|
( ٢ )
حضرت آدم ـ
* حضرت آدم ـ کی خلقت سے متعلق چند آیات.
* کلمات کی تشریح
* آیات کی تفسیر
آدم ـ کی خلقت
١۔ خدا وند سبحا ن سورئہ طہٰ ٰکی ١١٥ اور ١٢٢ آیات میں فرماتا ہے.
(وَلَقَدْعَھِدْنَا اِلٰی آدمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجدلَہُ عزماً٭...٭ ثم أجْتَباہ رَبُّہُ فَتابَ عَلَیْہِ وَھَدیٰ)
اور ہم نے آدم سے عہد وپیمان لیا (کہ شیطا ن کے دھو کے میں نہ آئیں)اور اس عہد میں اُن کو ثابت قدم اور پا ئدار نہیں پا یا ٭ ... ٭ پھر خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی اور ان کی ہدایت فر مائی اور انھیں مقام نبوت کے لئے انتخاب کیا.
٢۔سورۂ بقرہ کی ٢٧ اور ٣٠ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ ِنِّی جَاعِل فِی الَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا َتَجْعَلُ فِیہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ ِنِّی َعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ٭ وَعَلَّمَ آدَمَ الَسْمَائَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ َنْبِئُونِی بَِسْمَائِ ہَؤُلاَء ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ٭ قَالُوا سُبْحَانَکَ لاَعِلْمَ لَنَا ِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا ِنَّکَ َنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ٭ قَالَ یَاآدَمُ َنْبِئْہُمْ بَِسْمَائِہِمْ فَلَمَّا َنْبََہُمْ بَِسْمَائِہِمْ قَالَ َلَمْ َقُلْ لَکُمْ ِنِّی َعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وََعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ ٭ وَِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا ِلاَّ ِبْلِیسَ َبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ ٭ وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ َنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ ٭ فََزَلَّہُمَا الشَّیْطَانُ عَنْہَا فََخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیہِ وَقُلْنَا اہْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ وَلَکُمْ فِی الَرْضِ مُسْتَقَرّ وَمَتَاع ِلَی حِینٍ ٭ فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ )
٭ جب تمہارے رب نے فر شتوں سے کہا:میں روئے زمین پرایک جا نشین بنا ؤں گا ان لوگوں نے کہا آیا ایسے کو بنا ئے گا جو اس میں خو نر یزی اور فساد بر پا کر تے ہیں؟ جب کہ ہم تیری تسبیح اور حمد کر تے ہیں اور تیری پا کیز گی بیان کرتے ہیں . فرمایا ! جومیں جا نتا ہو تم نہیں جا نتے اور آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی اس کے بعد انھیں فر شتوں کے سا منے پیش کیا اور ان سے سوال کیا اگر سچّے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو ۔٭ بو لے خدا وند! تو منزہ ہے ہم تو وہی جا نتے ہیں جو تو نے ہمیں سکھا یا ہے تو دانا اور حکیم ہے۔ ٭
فرمایا : اے آدم ! تم ان کے اسماء کی انھیں خبر دو جب آدم نے انھیں آگاہ کیا تو فرمایا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ہم زمین و آسما ن کے غیب کے بارے میں یا جو کچھ ظا ہر اور مخفی رکھتے ہواس سے باخبرہیں٭
جب ہم نے فر شتوں سے کہا آدم کا سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا جز ابلیس کے اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔ ٭ اور ہم نے کہا اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں سکو نت اختیار کرو اور وہ پر جہ سے چا ہو کھا ؤ جو تمھیں پسند آئے ،لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جا ؤ گے ٭ شیطا ن نے انھیں فریب دینے کی کوشش کی اور انھیں جنّت سے باہر کر دیا اور میں نے کہا تم سب کے سب نیچے اترو تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہوگا اور تمہارے لئے زمین میں ایک مدت تک کے لئے ٹھہر سکتے ہو اور اس سے بہرہ مند ہوسکتے ہو ٭ پھر آدم نے اپنے خدا سے چند کلمات یا د کئے اور خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی کہ وہ تو بہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے ۔٭
٣۔ سورۂ آل عمران کی ٣٣ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
(انَّ اللّٰہَ اِصطَفَیٰ آدَمَ وَ نُوحاً وَآلَ اِبْرَاھیمَ وَآل عِمرَانَ عَلی العَا لمین)
خدا وند عالم نے آدم ،نوح ،خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو سارے جہان پر انتخا ب کیا۔
سورۂ انعام کی ٨٩ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
( اُولئک الَّذِینَ آتَینَاھُمُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالَنُّبوَّة...)
وہ لوگ ( انبیائ)وہی ہیں جنھیں ہم نے آسمانی کتاب، فر ما نروائی اور نبوت عطا کی ہے...
کلمات کی تشریح
١۔اجتباہ :
اسے چنااور انتخاب کیا. مفردات راغب میں مذ کور ہے کہ: اجتباہ اللہ العبد یعنی یہ کہ خدا نے بندہ کو الٰہی فیض سے مخصوص کیاوہ بھی اس طرح سے کہ انواع واقسام کی نعمتیں اُس کے اختیار میںدے دیتا ہے بغیر اس کے کہ بندہ نے اس سلسلے میں کوئی کوشش کی ہو. یہ فیض انبیاء اور ان کے ہم مرتبہ صدیقین اور شہداء سے مخصوص ہے۔
٢۔ تابَ :
اُس نے تو بہ کی . بندہ کی توبہ اس کی ند امت اور پشیمانی کا پتہ دیتی ہے اس گناہ سے جو انجام دیا ہے لہٰذا اس گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا اور جہاں تک ممکن ہو اس کی تلافی اور تدارک کرنا بندہ کی توبہ ہے۔
لیکن ربّ کی تو بہ کے معنی اپنے بندے کی تو بہ قبول کرنا ، اس کی خطاؤں سے در گذر کر نا ، اس کے ساتھ لطف واحسان کر نا اوراس کی بخشش کر نا ہے۔
٣۔خلیفة :
فرشتوں کی آفر نیش سے متعلق ذکر شدہ بحثوں کے ذیل میں ہم کہیں گے:
خلیفہ کی لفظ قرآن میں مفرد اور جمع دونوں صورتوں میں ذکر ہوئی ہے اور مفرد، جمع کی ضمیر کے ساتھ بھی استعمال ہوئی ہے لیکن جہاں پر مفرد ذکر ہوئی ہے اس سے مراد زمین پر اصفیاء اللہ میں سے برگزیدہ شخص ہے اور جہاں جمع یا جمع کی ضمیر کے ساتھ استعما ل ہوئی ہے وہاں اپنے سے پہلے والی قوموں کی جگہ پر زمین میں لوگوں کی جانشینی مراد ہے۔
پہلی وجہ سے متعلق:
١۔ خدا کا فرشتوں سے خطاب :(اِنّیِ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِےْفَةً)
میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنا ؤں گا.
٢۔خدا کا داؤد سے خطاب:
( ےَادَائُ وْدُ اِنَّاجَعَلنَاکَ خَلیفَةً فِی الْاَرْضِ)
اے داؤد!ہم نے تمھیں زمین پرمقام خلا فت عطاکیا.اگرپہلے مورد میں مراد یہ ہو کہ خدا نوع انسان کو زمین پراپنا خلیفہ اورجانشین بنا ئے گا ۔
پھر داؤد کے لئے مقام خلا فت سے مخصوص ہو نے کا شرف باقی نہیں رہ جا تا کیونکہ وہ بھی لوگوں میں سے ایک ہیں کہ خدا نے ان سب کو تا قیام قیا مت زمین پر اپنا خلیفہ اور جا نشین بنا یا ہے.اس بنا ء پر مجبورا ً کہنا چا ہئے: اپنے فرشتوں سے خدا کے خطاب( اِنّی جَاعِل فی الاَرضِ خَلیفہ )کا مطلب تنہا حضرت آدم ہیں یا حضرت آدم اور ان کی بر گزیدہ اولا د جو لوگوں کے امام اور راہ راست کے پیشوا اور راہنما ہیں۔
دوسری وجہ سے متعلق:
١۔جہاں سورہ ٔ اعراف کی ٦٩ ویں آیت میںحضرت ہود کی اپنی قوم سے گفتگو کی حکایت کرتے ہوئے بیان فرما تا ہے.
(... وَاذْکُرُ وا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفائَ مِنْ بَعدِ قُومِ نُوح ٍ)
یا د رکھو خدا نے تمھیں قوم نوح کے جانشینوں میں قرار دیا ہے...
٢۔ اس کے بعد، صا لح کی گفتگو اپنی قوم سے متعلق اسی سورۂ کی ٧٤ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَاِذکُرُوا اِذجَعَلَکُم خُلَفائَ مِن بَعدِ عاد ٍ)
یاد رکھو کہ تمھیں قوم عاد کے بعد جا نشین بنا یا.
کیسے ممکن ہے خدا کے دشمن جیسے عاد و ثمود کی اقوام اور ان سے پہلے نوح کی قوم نافرمانی اور خدا سے دشمنی کے سبب، خدا نے انھیں ہلاک کیا اور انکو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے، روئے زمین پر خدا کے خلفا ء اور جانشین ہوں ؟
اس لحا ظ سے جناب ہود علیہ اسلام کی اپنے قوم سے گفتگو کا مطلب جو انھوں نے کی ہے :
(جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ نُوح ٍ) یہ ہے کہ خدا نے روئے زمین پر تم کو قوم نوح کا جانشین قرار دیا ہے اور حضرت صا لح کی اپنی قوم سے گفتگو کہ جو انھوں نے کی ہے:
(جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ عاد ٍ) یہ ہے کہ قوم عاد کے بعد تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دیا ہے۔
تیسری وجہ جو جمع کی ضمیر کے ساتھ ذکر ہوئی ہے وہ بھی اسی طرح سے ہے مثلاً سورہ ٔ اعراف کی ١٢٩ ویں آیت میں حضرت یو نس کے اپنی قوم سے خطاب میں اسی طرح ذکر ہوا ہے:
(عََسَیٰ رَبَّکُمْ اَنْ ےُھْلِکَ عَدُ وَّکُم وَےَسَتخِلَفکُمْ فِی الْاَرْضِ...)
امید ہے کہ خدا وند عالم تمہارے دشمنوں کو زمین سے نابود کر دے اور تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دے... مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم انھیں ان کے دشمنوں کی جگہ روئے زمین پر جانشین قرار دے گا۔
٤۔ا لاسماء :
عربی لغت میں اسم کے دو معنی ہیں:
١۔ ایسا لفظ جو مسمیٰ پر دلالت کرتا ہے اور اسے دیگر تمام لوگوں سے ممتاز کر تا ہے مانند مکّہ جو کہ ایک شہر کا نام ہے جس میںکعبہ مشرفہ اور بیت اﷲ الحرام پایا جاتا ہے اور اشخاص کے نام جیسے یوسف، فیصل، عباس وغیرہ۔
٢۔ ایسا لفظ جو مسّمیٰ کی حقیقت یا اس کی صفت پر دلالت کرتا ہے جیسے اس آیہ شریفہ میں لفظ (اسم) (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَ عْلٰی) (اے ہمارے رسول! ) اپنے خدا کے نام کی تسبیح کرو جو کہ تمام مو جودات سے بلند و با لا ہے (سورۂ اعلی آیت١) کہ یہاں پر مراد اسم خدا کی تسبیح کرنا نہیں ہے بلکہ مراد ربّ کی صفت ہے یعنی اپنے بلند رتبہ ربّ کی ربو بیت کو پاک و منزہ قراردو ان چیزوںسے جو اس کی کبر یا ئی کے لئے زیبا نہیں ہیں۔اور اسی طرح سے یہ آیہ شریفہ ہے کہ فرماتا ہے ( وَعَلّمَ آدَمَ ا لْاَ سْمَاْئَ کُلَّھَا) (آدم کو تما م اسماء کی تعلیم دی ) اس سے یہاں پر یہ مراد نہیں ہے کہ خدا وند عالم نے اپنے خلیفہ آدم کو مراکز کے اسماء جیسے بغداد، تہرا ن اور لندن یا آدمی کے بد ن کے اعضا ء جیسے آنکھ، سر اور گردن ْیاپھلوں کے نام جیسے انجیر، زیتون اور انار، یا پتھروں جیسے یاقوت، دُر، زبرجد، یا معادن جیسے سونا، چاندی، پیتل، لوہا، وغیرہ وغیرہ کہ آدمی نے ان چیزوں کے مختلف عنوان سے نام رکھے ہیں،تعلیم دی ہو بلکہ مقصود یہ ہے کہ خدا نے اپنے خلیفہ کو اشیاء کے صفات اور ان کے حقائق سے آگاہ کیا ہے ہم نے خدا کی مرضی سے دوسری جلد میں '' (اسمائے حسنیٰ الٰہی'' ) کی بحث میںاسی سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
٥۔نسبّح بحمدک:
سَبحّ یعنی منزہ خیال کیا اور سبحان اللہ یعنی خدا پاک اور منزہ ہے.
٦۔نقدّس:
قدّس اللّٰہ تقد یسا ً، یعنی خدا کی شا ئستہ ترین انداز سے تقدیس کی.اور اس کی حمد و ثنا کی اور اسے عظیم اور با عظمت جانا اور اسے تمام ان چیزوں سے جو اس کی ذات اور مقام کے لئے مناسب اور شائستہ نہیں ہے اور مسند الوہیت کے لئے زیبا نہیں ہے، پاک و منزہ جانا۔
آیات کی تفسیر
خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ اسلام کی توبہ قبول کی اور اُن کا انتخاب کیا اور اپنی وحی کے لئے چنا ٹھیک اسی طرح جس طرح دیگر پیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت کے لئے چنا ہے۔
ابن سعد کی طبقات اور احمد ابن حنبل کی مسند میں اسی طرح ذکر کیا گیاہے اور ہم یہاںپر صرف ابن سعد کی طبقات سے عبارت نقل کرتے ہیں:
لوگوں نے حضرت آدم کے سلسلہ میںحضرت رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ آیا حضرت آدم نبی تھے یا فرشتہ؟
تو رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا:
وہ نبی مکلَّم تھے یعنی ایسے شخص تھے جن سے خدا نے وحی کے ذریعہ گفتگو کی ہے۔
حضرت ابوذر سے مروی ہے کہ آپ نے کہا میں نے رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا۔سب سے پہلے نبی کو ن تھے ؟
فرمایا:آدم ۔
میں نے سوال کیا : کیا آدم نبی تھے؟
جواب دیا : ہاں ،نبی مکلّم تھے۔
میں نے پو چھا رسولوں کی تعداد کتنے افراد پر مشتمل تھی؟
جواب دیا: ان کی مجمو عی تعداد تین سو پندرہ (٣١٥)افراد پر مشتمل(١) ہے۔
منجملہ وہ امور جو ان کی شریعت میں ذکر ہوئے ہیں، حج ،خانہ کعبہ کے ارد گرد طواف اور جمعہ کی نماز تھی۔
ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے:
رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما یا: جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور خدا کے نز دیک ان میں
..............
(١) طبقات ابن سعد ،طبع بیروت، سال : ١٣٧٦، ج١، ص ٣٢و ٣٤، طبع یورپ ، ص ١٠ و١٢ اور مسند احمد، ج ٥، ص ١٧٨، ١٧٩، ٢٦٥، ٢٦٦ اور تاریخ طبری طبع یورپ، ج١، ص ١٥٢ اور دوسری حدیثیں دوسرے مصادر میں مختلف الفاظ کے ساتھ .
سب سے عظیم دن ہے، کیو نکہ، خدا نے اُس دن حضرت آدم ـکو پیدا کیا اور اسی دن آدم کو زمین پر بھیجا اور اسی دن آدم ـ کو دنیا سے اٹھا یا ۔(١)
حضرت آدم ایسے پیغمبر تھے کہ خدا وند سبحا ن نے انھیں کتاب اور حکمت عطا کی تھی تاکہ اپنے زمانے کے لوگوں کو کہ ان کے زمانے میں ان کی بیوی اور بچے تھے ہدایت کریں۔ وہ اولوالعزم پیغمبروں میں نہیں تھے یعنی بشیر(بشارت دینے وا لے) اور نذ یر(ڈرانے والے) نہیں تھے۔
پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ حضرت آدم کو عراق کی سر زمین پر جہاں انھوں نے وفات پا ئی ہے دفن کیا گیا ہے۔
حضرت آدم نے اپنی حیات میں اپنے فرزند(شیث) سے وصیت کی اور انھیں اپنی شریعت کی حفا ظت اور اس کی تبلیغ کی تاکید کی.خدا کی توفیق سے انشاء اللہ آیندہ فصل میںاس موضوع کے حالات کی تحقیق کریں گے۔
..............
(١)طبقات ابن سعد ،طبع بیروت ، ج١،ص ٣٠ ، طبع یورپ ، ج١ ، ص ٨.
|
|