(٧)
جبر و تفویض اور اختیار
الف: جبر کے لغوی معنی
''جبر'' لغت میں زورزبر دستی سے کوئی کام کرانے کو کہتے ہیں اور ''مجبور'' اس کو کہتے ہیں جس کوزور زبردستی سے کوئی کام کرایا جائے ۔
ب: جبر اسلامی عقائد کے علماء کی اصطلاح میں
''جبر'' اس اصطلاح میں یہ ہے : خدا وند عالم نے بندوں کو جو اعمال وہ بجالاتے ہیں ان پر مجبور کیا ہے،خواہ نیک کام ہو یا بد ،براہو یا اچھا وہ بھی اس طرح سے کہ بندہ اس سلسلہ میں اس کی نا فرمانی ،خلاف ورزی اور ترک فعل پر ارادہ واختیار نہیں رکھتا۔
مکتب جبر کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے انسان کو جو کچھ پیش آتا ہے وہی اس کی پہلے سے تعین شدہ سر نوشت ہے، انسان مجبور ہے وہ کوئی اختیار نہیں رکھتا ہے ،یہ اشاعرہ کا قول ہے۔(١)
ج: تفویض کے لغوی معنی
تفویض لغت میں حوالہ کرنے اور اختیار دینے کے معنی میں ہے۔
د: تفویض اسلا می عقائد کے علما ء کی اصطلاح میں
''تفویض'' اس اصطلاح میں یعنی: خدا وند عالم نے بندوں کے امور (افعال )خود ان کے سپرد کر دئے ہیں جو
..............
(١) اشاعرہ کی تعریف اور ان کی شناخت کے لئے شہر ستانی کی کتاب ملل و نحل کے حا شیہ میں ( الفصل فی الملل و الا ھواء و النحل) ابن حزم، ج،١،ص١١٩،تا ١٥٣،ملاحظہ ہو.
چاہیں آزادی اوراختیا ر سے انجام دیں اور خدا وند عالم ان کے افعا ل پر کوئی قدرت نہیں رکھتا، یہ فرقۂ ''معتزلہ'' کا قول ہے۔(١)
ھ: اختیار کے لغو ی معنی
'' اختیار'' لغت میں حق انتخاب کے معنی میں ہے ، انتخاب کرنا پسند کرنا اور انتخاب میں آزاد ہو نے کو اختیار کہتے ہیں۔
و: اختیار اسلامی عقائدکے علماء کی اصطلاح میں
خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو اپنے انبیا ء اور رسولوں کے ذریعہ بعض امور میں مکلف بنایایعنی ان کے انجام دینے کا مطالبہ کیا تو بعض سے نہی اور ممانعت فرمائی، خدا نے کسی کام کے انجام دینے یا اس کے ترک یعنی نہ کرنے کی بندوں کو قدرت عطا کی جو امور وہ انجام دیتے ہیں ان کے انتخاب کا انھیںحق دیا اور کسی کو اس سلسلہ میں مجبور نہیں کیا ، پھر اس کے بعد ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی امر و نہی میں اطاعت کریں ۔اس موضوع سے متعلق استد لال انشاء اﷲآئندہ بحث میں آئے گا۔
..............
(١) ''معتز لہ'' کی شناخت کے لئے شہر ستانی کی کتاب ملل و نحل ،ابن حزم کے حاشیہ (الفصل فی الملل والا ھواء و النحل) ج١، ص ٥٥، ٥٧ پر ملاحظہ ہو۔
(٨)
قضا و قدر
الف:۔ قضا و قدر کے معنی
ب:۔قضا و قدر کے بارے میں ائمہ اہل بیت کی روایات
ج:۔سوال و جواب
قضا و قدر
قضا وقدر کے معنی
'' قضا و قدر'' کا مادہ مختلف اور متعدد معا نی میں استعما ل ہو ا ہے جو کچھ اس بحث سے متعلق ہے اسے ذکر کرتے ہیں۔
الف:۔ مادّۂ قضا کے بعض معانی:
١۔ ''قضا'' دو آپس میں جھگڑ نے والوں کے درمیا ن قضا وت اور فیصلہ کرنے کے معنی میں ہے، جیسے۔
( انَّ ربّک یقضی بینھم یوم القیا مة فیما کا نوا فیہ یختلفون) (١)
تمہا را پر وردگار قیا مت کے دن جس چیز کے بارے میں وہ لوگ اختلا ف کرتے تھے ان کے درمیان قضاوت اور فیصلہ کر ے گا۔
٢۔ ''قضا'' آگاہ کر نے کے معنی میں ہے ،جیسے خدا وند عالم کا قول لوط کی داستان سے متعلق اور ان کو ان کی قوم کے نتا ئج سے آگا ہ کرنا کہ فرماتا ہے :
(وقضینا اِلیہ ذلک الأمر انَّ دابرھٰؤلاء مقطوع مُّصبحینَ)
ہم نے لوط کو اس موضوع سے با خبر کر دیا کہ ہنگا م صبح سب کے سب بیخ وبن سے اکھاڑ دئے جائیں گے۔(٢)
٣۔ '' قضا '' واجب کرنے اور حکم دینے کے معنی میں ہے ،جیسے:
( و قضیٰ ربّک ألا تعبد وا اِلاّ اِےّا ہُ)(٣)
..............
(١) یونس ٩٣ .
(٢)حجر ٦٦
(٣) اسراء ٢٣
تمہا رے رب کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پر ستش نہ کرو۔
٤۔'' قضا '' تقد یر اور ارادہ کے معنی میں ہے ، جیسے :
( واِذا قضیٰ أمراً فأِ نّما یقو ل لہ کن فیکون) (١)
جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتاہے ، تو صرف کہتا ہے ہو جا ، تو ہو جاتی ہے۔
( ھو الذی خلقکم من طین ثُمَّ قضیٰ أجلا ً)(٢)
وہ ایسا خدا ہے جس نے تمھیں مٹی سے خلق کیا ہے ،پھر ( ہر ایک کے لئے) ایک مدت مقدر(معین) فرمائی، یعنی انسان کی حیات کے لئے ایک معین مقدار اور اندا زہ قرار دیا ۔
ب:مادہ ٔ قد ر کے بعض معا نی
١۔قدر ؛ یعنی قادر ہوا ، اقدام کی قدرت پیدا کی ، ''قادر'' یعنی تو انا اور ''قدیر'' یعنی قدرت مند. خدا وند متعال سورہ ٔ یٰس میں فرماتا ہے:
(أو لیس الذی خلق السّموات و الأرض بقٰدرٍ علیٰ أن یخلق مثلھم)(٣)
آیا جس نے زمین و آسمان کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے وہ ا س جیسا خلق کر نے پر قادر نہیں ہے؟
سورۂ بقرہ ٢٠،میں ارشاد فرماتا ہے:
( ولوشاء اﷲ لذھب بسمعھم وأبصا رھم اِنَّ اﷲ علیٰ کلّ شی ئٍ قدیر)(٤)
اگر خدا چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو زائل کر دے ، کیو نکہ ، خدا وند عالم ہر چیز پر قادر ہے ۔
یعنی خدا وند عا لم ہر کام کے انجام دینے پر جس طرح اس کی حکمت اقتضا ء کرتی ہے قادر ہے ۔
٢۔قدر: یعنی تنگی اور سختی میںقرار دیا ،'' قَدَرَ الرزق علیہ ویقدر'' یعنی اسے معیشت کی تنگی میں قرار دیا اور دیتا ہے ۔خدا سورۂ سبا کی ٣٦ ویں آیت میں فرماتا ہے:
(قل اِنّ ربّی یبسط الرّزق لمن یشا ء و یقدر)
کہو: خدا وند عالم جس کے رزق میں چاہتا ہے اضا فہ کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی کرتا ہے۔
٣۔ قَدَرَ :تد بیر کی اور اندا زہ لگا یا ،'' قد ر اﷲ الامر بقدرہ ''خدا وند سبحا ن نے اسکی تد بیر کی یا
اس کے واقع ہو نے کا خواہشمند ہو ا، جیسا کہ سورۂ قمر کی بارہو یں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
( وفجَّر ناالأرض عیوناً فا لتقی الما ء علی أمر ٍ قد قدر)
اورہم نے زمین کوشگا ف کیا اور چشمے نکالے اور یہ دو نوں پا نی ( بارش اور چشمے کے ) تد بیر اور خواہش کے بقدر آپس میں مل گئے ۔
..............
(١)بقرہ ١١٧
(٢) انعام ٢
(٣)یس٨١
(٤)بقرہ٢٠
ج:۔ قدَّر کے معنیٰ
١۔قدر '' یعنی اس نے حکم کیا ، فرمان دیا ، قَدَّرَ اﷲ الأمر یعنی خدا وند رحمان نے حکم صادر فر مایا اور فرمان دے دیا کہ کام، اس طرح سے ہو جیسا کہ سورۂ نمل کی ٥٧ ویں آیت میں لوط کی بیوی کے بارے میں فرماتا ہے:
( فأ نجینا ہ و أہلہ اِلّاامرأ تہ قدّرنا ھا من الغا بر ین)
ہم نے انھیں (لوط) اور ان کے اہل و عیال کو نجات دی ،جز ان کی بیوی کے کہ ہم نے فرمایا : وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی، یعنی ہما را حکم اور فرمان یہ تھا کہ وہ عورت ہلاک ہو نے والوں میں رہے گی۔
٢۔''قَدَّر'' یعنی مدارا ت کی ، تو قف و تامل اور تفکر کیا ،'' قدرفی الامر'' یعنی کام کی انجام دہی میں تو قف و تامل کیا اور اس کے ساتھ رفق و مدارا ت کی، جیسا کہ خدا وند عالم سورہ سبا کی ١١ ویں آیت میں داؤد سے فر ماتا ہے :
( أن أعمل سابغا ت وقدّرفی السّرد)
مکمل اور کشادہ ز ر ہیں بناؤ نیز اس کے بنانے میں غور و خوض اور نر می سے کام لو ۔
یعنی زرہ بنانے میں جلد بازی سے کام نہ لو بلکہ کافی غور و فکر ،توجہ اور دقت کے ساتھ زرہ بناؤ تاکہ تمہارے کام کا نتیجہ محکم اور استوار ہو۔
د: ۔ قدرکے معنی
١۔قَدَر:مقدار، اندازہ اور کمیت کے معنی میں استعما ل ہوا ہے جیسا کہ سورۂ حجر کی ٢١ ویں آیت میں ارشاد ہو تا ہے:
( واِن من شی ئٍ اِلاّ عند نا خزا ئنہ و ما ننزّ لہ اِلاّ بقدرمّعلو م ٍ)
اور جو کچھ ہے اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم معین انداز ہ اور مقدار کے علاوہ نازل نہیں کرتے ۔
٢ ۔ قدر: زمان و مکان کے معنی میں استعمال ہو ا ہے، جیسا کہ سورۂ مر سلات کی ٢٠ ویں تا٢٢ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
( ألم نخلقکّم مِّن مّائٍ مّھینٍ ، فجعلناہ فی قرارٍمکینٍ ۔ اِلیٰ قدرٍمعلوم)
کیا ہم نے تم کو پست اور معمو لی پانی سے خلق نہیں کیا ، اس کے بعد ہم نے اسے محفوظ اور آمادہ جگہ پر قرار دیا، معین اور معلوم زما نہ تک ؟ !
٣۔قدر: قطعی اور نا فذ حکم کے معنی میں ، قَدَرُ اﷲ خدا وند سبحان کا قطعی، نا فذ اور محکم حکم ، جیسا کہ سورۂ احزاب کی ٣٨ ویں آیت میں ارشاد ہو تا ہے:
( سنّة اﷲ فی الَّذ ین خلوا من قبل و ُکان أمر اﷲ قدراً مّقد ورا ً)
اﷲ کی یہ سنت گز شتگان میں بھی جاری تھی اور خدا کا فرمان قطعی اور، نافذ ہو نے والا ہے۔
قول مؤلف:
شاید قضا و قدر کے متعدد معنی اور اس کی خدا وند منّا ن کی طرف نسبت باعث ہو ئی کہ بعض مسلمان غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں اور اس طرح خیال کرتے ہیںکہ ''قضا و قدر'' کے معنی قرآن و حدیث میں یہ ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں جو کچھ کر تا ہے خواہ نیک ہو یا بد اسی''قضا و قدر'' اور سر نوشت کی بنیا د پر ہے،جسے خدا وند عالم نے اس کی خلقت سے پہلے اسکے لئے مقرر کر دیا تھا۔جیسا کہ ہماری روایتوں میں کلمہ قدری کا اطلاق ''جبری ''اور'' تفویضی'' دونوں پر ہوا ہے۔
اور اس اطلا ق کی بنا پر کلمہ''قدر'' کسی شۓ اوراس کی ضد دونوں کا نام ہو جا تا ہے، جیسے کلمہ'' قرئ'' کہ حیض '' اور پاکی'' دونوں کا نام ہے یعنی متضاد معنی میں استعما ل ہوا ہے۔
خا تمہ میں قدریوں کے اقوال اور ان کے جواب سے اس بنا ء پر صرف نظر کرتے ہیں کہ کہیں بحث طولانی نہ ہو جائے اور صرف ان احا دیث پر اکتفا ء کر تے ہیں جن میں ان کے جوابات پائے جا تے ہیں، تاکہ خدا کی تا ئید و تو فیق سے ، جواب کے علاوہ موضوع کی تو ضیح اور تشریح بھی ہو جائے۔
|