جبر و اختیار اسلام کی نگاہ میں

تألیف
غلام مرتضی انصاری
۶محرم١٤٢۹ہ



پہلی فصل : اختیار

اختیارکی لغوی تعریف :
خیّرہ : فوض الیہ الاختیار بین الامرین او شیئین او اکثر-1 یعنی کسی شخص کو دویا دو سے زیادہ امور میں سے کسی ایک کا منتخب کرنے کااختیار دینا ۔

اختیار کی اصطلاحی تعریف:
1. انسان کے اندر مختلف قسم کی خواہشات پائی جاتی ہیں اور ان میں سے کچھ خواہشات کو ترجیح دیکر انتخاب کرتا ہے۔ اور یہی اختیار ملاک تکلیف ہے۔
2. عقائد اسلامی کی روشنی میں اختیار کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے: ان اللہ سبحانہ کلّف عبادہ بواسطة الانبیاء و الرسل ببعض الافعال و نہی ھم عن بعض آخر و امرھم بطاعتہ فی امر بہ و نھی عنہ بعد ان منحھم القوة والارادة علی الفعل و الترک و ھولھم الاختیار فی ما یفعلون دون ان یجبر احداً علی الفعل . 2
بیشک اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو انبیاء اور رسولوں کے ذریعے بعض افعال سے روکا گیا ہے اور بعض افعال کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ ان کی باتوں پر عمل کرے اگر وہ کسی چیز سے روکے تو رک جائے اور اگر کسی چیز کا حکم دے تو اسے بجا لائے۔اور یہ حکم انسانوں کو ان افعال کے انجام دینے اورنہ دینے کا ارادہ اور قوت دینے کے بعدکیا گیا ہے کہ ان کیلئے اختیار ہے کہ اس فعل کو انجام دے یا نہ دے ۔ اس پر کوئی جبر نہیں ۔

اختیار کی عرفی تعریف
1. اختیار در مقابل اضطرار:
بعنوان مثال فقہ میں مضطر افراد کا حکم بیان ہوا ہے چنانچہ کسی کیلئے بھی اپنے اختیار سے خنزیر کا گوشت کھانا جائز نہیں لیکن اگر وہ مضطر ہوجائے یعنی اگر نہ کھائے تو جان اس کی خطرے میں پڑجائے یا بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے، تو کھانا جائز ہے۔ یہ قرآن کا حکم ہے: إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ-3 .یقینا اسی نے تم پر مردار،خون، سورکاگوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا، پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ بغاوت کرنے اور ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

1. اختیار در مقابل اکرا ہ
یہ مورد زیادہ تر حقوقی اموراور لین دین میں پایا جاتا ہے۔ بعنوان مثال کہا جاتا ہے کہ: بیع مکرہ باطل یعنی بیع صحیح ہونے کے شرائط میں سے ایک اختیار ہے پس اکراہ سے مراد کسی ضرر یا نقصان کا تہدید کرنا اور اسی تہدید یا دھمکی کی وجہ سے کسی کام کو انجام دینا۔ اگر یہ دھمکی نہ ہوتی تو وہ اس کام کو انجام نہ دیتا۔

2. اختیار درمقابل جبر
یہ اختیار کا وسیع ترین معنی ہے کہ وہ کام جسے فاعل اپنی میل اور رغبت کے ساتھ کسی دوسرے عامل کی طرف سے کوئی زور یا تہدید یا دھمکی کے بغیر انجام دیتا ہے ۔ یہ اس اختیارسے بھی اعم ہے جسے فاعل اپنے قصد و ارادہ سے انجام دیتا ہے۔ کیونکہ یہاں کوئی ایسی شرط نہیں جو ایک ذہنی مقایسہ کے بعد انجام دیا جائے اور اس کے بعد زوق پیدا ہو جائے-4۔

3. اختیار یعنی ارادہ اور انتخاب
یعنی انسان کے سامنے کئی راستے موجود ہیں جن میں سے ایک راستے کو جانچ پڑتال کے بعد انتخاب کرتا ہے کیونکہ اپنے اس فعل کو پہلے سے تصور کر چکا ہوتاہے جسے فاعل بالقصدکہا جاتا ہے۔
ایک سوال :اختیار ، ارادہ اور قدرت سے کیا مراد ہے؟ مختار ، مرید اور قادر کون ہیں؟
ان سوالوں کے جواب میں آیة اللہ حسن زادہ آملی تعلیقات شیخ رئیس سے نقل کرتے ہیں: یجب ان یکون فی الوجود وجود بالذات و فی الاختیار اختیار بالذات و فی الارادة ارادة بالذات و فی القدرة قدرة بالذات حتی یصح ان یکوں ھذہ الاشیاء لا بالذات فی الشیوع معناہ یجب ان یکون واجب الوجود وجوداً بالذات و مختاراً بالذات و قادراً بالذات و مریداً بالذات حتی تصح ھذہ الاشیاء لا بالذات فی غیرہ۔ -5
یعنی واجب الوجود ہے جس کا وجود وجود ذاتی ہے ، قدرت قدرت ذاتی ہے اور اس کا ارادہ ارادئہ ذاتی ہے، تا اینکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ واجب الوجود کے علاوہ بقیہ تمام موجودات عالم بالذات نہیں یعنی ان کی بقا کسی اور وجود کے اوپر محتاج ہے ۔
---------------
1 ۔ عقائد اسلامی در قرآن، ج١،ص٤٤٧.
2 ۔ ھمان.
3 ۔ بقرہ ۱۷۳.
4 ۔ محمد تقی مصباح ، معارف قرآن ،ج١،ص٣٧٦.
5 ۔حسن زادہ آملی ، خیر الاثر، ص٧.