اسلام کے عقائد(دوسری جلد )
 

اہل بیت کی راہ قرآ ن کی راہ ہے
اسلامی عقا ئد میں مکتب اہل بیت کوجب بد یہی معلو مات اور باعظمت یقینیات کے ساتھ موازنہ کیا جاتاہے تو اس کی فوقیت و برتری کی تجلی کچھ زیادہ ہی نمایاںہو جاتی ہے، ہم اس کے کچھ نمو نوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:
١ ۔ تو حید کے بارے میں:
توحید کے سلسلے میں اہل بیت کا مکتب قرآن کریم کی تعلیم کی بنیا د پر خدا وند عالم کو مخلوقات سے ہر قسم کی تشبیہ اور مثال و نظیر سے بطور مطلق منزہ قرار دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :
(لیس کمثلہ شیئ وھو السمیع البصیر)(١)
کوئی چیز اس ( خدا ) کے جیسی نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔
اسی طرح نگا ہوں سے رویت خدا وندی کو قرآن کریم کے الہام کے ذریعہ مردود جانتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:(لا تد رکہ الأبصا روھوید رک الأبصاروھواللّطیف الخبیر)(٢)
نگا ہیں ( آنکھیں ) اسے نہیں دیکھتیں لیکن وہ تمام آنکھو ں کو دیکھتا ہے اور وہ لطیف و آگا ہ ہے۔
نیز مخلوقات کے صفات سے خدا کی تو صیف کر نا مخلو قات کی طرف سے نا ممکن جا نتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:
الف ۔( سبحا نہ وتعا لیٰ عمّایصفون) (٣)
جو کچھ وہ تو صیف کرتے ہیں خدا اس سے منزہ اور بر تر ہے!
ب ۔( سبحان ربک ربّ العزّة عمّایصفون) (٤)
..............
(١)شوری ١١ .
(٢) انعام ١٠٣
(٣) انعام ١٠٠
(٤)صافات١٨٠
تمہا را پروردگارپروردگا رِ عزت ان کی تو صیف سے منزہ اور مبرا ہے ۔
٢ ۔عدل کے بارے میں :
مکتب اہل بیت نے خدا سے ہر قسم کے ظلم وستم کی نفی کی ہے اور ذات باری تعا لیٰ کو عد ل مطلق جا نتا ہے،جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا :
الف۔ (اِنّ اﷲ لایظلم مثقال ذرة)
بیشک خدا وند عالم ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔
ب۔(ان اﷲ لایظلم الناس شیئاً و لکن الناس أنفسھم یظلمون)(١)
بیشک خداوند عا لم لوگوں کے اوپر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر کچھ بھی ظلم کرتے ہیں ۔
٣۔ نبوت کے بارے میں :
نبوت کے بارے میں مکتب اہل بیت کا نظریہ یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام مطلقاً معصوم ہیں ، کیونکہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
الف: ۔( وما کا ن لنبیٍ أن یغلّ ومن یغلل یأت بماغلّ یوم القیامة)(٢)
اور کوئی پیغمبر خیا نت نہیں کرتااورجو خیا نت کرے گاقیا مت کے دن جس چیز میں خیانت کی ہے اسے اپنے ہمرا ہ لائے گا۔
ب:۔ ( قل اِنیّ أخاف اِن عصیت ربیّ عذا ب یومٍ عظیمٍ)(٣)
( اے پیغمبرۖ )کہہ دو! میں بھی اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تواس عظیم دن کے عذا ب سے خوف زدہ ہوں۔
ج :۔ ( ولو تقوَّل علینا بعض الأقا ویلِ)(لاخذ نا منہ با لیمین۔ ثُمَّ لقطعنا منہ الوتین)(٤)
اگر وہ (پیغمبر) ہم پر جھوٹا الزام لگا تا تو ہم ا سے قدرت کے ساتھ پکڑ لیتے، پھر اس کے دل کی رگ کو قطع کر دیتے۔
اسی طرح مکتب اہل بیت تمام فر شتوں کو بھی معصوم جا نتا ہے ، کیو نکہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے:
..............
(١)یونس ٤٤
(٢) آل عمران ١٦١
(٣) انعام ١٥.
(٤)حاقہ٤٤۔٤٦
( علیھاملا ئکة غلا ظ شدا دلا یعصو ن اﷲ ماأمر ھم ویفعلو ن ما یؤمرون)
اُس ( جہنم ) پر سخت گیر اور درشت مزا ج فرشتے مامور ہیں اور کبھی خدا کی جس کے بارے میں اس نے حکم دیا ہے نا فرما نی نہیں کرتے اور جس پر وہ مامور ہیںاس پر عمل کرتے ہیں۔(١)
٤ ۔امامت کے بارے میں:
مکتب اہل بیت کہتا ہے : امامت یعنی ، پیغمبر اکرم ۖ کی دینی اور دنیا وی امور میں نیا بت یہ ایک ایسا اﷲ کا عہد و پیمان ہے کہ جو غیر معصوم کو نہیں ملتا ، کیو نکہ ، خدا وند عالم نے فرمایا ہے:
( واِذ ابتلیٰ اِبرا ہیم ربُّہ بکلما ت فا تمّھنّ قال اِنّی جا علک للناس اِماما ً قال و من ذُرّ یتی قال لا ینا ل عھدی الظّالمین)(٢)
اور جب ابرا ہیم ـکو ان کے رب ّ نے چند کلمات ( طریقو ں ) سے آزمایا اور وہ بحسن و خوبی اس سے عہدہ بر آہو گئے تو خدا وند عالم نے فر مایا : میں نے تم کو لوگو ں کا امام اور پیشوا قرار دیا ! ابرا ہیم نے عرض کیا : میری ذریت میں بھی اس عہد کو قرار دے گا؟ فر مایا : میرا یہ عہد ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا ۔
آیت شریفہ کے ]مضمو ن اور ابرا ہیم کے امتحا ن دینے کی کیفیت[ سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام رسولوں ، انبیاء اور ائمہ کے خوا ب جھوٹ سے محفو ظ بلکہ صادق ہوتے ہیں اور خدا وند عالم انھیں خواب میں بھی غلطی اور اشتباہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔ (٣)
جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ راہ اہل بیت کی قرآن کریم سے مطا بقت اور ہماہنگی کا ایک نمونہ تھا۔
..............
(١) تحریم٦
(٢) بقرہ ١٢٤
(٣) شیخ مفید ، اوائل المقا لا ت، ص ٤١۔

مکتب اہل بیت میں''عقل'' کا مقام
مکتب اہل بیت کا نظریہ عقل کے استعمال اور اس کی اہمیت کے متعلق ایک درمیا نی نظریہ ہے جو معتزلہ کی تند روئی اور شدت پسندی سے اور اہل حدیث کے ظاہر بین افراد کی سستی اور جمود سے محفو ظ ہے ۔
شیخ مفید]متوفی ٤١٣ ھ[ کہتے ہیں:
یہ جو بات اما میہ کے مخا لفین کہتے ہیں:'' تمہا رے ائمہ کی امامت پر صر یح اخبار تو اتر کی حد کو نہیں پہنچتے ہیں اور آحاد خبریں حجت نہیں ہیں'' ہمارے مکتب کے لئے ضرر رساں نہیںہے اور ہماری حجت و دلیل کو بے اعتبار نہیںکرتی ، کیو نکہ ہماری خبریں '' عقلی دلا ئل کے ہمراہ ہے ، یعنی وہ دلا ئل ما ضی میںجن کی تفصیل اما موں کی امامت اور ان کے صفا ت کے بارے میں گزر چکی ہے ، وہ دلا ئل (جیسا ہمارے مخا لفین نے تصور کیا ہے) اگر باطل ہوں ، تو '' ائمہ پر نص کے وجوب کے عقلی دلا ئل'' بھی باطل ہو جائیں گے …۔''(١)
اور یہ بھی کہتے ہیں:'' ہم خدا کی مرضی اور اس کی تو فیق سے ، اس کتا ب میں مکتب شیعہ اور مکتب معتزلہ کے درمیا ن فرق اور عدلیہ شیعہ اور عدلیہ معتز لہ کے درمیا ن افترا ق وجدا ئی کے اسباب کا اثبات کریں گے۔''(٢)
شیخ صدوق محمدبن با بویہ (متوفی ٣٨١ ھ) فر ماتے ہیں: '' … خدا وند عالم کسی سبب کی سمت دعوت نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کی حقا نیت کو عقو ل میں اجاگر کر دے اور اگر اس کی حقانیت کو عقلوں میں اجاگر اور روشن نہ کیا ہو تو دعوت نا روا اور بے جا ہو گی اور حجت نا تمام کہلا ئے گی ، کیو نکہ اشیا ء اپنے اشکال کو جمع کرنے والی اور اپنی ضد کے بارے میں خبر دینے وا لی ہیں، لہٰذا اگر عقل میں رسو لوں کے انکا ر کی جگہ اور گنجائش ہو تی تو خداوندعالم کسی پیغمبر کو ہرگزمبعوث نہ کرتا۔ '' (٣)
..............
(١)شیخ مفید؛ '' المسائل الجارودیہ'' ص٤٦، طبع، شیخ مفید،ہزار سالہ عالمیکانفرنس ،قم، ١٤١٣ھ .
(٢)شیخ مفید؛ ''اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات''
(٣) ابن بابویہ ؛ ''کمال الدین و تمام النعمة '' طبع سنگی ، تہران ، ١٣٠١ ھ .
مزید کہتے ہیں: اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ کہا جا ئے : ہم نے خدا کو اس کی تا ئید و نصرت سے پہچانا، کیو نکہ ، اگر خدا کو اپنی عقل کے ذریعہ پہچا نا تو وہی عقل عطا کر نے والا ہے اور اگر ہم نے اسے انبیائ، رسولوں اور اس کی حجتوں کے ذریعہ پہچا نا تو اسی نے تمام انبیاء رسو لوں اور ائمہ کا انتخاب کیا ہے اور اگر اپنے نفس کے ذریعہ معر فت حا صل کی تو اس کا بھی وجو د میںلا نے وا لا خدا وند ذوالجلا ل ہے لہٰذا اسی کے ذریعہ ہم نے اس کو پہچا نا۔ ''(١)
اس طرح سے عقل کا استعمال اور اس سے استفا دہ کر نا ، یعنی اس کا کتاب ، سنت اور ائمہ معصو مین کے ہمرا ہ کر نا اہل بیت کی رو ش کے علاوہ کہیں کسی دوسری اسلا می روش میں نہیں ملتا ہے۔
امام جعفر صادق ـاس سلسلہ میں فر ماتے ہیں :'' لولا اللہ ماعرفنا ولولانحن ماعرف اللہ'' اگر خدا نہ ہو تا تو ہم پہچا نے نہیںجاتے اور اگر ہم نہ ہوتے تو خدا پہچا نا نہیں جاتا۔ (٢)
اس حدیث کی شرح میں شیخ صدوق کہتے ہیں: یعنی اگر خدا کی حجتیں نہ ہو تیں تو خدا جیسا کہ وہ مستحق اور سزا وار ہے پہچا نا نہیں جاتا اور اگر خدا نہ ہو تا تو خدا کی حجتیں پہچا نی نہیں جاتیں۔''(٣)

کلا می منا ظرہ اور اہل بیت ـ کا نظریہ
گزشتہ بحثو ں میں ان لوگو ں کے نظر یہ سے آگا ہ ہوچکے جو دین میں بطور مطلق ہر طرح کے بحث و مناظرہ کو ممنو ع جانتے ہیں نیز ان لو گوں کے نظریہ سے آشنا ہو ئے جو معتدل رہتے ہوئے اقسام منا ظرہ کے درمیان تفصیل اور جدائی کے قا ئل ہیں۔
اہل بیت کی روش بھی اس سلسلے میں معتدل اوردر میا نی ہے، وہ لوگ کتاب خدا وند ی کی پیر وی میں جدال کی دو قسم کرتے ہیں:
١ ۔جدا ل حسن
٢ ۔ جدا ل قبیح
خدا وند متعال فرما تا ہے:
..............
(١) توحید شیخ صدوق ؛ ص ٢٩٠.
(٢)توحید صدو ق، ص٢٩٠
(٣)توحید صدو ق، ص٢٩٠
(اُدع اِلیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم با لتی ھی احسن اِنَّ ربّک ھواعلم بمن ضلَّ عن سبیلہ وھوأعلم بالمھتدین)
( لوگو ں کو) حکمت اور نیک مو عظہ کے ذریعہ سے اپنے ربّ کے راستہ کی طرف دعوت دو اور ان سے نیک روش سے جدا ل و منا ظرہ کرو تمہا را ربّ ان لوگوں کے حال سے جو اس کی راہ سے بھٹک چکے اور گمراہ ہوگئے ہیں زیا دہ وا قف ہے اور وہی ہدا یت یا فتہ افراد کو بہتر جانتا ہے۔(١)
اس سلسلہ میں شیخ مفید فر ماتے ہیں:
] ہمارے ائمہ[صادقین نے اپنے شیعوں کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ وہ اظہا ر حق سے بازرہیں اوراپنا تحفظ کریں'' اور حق کو اپنے اندر دین کے دشمنو ں سے چھپا ئے رکھیں اوران سے ملا قات کے وقت اس طرح برتاؤ کریں کہ مخا لف ہونے کا شبہ ان کے ذہن سے نکل جائے، کیو نکہ یہ روش اس گروہ کے حا ل کے لئے زیا دہ مفید تھی ، نیز اسی حا ل میں شیعوں کے ایک دوسرے گروہ کو حکم دیا کہ مخا لفین سے بحث و مناظرہ کرکے انھیں حق کی سمت دعوت دیں ،کیو نکہ ہما رے ائمہ جا نتے تھے کہ اس طریقہ سے انھیں کو ئی نقصان نہیں پہنچے گا۔'' (٢)
شیخ مفید کی اپنی گفتگو میں'' صا دقین'' سے مراد رسول خدا ۖ کی عترت سے '' منصوص ائمہ'' ہیں کہ خداوندعالم نے اپنی کتا ب میں جن کی طہارت کی گو ا ہی دی اور انھیں گناہ و معصیت سے پاک و پاکیزہ قرار دیا اور انھیں مخا طب قرار دے کر فر مایا ہے:
( اِنّما یر ید اﷲ لیذ ھب عنکم الرّجس أھل البیت ویطھِّرَکم تطھیرا ً)(٣)
خدا وند عالم کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
خدا وند عالم نے امت اسلامی کو بھی تقوائے الٰہی اور عقیدہ و عمل میں ان حضرات کی ہمرا ہی کی طرف دعوت دیتے ہو ئے فر ماتا ہے:
( یا أیھا الذ ین آ منوا اتّقوا اﷲ وکونو امع الصَّا دقین)(٤)
اے اہل ایمان ! تقوائے الٰہی اختیا ر کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ!
..............
(١)نحل ١٢٥
(٢)شیخ مفید ؛'' تصحیح الاعتقاد ''ص ٦٦.
(٣) احزاب ٣٣ .
(٤)توبہ ١١٩.
بیشک وہ ایسے امام ہیں جن کے اسما ئے گرامی کو رسول خدا ۖ نے صرا حت کے ساتھ بیان فر مایا اور ہر ایک امام نے اپنے بعد والے امام کا بارہ اماموں تک واضح اور آشکار تعار ف کرا یا ہے، ان کے اولین وآخرین کے نام اور عدد پر نص اورصراحت رسول گرامی ۖ کی سنت میں مو جو د ہے ، جو چا ہے رجو ع کر سکتا ہے۔(١)

عقل وحی کی محتا ج ہے
منجملہ ان باتوں کے جو عقل و شرع کے درمیان ملا زمہ کے متعلق مکتب اہل بیت میں تا کید کرتی ہیں وہ صدوق رحمة اﷲ علیہ کی یہ بات ہے ،وہ کہتے ہیں:] عقل وحی کی محتا ج ہے[ لیکن حضرت ابرا ہیم خلیل کا استدلال کہ ز ہرہ کی طرف نظر کر کے اس کے بعد چا ند اس کے بعد سورج کی طرف نظر کرکے ان کے ڈوبنے کے وقت کہا :
(یا قوم اِنّی بریٔ ممّا تشرکون)(٢)
اے میری قوم! میں ان شر کا ء سے جو تم خدا کے لئے قرار دیتے ہو بیزار ہوں۔
یہ کلام اس وجہ سے تھا کہ آپ ملہم نبی اور الہام خدا وندی کے ذریعہ مبعوث پیغمبر تھے، کیو نکہ خدا وند عالم نے خود ہی فر مایا ہے:
( و تلک حُجَّتُنا ئَ اتینا ھا اِبرا ہیم علیٰ قو مہ) (٣)
یہ ہمارے دلا ئل تھے جن کو ہم نے ابرا ہیم کو ان کی قوم کے مقا بلہ میں عطا کیا ۔
اور تما م لوگ ابرا ہیم کے مانند ( غیبی الہام کے مالک) نہیں ہیں ، اگر ہم تو حید کی شنا خت میں خدا کی نصرت اوراس کی شناسائی کرا نے سے بے نیاز ہو تے اور عقلی شنا خت ہمارے لئے کا فی ہو تی تو خدا وند سبحان پیغمبر اکرم ۖ سے نہیں فرماتا:
(فا علم ٔانّہ لا اِلہ اِلاَّ اﷲ) (٤)
پھر جان لو کہ اﷲ کے علا وہ کو ئی معبو د نہیں ہے۔
ابن بابویہ کی مراد یہ ہے کہ عقل بغیر وحی کی نصرت و تا ئید کے جیسا خدا کو پہچا ننا چاہئے نہیں پہچا ن سکتی ، نہ
..............
(١)ابن عباس،جوہری '' مقتضب الاثر فی ا لنص علی عدد الائمہ الاثنی عشر''؛ابن طولون الدمشقی، الشذرات الذھبیہ فی ائمہ الاثناء عشریہ''؛المفید، المسائل الجارودےة ،ص ٤٥، ٤٦.طبع ہزار سالہ شیخ مفید کانفرس قم،١٣ ١٤ھ ؛''اثبات الھداةبالنصوص والمعجزات''شیخ حر عاملی تحقیق: ابو طالب تجلیل طبع قم، ١٤٠١ھ ، ملاحظہ ہو .
(٢) سورہ انعام ٧٨.
(٣)سورہ انعام ٨٣.
(٤)سورہ محمد ١٩.
یہ کہ عقلی نتا ئج بے اعتبار ہیں۔(١)
یہی مطلب شیخ مفید کی بات کا بھی ہے کہ فر ماتے ہیں : عقل مقد مات اور نتا ئج میں وحی کی محتا ج ہے۔(٢)
لیکن اسی حال میں ،وہ خو د عقل کے استعما ل کو عقائد اسلا می کے سمجھنے میں تقو یت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: خدا کے بارے میں گفتگو کر نے کی مما نعت صرف اس لئے ہے کہ خلق سے خدا کی مشا بہت اور ظلم و ستم کی خالق کی طرف نسبت دینے سے لوگ با ز آئیں۔(٣)
انھوں نے عقل و نظر کے استعمال کے لئے مخا لفین سے احتجا ج کرنے میں دلیل پیش کی ہے اور ان لوگوں کو فکر (رائے )و نظر کے اعتبا ر سے نا تواں اور ضعیف تصور کرتے ہوئے فر ما تے ہیں :
'' عقل و نظر کے استعما ل سے رو گردانی کی باز گزشت تقلید کی طرف ہے کہ جس پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ وہ مذموم اور نا پسند ہے۔''(٤)

نقل کا مرتبہ
پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ '' عقل '' اہل بیت کے مکتب میں اپنی تمام تر ارزش و اہمیت کے با وجود ''معرفت دینی '' میں نور وحی سے بے نیا ز نہیں ہے اور اس سے کو ئی بھی کلا می اور اسلامی مکتب فکر انکا ر نہیں کرتا، جو کچھ بحث ہے نقل پر اعتماد کے حدود کے سلسلے میں ہے ، کیو نکہ نقل ( یہا ں پر اس سے مراد حدیث ہے چو نکہ قرآن کریم کی نقل متو اتر اور قطعی ہے ) کبھی ہم تک متو اتر صورت میں پہنچتی ہے ، یعنی راویوں اور نا قلین کی کثرت کی وجہ سے ہر طرح کے شکو ک و شبہا ت بر طرف ہو جاتے ہیں، اس طرح سے کہ انسان کو رسول اکرم ۖ یا عترت طاہرہ یا آنحضرت ۖ کے اصحاب سے حدیث صا در ہو نے کا اطمینا ن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن کبھی حدیث اس حد کو نہیں پہنچتی ہے، بلکہ صرف ظن قوی یا گمان ضعیف حا صل ہو تا ہے اور کبھی اس حد تک پہنچتی ہے کہ اسے خبر واحد کہتے ہیں ، یعنی وہ خبر جو ایک آدمی نے روایت کی ہو اورصرف ایک شخص اس خبرکے معصو م سے صا در ہو نے کا مد ّ عی ہواس حالت میں بھی بہت سارے مقا مات پر شک و جہل کی طرف ما ئل ظن اور گمان پیدا ہوتا ہے۔
مکتب اہل بیت کا اس آخری حالت میں موقف یہ ہے:
..............
(١) توحید :ص ٢٩٢.
(٢)شیخ مفید ؛ '' اوائل المقالات '' ص ١١۔١٢.
(٣)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ٢٦، ٢٧.
(٤)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ٢٨، طبع شدہ یا اوائل المقالات ، تبریز ، ١٣٧٠ ، ھ ، ش .
'' اس طرح کی روایات کے صدق و صحت پر اگر کوئی قرینہ نہ ہو توقا بل اعتماد اور لا ئق استنا د نہیں ہیں۔''

عقائد میں خبر واحد کا بے اعتبار ہو نا
مکتب اہل بیت میں خبر واحد پر بے اعتما دی جب عقید تی مسا ئل تک پہنچتی ہے توجو کچھ ہم نے کہا اس سے بھی زیا دہ شدید ہو جا تی ہے ، کیو نکہ عقائد اپنی اہمیت کے ساتھ ضیعف دلا ئل اور کمزور برا ہین سے ثا بت نہیں ہوتے ہیں ،با لخصوص ہمارے زمانہ میں جب کہ ہمارے اور رسول اکرم ۖ نیز سلف صالح کے زمانے میں کافی فا صلہ ہوگیاہے اور ہم پرفرض ہے کہ کافی کو شش و تلا ش کے ساتھ مشکو ک اور گمان آور باتوں سے اجتناب کرتے ہوئے یقینیا ت یقین کرنے والی باتیں یا جو ان سے نز دیک ہوں ان کی طرف رخ کریں، تاکہ ان فتنوں اور جدلی اختلافات اور جنجالوں میں واقع ہونے سے محفوظ رہیںجودین اور امت کے اتحا د کو بزرگترین خطرہ سے دوچار کرتے ہیں۔
شیخ مفید اس سلسلے میں فرما تے ہیں :
'' ہمارا کہنا یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ اخبار آحاد سے آگاہی اور ان پر عمل کرناواجب نہیں ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے دین میں خبر واحد کے ذریعہ قطع و یقین تک پہنچے مگر یہ کہ اس خبر کے ہمرا ہ کو ئی قرینہ ہو جو اس کے راوی کے بیان کی صدا قت پر دلا لت کرے ،یہ مذ ہب تمام شیعہ کا اور بہت سے معتز لہ ، محکمہ کا اور مرجئہ کے ایک گروہ کا ہے کہ جو عامہ کے فقیہ نما افراد اوراصحاب رائے کے خلاف ہے ۔'' (١)
جی ہاں! عقید تی مسا ئل میں مکتب اہل بیت کے پیرو محتا ط ہیں کیو نکہ اہل بیت نے اپنے ما ننے وا لوں کو احتیاط کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب ورع وہ ہے جو شبہا ت کے وقت اپنا قدم روک لے اور احتیا ط سے کام لے۔

بحث کا خاتمہ
اب ہم اپنی بحث کے خاتمہ پرعقائد اسلامی سے متعلق مکتب اہل بیت علیہم السلام کی روش بیان کرنے اس سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اہل بیت کا نہج اور راستہ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے کامل اور اکمل نہج اور راستہ ہے ، جو اپنی جگہ پر شناخت کے تمام وسا ئل سے بہر ہ مند ہے ،مثا ل کے طور پر الہٰیا ت کے مسائل اور باری تعالیٰ کے صفات کو تجر بہ کی راہ سے درک نہیں کرتا ، کیونکہ یہ مسا ئل ایسے وسائل کی دسترس سے
..............
(١)اوائل المقالات ، ص ١٠٠،طبع تبریز ١٣٧٠ ،ھ ش.
دور ہیں ، اسی طرح ایک وسیلہ پر جمو د اوراڑے رہنے جیسے با طنی اشرا ق اورصوفی عشق و ذوق کو بھی جا ئز نہیں سمجھتا، جس طرح کہ عقل کے بارے میں بھی زیادہ روی اور غلو سے کام نہیں لیتا اور اسے مستقل اور تمام امور (منجملہ ان کے غیب اورنہاں نیز جزئیات معاد) کا درک کرنے والا نہیں جانتا اور وحی (نقل)کے بارے میںکہتا ہے کہ وحی کا درک کرنا نور عقل سے استفادہ کئے بغیر نا ممکن ہے۔
اہل بیت کا مکتب یہ ہے کہ جو بھی روایت ، سنت اور نقل کی صورت میںہو-جب تک کہ اس کی نسبت کی صحت پیغمبر اکرم ۖ ، ائمہ اور صحا بہ کی طرف ثا بت نہ ہو نیز جب تک اس کا تمام نصوص اورقرآن کی تصریحات سے مقابلہ نہ کرلے اور اس کے عام و خاص ، ناسخ و منسوخ ، محکم و متشا بہ اور حقیقت و مجا ز کو پہچا ن نہ لے، اس وقت -تک اس کے قبول کرنے میں سبقت نہیں کرتا، مختصر یہ کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام اس ''اجتہا د '' پر موقوف ہے جونصوص سے شرعی مقصود کے سمجھنے میں جد و جہد اور قوت صرف کرنے اور اپنی تما م تر تو انائی کا استعمال کر نے کے معنی میں ہے، اس کے با وجود نقد وتحقیق اور علمی منا ظرہ اور منا قشہ سے -جب تک عوا طف وجذبات کو بر انگیختہ نہ کیا جائے، یا دشمنی نہ پیدا ہو- نہ صرف یہ کہ منع نہیں کرتا بلکہ اسے راہ پروردگار کی طرف دعوت ، جدال احسن،حکمت اور مو عظۂ حسنہ سمجھتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے:
( و الّذین آمنوا وعملو االصا لحا ت لا نُکلّف نفساً اِلَّاو سعھا اولآ ئک أصحاب الجنّة ھم فیھا خا لدون)( ونزعنا ما فی صدورھم من غلّ تجری من تحتھم الأنھاروقالوا ألحمد للّہ الذی ھدا نا لہٰذا وما کُنا لنھتدی لو لاأن ھدا نا اﷲ لقد جائت رُسل ربّنا بالحقّ و نو دوا أن تلکم الجنّةأورثتمو ھا بما کنتم تعملون)(١)
اورجو لوگ ایمان لا ئے اور عمل صا لح انجام دیا ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتے، وہ اہل بہشت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جو ان کے دلوں میں کینہ ہے، اسے ہم نے یکسر ختم کردیا ہے ، ان کے نیچے نہریں جا ری ہیں،وہ کہتے ہیں: خدا کی ستا ئش اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیںاس راستہ کی ہدایت کی'' ایسا راستہ کہ اگر خدا ہماری ہدا یت نہ کرتا تو ہم راہ گم کر جاتے! یقینا ہمارے ربّ کے رسول حق لائے !( '' ایسے مو قع پر) ان سے کہا جا ئے گا : یہ بہشت ان اعمال کے عوض اور بدلے میں جو تم نے انجام دئے ہیں، تمھیںبطور میرا ث ملی ہے ۔
..............
(١)اعراف ٤٢،٤٣