متوشلح کی اپنے بیٹے لمک سے وصیت
اخبار الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:
جب متوشلح کی موت کا زمانہ قر یب آیا ، تو انھوں نے اپنے بیٹے لمک سے وصیت کی ،لمک جامع(جمع کر نے والے) کے معنی میں ہے اور وہ نوح پیغمبر کے والد ہیں۔
متوشلح نے ان سے وصیت کی ا ور صحیفے اور مہر لگی کتابیں کہ جو ادریس پیغمبر کی تھیں ان کے حوالے کیں اور وصیت ان تک منتقل ہو گئی۔
لمک کی اپنے بیٹے نوح سے وصیت
اور جب لمک کی موت کا وقت قریب آیا تو نوح ، سام ، حام اور یافث اور ان کی عورتوں کو بلایا ، شیث کی اولاد میں صرف ان آٹھ افراد کے علا وہ کوئی باقی نہیں رہا تھا کیو نکہ باقی پہاڑ سے نیچے آکر قابیل کی اولاد سے مخلوط ہوگئے تھے اور ان سے راہ و رسم برقرار کر لی تھی ۔
لمک نے ان آٹھ افراد پر درود بھیجا اور ان کے لئے برکت کی دعا کی اور کہا:
اس خدا سے دعا کر تا ہوں جس نے آدم کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا کہ ہمارے باپ آدم کی برکت تم پر نازل کر ے اور حکو مت وسلطنت تمہارے فرزندوں میں قرار دے . میں مر جا ؤں گا اور اے نوح ! تمہارے سوا ان میں سے کوئی دوسرا جو عذاب خدا وندی کا مستحق ہے نجات نہیں پا ئے گا. اور جب میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر غار گنج (جہاں حضرت آدم کا جسد رکھا ہوا ہے) میں رکھ دینا اور جب خدا کا ارادہ ہو کہ کشتی میں سوار ہو تو مجھے اور جسد آدم کو اٹھا کر پہاڑ کے نیچے لے آؤ اور ہمیں اپنے ساتھ ساتھ رکھو اُس وقت تک کہ جب تک کشتی سے باہر نہ آجاؤ۔
اور جب طوفان تھم جائے اور کشتی سے باہر آجاؤ اور زمین پر قدم رکھو تو حضرت آدم کے جسد کے پاس نماز پڑھو اور اپنے بڑے بیٹے سام کو تا کید کرو کہ آدم کے جسد کو اٹھا کر اپنے کسی فرزند کے ساتھ اُسے زمین کے وسط میں سپرد خاک کر دے اور ... خدا وند عالم فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اُس کے ہمراہ بھیجے گا تا کہ اُس کا ہمدم ہو اور وسط زمین کی راہنمائی کر ے۔
خدا وند عالم نے نوح پر ،ان کے جد ادریس پیغمبر کے زمانے میں اور ادریس کو آسمان پر اٹھا ئے جانے سے پہلے وحی نازل کی اور انھیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو طغیا نی و سر کشی کے انجام سے ڈرائیں اور انھیں ان گناہوں کے ارتکاب سے منع کریں جن کے وہ مر تکب ہوتے تھے اور انھیں عذاب سے ڈرائیں. نوح نے خدا کے حکم کی تعمیل کی اور عبادت خدا اور قوم کو خدا کی طرف دعوت دینے میں مشغول ہوگئے۔
نوح کی اپنے بیٹے سام سے وصیت
جب حضر ت نوح کشتی سے باہر آئے توتین سو ساٹھ سال تک زندہ رہے اور جب موت کا وقت قر یب آیا تو ان کے بیٹے سام ،حام ، یافث اور ان کی اولا د ان کے ارد گرد جمع ہو گئی۔
نوح نے ان سے وصیت کی اور خدا وند سبحان کی عبادت کا حکم دیا اور سام کوحکم دیا کہ جب وہ انتقال کر جائیں تو کشتی کے اندر جائے اور کسی کو اطلاع د یئے بغیر حضرت آدم کے جسد کو زمین کے وسط میں اور مقدس جگہ پر سپرد لحدکر دے. پھر کہا. اے سام! جب تم ملکیزدق کے ہمراہ اس کام کوا نجام دینے کے لئے روانہ ہو جاؤ گے تو خدا وند سبحان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کو تمہارے ساتھ کرے گا تا کہ تمہارا راہنما ہو اور وسط زمین کے بارے میں تمھیں اطلاع دے. اس ماموریت میں کسی کو اپنے کام سے باخبر نہ کر نا یہ حضرت آدم کی وصیت کا جز ہے جو انھوں نے اپنے فرزندوں سے کی تھی اور ہر ایک نے دوسرے کو اس کے انجام دینے کی وصیت کی یہاں تک کہ یہ وصیت تم تک پہونچی ؛ پھر جب اس جگہ پہنچ جاؤ جہاں فرشتہ نے راہنمائی کی ہے،تو جسد آدم کو اسی جگہ خاک میں دفن کر دو،پھر اس گھڑی حکم دو کہ ملکیزدق وہاں سے جدا نہ ہو اور خدا کی عبادت کے سوا کوئی کام نہ کرے۔
خدا وند سبحان نے ریاست اور وہ تمام کتابیں جو پیغمبروں پر نازل ہوئی تھیں سام کے حوالے کیں اور اسے دیگر فرزندوں اور بھائیوں سے الگ نوح کی جانشینی سے مخصوص کر دیا۔
سام کی اپنے بیٹے ارفخشد سے وصیت
سام باپ کی وفات کے بعد خدا کی عبادت اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں مشغول ہوگئے۔ انھوں نے کشتی کا دروازہ کھو لا اور حضرت آدم کے جسد کو اپنے بیٹے ملکیزدق کے ہمراہ لے کر خفیہ طور پر بھائیوں اور خاندان کو اطلاع دئیے بغیر جسد کو نیچے لائے .فرشتہ نے ان کی راہنمائی کی ذمّہ داری لی اور اس جگہ تک جہاں حکم تھا کہ حضرت آدم کے جسد کو وہاں دفن کریں ان کے ساتھ ساتھ رہا؛اور جسد آدم کو وہیں پر سپرد لحد کر دیا۔
اور جب سام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بیٹے ارفخشد کو وصیت فرمائی، جو کہ اپنے والد کے بعد زمین میں ان کے جانشین تھے۔
ارفخشد کی اپنے بیٹے شالح سے وصیت
جب ارفخشد کی موت کا وقت قریب آیا ،بیٹے اور خاندان والے ان کے پا س جمع ہوگئے،انھوں نے خدا وندعالم کی عبادت اور گناہوں سے دوری اختیار کر نے کی تاکید کی ۔
پھر اس وقت اپنے بیٹے شالح سے کہا : میری وصیت قبول کرو اور میرے بعد خا ندان کے درمیان میرے جانشین رہو اور خدا وند رحمان کی اطاعت و عبادت کے لئے قیام کرو ، یہ کہہ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔
شالح کی اپنے بیٹے عابر سے وصیت
شالح کی موت کا وقت جب نزدیک آیا،تو اپنے بیٹے عابر سے وصیت کی اور انھیں حکم دیا کہ قابیل ملعون کی اولاد سے کنارہ کشی اختیار کر یں.یہ کہہ کہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
گزشتہ فصلوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے کس طرح اپنے دو بیٹے اسمٰعیل و اسحق کو حنفیہ شریعت کی حفاظت کے لئے وصیت فر ما ئی ہے۔
کتاب کی اس جلد میںجو کچھ ہم نے یہاں تک ذکر کیا ہے، جا نشینی اور وصایت سے متعلق اخبار کے سلسلوںکا ایک حصّہ تھا۔
پہلی جلد میں ہم نے پڑھا کہ خدا وند عالم نے موسیٰ کلیم اللہ کو کس طرح حکم دیا کہ یسع بن نون کو اپنی شریعت اور امت پر اپنا وصی بنا ئیں۔
اور حضرت داؤد نے اپنے فرزند سلیمان کو اسی امر سے متعلق وصیت فرمائی اور حضرت عیسی نے اپنے حواری شمعون یا سمعان کو اسی امر کی وصیت کی اور یہ وصیت کا سلسلہ حضرت آدم کے زمانے سے حضرت عیسیٰ کے دور تک یوں ہی جاری و ساری رہا۔
واضح ہے کہ حضرت محمد ۖ دیگر پیغمبروں کی بہ نسبت کو ئی الگ روش نہیں رکھتے تھے اور ان کی سیرت بھی اُن سے جدا اور متفاوت نہیں تھی.لہٰذا آنحضرت نے خدا کے حکم سے اپنے بعد کے لئے اپنے اہلبیت اور عترت سے بارہ وصی معین کئے کہ اُن میںسب سے پہلے ان کے چچا زاد بھائی امیر المومنین ہیں .اور ان میں آخری امام حسن عسکری کے فرزند حضرت مہدی (عج)ہیں۔
اس وصایت سے متعلق مفصل و مشروح اخبار ہمارے ماھر فن بزرگوں کی پانچ کتا ب''اثبات الوصیہ'' میں ذکر ہوئے ہیں کہ ہمارے شیخ اور استاد ''الذریعہ'' کے مؤلف نے ان کا تعارف کر ایا ہے۔
اور ہم نے ان کی وصیت سے متعلق بعض روایات واخبار کو ٢٥ صفحہ سے زیادہ میں معالم المدرستین نامی کتاب کی پہلی جلد میں(پیغمبر اکرم ۖ سے وارد نصوص کے ذیل میںاپنے بعد ولی امر کی تعیین سے متعلق) ذکر کیا ہے کہ یہاں پر اختصار کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
١۔ اسلام کی دعوت کے آغاز میں اور آیت ( وَانْذِرْ عَشِےْرَتَکَ الَّاقْرَبین)کے نازل ہو نے کے بعد پیغمبر اکرم نے جناب عبد المطلب کے فرزندوں کو بلا یا اور انھیں اسلام قبول کر نے کی دعوت دی۔
پھر اُس مہمانی کے اختتام پر رسول خدا ۖنے اپنا ہاتھ اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب کی گردن پر رکھا اور فرمایا: یہ، تمہارے درمیان میرا بھائی میرا وصی اور جا نشین ہے۔
اس کی اطا عت و فرمانبرداری کرو۔( ١)
٢۔ پیغمبر کے دو صحابی سلمان فارسی اور ابو سعید خدری نے روایت کی ہے کہ رسول خداۖ نے فرمایا:
میرا وصی اور میرے راز کا محافظ اور سب سے اچھا شخص جسے میں اپنے بعد اپنا جا نشین بنائوں گا اور وہ شخص جو میرے امور کو انجام دے گا اور میرے قرضوں کو ادا کر ے گا وہ علی بن ابی طالب ہیں۔ (٢)
..............
(١)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج٣ ، ص١١٧١؛ اور تاریخ ابن اثیر، ج٢ ،ص ٢٢٢؛ تاریخ ابن عساکر میں امیر المومنین کے حال کی تشریح اور شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید، ج٣ ،ص ٢٦٣ کہ جس میں ا ختصار کے ساتھ نقل کیا گیا ہے.٢۔ سلمان فارسی کی روایت معجم الکبیر میں ،ج٦، ص ٢٢١ اور مجمع الزوائد، ج٩ ،ص ١١٣ .ابو سعید کی روایت علی بن ابی طالب کے فضائل سے متعلق کنزالعمال ،ج٢ ،ص ١١٩ کی کتاب فضائل سے.اور طبرانی نے ج ،٢ ،ص ٢٧١ پر ذکر کیا ہے ؛ ابو سعید بن مالک خراجی متوفّٰی ٥٤ھ کی سوانح حیات استیعاب اور اسد الغابہ اور اصابہ نامی کتاب میں ذکر ہوئی ہے،بعد کے صفحات میں ان تین کتابوں سے متعلق''سہ گانہ کتابوں'' کے عنوان سے نام ذکر کر یں گے.
٣۔ انس بن مالک سے( اختصار کے ساتھ ) روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر خداۖ نے اُ س سے فرمایا:سب سے پہلا شخص جو اس در سے داخل ہو گا امام المتقین،سید المسلمین،یعسوب الدین اور خاتم الوصیین ہے...اور اسی وقت علی اُس در سے داخل ہوئے۔(١)
٤۔بریدہ صحابی نے کہا کہ رسول خدا ۖ نے فرما یا ہے کہ : ہر پیغمبر کا ایک وصی اور وارث رہا ہے اورعلی میرے وصی اور وارث ہیں.... .... ..(٢)
٥۔ صحیح بخا ری،مسلم اور دیگر منابع و مصادر میں مذکور ہے (٣) (اور ہم بخا ری کی بات کو نقل کرتے ہیں):
پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی سے فرما یا:
( ےَا عَلی اَنتَ مِنّیِ بِمنزِلة ھَارُونَ مِنْ مُوسَیٰ اِلَّا اَنَّہ لَا نَبِیَّ بَعدِی )
اے علی تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے،اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں آئے گا۔
٦۔ سنن ترمذی اور مسنداحمد بن حنبل میں مذکور ہے:(اور ہم ترمذی کی بات کو نقل کرتے ہیں)۔(٤)
( اِنِّی تَارِِک فِےْکُم مٰا اِنْ تَمَسَّکتُم بہِ لَنْ تَضِلُّوا بَعدِی ،أَحَدُھُمَا أَعْظَمُ مِنَ الاّٰخَرِ: کِتاَبَ
..............
(١)حضرت امیر امو منین کی سوانح حیات ابن عساکر اور حلےة ا لاولیاء کی پہلی جلد کے صفحہ ٦٣ پر اور زبیدی کی تالیف موسوعۂ اطرف الحدیث عن امجاد سادة المتقین میں ذکر ہوئی ہے، انس بن مالک اور ابو ثمامہ خزرجی کے سال وفات کے بارے میں اختلاف ہے ٩٠ سے ٩٣ ہجری تک ذکر کیا گیا ہے.(٢)ریاض النضرہ میں امام کی سوانح حیات ج٢ ،ص٢٣٤اور تاریخ ابن عساکر۔بریدہ،ابو عبد اللہ بن حدید بن عبد اللہ الاسلمی جنگ احد کے بعد مد ینہ آئے . اور دوسری جنگوں میں رسول اکرمۖ کے ہم رکاب ہوکر شرکت کی. ان کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے کے لئے سہ گانہ کتابوں کی طرف رجو ع کریں. (٣) صحیح بخاری، ج،٢ ص٢٠٠ باب مناقب علی بن ابی طالب؛ صحیح مسلم،ج٧،ص ١٢٠ باب فضائل علی بن ابی طالب؛ترمذی، ج ١٣، ص ١٧١،باب منا قب علی ؛ طیالسی،ج١،ص ٢٨ ۔٢٩، حدیث ٢٠٥، ٢٠٩، ٢١٣؛ ابن ماجہ؛باب فضائل علی بن ابی طالب ، حدیث ١١٥؛ مسند احمد،ج١، ص ١٧٠ ،١٧٣ تا ١٧٥، ١٧٧، ١٧٩، ١٨٢، ١٨٤، ١٨٥ اور ٣٣٠ اور ج ٣،ص ٣٢ اور ٣٣٨ اور ج٦،ص ٣٦٩ اور ٤٣٨؛ اور مستدرک حاکم ،ج٢،ص ٣٣٧؛ طبقات ابن سعد،ج ٣،ص ١ ،١٤ اور ١٥؛ مجمع الزوائد، ج٩ ،ص ١٠٩ تا ص ١١١ اور بہت سے دیگر منابع و مآخذ.
(٤)سنن ترمذی ،١٣، ص ٢٠١؛ اسد الغا بہ، ج٢ ص ١٢. حضرت امام حسن کی سونح حیات کے ذیل میں. الدرّ المنثور سورۂ شوریٰ کی آیہ مودت کی تفسیر کے ضمن میں ؛مستدرک الصحیحین اور ان کی تلخیص ج٣، ص ١٠٩. خصائص نسائی ص٣٠ ؛مسنداحمد،٣،ص ١٧ صدر روایت میں ''انی اوشکُ ان ادعی فاجیب'' ذکر ہے کہ جس کی صفحہ ١٤، ٢٦، ٥٩ پر بسط و تفصیل کے ساتھ شرح کی گئی ہے . طبقات ابن سعد ج٢، ق٢، ص٢؛ کنز العمال،ج١ ص ٤٧ اور ٤٨ اور اس کے صفحہ ٩٧ پر اختصار کے ساتھ مذکور ہے۔
اللّٰہِ حَبل مَمدُوْد مِنَ السَّمٰائِ اِلیٰ الَٔارضِ،وَ عِترتِی أَھلَ بَےْتیِ،وَلَنْ ےَتَفَرَّقاَ حَتّیٰ ےَرِدَا عَلَیَّ الْحَوضَ،فَانْظُرُوْا کَےْفَ تَخْلَفُو نَنِی فِیھِمَا)
میںتمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان سے متمسک رہے،تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور ان میں سے ایک دوسرے سے عظیم اور گرانقدر ہے ایک خدا کی کتاب جو آسمان سے زمین کی طرف کھینچی ہوئی رسی ہے اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہلبیت.یہ دو ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں.غور کرو کہ ان دو کے بارے میں میری وصیت کا کیسے پاس و لحاظ رکھو گے۔
اور یہ بھی ارشاد فرما یا:
(لَا ےَزالُ ھَٰذَا اَلدِّےْنُ قَائِماً حَتّیٰ تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ ےَکُونَ عَلَےْکُمْ اِثْنَاعَشَرَ )
یہ دین قیامت کے دن تک،یا اُس وقت تک جب تک کہ تم پر بارہ آدمی امامت کریں گے ہمیشہ برقرار رہے گا۔
ایک دوسری روایت میں مذکور ہے:
(لاٰ ےَزٰالُ اَمَرُ الَنََّاسِ مَاضِیاً اِلیٰ اِثْنٰی عَشَرَ)
لوگوں کا کام ہمیشہ بارہ آدمیوں پر ثابت واستوار رہے گا ۔
اس کے بعد دوسری روایت میں فرما یا:
ثُمّ ےَکُون المَرج وَالھَرج
(ائمہ معصومین علیھم السلام اور حضرت صاحب الزمان( عج )کا دور گزرنے کے بعد ) پھر دنیا تباہی و بربادی اورہرج ومرج کا شکار ہو جائے گی اور آخری زمانے کا فتنہ ظاہر ہو گا۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے:
فَاذَا ھَلکُوا مَاجت الَٔا رضُ بَأھِلھَا
اور جب تمام ائمہ آکر کے گزر جائیں گے تو زمین اور اس کے باشند ے اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جائیں گے۔
ایک دوسری روایت میں پیغمبر اکرمۖ نے فرما یا ہے کہ ان کی تعداد بنی اسرائیل کے نقباء کے برابر بارہ افراد پر مشتمل ہے ۔
یہ روایات اہلبیت پیغمبر کے بارہ ائمہ کے علاوہ کسی اورپر صادق نہیں آتی ہیں ؛ ایسے امام جن کے آخری فرد کی عمر خدا نے طولا نی کر دی ہے اور اُن کے بعد دنیا نابود ہوجائے گی۔
چونکہ مکتب خلفاء کے علماء ائمہ اہلبیت علیھم السلام کے معتقد نہیں ہیں لہٰذا ان روایات کی تفسیر میں حیران و سرگرداں ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اس کے معنی اور تاویل کرنے سے عاجز و بے بس ہیں۔
|