جناب عبد المطلب بن جناب ہاشم
١۔سیرۂ ابن ہشام اور تاریخ طبری جیسی کتابوں میں بطور خلاصہ یوں نقل کیا گیا ہے:
''جناب عبد المطلب'' کی ماں نے سر میں سفید بال کی وجہ سے ان کا''شیبہ '' نام رکھا تھا۔(١)
لیکن جس وقت ان کے چچا (مطلب)مدینہ گئے اور انھیں ان کی ماں سے لے کر مکّہ واپس آئے، چونکہ آپ کو اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھایا تھا تو قریش نے انھیں دیکھ کریہ خیال کیا کہ وہ بچہ جناب عبد المطلب کا غلام ہے ۔
اس وجہ سے ان کا نام '' عبد المطلب'' رکھااور یہی نام ان کے اصلّیٰ نام کی جگہ مشہو ر ہو گیا۔
یہیں سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم اسلام صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض آباء واجداد کی نام گذاری اسی طرح سے ہوئی ہے۔
جیسے''جناب ہاشم'' چور کر نے والے کے معنی میں ہے کہ یہ نام انھیں مکّہ میں قحط سالی کے زمانے میں اپنی قوم کے بے نوا افراد کے لئے سالن دار گوشت میں روٹی چور چور کرنے کی وجہ سے دیا گیا ہے اور ان کا اصلی نام '' عمروالعلیٰ '' تھا جو فراموشی کی نذر ہو گیا۔(٢)
یا ''عبد مناف'' کانام در اصل مغیرہ تھا کہ قریش نے انھیں عبد مناف کہاہے(٣) یا قُصیّ کو مجمّع کہتے تھے کیو نکہ انھوں نے قریش کو مکّہ میں جمع کیا تھا۔ (٤)
..............
(١)عبد المطلب کی سوانح حیات جاننے کے لئے ابن ہشام کی سیرہ کی پہلی جلد،ص ١٤٥. اور تاریخ طبری، ج٢، ص٣٣٥۔ ٣٣٦، طبع بیروت، دارالفکر، ملاحظہ ہو. اور ایک شاعر نے شعر کے جناب عبد المطلب کو شیبة الحمد کہا ہے،جیسا کہ ص ٢٩٦ پر ملاحظہ کریں گے.
(٢) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حا لات زندگی میں ملاحظہ ہو۔(٣) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حا لات زندگی میں ملاحظہ ہو.
(٤) اس سے پہلے ذکر شدہ ان کے حالات زندگی میں ملاحظہ ہو.
ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے:
قریش میں جناب عبد المطلب چہرہ کے اعتبار سے حسین ترین،جسم کے لحاظ سے بہترین ، نہایت خوبصورت ڈیل ڈول کے مالک،حلم و بر دباری کے اعتبار سے سب سے زیادہ صابر اور جود وبخشش کے اعتبار سے سب سے زیادہ کریم اور جواد انسان تھے۔
وہ لوگوں میں ایسے امور سے بہت دور تھے جو لوگوں میں بد نامی اور فساد کا باعث ہوتے ہیں وہ نہایت خدا پرست انسان تھے۔
ظلم اور ناپسندیدہ افعال کو ناپسند کرتے تھے. کوئی بادشاہ ایسا نہیں تھا جو انھیں دیکھے اور ان کا احترام نہ کرے اور ان کی خواہشوں کو پو را نہ کرے اور جب تک وہ زندہ رہے قریش کے آقا و مولا رہے۔ (١)
٣۔مروج الذھب میں مذکور ہے:
جناب عبد المطلب بن ہا شم ایک خدا شناس اور توحید کا اقرار کرنے والے اور وعدئہ روز جزا ( قیامت) کے معترف انسان تھے اور انھوں نے سماج کے غلط رسم ورواج کو ترک کردیا تھا، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے مکّہ میںلوگوں کو خوش ذائقہ پا نی پلا یا۔(٢)
چاہ زمزم کی کھدائی
تاریخ طبری اور سیرۂ ابن ہشام میں (کہ ہم اس بات کو انھیں مصادر سے ذکر کررہے ہیں) ابن اسحق سے روایت کی ہے کہ اس نے حضرت امام علی سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:
جناب عبد المطلب نے کہا: میں حجرِاسماعیل میں سویا ہوا تھا کہ اس عالم میں کوئی شخص میرے پا س آتا ہے اور کہتا ہے:طیبہ(٣) کی کھدائی کرو۔
میں نے سوال کیا طیبة کیا ہے؟
پھر یہ موضوع میرے ذہن سے نکل گیا،دوسرے دن اسی جگہ میں سویا ہوا تھا کہ وہی شخص آکر کہتا ہے:کنواں کھودو۔
..............
( ١) طبقات ابن سعد،ج١ ص ٥٠۔٥١؛ طبع یورپ.(٢) مروج الذھب ،مسعودی،ج٢،ص ١٠٣، ١٠٤.
(٣) طاب طےّبة: پاکیزہ ہوگیا، اچھا ہوا ، لذیذ ہوگیا.
میں نے پوچھا کون سا کنواں؟
پھرموضوع میرے ذہن سے نکل گیا.جب تیسرے دن پھر اسی جگہ پر سویا ہوا تھا کہ پھر وہی شخص آتا ہے اور کہتا ہے:مضنونہ(١) کی کھدائی کرو!
میں نے سوال کیا مضنونہ کیا ہے؟
اور وہ چلا گیا اور جب میں چوتھے دن بھی اسی جگہ سویا ہوا تھا کہ وہی شخص آیا اور بولا:زمزم کی کھدائی کرو.میں نے پو چھا زمز م کیا ہے؟
اُس نے کہا: ایسا کنواں جس کا پانی کبھی تمام نہیں ہو گا اور انتہا کو نہیں پہو نچے گا اور کبھی سوکھے گا نہیں اور تم اس پانی سے حاجیوں کو سیراب کرو گے۔
اُس کی جگہ خون اور سر گین کے درمیان ہے(٢) جہاں سرخ چونچ والا کوّا زمین پر چونٹیوں کے آشیانوں کے نزدیک چو نچ مارے گا۔
ابن اسحق سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرما تے ہیں:
جب کوّے کی ماموریت جناب عبد المطلب پر واضح ہوئی اور کنویں کی جگہ کی جانب را ہنمائی ہوئی اوراطمینان ہوگیا کہ بات صحیح ہے .دوسری صبح کدال اٹھا ئی اور اپنے بیٹے حا رث کو کہ اس وقت تک ان کے علاوہ ان کا کوئی اور بیٹاپیدا نہیں ہوا تھا، اپنے ہمراہ لے گئے اور کھدائی شروع کر دی.جب کنویں کاحلقہ(دائرہ) نمایاں ہو گیا تو جناب عبد المطلب نے تکبیر کہی اور قریش کو معلوم ہوگیاکہ وہ اپنی مراد کو پہنچ گئے ہیں۔
لہٰذا اُن کے پاس جا کر بو لے: اے جناب عبد المطلب! یہ کنواں ہمارے باپ اسمٰعیل کا ہے اور ہمارا بھی اس میں ایک حق ہے ہمیں بھی اس میں اپناشریک قرار دو۔
جناب عبد المطلب نے کہا:میں ایسا کام نہیں کر سکتا،یہ کنواں صرف ہم سے مخصوص ہے اور تم لوگوں کے درمیان صرف ہمیں دیا گیا ہے۔
..............
(١) الضنّ الضنّة: اس چیز کو کہتے ہیں جس کے بارے میں بخل کیا جا تا ہو اور اُسے کسی کو نہ دیتے ہوں ،زمزم کو مضنونہ کہتے ہیں اس لئے کہ اُس سے مومن افراد کے علا وہ کسی کو پلانے سے بخل کر تے ہیں اور منا فق اس سے سیر اب نہیں ہوتا ، مضنو نہ گرانبہا اور قیمتی شیٔ کو کہتے ہیں.
(٢)خون اور سرگین ( گوبر) کے درمیان ایک مقام تھا جہاں وہ لوگ اپنے خدا کے لئے قربانی ذبح کرتے تھے اور اسی سے قریب چیونٹیوں کا آشیانہ بھی تھاصبح کے وقت جناب عبد المطلب خانہ خدا کی طرف گئے اسی وقت سرخ چونچ والا کوّا زمین پر بیٹھا اور جہاں بیٹھا تھا اُ سی جگہ چونچ ماری اس طرح سے جناب عبد المطلب چاہ زمزم کی جگہ سے آشنا ہوئے.
ان لوگوں نے کہا:
اُسے ہم سب میں تقسیم کرو ورنہ ہم تمھیں اُس وقت تک نہیں چھو ڑیں گے جب تک کہ تم سے ہم لوگ جنگ وجدال نہ کریں۔
جناب عبد المطلب نے کہا:اگر ایسا ہے تو ہمارے اور اپنے درمیان اپنی مرضی کے مطابق کوئی حَکَم انتخاب کرو تا کہ وہ ہمارے درمیان قضاوت کرے۔
انھوںنے کہا:بنی سعد ِ ھذیم کی کاہنہ (١)
آپ نے کہا: بہتر ہے۔
یہ کاھنہ شام کی بلندیوں کی طرف سکونت پذیر تھی۔
پھر اُس کے انتخاب کے بعد جناب عبد المطلب عبد مناف کی اولاد میں سے اپنے چند اہل خاندان کے ساتھ اور قریش کے دیگر قبائل سے چند افراد کے ساتھ سوار ہوئے اور روانہ ہوگئے۔
راوی کہتا ہے: ان کاگذر بے آب و گیاہ اور شورہ زار زمینوں سے تھا.ابھی حجاز اور شام کے درمیان کاکچھ حصہ ہی طے کیا تھا کہ جو پانی جناب عبد المطلب اور ان کے ساتھی لئے ہوئے تھے تمام ہو گیا اور سخت پیا س کا غلبہ ہوا یہاں تک کہ موت کا یقین ہو گیا۔
ان لوگوں نے قریش کے قبیلوں سے پانی طلب کیا تا کہ پیاس بجھائیں لیکن انھوں نے پا نی دینے سے انکار کر دیا اور کہا:ہم بیابان میں پھنسے ہوئے ہیں اور جو مصیبت تم پر پڑی ہے اسی مصیبت کا خطرہ ہم لوگ اپنی جان کے لئے بھی محسوس کر رہے ہیں۔
جب جناب عبد المطلب نے اپنے قریشی ساتھیوں کی خسّت و پست ذہنی دیکھی، تو اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان کے لئے خوفزدہ ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا:تم لوگ کیا بہتر سمجھتے ہو؟
انھوں نے جواب دیا:ہم لوگ آپ کی رائے کے تابع ہیں جوآپ کا حکم ہو گا ہم انجام دیں گے۔ جناب عبد المطلب نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ ہم میں ابھی ہر ایک قوی اور بحال ہے اپنے لئے ایک گڑھا کھودے اور ہم میں سے جب کوئی مر جائے تو دوسرے لوگ اسے گڑھے میں ڈال کراس کے اوپر مٹی
..............
(١) اُس کا ھنہ کا نام تاریخ طبری میں اسی طرح ہے ،لیکن باقی دیگر منابع ومآخذ میں اس کانام '' سعد بن ھذیم'' لکھا گیا ہے، یہ نام غلط اور تحریف شدہ ہے کیو نکہ ھذیم کا ھنہ کا باپ نہیں تھا بلکہ اس کے باپ کے بعد اس کی سر پر ستی اس کے ذمّہ تھی لہٰذا کا ھنہ ھذیم کے نام کے ساتھ پہچانی جاتی ہے.
ڈال دیں یہاں تک کہ صرف ایک آدمی بچے گا ایسی صورت میںایک آدمی کا ضایع ہو نا سب کے ضایع ہونے سے بہتر ہے۔
جناب عبد المطلب کے ساتھیوں نے کہا آپ کا فرمان اور دستور بہتر اور بجا ہے.پھر ان میں سے ہر ایک نے اپنے لئے ایک گڑھا کھو دا اور اس کے کنارے بیٹھ گیا،سبھی پیاس سے مر نے کاانتظار کرنے لگے. پھر کچھ وقفہ کے بعد جناب عبد المطلب نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کر کے کہا:خدا کی قسم ہم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے کہ عاجزی اور ناتوانی کے باعث اپنے ہا تھوں سے خود کو ہلاک کر ڈالیں۔
خدا سے بعید نہیں ہے کہ اس سرزمین میں کسی جگہ ہمارے لئے پانی کا انتظام کر دے.اٹھو اور حرکت کرو۔
ساتھیوں نے حکم کی تعمیل کی اور روانہ ہوگئے،یہاں تک کہ سبھی ، قبیلہ قریش کے افراد سے آگے ہوگئے اور قریشیوں نے ان کا نظارہ کرنا شروع کیا کہ دیکھیں کیا کرتے ہیں ۔
جناب عبد المطلب اپنے اونٹ کے قر یب گئے اور سوار ہوگئے جیسے ہی اپنی سواری کو حرکت دی اس اونٹ کے قدم کے نیچے خو شگوار پانی کا چشمہ جاری ہو گیا۔
جناب عبد المطلب نے تکبیر کہی اور ان کے ساتھیوں نے بھی تکبیر کہی پھر اتر کر خود اور ان کے ساتھیوں نے اُس پا نی سے اپنے آپ کوسیراب کیا اور اپنی مشکوں کو بھی پا نی سے بھر لیا ۔
جناب عبد المطلب نے اس کے بعد قریش کے افراد کو آواز دی اور کہا :پانی کے نزدیک آؤ کہ خدا وند عالم نے ہمیں سیراب کیا ہے۔
وہ لوگ آگئے اور پانی نوش کیا اور اپنے برتنوں کوبھی پانی سے بھر لیا اور اس وقت کہا: اے عبدالمطلب! خدا وند عالم نے تمہارے فا ئدہ کی خا طر ہمارے بر خلاف حکم کیا ہے ،خدا کی قسم ہم زمزم کے معاملہ میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے جس ذات نے تمھیں اس چٹیل میدان میں پا نی دیا ہے،اسی نے تمھیں زمزم بھی عنا یت کیا ہے.سرفراز اور کا میاب اس کی طرف لوٹ جاؤ۔
جناب عبد المطلب اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس ہوگئے اور اُس کاہن عورت کے پا س نہیں گئے اور اُسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
ابن اسحق کہتا ہے: یہ ایک ایسی چیز ہے جو حضرت علی ابن ابی طالب (رضی اﷲ عنہ) کی گفتگو سے ہم تک زمزم کے بارے میں پہونچی ہے۔ (١)
یعقوبی نے تحریر فرمایا ہے:
جب حبشہ کا بادشاہ ابرھہ کعبہ کوڈھا نے کی غرض سے اپنے ہا تھی سواروں کے ساتھ مکّہ آیا،قریش پہاڑوں کی چوٹیوں پر فرار ہوگئے جناب عبد المطلب نے ان سے کہا: کاش ہم لوگ اکٹھا اور ایک قوت ہوتے اور اس فوج کو خا نہ خدا سے بھگادیتے۔
انھوں نے کہا : اس کے مقابل ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔
اس لئے جناب عبد المطلب حرم میں باقی رہے اور کہا:میں خدا کے گھر سے باہر نہیں جا ؤں گا اور خدا کے علاوہ کسی سے پناہ نہیں ما نگوں گا۔
ابرھہ کے سپا ہیوں نے جناب عبد المطلب کے اونٹوں کو پکڑ لیا.جناب عبد المطلب ابرھہ کے پاس گئے جب انھوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی،تو ان لوگوں نے ابرھہ سے کہا عرب کے سید وسردار،قریش کے بزرگ، لوگوں میں معزز انسان تمہارے پاس آئے ہوئے ہیں۔
آپ اُس کے پاس گئے،ابرھہ نے ان کا احترام واکرام کیا اور جمال و کمال اور ان میں پا ئی جا نے والی شرافت کی بناء پر انھوں نے اُس کے دل میں جگہ بنا لی،اس نے اپنے متر جم سے کہا:
جناب عبد المطلب سے کہو: تم جو چاہتے ہو درخواست کرو۔
جناب عبد المطلب نے کہا:اپنے ان اونٹوں کو تم سے مانگتا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے پکڑ لیا ہے۔
ابرھہ نے کہا:
تم کو دیکھنے کے بعد میں نے ،تمھیں ایک جلیل القدر،عظیم المرتبت انسان خیال کیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ میں تمہاری عظمت وشرافت ، شان وشوکت کو در ہم بر ہم کر نے آیا ہوں اور تم مجھ سے میرے واپس جا نے کا مطالبہ نہیں کرتے کہ واپس چلا جائوں اور کعبہ کو اس کے حال پر چھوڑدوں، ایسے میں تم مجھ سے اپنے اونٹوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہو؟!
جناب عبد المطلب نے جواب دیا:
میں ان اونٹوں کا ما لک ہوں اور اس گھر کا جس کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ منہدم کر دو گے اس
..............
(١) سیرۂ ابن ہشام، ج١ ، ص ١٥٤ ۔١٥٥. طبع مبطع حجازی، قاھرہ، ١٣٥٦ ھ.
کا بھی ایک مالک ہے کہ تم کو اس کام سے روک دے گا .ابرھہ نے جناب عبد المطلب کے اونٹوںکو واپس کردیا اور ان کی باتوں سے اس کے دل میں خوف پیدا ہو گیا۔
جب جناب عبد المطلب ابرھہ کے پاس سے واپس آئے اپنے فرزندوں اور ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور کعبہ کے دروازہ تک گئے اور اُس سے لپٹ کر بو لے:
لھم!ان تعف فا نھم عیالک (١)
یا ربّ انَّ العبد یمنعُ رحلہُ فامنع رحالک
لایغلبنّ صلیبھم و محا لھم ابداً محالک
''ابرھہ نے ہمیں نابود کر نے کا ارادہ کیا ہے.خدایا اگر تو نے انھیں معاف کر دیا تو وہ تیرے عیال ہیں....
خدایا! ہر بندہ اپنے گھر کا دفاع اور بچاؤ کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع اور تحفظ کر. کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی صلیب اور اُن کی طاقت از روی ظلم وبیداد تیری طاقت پر غا لب آجا ئے''۔
کہ خدا وند عالم نے ابا بیلوں کا لشکر اُس سے جنگ کر نے کے لئے بھیج دیا۔(٢)
بحار الانوار میں خلاصہ کے ساتھ اس طرح مذکور ہے:
جناب عبد المطلب نے اپنے بیٹے جناب عبد اللہ کو بھیجا تا کہ ابرھہ کے سپا ھیوں کی خبر لائے،پھر اس وقت خود خا نہ خدا کی طرف گئے اور سات بار اس کا طواف کیا، پھر صفا و مروہ کی جانب رخ کیا اور وہاں کی بھی سات بار سعی کی۔
جناب عبد اللہ ابو قبیس نامی پہا ڑ پر چڑھ گئے اور دیکھا کہ پرندوں( ابابیل) نے ابر ھہ کے لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے. لہٰذا واپس آئے اور اس کی خوشخبری اپنے باپ کو دی۔
جناب عبد المطلب بیٹے کی خبر سن کر باہر آئے اور کہہ رہے تھے:اے مکّہ والو!دشمن کے پڑاؤکی طرف غنائم حا صل کر نے جاؤ۔
..............
(١) ہم نے یعقوبی کی باتوں کا خلا صہ اس کی تاریخی کتاب کی ج١، ص ٢٥٠۔ ٢٥٤ سے ذکر کیا ہے، یہ خبر دوسرے لفظوں میںسیرۂ ابن ہشام کی پہلی جلد کے ٥٤اور ١٦٨ صفحہ اور طبقات ابن سعد، طبع یورپ، ج١، ص ٢٨ ۔٥٦ پر بھی مذکو ر ہے.
(٢)مروج الذھب مسعودی، ج٢، ص ١٠٥؛ سیرۂ ابن ہشام، ج١، ص ٥١.
لوگ دشمن کی پڑاؤ کی طرف روانہ ہوئے اور دیکھا کہ ابرھہ کے سپا ہی ٹوٹے پھوٹے تختوں کے مانند درہم برہم ہو کر ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں.سارے پرندوں کی چونچ اور چنگل میںتین سنگر یزے تھے کہ ہر ایک سے اس لشکر کے ایک ایک سپا ہی کی حالت تباہ کر رہے تھے جب سب کو تباہ کر ڈالا تو واپس چلے گئے.ایسی چیز کسی نے نہ اس سے پہلے دیکھی تھی اور نہ بعد میں۔
جب سارے سپا ہی ہلاک ہوگئے،جناب عبد المطلب کعبہ کی طرف واپس آئے اور کعبہ کا پر دہ پکڑ کر کہا:
یا حابس الفیل بذی المغمس حبستہ کأ نَّہ مکوّس
فی مجلس تزھق فیہ الأ نفس
''اے وہ ذات جس نے ہا تھی کے لشکر کو ذی مغمس(١) نامی جگہ پر روک دیا.
اسے اس طرح روک دیا کہ گویا سر نگو ہو گیا تھا، وہ ایسے مخمصہ میں گرفتار ہوگیا جس میں جان نکل جا تی ہے''۔
پھر واپس آئے اور حبشہ کے سپاہیوں سے قریش کے فرار کر نے اور ان کی بے تابی کے بارے میں کہا:
طارت قریش اذرأت خمیساً فظلت فرداً لا أریٰ أنیساً
و لا أحسّ منھم حسیساً ا لّا اَخاً لی ما جداً نفیساً
مسوّداً فی اھلہ رئیسا (٢)
'' جب قریش کی ابرھہ کے لشکر پر نظر پڑی تو داہنے بائیں سے فرار ہوگئے اور میں تن تنہا بے ناصر و مددگار رہ گیا حتی کہ ان کی دھیمی آواز بھی میں نے نہیں سنی، سوائے ایک بھائی کے جو میرا تھا، وہ عظیم اور نیک انسان تھا.وہ اپنے اہل (اور قوم) کے درمیان سید و سردار،صاحب فضل و شرف اور عظیم المرتبت انسان ہے''۔
مسعودی کی مروج الذھب میں مذکور ہے:
جس وقت خدا وند سبحان نے ابرھہ اور اُس کے لشکر کو مکّہ میں داخل ہو نے سے روک دیا(اور انھیں نیست ونابود کر دیا)اس وقت جناب عبد المطلب نے اس طرح شعر ارشاد فر مایا:
..............
(١) ذی مغمس مکّہ سے نزدیک طا ئف کے راستہ پر ایک مقام ہے،معجم البلدان.(٢)بحار الانوار، ج١٥، ص ١٣٢، مجالس شیخ مفید کی نقل اور شیخ طوسی کے فرزند کی امالی کی نقل کے مطابق ص ٤٩ اور .٥.
انَّ للبیت لرباً ما نعاً من یردہ بأَثامٍ یصطلم
(گھر کا روکنے والاایک مالک ہے کہ جو بھی اس کی طرف برا قصد کر ے گا تو وہ اسے نابود کر دے گا)
رامہ تُبّع فی من جند ت حمیر و الحی من آل قدم.(١)
( تبع انھیں میں سے ایک تھا کہ جس نے لشکر کشی کی،اسی طرح حمیر اور اس کے قبیلہ والے )
فانثنیٰ عنہ و فی او داجہ جارح امسک منہ بالکظم
(کہ لوٹنے کے بعد اس کی گردن میںکچھ زخم تھے جو سانس لینے سے مانع تھے)۔
قلت و الأشرم تردی خیلہ اِنّ ذا الاشرم غرّ بالحرم
(اور اس کان کٹے (ابرھہ) سے جو اپنے لشکر کو ہلاکت میں ڈال رہا تھا میں نے کہا:بیشک یہ گوش بریدہ(کان کٹا) حرم کی بہ نسبت نہایت مغرور ہے)۔
نحن آل اللہ فی ما قد مضی لم یزل ذاک علی عھد اِبرھم
( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔
نحنُ دمَّرنا ثموداً عَنوة ۔ثم عادا قبلھا ذات ا لارم
( ہم نے ثمود کی سختی کے ساتھ گو شمالی کی اور انھیں ہلاک کر ڈالا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو )
نعبد اللہ وفینا سُنّة صلَة القربیٰ وایفاء الذمم
( ہم خدا کی عبادت کر تے ہیں اور ہمارے درمیان صلہ رحم اور عہد کا وفا کرنا سنت رہا ہے)۔
لم تزل للہِ فینا حجّة یدفع اللہ بھا عنّا النّقم
( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔
اشعار کی تشریح
١۔آثام:
گناہ اور اسی طرح گناہوں کی سزا کو بھی کہتے ہیں۔
(١)ایک دوسرے نسخہ میں٫٫ من آل قرم،، ذکر ہوا ہے.
٢۔یصطلم:
اصطلمہ وصلمہ الدّھرا والموتُ اوالعدُوّ: انھیں بے چارہ کردے،انھیں نابود کرے۔
٣۔تُبّع:
یمن کے بادشاہوں کو کہا جا تا ہے، جس طرح روم کے بادشاہوںکو قیصر اور ایران کے بادشاہوں کو کسریٰ کہا جا تا ہے اور وہ تُبّع حَمِیْرَ کہ جس نے خانۂ کعبہ کے ساتھ برا قصد کیا تھا انھیں میں سے ایک تھا۔
٤۔جارح:
زخم۔
٥۔کظم:
سانس کی نالی۔
٦۔اشرم:
کان یا ناک کٹا ہوا(یعنی وہ شخص جس کا کان یا ناک شگا فتہ ہو) اور حضرت عبد المطلب کے کلام سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابرھہ ایسا ہی تھا۔
٧۔تردیٰ:
ہلاکت میں ڈال دے۔
٨۔غُرَّ :
غرَّ غرّا وغروراً: اسے دھو کہ دیا، اسے مجبور کیا کہ وہ ایک باطل چیز کی خواہش کرے،ایسا شخص مغرور اور فریب خوردہ ہے۔
٩۔اِبْرَھَم:
ابراہیم ہے کہ ضرورت شعری کی بناء پر مخفف ہو گیا ہے۔
١٠۔عنوة:
اخذ الشیٔ عنوةً: یعنی کوئی چیز زبر دستی اور مجبور کر کے لینا۔
١١۔ایفاء الذمم:
عہد کا وفا کر نا یعنی ہم ذریت حضرت ابراہیم کے د رمیان صلۂ رحم اور وفاء عہد کا رواج عام رہا ہے۔
یا ہمارے درمیان آل اللہ یعنی انبیاء جیسے ہود،صالح اور ابراہیم تھے اور یہ کہنا بجا ہے کہ جناب عبد المطلب نے لفظ'' فینا'' سے دونوں گروہ کو نظر میں رکھا ہے ۔
کیونکہ حضرت ابراہیم کی ذریت میں آل اﷲ اور اس کی حجتیں رہی ہیں، جیسا کہ حضرت ابراہیم سے پہلے انبیاء تھے جیسے ہود ا ور صالح ۔
جناب عبد المطلب ان اشعار میںیہ فرماتے ہیں کہ اس گھر کا ایک مالک ہے جو ہر اس شخص کو روکے گا جو گناہ کے ارادے سے اس کی طرف قدم بڑھائے گا اور اسے مسمار کر نا چاہے گا .اسی طرح ان اشعار میں تبع حمیری کا تذکرہ کر تے ہیں کہ جس نے خا نہ خدا پر دست دارزی کی، پھر بات کو ابرھہ تک لے جا تے ہوئے فرماتے ہیں:
جب اُس کان کٹے یا ناک کٹے شخص نے خا نہ خدا پر حملہ کا ارادہ کیا تو میں نے کہا: یہ کان کٹا حرم کے ساتھ تجاوز کر نے میں بہت زیادہ مغرور اور فریب خوردہ ہے۔
جناب عبد المطلب اس مطلب کے ذکر کے بعد خبر دیتے ہیں کہ خود ان کا اور ان کے آباء و اجداد کا سلسلہ حضرت اسمٰعیل کی ذریت سے ہے اور حضرت ابراہیم کے زمانے ہی سے وہ آل اللہ ہیں ،جس طرح ہود اور صالح جیسے لوگ آل اللہ تھے؛ یہ ہوداور صالح ایسے آل اللہ ہیں جنھوں نے قوم عاد(ارم شہر والوں) اور اس کے بعد قوم ثمود کو اکھاڑ پھینکا ہے۔
خدا وند عالم نے ابرھہ کی داستان اپنی کتاب قرآن کریم میں اس طرح بیان کی ہے:
بِسْم اللّٰہ الرَحمنِ الرَحِیمْ
(اَلَمْ تَرَ کَےْفَ فَعلَ رَبُّکَ بأِصْحَابِ الفِیلِ٭ اَلَمْ ےَجْعَل کَےْدَھُم فِیْ تَضْلِیل٭ وَاَرْسَلَ عَلَیھِمْ طَیراً اَبَابِیل٭ تَر مِےْھِم بِحِجارةٍ مِنْ سِجِّیلٍ٭ فَجَعَلَھُم کَعَصفٍ مَأ کُولٍ)
بخشنے والے اور مہربان خدا کے نام
(اے ہمارے رسول!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا کیا؟!
کیا ان کے مکر وحیلہ کو بیکار نہیں کیا؟! اور ان کے ہلاک کرنے کے لئے ابابیل پرندوں کو بھیجا. انھیں کھرنجوں کی کنکریاں مار رہے تھے. پھر انھیں چبائے ہوئے بھوسے کے مانند بنا دیا۔
اسی طرح خدا وند عالم نے جناب عبد المطلب کی تعبیر میں قوم ثمود اوراُن کے صالح آل اللہ سے مقابلے کے متعلق اس طرح خبر دی ہے:
(وَاِلیٰ ثَمُودَ اَخَاھُمْ صَالِحاًقَالَ ےَاقَومِ اعبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ من اِلہٍ غَیرُہ...٭قَالُوا ےَاْ صَالِحُ قَدْ کُنتَ فِینَا مَرجوّاً قَبلَ ھَٰذا اَتَنھاٰنَا أن نَعبُدَ مَا ےَعبُد ابَأؤنَا وَاِنَّناَ لَفِی شَکٍ مِمَّاتَدْ عُونَااِلیہِ مُرِیبٍ٭قَالَ ےَا قَومِ اَرَایتُم اِنْ کُنْتُ عَلیٰ بےِّنةٍ مِنْ ربِّیِ وَآتَانِی مِنْہُ رَحْمَةً...٭فَلَمَّاجَاء اَمْرُنَا نَجَّینَا صَالِحاً وَالَّذِینَ آمَنوا معہُ...٭وَ أَخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیحَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دِےٰارِھِمْ جَاثِمینَ٭ ...اَلاَّ بُعداً لِثمُود)(١)
ہم نے صالح پیغمبر کو قوم ثمود کی طرف بھیجا.صالح نے کہا:اے میری قوم!اُس خدا کی عبادت کرو جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے...(قوم نے) کہا:اے صالح! تم اس سے پہلے ہمارے درمیان امید کا مرکز تھے.کیا تم ہمیں اس کی پرستش سے روکتے ہو جس کی ہمارے آباء واجداد نے عبادت کی ہے؟ہم اس چیز سے جس کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو سخت بد گمان ہیں.صالح نے کہا:اے میری قوم!اگر ہم اپنے دعویٰ پر خدا کی طرف سے ایک دلیل اور معجزہ رکھتے ہیں اوراُس سے مجھے ایک رحمت ملی ہو تو اس وقت تمہاری کیا رائے ہو گی؟ جب ہمارے قہر کا حکم پہنچا تو ،صالح اور وہ لوگ جو ایمان لائے تھے ان کو ہم نے نجات دی....اور ظالموں کو آسمانی صیحہ ( چنگھاڑ ) نے اپنی گرفت میں لے لیا اور صبح کے وقت اپنے دیار میں(ہمیشہ کے لئے) بے حس وحر کت پڑے رہ گئے.... آگاہ رہو کہ ثمود رحمت خداوندی سے دور ہیں۔
اسی طرح ان کے اخبار اور حکا یات قرآن کریم میں دوسری جگہ ٢٧ مقام پر ذکر ہوئی ہیں(٢ )
پھر اس کے بعد جناب عبد المطلب اپنی گفتگو میں خبر دیتے ہیں:
ثمَّ عاداً قبلھا ذات الارم۔ قوم عاد کہ انھیں خدا وند عالم نے ہلاک کر ڈالا جو کہ قوم ثمود سے پہلے زندگی گذار رہے تھے آپ کی یہ گفتگو سورۂ اعراف کی ٦٥ ویں تا ٧٤ ویں اور سو رہ ہود کی ٥٠ویں تا٦٨ ویں آیات سے یا دیگر سوروں میں جو بیان ہوا ہے اس سے مطابقت رکھتی ہے۔(٣)
..............
(١) سورۂ ہود، آیت، ٦١ تا ٦٣، ٦٦ اور ٦٨.(٢) لفظ ثمو د کے لئے الفاظ قرآن کر یم سے متعلق المعجم المفہرس ملاحظہ ہو.
(٣)لفظ عاد کے لئے الفاظ قرآن کریم سے متعلق المعجم المفہرس ملا حظہ ہو.
اسی طرح انھوں نے شہر ارم کو قوم عاد سے متعارف کر ایا ہے ، یہ بات خدا وند عالم کی سورہ ٔفجر کی چھٹی تا نویں آیات سے مطابقت رکھتی ہے:
(اَلَمَ تَرَکَیفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ٭اِرَمَ ذَاتِ الْعِمادِ٭ الَّتِی لَمْ ےُخلَق مِثْلُھَا فِیْ البِلادِ٭ وَ ثَمُودَ الَّذِینَ جَابوُاالصَّخْرَ بِا لْوٰادِ)
(اے ہمارے رسول!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟!. شہر ارم میں جو کہ بلند وبالا اور عالی شان محلوں والا تھا ؟ !
ایسا شہر کہ جس کا مثل دوسرے شہروں میںنہیں پیدا ہوا. اور قوم ثمود کے ساتھ جو وادی میں پتھروں کو کاٹ کر اپنے لئے پتھروں سے قصر تعمیر کرتے تھے؟!
اس طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کا شعر قرآن کر یم میں مذکور پیغمبروں اور ہلاک شدہ امتوں کی خبروں سے مطابقت رکھتا ہے۔
وہ جہاں پر اپنے اجداد کی توصیف کر تے ہیں اور انھیں اللہ کے نبیوں کی ردیف میں ، پسندیدہ اخلاق ، جیسے صلہ رحم اور عہد کے وفا کر نے والی صفت سے متصف ہو نے کی بناء پر، قرار دیتے ہیں، وہیں ان کی بات کی سچائی ان کے اجداد کی سیرت کے بارے میں ثابت ہوجاتی ہے، جو کہ گزشتہ فصلوں میں مفصل طور پر بیان کی گئی ہے۔
اور آپ کی یہ بات کہ: وہ لوگ حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہی آج تک آل اللہ اور خدا پرست ہیں اور خدا وند عالم ہمیشہ ان کے ذریعہ(یعنی جن لوگوں کو وہ آل اللہ اور حجت خدا کے عنوان سے متعارف کر تے ہیں) برائی اور ناگوار چیزوں کو دور کر تا ہے، یہ ایک ایسا مطلب ہے جو صحیح اور درست ہے .کیوکہ ان کے خدا پرست ہو نے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہیں کر تے اور ہم ان کی بات کی صداقت کو اس بات سے درک کر تے ہیں کہ پیغمبر کے آباء واجداد میں حضرت اسمٰعیل تک کسی کو ایسا نہیں پایا کہ بُت کو سجدہ کیا ہویا بُت کے لئے قربانی کی ہو،یا بت کے نام پر حج کا تلبیہ کہاہو یا بت کی قسم کھا ئی ہو یا بت کی کسی بیت یا کسی شعر میں مدح وستائش کی ہو،بلکہ ان تمام موارد میں بر عکس دیکھا ہے کہ انھوں نے خدا کا سجدہ کیا ہے اور خدا سے تقرب حاصل کر نے کے لئے قربانی کی ہے اور خداوند عالم کی قسم کھائی اور اُ س کی تعریف وتوصیف کی ہے.اس لحاظ سے حضرت عبد المطلب کی بات کا صادق ہو نا روشن وآشکار ہے۔
رہی ان کی یہ بات کہ ان کے درمیان ہمیشہ خدا کی کوئی حجت رہی ہے، تو اس کے متعلق یا یہ کہیں کہ پروردگار عالم نے اپنے گھر کے ساکنوں کو مکّہ میں کہ جسے ام القری کہتے ہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے یعنی اس ام القریٰ اور اس کے اطراف میں رہنے والے اور وہ لوگ جو حج ادا کر نے کے لئے اس کے محترم گھر کی طرف آتے ہیں پانچ سو سال سے زیادہ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور کسی ایسے شخص کو جس کے پاس شریعت اسلام وہ لوگ حاصل کر سکیں ان کے درمیان قرار نہیں دیا ہے کہ اس بات کا غلط ہو نا واضح اور آشکا ر ہے؛اور ہم نے اس کتاب کی ربوبیت کی بحث میں تشریح کی ہے کہ پروردگار عالم اس طرح کی چیزوں سے منزہ اور مبرا ہے۔
یا یہ کہیں کہ:
پروردگار عالم نے مسلسل نسلوں کو پانچ سو سال سے زیادہ ام القریٰ اور اس کے اطراف میں ان کے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور اُن کے درمیان ایسے افراد کو قرار دیا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی دینی احکام سیکھنا چاہے تو وہ سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو؛ اس آیۂ شریفہ کے مصداق کے مطابق کہ خدا فرماتا ہے:
(وَالَّذِےْنَ جَاھَدُوافِینَالَنَھْدِ ےَنَّھُمْ سُبُلَنَا)
''اور وہ لوگ جو کہ ہماری راہ میں سعی و تلاش کرتے ہیں،ہم خود ہی انھیں اپنی راہ کی راہنمائی کرتے ہیں ''۔
اس بناء پر خدا وند عالم نے انھیں افراد کے درمیان ایسے لوگوں کو قرار دیا ہے کہ جو اُسی نسل کے سارے افراد پر حجت تمام کرتے ہیں. ایسی صورت میں دین خدا کی طرف ہدایت کر نے والا جناب عبد المطلب اور آپ کے آباء و اجداد کے علاوہ حضرت ابراہیم تک کون ہوسکتا ہے؟ پروردگار عالم کی قسم کہ خدا وند متعال نے ان کے درمیان ذریت حضرت ابراہیم سے حجتیں قرار دیں اور ان پر حجت تمام کی ہے اور ان کے ذریعہ بُرائی اور عذاب کو ان سے دور کیا ہے.اور جناب عبدالمطلب نے سچ کہا ہے کہ:
نحنُ آل اللہ فی ما قد مضیٰ لم یزل ذاک علی عھد ابرھم
لم تزل اللہ فینا حجة ید فع اللہ بھا عنّا النقم
جناب عبد المطلب کے شاعرانہ اسلوب میں بالخصوص مذکورہ با لا ابیات میں کہ آپ نے اپنے شکست خوردہ دشمن (ابرھہ اور اس کے سپا ہی) پر فخر ومباہات کے موقع پر کہا ہے اور جن فضائل و مناقب کو شمار کیا ہے گزشتہ اور موجودہ عرب کی شاعرانہ روش سے واضح اور آشکار فرق پا یا جا تا ہے ۔
کیونکہ آپ نے اپنے باپ ہاشم کے وجود ذی جود پر افتخار نہیں کیا ایسا سخی اور جواد باپ جس نے خشک سالی کے زما نے میں مکّہ والوں کو کھانا کھلانے کا بندو بست کیا اور اونٹوں پر تجا رتی اجناس بار کر نے کے بجائے مکّہ والوں کے لئے شام سے غذا لائے اور. پھر انھیں اونٹوں کو جن پر لوگوں کے لئے غذا لا د کر لائے تھے ،نحر کیا اور گرسنہ ( بھوکے) لوگوں کو سیر کیا. یہ ایسا کار نامہ انجام دیا ہے کہ اُن سے پہلے نہ کسی عرب نے ایسا کیا اور نہ ہی حاتم طائی نے اور نہ ہی ان سے پہلے یا بعد میں کسی اورنے انجام دیا اور نہ ہم نے گزشتہ امتوں کی داستان میں کو ئی ایسا کا رنامہ ملاحظہ کیا ہے. اور اپنے باپ کے اقدام کو جو کہ اعتفاد کی رسم کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ کو ئی گھرا نہ مجبوری اور گرسنگی(بھوک) کے زیر اثر موت سے دوچار نہ ہو اپنے لئے فخر شمار نہیں کر تے اور اس وقت عرب کو تجارت کے آداب سکھا نے اور اجناس کو آباد سرزمینوں میں لے جانے کو اپنی فوقیت و بر تری کا معیار نہیں سمجھتے۔
جناب عبد المطلب نے ان تمام فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو اپنے لئے افتخار کا باعث نہیں سمجھا،جب کہ تمام لوگوں کے درمیان مذکورہ بالا فضائل صرف اور صرف ان کے باپ ھا شم سے مخصوص تھے.اس طرح کے امور میں جو کہ خدمت خلق کا پتہ دیتے ہیں خود پر فخر ومباہات نہ کر نا اللہ کے نبیوں اور اس کی حجتوں کے واضح اورنمایا صفا ت میں سے ہے.یعنی یہ لوگ لوگوں کے ساتھ جود و بخشش کر کے اور معاشی امور میں ان کی خد مت کرکے لوگوں پر احسان نہیں جتاتے بلکہ صرف لوگوں کو اس منصب سے جو خدا نے اُن سے مخصوص کیا ہے اور لوگوں کو ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ہے آگاہ کرتے ہیں.یہ کام جناب عبد المطلب نے اپنے اشعار میں انجام دیا ہے جس میں فرماتے ہیںکہ ''ہم قدیم زمانے سے ہی آل اللہ تھے...''۔
|