جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں
 

دوسری فصل : جبر

جبر کی تعریف

جبر کی لغوی تعریف :
جبر کی لغوی تعریف : اصول و عقائد کے مطابق جبر سے مراد یہ ہے کہ انسان سے کسی کام کو انجام دینے میں ارادہ اور آزادی کو چھین لیا جائے ۔ اور وہ اچھے اور برے کو انتخاب کرنے پرقادر نہ ہو۔ بلکہ جو کام بھی انجام دیتا ہو ، صرف ارادۂ الہی کے مطابق انجام دیتا ہو۔علامہ عسکری Sفرماتے ہیں: الجبر جبرہ علی الامر واجبرہ ای قھرہ علیہ و اکراھہ علی الاتیان بہ۔ 1

جبر کی اصطلاحی تعریف
الجبر اجباراللہ تعالی عبادہ علی ما یفعلون خیراً کان او شراً ، حسناً کان او قبیحاً دون ان یکون للعبد ارادة و اختیار الرفض و الامتناع-2- عقیدہ تفویض والوں کے مطابق اختیار کی تعریف کو اختیار کے بخش میں بیان کرونگا۔ لیکن ضروری سمجھتا ہوں کہ بحث کو شروع کرنے سے پہلے ریشۂ تاریخی جبر کو تلاش کروں کہ یہ بحث کہاں سے اور کب شروع ہوئی؟

عقیدہ جبر و تفویض کی ابتداء
جبر وتفویض کا تاریخی ریشہ بہت قدیمی اور اختلافی بحث ہے : سب سے پہلے اس مسئلہ کو اقدم الحکما ارسطو نے مطرح کیا ہے۔ بعض
دانشمندوں کا خیال ہے سب سے پہلے یہ بحث ہندوستان کے حکما اور فلاسفہ کے درمیان شروع ہوا۔ اس کے بعد مصری دانشمندوں نے اسے مورد بحث قرار دیا۔ یہاں تک کہ پانچ سو سال میلاد علوم و معارف سے پہلے سرزمین یونان میں مورد بحث قرار پایا۔
سقراط (٤٦٩ ۔ ٣٩٩) اور ان کے اولین شاگرد افلاطون جبر کے معتقد ہوئے اور کہنے لگے کہ انسان کسی بھی کام کے انجام دینے میں اختیار نہیں رکھتا ۔اور یہ بحث لوگوں کے درمیان اس وقت تک باقی رہی کہ آفتاب اسلام طلوع ہوا۔ اور اسلامی دانشمندوں کے درمیان علوم و معارف کا میدان کھل گیا ۔ ان میں سے اشاعرہ جبر کے معتقد ہوئے اور گروہ مفوضہ (معتزلہ) تفویض کے۔ یعنی جو بھی بندہ سے سرزدہ ہوتا ہے خدا کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔بلکہ خدا کا کردار فقط اس حد تک ہے کہ انسان کو توانائی اور قدرت عطا کرے تاکہ انسان جو چاہے کرے۔ اور کوئی مشیت یا ارادہ الہی اس کام کی انجام دہی کیلئے ہونا ضروری نہیں ۔
لیکن طائفہ امامیہ ان دونوں نظریے کو رد کرتے ہیں اور حد وسط کو اختیار کرتے یں ۔ نہ معتزلہ کی طرح تفریط کا شکار ہوا اور نہ اشاعرہ کی طرح افراط کا بلکہ بین الامرین کا قائل ہوا۔کتاب خیر الاثر کے صفحہ ۳۰ پر ابن حزم اندلس سے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں میں پہلا شخص جس نے مذہب جبریہ کی بنیاد ڈالی جہم بن صفوان ہے۔
اور عموماً مذہب جبر کو اشعریوں کی طرف نسبت دی جاتی ہے کیونکہ انہوں نے زیادہ اس نظریے کی ترویج اور تبلیغ کی جس کا علمبردار ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری ہے۔ جس کاحسب و نسب آٹھ پشتوں کے بعدابوموسی اشعری تک پہنچتا ہے۔ اور مذہب اشاعرہ اس کے زمانے سے آغاز ہوا۔ اور یہ ابوالحسن پہلے معتزلی تھا۔ اور علم کلام کو محمد بن عبدالوہاب جبائی سے حاصل کیا جو ابوالحسن کا استاد ہونے کے ساتھ ساتھ سوتیلا باپ بھی تھا۔
ابن خلکان نے ابوعلی جبائی کی حالات زندگی لکھتے ہوئے اس مناظرے کو بھی نقل کیا ہے جو ان دونوں کے درمیان ہواتھا۔ وہ مناظرہ کچھ یوں ہے:
ابوالحسن اشعری: استاد ! (ابوعلی جبائی) یہ بتاؤ تین بھائی ہیں ایک کافر دوسرا مؤمن اور تیسرا بچہ جسے بچپنے میں موت آئی ۔ ان تینوں کی حالات قیامت کے دن کیا ہوگی؟
ابو علی جبائی: زاہد درجات کا مالک ہوگااورر کافر درکات کا اور بچہ اہل سلامت والوں میں سے ہوگا ۔
ابوالحسن اشعری : اگر یہ بچہ مؤمن اور زاہد کے درجات تک جانا چاہے توکیا اسے خدا کی طرفسے اجازت ملے گی؟
ابو علی جبائی: نہیں، بلکہ اسے کہا جائے گا تمہارا بھائی عبادات اور اطاعات کی وجہ سے ان درجات کا مالک ہوا ہے لیکن تو نے تو کوئی اطاعت نہیں کی!
اشعری: بچہ کہے گا : خدا یا اس میں میرا کیا قصور ؟ تو نے مجھے مہلت نہیں دی تاکہ تیری اطاعت کروں!
جبائی : خدا فرمائے گا مجھے معلوم تھا کہ اگر تمہں زندہ رکھا جاتا تو گناہ کے مرتکب ہوتا، اور عذاب الیم کا مستحق ہوتا ۔ اس لئے میں نے تمھاری بھلائی اور مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے جلدی موت دی۔
اشعری: تو پھر جو بھائی کافرمرا ، کہے گا یا الہ العالمین ! جس طرح تو میرے چھوٹے بھائی کے حال سے واقف تھا اس طرح میرے حال سے بھی واقف تھا۔ کیوں اس کی مصلحت کی رعایت کی اور میری مصلحت کی رعایت نہیں کی؟!!
جبائی : اے ابوالحسن اشعری ! کیا تو پاگل ہوگیا ہے؟!
اشعری : نہیں میں پاگل نہیں ہوا بلکہ شیخ کا گدھا دلدل میں پھیس گیا ہے! یعنی تو جواب نہیں دے پاتا۔ یہ کہہ کر اشعری جبائی سے الگ ہوگیا ۔ اور اس کے مذہب کو بھی ترک کیا ۔ ساتھ ہی بہت سے اعتراضات اور اشکالات بھی مذہب جبائی ( معتزلہ) پر وار کیا ۔ اس وقت ابن خلکان خود چونکہ اشعری تھا ، نے مناظرے کو نقل کرکے اپنے مذہب(اشاعرہ) کی تائید کرتے ہوئے کہا:
وھذہ المناظرة دالّة علی ان اللہ تعالی خصّ من شاء برحمتہ و خصّ آخربعذابہ و انّ افعالہ غیر معللة بشی من الاغراض-3 ۔
معاویہ بن ابی سفیان پہلا اموی خلیفہ ہے جس نے اپنے مکروہ کاموں اور جنایات کی توجیہ کیلئے جبریہ کے نظریے کی پرچار کی اور اکثر مسلمانوں کو اس مذہب کی طرف وادار کیا۔
شیخ بہائی اپنی کتاب کشکول میں لکھتے ہیں :
قال الراغب فی المحاظرات: خطب معاویہ یوماً فقال: ان اللہ تعالی یقول و ما من شیءی الا عند نا خزائنہ و ما ننزل الا بقدر معلوم فلم نلام نحن؟!! فقام الیہ الاحنف فقال : انّا لا نلومک علی ما فی خزائن اللہ ولکن نلومک ما انزل اللہ علینا من خزاینہ فاغلقت بابک دونہ یا معاویہ!! 4
یعنی ایک دن اس نے جب لوگ بھوک اور پیاس کی شکایت لیکر اس کے پاس گئے تو کہا: خدا تعالی فرماتا ہے: ہمارے ہا ں ہر چیز کے خزانے پڑے ہیں اور ہم ان میں سے ایک جچی تلی مقدار بھیجتے رہتے ہیں ۔ پس کیوں مجھے ملامت کرتے ہو؟
اخنف نے کھڑے ہوکر کہا: اے معاویہ! ہم خدا کے دئے ہوئے خزانے پر تمھاری مذمت نہیں کرتے بلکہ اس خزانے کو غصب کرکے ہمارے اوپر حرام اور فقط اپنے اوپر خرچ کرنے پر مذمت کرتے ہیں۔

جبر ، ظالموں کا بہانہ
اس نظریے کا تشہیرکرنے والے حکمرانوں کا اصل ہدف یہ تھا کہ اپنے کئے ہوئے ظلم اور ناانصافی کی توجیہ کرے اور لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو بے قصور ٹھہرائے۔ اور یہ لوگ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہوئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جنایت کاروں کا ارادہ وہی ارادۂ خدا ہے اور خود انسان تو مسلوب الاختیار ہے ۔ پس ان کے مطابق یہ جنایتکا در اصل اطاعت پروردگار کر رہا ہے۔ جسے مختصر فارمولے میں یوں بیان کیاہے:
• مقدمہ اول: اصل عدالت یعنی جو کچھ خداوند انجام دے ، عین عدل ہے ۔
• مقدمہ دوم :اصل جبر یعنی جو کچھ یہ ستمگر لوگ انجام دیتے ہیں وہ خداکا فعل ہے۔
• نتیجہ : پس جو کچھ یہ ظالم لوگ انجام دے اگرچہ بدترین گناہ اور جرم ہی کیوں نہ ہو عین عدالت ہے۔ درحالیکہ اس قسم کا استدلال پیش کرنا حقیقت کے سامنے آنکھ بند کرنے کے مترادف ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ظلم عین عدل بن جائے؟!! 5
اس عقیدے سے اموی خلفاء میں سے سب سے زیادہ معاویہ نے سوء استفادہ کیا۔ اس نے اپنی خواہشات اور میلانات کو درباری ملاؤں اور جھوٹے راویوں کے حلقوم سے اصول علم کلام کی شکل میں جاری کرایا ۔ پھر کہا: وانا خلیفة اللہ ، پس میری خلافت بھی مرضی خدا پر قائم ہے۔اور تقریر کرتے ہوئے کہا: ان اللہ اکرم خلفائہ فاوجب لھم الجنة وانقذھم من النار ثم اجعلنی منھم ۔ یعنی بیشک خدا نے اپنے خلیفوں کو عزت بخشی اور ان کیلئے جنت واجب کیا اور عذاب جہنم سے رہائی عطا کی ہے ، اور میں بھی انہی میں سے ہوں۔
پس جو بھی انجام دیتا ہوں درحقیقت اسے خدا انجام دیتا ہے۔ اور جو بھی مجھ پر اعتراض کرے تو گویا اس نے خدا پر اعتراض کیا ۔بنی امیہ کے سیاست مداروں کیلئے اپنی خلافت کی توجیہ کیلئے قضاء وقدر اور جبر ایک محکم اور ٹھوس دلیل تھی ۔ اس لئے بنی امیہ مسلک جبر کے طرفدار اور مسلک اختیار کا سر سخت مخالف تھا۔ اور جو بھی مسلک اختیار کا طرفدار بنتا تھا انہیں اپنے عقیدہ کے خلاف سمجھتا تھا ۔ اور یہی وجہ تھی کہ معبد و غیلان جو ایمان اور سچائی کے لحاظ سے معروف تھے، مسلک اختیار کے قائل ہونے کی وجہ سے معبد کو حجاج نے اور غیلان کو ہشام بن عبد الملک کے حکم سے ہاتھ پیروں کو کاٹنے کے بعد سولی پر چڑھائے گئے۔ 6
---------------
1 ۔ عقائد اسلامی در قرآن۔
2 ۔ ہمان۔
3 ۔ خیرالاثر،ص٤٣۔
4 ۔ ہمان ، ۳۵۔
5 ۔ عدل در جہان بینی توحیدی ، ص ٧٨۔
6 ۔ ہماں ، ص٨١۔