قُصیّ بن کلاب بن مرّہ بن کعب
قُصیّ کے جوان اور قوی ہو نے تک مکّہ کی حکومت اور خانہ خدا کا معاملہ خزاعہ قبیلہ کے ہاتھ میں رہا۔ انھوں نے اپنے پر اگندہ اور بکھرے ہوئے خاندان کو جمع کیا اور اپنے مادری بھائی''درّاج بن ربیعہ عذری'' سے نصرت طلب کی.درّاج قضاعہ کے ایسے گروہ کے ساتھ جسے وہ جمع کر سکتا تھا ان کی مدد کو آیا.پھر وہ سب خزاعہ سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں طرف سے کثیر تعداد میں لوگ ما رے گئے،نتیجہ کے طور پر''عمرو بن عوف کنانی'' کے فیصلے پر آمادہ ہوئے.
عمروبن عوف فیصلہ کے لئے بیٹھا اور اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ قُصیّ مکّہ کی حکومت اور خا نہ خدا کی تو لیت کے لئے خزاعہ کے مقابل زیادہ سزاوار ہیں.
قُصیّ نے خزاعہ قبیلہ کو مکّہ سے نکال باہر کیا اور مکّہ کی حکو مت اور خانہ خدا کی خدمت کی ذمّہ داری اپنے ہاتھوںمیں لے لی .اور قریش کے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے قبا ئل کو جو کہ پہاڑوں اور درّوں میں زندگی گزار رہے تھے جمع کیا اور مکّہ کے درّوں اور اس کی دیگر زمینوں کو ان کے درمیان تقسیم کردیا ، اسی لئے اُنھیں '' مجمّع '' ( جمع کر نے والا) کہتے ہیں شاعر نے اس سلسلے میں کیا خوب کہا ہے:
اَبُوْ کُمْ قُصیّ کَاْنَ ےُُدْعَیٰ مُجَمِّعا بِہ جَمَعَ اللّٰہُ الْقَبَائِلَ مِنْ فَھِرْ
تمہارے باپ قُصیّ ہیں جنھیں لوگ مجمّع(جمع کرنے والا) کہتے تھے۔
خدا وند عالم نے ان کے ذریعہ فھر کے قبیلوں کو ایک مرکز پر جمع کر دیا۔
قُصیّ نے قریش کے قبیلوں کے لئے''دار الندوة'' جیسی ایک جگہ تعمیر کی تاکہ وہاں اکٹھا ہو کراپنے سے مربوط امور میں ایک دوسرے سے مشورہ کریں .اُنہوں نے اسی طرح خانہ کعبہ کو اس کی بنیاد سے ایسا تعمیر کیا کہ ویسی تعمیر ان سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی۔ (١ ) قُصیّ بتوں کی پرستش سے شدت کے ساتھ روکتے تھے۔
..............
(١) تاریخ یعقوبی۔ ج١، ص٢٣٨ ۔٢٤٠.
قُصیّ اور بیت اللہ الحرام اور حاجیوں سے متعلق ان کا اہتمام
١۔ ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے :
قُصیّ نے سقایت(سیراب کرنے) اور رفادت (حجاج کی مدد کرنے) کی ذمّہ داری قریش کو دی اور کہا: اے جماعت قریش ! تم لوگ خدا کے پڑوسی،اس کے گھر اور حرم کے ذمہ دار ہو اور حجاج خدا کے مہمان اور اُس کے گھر کے زائر ہیں اور وہ لوگ تعظیم و تکریم کے زیادہ حق دار مہمان ہیں۔
لہٰذا حج کے ایام میں ان کے لئے کھانے اور پینے کی چیزیں فراہم کرو جب تک کہ وہ تمہارے علا قے سے اپنے گھروں کو نہ لوٹ جائیں۔
قریش نے بھی حکم کی تعمیل کی اور سا لانہ ایک مبلغ حجاج پر صر ف کر نے کے لئے الگ کر دیتے تھے اور اُسے قُصیّ کو دے دیتے تھے.قُصیّ ان مبلغوں سے مکّہ اور منی کے اےّام میں لو گوں کے کھا نے پینے کا بندوبست کرتے اور کھال سے حوض بنا تے اور اس کو پا نی سے بھرتے اور مکّہ،منی اورعرفات میں لو گوں کو پا نی پلا تے تھے،قُصیّ کی یہ یاد گار اسی طرح ان کی قوم (قریش) کے درمیان زمانۂ جاہلیت میں جاری رہی یہاں تک کہ اسلام کا ظہو ر ہوا اور یہ سنت آج تک اسی طرح اسلام میں باقی اور جا ری ہے۔(١)
٢۔ تا ریخ یعقوبی میں مذکور ہے:
قُصیّ نے قریش قبیلے کے افراد کو خانہ خدا کے ارد گرد جمع کر دیا اور جب حج کا زمانہ آیا تو قریش سے کہا:
حج کا زمانہ آگیا ہے اور میں کوئی بھی احترام واکرام عرب کے نزدیک کھا نا کھلا نے سے بہتر نہیں جانتا ہوں لہٰذا تم میں سے ہر ایک اس کے لئے ایک مبلغ عطا کرے۔
ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور کا فی مبلغ اکٹھا ہو گیا .
جب حاجیوں کا سب سے پہلا گروہ پہونچا،تو آپ نے مکّہ کے ہر چوراہے پر ایک اونٹ ذبح کیا اور مکّہ میں بھی ایک اونٹ ذبح کیا اور ایک جگہ بنائی جس میں غذا،روٹی اور گوشت رکھااور پیاسوں کو دودھ اور پانی سے سیراب کیا اور خا نہ کعبہ کی طرف گئے تو اس کے لئے کنجی اور آستانہ کا انتظام کیا۔(٢)
انساب الاشراف میں مذکور ہے:
..............
(١)طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج١،ص٤١،٤٢.(٢) تاریخ یعقوبی،ج١،ص ٢٣٩۔٢٤١،طبع بیروت،١٣٧٩ھ.
قُصیّ نے کہا : اگر میری دولت ان تمام چیزوں کیلئے کا فی ہوتی تو تمہاری مدد کے بغیر انھیں انجام دیتا (١)
٣۔ سیرۂ حلبیہ میں خلا صہ کے طور پر اس طرح مذکور ہے:
جب حج کا وقت نزدیک آیا تو قُصیّ نے قریش سے کہا:
حج کا موقع آچکا ہے اور جو کچھ تم نے انجام دیا ہے عرب نے سنا ہے اور وہ لوگ تمہارے احترام کے قائل ہیں.اور میں کھانا کھلانے سے بہتر عرب کے نزدیک کوئی اور احترام واکرام نہیں جانتا.لہٰذا تم میں سے ہر شخص اس کام کے لئے ایک مبلغ عنایت کرے۔
ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور کافی مبلغ اکٹھا ہو گیا، جب حا جیوں کا سب سے پہلا گروہ پہونچا تو انھوں نے مکّہ کے ہر راستہ پر ایک اونٹ ذبح کیا اور مکّہ کے اندر بھی ایک اونٹ ذبح کیا اور گوشت کا سالن تیار کیا اور میوے کے پانی سے ملا ہوا میٹھا پا نی اور دودھ حجاج کو پلا یا ۔
قُصیّ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے''مزدلفہ '' میں آگ روشن کی تا کہ شب میں لوگ عرفہ سے نکلتے وقت اندھیرے کا احساس نہ کر سکیں۔
اُنھوںنے مکّہ کی تمام قابل اہمیت اور لا ئق افتخار چیزوں کو اپنے ہاتھ میںلے لیااور سقایت (سیرابی) حجاج کی مدد، کعبہ کی کلید برداری، مشاورتی اجلاس کی جگہ دار الندوہ، علمبرداری اور امارت و حکومت اپنے اختیار میں رکھی۔
''عبد الدار'' قُصیّ کی اولاد میں سب سے بڑے تھے اور ''عبد مناف'' اُن سب میں شریف ترین، اُنھوں نے شرافت کو اپنے باپ (قُصیّ) کے زمانے ہی میں اپنے سے مخصوص کر لیا تھا اور ان کی شرافت کا شہرہ ،آفاق میں گونج رہا تھاان کے بھائی ''مطلّب'' کا مرتبہ بھی علو مقام اور بلندی رتبہ کے لحاظ سے ان کے بعد ہی تھا اور لوگ ان دونوں بھائیوں کو بدران ( دو چاند )کہتے تھے.قریش نے عبد مناف کو ان کی جود و بخشش کی وجہ سے فیّاض کا لقب دیاتھا۔
قُصیّ نے اپنے بیٹے عبد الدار سے کہا:
میرے بیٹے: خدا کی قسم تمھیںتمہا رے بھا ئیوں عبد مناف اور جناب عبد المطلب کے ہم پلّہ دوںگا، اگر چہ وہ لوگ مر تبہ کی بلند ی اور رفعت کے لحاظ سے تم پر فو قیت رکھتے ہیں۔
..............
(١) انساب الا شراف۔١،ص ٥٢.نکلنے کی راہ دیکھ سکیں.
قرار کوئی مرد بھی کعبہ کے اندار داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم اس کا دروازہ کھو لو. تم کعبہ کے پردہ دار ہو گے قریشیوں کا کوئی پرچم جنگ کے لئے اس وقت تک سمیٹا نہیں جا ئے گا جب تک کہ تم اجازت نہیں دوگے تم قریش کے علمبردار ہو۔
مکّہ میں کو ئی آدمی بھی تمہاری اجازت کے بغیر سیراب نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم پلاؤ کیو نکہ سقایت کامنصب تم سے مخصوص ہے۔
کوئی بھی حج کے ایام میں کچھ نہیں کھا ئے گا مگر یہ کہ تم اسے کھلاؤ ، تم حاجیوں کے میزبان ہو. قریش کا کوئی کام قطعی اور یقینی مرحلہ تک نہیں پہونچے گا مگر یہ کہ تمہارے گھر میں ، تم دار الندوہ کے ذمّہ دار ہو۔ تمہارے سوا کوئی اس قوم کی رہبری نہیں کر ے گا تم اس قوم کے رہبر ہو.اور یہ سارے فخرو مباہات قُصیّ کے عطا کردہ ہیں۔
جب قُصیّ کی موت کا زمانہ قریب آیا تو انھوں نے اپنے فرزندوں سے کہا:شراب سے پرہیز کرو۔ (١)
گزشتہ مباحث میں ہم نے حضرت ابراہیم کی سنت میں دو واضح اور آشکار خصوصیتوں کا درج ذیل عنوان کے ساتھ تحقیقی جا ئزہ لیا ہے:
١۔ بیت اللہ الحرام کی تعمیر اور انجام حج کے لئے لوگوں کو دعوت دینا اور اس کے شعائر کا قائم کرنا۔
٢۔ مہمانوں کو کھانا کھلا نے اور ان کی تعظیم وتکریم کی جانب ان کی تو جہ۔
ان دوخصلتوں کو ہم حضرت ابراہیم کی ذریت قُصیّ اور ان لوگوں میں جن کی خبریں اس کے بعد آئیںگی واضح انداز میں ملا حظہ کرتے ہیں کہ ان دو خصلتوں کے وہ لوگ مالک تھے۔
انبیاء اور مرسلین کے اوصیاء (اُس پیغمبر کی سنتوں کا احیاء کرنے میں جس کی شریعت کی حفاظت اور تبلیغ کے ذمہ دار ہوتے ہیں . )ایسے ہی ہوتے ہیں ۔
لیکن یہ بات کہ قُصیّ نے اپنے دو فرزندوں کا نام(عبد مناف) اور(عبد العزی) رکھا ایک ایسا مطلب ہے کہ انشاء اللہ جناب عبد المطلب کی جہاں سیرت اور روش کے بارے میںگفتگو کریں گے وہاں اس کے بارے میں بھی بیان کر یں گے۔
..............
(١)سیرۂ حلبیہ، ج١، ص١٣. کہ اُن میں سے بعض کا ذکر اُس کے حا شیہ سیرۂ نبویہ زینی دحلان کی تا لیف میں ہوا ہے.
قُصیّ کی وفات
تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:
قُصیّ انتقال کر گئے اور '' حجون '' میں سپرد لحد ہوئے ان کے بعد ان کے فرزند''عبد مناف '' نے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور ریاست حاصل کی اور ان کی قدر ومنز لت بڑھ گئی اوران کے شرف ومرتبہ میں اضا فہ ہوگیا۔ ( ١)
عبد مناف بن قُصیّ
سیرۂ حلبیہ اور نبویۂ میں مذکور ہے:
عبد مناف کا نام مغیرہ تھا اور پتھر پر لکھی ایک تحریر ہاتھ لگی جس میں تحریر تھاقُصیّ کے فرزند مغیرہ نے تقوای الٰہی اختیار کر نے اور صلہ رحم کر نے کی وصیت کی ہے۔(٢)
تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:
(قُصیّ کے بعد) ''عبد مناف بن قُصیّ'' کو ریا ست ملی انھوں نے بھی اپنی حیثیت اور قدر و منزلت بڑھا لی اور اپنے شرف ومرتبہ میں اضافہ کیا۔
جناب ہاشم بن عبد مناف
عبد مناف کے فرزند ھا شم کانام '' عمر والعلیٰ '' تھا۔
١۔ طبقات ابن سعد اور تاریخ یعقوبی میں خلا صہ کے طور پر مذ کور ہے:
اپنے باپ کے بعد جناب ہاشم نے مرتبت و منزلت حاصل کی اور ان کا نام اور چرچہ شہرہ آفاق ہو گیا اور قریش نے موافقت کی کہ سقایت (سیراب کرنا) ،ریاست اور رفادت (حاجیوں کی مدد کرنا) جناب ہاشم بن عبد مناف کے اختیا ر میں ہو گی۔
..............
(١) تاریخ یعقوبی ، ج١، ص ٢٤١ جوہم نے جرھم، خزاعہ اور قُصیّ کے بارے میں مفصل گفتگو کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہو جائے کہ جنھوں نے ابرا ہیم کے دین حنیف کو بد لا ہے وہ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل کی اولا د کے علا وہ تھے.
(٢) سیرۂ حلبیہ،ج١،ص ٧ اور سیرۂ بنویہ، ج١، ص ،١٧؛ سبل الھدی، ١، ٢٧٤.
جناب ہاشم مراسم حج کی انجام دہی کے موقع پر قریش کے درمیان کھڑے ہو کر فرماتے تھے :
اے قریش واالو! تم لوگ خدا کے پڑوسی او راس کے اہل خانہ ہو.اس موسم میں خدا کے زوّار تمہارے پاس آئیں گے تا کہ اُس کے گھر کی حرمت کی تعظیم کریں.وہ لوگ خدا کے مہمانوں میں سے ہیں لہٰذااحترام کے زیادہ حق دار ہیں۔
خدا نے تمھیں اس کام کے لئے منتخب کیا ہے اور تمھیں اسی وجہ سے بزرگ بنایا ہے خدا نے تمہاری ہمسایگی کی رعایت و نگہداشت ہر ہمسایہ سے کہیں بہترکی اور ہر پڑوسی سے بہتر اپنے پڑوسی کو محفوظ رکھا ہے اب تم لو گ اس کے مہمانوں اور زائرین کا اکرام کرو.کہ وہ لوگ الجھے ہوئے بالوں ، غبار آلود صورتوں میں ہر شہر وعلاقہ سے اونٹ پر سوار ہو کر جو کہ لا غر ہو نے کے لحاظ سے تیر کی لکڑیوں کے مانند ہے راستہ سے پہنچنے ہی والے ہیں اس حال میں کہ وہ تھکے ماندے ہیں، بدبو دار، کثیف، گرد میں اٹے اور نادار لوگ ہیں لہٰذا ان کی مہمانی کے لئے اٹھ کھڑے ہو اور ان کی بے نوائی اور احتیاج کو دور کرو۔
جناب ہاشم نے کا فی مال اکٹھا کیا اور حکم دیا کہ کھال سے حوض تیار کریں اور زمزم کے پاس رکھ دیں پھر پانی سے ان کنوؤں کو پُر کر تے تھے جو مکّہ میں پائے جا تے تھے اور حاجیوں کو ان سے پلاتے تھے اور مکّہ منی، مشعر اور عرفات میں لوگوں کو غذا دیتے تھے،روٹی گوشت،گھی اورآٹا ان کے لئے فراہم کر تے تھے اور ان کے لئے منیٰ تک پانی اٹھا کر لیجاتے تا کہ وہ پئیں؛یہاں تک کہ حاجی لوگ منیٰ سے پرا گندہ ہو کر اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے جاتے تھے۔ ( ١)
٢۔ کتاب سیرۂ حلبیہ و نبویۂ میں مذکور ہے:
جب ذ ی ا لحجہ کا چاند نمودار ہوتا تھا تو جناب ہا شم صبح کے وقت اُٹھتے اور در کی طرف سے دیوار کعبہ سے ٹیک لگاتے اور اپنے خطبہ میں کہتے:
اے قریش کی جماعت! تم لوگ عرب کے سردار ہو اور سب سے زیادہ نیک نام ہو اور سب سے زیادہ عقلمند اور تمام قبیلوں سے زیادہ شریف اور عربوں میں عرب سے رحم کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہو۔
اے قریش کی جماعت! تم لوگ خدا وند متعال کے گھر کے پڑوسی ہو،خدا وند عالم نے تمھیں اپنی ولایت سے نوازا ہے اور تمہارے بعد اپنی ہمسا ئگی کو اسمٰعیل کے فرزندوں میں تم سے مخصوص کیا ہے۔
..............
(١) طبقات ابن سعد،ج١، ص ٤٦ ؛ تاریخ یعقوبی،ج١،ص ٢٤٢،طبع بیروت ١٣٧٩ھ ہم نے ان دونوں کی باتوں کو جمع کیا ہے.
اب خدا کے زائر جواُس کے گھر کو عظیم سمجھتے ہیں تمہارے نز دیک آرہے ہیں وہ اس کے مہمان ہیں اور خدا کے مہمانوں کی قدر دانی کے لئے سب سے زیادہ لائق تم ہو۔
لہٰذا اس کے زائروں اور مہمانوں کی قدردانی کرو ،کہ وہ لوگ الجھے ہوئے غبار آلود بالوں کے ساتھ ہر شہر اور ہر علا قے سے ایسے اونٹوں پر سوارہو کر جو کہ تیر کی لکڑیوں کے مانند لا غر اور دبلے پتلے ہیں، پہنچنے ہی والے ہیں؛ لہٰذا اس کے گھرکے زائرین اور مہمانوں کی قدر دانی اور ضیا فت کرو.اس کعبہ کے ربّ کی قسم اگر ہمارے پاس اتنا مال ہوتا کہ ان تمام امور کے لئے کفایت کر تا تو تم سے مدد نہیں مانگتے.اب میں اپنے پاک وحلال مال سے کہ جس میں قطع رحم کا شائبہ تک نہیں اور نہ ہی کوئی مال ظلم وستم سے حاصل کیا گیا ہے اور نہ اُس میں کسی حرام کی آمیزش ہے (کچھ ان امور میں مصرف کے لئے) کنارے رکھتا ہوں (جدا کر تا ہوں) اور تم میں سے جو ایسا کرنا چا ہتاہے ایسا کرے۔
تم میںسے اس گھر کی حر مت کے ذریعہ چا ہتا ہوں کہ تم سے کو ئی مرد بیت اللہ کے زائروں کا اکرام کرنے اور انھیں تقویت پہنچا نے کے لئے حلال اور پاک مال کے سوا جدا نہ کرے؛ اُس میں ایک دنیار بھی ظلم وستم کے ذریعہ نہ لیا گیا ہو اورکسی سے قطع رحم نہ ہوا ہو اور زور زبردستی سے نہ لیا گیا ہو۔
ان لوگوں نے بھی تعمیل حکم کر تے ہوئے دقت سے کام لیتے ہوئے اپنے مال میں سے حلال مال کوالگ کر کے دار الندوہ میں رکھ دیتے تھے۔ (١)
٣۔ انساب ا لاشراف اور ابن ہشام کی سیرہ اور المحبّر میں مذکو ر ہے(اور ہم انساب الاشراف کی بات نقل کرتے ہیں):
ایک سال قریش کو قحط(خشک سالی) کا سامنا ہوا اور ان کے اموال تباہ ہوگئے اور بے چارگی و تنگد ستی سب پر چھا گئی.یہ خبر جناب ہاشم کو جو کہ شام کے غزہ نامی ( ٢). علا قے میں تجا رت کے لئے گئے ہوئے تھے پہنچی تو جناب ہاشم نے حکم دیا کہ روغنی روٹی (کیک) اور سادہ روٹی فراہم کریں ان کے دستور کے اجراء کے ساتھ ہی اس سے کہیں زیادہ چیزیں فراہم ہوگئیں.پھر انھیں تھیلوں میں رکھ کر اونٹوں پر لا د کر مکّہ کی طرف روانہ ہوگئے.جب مکّہ پہونچے تو حکم دیا کہ انھیں توڑ توڑ کر سالن میں بھگو دیں اور جو اونٹ اپنے ہمراہ لائے تھے انھیں نحر کر ڈالا اور مکّہ کے رہنے والوں کو سیر کر کے انھیں گرسنگی اور بھوک سے نجات دی۔
..............
(١)سیرئہ حلبیہ ج١ ،ص٦ ، سیرئہ نبویہ ج ١ ،ص١٩.(٢) غرہ مصر کی سمت شام کی انتہا میں ایک شہر ہے؛ معجم البلدان.
عبد اللہ ابن زبعریٰ نے اس قحط کے بارے میں جس نے مکّہ والوں کو زحمت و مشقت میں مبتلا کر رکھا تھا اس طرح یاد کیا ہے۔ (١)
عمر و العلیٰ ھشم الثّر ید لقومہ و رجال مکّہ مسنتون عجاف
وھو الّذی سنّ الرحیل لقومہ رحل الشتاء ورحلة الاصیاف
'' عمرو عُلیٰ'' نے اپنی قوم کے لئے سالن دار گوشت تیا ر کیا.جبکہ مکّہ والے قحط سے دوچار تھے ۔
اُس نے اپنی قوم کے لئے کاروانی تجا رت کی سنت قائم کی۔جاڑے کے کاروان اور گرمی کے کاروان کے عنوان سے ۔
اسی سال، تمام مکّہ والوں کو قحط نے اپنی گرفت میں لے لیا اور جناب ہاشم نے جو کچھ کیا اس سے تھوڑی ہی مدّت تک ان کی فریاد رسی ہوئی.لیکن اس تاریخ کے بعد مکّہ والوں کے درمیان کچھ ایسے بھی افراد تھے جو گر سنگی کے سامنے کوئی چارہ کار نہیں رکھتے تھے سوائے یہ کہ(اعتفاد) کریں اور ''اعتفاد'' یہ تھا کہ گھر اور خاندان کے تمام افراد صحرا کی طرف چلے جاتے تھے اور وہاں جا کرکسی سایہ میں موت کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے تاکہ یکے بعد دیگرے بھوک سے مر جائے اور خاندان کی کوئی فرد باقی نہ بچے۔
جناب ہاشم ابن عبد مناف نے اس نا موافق امر کے بارے میں چا رہ جوئی کی کہ اس کے بعد مکّہ میں پھر کو ئی پیدا نہیں ہوا کہ جو (اعتفاد) پر مجبور ہو. داستان اس طرح ہے:
''اعتفاد'' سے متعلق جناب ہاشم کی چارہ جوئی اور راہ حل .
قرطبی نے ابن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا خلا صہ یہ ہے:
قریش کی ایسی عادت تھی کہ اُ ن میں سے جب کو ئی بھوک سے دوچار ہوتا اور کوئی راہ چارہ نہ ہوتی تو خود اور اپنے اہل وعیال کو مشہور ومعروف جگہ پر لے جاتا اور خیمہ لگا کر وہاں قیام کر تا تا کہ سب مر جائیں۔
یہ حالت''عمر وبن عبد مناف'' کے زمانے تک جو کہ اپنے زمانے کے سید وسردار تھے باقی رہی، عمروکا''اسد'' نامی ایک فرزند تھا اور وہ بنی مخزوم قبیلہ کے ایک لڑ کے کا دوست تھا کہ اس کے ساتھ کھیلتا کودتا تھا اور اسے بہت دوست رکھتا تھا۔
..............
(١)انساب الاشراف۔ ج ١ ،ص ٥٨؛ اورسیرۂ ابن ہشام، ج١، ص ١٤٧؛ اور المحبر، تالیف ابن حبیب، ص ١٤٦.
ایک دن اسد کے دوست نے اسد سے کہا:ہم لوگ کل ''اعتفاد'' کریں گے،اس دردناک بات کا مطلب یہ تھا کہ: ہم لوگ ایک ساتھ صحرا کی طرف جائیں گے اور ایک خیمہ کے نیچے جمع ہوجائیں گے تاکہ یکے بعد دیگرے بھوک کی شدت سے ہر ایک مرتا رہے یہاں تک کہ سب کے سب مر جائیں ۔
اسد یہ بات سن کر اپنی ماں کے پاس روتا ہوا آیااور جوکچھ اس کے دوست نے کہا تھا اُس نے اپنی ماں سے کہہ سنا یا ، اسد کی ماں نے بھی ان کے لئے تھوڑآٹا اور چربی بھیجی انھوں نے چند دن اس پر گذارے پھر چند روز بعد اسد کا دوست اس کے پا س آیااور کہا:ہم لوگ کل اعتفاد کریں گے۔
اسد اس بار بھی روتا ہوا باپ کی خد مت میں پہونچا اور اپنے دوست کا واقعہ اُن سے بیان کیا . یہ بات عمروابن عبد مناف پر گراں گذری لہٰذا انھوں نے قریش کے ان افراد کو جو ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے آوازدی اور ان کے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور کہا:
تم لوگوں نے ایسا کام کیاہے جس سے اپنی تعداد کم کردی ہے جب کہ قبائل عرب کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور وہ کام تمہاری ذلت وخواری اور دوسرے عرب کی عزت کا باعث ہو رہا ہے۔
تم لوگ آدم کی اولا د میں سب سے زیادہ محترم اور حرم الٰہی کے ساکن اور رہنے والے ہو اور لوگ تمہارے تابع فرمان ہیں اور تمہاری باتیں سنتے ہیں. اور قریب ہے کہ یہ اعتفادد تمھیں ہلاک کر ڈالے اور نابود کر دے؛ قریش نے کہا:ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں؛(یعنی جو آپ کا حکم ہو گا ہم ماننے کو تیار ہیں) جناب ہاشم نے کہا: سب سے پہلے اس مرد (اسد کے دوست کے باپ ) کو کچھ دواور انھیں اعتفاد سے بچاؤ انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور ایسا ہی کیا۔(١)
پھر جناب ہاشم نے قریش کے مختلف قبیلوں کو دوتجارتی سفر کے لئے تیّار کیا؛جاڑے میں یمن کی جانب اور گرمی میں شام کی جانب اور یہ طے کیا کہ دولت مند جو فا ئدہ حاصل کرے اسے فقیرپر تقسیم کرے؛ یہاں تک کہ وہ فقرا ء مالداروں کے ہم پلہ ہوگئے۔
یہ صورت حال اسی طرح با قی رہی یہاں تک اسلام کا ظہور ہو گا۔
اس طرح سے عرب میں کوئی قبیلہ ثروت وعزت کے لحاظ سے قریش کا ہم پلہ اور ہم شان نہ ہو سکا کہ ایک شاعر قریش نے کہا:
..............
(١) لسان العرب میں(عفد) کی لفظ کے بارے میں اور تفسیر قرطبی ج٢٠ ، ص ٢٠٤ ملاحظہ ہو.
والخا لطون فقیر ھم بغنّھِمْ حتّیٰ یصیر فقیر ھم کا لکافی
'' فقیر اور دولت مند آپس میں اس طرح مخلوط ہوگئے کہ ان کے فقر اء مالداروں کے مانند بے نیاز ہو گئے''۔
یہ صورت حال حضرت محمد صلّیٰ اﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کے خدا کی طرف سے مبعوث بہ رسالت ہونے تک باقی رہی۔
بلا ذری نے اپنی کتاب انساب الاشراف میں قریش کے ان دونوں تجارتی قافلوں کے جناب ہاشم کے ذریعہ متحرک ہو نے کے بارے میں اس طرح ذکر کیا ہے:
جناب ہاشم بن عبد مناف قریش کے تجارتی سفر کے موجد اور اس کے بانی ہیں اور اس کی داستان اس طرح ہے:
جناب ہاشم نے ابتدا میں قریش کے تجارتی قا فلہ کے روانہ ہو نے کے لئے شام کے بادشاہوں سے امنیت اور حفاظت کی ضمانت لی کہ قریش کے تجّار سالم، محفوظ اور مطمئن رہیں۔
پھر ان کے بھائی '' عبد شمس'' نے حبشہ کے حا کم سے اپنے اُن تاجروں کی حفاظت کی ضمانت جو وہاں جنس لے کر جاتے تھے ، دریافت کی اور '' مطّلب ابن عبد مناف '' نے یمن کے بادشاہ سے اور '' نوفل بن عبد مناف '' نے عراق کے حاکم سے امنیت اور حفاظت کا عہد وپیمان لیا۔
اس طرح سے دوتجارتی سفر میں جاڑے کے موسم میں یمن،حبشہ اور عراق کی طرف اورگرمی کے موسم میں شام کی طرف روانہ ہوتے تھے۔ (١)
خداوند عالم اس سے متعلق سورۂ قریش میں اس طرح فرماتا ہے:
( بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )
(لِِیلاَفِ قُرَیْشٍ ٭ ِیلاَفِہِمْ رِحْلَةَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ ٭ فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہَذَا الْبَیْتِ ٭ الَّذِی َطْعَمَہُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَہُمْ مِنْ خَوْفٍ ٭)
قریش کے انس والفت کی خاطر۔ ان کی الفت جاڑے اور گرمی کے سفر میں. لہٰذا(اس دوستی کے
..............
( ١) انساب الاشراف، بلاذری ، ج١، ص ٥٩.
شکرانہ کے طور پر) اس گھر کے ربّ کی عبادت کریں. وہ جس نے اُنھیں شدید بھوک میں سیر کیا اور انھیں زبر دست خوف سے مامون و محفوظ رکھا ہے۔
عرب عربی معاشرہ اور سماج میں افتخار اور نیک نامی حاصل کرنے کی خاطر مہمانوں کی دیکھ ریکھ،ان کے اکرام اور اطعام(کھانا کھلانے) میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے،خواہ جو مال وہ اس راہ میں خرچ کرتے وہ چاپلوسی، لوٹ کھسوٹ،غصب،ربا،جوے اور اس طرح کی چیزوں سے کیوں نہ حاصل ہوا ہو۔
لیکن جناب ہاشم نے اس مال سے اپنی رضا یت کا اظہار نہیں کیا۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی خواہش تھی کہ انفاق خدا وند سبحان کی خوشنودگی اور رضا کے لئے ہو نا چاہئے اسی لئے وہ خشک سالی اور گرانی کی وجہ سے بھوکوں کو سیر کرتے اور تجارتی قافلوں کو غذا ڈھونے والے قافلوں سے بدل دیتے تھے،مکّہ میں وہی اونٹ جو ان کے تجارتی سامان اور اجناس ڈھوتے تھے انھیں اونٹوں کو نحر کر کے اُن سے مکّہ والوں کے لئے غذا کا بندوبست کرتے تھے۔
اس سے اہم یہ بات ہے کہ انھوں نے اعتفاد کے مسئلہ کو اپنی قوم کے درمیان سے ہمیشہ کے لئے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
اور اس سے بھی اہم یہ بات ہے کہ انھوں نے قریش کے لئے تجارتی قافلے تشکیل دئیے اور آباد اور مملو( جہاں آبادی زیادہ ہو ) جگہوں کی طرف روانہ کیا.
اور چونکہ تجارتی قافلوں کے لئے جزیرة العرب میں حرمت والے مہینوں کے علاوہ روانہ ہونا عرب کے مختلف قبائل کی غارت گری اور لوٹ مار کی وجہ سے ناممکن تھا. (کیو نکہ ان کی عادت ہو چکی تھی کہ ہر مسافر اور مال پر حملہ کریں اور غارت گری اور لوٹ مچائیں). اس لئے جناب ہاشم اور ان کے بھائیوں نے شام، ایران،حبشہ اور ان عربی قبیلوں کے سرداروں سے عہد وپیمان لیا جن کی سرزمین سے قافلے گذرتے تھے۔
اس طرح سے وہ گرمی میں شام اور ایران کی طرف اور جاڑے میں یمن اور افریقا کی جانب تجارتی سفر کر تے ایسی چیز کی اختراع وایجاد عرب اور غیر عرب کی تاریخ میں کبھی نہیں پائی گئی. حتیٰ کہ حاتم جیسے جوانمرد،سخی وجواد انسان نے بھی ایسے کاموں کا اقدام نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اورنے ایسا کیا کہ جس کی سخاوت اس سے کم یا زیادہ رہی ہو۔
جناب ہاشم بن عبد مناف اپنی قوم کے اقتصادی ، معاشی اور اُخروی معاملہ میں اپنے ان کارناموں کی وجہ سے اپنی قوم کے پیشر وشمار ہوتے ہیں۔
ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ خدا وند عالم پیغمبروں کو لوگوں کے معاش اور معاد سے متعلق امور کی ہدایت کے لئے مبعوث کرتا ہے۔
انھوں نے اپنے دور اور اپنے بعد والے دور میں مکّہ والوں کو عرب کے لوگوں میں سب سے زیادہ مال دار بنا دیا۔
|