اسلام کے عقائد(تيسری جلد )
 

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد
ان کے بارہ اوصیائ
ہم یہاں پر ان بارہ افراد کے اسماء بیان کررہے ہیں جن کے ناموں کی تصریح پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری روایات میں فرمائی ہے۔
پہلے وصی حضرت علی بن ابی طالب امیر المو منین ، وصی رسول ربّ رلعالمین۔
دوسرے وصی حضرت حسن بن علی سبط اکبر.
تیسرے وصی حضرت حسین بن علی سبط اصغر ، شہید کربلا.
چوتھے وصی حضرت علی بن الحسین سجاد ، زین العابدین .
پانچویں وصی حضرت محمد بن علی باقر.
چھٹے وصی حضرت جعفر بن محمدں صادق.
ساتویں وصی حضرت موسی بن جعفر کاظم.
آٹھویں وصی حضرت علی بن موسیٰ رضا.
نویں وصی حضرت محمد بن علی جواد ، تقی.
دسویں وصی حضرت علی بن محمد ہادی، نقی.
گیارھویں وصی حضرتحسن بن علی عسکری.
بارھویں وصی حضرت محمد بن الحسن مھدی،حجت اور منتظر.
اس طرح سے حضرت آدم سے خا تم ا لانبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک وصی کی تعیین کا سلسلہ چلا ہے۔

دوسرے:
یہ کہ ہم نے اس کتاب میں دیکھا کہ اللہ کی حجتوں کے درمیان ''انوش'' نے زمین پر کھجور کا درخت لگا یا ، زراعت کی اور زمین میں بیج بویا اور زمین کی آباد کاری میں مشغول ہوئے اور اپنے فرزند قینان کو نما ز قائم کرنے،زکاة ادا کر نے،خانہ خدا کا حج کر نے اور قابیلیوں سے جہاد کر نے کا حکم دیا اور خود بھی باپ کے حکم کی تعمیل کی اور اس کو کمال کے تمام مراحل تک کامیابی سے ہمکنارکیا ۔
اور''یرد'' کو دیکھتے ہیں کہ استخراج معادن اور شہر کی تعمیر میں مشغول ہوئے ہیں،مسجدیں بنانے مضر درندوں کے قتل کر نے اور گائے بھیڑ کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔
ادریس وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے سوئی سے خیاطی(سلائی) کی ہے اور وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے قابیل کی اولاد کو قید کیا اور انھیں اپناغلام بنا یا ، وہ علم نجوم میں ماہر تھے.اور بارہ برجوں اور آسمانی سےّاروں میں سے ہر ایک کا مخصوص نام رکھا ہے۔
متوشلح بھی شہروں کی تعمیر کی جانب متوجہ ہوئے ہیں وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اونٹ کی سواری کی ہے۔
یہیں سے ہم درک کرتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی طرف سے اسلام کی تبلیغ پر مامور تھے وہ اپنے زمانے میں بشری تمدن کے بھی راہنما تھے ، لوگوں کی ہدایت کے بارے میں عیسائیوں کے دعوے کے برخلاف صرف ان کی عبادت کی کیفیت اور طریقوں پر اکتفا نہیں کیا ہے ۔

تیسرے :
عصر فترت میں پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کو دیکھتے ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند اسمٰعیل کی دعا کے مصداق تھے جیسا کہ ان دونوں حضرات نے سورۂ بقرہ کی ١٢٨آیت کی نقل کے مطابق بارگاہِ خدا وندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا یا :
(رَبََّنَا وَاجْعَلْنَامُسْلِمَینِ لَکَ وَ مِن ذُرِّیَّتِنَا اُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ...)
خدا یا! ہمیں اپنا مسلم مطلق قرار دے اور ہمارے فرزندوں کو بھی ایسی امت قرار دے جو تیرے سامنے خاضع اور سراپا تسلیم ہوں۔
انھیں میں سے ''خزیمہ بن مدرکہ'' بھی تھے کہ فرما تے تھے:
مکّہ سے احمد نامی پیغمبر کے خروج کا زمانہ قریب ہے اس کی خصو صیت یہ ہو گی کہ لوگوں کو خدا کی عبادت اور پرستش کی دعوت دے گا لہٰذا اس کی پیروی کرنا اور اس کی تکذیب نہ کر نا کہ وہ جو کچھ پیش کریگا وہ حق ہے۔
''کعب بن لؤی'' بھی کہتے تھے آسمان وزمین بیکار خلق نہیں کئے گئے ہیں اور دار آخرت تمہارے سامنے ہے، وہ لوگوں کو مکارم اخلا ق کی دعوت دیتے تھے اور کہتے تھے؛ اللہ کے پر امن حرم سے خاتم الانبیائ، اس امر کے لئے جس کی موسیٰ اور عیسیٰ نے خبر دی ہے مبعوث ہوں گے۔
اور اس طرح فرما تے تھے''اچانک خدا کے پیغمبر محمدۖ پہنچ جائیں گے جب کہ تم غافل ہوگے ...'' پھر کہتے تھے : اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا اور پیغمبر کی دعوت و بعثت کو درک کرتا۔
اور جب''عمر وبن لحیّ'' ''ہبل'' نامی بُت کو مکّہ لایا اور بُت پر ستی عام ہو گئی تو،یہ ''قُصیّ'' تھے کہ بُت پرستی کو مردود سمجھتے ہوئے لوگوں کو خدا کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے. انھوں نے حج کے شعائر کو جو کہ ابراہیم کے دین حنیف کے بنیادی جز میں شامل تھے قائم رکھا اور مکّہ والوں کی مدد سے حجاج کو کھانا کھلانے اور ان کی مہمان نوازی کے لئے قدم اٹھا یا۔
ان کے بعد یہی ذمّہ داری ان کے فرزند ''عبد مناف'' نے سنبھالی اور انہوں نے قریش کو تقوائے الٰہی اور صلہ رحم کی رعایت کا حکم صادر کیا۔
ان کے فرزند ''جناب ہاشم'' بھی حجاج کو کھانا کھلانے اور مہمان نوازی کے لئے اٹھے، انھیں نے مکّہ میں اپنے مدد گاروں سے کہا: تمھیں اس گھر کی حر مت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم لوگ اس امر کے لئے صرف اور صرف حلال مال مخصوص کرو اور خبردار وہ مال جوغصبی ہو، زور زبردستی سے چھینا گیا ہو اور قطع رحم کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہوا یسے مال کو اس محترم کام کے لئے ہرگز مخصوص نہ کرنا۔
یہ جناب ہاشم ہی تھے کہ جنھوں نے جاڑے اور گرمی میں دو تجارتی سفر کی،شام اور ایران، یمن اور حبشہ کی جانب بنیاد ڈالی۔
ان کے فرزند'' جناب عبد المطلب'' نے بھی اپنے آباء و اجداد کی را ہ و روش اپنائی.ان کے بارے میں اس طرح کہا گیاہے:
وہ قلبی اعتبار سے توحید اور روز قیامت پر اعتقاد رکھتے تھے،خدا وند عالم نے زمزم نامی کنویں کی کھدائی ان کے ہاتھوں کرائی .اور جب ابرھہ اپنے لشکر کے ساتھ کعبہ کو منہدم کر نے کے لئے مکّہ آیا تو اُس سے جناب عبد المطلب نے کہا: اس گھر کا ایک مالک ہے جو تجھے روک دے گا پھر اُس وقت خدا سے رازو نیاز کرتے ہوئے اس طرح شعر پڑھا:
یا ربِّ فان المرئَ یمنع
رحلہ فامنع رحالک
''خدایا! ہر شخص اپنے گھر کا دفاع کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع کر''۔
ابرھہ اور اس کے سپا ھیوں کے مکّہ پر حملہ کر نے کے بعد قریش فرار کر گئے اور جناب عبد المطلب اور ان کا گھرانہ تنہا وہاں رہ گیا۔
اور جب خدا نے ابرھہ کے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تو اس طرح شعر پڑھا:
طارت قریش اذ رات خمیساً
فظلت فرداً لَا اری انیسا
''جب قریش کی نظر ابرھہ کے لشکر پر پڑی تو داہنے بائیں سے فرار کر گئے اور میں تن تنہا بے یارو مددگار باقی رہ گیا''
''ہم قدیم ا لایام ہی سے آل اللہ تھے اور حضرت ابراہیم کے دور سے اب تک ایسا ہی ہے۔
ہم نے قوم ثمود کو درمیان سے اکھاڑ پھینکا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو۔
ہم خدا کے عبادت گزار ہیں، صلۂ رحم اور عہد وپیمان کا پاس ولحاظ رکھنا ہماری سنت ہے۔
ہمیشہ خدا کی ہمارے درمیان ایک حجت (راہنما) رہی ہے کہ خدا وند عالم اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے'' ۔
شیبة الحمد (جناب عبد المطلب) ان اشعار میں فر ماتے ہیں:
جب قریش نے ابرھہ کے لشکر کو دیکھا تو پرندوں کی طرح ہر جانب سے فرار کر گئے اور میں تن تنہا بے مونس و یاور حرم میں باقی رہ گیا. عبدا لمطلب کی یہ بات اس ایمان اور اطمینان کی عکاسی کر رہی ہے جو ایمان وہ خدا پر رکھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ خدا ابرھہ کو حرم میں داخل نہیں ہونے دے گا اور اسے تباہ و برباد کردے گا. وہ اور ان کا گھر انہ حضرت ابراہیم کے زمانے سے آل اللہ ہیں اور اس بات کا مخلوق میں خدا کی حجت کے سوا کوئی مصداق نہیں ہوسکتا. کیو نکہ خدا کی یہی حجتیں تھیں کہ ثمود اور عاد قبیلہ کو ارم اور اس کے ستونوں کے ساتھ ویران کر دیا اور چونکہ ہود اور صالح جناب عبد المطلب کے اجداد کے سلسلے میں نہیں ہیں اور ان دو پیغمبروں کی قومیں قریش سے نہیں تھیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کی یہ بات کہ '' ہم نے قوم ثمود اور عاد کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکا '' اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کی حجتوں نے کہ اُن میں سے ایک جناب عبد المطلب بھی تھے ثمود اور عاد کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکا، پھر خدا نے اس وقت ان کی دعا سے ابرھہ کو نابود کر دیا. اور اُن کا یہ کہنا کہ ''ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی حجتیں رہی ہیں کہ خدا ان کے ذریعہ ہم سے بلاؤں کو دور کرتا ہے'' یہ اس بات کی تاکید ہے کہ اپنے زمانہ میں وہ خود ہی خدا کی ایک حجت تھے،جیسا کہ حضرت ہوداور حضرت صالح اور حضرت ابراہیم اپنے زمانے میں خدا کی حجت تھے۔
جب پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے،تو جناب عبد المطلب نے اپنے شعر میں کہا کہ ان کے پوتے کا نام آسمانی کتابوں میں''احمد'' ہے جیسا کہ خدا نے عیسیٰ بن مریم کی زبان سے فرما یا:
( وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ ےَاتِی مِنْ بَعدِی اِسْمُہُ اَحْمَدُ )
میں اپنے بعد آنے والے پیغمبر کی تمھیں بشارت دے رہا ہوں جس کا نام احمد ہو گا۔
اور جب پیغمبر کی دایہ حلیمہ سعدیہ نے جناب عبد المطلب کوان کے مکّہ کے پہاڑوں میں گم ہو جانے کی خبر دی، توجناب عبد المطلب نے اپنے ربّ سے خطاب کر کے کہا:
''خدایا! محمد کو کہ تو نے خود ہی اس کا نام محمد رکھا ہے ہمیں لو ٹا دے''۔
یہ تمام باتیں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ عبدا لمطلب ان لو گو میں سے تھے جو اپنے سے قبل کی آسمانی کتابوںکے بارے میں آگاہی رکھتے تھے ؛ اور یہ مکّہ جیسے جہالت سرشت شہر اور قریش کی طرح جاہل لوگوں میں ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ اس بات کو قبول کر یں کہ وہ کتابیں اُن کے اختیار میں تھیں اور جناب عبد المطلب سلسلۂ اوصیاء ابراہیم اور اسمٰعیل کی ایک کڑی ہیں۔
اوریہ بھی کہ جناب عبد المطلب صلۂ رحم کی رعایت ، محتاجوں کو کھانا کھلانے ، ظلم وستم نہ کرنے اور سر کشی و طغیانی نہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور کہتے تھے:
کوئی ستمگر دنیا سے نہیں جا تا مگر یہ کہ وہ اپنے ظلم وستم کی سزا بھگت لے اور کہتے تھے: خدا کی قسم اس دنیا کے بعد پاداش اعمال کی ایک جگہ ہے. جہاں اچھے یا بُرے کاموں کی جزا یا سزا ملے گی۔
جناب عبد المطلب نے نذر پوری کرنے، چور کاہاتھ کاٹنے،محارم سے شادی کر نے کی ممانعت اور لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے روکنے کی سنت قائم کی ۔
اور شراب پینے،زنا کر نے اور برہنہ خانہ خدا کے ارد گر د طواف کر نے سے روکا ہے۔(١)
یہ سب کچھ خاتم الانبیائۖ کی شریعت میں مذکورہے ۔
خدا وند عالم نے مکّہ والوں کے لئے جناب عبد المطلب کی طلب باراں سے متعلق دعا مستجاب کی ہے. وہ ہر سال ماہ رمضان میں غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے؛ جناب عبدالمطلب نے تمام قریش (بالخصوص جناب ابو طالب) کو پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رعایت کی تاکید فرمائی ۔
..............
(١) دور جاہلیت میں بعض افراد، اپنے لباس میں اس بہا نے سے طواف نہیں کرتے تھے کہ انھوں نے اس لباس میں گناہ کیا ہے لہٰذا طواف کے موقع پر یا مکّہ والوں سے عارےةً لباس مانگتے تھے یا عریاں کعبہ کا طواف کر تے تھے.

آیات کی تفسیر میں عبرت کے مقامات
خداوندعالم نے بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام عالم پر ان کو فو قیت و بر تری عطا کی اُس وقت جب فرعون اور فرعون کے ماننے والوں نے ان کے لڑکوں کے سر کاٹ کر اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ کر بدترین عذاب سے انھیں دو چار کیا تو اس نے انھیں نجات دی اور سارے عالم پر انھیں بر تری عطا کی اور دنیا میں عظیم فوقیت اور رفعت کا مالک بنا یا۔
اسی طرح اُن کے لئے دریا کو شگافتہ کیا اور اس کے درمیان خشکی کا راستہ پیدا کیا تا کہ وہ عبور کر سکیں اور اس نے انھیں عبور کرایا. فر عون اور اس کے سپا ہیوں نے ان کا پیچھا کیا اور اسی خشکی کے راستہ پر قدم رکھا جس سے بنی اسرائیل آگے گئے تھے اور بنی اسرائیل کی آخری فرد کے باہر آتے ہی دریا آپس میں مل گیا اور خدا نے فرعون اور اُس کے سپا ہیوں کو بنی اسرائیل کی نگاہوں کے سامنے غرق کر دیا. پھر فرعون کی لاش کو پانی کی سطح پر لے آیاکہ آج تک مصر کے میوزیم میں سالم موجود ہے اور دنیا والوں کے لئے عبرت کا سامان ہے۔
بنی اسرائیل اُسی طرح آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک قوم کو دیکھا کہ وہ بتوں کی پو جا کررہی ہے،تو پھر انھوں نے موسیٰ سے کہا:''ہمارے لئے بھی ان کی طرح کو ئی خدا قرار دو''موسیٰ نے اُن سے کہا:ان کی روش لغو اور باطل ہے۔
آیا اس خدا کے علاوہ کہ جس کانام جلیل ہے اور اُس نے تم کو سارے عالم پر برتری و فو قیت عطا کی ہے کوئی دوسرا خدا تلاش کروں؟!
اس کے بعد خدا نے بنی اسرائیل سے فرمایا: (اسکنوا الارض)
اس سر زمین کو اپنے تصرف میں قرار دو یہ اس حال میں خطاب تھا جب کہ ان کی ایک عمر فرعون کی غلامی میں گذرچکی تھی حتیٰ کہ اپنے مالک و مختار بھی نہیں تھے چہ جائیکہ وہ کسی زمین کے تمام خصوصیات و امتیازات کے ساتھ مالک ہوں۔
اور خدا وند عالم نے بادل کو ان کے سر پر سایہ فگن قرار دیا اور آسمانی غذائیں(من وسلویٰ) انھیں کھلائیں کہ سلویٰ سب سے عمدہ گو شت کو شامل ہے اور منّ اصلی اور خالص شکر کو شامل ہے.ایسی حالت میں انھوں نے موسیٰ سے کہا! اے موسیٰ ! ہم ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کر سکتے.اپنے ربّ سے کہو کہ ہمیں زمین کی پیدا شدہ چیزیں، دانے، لہسن، پیاز، مسور کی دال وغیرہ سے نوازے کہ موسیٰ نے ان سے کہا: کسی ایک شہر میں داخل ہو جاؤ وہاں تمہاری آرزوئیں پوری ہو جائیں گی۔
اسی طرح خداوند عالم نے انھیں سارے عالم پر برتری دی ،جب موسیٰ نے انھیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کیا اور خدا کے حکم سے اپنا عصا پتھر پر مارا تو پانی کے بارہ چشمے اُس سے پھوٹ پڑے اور ہر قبیلہ نے اپنی اپنی پینے کی جگہ مخصوص و معین کر لی اور ہر ایک نے اپنی اپنی پیاس بجھائی۔
خداوند جل جلالہ نے موسیٰ سے ٣٠شب کا وعدہ کیا کہ طور سینا پر جائیں تاکہ توریت جو کہ بنی اسرائیل کے لئے قوانین اور شریعت پر مشتمل ہے ،انھیں عطا کرے.خدا نے اس وعدہ کو دس دن مزید بڑھا دیا اور اس کو چالیس دن میں کامل کر دیا لیکن اس مدت میں سامر ی نے (١ )حضرت موسیٰ کے طور سینا پر مناجات کے لئے جانے کے بعد قوم بنی اسرائیل کو گمراہ کر دیا.اُس نے ان کے سونے کے زیورات سے ایک گو سالہ بنایا اور جو خاک وہ اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا وہ حضرت جبرئیل کے قدموں کی خاک تھی اسے گو سالہ کے منھ میں ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں ہوا پھونکنے سے گوسالہ کی آواز نکلتی تھی. سامری نے اُن سے کہا؛ یہ تمہارا اور موسیٰ ـکاخدا ہے!! تو ہارون نے ان سے کہا! تم لوگ اس کے ذریعہ امتحان اور آزمائش
..............
(١) سامری شمرونی کا معرّب ہے جس طرح کلمہ عیسیٰ کہ یشوع جو کہ عبری زبان کا لفظ ہے، اس سے معرّب ہوا ہے. شمرونی شمرون کی طرف منسوب ہے( جو کہ اسباط بنی اسرائیل میں سے یساکا ر کا چوتھا بیٹا ہے). اس کے لئے قاموس کتاب مقدس میں لفظ شمرون ملاحظہ ہو.
میں مبتلا ہوگئے ہو.تمہا را ربّ خدا وند رحمن ہے. انھوں نے جواب دیا : جب تک کہ موسیٰ ہمارے پاس نہیں آجاتے ہم اس گوسالہ کی پو جا نہیں چھوڑیں گے۔
خدا وندعالم نے بنی اسرا ئیل کی اس کارستانی کی موسیٰ کوخبر دی،پھر موسیٰ انتہائی افسوس اور غم و غصّہ کے ساتھ ان کے پاس واپس آئے اور اپنے بھائی ہارون کو زجروتو بیخ کی، ہارون نے کہا: اے بھائی! اپنا ہاتھ میرے سراور داڑھی سے ہٹالو. اس قوم نے مجھے چھوڑ دیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کرڈالیں۔
پھر جب بنی اسرائیل اپنی خطا پر نادم و پشمان ہوئے . تو خداوند سبحان نے ان کی توبہ قبول کی اس شرط کے ساتھ کہ جو لوگ گوسالہ پرستی میں مشغول ہوگئے تھے وہ خود کو خداپرستوں کے حوالے کر دیں تا کہ انھیں قتل کیا جائے . جب ان لوگوں نے اس فرمان کو قبول کیا اور امر خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے، تو خدا وند منّان نے انھیں معاف کر دیا.لیکن تعجب ہے کہ اُس کے بعدبھی موسیٰ سے خواہش کی کہ انھیں بھی اپنے ہمراہ ربُّ العزت کی وعدہ گاہ تک لے جائیں اور وہ خود ان کو خدا سے کلام کرتے ہوئے دیکھیں۔
اس وجہ سے موسیٰ نے اُن میں سے ستر افراد کو چُنا.جب وہ لوگ میقات (وعدہ گاہ) پر پہونچے تو کہنے لگے کہ : ہم خدا کو آشکار طور پر دیکھنا چاہتے ہیں! لہٰذا (جیسا وہ خیال کر تے تھے) اسی اثناء میں ایک بجلی نے انھیں اپنے لپیٹ میں لے لیا(اور اسی جگہ مرگئے) کہ خدا وند عالم نے دوبارہ انھیںموسیٰ کی درخواست پر حیات دی.پھر اس طرح سے یہ لو گ توریت پر(جسے خدا وند سبحان نے چراغ ہدایت قرار دیا تھا تاکہ ان کے انبیاء اس کے مطابق حکم کریں) ایمان لائے ۔
موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ یاد دلانے کے بعد کہ خدا وند عالم نے ان پر کیا کیا نعمتیں نازل کیں ہیں اوران کے ذریعہ سے انھیں عالمین پر فضیلت دی ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے میری قوم!مقدس سرزمین (سر زمین شام) کہ خدا وند عالم نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے داخل ہو جاؤ۔
انھوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ایک ستمگراور سرکش قوم رہتی ہے،ہم وہاں اُس وقت تک قدم نہیں رکھ سکتے جب تک کہ وہ وہاں سے باہر نکل نہ جائیں اور جیسے ہی وہ باہر جائیں گے ہم وہاں داخل ہو جائیں گے۔
اُس وقت ان کی قوم کے دو دانشوروںنے اُن سے خطاب کر تے ہوئے کہا: دروازہ سے اُن کے سامنے وارد ہو ، کہ تمہارے داخل ہو جانے ہی سے تمہاری کامیابی ہو جائے گی اور اگر مومن ہو تو خدا پر توکل اور بھروسہ کرو۔
قوم نے کہا: اے موسیٰ ! جب تک کہ وہ وہاں ہیں ہم ہر گز وہاں داخل نہیں ہو گے. لہٰذا تم خود اور تمہارا خدا چلے جاؤ.اور اُن سے جنگ کرو ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں!!
اس کا جواب دیتے ہوئے خدا وند سبحان نے فر مایا:
(فَاِ نَّھَا مُحَرَّ مَة عَلَےْھِمْ اَرْبَعِینَ سَنَةً ےَتِےْھُونَ فِیْ الْاَرْضِ فَلَا تٔاسَ عَلٰی الْقَوِمِ الْفَاسِقِینَ)
چالیس سال تک ان کا اس سر زمین پر تصرف کر نا حرام ہے،وہ لوگ اتنی مدت تک سینا کے جنگلوں میں اسی طرح حیران و سرگرداں رہیں گے اور تم اے موسیٰ ! ستمگروں کے لئے اپنا دل نہ جلاؤ.اور ان کی خاطر رنجیدہ نہ ہو۔
یہ سب حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کی بعض داستان ہے. لیکن جو کچھ اس قوم سے موسیٰ کے بعد سرزد ہوا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ:
اُن میں سے بعض نے دریائے سرخ کے کنارے سکونت اختیار کر لی .اور مچھلی کا شکار کر نے لگے (قضاء الٰہی سے دریا کی مچھلیاں شنبہ کو بہت زیادہ ساحل کے کنارے آتی تھیں اور خدا نے انھیں شنبہ کو شکار کرنے سے ان کے سرکش نفس کی ریاضت و تزکیہ کے لئے منع کر دیا تھا). ان لوگوں نے اس ممانعت کی مخالفت کی اور سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے لگے ،نتیجہ کے طور پر خدا نے انھیں بندر کی شکل میں مسخ کر کے ہلاک کر ڈالا۔
خداوند منّان نے حضرت موسیٰ کے اوصیاء کے درمیان حضرت داؤد کو قرار دیا اور ان کو زبور عطاکی ، جب داؤد زبور کی تلا وت کر تے اور تسبیح خدا وندی کی آواز بلند کر تے تو اُن کی خو ش الحانی پہاڑوں میں اس طرح گونجتی کہ پر ندے تسبیح میں ان کے ہم آواز ہو جاتے.خدا وند عالم نے ان کے ہاتھ میں لوہا نرم بنا دیا تھا تا کہ اُس سے زرہ بنائیں . پھران کے بعد حضرت سلیمان کو قرار دیا اور ہوا کو اُن کے اختیار میں دے دیا تا کہ اُن کے حکم کے مطابق وہ جہاں چاہیں حر کت کرے.اسی طرح جنّاتوں کو جو دریا میں غوّاصی پر مامور تھے تاکہ ان کے لئے اندر سے گوھرنکال لائیں اور عبادت خانے،مجسمے،محرابیں اور حوض کے برابر پیا لے اور بڑی بڑی ثابت دیگیں یعنی جو قابل نقل و انتقال نہ ہوتی تھیں حضرت سلیمان کے لئے بناتے تھے۔
خدا وند منان نے انھیںحیوانوں کی زبان سکھائی اس طرح سے کہ چیونٹی کی گفتگو درک کرلی اور ھدھد نے تخت بلقیس کے بارے میں انھیں باخبر کیا اور ان کے ملازموں میںاُس شخص نے جسے کتاب کا تھوڑا سا علم تھا یمن سے چشم زدن میں تخت بلقیس شام میں حاضر کر دیا۔
ملا ئکہ ان کے خد مت گزار تھے اور جنوں میں جو حضرت سلیمان کے حکم کی نافرمانی کر تا تو اسے عذاب کے تازیانہ سے تنبیہ کر تے تھے ۔
جنّات حضرت سلیمان کے مرنے کے بعد اسی طرح اپنی فعّالیت اور ماموریت پر لگے ہوئے تھے یہاں تک کہ دیمک نے اُن کے عصا کو کھوکھلاکر دیا اور سلیمان زمین پر گر پڑے۔
یہ تمام موارد(مقامات) بنی اسرائیل اور ان کے پیغمبروں کے درمیان استثنائی صورت کے حامل تھے، منجملہ ان استثنائی حالا ت کے حضرت موسیٰ کے زمانے میں ایک واقعہ یہ تھا کہ ایک مقتول کے قاتل کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہو گیا تو خدا نے انھیں حکم دیا کہ ایک گائے کا سر کاٹیں اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑااس مقتول کے جسم پر ماریں، جب انھوں نے ایسا کیا تواس کے زیر اثر خدا نے اس مقتول کو زندہ کردیا اور حقیقت امر آشکار ہو گئی۔
منجملہ ان داستانوں کے ''عزیر'' اور ''ارمیا''کی بھی داستان ہے کہ ایک ایسے ویران گاؤں سے ان کا گذر ہوا جس کی دیواریں اور چھتیں گر چکی تھیں اوروہاں کے رہنے والے سب مر چکے تھے اور درندے ان کے جسموں کو کھا چکے تھے، توحیرت سے کہا:خداوند عالم ان مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ ! خدا نے انھیں ایک سو سال مردہ رکھا پھر دوبارہ زندہ کیا صبح کے وقت ان کی روح قبض کر لی اور شام کے وقت ان کی زندگی واپس کر دی( یعنی جسم میں جان ڈال دی) ایک فرشتہ نے اُن سے پو چھا کتنی دیر تک سوتے رہے؟
عزیرنے آسمان اور سورج کی طرف نظر کی تو وہ ڈوبنے ہی کے قریب تھا اور کہا:(میر ے خیال میں) ایک دن یا اس کا ایک حصّہ سویا رہا۔
فرشتہ نے کہا:بلکہ تمہارے سونے کی مدت ایک سو سال ہے! اپنی غذا(انجیر،انگور) اپنی پینے کی چیز (انگور کے رس) کی طرف نظر ڈالو اوردیکھو ،کہ اتنے سالوں کے بعد بھی ان میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اب اپنے گدھے کی طرف دیکھو کہ اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر تتر بتر اور نابود ہوگئیں ہیں!
پھر اس وقت خداوند عالم نے پراگندہ جسموں کو ایک دوسرے سے متصل کیا اور ان پر گوشت چڑھا یا اور انھیں زندہ کر دیا تو عزیرکو معلوم ہو گیا کہ کس طرح خدا مردہ کو زندہ کر ے گا اور جب ا نھوں نے ایسا دیکھا تو کہا :مکمّل طور پر مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا ہر چیز پر قادر و تواناہے۔
حضرت موسیٰ کے بعد استثنائی داستانوں میں حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا جیسے پیغمبروں کی بھی داستان ہے۔
حضرت زکریا خدا کو پکار کر کہتے ہیں: خدا یا! میری ہڈیاں بو سیدہ ہوگئیں(کمزور ہوگئیں) ہیں اور میرے سر کے بال سفید ہوگئے ہیں اور میری بیوی بانجھ ہے، اپنے بعد اپنے وارثوں سے خائف اور ہرا ساں ہوں تو خود ہی مجھے ایک جانشین عطاکر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔
توخدا وند عالم نے انھیں یحییٰ کی خوشخبری دی ایسے نام کے ساتھ کہ اُس سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا تھا اور خدا نے ان کے بچپنے ہی میں انھیں کتاب اور قضاوت عطا کی ۔
سب سے زیادہ مشہور ان کی استثنائی داستان خدا کے پیغمبر حضرت عیسیٰ کی ان کی ماں مریم کے ذریعہ بن باپ کے ولادت کی خبر ہے.اور اپنی قوم سے گہوارہ میں ان کا کلام کر نا اور یہ کہناکہ خدا نے انھیں کتاب و حکمت عطا کی ہے. اور ان کا مٹی سے ایک پرندہ کا پیدا کر نا اور کوڑھی، کور مادر زاد کو شفا دینا ،مردوں کو زندہ کر نا اور حضرت عیسیٰ کی شکل وصورت میں ان کی مخبری کرنے والے بدخواہ کو تبدیل کر نا تا کہ عیسیٰ کی جگہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جا ئے.خدا نے حضرت عیسیٰ کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندی پر بلا لیا اور اب تک اسی طرح انھیں زندہ رکھا ہے تا کہ انھیں آخری زمانے میں زمین میں حضرت بقےة اللہ الاعظم مہدی صاحب الزمان کے پاس لوٹا دے۔
اسی طرح بنی اسرائیل کے انبیاء کے لئے بھی استثنائی حالات کا سراغ رکھتے ہیں کہ اُن سے پہلے کسی ایک پیغمبر میں بھی نہیں دیکھا ہے، جیسے وہ سب کچھ جو حضرت سلیمان کو دیا گیا، جنّاتوں کا ان کے لئے کام کرنا، یا بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ کا پیدا ہو نا اور خدا کی اجازت سے ان کا مٹی سے پرندہ خلق کر نا۔
اور ہم کسی قوم کو بنی اسرائیل سے زیادہ سنگدل قوم نہیں جانتے.وہ نہایت بدطینت لو گ تھے جنھوں نے اپنے پیغمبر سے نہ گانہ معجزات اور آیات دیکھے اور اس کا مشاہدہ کیا کہ اُس نے انھیں دریا کے بارہ خشکی راستوں سے گذارا اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا. خدا وند منّا ن نے انھیں پو ری تاریخ انسانیت میں بے مثال معجزے کے ذریعہ نجا ت دی لیکن جیسے ہی اُن کی نظر بتوں پر پڑی تو اپنے پیغمبر سے کہتے ہیں: اے موسیٰ! ہمارے لئے ان کے بُتوں کے مانند بُت سے ایک خدا بناؤ!!
یا جب ان کے پیغمبر ان کے عمل کے لئے شریعت لا نے گئے تو گوسالہ پر ستی میں مشغول ہوگئے!!
یہ سب ان کے ناپسندیدہ اور بُرے صفات کے نمونے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایسا طرز تفکراور ایسی روش دکھائی دیتی ہے جو ان سے مخصوص تھی اور گزشتہ یا ان کے بعد کی امتوں میں نہیں پائی گئی ہیں۔
ان کے دشمن بھی ایسے ہی تھے؛ جیسے فرعون اور اس کے درباری اور وہ اقوام اور امتیں جو اُس زمانے میں سر زمین شام کی ساکن کہلاتی تھیں اور وہ اُن سے جنگ پر ما مور ہوئی تھیں۔
ان تمام استثنائی حالا ت اور مواقع کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ دیگر امتوں کی بہ نسبت استثنائی اور خصوصی احکام کی احتیاج رکھیں. انھیں موارد(مقامات) میں کعبہ سے بیت المقدس کی طرف قبلہ کا تبدیل ہو ناہے اور ان تمام چیزوں کی تحریم جنھیں اسرائیل( یعقوب پیغمبر ) نے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں اور چونکہ بعض خصوصی حالات ان امتوں کے نابود ہو جانے کی وجہ سے کہ جن سے ان کی سرزمین میں انھوں نے جنگ کی تھی.حضرت عیسیٰ بن مریم کے زمانے میں ختم ہوچکے تھے. لہٰذا،خداوند عالم نے اُن کے کچھ محرمات جواُن پر حرام کر دیئے تھے حلال کر دیئے۔
اور چو نکہ حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ان تمام استثنائی مواقع اور خاص حالات کا خاتمہ ہو چکا تھا،لہٰذا استثنائی احکام اور ان سے مخصوص قوانین بھی درمیان سے اٹھا لئے گئے ؛ چنانچہ خدا وند متعال سورۂ اعراف کی ١٥٧ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
(اَلَّذِٔٔےْنَ ےَتَّبِِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ ا لأُ مِّیََّ الَّذِیْ ےَجِدُوْنَہ مَکتُوْباً عِندَھُمْ فِیْ التَّورَاةِ وَ اْلاِنْجِےْلِ ےَأ مُرُھُمْ بِِالْمَعْرُوفِ وَےَنْھَا ھُم عَنِ المُنْکرِ وَےُحِلُّ لَھُمْ الطَّےِّباتِ وَےُحَرِّمُ عَلَیھِمُ الخَبائثَ وَ یضعُ عَنھُم اِصْرَھُمْ وَ الأَغَلْالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیھِمْ...)
جو لوگ اس امی نبی رسول کی جس کا نام و نشان اپنے پاس موجود توریت اور انجیل میں تحریر پاتے ہیں پیروی کریں ایسا پیغمبر جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور بُرائی سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال کر تا ہے اور نجاستوں کو اُن پر حرام کر تا ہے، قید وبند کی تکلیف گراں سے انھیں آزاد کر دیتا ہے۔
اسی وجہ سے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی شریعت منسوخ ہو گئی اور حکم ہوا کہ ابراہیم کے دین حنیف کی پیروی کر یں کہ اب اس کے مبلغ اور بیان کر نے والے حضرت خاتم الانبیائۖ ہیں۔
ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کے قوانین اور شریعتیں حضرت آدم سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ایک دین واحد اور انسان کی فطرت کے مطابق ہیں اور چو نکہ اللہ کی تخلیق میں کو ئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے لہٰذا خدا کی شریعت اور اس کے قوانین بھی تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔
اللہ کی شریعت ہر زمانے کے پیغمبر کے ہم عصر لو گوں کی ضرورت کے مطابق اس پیغمبر پر نازل ہوئی ہے اسی لحاظ سے اُس شریعت میں سے ایک خاندان کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم پر نازل ہوئی ۔
حضرت ادریس کے زمانے میں ایک شہر کے رہنے والوں کی نیاز کے بقدر اور نوح کے زمانے میں چند شہروں اور علاقوںکی نیاز وضرورت کے بقدر اس شریعت کا دائرہ وسیع ہو گیا. حضرت نوح کے زمانے کی شریعت کی اتنی مقدار ہمارے زمانے کو بھی شامل ہے۔
چنانچہ خدا وند عالم فرما تا ہے:
( شَرعَ لَکُمْ مِنَ الدِّےْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحاً )
'' تمہارے لئے دین میں وہ راستہ قرار دیا ہے جس کی نوح کو وصیت کی تھی '' ابراہیم کا دین حنیف نوح کی شریعت سے اختلاف نہیں رکھتا جیسا کہ خدا وند سبحان فرما تا ہے:
(وَانَّ مِنْ شِیعَتہِ لِابِرَاھیمَ)
اس معنی میں کہ ابراہیم حضرت نوح کے اتباع کر نے والوںمیں تھے۔
حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت بھی حضرت ابراہیم کے دین حنیف سے اختلاف نہیں رکھتی جیسا کہ خدا وند متعال فرما تا ہے:
(وَاتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرَاھِیمَ حَنِیفاً )
''ابراہیم کے دین حنیف کی پیروی کرو ''. اور ہم سے بھی فر ما یا:
( وَ اتََّبِعُوْا مِلََّةَ اِبْرَاھےِمَ حَنیفاً )
ابراہیم کے دین حنیف کی پیروی کرو. اللہ کی شریعت کی بہ نسبت آدمی کی شان شہد کی مکھی کے مانند ہے کہ خدا وند عالم نے جس کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ اس خاص نظم و ترتیب کے تحت زندگی بسر کرے جو اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہو ۔
اسی طرح وہ نظامِ آفرینش جسے ربّ العالمین نے اپنی ربو بیت کے اقتضاء کے مطابق تمام مخلوقات کے لئے اوّل تخلیق سے مقرر فرمایا ہے آج تک متغیّر نہیں ہوا ہے اور اس کا نظام حیات ،خدا کی عطا کر دہ فطرت کی پیروی سے دور نہیں ہوا ہے. اور آدمی اس قاعدہ سے بری اور مستثنیٰ نہیں ہے اور وہ خدا کی دیگر مخلوقات کے درمیان کوئی نئی مخلوق نہیں ہے۔
یہاں پر ہمارے مباحث کتاب کی ا س جلد میں ختم ہوتے ہیں جو کہ خود ہی ان مطالب کی شرح و تفصیل ہیں جو پہلی جلد میں خلا صہ کے طور پر بیان ہو چکے ہیں اور کہیں اضافہ کے ساتھ یا بیان کی تبدیلی کے ساتھ،عقائد اسلام پیش کر نے میں قرآن کریم کی پیروی کی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم نے کہیں اختصار سے اور کسی موقع پر بسط و تفصیل سے اور کہیں ایک مقام سے دوسرے مقام پر تعبیر کی تبدیلی کے ساتھ بیان کیاہے۔
ان مباحث کی تکمیل کے بعد انشاء اللہ جلد سوم میںجہاں تک ممکن ہوگا ہم قرآن کریم اور دیگر منابع و مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے مکّہ میں پیغمبر ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی تحقیق کر یں گے۔

(وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین)