اسلام کے عقائد(دوسری جلد )
 

(٩)
ملحقات
اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری(١)
اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب(٢) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
١۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.
٢۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔
٣۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔
٤۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔
٥۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔
ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔
..............
(١) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ١٠، سال سوم ١٤١٥ ھ، ق.(٢) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج١، ص ٤٦پانچواں ایڈیشن، بیروت، ١٤٠٥ھ، ١٩٨٥ ئ.

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ
مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمۖ کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو ل ۖخدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔
نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبر ۖ کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتۖ نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:
احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خدا ۖ اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔(١)
قرآن کر یم اور پیغمبر ۖ کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے
..............
(١)مسند احمد ج٣،ص١٧٨تا ١٩٦.
زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرم ۖ اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !(١)
لیکن پیغمبر اکرم ۖ کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔
١۔ پیغمبر اکر م ۖ کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔(٢)
٢۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

١۔خالص نقلی مکتب۔
٢۔ خالص عقلی مکتب
٣۔ ذو قی و اشراقی مکتب
٤۔ حسّی و تجر بی مکتب
٥۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:
'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ٢٤١ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات
..............
(١)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ٣٤١،٣٤٢ ،اورڈاکٹرمحمد حمیداﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج١،ص٧.
(٢)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ١، ص ٣٤، ٣٩ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ٢، ص ١١١ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.
کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میںاہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔
ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔
احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔
احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔
زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!
تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرۖ کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمۖ نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :
( ھلک المتعمقون، ھلک المتعمقون ،ھلک المتعمقون)
غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!
یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔(١)
یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:
'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد اﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ(٢)کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے (٣)
اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔
..............
(١)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).
(٢)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج٤ ، ص ٣٠٠.
(٣)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص٢٦٦-٢٦٧.
انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔(١)
اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔
اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔
البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔(٢)
اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں'' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(١٥٩٦۔١٦٥٠ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیںڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔(٣)
..............
(١) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص٢٥، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ٦٦، ٦٧.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول .
(٢)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج٣ ،ص ٣٠٦ ، ٣٠٧.(٣)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ٥تا ٢٠.
یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(٤٥٠۔٥٠٥ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میںعقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔
غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔
اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔٥٩٥ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں'' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔
پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔
مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔(١) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب ]نجد کا علا قہ[ ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔(٢)

ب: خالص عقلی مکتب
اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔
(١) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ٢٥٢.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ٢٠٢ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ١٩٤ تا ١٩٥،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ١٥٤، ١٦٧، ٢٠٤ ، ٢٤٠ ، ٤٢٤، ٤٣٩ .(٢)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ٥٦۔ ٥٧.
اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا] ٨٠ھ، ١٣١ ھ[ اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''] ٨٠ ھ۔ ١٤٤ھ[ منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ٤١٥''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں'' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔
یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔
عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔
معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔
اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔(١)
فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :
١۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔
٢۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے
٣۔ ''المنز لة بین المنز لتین''
یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔
٤۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔
٥۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔(٢)

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ
'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ٣٢٤ ھ ) خودابتدا میں( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ٣٠٠ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام
..............
(١)زھدی حسن جار اﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ١٩٧٤ ئ.
(٢) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن اﷲ الوا حد الصمد'' ج،١،ص ١٠٥۔
کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔
ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ٣٣٣ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میںآراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔(١)
اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔(٢)
..............
(١)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة اﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ١،٢، ٤، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ١١٨۔ ١٣٠، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م) .
(٢)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ٣، ص ٣٩١ . الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ٣، ص٣٤٣. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ١٤، ص ٧٦.

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب
بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے
محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ٣٠٩ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ] کلام و فلسفہ وغیرہ[''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔(١)
بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔ (٢)
ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:
اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔
ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:
کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!
اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟
..............
(١)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ٦٦تا ٦٧.
(٢) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''
تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میںکم نہیں ہے۔(١)
لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔ (٢)

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)
یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔
وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔(٣)
اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔(٤)
اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں'' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا
..............
(١) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ٢، ص٠٤ ٦تا٦٠٦.
(٢) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' . سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ١٤٠٥ ھ ، ١٩٨٥ ئ.
(٣)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.
(٤)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.
سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔ ( ١)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت
اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:
(…فطرة اﷲ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون)سورہ روم :٣٠.
اﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، اﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!
پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور اﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔
..............
(١)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ١١ ۔ ١٤، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ١٤٧۔١٥١ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ٧ ،ص ٣٨٣ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.
اس معنی کی سنت نبویۖ میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خدا ۖ سے ایک روایت میں مذ کور ہے :
'' کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اہ یھو دٰ ا نہ او ینصرٰا نہ او ےُمجسانہ''(١)
ہر بچہ اﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔
راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میںاستعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:
( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل اﷲ یمن علیکم أن ھدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ)(٢)
(اے پیغمبرۖ)وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !
دوسری جگہ فرماتا ہے : ( و لولا فضل اﷲ علیکم و رحمتہ ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ً)(٣)
اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔
اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔(٤)
..............
(١) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ٢٢تا ٢٤.مسند احمد : ج ٢، ص ٢٣٣، ٢٧٥، ٢٩٣، ٤١٠، ٤٨١، ج٣،ص ٣٥٣؛ صراط الحق: آصف محسنی . (٢)سورہ حجرات ١٧
(٣)سورہ ٔ نور ٢١.
(٤) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ١١اور ص ٢٠، پریس داروی قم .
یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔(١)

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی
عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبوی ۖہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:
١۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔
حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :
'' انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاہ و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ہ''(٢)
تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔
٢۔ دوسرے لفظوںمیںہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز
..............
(١)کافی کلینی: ترجمہ ، ج٣، ص ٢، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ١٣٩٢ ھ.
(٢)نہج البلا غہ، حکمت:٢٦٢:
وہ لوگ جو آحاد اور ضیعف روایات کوعقائد میں قبو ل کرتے ہیں اور اس کا شد ت کے سا تھ دفاع کرتے ہیں ، نیز اسی بنا پر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں،''سلفی حضرات '' اور اہل سنت کے اخبا ریوں کو تو جہ کر نا چاہئے کہ روایات میں '' حق و باطل اورسچ وجھوٹ ، ناسخ و منسوخ ،عا م و خاص، محکم و متشا بہ حفظ ( حقیقت )ووہم ''سب کچھ پائے جاتے ہیں ۔(١)
بہت جلد ہی اس مو ضو ع کی مز ید شرح و وضا حت پیش کی جائے گی۔

..............
(١) نہج البلاغہ : خطبہ ٢١٠.
٣۔ اسلامی عقائد دو حصّوں پر مشتمل ہیں: ضروری و نظری:
ضروری اسلامی عقائد:
ضروری وہ ہیں جن کا کوئی مسلما ن انکا ر نہیں کرتا مگر یہ کہ دین کے دائرہ سے خارج ہو جائے کیو نکہ ضروری کا شمار ، دین کے بدیہیات وواضحات میں ہو تا ہے جیسے: تو حید ، نبوت اور معا دوغیرہ۔

نظری اسلامی عقائد:
نظری وہ ہیں جو تحقیق و بر ہان ، شاہد و دلیل کا محتا ج ہو اور اس میںصاحبان آراء و مذا ہب کا اختلاف ممکن ہو ، ضروری عقائد کا منکر کافر ہو جاتا ہے لیکن نظری عقائدکے منکر تکفیر سے روکا گیا ہے۔
٤۔ عقیدہ میں قیا س اور استحسان کی کوئی اہمیت نہیں جا نتے ہیں۔
٥۔ حکم صریح عقلی کی حکم صحیح نقلی سے مقافقت پر ایما ن رکھتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ تمام اوصا ف لازم کی ان دونوں میں ر عایت کی گئی ہو اور کبھی بھی ظن و گمان کو یقین کی جگہ قرار نہیں دیتے وہ لوگ کبھی ضیعف خبر سے استناد نہیں کرتے اور نہ ہی خبر واحد کو صحیح متو اتر کی جگہ اپنا تے ہیں۔
٦۔ ذاتی اجتہا د، خیال بافی اور گمان آفرینی سے عقائد میں اجتناب کرتے ہوئے ان تعبیروں سے جو بدعت شمار ہو تی ہیں کنارہ کشی اختیا ر کر تے ہیں ۔
٧۔ اﷲ کے تمام انبیاء اوربارہ ا ئمہ کو صلوا ت اﷲ اجمعین معصو م جانتے ہیں اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے آثار نیز صحیح و معتبر روایات پر ایمان رکھنا وا جب ہے اور مجتہد ین حضرات ان آثا ر میں کبھی درست اور صوا ب کی راہ اختیا ر کرتے ہیں تو کبھی خطا کر جاتے ہیں ، لیکن وہ اجتہا د کی تما م شرطوں کی رعا یت کریں اور اپنی تمام کوششوں اورصلا حیتوں کو بروئے کار لائیں تو معذورقرار پائیں گے ۔
٨۔ امت کے درمیا ن ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں ''محدَّث'' اور'' مُلھَم'' کہتے ہیں : نیز ایسے لوگ بھی ہیں جو صحیح خواب دیکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ حقائق تک رسائی حا صل کرتے ہیں ،لیکن یہ ساری باتیں اثبات چاہتی ہیں اور ان کااستعمال ذاتی عقیدہ کی حد تک ہے اوراس پر عمل انفرادی دائرہ سے آگے نہیں بڑھتا۔
٩۔عقائد میں منا ظرہ اور منا قشہ اگر افہا م و تفہیم کے قصد سے آداب تقویٰ کی رعا یت کے ساتھ ہو تو پسند یدہ ہے، لیکن یہ انسان کا فریضہ ہے کہ جو نہیں جانتا اس کے بارے میں کچھ نہ کہے ،بحث ومنا ظرہ اگر ضد،ہٹ دھرمی ، خود نمائی کے ساتھ نا زیبا کلمات اور بد اخلا قی کے ذریعہ ہو تو یہ امر نا پسندیدہ اور قبیح ہے اور اس سے عقیدہ کی حفا ظت کے لئے اجتناب واجب ہے۔
١٠ ۔ ''بدعت''دین کے نام پر ایک اختراعی اور جعلی چیز ہے جو کہ دین سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ ہی شریعت میں کوئی اصل رکھتی ہے کبھی ایسی چیز کو بھی '' بدعت'' کہہ دیتے ہیں کہ اگر دقت اور غور و خو ض سے کام لیا جائے تو وہ '' بدعت'' نہیں ہے، جیسا کہ بعض ان چیزوں کو جو'' سنت'' نہیں ہیں سنت کہہ دیتے ہیں ، لہٰذا فتویٰ دینے سے پہلے غور و فکر کر نا لا زم ہے۔(١)
١١ ۔''تکفیر'' کے بارے میں غور و فکر اور دقت نظر واجب ہے اس لئے کہ جب تک کسی کا کفر خود اس کے قرار یا قطعی بینہ ذریعہ ثابت نہ ہو اس کے بارے میں کفر کا حکم جائیز نہیں ہے ، کیو نکہ( تکفیر) حد شر عی کا با عث ہے اور حد شرعی کے بارے میں فقہی قاعدہ یہ ہے کہ ''اِنَّ الحدود تدرأبالشبھا ت'' حدود شبہات سے بر طرف ہو جاتے ہیں اور دوسروںکو کافر سمجھنا عظیم گنا ہ ہے مگر یہ کہ حق ہو۔
١٢ ۔ اختلا فی موارد میں '' کتاب، سنت اور عترت'' کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جیسا کہ رسو ل خدا ۖ نے حکم دیا ہے اور خدا وند عالم اس کے بارے میں فرما تا ہے:
(و لو ردُّوہُ أِلی الرسو ل و أِلی أولی الأمر منھم لعلمہ الذین یستنبطو نہ منھم و لولافضل اﷲ علیکم و رحمتہ لا تَّبعتُمُ الشَّیطان اِلاَّ قلیلا ً)(٢)
اوراگر( حوادث اور پیش آنے والی باتوں کے سلسلہ میں) پیغمبرۖ اور صاحبان امرکی طرف رجوع کریں تو انہیںبنیا دی مسا ئل سے آگا ہی و آشنائی ہو جائے گی ، اگر تم پرخدا کی رحمت اور اس کا فضل نہ ہو تا تو کچھ لوگوں کے علا وہ تم سب کے سب شیطان کی پیروی کرتے۔
..............
(١)سید مرتضی علی ابن الحسین الموسوی ( وفات ٤٣٦ ھ ، رسائل الشریف المرتضی ، رسالة الحدود والحقائق.
(٢) نساء ٨٣ .
١٣ ۔ خدا وند عالم کے صفات سے متعلق اہل بیت کا نظریہ یہ ہے:
'' خدا وند عالم؛ حی ،قادر اور اس کا علم ذاتی ہے ، یعنی حیات ،قدرت اورعلم عین ذات ِ باری تعا لیٰ ہے، خدا وند سبحان( مشبہّہ اور بد عت گزا روں جیسے ابو ہا شم جبائی کے قول کے بر خلاف) زائد بر ذات صفات و
احوال سے منزہ و مبرا ہے، یہ ایسا نظریہ ہے جس پر تمام اما میہ اور معتز لہ( ما سوا ان لوگو ں کے جن کا ہم نے نام لیا ہے ) اکثر مر جئہ تمام زیدیہ اور اصحا ب حدیث و حکمت کے ایک گروہ کا اتفاق ہے(١) ان کا اثبا ت و تعطیل کے درمیا ن ایک نظریہ ہے یعنی با و جو د یکہ خدا وند سبحا ن کو زا ئد بر ذات صفات رکھنے سے منزہ جانتے ہیں لیکن اﷲ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات سے متعلق بحث کو ممنوع اور بے فا ئدہ نہیں جانتے ہیں''۔
١٤ ۔وہ لوگ '' حسن و قبح'' عقلی کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں : بعض اشیاء کے '' حسن و قبح'' کا درک کرنا عقل کے نزدیک بد یہی اور آشکار ہے۔
..............
(١)شیخ مفید؛'' اوا ئل المقا لات'' ص ١٨