( ٤ )
پیغمبروں کے اوصیاء کی تاریخ توریت کی روشنی میں
توریت کی نقل کے مطابق حضرت نوح کے زمانے
تک اوصیاء کی کچھ سر گذ شت
سفر تکوین اصحا ح پنجم میں مذکور ہے:
یہ کتاب میلاد آدم ہے جس دن خدا وند عالم نے آدم کو اپنے ہاتھ (دست قدرت) سے خلق فر مایا انھیں نر ینہ اور مادینہ پیدا کیا اور انھیں بر کت دی اور اسی روز تخلیق ان کا نام آدم رکھاحضرت آدم ایک سو تیس سال کے تھے کہ ان کی شکل وصورت کا ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام (شیث) رکھاآدم نے شیث کے پیدا ہونے کے بعد دنیا میں آٹھ سو سال زند گی گذاری اور اس مدت میں لڑکوں اور لڑکیوں کے باپ ہوئے (کثیر اولا دہوئی) حضرت آدم کی پوری مدت عمر نو سو تیس سال تھی اور آپ نے اسی عمر میں رحلت کی ہے.
شیث ایک سو پانچ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (انوش ) پیدا ہوئے شیث انوش کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سات سال زندہ رہے. اور اتنی مدت میں لڑ کوں اور لڑ کیوں کے مالک ہوئے شیث کی پوری مدت عمر ٩١٢ سال تھی تب انتقال ہوا۔
انوش بھی نوّے سال کے تھے کہ ان کے فرزند (قینان) پیدا ہوئے انوش قینان کی پیدائش کے بعد آٹھ سوپندرہ سال زندہ رہے اور صاحب اولاد ہوئے پھر نو سو پانچ سال کی عمر میں رحلت کر گئے.قینان ستّر سال کے تھے کہ ان کے بیٹے ''مَہلَلْئِیْل'' ( مہلائیل) پیدا ہوئے، قینان مہلائیل کی پیدائش کے بعد آٹھ سو چالیس سال زندہ رہے اور ان بہت سے بیٹے اور بیٹیاں تھیں اور نو سو دس (٩١٠ ) سال کی عمر میں وفات پائی۔
(مہلائیل) ٦٥ سال کے تھے کے ان کے فرزند (یارد) پیدا ہوئے مہلا ئیل یارد کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو تیس سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں وا لے ہوئے پھر انتقال کر گئے مہلا ئیل کی مدت عمر پورے ٨٩٥ سال ہے.
یارد ١٦٢ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (اخنوخ ) پیدا ہوئے اخنوخ کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں والے ہوئے یارد کی پوری عمر ٩سو ٦٢ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے.
اَخنوخ ٦٥ سال کے تھے کہ ان کے فرزند(مَتُو شَلَح)پیدا ہوئے. اخنوخ متوشلح کے پیدا ہونے سے خدا کے پاس جانے تک ٣٠٠ سال مزید زندہ رہے اور اس مدت میں صاحب اولاد ہوئے لہٰذا اخنوخ کی پو ری مدت حیات ٣٦٥ سال ہے اخنوخ خداکے جوار میں چلے گئے اس کے بعد کبھی دکھائی نہیں دئیے کیو نکہ خداوند عالم نے انھیں اٹھا لیا تھا۔
متوشلح ١٨٧ سال کے تھے کہ ان کے بہت سے لڑ کے اور لڑ کیاں ہوئیں متوشلح کی پوری مدت حیات ٩٦٩ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے۔
(لا مک) ١٨٢ سال کے سن میں صاحب فرزند ہوئے ان کا نام نوح رکھا اور کہا یہ بچہ ، ہمارے کاروبار اور اس زمین کے حا صل سے جس پر خدا نے لعنت کی ہے ہمیں بہرہ مند کرے گا۔
لا مک نوح کی پیدا ئش کے بعد ٥٩٥ سال زندہ رہے لڑکے اور لڑ کیاں پیدا ہوئیں لا مک کی پوری مدت حیا ت ٧٧٧ سال ہے پھر انتقا ل کر گئے،نوح پانچ سو سال کے تھے کہ ان کے بیٹے سام، حام اور یافث پیدا ہوئے۔
٭٭٭
اسی طرح توریت نے آدم اور نوح کے درمیان اوصیاء کے حالات نقل کرنے میںہر ایک کی مدت عمر کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے مگرا خنوخ کی خبر میں اس جملے (اور اخنوخ خدا کے پاس گئے کیو نکہ خدا وندعالم نے انھیں اُٹھا لیا تھا) کا بھی اضا فہ ہے. قرآن کریم نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر مایا ہے :
( و َ رَفَعْنٰاہ مَکَا ناً علےّاً)
ہم نے اسے بلند جگہ پر اٹھا لیا۔
اس بحث کا نتیجہ
خداوند عالم نے حضرت آدم کوبخش دیا اور انھیں لوگوںکی ہدایت اور اولین انسانوں کوجن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی ان کے زمانے کے انسا نوں کو جن اسلامی احکام کی ضرورت تھی اس کی تبلیغ کے لئے انتخاب کیا. پھر اس وقت انھیں اپنے پاس بلالیا اور ان کے بعد اوصیا ء شریعت کی حفا ظت اور پاسداری اور لوگوں کی ہدایت کے لئے اس کی تبلیغ کو اٹھ کھڑے ہوئے .انسان حضرت ادریس کے زمانے تک دھیرے دھیرے تہذ یب وتمدن سے نزدیک ہوتا گیا اور تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ زندگی کی راہ میں اسلامی احکام کی شرح وبیان کی نئے سرے سے ضرورت محسوس ہوئی یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے ادریس پیغمبر کو ان چیزوں کے لئے جن کی ان کے ہم عصر لوگوں کوضرورت تھی '' یعنی اسلامی احکام' ' کی وحی کی تو آپ نے بھی احسن طریقہ سے اپنی رسا لت انجام دی، خدا نے جس چیز کی انھیں وحی کی تھی لوگوں کی ہدایت کی خاطرانھیں تبلیغ کی ؛ اس کے بعد حکمت خدا وندی یہ رہی کہ انھیں بلند جگہ پرلے جا ئے ، خدا جانتا ہے کہ انھیں کیسے اور کہاں بلندی پر لے گیا ، اس بحث میں اس کی تحقیق کی گنجا ئش نہیں ہے۔
اس کے علاوہ اسلا می مصا در میں انبیاء واوصیاء کی خبروں سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے وصی سے حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے بارے میں جو کہ اس کو منتقل ہوتا تھا، عہد وپیمان لیا اور اس نے بھی اپنے بعد کے وصی کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اسے متعہد و پا بند بنایا۔
اس عہد و پیمان پر تاکید قرآن مجید میں نما یاں اور روشن ہے:
( وَِذْ َخَذَ اﷲُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُول مُصَدِّق لِمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنْصُرُنَّہُ قَالَ ََقْرَرْتُمْ وََخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ ِصْرِی قَالُوا َقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوا وََنَا مَعَکُمْ مِنْ الشَّاہِدِین َ٭ فَمَنْ تَوَلَّی بَعْدَ ذَلِکَ فَُوْلَئِکَ ہُمْ الْفَاسِقُونَ )
جب خدا وند عالم نے پیغمبروں سے پیمان لیا ،کہ چونکہ تمھیں کتاب وحکمت دی ، پھر جس وقت تمہارے پاس وہ پیغمبر جائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والاہے تو تمھیں چا ہئے اُس پر ایمان لا کر اُس کی نصرت کرو( خدا وند عالم نے پیغمبروں سے فرمایا) آیا اقرار کر تے ہو اور اپنی امتوں سے اس کے مطابق پیمان لیا ہے؟
سب نے کہا ،ہاں : اقرار کرتے ہیں . فر مایا اس پر گواہ رہنا کہ میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوںلہٰذا جو کوئی اس کے بعد( آخری رسولۖ کے آنے کے بعد )حق سے رو گردانی کرے یقینا وہ فاسقوں میں ہو گا۔(١)
طبری نے پہلی آیت کی تفسیر میں حضرت امام علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فر مایا:
..............
(١)آل عمران،٨١ اور ٨٢
خداوند عالم نے حضرت آدم اور ان کے بعد کے پیغمبر وں کو پیغمبری کے لئے مبعوث نہیں کیامگر یہ کہ ان سے حضرت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلہ میں عہد وپیمان لیا پھر اس کے بعد اس آیت کی تلا وت فر ما ئی:
(وَاِذْ اَخَذَاللّٰہُ مِیثَاقَ النَبْےِین...)
دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت سے نقل کیا ہے کہ آیہ کر یمہ اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ خدا وند فرما تا ہے : اس مطلب پر اپنی امتوں پر گواہ رہنا کہ میں تم پر بھی گواہ ہوں اور اُ ن پر بھی۔
لہٰذا اے محمدۖ! جو بھی اس عہد و پیمان کے بعد ان تمام امتوں میں سے تم سے رو گردانی کرے وہ فاسقوں میں سے ہو گا۔(١)
مذکورہ آیت کی تفسیر میں قرطبی فر ماتے ہیں:
یہاں پر حضرت علی اور ابن عباس کے بقول ''رسول'' سے مراد حضر ت محمد ۖہیں۔
مؤلف فر ماتے ہیں:
یہ دو نوں مذ کورہ آیتیں اُن چند آیات کے مجمو عہ کے ضمن میں ذ کر ہوئی ہیں جو خود ہی ایسی بات پر گواہ ہیں کہ حضرت علی سے روایت کی گئی ہے، کہ جس کے آغا ز ہی میں خدا وند عالم نے اس طرح فر مایا:
( َلَمْ تَرَ ِلَی الَّذِینَ ُوتُوا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ ِلَی کِتَابِ اﷲِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیق مِنْہُمْ وَہُمْ مُعْرِضُونَ )
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کتاب سے تھوڑا بہرہ مند ہوئے ہیں جب انھیں کتاب خدا وندی کی دعوت دی گئی تا کہ وہ لوگ اپنے درمیان قضا وت کر یں ، تو ان میں سے بعض گروہ نے پچھلے پاؤں لوٹ کر رو گردانی کی اور وہ لوگ اعرا ض( رو گردانی ) کر نے والوں میں ہیں؟(٢)
(قُلْ اِنْ تُخَفُوا مَا فِی صَدُ وْرِکُم اَوتُبدُوہُ ےَعْلَمہُ اللّٰہُ...)
(اے پیغمبر ) کہدو: اگر جو کچھ تم لوگ دل میں رکھتے ہو خواہ چھپا ؤ یا آشکا ر کرو خدا سب جانتا ہے۔ (٣)
( قُلْ ِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اﷲَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم )
..............
(١) تفسیر طبری، ج ٣، ص ٢٣٦ اور ٢٣٨؛ زاد المسیر فی علم التفسیر، تالیف، ابن جوزی، ج١، ص ٤١٦؛تفسیرابن کثیر، ج١، ص٣٧٨، الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ؛ اور تفسیر قرطبی، ج٤، ص ١٢٥. (٢)سورۂ آل عمران، آیت:٢٣.(٣)سورۂ آل عمران، آیت:٢٩.
(اے پیغمبر ) کہو: اگر خدا کو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تا کہ خدا تمھیں دوست رکھے اور تمہا رے گنا ہوںکو بخش دے۔(١)
( قُلْ َطِیعُوا اﷲَ وَالرَّسُولَ فَِنْ تَوَلَّوْا فَِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِینَ )
(اے پیغمبر ) کہو: خدا اور پیغمبر کی اطا عت کرو اگر ان دو سے رو گردانی کرو گے ، تو بیشک خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا ۔(٢)
چونتیسویں آیت ا ور اس کے بعد اسی سورہ میں بیان کر تا ہے کہ خدا نے آدم اور نوح کومنتخب کیا اور یہ کہ اس نے کس طرح عیسیٰ کو پیدا کیا اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا اور یہ کہ حواری ان پر ایمان لائے۔
پھر اس کے بعد فر ماتا ہے:
(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ َبْنَائَنَا وََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَا وََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِینَ )
پھر جو بھی (حضرت عیسیٰ کے بارے میں ) علم آجانے کے بعد تم سے کٹ حجتی کرے، تو اس سے کہو: آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں، پھر مبا ہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیتے ہیں۔(٣)
پھر چند آیات کے بعد فرماتا ہے:
(ےَااَھلَ الَکِتاب لِمَ تَلبِسُونَ الَحَقَّ بِِالبَاطِل وَ تَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ اَنْتُم تَعْلَمُون)
اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کے لباس میں ظاہر کرتے ہو ،جب کہ خود بھی جانتے ہو کہ حق چھپا رہے ہو؟ (٤)
دوسری جگہ فر ماتا ہے:
(وَاِذَ اَخَذَ اللّٰہُ مِیثَاقَ النَّبےِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ...)
جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا ، چو نکہ ہم نے تمھیں کتاب وحکمت بخشی ہے...(٥)
اس طرح سیاق آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند اعالم کی فرمایش سے مراد سورہ ٔآل عمران کی ٨١ ویں
..............
(١)سورۂ آل عمران، آیت: ٣١.(٢) سورۂ آل عمران، آیت: ٣٢.(٣) سورۂ آل عمران، آیت:٦١(٤) سورۂ آل عمران، آیت:٧١ (٥)سورۂ آل عمران، آیت:٨١
آیت میںکہ ا س میں فر ماتا ہے: (تمہا ری ہدایت کے لئے اے اہل کتاب! خدا کی طرف سے ایک رسول آیا جس نے تمہاری کتاب اور شریعت کی صداقت کی گو اہی دی، تا کہ ایمان لاؤ.اور اس کی نصرت کرو...)یہ چیز ہے کہ امتوں سے عہد لیا گیا ہے کہ حضرت ختمی مر تبتۖ کی رسالت پر ایمان لائیں، جس طرح سے اس کی تفسیر ہم نے حضرت امیر المو منین علی سے نقل کی ہے. ان تمام چیزوں کے علا وہ اُن آیات کی طرف آپ کی تو جہ مبذول کریں گے جسے ہم نے کتاب کے آخر میں ''آخرین شریعت'' کے عنوان کے تحت ذ کر کیا ہے جیسے اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
(ےَعرِ فُونَہُ کَمَاےَعِرفُونَ اَبْنَائِ ھم)
اہل کتاب، خاتم الا نبیائۖ کو اس طرح پہچا نتے ہیں جیسے کہ وہ اپنی اولا دکو پہچا نتے ہیں۔
ان تمام آیات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا وند متعال نے گزشتہ انبیاء سے عہد وپیمان لیا ہے کہ اپنی امتوں کو حضرت ختمی مرتبت کی رسا لت کے وجوب پر ایمان لا نے سے آگا ہ کریں (١) اور یہ بھی کہ ہرایک نبی نے اپنے وصی سے اس سلسلہ میں عہد وپیمان لیا ہے .جیساکہ اسلامی منا بع و مصادر سے حضرت نوح کے زمانے تک اس کی شرح وتفصیل گذر چکی ہے۔
یہ سب حضرت آدم سے حضرت نوح کے زمانے تک انبیا ء اور ان کے اوصیاء کی کچھ خبریں تھیں۔
حضرت نوح کے زمانے میں شیث کے پو توں نے قا بیل کے پو توں سے آمیز ش اور اختلاط پیدا کیا اور نتیجہ کے طور پر ایک فاسد،سر کش، گمراہ ، بت پرست اور طاغی نسل کو جنم دیا۔
انشاء اللہ ان کے حالات کوحضرت نوح کے حالات کے ضمن میں بیان کریں گے۔
..............
(١)لباب التاویل فی معانی التنزیل معروف بہ تفسیر خازن ، متوفیّٰ ٧٤١ھ، ج١، ص٢٥٢.اورتفسیر البحر المحیط، ابوحیان،متوفیّٰ ٧٤٥ھ، ج٢، ص٥٠٨، ٥٠٩.اورتفسیر در منثور، سیوطی، متوفیّٰ ٩١١ھ، ج٢، ص٤٧، ٤٨.
|