اسلام کے عقائد(دوسری جلد )
 

قضا و قدر سے متعلق ائمہ اہل بیت کی روایات
پہلی روایت:
صدوق نے کتا ب تو حید میں اپنی سند کے سلسلہ کو امام حسن مجتبی تک لے جاتے ہوئے اور ابن عسا کر نے تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا ہے: (عبارت صدوق کی ہے)
'' دخل ر جل من أھل العراق علی أمیر المؤمین فقال : اخبر نا عن خروجنا الی اھل الشام أبقضا ء من اﷲ وقدر ؟
فقال لہ أمیر المومنین أجل یا شیخ ، فواﷲ ما علو تم تلعة ولا ھبطتم بطن واد ٍ الّا بقضا ء ٍ من اﷲ و قدر ٍ ، فقال الشیخ: عند اﷲ احتسب عنا ئی یا أمیر المومنین ، فقال مھلا ً یا شیخ! لعلک تظن قضا ء ً حتما ً و قدرا ً لا ز ما ً، لو کان کذلک لبطل الثواب وا لعقاب و الامر والنھی و الزَّ جر، و لسقط معنی الوعید والو عد ، و لم یکن علی مسیء ٍ لا ئمة و لا لمحسن محمدة ، و لکا ن المحسن او لیٰ با للا ئمة من المذ نب و المذ نب او لی با لاحسا ن من المحسن تلک مقا لة عبدة الا وثان و خصماء الرحمان و قد رےة ھذہ الأمة و مجو سھا، یا شیخ! ان اﷲ عز وجل کلف تخییرا ً، ونھی تحذیرا، واعطی علی القلیل کثیرا ً و لم یعص مغلو با ، و لم یطع مکر ھاً و لم یخلق السموا ت و الأر ض و ما بینھما با طلا ً ذلک ظن الذین کفروا فو یل للذین کفر وا من النّا ر''
ایک عرا قی حضرت امیر المو مین کے پاس آیا اور کہا : کیا ہمارا شا میوں کے خلاف خروج '' ْقضا و قدر الٰہی '' کی بنیا د پر ہے ؟ امام نے اس سے فر مایا ! ہاں ، اے شیخ ! خدا کی قسم کسی بلندی پرنہیں گئے اور نہ ہی کسی وادی کے درمیان اترے مگر ! قضا وقدر الہٰی کے تحت ایسا ہوا ہے، اس شخص نے کہا : امید کرتا ہوں کی میری تکلیف خدا کے نز دیک کسی اہمیت کی حامل ہو۔(١)
امام نے اس سے کہا :ٹھہر جا اے شیخ ! شاید تو نے خیال کیا کہ ہم قضا و قدر کو بیان کررہے ہیں اگر ایسا ہوتو ثواب و عقاب ، امر و نہی اور زجر سب باطل ہو جائے ، ڈرانا اور بشارت دینا بے معنی ہو جائے ، نہ گنا ہگار کی ملا مت بجا ہوگی اورنہ نیکو کار کی ستا ئش روا ، بلکہ نیکو کار بد کار کی بہ نسبت ملامت کا زیا دہ سزا وار ہو گا(٢) اور گنا ہگا ر نیکی کا نیک شخص سے زیادہ سزاوار ہوگا،یہ سب بت پر ستوں ، خدا وند رحما ن کے دشمنوں اوراس امت کے ''قدریوں'' اور مجو سیوں کی باتیں ہیں ! اے شیخ! خدا وند عز وجل نے بندوں کو مکلف بنا یا ہے تا کہ وہ اپنے اختیار سے کام کریں اور انھیں نہی کی تا کہ وہ خود اس سے باز رہیں اور معمولی کام پر زیا دہ جزا دے ، مغلوب ہو کر یعنی شکست خوردگی کے عالم میںاس کی نافرمانی نہیں ہو ئی اور زبر دستی اس کی اطا عت نہیں ہو ئی اس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان تمام مو جو دات کو بے کار اور لغو پیدا نہیں کیا ، یہاں لو گوں کا گمان ہے جو کا فر ہوگئے ہیں ، پس ان لوگوں پر وائے ہو جو آتش جہنم کے عذاب کا انکار کرتے ہیں۔(٣)
روای کہتا ہے: وہ شخص اٹھا اور یہ ا شعار پڑھنے لگا:
أنت الاِمام الذّی نرجو بطا عتہ :: یوم النِّجا ة من الرّحمن غفرا ناً
أوضحت من دینِنا ما کان مُلتبساً :: جزا ک ر بُّک عنّا فیہ اِحسا نا ً
فلیس معذرة فی فعل فا حشة :: قدکُنت راکبھا فسقا ً و عصیا نا ً
تم و ہی امام ہو جس کی اطا عت کے ذریعہ قیا مت کے دن ہم خدا وند رحمن سے عفو و بخشش کے امید وار ہیں ۔ تم نے ہمارے دین سے یکبا رگی تمام شکوک و شبہات کو دور کر دیا ہم تمہا رے رب سے در خواست کرتے ہیں کہ وہ تمھیں اس کی نیک جز ا دے۔ لہٰذا اس واضح او رروشن بیان کے بعدمجھ سے کوئی گناہ سر زد نہ
..............
(١)یعنی اگر ہمارا خرو ج اور جہاد کر نا'' قضا و قدر'' الٰہی کی بنیا د پر ہے تو جز ا کے مستحق نہیں ہیں ، پس میں امید وار ہوںکہ ہماری مشقت وزحمت راہ خدا میں محسوب ہو اورہم ان لوگوں کے اعمال کی ردیف میں واقع ہو جو قیا مت کے دن خدا کے فضل ورحمت کے سایہ میں ہوں گے۔
(٢) کیو نکہ دو نوں در اصل مسا وی اور برا بر ہیں چو نکہ عمل ان کے ارادہ اور اختیار سے نہیں تھا، دوسری طرف چو نکہ نیکو کار لوگوں کی ستا ئش کا مستحق ہو تا ہے اوراسے اپنا حق سمجھتا ہے جب کہ ایسا نہیںہے ، اس گمان و خیال کی بنیاد پر وہ شخص گنا ہگار سے زیا دہ ملامت کا حقدار ہے، کیو نکہ گناہ گارلو گوں کی ملا مت کا نشا نہ بنتا ہے اور وہ خو د کو اس ملامت کا مستحق جا نتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ، لہٰذا اس پر احسا ن ہو نا چاہئے تا کہ لوگوں کے آزارو اذیت اور ان کی سر ز نش و ملا مت بر داشت کر نے کی اس سے تلا فی کر ے، نہ کہ نیکو کا ر پر احسان ہونا چاہیئے سے۔
(٣)سورہ ٔ ص کی ٢٧ ویں آیت سے اقتبا س ہے.
ہو کہ جس پر نہ معذرت کر سکوں اور نہ میری نجا ت ہو ۔

دوسری روایت
ائمہ اہل بیت میں سے چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق سے دوسری رو ایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
''اِنَّ النا س فی القدر علیٰ ثلا ثة أو جہ: ر جل زعم أنَّ اﷲ عزَّو جلّ أجبر النّا س علیٰ المعا صی فھذا قد ظلم اﷲ فی حکمہ فھو کا فر، ورجل یز عم انَّ الأمر مفوَّض الیھم فھذا قد أو ھن اﷲ فی سلطا نہ فھو کا فر ، و رجل یز عم انَّ اﷲ کلَّف العباد ما ےُطیقون و لم ےُکلَّفھم ما لا ےُطیقون و اِذاأحسن حمد اﷲ واِذا أسا ئَ استغفر اﷲ فھذا مسلم با لغ''(١)
''قدر'' کے مسئلہ میں لوگ تین گروہ میں تقسیم ہیں:
١۔ جس کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا وند عزو جل نے لوگوں کو گناہ پر مجبور کیا ہے ،اس نے فرمان خدا وندی کے بارے میں خدا پر ظلم کیا ہے اور وہ کافر ہے۔
٢۔ جس کا عقیدہ ہے کہ تمام امور لو گوں کے سپر د کر دئے گئے ہیں،اس نے خدا کواس کی قدرت اور بادشا ہی میں ضعیف و نا توا ں تصور کیا ہے لہٰذا وہ بھی کا فر ہے۔
٣۔جس کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا وندسبحان نے بندوں کو انھیں چیزوں پر مکلف بنایا ہے جن کی وہ طاقت رکھتے ہیں اور جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے اس کا ان سے مطا لبہ نہیں کیا ہے، وہ جب بھی کو ئی نیک کام کرتا ہے تو خدا کی حمد ادا کر تا ہے اور اگر کوئی بُرا فعل سر زد ہو تا ہے تو خدا سے مغفر ت اور بخشش طلب کرتا ہے ، یہ وہی مسلما ن ہے جس نے حق کو درک کیا ہے۔

تیسری روایت:
ائمہ اہل بیت میں سے آٹھو یں امام ، حضرت امام علی بن مو سیٰ الر ضا سے ہے کہ آپ نے فرما یا:
١۔''انَّ اﷲ عزّ وجلَّ لم یطع بِأِکراہٍ، ولم یعص بغلبةٍ و لم ےُھمل العباد فی ملکہ، ھو المالک لما مَلَّکَھم و القا در علیٰ ما أقد ر ھم علیہ فاِن ائتمر العباد بطا عتہ لم یکن اﷲ منھا
..............
(١)توحید صدوق، ص٣٦٠،٣٦١.
صا دّا ً، و لا منھا ما نعا ً، واِنِ أئتمر وا بمعصیتہِ فشا ء أن یحول بینھم و بین ذلک فعل و اِن لم یحل و فعلوہُ فلیس ھو الذّی اد خلھم فیہ''(١)
خدا وند عالم کی جبر و اکرا ہ کے ذریعہ اطا عت نہیں کی گئی ہے نیز ضعف و شکست اور مغلو ب ہو نے کی بنا پر اس کی نا فرمانی نہیں کی گئی، اس نے اپنے بندوں کو اپنی حکو مت اور مملکت میں لغو و بیہو دہ نہیں چھو ڑا ہے، وہ ان تمام چیزوں کا جس پر انھیں اختیا ر دیا ہے مالک ہے اوران تمام امور پر جس کی تو انائی دی ہے قا در ہے اگر بندے اطاعت گزار ہوں تو خدا ان کے را ستوں کو بند نہیں کر ے گا اور اطا عت سے انھیں نہیں رو کے گا اور اگر وہ لوگ نافر مانی و عصیا ن کے در پے ہوں گے اور وہ چا ہے کہ گناہ اور ان کے درمیا ن فا صلہ ہو جائے تو وہ کر دے گا اور اگر گناہ سے نہ رو کا اور انھوں نے گناہ انجام دیا، تو اس نے ان لوگوںکو گناہ کے راستہ نہیں پرڈالاہے۔
یعنی جو انسا ن خدا کی اطاعت کرتا ہے وہ اس اطاعت و پیر وی پر مجبور نہیں ہے اور جو انسا ن خدا کی نافرمانی کرتا ہے وہ اﷲ کی مر ضی اورا س کے ارادہ پر غا لب نہیں آگیا ہے بلکہ یہ خو د خدا ہے جو یہ چا ہتا ہے کہ بندہ اپنے کا م میں آزاد و مختار ہو۔
٢۔ اور فرمایا: خدا وند متعا ل فرماتا ہے:
( یاابن آدم بمشیئتی کُنت انت الذّی تشائُ لنفسک ما تشائ، و بقوَّ تی ادَّ یت الیّ فرا ئضی، و بنعمتی قویت علی معصیتی، جعلتک سمیعا ً بصیرا ً قو ےّاً، ما اصا بک من حسنةٍ فمن اﷲ و ما أصا بک من سےِّئة ٍ فمن نفسک)(٢)
اے فرزند آدم! میری مشیت اور مر ضی سے تو انتخاب کر نے وا لا ہو گیا ہے اور جو چاہتا ہے اپنے لئے اختیا ر کر لیتا ہے اور میری ہوئی طا قت سے میرے واجبا ت بجا لا تا ہے اور میری ہی نعمتیں ہیں جن کے ذریعہ تو میری نا فرمانی پر قادرہے ، میںنے تجھے سننے والا، دیکھنے والا اور طا قتو ر بنایا ہے(پس یہ جان لے کہ) جو کچھ تجھے نیکی حاصل ہو تی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو بد ی تجھ تک پہنچتی ہے تیری وجہ سے ہے۔
ایک دوسری روایت میں آیا ہے :
''عملت با لمعا صی بقو تی التی جعلتھا فیک''(٣)
ہم نے جو تو انائی تیرے وجود میں قراردی تونے اس کی وجہ سے گنا ہ کا ارتکاب کیا ۔
..............
(١)توحید صدوق ص٣٦١ .
(٢) تو حید صدو ق، ص ٣٢٧، ٣٤٠ اور ٣٦٢ اور کافی ،ج، ١،ص ١٦٠، سورہ نسا ء ٧٩.
(٣) تو حید صدوق، ص ٣٦٢.
حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :
'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یتہ علیٰ معصےة ٍ فنھیتہُ فلم ینتہ فتر کتہ ففعل تلک المعصےة، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کتہ کنت أنت الذّی أمر تہ بالمعصےة''(١)
نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔
٢۔ '' ما استطعت أن تلو م العبد علیہ فھو منہ و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیہ فھو من فعل اﷲ، یقول اﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فھذا فعل العبد ولا یقول لہ لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنہ من فعل اﷲ تعا لیٰ''(٢)
جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح
جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :
١۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔
٢۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔
'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار
..............
(١) کافی،ج، ١، ص ١٦٠ اور توحید صدو ق، ص ٣٦٢.
(٢)بحار ج٥،ص٥٩ح١٠٩
ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور اﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔
ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:
(کلاًّ نمدّ ھٰؤلا ء و ہٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا)
ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔
یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔
جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة اﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب
اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:
١۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟
٢۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟
٣۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟
٤۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:
ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔(١)
وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ١٧٢ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:
..............
(١)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.
(أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن ھذا غا فلین)
تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔
انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:
ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ٢٨٦ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:
(لایکلف اﷲ نفساًاِلاّوسعھا)
خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:
نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میںپھرایا گیا اور رسول اﷲ ۖ کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔(١)
اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔ (٢)
اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔
یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں'' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء اﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

'' الحمد للہ ربّ العا لمین''
..............
(١)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبداﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ٣ میںملاحظہ کریں. (٢)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.