اسلام کے عقائد(تيسری جلد )
 

آیات کی تفسیر میں قابل توجہ اور اہم مقامات
فرعون بنی اسرا ئیل میں پیدا ہو نے والے نوزاد بچوں کا سر کاٹ دیتا تھا،اس لئے کہ اس سے کہا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کے درمیان ایک بچہ پیداہو گا اس کی اور اس کے قوم کی ہلا کت اس کے ہاتھوں سے ہو گی.خداوندا عالم کی حکمت با لغہ اس بات کی مقتضی ہوئی کہ اُس بچہ کی پرورش کی ذمّہ داری خود فرعون نے لے لی.اورخدا کی مرضی یہی تھی کہ وہ بچہ فرعون کے گھر میں نشو و نما پا ئے یہاں تک کہ بالغ وعا قل ہو کر قوی ہو جا ئے۔
ایک دن موسیٰ نے فرعون کے محل سے قد م باہر نکا لا اور بغیر اس کے کہ کوئی ان کی طرف متو جہ ہو شہر میں داخل ہوگئے.وہاں دیکھا کہ ایک قبطی شخص بنی اسرا ئیل کے ایک شخص سے دست و گریباں ہے اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں. اور چو نکہ وہ قبطی شخص اپنے حریف پر غالب ہو گیا تھا ، لہٰذا اس اسرائیلی نے موسیٰ سے عا جزی کے ساتھ نصرت طلب کی . موسیٰ نے ایک قدم آگے بڑھا یا اور ایک گھونسا اس قطبی کو مار دیا وہ اس مارکے اثر سے زمین پر گر پڑا اور تھوڑی دیر میں دم توڑ دیا۔
فرعونی موسیٰ سے انتقام لینے اور انھیں قتل کرنے پر متحد ہوگئے،اس وجہ سے وہ مجبورا ً ترساں اور گریزاں جبکہ اپنے اطراف سے بہت ہی چو کنا تھے مصر سے قدم با ہر نکا لا اس طرح چلتے رہے یہاں تک کہ مدین آگئے وہاں حضرت شعیب پیغمبر کے اجیر ہوگئے اور ان کے بھیڑ وں کی ٨ سال یا دس سال چرواہی کو اس بات پر قبول کیا کہ حضرت شیعب کی کسی ایک لڑکی سے ازدواج کریں گے.موسیٰ نے دس سال خدمت کی اور اختتام پر حضرت شیعب نے وفاء عہد کے علا وہ وہ عصا بھی انھیں دیا جو پیغمبروں سے انھیں میرا ث کے عنوان سے ملا تھا اور گوسفندوں کی چرواہی کے کام آتا تھا۔(١)
موسیٰ ملازمت اور نوکری کے تمام ہو نے پر اپنی بیوی اور گوسفندوں کے سا تھ سینا نامی صحرا کی طرف متو جہ ہوئے تو تاریک اور سرد رات میں ایک آگ مشا ہدہ کی۔
آپ نے اس آگ کی طرف رخ کیا تا کہ اس سے کچھ آگ حاصل کریں (اور اپنے اہل وعیال کو گرمی پہنچائیں)یا اس آگ کی روشنی میں کوئی ایسا شخص مل جائے جو راستے کی راہنمائی کرے.لیکن جیسے ہی موسیٰ وہاں پہنچے،ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا تھا!
اے موسیٰ! میں ربّ العالمین ہوں(٢) اپنے عصا کو ڈال دو.جب موسیٰ کی نگاہ عصا پر پڑی تو کیا دیکھا کہ جاندار کی طرح حرکت کر رہا ہے توپشت کر کے بھا گے اورمڑ کر اپنے پیچھے نگا ہ بھی نہیں کی۔
خدا نے آواز دی:اے موسیٰ! خوف نہ کرو کہ میں اُسے اس کی پہلی حا لت میں لو ٹا دوں گا.پھر موسیٰ نے اپنا ہا تھ عصا کی طرف بڑ ھا یا نا گاہ دیکھا کہ وہی لکڑی کا عصا ہو گیا ہے جو پہلے تھا.اس کے بعد خدا وندرحمن نے ان سے فرمایا! اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جا ؤ اور نکالو. تمہارا ہاتھ سفید ی سے چمکنے لگے گا.بغیر اس کے کہ اس میں کوئی داغ دھبّہ ہو.پھر اس وقت خداوند سبحان نے اُن سے فرما یا؛یہ دو معجزے نو
..............
(١)یہ بات روایات میں بھی ذکر ہوئی ہے.
(٢) ہم نے اپنے مطالب کو قصص، نمل، اعراف، طہٰ اور شعراء کے سوروں سے جمع کر کے بیان کیا ہے.
آیات اور نشانیوں میں سے ہیں اور ان کے ہمراہ (میری رسالت لے کر) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ.موسیٰ نے کہا ! خدا یا! ہمارے بھا ئی ہارون کو جو کہ ہم سے زیادہ گویا زبان کا مالک ہے ہمارے ہمراہ کر دے.اور خدا نے فرمایا: ہم نے تمہارے بازؤوں کو تمہارے بھائی سے محکم اور مضبوط کر دیا.اب فرعون کی طرف جا ؤ کہ اُس نے سرکشی اور طغیانی کر رکھی ہے.اور اس کے ساتھ نرمی اور ملا طفت سے گفتگو کرنا شا ید وہ نصیحت حا صل کر کے (خدا سے ) ڈرے.اس کے پاس جا کے کہو میں تمہارے ربّ کا پیغمبر ہوں،بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ کر دے اور انھیںاس سے زیا دہ آزار اور اذیت نہ پہنچا ئے۔
موسیٰ کلیم اللہ نے پیغام خدا وندی کو فرعون اور اس کی با رگا ہ میں مقر ب افراد تک پہنچایا. اور خدا وند عالم نے بھی موسیٰ کے ہاتھوں اپنی نو آیات کی نشا ندہی کی.لیکن فرعون نے سب کو جھٹلا یا اور خدا وند سبحان کی اطاعت اور پیروی سے انکار کر تے ہوئے بولا:اے موسیٰ! کیا تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں اپنے سحر اور جا دو سے ہماری سر زمینوں سے با ہر کر دو! ہم بھی تمہارے جیسا سحر اور جادو پیش کرسکتے ہیں.پھر اس نے حکم دیا کہ تمام جا دو گروں کو ان کی عید کے دن حاضر کرو۔
جا دو گروں نے حضرت موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ ! پہلے تم اپنا عصا پھینکو گے یا ہم پھینکیں؟ موسیٰ نے جواب دیا:تم لوگ ہی پہل کرو.جب جا دو گروں نے اپنی رسیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈال دیں،تو ان کا جادو لوگوں کی نگاہوں پر چھا گیا اور انھیںسخت ڈرایا.فرعونی جادو گروں نے ایک عظیم جادو دکھایا. میدان نمائش میں لوگوں کی نظر میں غضبناک اور حملہ آور بل کھا رہے تھے ایسے موقع پر خدا وند عالم نے موسیٰ کو حکم دیا:اپنا عصا زمین پر ڈال دو کہ وہ تن تنہا ہی جو کچھ جا دو گروں نے لوگوں کی نگاہ میں جھوٹ اور خلا ف واقع نما ئش کی ہے سب کو نگل جائے گا۔
موسیٰ نے تعمیل حکم کی اور زمین پر اپنا عصا ڈ ال دیا آپ کا عصا خوفنا ک اور مہیب اژدھے کی شکل میں تبدیل ہو گیا کہ ا س کے ایک ہی حملے میں جادوں گروں کے تما م نقلی اور بناوٹی شعبدے وسیع و عریض میدان میں ایک دم سے نابود ہوگئے.پھر موسیٰ نے اس عظیم اور بھاری بھرکم اژدھے کی طرف اپنا ہا تھ بڑھا یا جس نے تمام رسیوں اور لاٹھیوںکو نگل لیا تھا کہ وہ اژدھا ان کے ہاتھ میں آتے ہی وہی عصا ہو گیا جو پہلے تھا۔
جادو گروں نے درک کرلیا کہ موسیٰ کے عصا کے ذریعہ اتنی ساری لا ٹھیوں اور رسیوں کا ہمیشہ کے لئے نابود ہو نا سحر وجادونہیں ہو سکتا.بلکہ اللہ کے عظیم معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے.اسی وجہ سے سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور بو لے : ہم ربّ العالمین موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے.جب فرعون نے انھیں ایمان لا تے ہوئے دیکھا تو بولا:قبل اس کے کہ میں تمھیں اجازت دوں تم لوگ ایمان لے آئے؟ (اس کام کی سزا میں ) تمہارے ہا تھ پیر مخالف سمت سے کاٹ کر دار پر لٹکا دوں گا.ساحروں نے جواب دیا: کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہم اپنے ربّ کی طرف چلے جائیں گے۔
اس کے بعد فرعون اور فرعونیوں نے مسلسل عذاب خدا وندی جیسے طو فان ،ٹڈیوں کے حملہ، جؤوں ، مینڈکوں اور خون(پانی کے خون ہونے) سے دو چار رہے اور ان میں سے جب کبھی کو ئی عذاب نازل ہوتا تو کہتے : اے موسیٰ! اپنے ربّ سے دعا کرو کہ اگر وہ ہم سے عذاب ہٹا لے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرا ئیل کو بھی یقینا تمہارے ہمراہ کر دیں گے.خدا وند عالم حضرت موسیٰ کی دعا کے ذریعہ(لازمہ تنبیہ کے بعد)بلا کو اُن سے برطرف کر دیتا لیکن فرعونی اپنے عہد وپیمان کو توڑ دیتے.(اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر باقی رہتے)۔
ان واقعات کے بعد خدا نے موسیٰ کو وحی کی کہ ہمارے بندوں کو کوچ کا حکم دو. موسیٰ بنی اسرا ئیل کو لے کر راتوں رات کوچ کر گئے یہاں تک کہ دریائے سرخ تک پہنچے. فرعون اور اس سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ صبح سویرے ان تک پہنچ گئے بنی اسرا ئیل کی فریاد وفغاں بلند ہونے لگی کہ: ہم گرفتار ہوگئے۔
اس وقت خدا نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنا عصا دریا پر ما رو.موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور دریا پر اپنا عصا مارا.دریا شگافتہ ہوگیا اور بنی اسرا ئیل کے قبیلوں کی تعداد کے برابر بارہ خشک راستے نمودار ہوگئے اور ہر قبیلہ اپنی مخصوص سمت کی طرف روانہ ہو گیا اور آگے بڑھ گیا.فرعون اور اس کے سپا ہیوں نے دریا میں پیدا ہوئے خشک راستوں میں ان کا پیچھا کیا.جب بنی اسرا ئیل کی آخری فرد دریا کے اُس سمت سے پار ہوگئی اور فرعون کے سپا ہیوں کی آخری فرد دریائی راستوں میں داخل ہوگئی تو اچا نک پا نی آپس میںمل گیا اور فرعون اور اس کے لشکر کے تمام افراد کو اپنے اندر ڈبو لیا۔
اس حا لت میں کہ فرعون نے کہا :ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرا ئیل کے معبود کے علا وہ کوئی معبود نہیں ہے. اور میں اس کے سامنے سراپا تسلیم ہوں. اُ س سے کہا گیا: ابھی ! چند گھڑی پہلے مخالفت اور نافرمانی کر رہے تھے؟! آج تمہارے( مردہ) جسم کو ساحل تک پہنچا کر باقی رکھیں گے؛تا کہ آیندہ والوں کے لئے عبرت ہو. خدا وند عظیم نے سچ فر مایا ہے،کیو نکہ اس فرعون کا مصا لحہ لگا جسم مصر کے قدیمی تاریخ میو زیم میں دیکھنے والوں کے لئے محل نما ئش بناہوا ہے. میں (مؤلف) نے بھی اُسے نز دیک سے دیکھا ہے۔
جب خدا وند عالم نے بنی اسرا ئیل کو دریا سے عبور کر ایا اور ان کے دشمنوں کو دریا میں غرق کر ڈالا اور سینا نامی صحرا کی طرف آگے بڑھے، تو ایسے لو گوں سے ملا قات ہوئی جو اپنے بتوں کی پو جا کرتے تھے.بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی کوئی خدا بناؤ،جس طرح ان لوگوں کے خدا ہیں.موسیٰ نے فرمایا:تم لوگ بہت جا ہل انسان ہو،ان کا کام باطل اور لغو ہے؛آیا میں تمہارے لئے خدا وند یکتا کے علا وہ جس نے تم کو(تمہارے زمانے میں)عالمین پر منتخب کیا ہے کسی دوسرے خدا کی تلا ش کروں؟! یہ انتخاب جس کی جانب حضرت موسیٰ نے اشارہ کیا ہے اس لحاظ سے تھا کہ خدا وند عالم نے انھیں میں سے ان کے درمیان پیغمبروں کو مبعوث کیا اور انواع واقسام کی نعمتوں جیسے ان کے سر پر بادلوںکا سا یہ فگن ہونے اور آفتاب کی حدت سے بچا ؤ اور من وسلویٰ جیسی غذا سے نوازا تھا۔
ان تمام چیزوں کے با وجود جب خدا نے حکم دیا کہ سجدہ کی حا لت میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے دروازہ سے داخل ہوں اور کہیں:'' حطّہ ''ہمارے سارے گناہوں کو معاف کر دئے تو اس کے برعکس اپنی نشیمن گاہ کو زمین پر گھسیٹتے ''حنطہ '' ( سرخ گیہوں) کہتے ہوئے دا خل ہوئے ۔
اور دریا کے ساحل پر رہنے والوں نے ،کہ ان کے خدا نے سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے سے ممانعت کی تھی.اس وقت جب کہ اُس دن جھنڈ کی جھنڈ مچھلیاں پا نی کی سطح پر ظاہر ہوتی تھیںخدا کی نافرما نی کر تے ہوئے سنیچر کے دن ان کا شکا ر کیا تو خدا نے اُن سے نا راض ہو کر بندروں کی شکل میں انھیںتبدیل کر دیا۔
بنی اسر ائیل کے سینا نامی صحرا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد اس جگہ عظیم انسانی اجتماع کی تشکیل ہوئی،انھیں اپنے اس اجتما ع کے لئے نظا م اور قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی یہی موقع تھا کہ خدا وند عالم نے کوہِ طور کی دا ہنی جا نب اپنے پیغمبر موسیٰ سے وقت مقرر کیا تا کہ تیس شب وروز کے بعد انھیں تو ریت عطا کرے،موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور اپنے ربّ سے مناجات کرنے کے لئے اپنی وعدہ گاہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے بھائی ہا رون کو اپنی قوم کے درمیان جانشینی دی۔
ربُّ العا لمین نے موسیٰ کے ساتھ اپنے وعدہ کی تکمیل مزید دس شبوں کے اضا فہ سے کی اور یہ وعدہ چالیس شب میں تمام ہوا۔
حضرت موسیٰ کی غیبت سے فا ئدہ اُٹھا تے ہوئے سامری نے بنی اسرا ئیل کو فریب دینے اور گمراہ کرنے کی سعی کی.اور اس راہ میںطلائی یعنی سونے کے آ رائشی اسباب سے جوکہ فرعونیوں سے ادھار لی تھیں اُنھیں پگھلا کر اس سے گو سالہ کی شکل کا ایک مجسمہ بنایا.اور اُس مجسمہ کے منھ میں جبرئیل کے گھوڑے کی نعل کی جگہ والی تھوڑی سی خاک رکھ دی جب وہ حضرت موسیٰ پر نازل ہو نے کے وقت انسانی شکل میں گھوڑے پر سوار آئے تھے، اس کے اثر سے مجسمۂ گو سالہ کے منھ سے گوسا لہ کی آواز کی طرح ایک آواز آتی تھی.اس طلائی (سنہرے)گو سالہ کا تنہاامتیاز یہی بانگ اور آوازتھی. سامری کے نفس نے اس کام کو خوبصورت ، جا لب اور جا ذب نظر انداز میں اس کے سامنے پیش کیا اورا سے اس کے انجام دینے کی تشویق دلا ئی .حضرت موسیٰ نے (چالیس شب کے اختتام اور اپنی قوم کی جانب واپس آنے کے بعد) سامری سے کہا: تم تن تنہا بیا با نوں اور جنگلوں کا رخ کرو اگر کسی نے بھی تم سے رابطہ رکھا تو دونوں ہی بخا ر میں مبتلا ہو جاؤ گے؛اور ہمیشہ کہتے رہو گے کہ مجھ کو نہ چھؤو؛ اس کے بعد بھی میں تمھیں قیامت کے دن عذاب خدا وندی کی خبر دے رہا ہوں.اب اپنے اس جعلی اور بناوٹی خدا کو دیکھو جس کی عبادت کرتے تھے کہ اسے ہم آگ میں جلا کر دریا میں ڈ ال دیں گے؛یقینا تمہارا خدا صاحب جلال اور بلند و با لا ہے۔
گوسالہ کے نابود ہو نے اور سامری کے بیابانوں میں فرار کر نے کے بعد بنی اسرا ئیل کا وہ گروہ جو اس کے گو سالہ کی پو جا کر نے لگا تھا،اپنے گناہ پر نادم ہوا وہ لوگ فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوئے تاکہ وہ مومنین جنھوں نے گو سا لہ پر ستی نہیں کی تھی،ان گوسالہ پرستوں کو قتل کریں اور یہی( قتل کرنا) ان کے اس گناہ کی توبہ تھی جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے اور چونکہ انھوں نے یہ سزا قبول کی اور اسے سراپا تسلیم کیا تو خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شفا عت کی بنا ء پر ان کی تو بہ قبول کر لی۔
ان تمام چیزوں کے با وجود،بنی اسرا ئیل نے قبول نہیں کیاکہ موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور جو توریت وہ لے کر آئیں ہیں خد اوند عالم نے انھیں عطا کی ہے.اس وجہ سے ان سے خواہش کی کہ خود گواہ رہیں اور خدا کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں.لہٰذا ان میں سے ستّر افراد کو موسیٰ نے چنا اور ان کے ہمراہ کوہِ طور کی جانب گئے: اس گروہ نے جب خدا کا کلام سنا تو کہا:خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھاؤ؛کہ انھیں زلزلہ نے اپنے احاطہ میں لے لیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے۔
موسیٰ اس بات سے خو فزدہ ہوئے کہ اگر اس واقعہ کی خبر بنی اسرا ئیل کو ہو گئی تو یقین نہیں کریں گے۔
یہ وجہ تھی کہ خدا وند سبحان کے حضور تضرع وزاری کی یہاں تک کہ خدا نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں دوبارہ زندہ کیا۔
اور حضرت موسیٰ نے ان سے فرمایا: اے میری قوم!اُس مقدس اور پاکیزہ سر زمین میں داخل ہو جاؤ جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے معین کی ہے.انھوں نے ان کے جواب میں کہا! اے موسیٰ! وہاں ظلم اور سختی کرنے والے لوگ پا ئے جا تے ہیں اور ہم وہاں کبھی نہیں جائیں گے.مگر اُس وقت جب وہ لوگ وہاں سے باہر نکل جائیں.تم اپنے خدا کے ہمراہ جاؤ اور ان سے جنگ کرو:ہم یہیں بیٹھے منتظر رہیں گے!ان کے نیک افراد میں صرف دولوگ کالب اور یوشع نے ان سے کہا:تم لوگ جیسے ہی شہر کے دروازہ سے اُن کے پاس جاؤ گے کامیاب ہو جاؤ گے.اور موسیٰ نے کہا:خد یا ! میں اپنے اور اپنے بھائی کے علا وہ کسی پر طا قت اور تسلط نہیں رکھتا .تو ہمارے اور اس فا سق قوم کے درمیان جدائی ڈال دے.خدا وند عالم نے بھی فرمایا:ایسی جگہ پر چا لیس سال تک کے لئے ان کا تسلط حرام کر دیا گیا ہے. یہ لوگ اتنی مدت تک جنگلوں اور بیابانوں میں حیران وسرگرداں رہیں گے.تم اس تباہ و برباد قوم کے لئے اپنا دل نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو۔
نتیجہ کے طور پر بنی اسرا ئیل چا لیس سال تک سردی کے ایام میں رات کے وقت ایک گو شہ سے کو چ کرتے تھے اور صبح تک حر کت کر تے رہتے تھے.لیکن صبح کے وقت خود کو وہیں پا تے تھے جہاں سے کوچ کرتے تھے۔
اس حیرانی اور سر گردانی کے زمانے میں سب سے پہلے ہا رون اور اس کے بعد موسیٰ نے دار فانی کو وداع کہا اور موسیٰ کے وصی یوشع نے بنی اسرا ئیل کی رہبری فرمائی، یوشع نے ظالموں اور جابروں سے جو کہ شام کی سر زمینوں میں سا کن تھے جنگ کی اور بنی اسرا ئیل کے ہمراہ وہاں داخل ہوگئے۔
خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شریعت کے اوصیا ء میں سے بہت سے پیغمبروںکو بنی اسرا ئیل کی طرف بھیجا یہاں تک کہ حضرت داؤد اور ان کے بعد حضرت سلیمان کا زمانہ آیا اور ہم انشاء اللہ ان دو پیغمبروں کے حالات بیان کر رہے ہیں۔

چو تھا منظر۔ داؤد اور سلیمان .
خدا وند عالم سورہ ٔص کی ١٧ تا ٢٠ اور ٢٦ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:
(وَاذْ کُرْعَبَدْنَادَا ؤدَ ذَا الأےْدِ نّہ أَوّاب٭ اَنّا سَخَّرْ نَا الْجِبَالَ مَعَہ ےُسَبِّحْنَ با لْعَشِیِّ وَ ا لْاِ شْرَاقِ٭ وَالطَّےْرِ مَحْشُوْرةً کُلّ لَہ أَوَّاب٭ وَ شَدَدْنٰا مُلْکَہ وَآتَےْنٰاہُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابَ٭ ...٭ ےَا دَاؤدَ اِنَّا جَعَلنَاکَ خَلیفةً فِی الأَرضِ فَاحْکُمْ بَےْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ...)
ہمارے بندئہ قوی داؤد کو یاد کرو کہ جو خدا کی طرف بہت زیادہ تو جہ رکھتاتھا.ہم نے ان کے لئے پہاڑوں کو مسخر کیا کہ وہ اس کے ساتھ صبح وشام خدا کی تسبیح کرتے تھے. پرندے بھی ان کے پا س جمع ہو کر ان کے ہم آواز تھے.ہم نے ان کی حکومت اور ان کی فرما نروائی کو مضبوط اور محکم بنا دیا اور انھیں حکمت اور قطعی حکومت عطا کی...اے داؤد! ہم نے تمھیں رو ئے زمین پر اپنا جانشین قرار دیا،لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔
سورہ ٔسبا کی١٠ویں اور ١١ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلاً یَاجِبَالُ َوِّبِی مَعَہُ وَالطَّیْرَ وََلَنَّا لَہُ الْحَدِیدَ ٭ َنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر )
ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا کر کے کہا:اے پہاڑوں!اور اے پرندوں! اس کے ساتھ ہم آواز ہو جاؤ؛اور لوہے کو ان کے لئے نر م کر دیا .اور یہ کہ(تم اے داؤد)کشادہ زرھیں بنا ؤ اور اُن کے حلقوں میں ناپ کی رعا یت کرو اور تم سب لوگ نیک عمل کرو کہ میں تم سب کے اعمال کا دیکھنے والا ہوں۔
سورہ ٔ انبیاء کی ٧٩ اور ٨٠ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَسَخَّرْناَ مَع دَاؤُدَ الجِبالَ ےُسبّحن وَالطَّیرَ وَ کُنَّا فَاعِلینَ٭وَعَلَّمناہُ صَنعةَ لَبُوسٍ لَّکُمْ لِتُحصِنکُم مّن بأ سکُمْ فَھل أَنتُم شَاکِرونَ)
ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کیا تاکہ دائود کے ساتھ ہماری تسبیح کریں اورہم ایسا کام کرتے رہتے ہیں.اور داؤد کو زرہ بنانا سکھایا، تا کہ تمھیں جنگ کی شدت سے محفوظ رکھے، آیا تم ان تمام کا شکر یہ ادا کروگے ؟
سورہ ٔ ص کی ٣٠،٣٥ تا ٣٨ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ وَھَبنَا لِد اوُدَسُلِیمانَ نِعمَ الِعبدُ اِنَّہُ أوّاب٭ ...٭ قَالَ رَبِّ اِغفِرلِی وَھَبَ لِی ملکاً لّا ےَنبغِی لأحدٍ مِّنْ بَعدیِ اِنَّکَ أنتَ الوَھّابُ٭ فَسَخَّرَ نَالَہُ الرّیحَ تَجرِی بِأمرِہ رُخائً حیثُ أَصاب٭ وَالشَّےَاطِینَ کُلَّ بَنّاء ٍ وَ غُوّاصٍ٭ وَ آخرِ ینَ مُقَرَّنین فِی الأصْفادِ)
ہم نے داؤد کو سلیمان نامی فرزند عطا کیا ،وہ ایک اچھا بندہ تھا اور ہماری طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا تھا.سلیمان نے کہا:خد ایا! مجھے بخش دے اور مجھے ایک ایسی با دشاہی اور سلطنت عطا کر کہ کوئی میرے بعد اس کا سزاوار نہ ہو،تو بہت بخشنے والا ہے.
پھر ہوا کو اس کا تابع بنایا کہ آپ کے حکم سے جہاں کا ارادہ کرتے اطمینان کے ساتھ چلتی تھی.اور شیاطین کو بھی تابع بنادیا جو کہ(ان کے لئے ) معمار اور غوّاص تھے. اور دیگر شیا طین کو بھی جو ایک دوسرے کے بغل میں زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے ۔
سورۂ نمل کہ ١٥ تا ٢٤ اور ٢٧ تا ٤٤ویں آیات میںارشادہوتا ہے:
(وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ ٭ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُودُہُ مِنَ الْجِنِّ وَالِْنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوزَعُونَ ٭ حَتَّی ِذَا َتَوْا عَلَی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَة یَاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لاَیَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُہُ وَہُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِنْ قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ َوْزِعْنِی َنْ َشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی َنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وََنْ َعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَ َدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ ٭ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لاََرَی الْہُدْہُدَ َمْ کَانَ مِنْ الْغَائِبِینَ ٭ لَأُعَذِّبَنَّہُ عَذَابًا شَدِیدًا َوْ لَأَذْبَحَنَّہُ َوْ لَیَْتِیَنِیّ بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ٭ فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیدٍ فَقَالَ َحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہِ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبٍَ بِنَبٍَ یَقِینٍ ٭ ِنِّی وَجَدتُّ امْرََةً تَمْلِکُہُمْ وَُوتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَلَہَا عَرْش عَظِیم ٭ وَجَدْتُہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اﷲِ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطَانُ َعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیلِ فَہُمْ لاَیَہْتَدُونَ ٭ َلاَّ یَسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ٭ اﷲُ لاَِلَہَ ِلاَّ ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ٭ قَالَ سَنَنظُرُ َصَدَقْتَ َمْ کُنتَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ٭ اِذْہَب بِکِتَابِی ہَذَا فََلْقِہِ ِلَیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّہَا المَلَُ ِنِّی ُلْقِیَ ِلَیَّ کِتَاب کَرِیم ٭ ِنَّہُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَِنَّہُ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیمِ ٭ َلاَّ تَعْلُوا عَلَیَّ وَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّہَا المَلَُ َفْتُونِی فِی َمْرِی مَا کُنتُ قَاطِعَةً َمْرًا حَتَّی تَشْہَدُونِ ٭ قَالُوا نَحْنُ ُوْلُوا قُوَّةٍ وَُولُوا بَْسٍ شَدِیدٍ وَالَْمْرُ ِلَیْکِ فَانظُرِی مَاذَا تَْمُرِینَ ٭ قَالَتْ ِنَّ الْمُلُوکَ ِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً َفْسَدُوہَا وَجَعَلُوا َعِزَّةَ َہْلِہَا َذِلَّةً وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ٭ وَِنِّی مُرْسِلَة ِلَیْہِمْ بِہَدِیَّةٍ فَنَاظِرَة بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَ سُلَیْمَانَ قَالَ َتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ اﷲُ خَیْر مِمَّا آتَاکُمْ بَلْ َنْتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُونَ ٭ ارْجِعْ ِلَیْہِمْ فَلَنَْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لاَقِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِنْہَا َذِلَّةً وَہُمْ صَاغِرُونَ ٭ قَالَ یَاَیُّہَا المَلَُ َیُّکُمْ یَْتِینِی بِعَرْشِہَا قَبْلَ َنْ یَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَ عِفْریت مِنَ الْجِنِّ َنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ َنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِکَ وَِنِّی عَلَیْہِ لَقَوِیّ َمِین ٭ قَالَ الَّذِی عِنْدَہُ عِلْم مِنْ الْکِتَابِ َنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ َنْ یَرْتَدَّ ِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَآہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہُ قَالَ ہَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِی ََشْکُرُ َمْ َکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَنْ کَفَرَ فَِنَّ رَبِّی غَنِیّ کَرِیم ٭ قَالَ نَکِّرُوا لَہَا عَرْشَہَا نَنظُرْ َتَہْتَدِی َمْ تَکُونُ مِنَ الَّذِینَ لاَیَہْتَدُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَتْ قِیلَ َہَکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کََنَّہُ ہُوَ وَُوتِینَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِینَ ٭ وَصَدَّہَا مَا کَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اﷲِ ِنَّہَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کَافِرِینَ ٭ قِیلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رََتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّةً وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا قَالَ ِنَّہُ صَرْح مُمَرَّد مِنْ قَوَارِیرَ قَالَتْ رَبِّ ِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی وََسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِین )
ہم نے داؤد اور سلیمان کو مخصوص دانش عطا کی.اور ان دونوں نے کہا:اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سارے مومن بندوں پر فوقیت اور بر تری دی.سلیمان نے داؤد کی میراث پائی اور کہا:اے لوگو!ہمیں پرندوں کی زبان سکھا ئی گئی ہے اور ہر چیز سے ہمیں عطا کیا گیا ہے، یقینا یہ برتری آشکار ہے ، سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جن وانس اور پرندے کو جمع کر دیا اور ان کو پرا گندہ ہونے سے روکاجاتا تھا یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کی وادی سے گذر ے! تو ایک چیو نٹی نے کہا:اے چیونٹیوں !اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ تا کہ سلیمان اور ان کے سپا ہی نا دانستہ طور پر تمھیں کچل نہ ڈ الیں سلیمان چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور ہنس کر کہا:خدا یا ! مجھ پر لطف کر تا کہ تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کروں جوتو نے مجھے اور میرے ماںباپ کو عطا کی ہیں. اور وہ عمل صالح انجام دوں جو تیری رضا اور خوشنودی کا باعث ہو اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ ساتھ اپنے نیک بندوں کے زمرہ میں قرار دے.سلیمان نے ایک پرندوے کو غیر حاضر دیکھا،تو کہا:کیا بات ہے کہ ھُدھُد کو نہیں دیکھ رہاہوں؟ کیا وہ غا ئبین میں سے ہے(بغیر عذر کے غا ئب ہو گیا ہے)؟ قسم ہے اسے سخت سزا دوں گا یا اس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ کوئی واضح اور قابل قبول عذر پیش کرے۔
زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی (کہ ھد ھدآگیا اور )بولا: ایک ایسی خبر لا یا ہوں جس سے آپ بے خبر ہیں اور قوم سبأ کی یقینی خبر آپ کے لئے لایا ہوں. میں نے ( سبائیوں ) پر ایک عورت کو حکومت کرتے دیکھا ہے اور اُسے سب کچھ دیا گیا ہے،اس کے پاس ایک عظیم تخت ہے.میں نے دیکھا کہ وہ اور ا س کی قوم خدا کے بجائے سورج کو سجدہ کرتی ہیں.اور شیطان نے ان کے امور کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے اور انھیں راہ حق سے روک دیاہے وہ ہدایت نہیں پا ئیںگے.....
سلیمان نے کہا: عنقریب دیکھوں گا کہ تم نے سچ کہا ہے یا جھوٹ.یہ میرا خط لے جاؤ اور ان کے پاس ڈال دو،پھر واپس آؤ اور دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.(بلقیس نے خط کا دقت سے مطالعہ کیا اور اپنے دربار کے مردوں سے خطاب کر کے) کہا:اے بزرگو ! ایک محترم خط ہماری طرف بھیجا گیا ہے. وہ خط سلیمان کا ہے.اور (اس کا مضمون)اس طرح ہے:بخشش کرنے والے اور مہربان خدا کے نام سے . میرے خلاف طغیانی اور سرکشی نہ کرو اور سراپا تسلیم ہو کر میرے پا س آجاؤ۔
ملکہ نے کہا:اے بزرگو ! میرے معا ملہ میں رائے دو کہ میں تمہارے ہوتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔
(اشراف نے ) کہا:ہم طاقتور اور دلاور ہیں(اس کے باوجود) فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کیا سونچتی ہیں اور کیا حکم دیتی ہیں ۔
ملکہ نے کہا:بادشاہ لوگ جب کسی شہر میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس جگہ کو ویران کر دیتے ہیں اور وہاں کے آبرومندوں کو ذلیل ورسواکر دیتے ہیں کیو نکہ ان کی سیاست کی رسم اسی طرح ہے . میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوںاور (اس بات ) کی منتظر رہوں گی کہ ہمارے بھیجے ہوئے قاصد کس جواب کے ساتھ واپس آتے ہیں۔
جب(ہدیہ)سلیمان کے پاس پہنچا تو کہا: تم لوگ مال کے ذریعہ ہماری نصرت کرو گے؟!جو کچھ خدا نے ہمیں دیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے،جاؤ تم لوگ خود ہی اپنے ھدیہ سے شاد وخرم رہو۔
انکی طرف لوٹ جائو کہ ان کے سر پرایسے سپا ہی لاؤں گا کہ اُن سے مقابلہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں گے اور ذلت وخواری کے ساتھ انھیں ان کے شہر اور علا قے سے نکال باہر کر دیں گے .
(پھر اس وقت سلیمان اپنے اصحاب سے مخاطب ہوئے) اور کہا: اے لوگو! تم میں سے کون ہے جو ان کے سراپا تسلیم ہو نے سے پہلے ہی اس (بلقیس) کا تخت میرے پا س حاضر کردے؟ .(اس اثناء میں)جنوں میں سے ایک دیو نے کہا:میں اسے قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں حاضر کردوں گا(یعنی آدھے دن سے بھی کم میں) اور میںاس کے لانے پر قادر اور امین ہوں ۔
وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا اس نے کہا:میں اُسے پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دوں گا. اور جب (سلیمان نے) اُسے اپنے پاس حاضر پا یا تو کہا:یہ میرے ربّ کا ایک فضل ہے تا کہ ہمیں آزمائے کہ ہم شکر گذار ہوتے ہیں یا نا شکرے.جو شکر گذا ر ہو گا وہ اپنے فائدہ کے لئے شکرکرے گا اور جو نا شکر ی کرے گا اس کی طرف سے میرا ربّ بے نیاز اور کریم ہے ۔
سلیمان نے کہا:اُس کے تخت کو(شکل بدل کر) نا قابل شناخت بنا دو تا کہ دیکھیں کہ اسے پہچانتی ہے یا اس کو پہچا ننے کے لئے کو ئی راہ نہیں ملتی .جب بلقیس آئی(اس سے) کہا گیا کیا تمہارا تخت یہی ہے؟ملکہ نے کہا: گویا وہی ہے ہم اس سے پہلے ہی(سلیمان کی قدرت و شوکت ) سے آگاہ اور سراپا تسلیم تھے.غیر اللہ کی عبادت(آفتاب پرستی) اسے (اسلام قبول کرنے سے)مانع تھی کہ وہ کافر قوموں میں تھی.اس سے کہا گیا:محل میں داخل ہو جاؤ!جب اُس نے دیکھا تو گمان کیا کہ صرف گہرا پا نی ہے لہٰذا اپنی دونوں پنڈلیوں کو کھول دیا۔
سلیمان نے کہا:یہ محل(قصر) صاف وشفاف شیشہ سے بنا یا گیا ہے۔
ملکہ نے کہا: خدا یا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا.(اب ) سلیمان کے ساتھ عالمین کے خدا پر ایمان لا تی ہوں۔
سورہ ٔسبأ کی ١٢ویں تا ١٤ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ غُدُوُّہَا شَہْر وَرَوَاحُہَا شَہْر وََسَلْنَا لَہُ عَیْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِِذْنِ رَبِّہِ وَمَنْ یَزِغْ مِنْہُمْ عَنْ َمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیرِ ٭ یَعْمَلُونَ لَہُ مَا یَشَائُ مِنْ مَحَارِیبَ وَتَمَاثِیلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِیَاتٍ اِعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْرًا وَقَلِیل مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ ٭ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلَی مَوْتِہِ ِلاَّ دَابَّةُ الَرْضِ تَْکُلُ مِنسََتَہُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ َنْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوا فِی الْعَذَابِ الْمُہِین )
ہم نے ہواکو سلیمان کا تا بع بنایا تا کہ (ان کی بساط کو)صبح سے ظہر تک ایک ماہ کی مسافت کے بقدر اور ظہر سے عصر تک ایک ماہ کی مسا فت کے بقدرجا بجا کردے اور پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ اُن کے لئے ہم نے جاری کیا اور ایسے جنات تھے جو اپنے ربّ کے حکم سے ان کے حضور خدمت میں مشغول رہتے اور ان میں جو بھی ہمارے حکم کے خلا ف کرتا تو ہم اسے گرم آگ سے عذاب کرتے ۔
وہ جنات اور دیو سلیمان کے لئے وہ جو چا ہتے بنادیتے تھے جیسے محراب، عبادت گا ہیں،مجسمے، حوض آب جیسے بڑے بڑے پیا لے اور بڑے بڑے دیگ ۔
اب اے آل داؤد! اللہ کاشکر ادا کرو اور میرے بندوں میں کم لوگ شکر گذار ہیں۔
اور جب ہم نے سلیمان کے لئے موت مقرر کی،تودیمکوں کے سوا جو ان کے عصا کو کھا کر خالی کر رہی تھیں(یہاں تک کہ سلیمان زمین پر گر پڑے) کسی کو ان کی موت سے آگا ہی نہیں تھی ۔
اور جب سلیمان زمین پر گر پڑے توجنوں کواُن کی موت سے آگاہی ہو ئی ۔
کہ اگر وہ اسرار غیبی سے آگاہ ہوتے تو دیر تک عذاب اور ذلت وخواری میں پڑ ے نہ رہتے۔

کلمات کی تشریح

١۔ذاالاید:
آد، یئیدُ،ایداً:قوی اور طاقتور ہو گیا.ذاالا ید:قوی اورتوانا۔

٢۔اَوّاب:
آب الیٰ اللّہ: اپنے گناہ سے توبہ کیا اور ایسا شخص آئب اور اوّاب ہے.بحث سے منا سب معنی:جو گناہ سے شرمندہ اور نادم ہو اور خدا کی خوشنودی اور رضا کا طالب ہو۔

٣۔اُوِّبی:
(مونث سے خطا ب) خدا وند عالم کی تسبیح میں اس کے ہماہنگ اور شانہ بشانہ رہو۔

٤۔سابغات:
سبغ الشی سبوغاً:تمام کیا اور کامل کیا.سابغات:استفادہ کے لئے آمادہ اور مکمّل زرہیں۔

٥۔قدِّرْ فی السّرد:
سر د ، زرہ کے حلقوں کے معنی میںہے،(و قدَّر فی السرد)
یعنی حلقے یکساں اورایک جیسے بنائو کہ نہ ڈھیلے ہوں اور نہ کسے ہوئے ہوں اور ایک ناپ کا تےّار کرو۔

٦۔رُخائ: نرمی.

٧۔مقّرنین فی ا لاصفاد:
رسّی یا زنجیر میں آپس میں بندھے ہوئے۔

٨۔محشورةً:
اکٹھا کیا گیا،جمع کیا گیا۔

٩۔ےُوزَعون:
وَزَعَ الْجیْش : الگ الگ صف کے ساتھ منظم ہوئے، پیکار کے لئے آمادہ ہوئے۔

١٠۔ عفریت:
جناتوں میں سب سے قوی ومضبوط اور ان میں سب سے زیادہ تن وتوش والادیو۔

١١۔صَرْحُ مُمَّرَد مِنْ قَوَاْرِیرَ:
الصرح:آراستہ گھر،بلند عمارت،ممَّرد:خوشنما اور عالی شان قصر، کہ جس کا فرش اورسطح آئینہ سے بنا یا گیا ہو۔

١٢۔لُجَّة :
کثیر پا نی،آہستہ آہستہ موجوں کے ساتھ موج مارنے والا حوض ،اس کی جمع لجج آئی ہے۔
١٣۔اَسَلْنَاْ لَہُ عَےْنَ القِطْر:
سال المائع : بہنے والی چیز بہنے لگی، القطر: پگھلا ہوا تانبا،عبارت کے معنی یہ ہیں کہ:اُس پر پگھلا ہوا تا نبا ڈالیں۔
١٤۔ےَزِغْ عَنْ اَمْرِنَا:
زَاْغَ عَنِ الَطّرِیق:
راستہ سے منحرف ہو گیا،آیت کے منا سب معنی یہ ہیں کہ جناتوں میں سے جو بھی سلیمان کے دستورات سے سر پیچی اور مخالفت کرے اسے ہم عذاب دیں گے۔
١٥۔سعیر:
آگ اور اس کا شعلہ۔
١٦۔جَفَانٍ کَالْجَواب:
جفان(جفنہ کی جمع ہے)یعنی کھانے کے بہت بڑے بڑے ظروف اور جواب یعنی بڑا حوض.جفان کالجواب یعنی:کھانے کے ایسے ظروف جن میں بہت زیادہ گنجائش اور وسعت ہوتی ہے۔
١٧۔قُدور راسیات:
قدر راسیة: بہت بڑا دیگ جو بڑے ہو نے کی وجہ سے حمل و نقل کے قابل نہ ہو، الرّاسی: عظیم اور استوار پہاڑ۔
١٨۔دابَّة الارض:
دیمک۔
١٩۔منساة:
عصا(لاٹھی)۔