رسول اکرمۖ کے باپ جناب عبد اللہ اور چچا جناب ابو طالب
١۔ جناب عبد اللہ خاتم الانبیاۖء کے والد
جناب عبد اللہ اور جناب ابو طالب کی ماں فاطمہ، عمر وبن عا ئذ بن عمران مخزومی کی بیٹی ہیں۔ (٢)
..............
(٢)سیرۂ ابن ہشام، ج١، ص ١٢٠ .
جناب عبد اللہ اپنے باپ جناب عبد المطلب کی سب سے چھوٹی اولا د ہیں۔
جیسا کہ اخبار سیرت سے اندازہ ہوتا ہے نوفل کی بیٹی رقیہ نے اپنے بھائی''ورقہ بن نوفل'' سے پیغمبر خداۖ کے مبعوث ہو نے کی خبر سنی تھی لہٰذااس نے خود کو جناب عبداللہ کے لئے رسول اکرم ۖ کی ماں آمنہ سے ازدواج سے پہلے پیش کیا تھا،لیکن جناب عبد اللہ نے اس پر توجہ نہیں دی، اُس سے شادی نہیں کی اور اس کی مراد پوری نہیں کی ۔
رقیہ بھی جناب عبد اللہ کے آمنہ سے شادی کر نے کے بعد آپ سے متعرّض نہ ہوئی ؛ ایک مرتبہ جناب عبد اللہ نے اس سے کہا تھا کہ جس چیز کی مجھ سے کل خواہش کر رہی تھی(مجھ سے شادی کرنے کی) آج کیوں نہیں چاہتی ہو؟ رقیہ نے جناب عبد اللہ کے جواب میں کہا تھا ! جو نور کل تمہارے ہمراہ تھا وہ تم سے جدا ہو گیا ہے۔
اور ایک دوسری روایت میں مذکور ہ بالا داستان کی طرح کا واقعہ کسی دوسری عورت کے بارے میں آیا ہے کہ اُس نے کہا:
جناب عبد اللہ جب کہ ان کی پیشانی سے ایک سفید نور ضوفشاں تھا، جیسے گھوڑے کی پیشانی پر سفیدی چمکتی ہے ، اس عورت کے سامنے سے گزرے تھے ۔(١)
رسول اکرم ۖ کے والد جناب عبد اللہ کے اخبار کے بارے میں اتنے ہی پر اکتفا ء کر تے ہیں،انشاء اللہ حضرت ابو طالب پیغمبر کے چچا کی شخصیت کے متعلق بیان کررہے ہیں۔
..............
(١) سیرۂ ابن ہشام، ج١، ص ١٤٩، ١٧٠ .
٢۔ اسلام کے ناصر اور پیغمبر ۖ کے سر پرست ،جناب ابو طالب
١۔ ابو طالب:
مروج الذھب میں مذکور ہے:
''جناب ابو طالب'' کے نام کے بارے میں اختلا ف ہے ،بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا نام ''عبد مناف'' ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے. اور ایک گروہ کاخیال ہے کہ وہی کنیت ان کا نام ہے، اس دلیل سے کہ حضرت علی ابن ابی طالب (رضی اﷲ عنہ) نے پیغمبر کے املاء کرانے پرجب خیبر کے یہودیوں
کے لئے خط لکھا،تو خط کے آخر میںاپنے نام اور جناب ابو طالب کے نام کے درمیان ابن سے''الف'' کو حذف کر دیا اور اس طرح لکھا: ''کتب علی بن ابی طالب '' لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب اسم ہے نہ کہ کنیت۔ (١)
جناب عبد المطلب نے پیغمبر کے متعلق وصیت میں جناب ابو طالب سے ایک شعر کے ضمن میں اس طرح بیان کیا ہے:
اوصیتُ من کنیتہُ لطالب بابن الّذی قد غاب لیس آئِب
میں نے اس شخص کو جس کی کنیت میں نے ''طالب'' رکھی ہے، اس شخص (عبداﷲ ) کے فرزند کے بارے میں جو جا کے واپس نہیں آئے گا،اُس سے وصیت کی ہے۔
٢۔ جناب ابو طالب کی سیرت اور روش
تاریخ یعقوبی میں اختصار کے ساتھ ذکر ہوا ہے:
جناب عبد المطلب نے اپنی وصیت میں مکّہ کی حکو مت اور کعبہ کے امور اپنے فرزند '' زبیر'' کے حوالے کئے اور رسول خداۖ کی سر پرستی اور زمزم کی سقائی''جناب ابو طالب '' کے ذمّہ کی۔
جناب عبد المطلب کا جب انتقال ہو اتو پیغمبر اکرمۖ اس وقت آٹھ سال کے تھے۔ (٢)
سیرۂ حلبیہ میں مذکور ہے:
''سقایت'' اس طرح سے تھی کہ چمڑے کے حوض دیوار کعبہ کے پا س رکھ دئیے جا تے تھے اور زمزم کی کھدائی سے پہلے خوش ذائقہ اور میٹھا پا نی دیگر کنؤوں سے ،مشکوں اور ظروف میں بھر کر اونٹ کی پشت پر لا د کر لا تے تھے اور ان کو حوض میں ڈال دیتے تھے اور بسا اوقات ایام حج میں حاجیوں کے پینے کے لئے اس میں انگور کا رس اور کھجور ڈال دیتے تھے.حاجیوں کے واپسی تک یہی صورت حال رہتی تھی. یہ پانی کا پہنچا نا اور حاجیوں کی مہمان نوازی''عبد مناف'' کے بعد ان کے فرزند ''جناب ہاشم'' اور ان کے بعد ان کے فرزند ''جناب عبد المطلب'' اور ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند جناب ابو طالب تک پہنچی اور انھوں نے ان
..............
(١)عربی املا کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ' 'ابن'' کا الف جب بیٹے کا نام اور باپ کے نام کے درمیان واقع ہو تو گر جا تا ہے جیسے ''الحسن بن علی'' یہاں پر بھی ابن اور علی کا الف ابی طالب کے درمیان حذف ہو گیا ہے اور ذکر ہوا ہے ''علی بن ابی طالب'' یہ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ابو طالب اسم ہے نہ کہ کنیت.(٢)تاریخ یعقوبی ،ج٢، ص ١٣.
تمام امور کی انجام دہی کے لئے ہمت کی یہاں تک کہ فقر وناداری نے جناب ابو طالب کا پیچھا کیا لہٰذا اپنے بھائی جناب عباس سے آیندہ سال موسم حج تک کیلئے دس ہزار درہم قرض لیا اور سارا پیسہ حاجیوں تک آب رسانی میں اُسی سال خرچ کر دیا۔
جب دوسرا سال آیا تو، جناب ابو طالب کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے ''جناب عباس '' کا قرض ادا کرتے تو اپنے بھائی سے کہا : ١٤ ہزار درھم ہمیں مزید دے دو تاکہ آیندہ سال سب ایک ساتھ دے دوں جناب عباس نے کہا میں قرض دوں گا مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر اس قرض کو بھی ادا نہ کر سکے تو تم حجاج کی سقایت سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے اور اُ سے میرے حوالے کر دو گے. جناب ابو طالب نے قبول کر لیا یہاں تک کہ اس کے بعد تیسرا سال بھی آ پہنچا اور اس دفعہ بھی جناب ابو طالب کے پاس کچھ نہیں تھا کہ اپنے بھائی جناب عباس کا قرض ادا کرتے۔
اس وجہ سے سقائی کا فریضہ''جناب عباس '' کے حوالے کر دیا. جناب عباس کے بعد سقایت ان کے فرزند جناب عبد اللہ تک پہنچی اسی طرح جناب عباس بن جناب عبد المطلب کے فرزندوں میں دست بہ دست منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ ''سفّاح'' عباسی کا دور آگیا لیکن اس کے بعد بنی عباس نے اس فریضہ کو چھوڑ دیا۔(١)
تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:
حضرت علی بن ابی طالب نے فر مایا: ہمارے والدنے فقر و ناداری کی حالت میں سروری اور سرداری کی ہے. اور ان سے پہلے کوئی فقیر و نادار سیادت اور قیادت کو نہیں پہونچا ہے۔(٢)
٣۔ جناب ابو طالب کا عقیدہ اور ایمان
مروج الذھب میں مذکور ہے کہ:
جناب ابو طالب تمام گزشتہ اور اپنے ہم عصر لو گوں میں سب سے زیادہ خالق عالم کا اقرار کرتے تھے اور اپنے اس عقیدہ پر ثابت قدم تھے اور خالق ہستی کے وجود پر دلیل و برہان پیش کرتے تھے۔ (٣)
انشاء اللہ آیندہ بحثوں میں اس سے متعلق زیادہ گفتگو کریں گے.جو کچھ ہم نے یہاں تک ذکر کیا ہے وہ
..............
(١) سیرۂ حلبیہ، ج ١ ، ص ١٤؛ سیرۂ نبویہ ، ج ١ ، ص ١٦؛ اور انساب الاشراف، ج١، ص٥٧.(٢)تاریخ یعقوبی، ج٢ ،ص١٤، طبع بیروت. (٣) مروج الذھب، مسعودی، ج٢، ص ١٠٩۔
جناب ابو طالب کی خاص سیرت تھی اور ہم انشاء اللہ جب جناب ابو طالب کے عصر میں رسول خدا ۖ کی سیرت سے متعلق اخبار کی چھان بین کر یں گے تو اسی کے ساتھ ساتھ رسول خداۖ کی حفاظت اور ان کا دفاع اور اسلامی عقائدکا تحفظ کرنے میں ان کی روش کی تحقیق کر یں گے۔
|