|
( ١١ )
فترت کا زمانہ
*عصر فترت کے معنی.
*فترت کے زمانے میں ،پیغمبر کے آباء و اجداد کے علا وہ
انبیاء اور اوصیاء .
*حضرت ابراہیم کے وصی حضرت اسمٰعیل کے
پوتوں کے حالات .
*پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کہ جو
لوگ فترت کے زمانے میں تبلیغ پر مامور تھے.
عصر فترت کے معنیٰ
خداوند سبحان سورۂ مائدہ کی ١٩ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
(...قَدْ جَاْء َکُمْ رَسُوْلُنَاْ ےُبےِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُوْ لُوامَاجَاْئَنَا مِنْ بَشِیرٍ وَ لَاْ نَذیرٍ فَقَدْ جَائَ کُمْ بَشِےْر وَنَذیر وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیِٔ قَدِےْر)
... تمہارے پاس ہمارا رسول آیا تاکہ تمہارے لئے ان دینی حقائق کو رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد بیان کر ے،تا کہ یہ نہ کہو کہ ہمارے لئے کوئی بشارت دینے اور ڈارنے والا نہیں آیا بیشک تمہاری طرف بشارت دینے والا،ڈرانے والارسول آیا اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
اور سورۂ یس کی ١ اور ٣ اور ٦ آیات میں ارشاد فر ماتا ہے:
(ےٰس٭وَاْلقُرْآنِ الْحَکِےْمِ٭اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینْ٭...٭لِتُنذِرَ قَوْ ماً مَا أُنذِر آبَاؤُھُمْ فَھُمْ غَاْفِلُونَ)
ےٰس (اے پیغمبروں کے سید وسردار ) قرآن کریم کی قسم کہ تم رسولوں میں سے ہو..... تا کہ ایسی قوموں کو ڈراؤ جن کے آباء واجداد کو ( کسی پیغمبر کے ذریعہ)ڈرایا نہیں گیا ہے،کہ وہ لوگ غافل اور بے خبر ہیں۔
اسی کے مانند سورۂ قصص کی ٢٨ویں آیت اور سورۂ سجدہ کی تیسری آیت اور سورۂ سبا کی ٣٤ویں اور ٤٤ویں آیا ت میں بھی مذکور ہے۔
اور سورۂ شوریٰ کی ٧ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَ کَذلِکَ أَوْ حَےْنَاْ اِلیکَ قُرآناً عَرَبِےّاً لِتُنذِرَ أُمَّ الْقُریٰ وَمَنْ حَوْلَھَاْ...)
اور اسی طرح قرآن کو (گویا اور فصیح) عربی میں ہم نے تم پر وحی کیا تا کہ مکّہ کے رہنے والوں اور اس کے اطراف ونواحی میں رہنے والوں کو انذار کرو(خدا کے عذاب سے ڈراؤ)۔
سورہ ٔسبا کی ٢٨ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَ مَاْاَرسَلْنَاْکَ اِلاَّ کَافَّةًلِلنَّاسِ بَشِےْراً وَ نَذْےَراًوَلکنََّ اَکْثَرَ الَنّاسِ لَاْ ےَعْلَمُوْنَ)
ہم نے تمھیں تمام لو گوں کے لئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے؛ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے نا واقف ہیں۔
کلمات کی تشریح
١۔ فَتْرة:
فترت لغت میں دو محدود زمانوں کے فاصلہ کو کہتے ہیں.اور اسلامی اصطلاح میں زمانہ کا ایسا فاصلہ جو دو بشیر ونذیر رسول کے درمیان واقع ہوتا ہے۔
٢۔ اُمُّ الْقُریٰ:
شہر مکّہ مکرمہ۔
٣۔کا فة :
سب کے سب،سارے کے سارے اور تمام۔
حضرت اما م علی نے ارشاد فرما یا:خدا وند عالم نے رسول اکر م صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبروں کے درمیان زمانے کے فاصلے میں اور اُس وقت مبعوث کیا جب امتیں خواب غفلت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں.اور وہ احکام خدا وندی جو رسولوں کی زبانی محکم اور استوار ہوئے تھے ان کو پامال کررہی تھیں ۔(١)
گزشتہ آیات کی تفسیر
خا تم الا نبیاء حضرت محمد مصطفی صلّیٰ اﷲعلیہ و اٰلہ وسلم پیغمبروں کے درمیان فترت کے زمانے میں نہ کہ انبیاء کے درمیان فترت کے زمانے میں مبعوث بہ رسالت ہوئے۔
..............
(١) شرح نہج البلاغہ، تالیف محمد عبدہ، طبع مطبع الاستقامة مصر، ج ٢، ص ٦٩،خطبہ، ١٥٦ اوراسی سے ملتا جلتا مطلب خطبہ نمبر ١٣١ میں بھی ذکر ہوا ہے.
کیو نکہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بعد کو ئی بشارت دینے والا،انذار کرنے والا(اللہ کے ثواب اور اس کی جز ااور پا داش کی بشارت دینے والا اور گناہ و نا فرمانی کی بناء پرخدا کے عذاب سے ڈرانے والا )کہ جس کے ہمراہ اس کے ربّ کی طرف سے کو ئی آیت یا معجزہ ہو کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا۔
حالت اسی طرح تھی یہاں تک کہ خدا وند عالم نے خاتم ا لانبیاء صلّیٰ ٰ اﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کو بشیر ونذیر بناکر اور قرآنی معجزوں کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ مکّہ اور اس کے اطراف ونواحی میں رہنے والوں کو بالخصوص اور عمومی طور پر دیگر لوگوں کو انذار کر یں۔
اس نکتہ کی طرف تو جہ ضروری ہے کہ پا نچ سو سال سے زیادہ کے طولا نی دور میں انبیا ء اور اوصیاء کا وجود لوگوں سے منقطع نہیں تھا اور خدا وندا عالم نے انسانوں کو اس طولا نی مدت میں آزاد نہیں چھوڑا تھا بلکہ اپنے دین کی تبلیغ کر نے والوں اور حضرت عیسیٰ کی شریعت پر اور ابرا ہیم کے دین حنیف کی تبلیغ کے لئے اوصیاء کو آمادہ کر رکھا تھا کہ ہم انشاء اللہ ان اخبار کو تحقیق کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔
|
|