|
(٤)
اﷲ کے اسمائے حسنیٰ
١۔ اﷲ
٢۔ کرسی
١۔اﷲ
بعض علمائے علم لغت کہتے ہیں: اﷲ در حقیقت'' اِلٰہ'' تھا جو کہ'' آلِھة'' کا اسم جنس ہے ،اس پر الف و لام تعریف داخل ہوا، اور ''اَلْاِلٰہُ ''ہو گیا، پھر الف کو اس کے کسرہ کے ساتھ حذف کردیا گیا اور دو لام کو باہم ادغام کر دیا ''اﷲ'' ہو گیا ،یعنی لفظ الہ اور اﷲ ؛رجل اور الرجل کے مانند ہیں پہلے دونوں یعنی الہ ورجل ''الھة او ر رجال'' کا اسم جنس ہیں اور دوسرے دونوں یعنی ''اﷲ'' اور ''الرجل'' الف ولام کے ذریعہ معرفہ ہو گئے ہیں اورمورد نظررجل اورالہ معین ومشخص کئے ہیں اس لحاظ سے لا الہ الااﷲ'' کے معنی ہو ں گے: کوئی معبود نہیں ہے جزاس کے جو کہنے والے کا موردنظر اورمقصود ہے۔
یہ نظریہ غلط اور اشتباہ ہے ، کیو نکہ لفظ اﷲ نحویوں کی اصطلاح میں ''عَلَم مرتجل'' (منحصر بہ فرد )ہے اور ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ہے، جس کے تمام صفات جامع جمیع اسمائے حسنیٰ ہیں اور کوئی بھی اس نام میں اس کا شریک نہیں ہے جس طرح کوئی ''الوہیت اور ''ربوبیت'' میں اس کاشریک نہیں ہوسکتاہے ۔
چنانچہ اﷲ اسلامی اصطلاح میں ایک ایسا نام ہے جو اس ذات سے مخصوص جس کے یہاں تمام صفات کمالیہ پائے جاتے ہیں، جیسا کہ خود اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ولِلّہ الأسماء الحسنیٰ'' تمام اسمائے حسنیٰ(١)''اﷲ'' کیلئے ہیں اور فرمایا:(اﷲ لا اِلٰہ اِلاّ ھولہ ا لأ سماء الحُسنیٰ)(٢)وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تمام اسمائے حسنیٰ اس کے لئے ہیں۔
بنابرایں ''لا اِلٰہ اِلّا اﷲ'' یعنی ہستی میں کوئی موثراور خالق نہیں اور تمام صفات کمالیہ اور اسمائے حسنیٰ کے مالک خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔اﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک''قیوّم'' ہے قیوّم یعنی پائندہ قائم بالذات ہر چیز کا محافظ و نگہبان نیز وہ ذات جو موجودات کو قوام عطا کرتی ہے، آیت کے یہ معنی سورۂ طہ کی
..............
(١)اعراف ١٨٠ .
(٢)طہ ٨.
٥٠ ویں آیت میں ذکر ہو ئے ہیں:
(ربّنا الذی أعطی کلّ شیٍ خلقہ ثّم ھدی)(١)
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو جو اس کے خلقت کا لازمہ تھا عطا کیا، پھر اس کے بعد ہدایت کی ہے.
پس وہی اﷲ جو تما م صفات کمالیہ اور اسمائے حسنیٰ کا مالک ہے وہ ربّ، رحمان ، رازق، تواب،غفاّر، رحیم اور روز جزا کا مالک ہے، یہی وجہ ہے قرآن کریم میں کہیں پر لفظ اﷲربّ کی جگہ استعمال ہوا ہے یعنی جس جگہ ربّ کانام ذکر کرنا سزاوارتھا وہاں ربّ کی جگہ استعمال ہوا اور ربّ کے صفات اپنے دامن میں رکھتا ہے جیسے:رازق،تواب،غفورا وررحیم اور وہ ذات جو انسان کو اس کے عمل کی جزا دیتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا:
١۔ (اﷲ یبسط الرّزق لمن یشاء ویقدر)(٢)
اﷲ ہی ہے جوجس کے لئے چاہتاہے اس کے رزق میں وسعت عطا کرتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اس کے رزق میں تنگی کرتا ہے۔
٢۔( وانّ اﷲ ھو التّواب الرحیم) (٣)
یقینا وہی اﷲ توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
٣۔( اِنّ اﷲ غفوررحیم) (٤)
یقینا اﷲ بخشنے والا اور رحیم ہے۔
٤۔(لیجزیھم اﷲ أحسن ما کانوا یعملون)(٥)
تاکہ خدا انھیں جزا دے بہترین اعمال کی، جو انھوں نے انجام دئے ہیں۔
گزشتہ آیات میں جیسا کہ ہم نے ملا حظہ کیا ِ،صفات رزّاق ،غفور اور رحیم اور جزا دینے والا کہ ربّ العالمین سے مخصوص ہیں سب کی نسبت اﷲ کی طرف ہے ،کیو نکہ اﷲ تما م صفات کمالیہ کا مالک اور خود ''ربّ العا لمین'' ہے۔
بعض اسماء و صفات جو قرآن کریم میںآئے ہیں وہ بھی ''اﷲ'' کی مخصوص صفت ہیں جیسے:
(اﷲ لا اِلٰہ اِلاّ ھو الحیّ القےّوم لا تأ خذہ سنة و لا نوم لہ ما فی السموات و ما فی
..............
(١) طہ٥٠
(٢) رعد٢٦
(٣) توبہ ١٠٤
(٤) بقرہ ١٨٢
(٥) توبہ ١٢١
الأرض من ذالّذی یشفع عندہ اِلاّ باِ ذنہ یعلم ما بین أید یھم و ما خلفھم و لا یحیطون بشیئٍ من علمہ اِلّا بما شاء وسع کر سےّہ السموات و الأرض و لا یؤدہ حفظھما و ھو العلیّ العظیم) (١)
کوئی معبودنہیںجزاللہ کے حی وقیوم اور پائندہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند ،جو کچھ زمین وآسمان میںہے ا سی کا ہے کون ہے جو اس کے پاس ا س کے فرمان کے علاوہ شفاعت کرے؟ جو کچھ ان کے سامنے اور پیچھے ہے اسے جانتا ہے اور کوئی اس کے علم کے ایک حصہ سے بھی آگاہ نہیں ہوتا جز یہ کہ وہ خود چاہے، اس کی حکومت کی''کرسی'' زمین وآسمان کو محیط ہے نیز ان کی محا فظت اسے تھکا تی نہیں ہے اور وہ ' علی ّ و عظیم''(بلند مرتبہ و با عظمت) ہے۔
اس آیت میں مذکور تمام اسماء و صفات ''اﷲ'' سے مخصوص ہیں اور ''الہٰ '' خالق اور ربّ العالمین کے صفات میں سے نہیں ہیں۔
نیز ایسے صفات جیسے:عزیز ،حکیم،قدیر،سمیع،بصیر،خبیر، غنی،حمید، ذوالفضل العظیم،( عظیم فضل کا مالک) واسع، علیم(وسعت دینے والا اور با خبر) اور فعال لمایشائ(اپنی مرضی سے فعل انجام دینے والا)... یہ سارے صفات '' اﷲ'' کے مخصوص صفات ہیں، اس لحاظ سے اﷲ ایک نام ہے ا ن صفات میں سے ہر ایک کے لئے اوراللہ کی حقیقت یہی صفات اور اسمائے حسنیٰ ہیں۔
عبرانی زبان میں بھی ''ےَھُوَہ'' کو'' اﷲ'' کی جگہ اور''الوھیم'' کو''الا لہ'' کی جگہ استعمال کرتے ہیں ۔
اﷲ کی ایک صفت یہ ہے کہ اس کی ''کرسیٔ حکومت'' زمین وآسمان سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ اب ہم''کرسی'' کے معنی کی تحقیق وبر رسی کریں گے۔
..............
(١) بقرہ ٢٥٥
٢۔کرسی
لفظ کرسی؛ لغت میں تخت اور علم کے معنی میں ہے۔
طبری،قرطبی اور ابن کثیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ فرمایا :''کرسی خدااس کا علم ہے''۔ اورطبری کہتے ہیں:
''جس طرح خدا وند عالم نے فرشتوں کی گفتگو کی خبر دی ہے کہ انھوں نے اپنی دعا میں کہا :
(ربّنا وسعت کلّ شیء علماً)
پروردگار ا! تیرا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
اس آیت میں بھی خبر دی ہے کہ''وسع کرسےّہ السموات و الأرض'' اس کا علم زمین وآسمان کو محیط ہے،کیو نکہ''کرسی'' در حقیقت علم کے معنی میں ہے ،عرب جو اپنے علمی نوٹ بک کوکرّاسہ کہتے ہیں اسی باب سے ہے ،چنانچہ علما ء اور دانشوروں کو ''کَراسی'' کہا جاتا ہے۔(طبری کی بات تمام ہوئی)۔
طبری کی بات پر اضافہ اضافہ کرتے ہوئے ہم بھی کہتے ہیں:خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کی اپنی قوم سے گفتگوکی حکایت کی ہے جو انھوں نے اپنی قوم سے کی:
(وسع ربیّ کلّ شیئٍ علماً أ فلا تتذکّرون)(١)
ہمارے رب کا علم تمام چیزوں کو شامل اور محیط ہے آیاتم لوگ نصحت حاصل نہیں کرتے؟
اورشعیب کی گفتگو اپنی قوم سے کہ انھوں نے کہا ہے:
(وسع ربّنا کلّ شیئٍ علماً) (٢)
ہمارے رب کا علم تمام اشیا ء کو محیط ہے۔
اور موسیٰ کی سامری سے گفتگو کہ فرمایا:
..............
(١) انعام ٨٠
(٢)اعراف ٨٩
(ِِِانّما اِلٰھکم اﷲ الذی لا أِلہ الاّ ھو وسع کلّ شیئٍ علماً) (١)
تمہارا معبود صرف ''اﷲ'' ہے وہی کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اس کا علم تمام اشیاء کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔
رسول خدا کے اوصیاء میں چھٹے وصی یعنی امام جعفر صادق نے سائل کے جواب میںجس نے کہا : (وسع کر سیہ السموات و الارض) اس جملہ میں کرسی کے کیا معنی ہیں ؟فرمایا: خدا کا علم ہے۔(٢)
قرآن کریم میں کرسی کا تخت اور علم دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے، خدا وند عالم نے سور ئہ ص میں سلیمان کی داستان میں فر مایا:
( و لقد فتّنا سلیمان و ألقینا علیٰ کر سےّہ جسداً)(٣)
ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ان کی کرسی (تخت ) پر ایک جسد ڈال دیا۔
اور اس آیت میں فرماتا ہے:
( یعلم ما بین أید ھم وما خلفھم ولا ےُحیطون بشیء ٍ من علمہ ِالّا بما شاء وسع کر سےّہ السموات و الٔارض)(٤)
خدا وند عالم ان کے سامنے اور پس پشت کی ساری باتوں کو جانتا ہے اور وہ ذرہ برابر بھی اس کے ''علم'' سے آگاہ نہیں ہو سکتے جز اس کے کہ وہ خود چاہے،اس کی کرسی یعنی اس کا''علم''زمین وآسمان کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
''کرسی'' جیسا کہ آیہ شریفہ سے ظاہر ہے ''علمہ'' کے بعدمذکور ہے اس قرینہ سے معنی یہ ہوں گے:وہ لوگ ذرہ برابر علم خدا وندی سے آگاہ نہیں ہو سکتے جزاس کے کہ خدا خود چاہے، اس کا علم زمین وآسمان کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔
اس لحاظ سے بعض روایات کے معنی ،جو کہتی ہیں:''کل شیء فی الکرسی'' ساری چیزیں کرسی میں ہیں، یہ ہوں گے کہ تمام چیز علم الٰہی میں ہے۔
یہاں پر'' اﷲ کے اسمائے حسنی ٰ''کی بحث کو ختم کرتے ہیںاور''عبودیت'' کی بحث جو کہ اس سے مر بوط ہے اس کی بر رسی و تحقیق کر یں گے۔
..............
(١)طہ ٩٨
(٢) توحید صدوق:ص ٣٢٧، باب: معنی قول اللہ عز وجل : وسع کرسیہ الماوات والارض.
(٣) سورۂ ص ٣٤.
(٤)بقرہ٢٥٥
عبد وعبادت
عَبَدَ :اس نے اطاعت کی''عبودیت'' یعنی: عاجزی و فرو تنی اورخضوع و خشوع کے ساتھ اطاعت بجالانااور''عبادت'' یعنی نہایت خضوع وخشوع اور فر وتنی وعاجزی کے ساتھ اطاعت کرناجو '' عبودیت''سے زیادہ بلیغ ہے۔
الف: عبودیت
سورہ حمد میں''ربّ العالمین''کے ذکر کے بعد جملہ''ایاّک نعبد'' آیا ہے اس میں عبودیت بمعنی ٔ اطاعت ہے ،یعنی ہم صرف تیری ہی اطاعت کرتے ہیں۔
امام جعفر صادق ـ نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے :
''مَن أطاع رجلاً فی معصےة فقد عبدہ'' (١)
جو شخص کسی انسان کی معصیت اور گناہ میں اطاعت کرے گویااس نے اسکی عبادت کی ہے۔
جیسا کہ ظاہر ہے عبادت و اطاعت ایک ساتھ اور ایک معنی میں استعمال ہو ئے ہیں۔امام علی رضا کی گفتگو میںبھی ہے کہ دوسرے کی بات سننے کو،جو ایک قسم کی اطاعت اور اس کی پیروی ہے،''عبادت'' سمجھاگیاہے، جیسا کہ فرمایا:
''مَن أصغیٰ اِلی ناطق فقد عبدہ فاِن کان الناطق عن اﷲ عزّ و جلّ فقد عبد اﷲ،واِن کان الناطق عن أبلیس فقد عبدأبلیس'' (٢)
جو شخص کسی قائل کی آواز پر کان دھرے اس نے اس کی عبادت کی ہے اب اگر قائل خدا وند عالم کی بات کرے تو خدا کی عبادت کی اور اگر ابلیس کی بات کرے تو ابلیس کی عباد ت کی۔
عبادت: باشعور موجودات کے لئے اختیاری ہے لیکن دیگر مخلوقات کے لئے تسخیری اور غیر اختیاری
(١)اصول کافی ج ٢، ص ٣٩٨(٢) عیون اخبار الرضا،ص٣٠٣، ح٦٣؛ وسایل الشیعہ ج١٨، ص ٩٢ ح ١٣
ہے، جیسا کہ خدا وند سبحان نے فرمایا :
( یا أےّھا الناس اعبد واربّکم الذی خلقکم و الذین من قبلکم...)(١)
اے لوگو !اپنے رب کی عبادت کرو ،وہی جس نے تمکو اور تم سے پہلے والوں کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے۔
اوردیگر مو جودات کے بارے میں فرمایا :
(وللّہ یسجد ما فی السموات وما فی الٔارض من دابة والملا ئکة وھم لا یستکبرون)(٢)
تمام وہ چیزیں جو آسمان وزمین میں پائی جاتی ہیں چلنے والی ہوں یا فرشتے خدا کے لئے سجدہ( عاجزی اور فرونتی) کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں۔
ب: عبد
عبد کے چار معنی ہیں:
١۔غلام کے معنی میں جیسے سورۂ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ہے:
(ضرب اﷲ مثلاً عبدا ً مملوکاً لا یقدر علیٰ شیئٍ)(٣)
خدا وند عالم نے ایک ایسے غلام مملوک کی مثال دی ہے جو کسی چیز پر قادر نہیں ہے۔
اس عبد کی جمع عبید ہے جیسا کہ رسول خدا ۖنے ارشاد فرمایا :
''مَن خرج ِالینا من العبید فھوحرّ'' (٤)
جو غلام بھی ہماری سمت (اسلام کی طرف)آجائے وہ آزاد ہے۔
٢۔''عبد'' بندہ ہونے کے معنی میں بھی ہے اس کی سب سے زیادہ روشن اور واضح مثال خدا وند عالم کے ارشاد میں ہے کہ فرمایا:
(ِان کلّ مَن فی السموات والأر ض اِلّا أتی الرحمن عبداً) (٥)
زمین وآسمان کے ما بین کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ بند گی کی حالت میں خدا وند رحمان کے سامنے آئے۔
اس معنی میں بھی عبد کی جمع ''عبید'' (بندے) ہے جیسے :
(و أنّ اﷲ لیس بظلام للعبید) (٦)
..............
(١)سورہ ٔ بقرہ ٢١.
(٢) نحل ٤٩
(٣) نحل ٧٥
(٤) مسند احمد ج١، ص ٢٤٨
(٥)مریم ٩٣۔
(٦)انفال ٥١ ۔
خدا وند عالم اپنے بندوںپر ظلم نہیں کرتا ہے۔
٣۔ ٤۔عبد؛،عبادت کرنے والے اور خدمت گزار بندہ کے معنی میں ہے جس کے بارے میں ''عابد'' کی تعبیر زیادہ بلیغ ہے، اس کی دو قسم ہے:
الف:خدا کا خالص'' عبد'' اورحقیقی بندہ ہونا جس کی جمع عباد آتی ہے جیسے خدا وند عالم کاکلام ان کے موسیٰ اور اوران کے جوان ساتھی کی داستان کی حکایت میں ہے،وہ فرماتا ہے:
( فوجدا عبداً من عبادنا آتینا ہ رحمة من عند نا)(١)
ا ن دونوںنے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوزا تھا۔
ب۔اور دنیا کا'' عبد'' بندہ ہونا یعنی جو شخص اپنا تمام ہم و غم اور اپنی تمام توانائی دنیا اور دنیا طلبی کے لئے وقف کر دے،یہاں بھی عبد کی جمع''عبید'' ہے جیسا کہ پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا: '' تَعِسَ عبد الدرھم وعبد الدینار''درہم ودینار کا بندہ ہلاک ہوگیا۔ (٢)
اور چو نکہ پروردگار عالم بندوں کی ہدایت اور لوگوں کے ارشاد کے لئے امر ونہی کرتا ہے لہٰذا جو شخص فرمان خدا وندی کی اطاعت کرتاہے ا سے کہتے ہیں: (عَبَدَا لرّبَّ)اس نے خدا وند رحمان کی عبادت وبندگی کی، وہ عابد ہے یعنی:اس نے خدا کی اطاعت کی ہے اور و ہ پروردگار کا مطیع وفرمانبردار ہے۔
اور چونکہ''الہ''معبود کے معنی میں ہے اور اس کے لئے دینی مراسم منعقد کئے جاتے ہیں، کہتے ہیں: ''عَبَدَ فلان اِلا لہَ''فلاں نے خدا کی عبادت کی (پرستش کی)وہ عابد(پر ستش کرنے والا ہے)یعنی وہ دینی مراسم خدا کے لئے انجام دیتا ہے۔(٣)
جن صفات کو''الوہیت'' کی بحث میں'' الہٰ'' کے صفات میں شمار کیاہے اور ربوبیت کی بحث میں ان تمام صفات کورب ّ کے صفات سے جانا ہے وہ سارے کے سارے اﷲ ربّ العالمین کے صفات ہیں ، اﷲ ربّ العالمین کے صفات میں ایک دوسری صفت یہ ہے کہ ہر چیز کا جاری و ساری ہونا اس کی مشیت اور اس کی مرضی سے ہے اور ہم انشاء اﷲآئندہ بحث میں اس کی وضاحت کر یں گے۔
..............
(١)کہف:٦٥ (٢) سنن ابن ماجہ ص١٣٨٦(٣)جو کچھ ہم نے''عبد'' کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ مندرجہ ذیل کتابوں سے مادہ عبد کے مطالب کا خلاصہ ہے، جوہری کی کتاب صحاح ،مفردات القرآن راغب ،قاموس اللغة فیروز آبادی، معجم الفاط القرآن الکریم ،طبع مصر، ہم نے ان سب کی عبارت کو مخلوط کر کے ایک سیاق و اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے.
|
|