(١٠)
بنی اسرا ئیل اور ان کے پیغمبروں کی روداد
اور قرآن کریم میں ان کے مخصوص حالات کی تشریح
*حضرت موسیٰ کی ولا دت اور ان کا فرعون
کے ذریعہ اس کی فرزندی میں آنا.
* نہ گا نہ معجزات.
* بنی اسرائیل صحرائے سینا میں.
* داؤد اور سلیمان .
* حضرت زکری اور یحییٰ .
* عیسیٰ بن مریم .
سب سے پہلا منظر۔ حضرت موسیٰ ـکی ولادت اور ان کا فرعون کے فرزند کے عنوان سے قبول ہو نا:
خدا وند عالم سورۂ قصص کی ٧ویں تا ١٣ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:
(وََوْحَیْنَا ِلَی ُمِّ مُوسَی َنْ َرْضِعِیہِ فَِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فََلْقِیہِ فِی الْیَمِّ وَلاَتَخَافِی وَلاَتَحْزَنِی ِنَّا رَادُّوہُ ِلَیْکِ وَجَاعِلُوہُ مِنْ الْمُرْسَلِینَ ٭ فَالْتَقَطَہُ آلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُونَ لَہُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ِنَّ فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَجُنُودَہُمَا کَانُوا خَاطِئِینَ ٭ وَقَالَتِ امْرََةُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَیْنٍ لِی وَلَکَ لاَتَقْتُلُوہُ عَسَی َنْ یَنفَعَنَا َوْ نَتَّخِذَہُ وَلَدًا وَہُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ وََصْبَحَ فُؤَادُ ُمِّ مُوسَی فَارِغًا ِنْ کَادَتْ لَتُبْدِی بِہِ لَوْلاََنْ رَبَطْنَا عَلَی قَلْبِہَا لِتَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَقَالَتْ لُِخْتِہِ قُصِّیہِ فَبَصُرَتْ بِہِ عَنْ جُنُبٍ وَہُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ہَلْ َدُلُّکُمْ عَلَی َہْلِ بَیْتٍ یَکْفُلُونَہُ لَکُمْ وَہُمْ لَہُ نَاصِحُونَ٭ فَرَدَدْنَاہُ ِلَی ُمِّہِ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہَا وَلاَتَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ َنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقّ وَلَکِنَّ َکْثَرَہُمْ لاَیَعْلَمُونَ )
ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ: اسے دودھ پلا ؤ اور جب تمھیں اس کے لئے خوف لا حق ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور خوف نہ کرو اور نہ غمزدہ اور محزون ہو کہ ہم یقینا اُسے تم تک لوٹا دیں گے اور اسے پیغمبروں میں سے قرار دیں گے . آل فرعون نے اسے پا لیا،تا کہ ان کے لئے دشمن اور اندوہ کا سامان ہو. کہ فرعون،ھا مان اور ان کے سپا ہی گنا ھگار میں تھے.فرعون کی بیوی (سفارش کے لئے اٹھی اور ) بو لی یہ بچہ ہمارے اور تمہارے سرور کا باعث اور آنکھوں کا نور ہو گا ،اُسے قتل نہ کرو شاید ہمیں فائدہ پہنچا ئے یا اسے اپنی فرزندی میں لے لیں؛ اوروہ لوگ درک نہیں کر سکے.حضرت موسیٰ کی ماں کا دل(تمام چیزوں سے زیادہ بچہ کی یاد میں ) اس درجہ بیقرار تھا کہ اگر ہم اُس کے دل کو سکون وقرار نہ دیتے تا کہ مو منوں میں ہو تو یقینا اس راز کو فاش کر دیتی۔
اُس نے موسیٰ کی بہن سے کہا:موسیٰ کا پیچھا کرو موسیٰ کی بہن اپنے بھائی کو دور سے دیکھ رہی تھی (لیکن )وہ لوگ جان نہیںسکے . اور دودھ پلا نے والی عورتوں کو پہلے ہی ہم نے اُن پر حرام کر دیا تھا موسیٰ کی بہن نے کہا:کیا میں تمھیں ایک ایسے گھرا نے کی راہنمائی کروں کہ وہ اسے تمہارے لئے محفوظ رکھیں اور اس کے خیرخواہ ہوں ؟ پھر ہم نے اسے اس کی ماں کے پا س لوٹا دیا تاکہ ان کے دیدار سے ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور وہ غمگین اور اداس نہ ہوں اور یہ جان لیں کہ خدا کا وعدہ حق ہے،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے(١)۔
کلمات کی تشریح
١۔ فارغاً :
اپنی جگہ سے اکھڑ گیا،غم واندوہ کی شدت سے خالی ہو گیا۔
٢۔قُصِّیہ:
اس کا پیچھا کرو،تلاش کرو۔
٣۔فبصُرت بہ عن جُنبٍ:
دور سے اس کی نگاہ ان پر پڑی.اُسے دور سے دیکھا اور زیر نظر قرار دیا۔
دوسرا منظر ،نہ گانہ معجزات
سورۂ نمل کی ٧ویں تا ١٢ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
(ِذْ قَالَ مُوسَی لَِہْلِہِ ِنِّی آنَسْتُ نَارًا سَآتِیکُمْ مِنْہَا بِخَبَرٍ َوْ آتِیکُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَہَا نُودِیَ َنْ بُورِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا وَسُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ٭ یَامُوسَی ِنَّہُ َنَا اﷲُ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ٭ وََلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآہَا تَہْتَزُّ کََنَّہَا جَانّ وَلَّی مُدْبِرًا وَلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوسَی لاَتَخَفْ ِنِّی لاَیَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُونَ ٭ ِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوئٍ فَِنِّی غَفُور رَحِیم ٭ وََدْخِلْ یَدَکَ فِی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَائَ مِنْ غَیْرِ سُوئٍ فِی تِسْعِ آیَاتٍ ِلَی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہِ ِنَّہُمْ کَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ )
جب موسی ٰنے اپنے اہل و عیال سے کہا: میں نے ایک آگ دیکھی ہے، عنقریب اس کے بارے میں تمھیں ایک خبر دو گا یا ایسی آگ لاؤں گا کہ اس سے گرم ہو جاؤ۔
..............
(١) نیز سورئہ طہ کی ٣٨ ویں آیت سے ٤٧ ویں آیت تک ملاحظہ ہو.
جب اُس آگ کے قریب آئے توآواز آئی،مبارک ہے وہ خدا جو آگ میں جلوہ نما اور وہ شخص بھی جو اس کے اطراف میں ہے اور پاک وپاکیزہ ہے ربّ العالمین. اے موسیٰ!میں ہوں توانا اورحکیم خدا،اپنے عصا کو ڈال دو موسیٰ نے جب عصا ڈال دیا تو اسے دیکھا کہ ایک عظیم ا لجثہ سانپ کی صورت میں حر کت کرنے لگا،موسیٰ الٹے پاؤںپلٹ پڑے پھر کبھی مڑکر نہیں دیکھا (کہ انھیں خطاب ہوا)اے موسیٰ! نہ ڈرو کہ انبیاء میرے نزدیک نہیں ڈرتے. جز ان کے جنھوں نے ظلم کیا ہے،پھر اسے نیکی میں تبدیل کر ڈالا ہے کہ میں بخشنے والااور مہربان ہوں. اوراپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جاؤ کہ سفید ( چمکدار) اور بغیر نقصان کے باہر نکلے گا(یہ معجزہ) نہ گانہ آیات ( معجزہ )کے ضمن میں ہے(کہ تم ان کے ہمراہ) فرعون اور اس کی قوم کی طرف(بھیجے جاؤ گے)، بے شک وہ لوگ ایک فاسق قوم ہیں۔
سورۂ اعراف کی ١٠٣تا ١٣٥ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِہِمْ مُوسَی بِآیَاتِنَا ِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہِ فَظَلَمُوا بِہَا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ ٭ وَقَالَ مُوسَی یَافِرْعَوْنُ ِنِّی رَسُول مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ٭ حَقِیق عَلَی َنْ لاََقُولَ عَلَی اﷲِ ِلاَّ الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ فََرْسِلْ مَعِیَ بَنی اِسْرَائِیلَ ٭ قَالَ ِنْ کُنتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فَْتِ بِہَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ فََلْقَی عَصَاہُ فَِذَا ہِیَ ثُعْبَان مُبِین ٭ وَنَزَعَ یَدَہُ فَِذَا ہِیَ بَیْضَاء لِلنّٰاظِرینَ ٭ قَالَ الْمَلَُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ِنَّ ہَذَا لَسَاحِر عَلِیم ٭ یُرِیدُ َنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ َرْضِکُمْ فَمَاذَا تَْمُرُونَ ٭ قَالُوا َرْجِہِ وََخَاہُ وََرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ ٭ یَْتُوکَ بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ٭ وَجَائَالسَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا ِنَّ لَنَا لَجْرًا ِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ ٭ قَالَ نَعَمْ وَِنَّکُمْ لَمِنْ الْمُقَرَّبِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِمَّا َنْ تُلْقِیَ وَِمَّا َنْ نَکُونَ نَحْنُ الْمُلْقِینَ ٭ قَالَ َلْقُوا فَلَمَّا َلْقَوْا سَحَرُوا َعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَائُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ ٭ وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی َنْ َلْقِ عَصَاکَ فَِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَْفِکُونَ ٭ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ فَغُلِبُوا ہُنَالِکَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِینَ ٭ وَُلْقِیَ السَّحَرَةُ سَاجِدِینَ٭ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ ٭ رَبِّ مُوسَی وَہَارُونَ ٭ قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُمْ بِہِ قَبْلَ َنْ آذَنَ لَکُمْ ِنَّ ہَذَا لَمَکْر مَکَرْتُمُوہُ فِی الْمَدِینَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْہَا َہْلَہَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ٭ لُقَطِّعَنَّ َیْدِیَکُمْ وََرْجُلَکُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لُصَلِّبَنَّکُمْ َجْمَعِینَ ٭ قَالُوا ِنَّا ِلَی رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ ٭ وَمَا تَنقِمُ مِنَّا ِلاَّ َنْ آمَنَّا بِآیَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَائَتْنَا رَبَّنَا َفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ ٭ وَقَالَ الْمَلُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ َتَذَرُ مُوسَی وَقَوْمَہُ لِیُفْسِدُوا فِی الَرْضِ وَیَذَرَکَ وَآلِہَتَکَ قَالَ سَنُقَتِّلُ َبْنَائَہُمْ وَنَسْتَحْیِ نِسَائَہُمْ وَِنَّا فَوْقَہُمْ قَاہِرُونَ ٭ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اسْتَعِینُوا بِاﷲِ وَاصْبِرُوا ِنَّ الَرْضَ لِلَّہِ یُورِثُہَا مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ٭ قَالُوا ُوذِینَا مِنْ قَبْلِ َنْ تَْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ َنْ یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ٭ وَلَقَدْ َخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِینَ وَنَقْصٍ مِنْ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ٭ فَِذَا جَائَتْہُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا ہٰذِہِ وَِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَة یَطَّیَّرُوا بِمُوسَی وَمَنْ مَعَہُ َلاَِنَّمَا طَائِرُہُمْ عِنْدَ اﷲِ وَلَکِنَّ َکْثَرَہُمْ لاَیَعْلَمُونَ ٭ وَقَالُوا مَہْمَا تَْتِنَا بِہِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِہَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ٭ فََرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آیَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَکْبَرُوا وَکَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِین٭ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْہِمُ الرِّجْزُ قَالُوا یَامُوسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِی ِسْرَائِیلَ ٭ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمْ الرِّجْزَ ِلَی َجَلٍ ہُمْ بَالِغُوہُ ِذَا ہُمْ یَنکُثُونَ )
پھرجب اُن کے بعد موسیٰ کو اپنی آیات کے ساتھ فرعون اور اس کے اشراف کی طرف بھیجاتو،انھوں نے آیات کا انکار کیا.غور کرو کہ تباہ کاروں کا کیا انجام ہوا .موسیٰ نے کہا : اے فرعون!میں اپنے رب العالمن کا فرستادہ ہوں.سزاوار یہ ہے کہ خدا سے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہوں،تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ لا یا ہوں،لہٰذا بنی اسرائیل کو ہمارے ہمراہ روانہ کر دو.فرعون نے کہا اگر سچے ہو اور اگر کوئی معجزہ لائے ہو تو ہمیں دکھاؤ.پھر موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا پس وہ اژدہا دکھائی دینے لگا. اور ہاتھ اپنے گریبان سے باہر نکا لا ناگاہ دیکھنے والوں کے لئے سفید اور چمکدار تھا. قوم فرعون کے بزرگوں نے فرعون سے کہا: یہ ایک ماہر جادو گر ہے کہ وہ تمھیں تمہاری سرزمینوں سے باہر نکا لنا چاہتا ہے.تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو؟.(موسیٰ کے معاملے میں) فرعون نے قوم سے مشورہ کے بعد، کہا:اُسے اور اُس کے بھائی کو روک لو اور شہروں میں افراد کو روانہ کرو تاکہ ماہر جادو گروں کو تمہارے پا س لے آئیں. جادو گر فرعون کے پاس آئے اور بو لے: اگر ہم غالب ہوگئے تو یقینا کوئی اجرت لیں گے. فرعون نے کہا: بالکل تم لوگ ہمارے مقر بین میں ہو گے، جادوگروں نے کہا: اے موسیٰ!یاتم پہلے اپنا عصا ڈالو یا ہم اپنی رسّیاں ڈ التے ہیں. موسیٰ نے کہا:تم ہی پہل کرواور جب انھوں نے اپنی رسّیاںڈال دیں تو لوگوں کی نگاہوں پر جادو کر دیا اور انھیں دہشت زدہ بنا دیا. اور عظیم جادو پیش کیا. ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ تم بھی اپنا عصا ڈال دو اور (وہ اژدہا) جو کچھ انھوں نے پیش کیا تھا ایک سانس میںنگل گیا.حق آشکار ہوا اور جو کچھ انھوںنے انجام دیا وہ باطل اور بے کار ہو گیا۔
اس میدان میں شکست کھائی اور رسوا ہو کر واپس ہوگئے. سارے جادو گر سجدہ میں گر پڑے. اور انھوں نے کہا: ہم رب العالمین پر ایمان لا تے ہیں. موسیٰ اور ہارون کے رب پر.فرعون نے کہا:قبل اس کے کہ ہم تمھیں اجازت دیں تم لوگ اُس پر ایمان لے آئے؟! یہ ایک فریب اور دھوکہ ہے جو تم نے شہر میں کیا ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرو.عنقریب جان لو گے.تمہاے ہاتھ اور پاؤں ایک دوسرے کے بر عکس انداز میں قطع کروں گا اور اُس وقت سب کو ایک ساتھ دار پر لٹکا دوں گا. انھوں نے کہا: اُس وقت ہم اپنے خدا کی طرف لوٹ جائیں گے. تمہارا غیض و غضب ہم پر اس لئے ہے کہ ہم صرف اپنے ربّ کی نشا نیوں پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف آئی ہے؛خدا یا! ہمیں صبر عطا کر اور ہمیں مسلمان ہو نے کی صورت میں موت دینا.قوم فرعون کے بزرگوں نے کہا:کیا موسیٰ اور ان کے ماننے والوں کوآزاد چھوڑ دو گے تا کہ وہ اس سرزمین پر تباہی مچائیں اور تمھیں اور تمہارے خدا کو ترک کر دیں؟ فرعون نے کہا! عنقریب ان کے سارے فرزندوں(بیٹوں) کو قتل کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیں گے،ہم اُن پر مسلط ہیں.موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: خدا سے مددمانگو اور صبر کا مظاہرہ کرو کیو نکہ زمین خدا کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہے گا اس کے حوالے کر دے گا اور نیک انجام پر ہیز گاروں کے لئے ہے۔
انھوں نے کہا: ہم تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اورتمہارے آنے کے بعد بھی ستائے گئے؛ کہا! امید ہے کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے.اور تمھیں اس سرزمین پر (ان کا )جانشین قرار دے گا اور پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کر تے ہو؟ ہم نے فرعون کو قحط سالی اور پھلوں کی کمی (دنوں) سے دوچار کیا شاید نصیحت حاصل کریں. جب رفاہ وآسائش نے ان کا رخ کیا تو وہ کہتے تھے! یہ ہماری خاطر ہے اور جب انھیں ناگوار حالات پیش آتے تو کہتے تھے یہ موسیٰ اور ان کے ماننے والوںکی بد شگونی ہے ۔
جان لو کہ ان کا فال بد خدا کے پاس ہے(یعنی جو اُن پر مشکلات اور غم و اندوہ پڑتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں)لیکن اُن میں اکثر لوگ نہیں جانتے. (فرعونیوں نے موسیٰ سے) کہا: تم جتنا بھی ہمارے لئے معجزہ یا آیت پیش کرکے ہم پر جادو کر دو کبھی ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے. پھر طوفان، ٹڈی،جوں، مینڈک اور خون (پانی کا خون ہو نا) جو کہ ایک دوسرے سے الگ اور روشن و آشکار معجزے تھے ہم نے ان پر نازل کیا ،لیکن انھوں نے اکڑ اور انکار سے کام لیا اور وہ نابکار قوم تھے۔
جب اُ ن پر عذاب نازل ہوا ، بولے:اے موسیٰ! اپنے ربّ کو اُس پیمان کے ساتھ آواز دو جو تم سے کیا ہے اگر اس عذاب کو ہم سے اٹھا لے تو یقینا ہم تم پر ایمان لے آئیںگے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں گے. پھر جب ہم نے عذاب کو ایک مدت تک اٹھالیا تو پھر عہد شکنی کے مرتکب ہوگئے۔(١)
سورۂ شعراء کی ٥٧ویںتا ٦٦ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
(فََخْرَجْنَاہُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ٭ وَکُنُوزٍ وَمَقَامٍ کَرِیمٍ ٭ کَذَلِکَ وََوْرَثْنَاہَا بَنِی ِسْرَائِیلَ ٭ فََتْبَعُوہُمْ مُشْرِقِینَ ٭ فَلَمَّا تَرَائَ الْجَمْعَانِ قَالَ َصْحَابُ مُوسَی ِنَّا لَمُدْرَکُونَ ٭ قَالَ کَلاَّ ِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَہْدِینِ ٭ فََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی َنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ ٭ وََزْلَفْنَا ثَمَّ الآخَرِینَ ٭ وََنْجَیْنَا مُوسَی وَمَنْ مَعَہُ َجْمَعِینَ ٭ ثُمَّ َغْرَقْنَا الآخَرِینَ ٭ )ْ
ہم نے انھیں (فرعونیوں) کو باغوں اور بہتے چشموں سے باہر نکال د یا.اور عالیشان محلوں اور خزانوں سے انھیں محروم کر دیا. واقعہ ایسا ہی تھا اور سب کچھ بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا. فرعونیوں نے طلوع آفتاب کے وقت بنی اسرائیل کا پیچھا کیا. جب دونوں گروہ نے ایک دوسرے کو دیکھا،تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا! ہم گرفتار ہو جائیں گے.موسیٰ نے کہا: کبھی نہیں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے وہ ہماری ہدایت کر ے گا. موسیٰ کو وحی ہوئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو؛دریا شگافتہ ہوا اور اس کا ہر ایک حصّہ ایک بڑے پہاڑ کے مانند ہو گیا. دوسروں کو(فرعونیوں کو بنی اسرائیل کے پیچھے) دریا میں لائے. اور موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو نجات دی.اس وقت دوسروں کو غرق کر ڈالا۔
اور سورۂ یونس کی ٩٠ تا ٩٢ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔
(وَجَاوَزْنَا بِبَنِی ِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فََتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُہُ بَغْیًا وَعَدْوًا حَتَّی ِذَا َدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ َنَّہُ لاَِلَہَ ِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو ِسْرَائِیلَ وََنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ٭ آلآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِینَ ٭ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً وَِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ٭ )
..............
١۔اور سورۂ انبیاء کی ١٠٠سے ١٠٤ آیات تک اور سورہ ٔ شعرأ کی آیت ١٠سے ٥٥ آیات تک اور سورۂ طہ ٩سے ٢٤ آیات تک ملاحظہ کریں.
بنی اسرائیل کو ہم نے دریا سے پار کیا، فرعون اور اس کے سپاہیوں نے اُن سے دشمنی اور ستم کی خاطر ان کا پیچھا کیا،یہاں تک کہ جب اس کے غرق ہونے کا وقت آیا تو کہا: ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرائیل کے خدا کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں. اور میں سراپا تسلیم ہونے والوں میںہوں.(اُس سے ڈوبنے کی حالت میں خطاب ہوا) اب ایمان لا تے ہو جبکہ اُس سے پہلے نافرمانی کر کے مفسدوں میں تھے؟. آج تمہارے بد ن کوبدن کو بچا لیتے ہیں،تا کہ اُن کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے عبرت اور ایک نشانی ہو،جبکہ بہت سارے لوگ ہماری آیات اور نشانیوں سے سخت غافل و بے خبر ہیں۔
تیسرا منظر؛ بنی اسرائیل سینا نامی صحرا میں اور حضرت موسیٰ ا ور ان کے بعد کے زمانے میں ان کی طغیانی و سرکشی.
خدا وند متعال سورۂ اعراف کی ١٣٨تا ١٤٠ اور ١٦٠تا ١٦٤ اور ١٦٦ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
(وَجَاوَزْنَا بِبَنِی ِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فََتَوْا عَلَی قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلَی َصْنَامٍ لَہُمْ قَالُوا یَامُوسَی اجْعَل لَنَا ِلٰہاً کَمَا لَہُمْ آلِہَة قَالَ ِنَّکُمْ قَوْم تَجْہَلُونَ ٭ ِنَّ ہَؤُلَائِ مُتَبَّر مَا ہُمْ فِیہِ وَبَاطِل مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ قَالَ َغَیْرَ اﷲِ َبْغِیکُمْ ِلٰھاَ وَہُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ ٭... ٭َوَقَطَّعْنَاہُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذِ اسْتَسْقَاہُ قَوْمُہُ َنِ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَہُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْہِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْہِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ ٭ وَِذْ قِیلَ لَہُمْ اسْکُنُوا ہَذِہِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ ٭ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ فََرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ٭ وَاسَْلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِی کَانَتْ حَاضِرةَ الْبَحْرِ ِذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ ِذْ تَْتِیہِمْ حِیتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا وَیَوْمَ لاَیَسْبِتُونَ لاَتَْتِیہِمْ کَذَلِکَ نَبْلُوہُمْ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ٭ وَِذْ قَالَتْ ُمَّة مِنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اﷲُ مُہْلِکُہُمْ َوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً ِلَی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ َنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوئِ وََخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ٭ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُہُوا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِین)
ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا تو وہ لوگ ایک ایسی قوم کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں کی پرستش اور عبادت کر تی تھی بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک خدا قرار دو جس طرح سے ان کا خدا ہے موسیٰ نے کہا! یقینا تم لو گ نادان اور جاہل قوم ہو ان بت پرستوں کے خدا نابود ہونے والے ہیںاور ان کے اعمال باطل ہیں، (موسیٰ نے) کہا! آیا خداوند یکتا کے علاوہ تمہارے لئے کسی دوسرے خدا کی تلاش کر وں جب کہ خدا وند عالم نے تمھیں سارے عالم پر فوقیت اور بر تری عطا کی ہے؟!...(اور) ان کو ان کے بارہ قبیلے اور امت میں تقسیم کیا اور جب ان کی قوم نے موسیٰ سے پانی کا تقاضا کیا، تو ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنے عصا کو اس پتھر پر مارو، (جب انھوں نے مارا) تو بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور ہرقبیلے نے اپنے پانی کی جگہ جان لی اور بادل کو ان پر سائبان قرار دیاا ور ان پر من وسلویٰ نازل کیا ، پاکیزہ اشیاء سے جو ہم نے تمہارے لئے رزق قرار دیا ہے کھاؤ ،انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور جس وقت ان سے کہا گیا کہ اس گاؤں میں سکونت اختیا ر کرو اور اس میں جہاں سے چاہو کھاؤ اور کہو حطّہ یعنی ہمارے گنا ہوں کو ختم کر دے اور سجدہ اور خضوع کی حالت میں دروازہ سے داخل ہوتا کہ ہم تمہارے گنا ہوں کو معاف کر دیں،عنقریب ہم نیکوکاروں کے اجر میں اضا فہ کردیں گے، ان ظا لموں نے اس بتائے گئے سخن کو اس کے علا وہ باتوں میں تبدیل کر ڈالا اور (نتیجہ کے طور پر) اس ظلم وستم کی بناء پر جو انھوں نے روا رکھا تھا ان پر آسمان سے ہم نے عذاب نازل کیا. یہودیوں سے سوال کرو اُ س شہر کے بارے میں جو دریا کے کنارے واقع تھا کہ وہاں کے لوگوں نے سنیچر کے دن تجاوز کیا اور اس کی حرمت کی حفاظت نہیں کی ان کی مچھلیاں سنیچر کے دن آشکار طور پر آتی تھیں لیکن سنیچر کے علا وہ دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح سے ان کی بربادی اور تباہی کی سزا کے ذریعہ ہم نے انھیں آزما یا...
جب ان لو گوں نے جس چیز سے منع کیا گیا تھا سر پیچی اور مخالفت کی . تو ہم نے ان سے کہا بندر کی شکل میں ہو جاؤ اور ہماری رحمت سے دور اور محرو م ہو جاؤ۔
سورۂ طہ کی٨٠ تا ٩٨ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
(یَابَنِی ِسْرَائِیلَ قَدْ َنجَیْنَاکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ وَوَاعَدْنَاکُمْ جَانِبَ الطُّورِالَیْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی ٭ کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَلاَتَطْغَوْا فِیہِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبِی وَمَنْ یَحْلِلْ عَلَیْہِ غَضَبِی فَقَدْ ہَوَی ٭ وَِنِّی لَغَفَّار لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدَی ٭ وَمَا َعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یَامُوسَی ٭ قَالَ ہُمْ ُولاَئِ عَلَی َثَرِی وَعَجِلْتُ ِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضَی ٭ قَالَ فَِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ بَعْدِکَ وََضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ ٭ فَرَجَعَ مُوسَی ِلَی قَوْمِہِ غَضْبَانَ َسِفًا قَالَ یَاقَوْمِ َلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا َفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَہْدُ َمْ َرَدْتُمْ َنْ یَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَب مِنْ رَبِّکُمْ فََخْلَفْتُمْ مَوْعِدِی ٭ قَالُوا مَا َخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَلَکِنَّا حُمِّلْنَا َوْزَارًا مِنْ زِینَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاہَا فَکَذَلِکَ َلْقَی السَّامِرِیُّ٭ فََخْرَجَ لَہُمْ عِجْلاً جَسَدًا لَہُ خُوَار فَقَالُوا ہَذَا ِلٰہُکُمْ وَِلٰہُ مُوسَی فَنَسِیَ ٭ َفَلاَیَرَوْنَ َلاَّ یَرْجِعُ ِلَیْہِمْ قَوْلاً وَلاَیَمْلِکُ لَہُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا ٭ وَلَقَدْ قَالَ لَہُمْ ہَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَاقَوْمِ ِنَّمَا فُتِنتُمْ بِہِ وَِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰانُ فَاتَّبِعُونِی وََطِیعُوا َمْرِی ٭ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیْہِ عَاکِفِینَ حَتَّی یَرْجِعَ ِلَیْنَا مُوسَی ٭ قَالَ یَاہَارُونُ مَا مَنَعَکَ ِذْ رََیْتَہُمْ ضَلُّوا ٭ َلاَّ تَتَّبِعَنِ َفَعَصَیْتَ َمْرِی ٭ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لاَتَْخُذْ بِلِحْیَتِی وَلاَبِرَْسِی ِنِّی خَشِیتُ َنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِی ِسْرَائِیلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِی ٭ قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یَاسَامِرِیُّ ٭ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوا بِہِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ َثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُہَا وَکَذَلِکَ سَوَّلَتْ لِی نَفْسِی ٭ قَالَ فَاذْہَبْ فَِنَّ لَکَ فِی الْحَیَاةِ َنْ تَقُولَ لاَمِسَاسَ وَِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَتُخْلَفَہُ وَانظُرْ ِلَی ِلٰہِکَ الَّذِی ظَلَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّہُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّہُ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ٭ ِنَّمَا ِلٰہُکُمُ اﷲُ الَّذِی لاَِلٰہَ ِلاَّ ہُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا )
اے بنی اسرائیل! ہم نے تمھیں تمہارے دشمن فرعون سے نجات دی اور طُور کے داہنے جانب کا تم سے وعدہ کیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا . پاکیزہ چیزوں میں جو ہم نے تمہارے لئے بعنوان رزق معین کیا ہے کھاؤ اور اس میں طغیانی اور سر کشی نہ کرو ورنہ تم پر ہمارا غضب ٹوٹ پڑے گااور جو میرے غیض و غضب کا مستحق ہو گا یقینا ذلیل و خوار اور ہلاک ہو جا ئے گا. بیشک میں بخشنے والا ہوں ہر اُس شخص کو جو توبہ کر ے اور ایمان لائے اور پسندیدہ کام انجام دے اور ہدا یت پا ئے۔
اے موسیٰ ! کس چیز نے تم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تم اپنی قوم پر سبقت لے جاؤ؟. جواب دیا ! وہ لوگ ہمارے پیچھے ہی ہیں، میں نے تیری سمت جلدی کی تاکہ تو راضی اور خوشنود ہو جائے. کہا: میں نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمایا لیکن سامری نے انھیں گمراہ کردیا. موسیٰ غضب ناک اور افسوسناک حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور کہا: اے میری قوم! کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا . آیا ہماری غیبت تمہارے لئے طو لا نی ہو گئی تھی، یا تم لو گ اس بات کے خواہشمند تھے کہ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر غضب نازل ہو لہٰذا تم نے ہمارے وعدہ کی خلا ف ورزی کی؟
انھوں نے جواب دیا ہم نے اپنے اختیا ر سے تمہارے وعدہ کے خلا ف نہیں کیا ہے . ہمارے پا س فرعونیوں کے آرائش کے وزنی آلات موجود تھے جس کو ہم نے آگ میں ڈال دیا اور ( فتنہ انگیز) سامری نے بھی اسی طرح اپنے زیورات ڈال دیئے.پھر اس نے ان کے لئے ایک گوسالہ کا مجسمہ بنایا، جو گوسالہ کی آواز رکھتا تھا ؛ انھوں نے کہا:تمہارااور موسیٰ کا خدا یہ ہے جس کو (موسیٰ) نے فراموش کر دیا ہے. آیا( یہ گوسالہ پو جنے والے) غور نہیں کر تے کہ (گوسالہ ) ان کا جواب نہیں دیتا ہے اور ان کے لئے کوئی نفع و نقصان نہیں رکھتا ہے؟!. ہارون نے پہلے ہی ان سے کہا تھا کہ اے میری قوم! تم لوگ اس گوسالہ کے سلسلہ میں فتنہ میں مبتلا ہو چکے ہو، تمہارا ربّ خدا وند رحمن ہے. میری پیروی کرو اورمیرے اطاعت گزار رہو.انھوںنے کہا ! ہم اس کی اسی طرح عبادت کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس نہیں آجا تے. موسیٰ نے (جب واپس آئے تو عتاب آمیز انداز میں ہا رون سے ) کہا: ہارون ! جب تم نے دیکھا کہ گمراہ ہو رہے ہیں، تو کون سی چیز مانع ہوئی کہ تم میرے پا س نہیں آئے؟. کیوں میرے حکم کی مخالفت کی ؟. کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری ڈارھی اور بال نہ پکڑو، میں ڈرا تھا کہ تم کہو گے کہ بنی اسرائیل کے درمیان تفرقہ ڈال دیا ہے اور میرے دستور کی رعایت نہیں کی ہے۔
موسیٰ نے کہا: اے سامری! یہ کون سا عمل ہے( جو تم نے انجام دیا ہے ) ؟. اُس نے کہا: میں نے وہ کچھ دیکھا جو انھوںنے نہیںدیکھاہے، پھر میں نے نمائندۂ حق (جبرئیل )کے نشان قد م کی ایک مشت خاک لی.اور اسے میں نے ( گوسالہ کے اندر ) ڈال دی، میری دلی آرزو نے مجھے اس کام پر آمادہ کیا.موسیٰ نے کہا! جاؤ! تم کو زندگی میں ہر ایک سے یہی کہنا ہے کہ مجھے چھونا نہیں . اور تم سے (آخرت میں) ایک وعدہ ہے جو کبھی بر خلا ف نہیں ہوگا اور اپنے خدا کے بارے میں غور کرو جس کی عبادت کو جاری رکھا ہے اسے جلا ڈالوں گا اور( اس کی خاک) دریا میں چھڑک دوں گا. یقینا تمہارا خدا وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
سورۂ بقرہ کی ٥١ اور ٥٤ تا ٥٧ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
( وَِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی َرْبَعِینَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہِ وََنْتُمْ ظَالِمُونَ ٭ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَِذْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ٭ وَِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَاقَوْمِ ِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ َنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمْ الْعِجْلَ فَتُوبُوا ِلَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا َنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْر لَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ ِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ وَِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اﷲَجَہْرَةً فََخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وََنْتُمْ تَنظُرُونَ ٭ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ ٭ )
اور اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چا لیس شب کا وعدہ کیا،پھر( تم لو گ اس کی غیبت میں) گو سالہ کی پو جا کر نے لگے اور تم ظالم و ستمگر ہو پھر اس کے بعدہم نے تم کو بخش دیا ؛ شاید کہ تم لوگ(اس نعمت کا شکریہ ) بجا لاؤ. نیز اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور ( حق و باطل کے )درمیان تشخیص کا وسیلہ دیا .اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم لوگوں نے گوسالہ پرستی کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، لہٰذا اپنے خدا کی طرف لوٹ آؤ اور اپنی جہالت کی سزا کے عنوان سے ایک دوسرے کو قتل کر نے کیلئے تیغ کھینچو کہ اسی میں تمہارے خد ا کے نزدیک تمہاری بھلائی ہے. اس خدا نے تمہاری توبہ قبول کی کہ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے.اور اس وقت کو یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ! ہم تم پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے مگر اس وقت جب تک خدا کو اپنی نگا ہوں سے آشکار طور سے نہ دیکھ لیں ، پھر تم صاعقہ کی زد میں آگئے جب کہ تم لوگ دیکھ رہے تھے. اور ہم نے بادل کو تمہارے سر پر سائبا ن قرار دیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا؛ جو ہم نے تمھیں پاک وپاکیزہ رزق دیا ہے (اُسے) کھاؤ. انھوں نے (اس نعمت کا شکر ادا نہیں کیا) انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پرستم کیاہے۔
سورۂ اعراف کی ١٥٥ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے.
(واختار موسیٰ قومہُ سبعینَ رجُلاً لمیقاتنا فلمّا أَخَذَتْھُمُ الرَّجفةُ قال ربِّ لو شئت أ ھلَکتَھُم مِنْ قَبْلُ وَاےّا أتُھلِکُنا بما فَعَلَ السُّفھائُ منّا ان ھَیَ ا لّا فتنتُک...)
موسیٰ نے اپنی قوم سے ستّر آدمیوں کو ہماری وعدہ گاہ کے لئے انتخاب کیا اور جب( دیدار خدا کے تقاضے کے جرم میں) ایک جھٹکے اور زلزلے نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تو( موسیٰ نے اس حال میں)کہا! خدا یا ! اگر تو چاہتا تو، مجھے اور انھیں پہلے ہی موت دے دیتا، کیا ان احمقوں کے کرتوت کی بناء پر ہمیں بھی نابود کر دئے گا؟! یہ صرف تیرا امتحان اور آزمایش ہے۔
سورۂ بقرہ کی ٦١ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
( وَِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نَصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَرْضُ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَْرْضُ مِنْ بَقْلِہَا وَقِثَّائِہَا وَفُومِہَا وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا قَالَ َتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِی ہُوَ َدْنَی بِالَّذِی ہُوَ خَیْر اِہْبِطُوا مِصْرًا فَِنَّ لَکُمْ مَا سََلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ وَبَائُوا بِغَضَبٍ مِنَ اﷲِ ذَلِکَ بَِنَّہُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اﷲِ وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُون )
اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم کبھی ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کریں گے، لہٰذا اپنے ربّ سے ہمارے لئے مطالبہ کرو کہ جو کچھ زمین سے پیدا ہوتی ہے جیسے سبزی، کھیرا ،لہسن، مسور کی دال اور پیاز ہمارے لئے پیدا کرے. موسیٰ نے کہا: آیا تم چاہتے ہو کہ جو چیز گھٹیا اور معمولی ہے اس کو بہترا ور گراں قیمت شئی سے معاوضہ کرو؟تو کسی شہر میں آجاؤ کہ وہاں تمہاری خواہش کے مطابق سب کچھ موجو د ہے. ان کے لئے ذلت ورسوائی یقینی ہوگئی اور اللہ کے غیظ و غضب کا نشانہ بن گئے، کیو نکہ انھوں نے مخالفت و نافرمانی کی اور ظلم و تعدی کی بناء پر آیات خدا وندی کے منکر ہوئے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔
سورۂ مائدہ کی ٢٠ تا٢٦ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اﷲِ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ٭ یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ اﷲُ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیہَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَہَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْہَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْہَا فَِنَّا دَاخِلُونَ ٭ قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمَا ادْخُلُوا عَلَیْہِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوہُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اﷲِ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَہَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیہَا فَاذْہَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ ٭ قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ قَالَ فَِنَّہَا مُحَرَّمَة عَلَیْہِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیہُونَ فِی الَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ )
جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم :اپنے اوپر نازل ہو نے والی خدا کی نعمت کو یاد کرو،کیو نکہ اُس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو قرار دیا اور تمھیں آزاد ( اور بادشاہ بنایا) اور تمھیں ایسی چیزیں عطا کیں جو کسی کو نہیں دی ہیں. اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤجسے خدا نے تمہارے لئے معین اور مقرر فر مائی ہے اور پیچھے واپس نہ آنا( خدا کے حکم کی خلا ف ورزی نہ کرنا) ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے. انھوں نے کہا اے موسیٰ! وہاں پر ظالم و ستمگر قوم ہے لہٰذا وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، پھر اگر وہ نکل جائیںتو ہم یقیناً ہو جائیں گے دو خدا ترس مرد جو کہ مشمول ِ نعمت ِخداوندی تھے، انھوں نے ان سے کہا تم لوگ ان پر دروازے سے وارد ہو اگر ایسا کرو گے توکامیابی تمہارے قدم چومے گی . خدا پر بھروسہ رکھو اگر صاحب ایمان ہو.کہنے لگے: اے موسیٰ وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں،تم اور تمہارا رب وہاں جا ئے اور ان سے جنگ کرے، ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، موسیٰ نے کہا، پروردگارا! میں فقط اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، تو ہمارے اور اس فاسق قوم( جو حکم نہیں مانتی) کے درمیان جدائی کر دے. خدا نے فرمایا!( اس شہر میں ان کا داخل ہو نا) چالیس سال تک کے لئے حرام ہے اور بیابان میں سر گرداں پھرتے رہیں گے تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو۔
سورۂ قصص کی ٧٦ویں تا ٨١ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
( ِنَّ قَارُونَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَی فَبَغَی عَلَیْہِمْ وَآتَیْنَاہُ مِنْ الْکُنُوزِ مَا ِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوئُ بِالْعُصْبَةِ ُولِی الْقُوَّةِ ِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لاَتَفْرَحْ ِنَّ اﷲَ لاَیُحِبُّ الْفَرِحِینَ ٭ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ اﷲُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَتَنسَ نَصِیبَکَ مِنْ الدُّنْیَا وََحْسِنْ کَمَا َحْسَنَ اﷲُ ِلَیْکَ وَلاَتَبْغِ الْفَسَادَ فِی الَرْضِ ِنَّ اﷲَ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ٭ قَالَ ِنَّمَا ُوتِیتُہُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی َوَلَمْ یَعْلَمْ َنَّ اﷲَ قَدْ َہْلَکَ مِنْ قَبْلِہِ مِنْ القُرُونِ مَنْ ہُوَ َشَدُّ مِنْہُ قُوَّةً وََکْثَرُ جَمْعًا وَلاَیُسَْلُ عَنْ ذُنُوبِہِمْ الْمُجْرِمُونَ ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِہِ فِی زِینَتِہِ قَالَ الَّذِینَ یُرِیدُونَ الْحَیَاةَ الدُّنیَا یَالَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَا ُوتِیَ قَارُونُ ِنَّہُ لَذُو حَظٍّ عَظِیمٍ ٭ وَقَالَ الَّذِینَ ُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اﷲِ خَیْر لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلاَیُلَقَّاہَا ِلاَّ الصَّابِرُونَ ٭ فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الَرْضَ فَمَا کَانَ لَہُ مِنْ فِئَةٍ یَنصُرُونَہُ مِنْ دُونِ اﷲِ وَمَا کَانَ مِنَ المُنْتَصِرِینَ ٭ )
قارون موسیٰ کی قوم سے تعلق رکھتا تھا کہ اس نے ان پر تجاوز کیا. ہم نے اُسے اس درجہ خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیوں کا قوی ہیکل اور مضبوط جماعت کے لئے بھی اٹھا نا زحمت کا باعث تھا۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا:تکبر نہ کرو کیو نکہ خدا تکبر کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے اس سے دار آخرت کا انتظام کر اور دنیا سے جو تیرا حصّہ ہے اس کو بھول نہ جا اور جس طرح خداوند سبحان نے تجھ پر نیکی کی ہے تو بھی دوسروں کے ساتھ نیکی کر اور حسن سلوک سے پیش آ اور فساد اور تبا ہی مچا نے والوں میں سے نہ ہوجا کیو نکہ خدا فساد کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. قارون نے کہا: یہ مال و دولت میری دانش کی وجہ سے ہے . کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ خدا وند عالم نے اس سے صدیوں پہلے ان لوگوں کو جو اس سے قوی اور مالدار ترین لوگ تھے ہلاک کردیا ہے اور گنا ہگار لوگ اپنے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کئے جائیں گے؟ (قارون) اپنی آرایش اور زیبائش کے ساتھ اپنی قوم کے پاس باہر نکلا۔
جو لوگ دنیا طلب تھے انھوں نے کہا:! اے کاش ہم بھی قارون کی طرح دولت کے مالک ہوتے یہ تو بڑے عظیم حصّہ کا مالک ہے. جو لوگ اہل علم اور دانش تھے انھوں نے کہا! تم پر وائے ہو ! خدا وند سبحان کا ثواب ان لوگوں کے لئے ہے بہتر ہے جو ایمان لا کر نیکو کار بنے ہیںاور ایسا ثواب صابروں کے علاوہ کسی کو نہیں ملتا. پھر ہم نے اسے(قارون )اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا اور اُس کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں تھا جو خدا کے مقابلے میں اس کی نصرت کر تا اور خود بھی اپنی مدد نہیں کرسکا۔
کلمات کی تشریح
١۔ جیبک، جیب:
گریبان، چاک پیراہن۔
٢۔ مَلائہ ، الملائُ :
قوم کے بزرگ اور اکا بر لوگ،کبھی جماعت پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور اشراف سے اختصاص نہیں رکھتا۔
٣۔ ارجہ ، اَرْج الامر:
اُسے تاخیر میں ڈال دیا۔
ارجہ واخاہُ ،اُ س کا اور اُس کے بھائی کا کام تاخیر میں ڈال دو۔
٤۔ حاشرین:
حشر؛اکٹھا ہو نا،جمع ہو نا۔
حاشرین :
جمع ہوئے تاکہ جا دو گروں کو اکٹھا کریں۔
٥۔ تلقف، لقف الطعام:
غذا نگل گیا ،غذا حلق کے نیچے لے گیا۔
٦۔یأ فکون، اَفک یافکُ:
بہتان اور افتراء پر دازی کی. یا فکون،بر خلاف حقیقت پیش کرنا۔
٧۔صَا غرین، صاغر:
ذلیل وخوار۔
٨۔ مِن خلا فٍ، قطع الایدی و الارجلَ من خلافٍ :
یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں قطع کرنا اوریا اُس کے بر عکس۔
٩۔افرغ ،
افرغ اللہ الصبر علی القلوب:
خدا نے دلوں میں صبر ڈال دیا، ان پر صبر نازل کیا.ان میں صبر کی قوت دی۔
١٠۔ سنین :
سنہ کی جمع سنین ہے جو خشک اور بے آب و گیاہ اور سخت سالوں کے معنی میں ہے۔
١١۔ یطےّروا، تطّیر:
بد شگونی کی،بد فالی کی،طائر یہاں پر ان کی شومی(نحوست) اور ان کے خیر و شر کے معنی میں ہے .یعنی یہ سارے امور خود ان سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔
١٢۔طوفان:
اتنی شدید بارش کہ لوگوں کو اپنے دائرہ میں لے لے۔
١٣۔ جراد :
ٹڈی ،مراد یہ ہے کہ ٹڈی نے جتنی گھاس اور اُگنے والی چیز تھی سب کو کھا کر نابود کر دیا۔
١٤۔ القَمّل:
اس کے معنی کے بارے میں کہا ہے : ایک موذی اور نہایت چھوٹا حشرہ یعنی کیڑا ہے جیسے گیہوں کا گھن اور اونٹ کی کیڑی اور حیوان کی جوں یا کلنی وغیرہ ۔
١٥۔رجز: عذاب
١٦- ینکثون:
اپنے عہد وپیمان کو توڑ ڈالتے ہیں۔
١٧۔ طود:
آسمان کو چھوتے ہوئے عظیم پہاڑ ۔
١٨۔ ازلفنا:
ہم نے قریب کر دیا، یعنی : فرعون اور فرعونیوں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے زیا دہ سے زیادہ نزدیک کر دیا تا کہ انھیں دیکھیں اور ان کا تعاقب (پیچھا) کریں اور یکبار گی سب غرق ہو جائیں۔
١٩۔ متبّر، تبَّرہ :
اسے قتل کر دیا ، ہلاک کر ڈالا. متبّر: ہلاک شدہ مقتول۔
٢٠۔ اسباطاً :
اسباط: قبائل اورہروہ قبیلہ جس کے افراد کی تشکیل ایک مرد کی نسل سے ہوئی ہو۔
٢١۔ اِنْبََجَستْ :
منفجر ہو گئی، پھٹ گئی، ایک دوسرے سے جدا ہو گئی۔
٢٢۔ من و سلویٰ:
من کی تفسیر کی ہے کہ وہ صمغیٰ (ترنجبین ) تھا جامد شہد کے مانند جو آسما ن سے نازل ہوتا تھا اور جب وہ درخت یا پتھرپر بیٹھتا ہے تو ٹکیہ کے مانند ہو جا تا ہے. سلویٰ بھی ایک مہا جر اور دریائی پرندہ کا نام ہے جسے سمان، کہتے ہیں( بٹیر ) ۔
٢٣۔حطّة :
حَطَّ اللہ وزرہ ، خدا نے اس کے گناہ معاف کردئیے۔
قولوا حِطّة:
یعنی کہو خدا یا! ہمارے گناہوںاور ہمارے بُرے ا عمال کو نیست ونابود کر دے۔
٢٤۔ یعدون:
ستم کرتے ہیں۔
٢٥۔ بقلھا وقثاّئھا وفو مِھا :
بقلھا: وہ اچھی اور پاکیزہ سبزیاں جو بغیر کسی تبدیلی کے کھائی جا تی ہیں، القثّائ! کھیر ا یا ککڑی، فُومھا: گہیوں یا روٹی یا لہسن۔
٢٦۔ لا تأس علیٰ القوم:
ان کے لئے غمگین اور محزون نہ ہو۔
٢٧۔عتوا:
تکبر کیا،حد سے آگے بڑھ گئے ۔
٢٨۔شُرّعاً :
پا نی پر ظا ہر اور رواں۔
٢٩ ۔خاسئین:
ذلیل وخوار اور مردود افراد۔
.٣ ۔خُوار، خار الثور والعجل خواراً:
یعنی گائے اور گو سالہ نے آواز نکالی۔
٣١۔ لا مَساسَ :مسّہ و ماسّہ:
لمس کیا،کسی چیزپربغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے ہا تھ پھیرا۔
آیت شریفہ میں لا مساس یعنی مجھے لمس نہ کرو.(مجھے نہ چھوؤ)
٣٢۔ یعکفون اور عاکفین:
عکف فی المکان :کسی جگہ پر ٹھہرا ، و عکف فی المسجد:یعنی مسجد میں معتکف ہوا(اعتکاف کے لئے قیام کیا)۔
یعنی مسجد میں ایک مدت تک عبادت کے قصد سے قیام کیا۔
٣٣۔ نبذتُھا :
اُسے پھینک دیا.ڈال دیا۔
٣٤۔ سوّلت لی نفسی:
میرے نفس نے مجھے دھو کہ دیا اور اس کام کو میرے لئے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔
٣٥۔ ننسفنَّہ:
نسفت الریح التراب: یعنی ہوا نے خاک کو اڑا ڈالا اور پرا گندہ کردیا،بکھر گیا اور یہاں پر اس معنی میں ہے کہ اس کے ذرّات کودریا میں ڈا ل دوں گا۔
٣٦۔ فتنُک:
تیرا امتحان۔
٣٧ ۔ مسکنة :
فقر، بے چا ر گی،ضعف اور نا توانی۔
٣٨ ۔ لَن نبرح:
گو سالہ کی پر ستش سے ہم کنارہ کشی نہیں کر یں گے(باز نہیں آئیں گے) اور ہا تھ نہیں کھینچے گے۔
٣٩۔ لم ترقب:
محفوظ نہیں رکھا، اس کی نگہدا شت نہیں کی۔
.٤۔ خطبُک: تمہارا حال،تمہاری موقعیت۔
|