اسلام کے عقائد(تيسری جلد )
 

( ١٤ )
فترت کے زمانے میں پیغمبر کے بعض اجداد کی خبریں عدنان،
مضر اور دیگر افراد
* الیاس بن مضر.
*کنانہ بن خز یمہ.
*کعب بن لؤی.

مکّہ میں بت پرستی کا عام رواج اور اس کے مقابل
اجداد پیغمبرۖ کا موقف
* قُصیّ
*عبد مناف
*جناب ہاشم
*جناب عبد المطلب
*حضرت اسمٰعیل کے خاندان کا خلاصہ
*پیغمبر اکرم ۖ کے والدجناب عبد اللہ اور جناب ابو طالب.

فترت کے زمانے میں پیغمبر اسلام کے بعض اجداد کے حالات.
''سُبل الھدی'' نامی کتاب میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے کہا:
عدنان،مضر، قیس، عیلان، تیم، اسد، ضبّہ اور خزیمہ کے والد''ادد '' مسلمان تھے اور ان کی رحلت بھی ملت ابراہیم پر ہوئی ہے۔( ١)
ابن سعد کی طبقات میں بھی مذکور ہے کہ پیغمبر خداۖ نے فرما یا:مضر کو بُرا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ مسلمان تھے۔(٢)

الیاس بن مضر بن نزاربن محمد بن عدنان
تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:
''مضر کے فرزندالیاس'' ایک شریف اور نجیب انسان تھے ان کی دوسروں پر فوقیت اور برتری واضح اور آشکا ر ہے.یہ وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اسمٰعیل کی اولا د پر نکتہ چینی کی اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے آباء واجدا کی سنتوں میں تبدیلی کردی تھی .انہوں نے بہت سے نیک افعال انجام دئیے لوگ آپ سے اس درجہ شاد ومسرور تھے کہ اسمٰعیل کے فرزندوں میں''ادد'' کے بعد کسی کے لئے ایسی شادمانی اور مسرت کا اظہار نہیں کیا تھا۔
اُنھوںنے حضرت اسمٰعیل کی اولا د کو اپنے آباء واجداد کی سنت کی مراعات کرنے کی طرف لوٹا یا اس طرح سے کہ تمام سنتیں اپنی پہلی حالت پر واپس آگئیں. وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے موٹے تازے اونٹوں کو خا نہ خدا کی قربانی کے لئے مخصوص کیا اور وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے حضرت ابراہیم کی وفات کے بعد رکن کی بنیاد رکھی؛اسی وجہ سے عرب(الیاس) کو بزرگ اور محترم سمجھتے ہیں... (٣)
..............
(١)سبل الھُدیٰ والرشاد محمد بن یو سف شامی کی تالیف جو ٩٤٢ھ ق میں وفات کر گئے ہیں،طبع دار الکتب،بیروت، ١٤١٤ ھ ق، ص ٢٩١ اور فتح الباری، ج٧، ص١٤٦ بھی ملاحظہ ہو.(٢)طبقات ابن سعد،طبع یورپ، ج١، ص.٣؛اور تاریخ یعقوبی، ج١، ص٢٢٦؛ اور کنزالعمّال، ج١٢، ص٥٩ ،باب الفضائل،چوتھا حصّہ،مضر قبیلہ کے فضائل کے بارے میں حدیث نمبر ٣٣٩٧٨.(٣)تاریخ یعقوبی،ج١،ص ٢٢٧.
ان تمام مطالب کے نقل کے بعد''سبل الھدایٰ'' نامی کتاب میں تحریر فرما تے ہیں:
عرب جس طرح سے لقمان کی عظمت اور بزرگی کے قائل تھے اسی طرح انھیں بھی محترم اور معزز شمار کرتے تھے۔(١)
صاحبان شریعت پیغمبروں کے تمام اوصیاء ان صفات اور خصوصیات کے حامل تھے.اس لحاظ سے ''الیاس'' بھی حضرت ابراہیم کے بعد ان کی حنیفیہ شریعت کے ان کے بعد محافط ونگہبان اوصیاء میں سے شمار کئے جاتے ہیں۔

کنانة بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر
''کنانة'' ایک عالی قدر،بلند مقام،نیک صفت اور با عظمت انسان تھے اور عرب ان کے علم وفضل اور ان کی فو قیت اور برتری کی بناء پر ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
وہ کہا کرتے تھے:مکّہ سے احمد نامی ایک پیغمبر کے ظہور کا وقت آچکا ہے جو لوگوں کو خدا ، نیکی ،جوود بخشش اور مکارم اخلاق کی دعوت دے گا.اس کی پیروی کرو تاکہ تمہاری عظمت وبزرگی میں اضافہ ہو اور اس کے ساتھ عداوت و دشمنی نہ کرنا اور جو کچھ بھی وہ پیش کرے اس کی تکذیب نہ کر نا .کیونکہ جوچیز بھی وہ پیش کرے گا وہ حق ہو گی۔(٢)
''کنانہ'' کی بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے اپنے پہلے والے وصی سے علم دریافت کیا ہے۔

کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانة
انساب الاشراف اور تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے(اور ہم انساب الاشراف کی باتوں کو نقل کررہے ہیں ) :
''کعب '' عرب کے نزدیک بڑی قدر وقیمت اور عظیم منزلت و مرتبہ کے حامل تھے اور ان کے روز وفات کو ان کے احترام میں تاریخ کا مبداء قرار دیا تھا. یہاں تک کہ ''عام الفیل'' آگیاا ور اسے تاریخ مبداء قرار دیا اس کے بعد ''جناب عبد المطلب'' کی موت کو تاریخ کا مبداء قرار دیا۔
..............
(١)سُبُل الھُدیٰ،ج١،ص٢٨٩.
(٢) سیرہ ٔحلبیہ،ج١،ص ١٦؛ اور سبل الھدیٰ،ج١،ص ٢٨٦،میں یہاں تک ہے...تا کہ تمہاری عظمت اور بزرگی میںاضافہ ہو.
کعب حج کے موسم میں لوگوں کے لئے خطبہ پڑھتے اور کہتے تھے:''اے لوگو''! سنو اور سمجھو اور جان لو کہ رات پُر سکون اور خاموش ہے اور دن روشن اور آسما ن کا شامیانہ لگا ہوا ہے اور زمین ہموار و برابر ہے اور ستارے ایسی نشا نیاں ہیں جو بے کا راور لغو پیدا نہیں کئے گئے ہیں کہ تم لوگ اُن سے روگرداں ہو جاؤ. گزشتہ لوگ آیندہ کے مانند ہیں؛اور گھر تمہارے سامنے ہے اور یقین تمہارے گمان کے علا وہ چیز ہے.اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال کرو اور صلہ رحم قائم کرو اور ازداجی رشتوں کو باقی رکھو اور اپنے عہد وپیمان کا پاس ولحاظ کرو اور اپنے اموال کو(تجارت اور معا ملات کے ذریعہ) بار آور اور نفع بخش بناؤ جو کہ تمہاری جوانمردی اور جود و بخشش کی علا مت ہے اور جہاں تم پر انفاق لا زم ہو اُس سے صرف نظر نہ کرو اور اس حرم (خدا کے گھر)کی تعظیم کرو اور اس سے متمسک ہو جاؤ کیونکہ یہ ایک پیغمبرکی مخصوص جگہ ہے اور یہیں سے خاتم الانبیاء اُس دین کے ساتھ جو موسیٰ اور عیسیٰ لائے تھے مبعوث ہو گے پھر اس وقت اس طرح فرماتے تھے:
فترت کے بعد وہ محافظ ونگہبان نبی عالمانہ خبروں کے ساتھ آئے گا .اور یعقوبی کی عبارت میں اس طرح ہے:
اچانک وہ محمد ۖ نبی آجا ئے گا اور سچی اور عالمانہ خبریں دے گا:
پھر کعب کہتے تھے: اے کاش ان کی دعوت اور بعثت کو ہم درک کرتے۔ (١)
سبل الھدیٰ والرشاد نامی کتاب میں بطور خلا صہ اس طرح مذکور ہے:
جمعہ کے دن کو ''عروبة'' کا دن کہتے تھے اور کعب وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس کا نام جمعہ رکھا ہے۔(٢)
پھر اس کے بعد لفظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ انھیں مذکورہ مطا لب کو اُس نے ذکر کیا ہے۔
جو کچھ ''کعب '' کی تعریف میں مورخین نے ذکر کیا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کے بعد'' اوصیائ'' میں سے ایک وصی تھے کعب اور الیاس حضرت ابراہیم کی دعا کے قبول ہو نے کے دو نمایاں مصداق تھے؛ جب انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں اپنی ذریت کے حق میںدعا کی اور کہا : میری اولاد میں اپنے سامنے سراپا تسلیم ہو نے والی امت قرار دے۔
..............
(١)انساب الاشراف، بلاذری، طبع مصر، ١٩٥٩۔ ج١، ص١٦ اور ٤١؛ تاریخ یعقوبی، ج١، ص٢٣٦، طبع بیروت، ١٣٧٩ ھ؛سیرۂ حلبیہ، ج١، ص ٩، ١٥، ١٦؛ سیرۂ نبوےة، حلیبہ کے حا شہ پر، ج١، ص٩.(٢)سبیل الھدیٰ والر شادج١ ،ص٢٧٨.

مکّہ میں بت پرستی کا رواج اور اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کا موقف
گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ ''جر ھم'' قبیلہ نے ''ہاجرہ'' سے ان کے پاس سکونت کرنے کی اجازت مانگی تا کہ آب زمزم سے بہرہ مند ہوں تو ہا جرہ نے بھی انھیں اجازت دے دی۔
پھر سالوں گزرنے کے بعد ان کے فرزند (اسمٰعیل ) ایک مکمّل جوان ہوگئے، تو ''مضاض جرھمی'' کی بیٹی سے شادی کر لی اور اس سے صاحب اولا د ہوئے۔
پھر حضرت اسمٰعیل کی وفات کے بعد ، ان کے فرزند'' ثابت ''مضاض جرھمی کے نواسے نے امور کی باگ ڈور اپنے ہا تھوںمیں لے لی. ان کی وفات کے بعد ،جر ھم مکّہ کے امور پر قابض ہوگئے اور طغیانی اور سر کشی کی اور حق سے منحرف ہوگئے. ''خزاعہ قبیلہ ''نے اُن سے جنگ کی اور ان پر فاتح ہوگئے .(١) اور مکّہ کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی.بیت اﷲ الحرام کی تو لیت کے ذمّہ دار ہوئے اور رفتہ رفتہ اسمٰعیل کی اولا د بھی کوچ کر گئی اور مختلف شہروں میں پھیل گئی جز معدودے چند افراد کے کہ جنھوں نے خانہ خدا کا جوار ترک نہیں کیا۔(٢)
خزاعہ قبیلہ کے سردار سالہا سال تک یکے بعد دیگرے مکّہ کی حکو مت اور بیت اللہ الحرام کی تولیت کے ما لک ہوتے رہے یہاں تک کہ ''عمر وبن لحّی'' کہ جو بڑا مالدار اور کثیر تعداد میں اونٹوں کا مالک تھا اور لوگ اس کے گھر پر کھانا کھا تے تھے جب تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوا ،تو اس کا کا فی اثر و رسوخ تھا اس طرح سے کہ اس کی رفتار وگفتار لوگوں کے لئے قوانین شرعیہ کے مانند لا زم الاجراء مانی جاتی تھی۔ (٣)
شام کے شہروں میں ایک سفر میں عمر وبن لحی نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ بت کی پو جا کر تے ہیں اور جب اُس نے ان کے بارے میں اُن سے سوال کیا تو اسے جواب دیا:
..............
(١)تاریخ ابن کثیر، طبع اوّل، ج٢، ص ، ١٨٤و١٨٥ کو ملاحظہ کریں. (٢)تاریخ یعقوبی ج ١، ص ٢٢٢۔ ٢٣٨.
(٣)تاریخ ابن کثیر، ج٢، ص١٨٧.
یہ وہ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں، ان سے بارش کی درخواست کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں بارش سے نوازتے ہیں اور ان سے نصرت طلب کر تے ہیں وہ ہماری مدد کرتے ہیں۔
عمرو نے اُن سے کہا:
ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی بت ہمیں بھی دو تاکہ اسے اپنے ساتھ سرزمین عرب تک لے جائیں اور وہاں کے لوگ اس کی عبادت کریں؟
انھوں نے ا سے '' ہبل'' نامی بت دے دیا، عمرو اس بت کو لے کر مکّہ آیا اور حکم دیا کہ لوگ اس کو عظیم سمجھتے ہوئے اس کی عبادت کریں اس نے حد یہ کی کہ ان بتوں کو حج کے تلبیہ میں داخل کر دیا اور اس طرح سے کہہ رہا تھا:
( لبیک اللّٰھُمَّ لَبَّےْکَ لاشریک لک،الّا شریک ھو لک تملکہ و ما ملک)
یعنی لبیک خدایا لبیک، تیرا کوئی شریک نہیں ہے جز اُس شریک کے کہ جو تیری ہی طرف سے ہے، وہ اور جو کچھ اس کے پاس ہے تیری بدولت ہے۔
خدا کے شریک سے اس کی مراد بت تھے۔اس سے خدا کی پناہ۔اسی طرح اُس نے حضرت ابراہیم کے حنفیہ آئین کو بدل ڈالا اور خود اس نے دیگر قوانین بنائے۔
''بحیرہ'' اور'' سائبہ'' کے قوانین اسی کے ساختہ اور پرداختہ افعال میں سے ہیں(اسی کے کارناموں میں شمار ہوتے ہیں) بحیرہ وہ اوٹنی ہے کہ جو کچھ حالات کے تحت اس کا دودھ بتوں اور جعلی خداؤں کی خدمت میں پیش کرتے تھے.سائبہ بھی ایک اونٹ ہی تھا کہ اُسے بتوں سے مخصوص کر دیا تھا ا س سے بوجھ ڈھونے اور بار اٹھانے کا کام نہیں لیا جا تا تھا اور اسے کسی کام میں استعمال نہیں کر تے تھے.(١)
اس طرح سے توحید کی سرزمین پر بت پرستی عام ہوگئی. البتہ ان ناپسندیدہ انحرافات کا صرف ھبل پر انحصار نہیں ہے بلکہ ان بتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور انھیں کعبہ کی دیوار پر بھی آویزاں کردیا گیا۔
ان بتوںکی عبادت اور پر ستش مکّہ سے جزیرة العرب کی دیگر آباد سرزمینوں اور مختلف قبائل تک منتقل ہوگئی. وہاں کے لوگوں کے درمیان سے توحید کی علا متیں غائب ہو کرفراموشی کاشکار ہوگئیں اور حضرت ابراہیم کی حنفیہ شریعت میں تحریف واقع ہوگئی۔
پیغمبر اسلامۖ کے اجداد کی سیرت کی تحقیق کے بعد بُت پرستی کے مقابلے میں ان کے موقف اور عکس العمل کو بیان کرہے ہیں۔
..............
(١)تاریخ ابن کثیر،ج٢، ص١٨٧ ۔١٨٩؛ اور اس کا خلا صہ بلا ذری کی انساب الاشراف کی پہلی جلد کے ٢٤ صفحہ پر ملا حظہ ہو.