اسلام کے عقائد(تيسری جلد )
 

نتیجہ گیری
جزیرة العرب میں حضرت اسمٰعیل ، حضرت ابراہیم کی حنفیہ شریعت پر وصی، نبی اور رسول تھے،ان کے اور حضرت عیسیٰ کے بعد فترت کے زمانے میں بہت سے مبشرین اور منذرین مبعوث ہوئے تھے، ان میں سے بعض انبیاء واوصیاء حضرت عیسیٰ کی شریعت کے اپنی قوم کے درمیان مبلغ تھے،جیسے حنظلہ، خالد اور وہ راہب جن کی حضرت سلیمان نے شاگردی اختیار کی تھی۔
ام القریٰ (مکّہ) میں بھی پیغمبرۖ کے اجداد کو یکے بعد دیگرے ہم دیکھتے ہیں کہ خا نہ کعبہ کی تعمیر میں مراسم حج کے بر قرار کر نے کے لئے اہتمام کر نا، مہمان نوازی اور کھا نا کھلا نا،بیت اللہ کے زائروں کی ہر طرح سے دیکھ بھال کر نا اور خدا کے مہمانوں تک پا نی پہونچانا، مراسم حج کے آخر تک انھوں نے ان تمام امور میں حضرت ابراہیم کی سنت کی اقتداء کی ہے. موسم حج میں خا نہ خدا کے زائروں کی مہمان نوازی میں اہتمام کر نا نہ فخر ومباہات اور اپنی شخصیت کے لئے تھا اور نہ اپنے قوم و قبیلہ کی شان بڑھانے کے لئے.بلکہ اس کے سائے میں وہ خدا کی خوشنودی کے خواہاں تھے. یہی وجہ تھی کہ اُس ضیافت اور مہما ن نوازی پر خرچ ہونے والے اموال کے لئے شرط لگا دی تھی کہ مال حرام سے نہ ہو. یہ اُ س حال میں ہے کہ خدا وند عالم نے مشرکین کے بارے میں اس طرح خبر دی ہے:
( وَ الَّذِینَ ےُنِْفقُونَ أَمْوَالَھُمْ رِئا ئَ النَّاسِ وَ لَا ےُؤمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ لاَ بِالےَوْمِ الآخِر) (١)
وہ لوگ (مشرکین) اپنے اموال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور خدا وند عالم اور روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے۔
ان بزرگوں نے لوگوں کو قیامت اور اس کے نتیجۂ اعمال سے ڈرایا؛ جبکہ خدا وند عالم عصر جاہلیت کے مشرکین اور ان کی گفتگو کے بارے میں اس طرح خبر دیتا ہے:
..............
(١)سورۂ نسائ، آیت: ٣٨
(وَقَالُوا مَاھِیَ اِ لَّاحَےَا تُنَا الدُّنْیاَ نَموتُ وَنَحْیَا وَ مَا ےُھْلِکُنَا اِ لّا الدَّھرُ.)(١)
(مشرکین نے) کہا: ہماری اس دنیاوی زندگی کے علا وہ کوئی حیات نہیںہے،اسی میں مرتے ہیں اور اسی میںجیتے ہیں اور ہمیں تو صرف زمانہ ہلاک کرتا ہے۔
(وَ قَالُوا اِنْ ھِی اِِلَّا حَےٰاتُناَ الدُّنےَاَ وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِےْن)(٢)
اور (مشرکین نے ) کہا:ہماری دنیاوی زندگی کے علاوہ کوئی چیز وجود نہیں رکھتی اور نہ ہی ہم محشور کئے جائیں گے۔
(...وَلَئِن قُلتَ اِ نَّکُم مَبْعُو ثُونَ مِنْ بَعدِ الْمُوتِ لَےَقُولَنَّ الَّذِ ینَ کَفَرُوااِنْ ھٰذَا اِلَّا سِحْر مُبین)(٣)
...اور اگر تم کہو کہ مر نے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے ،تو کفّار کہیں گے: یہ صرف کھلا ہوا جادو ہے۔
انھیںآیات کے مانند سورۂ اسراء کی ٤٩ ویں اور ٩٨ ویں آیات اور سورہ ٔ مو منون کی ٣٧ ویں اور ٨٢ ویں آیات اور سورہ ٔ صافات کی ١٦ ویں اور سورہ ٔ واقعہ کی ٤٧ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔
اور سورہ ٔ یٰس کی ٧٨ ویں ٧٩ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔
( وَضرَبَ لَنا مَثَلاً وَ نَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَن ےُحْیِی العِظَامَ وَھِی رَمِیمُ٭ قُل ےُحْےِیھَا الَّذِی أَنشَأھَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وھُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ علیمُ)
ہمارے لئے اس نے ایک مثال دی اور اپنی خلقت کو بھول بیٹھا اور کہا: ان ہڈیوںکو جو بوسیدہ ہو چکی ہیں کون زندہ کرے گا؟! کہو: وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انھیں خلق کیا تھا اور وہ ہر نوع خلقت کے بارے میں آگا ہ ہے۔
خدا وند سبحان نے سورۂ واقعہ کی ٤٦ تا ٤٨ ویں آیات میں ان جاہلوں کے جو اوصاف بتائے ہیں وہ اس طرح ہیں :
( وَکَانُوا ےُصِرُّوْنَ عَلیَ الحِنْثِ العَظِیمِ٭ وَکَانُوا ےَقُولُونَ أَاِذَاْ مِتْنَا وَکُنَّا تُراباً وَعِظَامَاً أاِنَّا لِمَبعوثُوْنَ٭ أَوَآبَاؤُنَا الأَ وَّ لون)
..............
(١)سورۂ جاثیہ، آیت: ٢٤.
(٢)سورۂ انعام، آیت: ٢٩.(٣) سورۂ ہود، آیت: ٧.
اور وہ لوگ بڑے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں. اور کہتے ہیں: کہ جب ہم مر کر خاک اور ہڈی ہو جائیں گے،تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟! آیا ہمارے گزشتہ آباء و اجداد بھی دوبارہ (زندہ ہو جائیں گے)؟!
منجملہ ان امور کے کہ جن کو اجداد پیغمبر ( یکے بعد دیگرے) انجام دیتے تھے، و ان کے معاشرے اور سماج میں رائج رسم و رواج کی مخالفت تھی جیسے شراب و زنا کی حرمت پو ری تاریخ میں وہ بھی ایسے سماج میں جس میں شراب نوشی اور زنا کاری کا ارتکا ب ان کے درمیان مختلف صورتوں اور شکلوں میں رائج تھا۔
اس طرح سے کہ مکّہ اور طائف میں اس حرام کاری کے لئے مخصوص گھر ہوتے تھے کہ ان کی بلندیوں پر مخصوص نشانات اورخاص قسم کے جھنڈے لگے ہوتے تھے جو اسی بات کی عکا سی کر تے تھے۔
اسی طرح لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے نہی کر تے تھے،وہ بھی ایسے زمانے میں کہ خدا وند سبحان سورۂ نحل کی ٥٨ ویں اور٥٩ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:
(وَ اِذَاْ بُشَِّرَ أَحدُھُمْ بِا لاُنثٰی ظَلَّ وَجھُہُ مُسوَدّاً وَ ھُو کَظِیم٭ ےَتَوَارَیٰ مِنَ القَوْمِ ِمن سُوء ِمَا بُشِّرِ بِہ أَےُمسکُہُ عَلیٰ ھُوْنٍ أَم یدسُّہُ فِیْ التُّرابِ...)
اور ان میں سے جب کسی کو لڑکی کی ولا دت کا مژدہ سنا یا جاتا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جا تا ہے اور غصّہ سے بھر جا تا ہے.اور جو کچھ اُسے مژدہ دیاگیا اس کی قباحت اور برائی کی وجہ سے وہ لوگوں سے پوشیدہ ہو جا تا تھا(اور فکر کر تا تھا) کہ آیا اسے ذلت و خواری کے ساتھ محفوظ رکھے یازمین میں اسے چھپا دے ۔
ہاں ، ان لو گوں (اجداد پیغمبر) نے اس کے علاوہ کہ نا پسندیدہ امور کو ترک کرتے ، دوسروں کو بھی ان کے کر نے سے منع کر تے تھے،اپنی قوم کے درمیان رائج رسم و رواج کی جنھیں قرآن کریم کے مکّی سوروں میں انھیںبُرے عنوان سے یاد کیا گیا ہے،مخا لفت کر تے تھے۔
اسی طرح مکا رم اخلا ق پر بہت توجہ دیتے تھے جو کہ ان سے مخصوص تھے اور لوگوںکو اس بات کی دعوت دیتے کہ خدا کے مہمانوں اور حاجیوںکو کھا نا کھلا نے کے لئے حلال طریقہ سے کمائی ہوئی رقم سے انفاق کریں.وہ بھی ایک ایسے معاشرہ میں جہاں ربا اور قمار بازی (جوا ) کے ذریعہ کمائی ہوتی ہو.اور چوری ، ڈکیتی اور لوگوں کے اموال کی لوٹ کھسوٹ جس طریقہ سے بھی ممکن ہوااور جس شخص سے بھی ممکن ہو لوٹ لیتے تھے۔
اعتقادی اعتبار سے بھی ،تاریخ نے یہ پتہ نہیں دیا کہ پیغمبر کے اجداد میں سے کسی ایک فرد نے بھی بُت پرستی کی ہو، یا بُت کے لئے قر بانی کی ہو،یا کسی بُت سے مدد مانگی ہو،کسی بُت سے طلب باراں کی ہو یا بُت کے نام پر حج کا لبیک کہا ہو،یا کسی بُت کے نام سے قسم کھائی ہو۔
اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب مکّہ اور اس کے ارد گرد اور اطراف کے علاقوں میں لوگوں کے عقائد اور ان کے یقین کی بنیاد بتوں پر استوار تھی اور ان کی گفتگو اور ان کا کلام انھیں کے محور سے پُرہوتا تھا۔
اور ان کا لوگوں کو قیامت کے دن اعمال کی سزا سے خوف دلانا ، وہ بھی ایسے معاشرہ میں جہاں اخروی زندگی کے معتقد افراد کی عقل و خرد کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور ان کی توہین کر تے تھے ،یہ ایک قابل غور مسئلہ ہے۔
اور عقل سلیم اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ تمام مذکورہ امور ان تمام صدیوں اور زمانوں میں اتفا قی تھے. وہ بھی حضرت اسمٰعیل کے فرزندوں کے زمانے سے حضرت عبد المطلب کے زمانے تک یعنی پانچ سو سال سے زیادہ کی مدت میں ایسا اتفاق ہوا ہو. یعنی اجداد پیغمبر ان تمام صدیوں میں اتفاقی طور پر ان صفات کے حامل ہوگئے تھے ، اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ ان کا نسب اخلا قی پستیوں کی آلودگی سے پاک تھا اور یہ طہا رت اُ س وقت تھی جب مکّہ اور طا ئف میں زنا اور دوسری اخلاقی برائیاں عام تھیں ۔
جہاں تک اس حقیر نے سیرت اور انساب سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کیا ہے کوئی مشہور اور شناختہ شدہ گھرانہ نہیں ملا جس کا نسب اخلا قی گراوٹ اور اس جیسی آلودگی سے پاک ہو . اور یہ کہنا کہ یہ سب اتفا قی اور حا دثاتی طور پر تھا تو یہ غیر معقول بات ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ،پیغمبرۖ کے اجداد اپنی قوم کو خا تم الانبیاء کی بعثت کے بارے میں مکّہ میں مژدہ دیتے تھے اور بتاتے تھے کہ آنحضرت کا آسمانی کتابوں میں محمد اور احمد نام ہے ۔
وہ اپنی قوم سے مطا لبہ بھی کیا کرتے تھے کہ آنحضرت مبعوث ہو جائیں تو ان کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی نصرت کر یں۔
اجداد پیغمبرۖ کا یہ کارنامہ خدا وند عالم کی اس بات کا مصداق ہے کہ وہ سورۂ آل عمران آیت ٨١ میں فرماتا ہے:
(وَاِذْ أَخَذَ اللّٰہُ مِیثَاقََ النَّبِےینَ لَمَا آتیتُکم مِنْ کِتَابٍ وَ حِکْمَةٍ ثُمَّ جَاْئَ کُمُ رسول مُصدِّق لِمَا مَعَکُم لتُؤ مِنُنَّ بِہ وَ لَتَنصُرُ نَّہُ قَالَ ئَ أَقرَرْتُم وَ اَخَذْتُم عَلیٰ ذَلِکُمْ اِصْرِی قَالُواْ أَقْرَرنَا فَا شْھَدُوا وَ أَنا مَعَکُم مِنَ الشَّاھِدِین )
اور جب خدا وند عالم نے پیغمبروںسے عہد و پیمان لیا کہ جب بھی ہم تمھیں کوئی کتاب یا حکمت دیں، پھر تمہاری طرف جب وہ پیغمبر آئے جو تمہارے دین کی تصدیق کر تا ہو، توقطعی طور سے اس پر ایمان لاؤ اور اس کی نصرت کرو(اُس وقت خدا نے پیغمبروں سے ) کہا: آیا تم نے اقرار کیا اور اُس کا عہد وپیمان کیا ؟ سب نے کہا: ہم نے اقرار کیا .فرمایا؛ پھر گواہ رہنا میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
اور یہ رسول وہی محمد بن جناب عبد اللہۖ ہیں۔
وہ تمام باتیں جو ہم نے اجداد پیغمبر کے عقائد کے بارے میں بیان کی ہیں سب سے زیا دہ جناب عبد المطلب سے صادر ہوئی ہیں جیسے ان کا پیغمبر ۖ کی ولا دت کے موقع پر یہ شعر کہنا۔
انت الذّی سُمّیت فی الفرقان
فی کتب ثا بتة المبان
احمد مکتوب علی اللِّسان
''تم وہی ہو کہ فرقان او رغیر تحریف شدہ اور استوار کتابوں میںتحریر اور زبان پر جس کا ''احمد'' نام ہے۔
اور ان کا یہ شعر کہنا کہ جب حلیمہ نے انھیں گم کر دیا تھا :
انت الذّ ی سمَّیتہُ محمداً ..........................
'' خدا یا!'' یہ تو ہے کہ اس کا نام '' محمد '' رکھا ہے ۔
اور ان اشعار میں جو ابرھہ اور اس کے لشکر کی ہلا کت کے بعد پڑھے ہیں تصریح کر تے ہیں کہ خود وہ اور ان کے آباء و اجداد خدا کی حجتیں ہیں:
نحن آل اللہ فی ما قد مضی لم یزل ذاک علی عھد ابرھم
( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔
لم تزل للہِ فینا حجة
یدفع اللہ بھا عنّا النّقم
( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ اسلام نے جناب عبد المطلب کی بعض سنتوں کی تا ئید کی ہے. کیو نکہ وہ حضرت ابراہیم کے دین حنیف پر تھے اور جو کچھ انھوں نے سنت چھوڑی ہے وہ ان کی شریعت کی پیروی کی بنیادپر تھی۔
اسی وجہ سے جناب عبد المطلب کی سنتیں اسلام میں داخل ہوئیں اور خدا نے فرما یا:
(ثُمَّ اَوْحَےْنَااِلَےْکَ اَنِ اتَّبِعْ ملَّةَاِبْرَاْ ھِیمَ حَنِےْفاً...)(١)
..............
(١) سورۂ نحل، آیت، ١٢٣.
پھر ہم نے تم پر وحی کی کہ (خدا پر ستی اور توحید اور معارف الٰہی کے نشر کر نے کے بارے میں) ابراہیم کے پاکیزہ آئین کی پیروی کرو۔
(قُلْ صَدَقَ اللّٰہ فَا تَّبعُوا مِلَّةَ اِبْرَاھِےْمَ حَنِیفاً...)(١)
(اے پیغمبر) کہو کہ خدا کا قول سچا ہے (نہ تمہارا دعویٰ) تمھیں ابراہیم کے پاک و پاکیزہ آئین کی پیروی کر نا چاہئے کیو نکہ صاف ستھرا اور پاک و پاکیزہ ہے۔
(وَمَنْ أَحسَنُ دِیناً مِمَّن أَسلَمَ وَجھَہُ لِلّٰہِ وَ ھُو مُحْسِن وَ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْراہِیمَ حَنِےْفاً...)(٢)
(دنیا میں ) اس دین سے کون دین بہتر ہے جس نے لوگوں کو خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم کر دیا ہے اور نیک کردار ہو نے کے علاوہ حق کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور ابراہیم کے دین حنیف کی پیروی کرتے ہیں...؟
اس لحاظ سے پیغمبر کے تمام اجداد ابراہیم کی حنفیہ شریعت کے پا بند تھے اور بے شک خداوند عالم کی گفتگو انتہائی صداقت کی حا مل ہے جیسا کہ سورۂ شعرأ کی ٢١٩ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :
( وَ تَقَلُّبَکَ فِی الْسَّاجِدِین )
خدا وند متعال تمہارے سجدہ گذاروں کے درمیان کروٹیں بدلنے (تمہارے اصلاب شامخہ سے ارحام مطہرہ میں منتقل ہو نے) کے بارے میں آگاہ ہے ۔
اسی آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے کہا: پیغمبر اکرمۖ کا نور مسلسل پیغمبروں کے صلبوں میں ایک پشت سے دوسری پشت تک منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ ان کی ماں نے انھیں جنم دیا۔
حضرت امام محمد باقر نے اس کی تفسیر سے متعلق فرما یا:
آنحضرتۖ کے نور کا انبیاء کی پشت سے منتقل ہو نا ایک نبی سے دوسرے نبی تک مکمّل واضح اور معلوم ہے. یہاں تک کہ خدا نے انھیں ان کے باپ کی صلب سے پیدا کیا اور یہ کام حضرت آدم کے زمانے سے ہی نکاح کے ذریعہ سے تھا نہ کہ غیر شرعی اور نا جائز راستوں سے۔
..............
(١) سورۂ آل عمران، آیت ٩٥.
(٢)سورۂ نسائ، آیت ١٢٥ اور انعام ١٦١.
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب نے انبیاء کی توصیف میں نہج البلا غہ کے ٩٢ ویں خطبہ میں ارشاد فر ما یا ہے:
''خدا وند عالم نے انھیں بہترین جائے امن میں بطور امانت رکھا اور سب سے اچھی جگہ پر انھیں قرار دیا اور انھیں نیک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل کیا اور جب بھی ان میں سے کوئی مرجاتا تھا تو دوسرا دین کی تبلیغ کے لئے قیام کر تا تھا ،یہاں تک کہ خدا کے قیمتی دین کی تبلیغ خدا وند سبحان نے محمدۖ کے حوالے کی ،پھر خدا نے انھیں سب سے زیادہ قابل قدر اور قیمتی معدنوں ،سب سے بہتر صلبوں اور گراں قدر درختوں سے وجود بخشا وہی شجرۂ طیبہ کہ جس سے دیگر پیغمبروں کو اُس نے پیدا کیا ہے. اور امانت داروں اور اوصیا ء کو اسی سے انتخاب کیا ہے ان کی عترت بہترین عترت اور ان کا خاندان بہترین خاندان ہے اور ان کا شجرہ سب سے اچھا شجرہ ہے جو حرم ہی میں اگا ہے اور کرامت و بزرگی کے سائے میں بلند ہوا ہے۔
امیر المو منین فر ما تے ہیں :'' جب بھی ان میں سے کوئی مر جاتا تھا تو ان میں سے کو ئی دوسرا دین کی تبلیغ کے لئے قیام کر تا تھا،، یہ ارشاد اس بات کی دلیل ہے کہ دین خدا کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کے لئے یکے بعد دیگرے قیام کر نے والے ( انبیاء و اوصیائ) آتے رہے اور حضرت آدم کے زمانے سے حضرت خاتم ۖ تک ان کا سلسلہ جاری رہا وہ بھی اس طرح سے کہ کبھی دنیا ان کے وجود سے خالی نہیں رہی ۔
حضرت علی نے دوسری جگہ فر ما یا ہے :
''دین خدا کو قائم کر نے والی حجت سے زمین کبھی خالی نہیں رہے گی؛ خواہ ہویدا اورآ شکار ہو یا خائف اور پو شیدہ'' تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کی حجتیں اور دلیلیں تباہ و برباد ہو جائیں ، وہ لوگ کتنے آدمی ہیں؟اور کہاں ہیں؟ خدا کی قسم وہ لوگ گنتی کے لحاظ سے بہت تھوڑے ہیںاور خدا کے نزدیک قدر ومنزلت کے لحاظ سے بہت ہی عظیم اور با عظمت ہیں۔
خدا وند سبحان اپنی آیات و بینات کی ان کے ذریعہ حفا ظت و نگہداری کر تا ہے. جب تک کہ اُن کو اپنے ہی جیسوں کے حوالے نہ کر دیں اور ان کا تخم (بیج) اپنے ہی جیسے افراد کے دلوں میں نہ بو دیں'' (١)۔
جی ہاں،خدا کی ربو بیت کا اقتضا یہی ہے کہ ہر عصر اور ہرزمانے میں انسانوں کے لئے امام وپیشوا قرار دے تا کہ اس کی طرف رجوع کر کے دین خدا کے معالم کو حاصل کر یں .یہ امر اس طرح ہونا چاہئے کہ اگر وہ
..............
(١) نہج البلاغہ، باب احادیث، حدیث ، ١٤٧.
لوگ جستجو اور کوشش کر یں تو دینی مسائل سے آگاہ ہو جائیں، جیسا کہ وہ اپنی روزی اور رزق کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور حاصل کرتے ہیں جیسا کہ خدا وند متعال فر ما تا ہے:
( وَالّذِینَ جَاھَدُوافِینالَنَھْدِےَنَّھُمْ سُبُلنا)
جو لوگ ہماری راہ میں کو شش کر تے ہیں تو ہم ضرور انھیں اپنی راہوں کی ہدا یت کرتے ہیں . جس طرح سلمان فارسی محمدی نے راہ حق کے حصول کے لئے اصفہان کے ''جی ''نامی علاقہ سے باہر قدم نکالا اور ہجرت اختیار کر لی اور شام ، موصل اور عراق کے راہبوں کے دیر تک پہنچے۔
ہم اس بحث میں اس بات کی کوشش کر یں گے کہ پیغمبرۖ کے اجداد کی سیرت کے کچھ نمو نے جنھوں نے ابرا ہیم کی حنفیہ شریعت کی تبلیغ کی ہے ، بیان کر یں ۔
جبکہ لو گوںکا اس سلسلہ میں غلط نظریہ ہے کہ خدا وند تبارک وتعالیٰ نے فترت کے زمانے کے لوگوں کو اسی طرح مہمل اور بے کار چھو ڑ دیا تھا اور ان کے لئے کوئی امام اور پیشوا معین نہیںکیا تھا. تا کہ دین کے معالم اور اُ س کے دستور ات اُن سے یا د کریں۔
معاذ اللہ ۔کیا حرج ہے کہ جناب عبد المطلب بھی منجملہ انبیاء میں سے ایک ہوں جن کا قرآن میں نام نہیں ذکر ہے ؟ جبکہ پیغمبر اکرمۖ کی حدیث میں ابوذر سے منقول ہے کہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور مرسلین کی تعداد ٣١٥ ہے کہ اس تعداد میں صرف ٢٥ نبی اور رسول کا نام قرآن میں ذکر ہوا ہے (١)
لیکن یہ کہ پیغمبر کے اجداد موحد( خدا کی وحدا نیت کا اقرار کر نے والے) تھے تو یہ ایک ایسا مطلب ہے جو مذکورہ بالا باتوں کے علا وہ مندرجہ ذیل احادیث سے بھی معلوم ہو جائے گا:
ابن عباس نے کہا: پیغمبر اکرم ۖ سے میں نے سوال کیا اور کہا:میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں. جب حضرت آدم جنت میں تھے تو آپ کہاں تھے؟ اس سوال کو سنکر حضرت مسکرائے یہاں تک کہ داڑھ کے دانت نمایاں ہوگئے ۔
پھر اس وقت فرما یا :میںا ن کی صلب میں تھا اور جب وہ زمین پر آئے تب بھی میں ان کی صلب میں تھا،اپنے باپ نوح کی صلب میں کشتی میں سوار ہوا اور ابراہیم کی صلب میں آگ میں ڈالا گیا،ہمارے ماں باپ ایک دوسرے کے ساتھ خلا ف شرع ( شرعی نکاح کے بغیر) نہیں رہے اور خدا وندعالم مجھے ہمیشہ
..............
(١) بحار الانوار : ج١١، ص٣٢ اور مسند احمد: ج٥، ص٢٦٥، ٢٦٦.
پاکیزہ اصلاب سے پاکیزہ رحموں میں منتقل کر تا رہا. کسی نسل میں جدائی اور فر قت پیش نہیں آئی مگر یہ کہ میں ان میںسے سب سے بہتر نسل میں تھا۔
خدا وندعالم نے مجھ سے نبوت کا عہدلیا اور مجھے اسلام کی ہدایت کی اور میرا ذکر آشکارا طور پر توریت اور انجیل میں کیا اور میری صفتوں کو شرق و غرب عالم میں ظاہر کیا، اپنی کتاب کی مجھے تعلیم دی اور مجھے آسمان کی بلندیوں پر لے گیا اور ان کے اسماء سے مجھے بہر ہ مند کیا :عرش کا خدا محمود ہے اور میں محمد ہوں ،مجھے خوشخبری دی کہ مجھے حوض بخش دیا اور کو ثر دیا، میں وہ پہلا شفاعت کر نے والا انسان ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی.پھراس وقت مجھ کو بہترین مقام اور منصب کے لئے مبعوث کیا۔
اور میری امت وہ خدا کی حمد کرنے والی امت ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرتی ہے(١)
سورۂ زخرف کی ٢٦ تا٢٨ ویں آیات کی تفسیر میں ارشاد فرما تا ہے:
(وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیمُ لاَِِبِیہِ وَقَومِہِ اِنَّنی بَرائ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ٭ اِلَّا الَّذِی فَطَرنِی فِانَّہُ سَےَھْدِین٭ وَجَعَلَھَا کَلِمةً باقِےَةً فِی عَقِبِہ لَعَلَّھمْ ےَرْ جِعُونَ)
( اے ہمارے رسول!)اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ ( یعنی اپنے چچا) اور قوم سے کہا:اے بُت پرستو! میں تمہارے معبودوں سے سخت بیزار ہوں . اور جز اس خدا کے جس نے مجھے خلق کیا ہے اور میری ہدا یت کر ے گا کسی کی نہیں عبادت کر تا . اور اس خدا پر ستی (اور توحید) کو میری تمام ذریت میں کلمۂ باقیہ کے عنوان سے قرار دیا ہے تا کہ اس کی ذرّیت کے افراد (خدا وند واحد کی طرف) رجو ع کریں۔
ابن عباس نے اس طرح کہا ہے:یعنی ہمیشہ ان کی(ابراہیم) ذریت میں ایسے لو گ ضرور رہے ہیں جو کلمہ لا الہ الّا اللہ کا نعرہ لگا تے رہے ہیں (٢)
ابن عباس نے کہا ہے کہ:لفظ ''فی عقبہ'' ''ان کے جانشینوں'' کے معنی میں ہے(٣)
اوردوسری روایت کی بناء پر''ان کے فرزندوں'' کے معنی میں ہے(٤)
تفسیر قرطبی میںاختصار کے ساتھ اس طرح آیا ہے:یعنی خدا وند سبحان نے اس گفتار وکلام کو ان کی نسل میں ان کے فرزند اور فرزندوں کے فرزند میں باقی رکھا ہے. یا یہ کہ ان کی نسل نے غیر اللہ کی عبادت سے
..............
(١) تفسیر سیو طی : ج ٥، ص ٩٩ (٢)تفسیر ابن کثیر:ج٤، ص١٢٦.
(٣)تفسیر قرطبی، ج١٦، ص ٧٧. (٤) تفسیر سیو طی : ج ٦، ص ١٦.
دوری کو اُن سے بعنوان میراث پایا ہے اور ہر ایک نے دوسرے کو اس امر کی وصیت کی ہے اور لفظ''عقب'' اس شخص کے معنی میں ہے جو اس کے بعد آتا ہے۔
صیح تر مذی اور مسند احمد میں واثلہ صحابی تک ان کی سند کے ساتھ ذکر ہو اہے:
خدا وندعالم نے اسمٰعیل کی اولا د میں کنانہ کو اور کنانہ سے قریش اور قریش سے بنی ہاشم اور بنی ہاشم سے مجھے انتخاب کیا اور چنا ہے(١)
سنن ترمذ ی میں اپنی سند کے ساتھ رسول خدا ۖ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فر ما یا:
خدا وند رحمن نے ابرا ہیم کی اولاد میں اسمٰعیل کو اور اسمٰعیل کی اولاد میں کنا نہ کو اور کنانہ کی اولا د میں قریش کو اور قریش سے بنی ہاشم(ہا شم کی اولا د) کو اور بنی ہاشم سے مجھے چنا ہے۔
پھر ترمذی لکھتے ہیں : یہ صحیح اور اچھی حدیث ہے۔(٢)
واضح ہے لفظ قریش سے مراد منحصر طور پر پیغمبر اکرمۖ کے آباء و اجداد ہی ہیں. جو کچھ گذر چکا رسول خدا ۖ کے آباء و اجداد کی فترت کے زمانے میں بعض خبر یں تھیں۔
مسعودی اپنی کتاب مروج الذھب میں لکھتا ہے:
لوگ ''جناب عبد المطلب'' کے بارے میں اختلاف نظررکھتے ہیں.اُن میں سے بعض انھیں مومن اور موحد( یکتا پر ست) خیال کر تے ہیں اور اس بات کے معتقدہیں کہ نہ انھوں نے اور نہ ہی پیغمبر اکرمۖۖ کے کسی آباء واجداد نے خدا کا کسی کو شریک قرار دیا ہے۔
اور جناب عبد المطلب نسل در نسل پاک و پاکیزہ اصلاب سے پیدا ہوئے ہیں اور خود ہی اعلان کیا ہے کہ ان کی پیدا ئش صحیح ازدواجی رابطہ سے ہوئی ہے نہ کہ شرع کے خلا ف طریقہ سے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جناب عبد المطلب اور پیغمبر ۖ کے دیگر اجداد کو مشرک جا نتے ہیں ،جز ان لوگوں کے جن کے ایمان کی صحت اور درستگی کی تا ئید ہوئی ہے.یہ ایک ایسی بات ہے جو امامیہ ،معتزلہ، خوارج، مرجئہ اور دیگر فر قوں کے درمیان اختلا ف کا با عث ہے. اور یہ کتاب اس طرح کے مطا لب کی ردّ یا اثبات کی گنجا ئش نہیں رکھتی کہ ہر ایک فر قہ کے دلائل کو اس میں پیش کریں۔
..............
(١)صحیح مسلم، کتاب الفضائل، حدیث شمارہ،١؛ مسند احمد، ج٤، ص ١٠٧ .
(٢)مسند احمد، ج،٤، ص ١٠٧ ؛ صحیح ترمذی، ج، ١٣، ص ، ٩٤ ،ابواب المناقب، باب اوّل، حدیث اوّل .
ہم نے ان فرقوں میں سے ہر ایک کی باتوں اور ان کے دلائل کو اپنی دوسری کتاب ''المقالات فی اصول الدیانات'' اور'' استبصار'' نامی کتاب میں نقل کیا ہے ،امامت کے سلسلہ میں بھی ان کے نظریات اور اقوال کو''الصفوة'' نامی کتاب میں ذکر کیا ہے . (١) مسعودی کی گفتگو تمام ہوئی۔
اور ہم عنقریب جناب ابو طالب کی پیغمبر اکر مۖ کے ساتھ سیرت اور رفتار کی تحقیق کر نے کے بعد انشاء اللہ اُن کے دلا ئل بھی پیش کریں گے۔