے۔ ہم خود ان سے پوچھیں گے کہ یہ سعادت یا شقاوت ،ذاتی ہے یا عارضی؟
اگر کہے ذاتی ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ ذاتی ہونے کی صورت میں ان کا ادعی درست تھا۔ لیکن سعادت و شقاوت ایک عارضی شیی ہے جو مقدمات اختیاریہ سے ناشی ہوتی ہے۔جیسے موت اور جلنا کہ خدا نے جلنے کو آگ کااثر قرار دیا اور موت کو زہر کے پینے کا اثر ؛ پس اگر کوئی شخص اپنے آپ کو آگ میں ڈال دے یا کوئی زہر پی لے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ جل جائے اور ہلاک ہوجائے۔ یہ جلنا اور ہلاک ہونا آگ اور زہر کا اثر ہے لیکن کیونکہ اس شخص نے اپنی اختیار سے سبب فراہم کیا ہے۔تویہ شخص قابل مذمت ہوگا۔ کوئی بھی آگ یا زہر کو ملامت نہیں کریگا۔ اور خدا جو ان آثار کا موجد ہے۔ کی طرف نسبت نہیں دیگا۔
اوپر بیان ہوا کہ یہ سعادت و شقاوت جسکی دلیل یہ ہے کہ الذاتی لا یتغیر ۔ درحالیکہ ہم دعا کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ یہ دعائیں مأثور ہیں۔ چنانچہ ماہ رمضان کی تیّسویں رات کی دعا میں پڑھتے ہیں کی : ان کنت من الاشقیاء فامسحنی من الاشقیاء واکتبنی من السعداء فانک قلت فی کتابک المنزل علی نبیّک المرسل یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب-2-۔
خدایا اگر مجھے اشقیاء کے دفتر میں شمار کیا ہے تو اس دفتر سے میرا نام مٹا کر سعادت مندوں کی لیسٹ میں لکھ دے۔کیونکہ تو نے خود کہا ہے کہ خدا مٹاتا اور لکھتا ہے۔پس معلوم ہو ااگر شقاوت اور سعادت ذاتی ہوتی تو توبہ کا حکم نہ کرتا کیونکہ توبہ اور بازگشت کا معنی یہی ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوجائے ۔ جبکہ سعادت و شقاوت ذاتی تحول و تغیر پذیر نہیں۔ لیکن خدا نے اپنے بندوں کو توبہ کی طرف تاکید کے ساتھ دعوت دی ہے تاکہ سعادت حاصل کرے۔
ان لوگوں نے مندرجہ ذیل دوآ یتوں سے اپنے اس ادعی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہیں: يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُواْ فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ۔وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُواْ فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ-3- اس کے بعد جس دن وہ آجائے گا تو کوئی شخص بھی ِذنِ خدا کے بغیر کسی سے بات بھی نہ کرسکے گا -اس دن کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت ۔پس جو لوگ بدبخت ہوں گے وہ جہّنم میں رہیں گے جہاں اُن کے لئے صرف ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی ۔وہ وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تک آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ آپ کا پروردگار نکالنا چاہے کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتا ہے ۔اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ جنت میں ہوں گے اور وہیں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ پروردگار اس کے خلاف چاہے ...یہ خدا کی ایک عطا ہے جو ختم ہونے والی نہیں ہے ۔
رازی نے اس آیت سے جبر گرائی (اشعری) پر استدلال کیا ہے، اور کہا ہے جان لو خدا نے ابھی سے ہی قیامت کے دن بعض افراد کے جہنمی یا بہشتی ہونے کا حکم لگایا ہے کہ فلان سعید ہوگا اور فلان شقی ۔ اور جس چیز کا حکم دے اس کا علم بھی حتماً پہلے سے موجود ہے۔ اور اس کے خلاف ہونا محال ہے ۔ اور اگر یہ محال نہ ہو تو خدا کی خبر جھوٹی ہوگی۔پس سعید کبھی شقی اور شقی کبھی سعید نہیں ہوسکتا ۔ رازی کے بیان میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:
الف: اس نے اپنے استدلال کرنے میں جبر پر اعتماد کیا ہے کہ لوگوں کے بارے میں خدا کو علم ہونے کو انسان مجبور ہونے کا باعث ٹھہرایا ہے۔ اگر رازی کا مقصود یہ ہے تو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ تمام انسانوں کی نسبت خدا کا علم ازلی ، مقام عملی میں انسان کو مجبور نہیں نبا سکتا ۔ کیونکہ علم خدا اس فعل سے متعلق ہے جو انسان سے اختیاری طور پر صادر ہوتا ہے۔
ب: اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ خداوند ابھی حکم لگاتا ہے کہ فلان شخص قیامت کے دن شقی اور فلان شخص سعید ہوگا۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ علم خدا کاشف ہے کہ روز قیامت فلان شخص کی حالت کیا ہوگی؟ اور یہ علم اس فعل ختیاری سے منافات نہیں رکھتا جس کے ذریعے انسان روز قیامت سعیدوں میں شامل ہو یا شقی لوگوں میں؟
دوسری آیت جس سے انہوں نے استدلال کیا ہے ،وہ یہ ہے: قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ-4-۔ وہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ہم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ ہوگئے تھے ۔ پروردگار اب ہمیں جہنمّ سے نکال دے اس کے بعد دوبارہ گناہ کریں تو ہم واقعی ظالم ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شقاوت کو انسان اپنی نفس کی طرف نسبت دے رہا ہے جو خود سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور یہ دلالت کرتی ہے کہ یہ شقاوت اکتسابی امور میں سے ہے۔ کیونکہ خدا نے اس سے پہلی آیت میں سعادت کو لفظ الفلاح سے تعبیر کیا ہے اور شقاوت کو لفظ خسران سے۔ اور ان دونوں کو میزان میں وزن کا ہلکی یا بھاری ہونے کیلئے استعمال کیاہے جو انسان اپنے اختیار سے انجام دیتا ہے۔چنانچہ خدا تعالی نے فرمایا: فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ-5- پھر جن کی نیکیوں کا پلہّ بھاری ہوگا وہ کامیاب اور نجات پانے والے ہوں گے ۔اور جن کی نیکیوں کا پلہّ ہلکا ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے اور وہ جہنم ّ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
یعنی سعادت میزان کا وزن بڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اور شقاوت ابدی انسان کیلئےمیزان عمل ہلکا ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔ یہ لوگ جہنم سے نکلنے اور دنیا میں دوبارہ بھیجنے کا خدا سے مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اچھے اعمال انجام دے اور سعادت مندوں کا راستہ اختیار کرلے ،پس اگر انکی شقاوت اور سعادت ذاتی ہوتی اور قابل تغییر نہ ہوتی تو کسب سعادت کیلئے دوبارہ دنیا میں آنے کا مطالبہ نہ کرتا۔
درج ذیل روایت بھی اسی مطلب کو بیان کرتی ہے: مولائی متقیان(ع)حقیقت سعادت اور شقاوت کو مفصل طور پر یوں بیان فرماتے ہیں:حقیقة الشقاء ان یختم الرجل عملہ بالسعادة و حقیقة الشقاء ان یختم المرء عملہ بالشقاء-6-
یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کی سعادت اور شقاوت اس کے افعال اختیاری کا تابع ہے ۔
---------------
1 ۔ شیخ صدوق۔ توحید،ج٣،ص٣٥٦۔
2 ۔ علم الھدی ، معاد و عدل ،ص٣٦۔
3 ۔ ہود ۱۰۵¬۔۔۱۰۸۔
4 ۔ مؤمنون ١٠٦۔١٠۷۔
5 ۔ مومنون۱۰۲ ۔۱۰۳۔
6 ۔ بحار،ج٥،ص١٥٤۔
عقل
دلیل عقلی چند مقدے پر مشتمل ہیں:
پہلا مقدمہ: ہرممکنات ، وجود میں آنے کیلئے علت کی طرف محتاج ہیں اور اسی طرح تمام علل معدّہ بھی علت تامہ پر محتاج ہیں۔ دوسرا مقدمہ: علت العلل وہی ذات پاک ہے ۔
تیسرا مقدمہ: معلول کا علت سے جدا ہونا محال ہے۔ اسی طرح افعال انسان بھی مخلوقات خدا میں سے ہے اور خدا سے جدائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک قاعدۂ فلسفی ہے کہ جہاں علت تامہ ہو وہاں اس کا معلول ہونا ضروری ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افعال انسان بھی خدا سے وجود میں آیا ہے نہ خود انسان سے، جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔
دلیل عقلی پر اشکال
ان کی اس دلیل پر کئی اشکالات وارد ہوتی ہیں؛ اولا ً توجو شبہات جبریوں کے زہنوں میں آیات سے پیدا ہوتی ہیں یہ ہے کہ مشیت و ارادہ اور قضا و قدر الہی کے مقابلے میں انسان کو کسی چیز پر اختیار حاصل نہیں، صحیح نہیں کیونکہ ارادۂ خدا اور ارادۂ انسان ایک دوسرے کے طول میں ہے ۔ یہی وجہ ہے ارادۂ الہی جانشین ارادۂ انسان نہیں ہوسکتا۔
ثانیا انسان کا ارادہ علل معدّہ ہے اور فعل انسا ن بھی اس کا معلول ۔ انسان جب ارادہ کرتا ہے تو فعل انجام پاتا ہے ۔ اگر ارادہ نہ کرے توانجام بھی نہیں پاتا ۔ لیکن یہی علت معدّہ (ارادہ) اور معلول (فعل) اور اس کے مبادی سب ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ منتہا اس فعل کی نسبت علت معدّہ(ارادہ) مباشراور ملی ہوئی علت ہے ، اور ارادۂ خداوند علت بعیدہ ہے، لیکن اگر یہی علت بعیدہ نہ ہو تو نہ مرید (ہم) ہونگے نہ کوئی ارادہ ہوگا اور نہ ہی کوئی مراد(فعل) ۔ پس معلوم ہوا ارادۂ انسان تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اور جو بھی کام انجام دیتا ہے اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے۔ اور یہ سلسلۂ نظام ، ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ یہی اس مشکل کا حل کی چابی ہے ۔
عقیدۂ جبریہ باطل کیوں؟
• عقیدہ جبریہ باطل ہے کیونکہ ان کے مطابق کافر لوگ پیامبران الہی پر اپنی دلیل اور حجت قائم کرسکتے ہیں کہ خدا نے ہی
ہمیں کافر خلق کیا ہے اور ہم سے کفر چاہا ہے ۔ اور ہم ایمان لانے پر قادر نہیں ہیں ۔ لیکن اگر خدا چاہتا تو ہم بھی ایمان لے آتے ۔
• اگر اہل اسلام ، کفار کے ساتھ مناظرہ اور احتجاج کریں اور اسلام کی حقانیت کو منوانا چا ہیں تو جبر کے قول کے مطابق کفار کیلئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ خدا نے ہمیں اسلام میں داخل ہونے سے منع کیا ہے۔ اور ہم مجبور ہیں کہ حالت کفر پر باقی رہیں ۔
چنانچہ ابی بحرخاقانی کے دور شہنشاہیت میں سارے یہودی جمع ہوئے اور خاقانی سے کہنے لگے کہ آپ ایک عادل اور منصف بادشاہ ہے اور اس شہر میں آپ کے علمای دین کہ جن پر آپ کو اعتماد حاصل ہے۔ اس بات کے قائل ہیں کہ ہم یہودی اسلام اور ایمان لانے پر مختار نہیں ہیں ۔ تو آپ کس بنا پر ہم سے جزیہ اور خراج (ٹیکس) لیتے ہیں؟ اور یہ جزیہ لینا آپ کے عدل اور انصاف کے خلاف ہے۔ تو اس بادشاہ نے علمای مجبرہ کو جمع کیا اور یہودیوں کی بات کو ان تک پہنچادی ۔ تو تب کہا ؛ یہودی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ تو بادشاہ نے کہا : کس بنا پر یہ لوگ قادر نہیں ہیں؟! یہ علماء جواب نہ دے سکے ۔تو بادشاہ نے انہیں شہر بدر کردیا ۔ -1
• بطلان جبر پر بہلول کا قصہ
ایک دن بہلول کا گذر ابو حنیفہ کے نزدیک سے ہوا جہاں وہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہا تھا ، کہا : یہ جعفر صادق(ع) کا خیال ہے کہ جو بھی فعل بندے سے صادر ہوتا ہے خود اسی کے اختیار سے انجام پاتاہے جبکہ میں اسے نہیں مانتا ۔ کیونکہ ہر وہ فعل جو بندے سے صادر ہوتا ہے وہ خدا انجام دیتا ہے۔ اور جعفر صادق(ع) کہتے ہیں کہ شیطان کو قیامت کے دن آگ میں جلایا جائے گا جبکہ یہ ممکن نہیں کیونکہ شیطان کی جنسیت آگ سے ہے اور آگ آگ کو کیسے جلا سکتا ہے؟! اسی طرح جعفرصادق(ع)کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے جبکہ یہ درست نہیں کیونکہ ہر موجود کو دیکھاجا سکتا ہے لیکن خداوند کوتو دیکھ نہیں سکتا۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔
بہلول یہ سب کچھ سن رہا تھا ۔ ایک ڈھیلہ اٹھا کر ابو حنیفہ کے سر پر دے مارا اور بھاگ نکلا ۔ لیکن لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور خلیفہ کے پاس لے گئے۔ ہارون نے اس سے پوچھا : کیوں اس عالم جلیل کو اذیت دی؟
بہلول نے کہا: یہ اپنے مذہب کے مطابق جھوٹ بول رہا ہے۔ کیونکہ میں نے نہیں مارا بلکہ خدا نے مارا ہے۔ اور اسے کوئی اذیت نہیں دی ہے اور نہ ہی میں نے کوئی صدمہ پہنچایا ہے ۔ کیونکہ اس کی خلقت خاک سے ہوئی ہے اور خاک(ڈھیلہ) جو اس کا ہم جنس ہے کیسے اسے صدمہ پہنچا سکتی ہے؟ اسی طرح اگر درد کا اظہار کر رہا ہے توبھی جھوٹ ہے کیونکہ اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو درد کو ہمیں کھادے ۔ یہ تو خود کہہ رہا تھا کہ خدا اگر موجود ہے تو ہر موجود دیکھنے میں آتا ہے تو خدا کیوں دکھائی نہیں دیتا ۔
ابو حنیفہ سمجھ گیا کہ بہلول نے ایک ڈھیلہ سے تینوں اشکال کا جواب دیا اور اس کی غلطی کو سب پر واضح کردیا ۔ اس وقت ہارون ہنس پڑا اور انہیں چھوڑدیا ۔ -2
اس مناظرے سے آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اگر ہم جبر کے قائل ہوجائیں تو خداوند متعال کو غفور اور رحیم کہنا درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ عفو ودرگذر اس صورت میں ممکن ہے کہ بندہ مختار ہو ۔ اور گناہوں کو ترک کرے جبکہ وہ گناہ کو انجام دے سکتا ہو ۔ مگر یہاں خدا فاعل ہے کس طرح ایک بے گناہ بندے کو عفو کریگا اور بخش دیگا؟ اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا اپنے آپ کو بخش رہا ہے۔
• اگر اہل حق اوراہل باطل کے درمیان مناظرہ اور مباحثہ ہوجائے تو قول مجبرہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کی خدا نے خود مناظرہ کیا ہے ۔ کیونکہ مناظرہ فعل ہے اور خدا فاعل ۔ پس خدا ہم محق ہے اور ہم مبطل ۔ کیونکہ مناظرہ میں ایک حق پر ہوتا ہے دوسرا باطل پر۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم بھی ہے اور جاہل بھی! در حالیکہ خدا کی ذات اس چیز سے پاک و منزہ ہے۔
---------------
1 ۔ سید علم الھدی ؛معاد و عدل ،ص١٠۔
2 ۔ ہمان ،ص۱۲۔
|