کلمات کی تشریح
١۔ حنیفا ً:
حنیف!ایسے مخلص انسان کو کہتے ہیں جو خدا کے اوامر کے سامنے سراپا تسلیم ہواور کسی مورد میں بھی اس سے رو گرداں نہ ہو،وہ شخص جو گمرا ہی کے مقابل راہ راست کو اہمیت دیتا ہو۔
حنف:
گمرا ہی سے راہ راست کی طرف ما ئل ہو نا۔
جنف:راہ ِ راست سے گمرا ہی کی طرف ما ئل ہو نا۔
٢۔راغ :
راغ ؛ رخ کیا، متو جہ ہوا ۔
٣۔ یز فّون:
زفّ؛جلدی کی، یزفّون جلد ی کر تے ہیں۔
٤۔ اُفّ :
نفرت اور بیزاری کا تر جما ن ایک کلمہ ہے۔
٥۔ جذاذا ً: جذَّہ ؛اُسے توڑ ا اور ٹکڑ ے ٹکڑ ے کر دیا۔
٦۔ بُھِت:
بھت الرجل؛ حیرت زدہ ہو گیا،ششدر ہو گیا،دلیل وبرہان کے سامنے متحیر وپر یشان ہو گیا۔
٧۔ بوّانا:
بوّاہ منز لا ً؛اُ سے نیچے لا یا. بوّأ المنزل :اس کے لئے ایک جگہ فراہم کی۔
٨۔ ضا مر:
ضمر الجمل . لا غرو کمزور اور کم گو شت اور کم ہڈ ی والا ہو گیا. ضا مر یعنی لا غڑ اونٹ۔
٩۔ فجّ عمیق
الفجّ؛وسیع اور کشادہ راستہ۔
١٠۔ مثا بہ :
المثا ب والمثا بة: گھر،پناہ گاہ۔
١١۔ تلّہ:
اُسے منھ کے بل لٹا یا۔
١٢۔ قا نتا ً :
قنت للّٰہِ ؛ اُس نے فرما نبرداری کی اور خدا وند عالم کی طولا نی مدّت تک عبادت کی۔
١٣۔ اوّاہ :
الاوّاہ:ثرت سے دعا کر نے والا،رحیم ، مہر بان اور دل کا نازک اور کمزور۔
١٤۔ منیب :
بہت زیادہ توبہ کر نے والا۔
ناب الیہ :
بارھا اس کی با رگاہ کی طرف رخ کیا . ناب الی اللہ: تو بہ کیااور خدا کی طرف متو جہ ہوا۔
١٥۔ صرّة: الصّرة: چیخ پکار۔
١٦۔ فصّکت:
صکّت، یہ پر یعنی تعجب اور حیرت سے اپنے چہرے پر طما نچہ ما را۔
١٧ ۔ نافلة:
زیادہ، اضافہ۔
منجملہ وہ معانی جو اس بحث کے لئے منا سب ہیں وہ یہ ہیں: حد سے زیادہ نیکی ،جس کو پسند کیا ہو ، فرزند اور فرزند کی اولا د چو نکہ فرزند پر اضا فہ ہے۔
١٨۔ اسرا ئیل:
اسرائیل حضرت یعقو ب پیغمبر کا لقب تھا اسی لئے حضرت یعقو ب کی اولا د کو بنی اسرا ئیل کہتے ہیں(١)
..............
(١) ۔ قاموس کتاب مقدّس: لفظ اسرائیل۔
گزشتہ آیات کی تفسیر میں قا بل تو جہ مقا مات ( موارد) اور حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی سرگذشت کا ایک منظراور عقا ئد اسلام پیش کرنے میں انبیا ء علیہم السلام کا طریقہ
پہلا منظر، ابرا ہیم اور مشر کین:
حضرت ابرا ہیم کی جائے پیدائش با بل میں خدا وند وحدہ لا شریک کی عبادت کے بجائے تین قسم کی درج ذیل پرستش ہوتی تھی:
(١) ستاروں کی پرستش (٢) بتوں کی پرستش (٣) زمانے کے طاغوت (نمرود) کی پرستش۔
حضرت ابرا ہیم نے مشر کین سے احتجاج میں صرف عقلی د لا ئل پر اکتفا ء نہیں کیا (ایسا کام جسے علم کلام کے دانشوروں نے فلسفہ یونانی کی کتابوں کے تراجم نشر ہونے کے بعد، دوسری صدی ہجری سے آج تک انجام دیا ہے اور دیتے ہیں) اور آپ نے اپنے د لائل میں ممکن الوجود، واجب الوجود اور ممتنع الوجود جیسی بحثوں پر تا کید نہیں کی بلکہ صرف حسی د لا ئل جو ملموس اور معقول ہیں ان پر اعتماد کیا ہے جن کو ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں،تو جہ کیجئے:
١ ۔ ابرا ہیم اور ستارہ پر ست افراد :
ابرا ہیم خلیل اللہ نے ستارہ پر ستوں سے اپنے احتجاج میں آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھایا.سب سے پہلے اُن سے فرما یا: تم لو گ تو پُر نور اشیاء کو اپنا رب تصور کر تے ہو، چا ند تو ان سے بھی زیادہ روشن اور نورا نی ہے لہٰذا یہ میرا پروردگا ر ہو گا ؟!
یہ تدریجی اور طبیعی و محسوس اور معقول بات ہے اور یہی امر زینہ بہ زینہ یہاں تک منتہی ہوتا ہے کہ ان کے اذہان چاند سے سورج کی طرف متو جہ ہوجا تے ہیں.اور ابرا ہیم فر ما تے ہیں: یہ میرا ربّ ہے یہ تو سب سے بز رگ اور سب سے زیا دہ نو را نی ہے ؟! خورشید( سورج ) کی بزرگی اور نورانیت سورج کے ڈوبنے اور اس کے نور کے ز ائل ہو نے کے بعد ستا رہ پرستوں کے اذ ھا ن کو اس بات کی طرف متو جہ کر تی ہے کہ ز ائل و فنا ہو نے وا لی چیز لا ئق عبادت نہیں ہے. یہاں پر ابرا ہیم فرماتے ہیں:
( اِنّی بَرِیٔ مِمّٰا تُشرِ کُون٭اِ نّی وَجّھْتُ وَ جْھِیَ لِلََّذی فَطرَ السِّمٰواتِ وَ الْاَرْضِ...)
اے گروہ مشر کین! میں اُس چیز سے جسے تم خدا کا شر یک قرار دیتے ہو بیزار ہوں .میں نے تو خالص ایمان کے ساتھ اس خدا کی طرف رخ کیا ہے جو زمین وآسما ن کا خالق ہے ۔
٢۔ابرا ہیم بت پر ستوں کے ساتھ:
بُت پرست بتوں کو پکا ر تے تھے اور اُن سے بارش کی درخواست کرتے تھے اور خود سے دشمنوں کو دور کرنے کے بارے میں اُن سے شفا عت اور نصرت طلب کرتے تھے اور ان کی جانب رخ کر کے پوشیدہ اور خفیہ دونوں طر یقوں سے اپنی حا جتوں کو طلب کر تے تھے !
یہاں اُن بتوں کی بے چا رگی اور ناتوانی ظاہر کر نے کے لئے وہ بھی بت پرستوں کے یقین و اعتقادات میں، ان بتوں کو توڑنے سے بہتر کو ئی دلیل نہیں تھی اور ان کے اعتقادات کا مذا ق اڑ انے کے سوا کوئی چا رہ نہیں تھا۔
تو حید کا علمبردار اسی را ستہ کو اپنا ئے ہوئے آگے بڑ ھا اور نہا یت غور وخوض کے سا تھ بتوں کو توڑ ڈا لا اور انھیں ٹکڑ ے ٹکڑے کر ڈ الا اور آخر میںاپنی کلہاڑی کو بڑے بت کی گردن میں لٹکا دیا!
جب بت پر ست اپنے عید کے مرا سم سے لو ٹے اور بتو کو ٹو ٹا پھو ٹا اوربکھرا ہوا پایا تو ایک دوسرے سے سوال کیا کہ:کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے؟ سب بو لے ! ہم نے ایک نو جو ان کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ان کا مذا ق اڑا تا ہے. اور اُسے ابرا ہیم کہتے ہیں!
سب نے کہا :
(فَأتُوا بِہ عَلیٰ اَعےُن النَّاسِ لَعلّھمْ ےَشْھَدُون)
لوگو کے سا منے اور جما عت کے حضور اُ سے حا ضر کیا جا ئے تا کہ سب اس کا م سے متعلق گوا ہی دیں.اور جب ا براہیم کو حا ضر کیا گیا اور اُن سے پو چھا گیا۔
( أ أنْتَ فعَلتَ ھَذا بآ لِھَتنا ےَااِبرا ھیم٭ قا لَ بَلْ فَعَلَہُ کبیرُ ھُمْ ھذا فاسئلوھُم اِنْ کَانُوا ےَنطِقُون)
اے ابراہیم آیا تم نے ہمارے خدا ؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے؟ ابرا ہیم نے مقام احتجاج میں کہا: بلکہ ایسا ان کے بڑے نے کیا ہے.تم لو گ ان بتوں سے سوال کر و، اگر بو لتے ہیں تو۔
ابرا ہیم کی دلیل نہایت قا طع اور روشن دلیل تھی کامیاب ہوگئی .مشر کین اپنے آپ میں ڈوب گئے (دم بخود ہوگئے ) اور اپنے آپ سے کہنے لگے:
(انکم انتم الظالمون)
تم لو گ خود ظالم ہو نہ ابرا ہیم کہ جس نے بتوں کو توڑا ہے.
پھر انھوں نے سر جھکا لیا اور لا جواب ہوگئے، وہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ بت جواب نہیں دیں گے۔وہ لوگ حضرت ابرا ہیم کی دلیل کے مقا بلے میں عا جز ہوگئے اس لحا ظ سے کہ بت اپنے دفاع کرنے سے عا جز اور بے بس ہیں، چہ جائیکہ لو گوں کو نفع پہنچا ئیں؟
( فَمَاکَانَ جَوابَ قَومِہ اِلَّا أنْ قَالوا اقتلُوہُ أَ وْ حَرِّ قوہ)...(وَ قَا لُو ا ابنوُا لہُ بنُیا نا ً فَأَ لْقُو ہُ فِی الجَحِیم)
لہٰذا (ابرا ہیم کی ان تمام نصیحتوں اور مواعظ کے بعد ) ان کی قوم نے صرف یہ کہا:اسے قتل کر ڈ الو یا آگ میں جلا ڈ الو، اس کے علاوہ انھوں نے کوئی جواب نہیںدیا...قوم نے (ان کی حجت اور برہان کو سنی ان سنی کردیا ...) اور کہا : اس کے لئے کوئی آتش خا نہ بنانا چاہئیے اور اسے آگ میں جلا دینا چاہئے اور سب نے کہا:
(حَرِّ قُو ہُ و اْنْصُر واْ آلِھتکم اِن کُنتُم فَاعِلین ٭قُلنَا ےَا نَارُ کُونِی بَرداً وَ سَلاماً عَلٰی اِبرٰاھیم٭ وَ اردوا بِہ کیدا ً فجَعلنَاھُمُ الْا َٔخَسِرین)
اسے جلا ڈالو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو اگر( خداؤں کی رضا یت میں ) کچھ کر نا چا ہتے ہو،اس قوم نے عظیم اور زبردست آگ روشن کی اور اس میں ابرا ہیم کو ڈا ل دیا.ہم نے خطا ب کیا کہ : اے آگ! ابراہیم کے لئے سرد وسلا مت ہو جا۔ وہ لوگ ان سے مکر وحیلہ اور کینہ وکدورت کر نے لگے تو ہم نے ان کے مکرو حیلے کو با طل کر دیا اور انھیں نقصان میں ڈال دیا ۔
٣۔ ابرا ہیم اور ان کے زمانے کے طا غوت.
ابرا ہیم نے اپنے زمانے کے طا غوت نمرود ( جس کی حکو مت کا دائرہ نہایت وسیع تھا)اور ربوبیت کا ادّعا کر تے ہوئے احتجا ج کیا. خدا وند عالم نے فر ما یا:
(أَ لَمْ تَرَ اِلیَٰ اَلّذی حَا جَّ ا برا ھیمَ فِی رَبِّہ أنْ آتاہُ اَللّٰہ ُاَلمُلکَ)
کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جسے خدا وند عالم نے ملک دیا تھا ، اُس نے ابرا ہیم سے پروردگار کے بارے میں احتجا ج کیا۔
جیسا کہ قرآن کا شیوۂ بیان ، اس احتجاج سے عبرت حاصل کرنا ہے، لہٰذا خدا اس کے بعد فرماتا ہے :
(اِذْ قَالَ اِبْرَاھِیم رَبِّیَ الّذِی ےُحےِیْی وَےُمِےْت)
جب ابراہیم نے (نمرود سے) کہا :میرا ربّ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور ما رتا ہے(موت دیتا ہے )۔
یہ با ت نمرود کے ادعائے ربو بیت کے مقابلہ میں بیان کی گئی ہے، اس کے بعد قرآن نے نمرود کی ابراہیم کے مقابل گفتگو کو بیان کیا ہے :
(أنَا اُحیِی وَاُمیتُ)
میں بھی زندہ کرتا ہو اور ما رتا ہوں۔
فوراً ہی حکم دیتا ہے کہ ایک آزاد انسان پکڑ کر اسے قتل کردیا جائے اور قتل کے مجر م کو آزاد کر دیں! اس نے اپنے خیا ل میں جو دعویٰ کیا اسے ثا بت کردیا. یہاں پر حضرت ابراہیم نے نمرود سے عقلی احتجاج نہیں کیا کہ ایک بے گنا ہ کا قتل کرنا اور اسی طرح موت کی سزا کے مستحق کو زندہ چھوڑ نا حقیقی طور پر ما رنا اور زندہ کرنا نہیں ہے، بلکہ ایک دوسرا محسوس اور معقول احتجاج پیش کیاکہ :
(...فَِنَّ اﷲَ یَْتِی بِالشَّمْسِ مِنْ الْمَشْرِقِ فَْتِ بِہَا مِنْ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِی کَفَرَ ..)
''خدا وند عالم مشرق سے آفتاب نکا لتا ہے ، تم اسے مغرب سے نکا ل دوتو وہ کافر ششدر ومبہوت ہو کر رہ گیا!''( سورۂ بقرہ،آیت ،٢٥٨ )۔
حضرت ابرا ہیم خلیل الرحمن مشرکین سے اپنے احتجاج میں اسی طرح محسوس اور معقول دلا ئل کا استعمال کرتے ہیں . جس طرح دیگر پیغمبروں نے بھی اپنے زمانے کے مشر کین سے بحث و احتجاج کے موقع پر اسی روش سے استفادہ کیا ہے۔
قرآن کر یم بھی جب تمام لو گوںسے گفتگو کرتا ہے یا مشرکین کے مختلف طبقے کو مخا طب قرار دیتا ہے تو یہی را ستہ اپنا تا ہے اور استدلال کرنے میں صرف فلا سفہ اور دانشو روں پر اکتفا ء نہیں کر تا مثال کے طور پر سورۂ حج کی ٧٣ ویں آیت میں تمام انسانوں کے لئے محسوس اور معقول مثال دیتا ہے:
(یاَ اَےُّھَاالنَّاس ضُرِبَ مَثل فا سْتَمِعوُالہُ اِنَّ الّذینَ تَدعُونَ مِنْ دُونِ اللہِ لَنْ یخْلُقو اْ ذباباً )
''اے لوگو! ایک مثا ل دی گئی ہے، اس کی طرف تو جہ دو:جن بتوں کو تم لوگ خدا کے بد لے پوجتے ہو،وہ کبھی ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے۔
خداوندعالم نے جو مثال پیش کی ہے اُس میں ایک کثیف اور گندے حشرہ (مکھی) کی بات ہے کہ سب ہی اُس سے نفرت کر تے ہیںاور وہ ہر جگہ پا ئی جا تی ہے. وہ فر ماتا ہے:
جن بتوں کی خدا کی جگہ عبادت کر تے ہو'' تا کہ تمہاری ضرورتوں کو پو ری کریں، وہ مکھی کے مانند کثیف اور پست حشرہ کے پیدا کرنے سے بھی عا جز ہیں اور اس کو لفظ(لن) یعنی ہر گز سے تعبیر کیا ہے تاکہ ایسی توانائی کوان سے ہمیشہ کے لئے نفی کر دے .پھر عبادت کئے جا نے وا لے جعلی اور خود ساختہ خداؤں کی عاجزی اور نا توانی کی زیادہ سے زیادہ تشریح کر تے ہوئے فرماتا ہے:
(وَ اِِنْ ےَسْلُبْھُم الذُّ بابُ شَےْئاً لٰا ےَسْتَنقذ وُہ مِنہ)
''اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے لے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ''
اگر یہ مکھی اپنے چھوٹے اور معمولی ہو نے کے با وجود ( زمانے کے طا غوت)فرعون کا خون یا وہ گائیں کہ جن کی ہندو پو جا کر تے ہیں(اور انسانوں کے ایسے دیگر خدا ) اگر اپنی حد میں ان کا تھوڑاسا خون چوس لے تو وہ خود ساختہ خدا ا س بات پر قادر نہیں ہے کہ اس معمولی اور کثیف حشرہ سے اپنا حق واپس لے لیں! اس وقت مطلب کو مزید شد ومد کے ساتھ بیان کر تے ہوئے فر مایا :
(مَا قَدَرُوا اللہَ حقَّ قَدرہ)
ان ضیعف اور ناتواں بندوں نے خدا کو جیسا کہ حق ہے اُس طرح نہیں پہچانا ہے. کیونکہ انھوں نے اُس خدا کا جو زمین اور آسما نوں کا خا لق ہے ذلیل و خوار ، ضیعف و ناتواں مخلوق کو شریک قرار دیاہے!
خدا وند عالم اور اس کے پیغمبروں کا احتجاج اسی طرح کا ہے ان کے احتجاج میں علماء علم کلام کی روش جو ان کے تا لیفا ت میں ذکر ہوئی ہے دکھا ئی نہیں دیتی . یقینا کو نسی روش اور طریقہ بہتر ہے جس کا مناظرہ اور احتجاج کے موقع پر استعمال کیا جائے؟!
حضرت ابرا ہیم نے اپنی جا ئے پیدائش بابل میں،ستارہ پرستوں،بُت پرستوں اور زمانے کے طاغوت
( نمرود) سے مقابلہ کیا ،شام میں کنعا نیوں کی سرزمین کی طرف ہجرت کر نے کے بعد وہاں پر بھی درجہ ذیل داستان پیش آئی ہے:
دوسرا منظر۔ قوم لوط کی داستان میں ابرا ہیم کا موقف.
خدا وند عالم سورۂ عنکبوت کی ٢٦ ویں آیت میں ارشاد فر ما تا ہے:
(فآ مَن لہ لوط...)
لوط ان (ابرا ہیم ) پر ایمان لائے''
اس آیۂ کریمہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت لوط نے حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی شریعت پر عمل کیا اور خدا وند عا لم نے انھیں ایسے دیار میں مبعوث کیا جہاںبُرے افعا ل انجام دئیے جاتے تھے تا کہ وہاں جا کر حضرت ابر اہیم کی شریعت کی تبلیغ کریں۔
کیو نکہ خدا وند عالم سورۂ صافات کی ١٣٣ ویں آیت میں ارشاد فرما تا ہے:
(واِنَّ لُوطَاًًلِمَن المُرسَلِین)
''لوط پیغمبروں میں سے تھے '' منجملہ ابرا ہیم کی لوط سے خبر کے متعلق ایک بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے قوم لو ط پر عذاب الٰہی کے نزول کے مسئلہ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے. جو قرآن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
الف: سورئہ عنکبوت کی ٣٢ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :
(وَ قَالَ ِنَّ فِیہَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ َعْلَمُ بِمَنْ فِیہَا لَنُنَجِّیَنَّہُ وََہْلَہُ ِلاَّ امْرََتَہُ کَانَتْ مِنْ الْغَابِرِینَ َ)
(ابرا ہیم نے قوم لوط پر عذاب کے ما مور فرشتوں سے) کہا :
لوط اس علا قہ میں ہیں.انھوںنے جواب دیا کہ ہم وہاں کے رہنے والوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ لوط اور ان کے خاندان کو ہم نجات دیںگے سوائے ان کی بیوی کے کہ وہ ہلا ک ہونے والوں میں سے ہے۔
ب۔ سورۂ ہود کی ٧٤ ۔ ٧٦ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
( فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ ِبْرَاہِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْہُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ ٭ ِنَّ ِبْرَاہِیمَ لَحَلِیم َوَّاہ مُنِیب ٭ یَاِبْرَاہِیمُ َعْرِضْ عَنْ ہَذَا ِنَّہُ قَدْ جَائَ َمْرُ رَبِّکَ وَِنَّہُمْ آتِیہِمْ عَذَاب غَیْرُ مَرْدُودٍ )
جب حضرت ابرا ہیم سے خوف دور ہو گیا اور ان کے لئے بشارت آگئی،تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں بحث کرنے لگے ۔
ابراہیم بہت زیادہ صا بر، گریہ وزا ری کر نے والے اور تو بہ کر نے والے تھے . اے ابراہیم!اس سے درگذر کرو کہ تمہارے ربّ کا حکم آچکا ہے اور ان کے لئے نا قابل بر گشت عذاب آچکا ہے.جس بحث کے بارے میں خدا وند عالم نے خبر دی ہے وہ بحث ابراہیم اور عذا ب پر ما مور فرشتوں سے تھی اور ایسا اس وقت ہوا جب فرشتوں نے حضرت کو آگا ہ کر دیا تھا تا کہ خدا وند عالم نے انھیں قوم لوط کو ہلا ک کر نے کے لئے ما مور کیا ہے.ابرا ہیم نے ان سے سوال کیا :اگر اس شہر کے درمیان مسلما نوں کا کو ئی گروہ ہو گا، پھر بھی وہاں کے لوگوں کو ہلاک کر دو گے؟
ایک روایت میں مذ کور ہے کہ!
حضرت ابرا ہیم نے سوال کیا:
اگر وہاں پچاس آدمی مسلمان ہو گے تب بھی ہلا ک کر دو گے؟
فرشتوں نے جواب دیا:اگر پچاس آدمی ہوں گے تو نہیں ۔
پو چھا:اگر چا لیس آدمی ہوں تو؟
جواب دیا : ا گر چا لیس آدمی ہو تو بھی نہیں۔
سوال کیا : اگر تیس آدمی ہو تو؟
فرشتوں نے کہا: اگر تیس آدمی ہو تو بھی نہیں۔
اسی طرح سلسلہ جا ری رکھا یہاں تک کہ پو چھا اگر ان کے درمیان دس آدمی مسلما ن ہو تو کیا کرو گے ؟ ۔
فرشتوں نے جو اب دیا:حتیٰ اگر ان کے درمیان دس آدمی بھی مسلما ن ہو گے تو بھی ہم انھیں ہلاک نہیں کریں گے۔
قرآن کے اسی جملہ سے کہ قرآن فرما تا ہے!
(قاَلَ اِنّ فِیھَالُوطاًً)
معلوم ہوتا ہے کہ صرف حضرت لوط تھے اور فرشتوں نے کہا تھا کہ اگر ایک مسلما ن بھی ہو گا تو اسے عذاب نہیں کر یں گے ،اسی وجہ سے ابرا ہیم نے ان سے فرمایا: لوط ان کے درمیان ہیں اور فرشتوں نے بلافاصلہ جواب دیا اسے ہم نجا ت دیں گے. جس ہمدردی اور مہر بانی کا اظہار حضرت ابراہیم نے حضرت لوط کی قوم سے متعلق کیا ہے اور جو کو شش آپ نے ان سے عذا ب دور کر نے کے لئے کی اس کے نتیجے میں وہ خدا وند متعال کی تمجید اور تعریف کے مستحق قرار پائے ۔
خدا وند متعال نے فرما یا کہ :
(انَّ اِبراھیم لَحَلیم اَوَّاہ مُنیب)
تیسرا منظر۔ ابرا ہیم اور اسمٰعیل کی خبر خانہ کعبہ کی تعمیر اور حج کا اعلا ن کر نا
سارہ، ابرا ہیم کی زوجہ اور ان کی خا لہ زا د بہن تھیں.(چونکہ حضرت ابر اہیم سے ان کی کو ئی اولا د نہیں تھی) انھوںنے اپنی کنیز ہاجرہ کوا براہیم کو بخش دیا تا کہ ان سے سکون حاصل کریںپھر،ہا جر ہ حاملہ ہوئیں اور اسمٰعیل پیدا ہوئے۔
ہا جرہ اور اسمٰعیل کے دیدار سے رشک اور حسد سارہ کے دل میں پیدا ہو گیا . لھٰذا انھوں نے اپنے شو ہر ابراہیم سے خواہش کی کہ ہاجرہ اور اپنے فرزند اسمعٰیل کو ان کی نگا ہ سے دور کر دیں اور ان دونوں کو ناقابل زراعت سر زمین پر ساکن کر دیں. خدا وندعالم نے بھی ابراہیم کو حکم دیا تا کہ اپنی بیوی سارہ کی خواہش کو پو ری کریں۔
ابراہیم نے ہاجرہ اور اسمعٰیل کو اپنے ہمراہ لیا اور صحرا کی طرف چل پڑے.وہ جب بھی قابل زراعت سر زمین سے گذرتے اور وہاں اترنے کا قصد کرتے تووحی خدا کے امین جبرئیل مانع ہو جا تے یہاں تک کہ ''فاران '' کی سرزمین مکّہ میں جو کہ پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ،سیاہ پتھر وں سے گھری ہوئی،ناقابل زراعت اور بے آب و گیاہ زمین پر بیت اللہ الحرام سے نزدیک اور ایک ایسی جگہ جو حضرت آدم اور دیگر انبیاء کا محل طواف ہے پہنچے ، ایسی جگہ پر جبرائیل نے اُن سے خواہش کی کہ اسی جگہ رک جائیں(پڑاؤ ڈا ل دیں) اور ساز وسامان اتا ر دیں ابرا ہیم نے حکم کی تعمیل کی اور بیوی بچے کو وہاں پر اتار دیا ا ور کہا :
(رَبّنَااِنّیِ اَسْکَنْتُ ذُرّ یّتی بِوادٍٍغِیرذِی زرعٍ عِندَ بَیتِکَ المُحرّم رَبّنَا لِےُقِیمُوا الصَّلَا ةَ فَاجعَل أفئدَة ًمِن النَّاسِ تَھوِیٰ اِلیھِم)
خدایا! میں نے اپنی بعض ذرّیت کو نا قابل زراعت وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ،خدا یا ! تا کہ نما ز قا ئم کریں،لہٰذا بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف ما ئل کر دے۔
ابرا ہیم نے ان دونوں کو ایک جگہ چھوڑا اور اپنے گھر شام واپس ہوگئے۔
ہاجرہ جتنا پا نی اپنے ہمراہ لا ئی تھیں سب تمام ہو گیا اور دودھ بھی خشک ہو گیا اور حجاز کی مہلک گرمی سے بے گنا ہ بچے کے چہرے پر موت کے آثار نمایاں ہو نے لگے . بچہ پیا س کی شدت سے زمین پر ایڑی رگڑ رہا تھا اور ہاجرہ گھبرائی ہوئی ہر طرف چکر لگا تی تھیں اور دیوانہ وار صفا نامی پہاڑ کی طرف دوڑ نے لگیں اور وہاں سے اوپر بلندی پر گئیں تا کہ پہاڑ کے اس طرف درّہ میں کسی کو دیکھیں،لیکن جب کسی کو نہیں دیکھا اور ان کے کا نوں میںکوئی آواز نہیں آئی تو صفا سے نیچے آئیں اور مروہ (پہاڑ) کی طرف رخ کیا اور اس کے بھی اوپر گئیں انھوں نے ان دونوںصفا و مروہ نامی پہاڑوں کے درمیان سات بار رفت وآمد کی اور ہر نوبت میں جب اپنے بچے کے روبرو پہنچتیں تو اپنے قدموں کو تیزی کے ساتھ اٹھا تیں،پھر سا تویںبار دو پہاڑوں کے درمیان سعی وتلا ش کے بعد اپنے بچے کے پاس لوٹ آئیں تا کہ اس کے حال اور کیفیت سے آگاہ ہوں، انہوں نے انتہائی تعجب کے ساتھ دیکھا کہ بچے کے پاؤں کے نیچے پا نی جاری ہے.پھر انھوں نے تیزی کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے پانی کے چاروں طرف مٹی سے گھیر دیا اور اسے بہنے سے روک دیا پھر اس پانی کو خود بھی نوش کیا اور بچے کو بھی سیراب کیا اور اسے دودھ پلا یا۔
ابھی زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ '' جرھم'' نامی قبیلہ کا ایک قافلہ اس طرف سے عبور کر رہا تھا وہ لوگ مکّہ کی فضا میں پرندوں کے وجود کی علت کی تلاش میں لگ گئے کہ جس سے نتیجہ نکالا کہ اس تپتی سر زمین پر پانی ضرورموجود ہے ، لھٰذا ہاجرہ اور آپ کے فرزند( اسمٰعیل ) کے دیدار کے لئے آئے اور اس خاتون سے اجازت طلب کی کہ ان کے نزدیک پڑاؤ ڈالیں اور سکونت اختیار کریں، ہاجرہ نے ان کی درخواست قبول کر لی۔
ایک مدت گذر گئی اور اسمٰعیل بڑئے ہوگئے اور جر ہم قبیلہ کی ایک لڑ کی سے ازدواج کیا، ان کے والد ابرا ہیم ان کے دیدار کے لئے آئے.خدا وند عالم نے بھی حکم دیا کہ کعبہ کی تعمیر کریں۔
ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی مدد سے کعبہ کی تعمیرکی اور خدا وند عالم نے بھی انھیںمنا سک حج کی تعلیم دی. ابراہیم نے اسی حال میں یعنی کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے اپنے ربّ سے درخواست کی ۔
(رَبّناَوَاجَعلنَا مُسلِمینِ لَکَ وَمِنْ ذُرّےَّتِنَا أُمَّةًمُسلِمَة ً لَکَ)
پروردگا ر!ہمیں اپنے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم قرار دے اور ہمارے فرزندوں کو بھی اپنے سامنے سراپا تسیلم قرار دے۔
اور کہا:
(رَبِّ اجعَلنِی مُقیم الصَّلاة وَمِنْ ذُ رِّ ےَّتی)
خدایا ! ہمیں اور ہماری ذریت کو نماز گذار قرار دے۔
پھر اس وقت اپنے فرزندوں سے اس انداز میں وصیت کی:
(اِنَّ اللّٰہَ اِصطَفیٰ لَکُمُُ الدِّ ین فَلا تَمُو تُنَّ اِ لاَّ وََ أَنتُمْ مُسلِمُون)
خدا وند عالم نے اس دین کو تمہارے لئے منتخب کیا ہے لہٰذا نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو. (یعنی موت آئے تو حالت اسلام میں آئے)
کعبہ کی تعمیر تمام ہو نے کے بعد ،حضرت ابراہیم اپنے فرزند اسمٰعیل کے ہمراہ مناسک حج کی ادائیگی کے قصد سے روانہ ہوگئے ؛جب یہ دونوں حضرات عرفات سے منٰی کی طرف واپس ہوئے ،حضرت ابراہیم نے اپنے فرزند اسمٰعیل کو اطلا ع دی کہ میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں (اور چونکہ پیغمبروں کاخواب ایک قسم کی وحی ہے ) لہٰذا اپنے فرزند سے ان کا نظریہ جاننا چا ہا ۔
اسمٰعیل نے کہا:
( یاَاَبَتِ اِفْعَل مَا تُؤمَرُ سَتَجِدُ نِی اِنشَاء اللّٰہ مِنَ الصَّابِرین)
بابا! جو آپ کو حکم دیا گیا ہے اُس کی تعمیل کیجئے انشاء اللہ مجھے صابروں میں پا ئیں گے۔
ابرا ہیم نے بیٹے کوزمین پر لٹا یا اور ذبح کرنے کے قصدسے ان کے حلقوم پر چھری چلادی،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ چھری سے حضرت اسمٰعیل کا سر نہیں کٹا اس حال میں خدا وند عالم نے انھیں آواز دی :
(ےَااِبراھیمُُ قَد صَدَّقْتَ الرُّؤیا)
اے ابرا ہیم!تم نے عالم رویا کی ذمّہ داری نبھا دی۔
کیو نکہ حضرت ابرا ہیم نے خواب میں دیکھا تھا کہ بیٹے کا سر کا ٹ رہے ہیں نہ یہ کہ اسمٰعیل کا سر کاٹ چکے ہیں ،اس لحاظ سے انھوں نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا انجام دیا تھا.خدا وند عالم نے بھی ایک گوسفند جبرائیل کے ہمراہ اس کی قربانی کے لئے روانہ کیا اور ابراہیم نے اُس گوسفند کا سر کا ٹا اور منا سک حج کو اختتام تک پہنچایا۔
حضرت ابراہیم کے گزشتہ امور کی انجام دہی کے بعد خدا نے انھیںحکم دیا کہ اعلان کریں اور لوگوں کو حج کی دعوت دیں تا کہ وہ لو گ دور داراز سے لا غر اور کمزور اونٹ پر سوارہو کر خانہ خدا کی زیارت کو آئیں.اس طرح سے بیت اللہ الحرام کا حج ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کی اساس قرار پا یا اور ایک ملت کا ستون بن گیا .کہ جس کے بارے میں خدا وند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:
( فَا تَّبِعُوا مِلَّة اِبرا ھیمَ حَنیفاً )
ابرا ہیم کے پاکیزہ اور صاف ستھرے آئین کا ا تباع کرو۔
جب حضرت ابراہیم خلیل اﷲ مذکورہ مرا حل سے گذر چکے تو خدا وند سبحان نے انھیں لو گوں کا امام اور پیشوا بنا دیا اور فرمایا:
(وَ اذِابتلیَ اِبرَاہیمَ رَبُّہُ بِکلمٰا ت ٍ فَأَ تَمَّھُنَّ قال ِنّی جاَ عِلُک لِلنَّا س اِماَماً قَال وَمِن ذُرِّےَّتی قَالَ لَا ےَنالُ عھدِی الظَّالِمےِن)
جب خدا وند عالم نے ابرا ہیم کا چند کلمات(امور ) کے ذریعہ امتحان لیا اور آپ نے سب کو(بطور احسن) انجام دے دیا .تو خدا نے ان سے کہا :میں تمھیں لوگوں کی پیشوائی اور امامت کے لئے انتخاب کر تا ہوں۔ابرا ہیم نے عرض کیا. یہ اما مت ہمارے فرزندوں کو بھی عطا کر ے گا ؟ فرمایا کہ میرا عہدہ ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا۔
ہم حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی سیرت اور روش میں آپ سے مخصوص دو واضح خصوصیت مشا ہدہ کر تے ہیں. جو تمام انبیاء اور پیغمبروں کے درمیان امتیازی شان رکھتی ہے۔
١۔ مہما ن نوزی اور لوگوں کو کھا نا کھلا نے والی خصو صیت کہ اس کے بارے میں خدا نے بھی خبر دیتے ہوئے فرما یاہے:(فَمَالَبِثَ اِنْ جَائَ بِعَجَلٍ حِنَیذٍ) پھر بلا توقف بھنا ہوا گا ئے کا بچہ حاضر کر دیا۔
حضرت ابرا ہیم کا یہ عمل نا آشنا اور اجنبی افراد کے لئے بھی غذا کی فراہمی میں پیش قدم رہنے کو بیان کرتا ہے ۔
اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مہما ن نوازی کی صفت حضرت ابرا ہیمکی ایک خاص صفت تھی اور صرف انھیں مہما نوں سے مخصوص یہ مہمان نوازی نہیں تھی۔
٢۔ کعبہ اور بیت اللہ الحرام کا اہتمام کر نا اور لوگوں کو منا سک حج کی ادائیگی کے لئے دعوت دینا :
خدا وند سبحان نے فرمایا ہے:
( وَ طَھِر بَیتِیَ لِلطَّائِفےِنَ وَالقَائِمِینَ وَالرُّ کَّعِ السُّجوُد٭ وَاذِّن فِی النَّا سِ بِالحَجِّ ےَا تُوکَ رِجَالا ً وَعَلیٰ کُلِّ ضَامر ٍ ےَأتین مِن کُلِّ فَجٍّ عَمیق)
(اور ہم نے اسے وحی کی کہ ) میرے گھر کو طواف کرنے والوں،نما ز گذاروں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کر نے والوں کے لئے پاک رکھو. اور لوگوں میں منا سک حج کی ادائیگی کا اعلان کردو تاکہ لو گ پیادہ اور لاغر اونٹوں پر سوار تما م دور داراز علاقوں سے تمہاری طرف آئیں۔
ہم عنقریب انشا ء اللہ ان دو صفتوں کو جو حضرت ابرا ہیم کی زندگی کا لا زمہ شما ر کی جاتی تھیں ان کے اوصیاء میں بھی تھیں جنھوں نے اُن سے میراث پا ئی تھی تحقیق اور بر رسی کریں گے۔
چوتھا منظر: ابرا ہیم اپنے خا ندان کی دو شاخ کے ہمرا ہ:
حضرت ابرا ہیم ہا جرہ اور اسمٰعیل کو مکّہ منتقل کرنے اور اپنے فرزند اسمٰعیل کے ساتھ خانہ کعبہ کی تعمیر اور منا سک حج بجا لا نے کے بعد اپنے وطن شام واپس آگئے. وہی وقت تھا جب خدا وند عالم نے لو ط کی قوم پر عذا ب نازل کیا اور حضرت ابرا ہیم کو اسحق اور ان کے فرزند یعقوب جیسے بیٹے بھی عطا فرمائے خدا وند عالم نے انھیں ایسا پیشوا قرار دیا جوخدا کے حکم سے لوگوں کو حق کی جا نب را ہنما ئی کرتے ہیں؛ اور انھیں نیک کام کر نے ،نما ز قائم کر نے اور زکوة دینے کی وحی کی۔
یہاں سے حضرت ابرہیم خلیل کے بعد نبوت اور وصا یت دو شاخ میں منتقل ہوئی:
پہلی شاخ:
حضرت اسمٰعیل اور ان کی اولا د جو مکّہ میں سا کن تھی، یہ لوگ حضرت ابرا ہیم کی حنیفیہ شریعت پر ان کے اوصیاء ہیں۔
دوسری شاخ:
حضرت اسحق اور ان کے فرزند یعقوب اور ان کی اولا د جو فلسطین میں ساکن تھی اور خداوند عالم نے ان کے لئے مخصوص شر یعت قرار دی جو حضرت مو سیٰ کی شریعت کے ذریعہ پایۂ تکمیل کو پہنچی۔
انشاء اللہ ہم دونوں شاخوں کی جدا جدا تحقیق کریں گے ۔
سب سے پہلے ان کے چھو ٹے فرزند یعنی حضرت اسحق اور ان کے فرزند یعقوب (اسرا ئیل ) اور ان کی اولا د( بنی اسرا ئیل) کے سلسلے میںتحقیقی گفتگو کریں گے۔
حضرت اسحق فرزندحضرت ابرہیم اور حضرت اسحق کے فرزند حضرت یعقوب(اسرائیل )اور فرزند یعقوب ( بنی اسرا ئیل )
مجھے حضرت اسحق کے حالات میں کو ئی ایسی خبر نہیں ملی جو اس بات پر دلا لت کرے کہ ان کے والد حضرت ابرہیم کے علا وہ کو ئی مخصوص ان کی شریعت تھی . ہم نے اس مطلب کو وہاں جہاں خدا نے ان کے بیٹے یعقوب (جو اسرا ئیل کے لقب سے یاد کئے جا تے ہیں) کے بارے میں خبر دی ہے، حا صل کیا ہے کہ انشاء اللہ آیندہ بحث میں اس کی تحقیق و بر رسی کریں گے۔
|