اسلام کے عقائد(دوسری جلد )
 

١١۔

جزا اور سزا کے لحاظ سے جنات بھی انسان کے مانند ہیں
ہم نے حضرت آدم کی تخلیق کی بحث میں بیان کیا ہے کہ خداوند عالم نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کا سجدہ کریں ؛ سارے فرشتوںنے آدم کا سجدہ کیا لیکن ابلیس نے انکار کر دیاکہ وہ جنوں میں سے تھا ، خدا وند عالم نے بھی اسے کیفر و سزا دی اور اپنی بارگاہ سے نکال دیا یہاں پر جو ہم پیش کریں گے ،وہ خدا کا بیان ہے جو ابلیس اوراس جنی ہمزا دوں کے انجام کے بارے میںآیا ہے :
١۔ خدا وند عالم سورۂ انعام میں فرماتا ہے:
(و یوم یحشرھم جمیعاً یا معشرالجن قد استکثرتم من الانس)(… یامعشر الجنّ والاِ ْنس أَلم یأ تکم رُسُل منکم یقُصّون علیکم بآیاتی و ینذ رُونکم لقاء یومکم ھذا قالوا شھدنا علیٰ أنفُسنا وغرّ تھم الحیوةُ الدنیا وشھدواعلی أنفسھم أنّھم کانوا کافرین)(١)
جس دن خدا سب کو اکٹھاکرے گا ( کہے گا) اے گروہ جنات : تم نے بہت سارے انسانوں کو گمراہ کیا ہے اے گروہ جن و انس! کیا تم میں سے کوئی رسول تمہاری طرف نہیںآیا جو ہماری آیتوں کو تمہارے سامنے پڑھتا اور تمھیں ایسے دن کے دیدار سے ڈراتا؟ وہ لوگ کہیں گے : ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں ! (ہاں) دینوی زندگی نے انھیں فریب دیا اور اپنے ضرر میں گواہی دیں گے کہ کافر ہیں۔
٢۔سورۂ جن میں جناتوں کی زبانی ان کی قوم کے بارے میں فرماتا ہے:
..............
(١) انعام ١٢٨ ، ١٣٠.
( وأنّا منّا المسلمون و منا القا سطون فمن أسلم فا ولآء ک تحرّوا رشداً۔ و اماالقا سطون فکانوا لجھنم حطباً)
(ان لوگوں نے کہا) ہم میںسے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم و ستمگر اور جو بھی اسلام لایااس نے راہ راست اور ہدایت کا انتخاب کیا ہے، لیکن ظالمین آتش دوزخ کا ایند ھن ہیں!(١)
٣۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:
(قَالَ ادْخُلُوا فِی ُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِنْ الْجِنِّ وَالِْنسِ فِی النَّارِ کُلَّمَا دَخَلَتْ ُمَّة لَعَنَتْ ُخْتَہَا حَتَّی ِذَا ادَّارَکُوا فِیہَا جَمِیعًا قَالَتْ ُخْرَاہُمْ لُِولَاہُمْ رَبَّنَا ہَؤُلَائِ َضَلُّونَا فَآتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنْ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْف وَلَکِنْ لاَتَعْلَمُونَ ٭ وَقَالَتْ ُولَاہُمْ لُِخْرَاہُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ )(٢)
(خدا وند عالم ستمگروں سے فرماتا ہے): تم سے پہلے جو جن و انس کی مجرم جماعتیں گزر چکی ہیں تم بھی انھیں کے ساتھ جہنم میں داخل ہو جاؤ ! جب کوئی گروہ داخل ہوگاتو اپنے جیسوں کولعنت و ملامت کرے گا اور جب سب کے سب وہاں پہنچ جا ئیں گے تو بعد والے ، پہلے والوں کے بارے میںکہیں گے: خدا یا ! یہ لوگ وہی تھے جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا ہے لھٰذا ان کے جہنمی عذاب وکیفر کو دو گنا کر دے! خدا فرمائے گا : سب کا عذاب دوگنا ہے لیکن تم نہیں جا نتے،اور پہلے والے ، بعد والوں سے کہیں گے: تم لوگ ہم سے بہتر نہیں تھے ، لہٰذا عذاب کا مزہ چکھو جو کہ تمہارے کاموں کا نتیجہ ہے!
٤۔ سورۂ ہود میں ارشاد فرماتا ہے:
(و تمّت کلمة ربّک لأملأنّ جہنّم من الجنّة و الناس أجمعین)(٣)
اور تمہارے رب کا فرمان یقینی ہے کہ جہنم کو تمام جن و انس سے بھر دوں گا!
یہ قرآن کریم کی بعض آیات جنوں کے اعمال اور ان کے دنیا و آخرت میں مجازات کے بارے میں تھیں،قرآن کریم نے قیامت کے دن جنوں کے حالات کو اس طرح تفصیل سے بیان نہیں کیا ہے جیسا کہ انسان کے بارے میں تمام تفصیل بیان کی ہے۔
..............
(١)سورہ ٔ جن ١٤۔١٥.
(٢) اعراف ٣٨ ،٣٩ . (٣)ہود ١١٩.

جزا اور سزا کی بحث کا خلاصہ
ہم کہہ چکے ہیں کہ انسان خود گیہوں جو اور دیگر دانے دار چیزیں بوتا ہے اور چند ماہ گزرنے کے بعد اس کے محصول کو کاٹتا ہے نیز انواع و اقسام کے پھل کے درخت لگا تا ہے پھر چند سال گزرنے کے بعداس کے پھلوں سے بہرہ مند ہوتا ہے ، یعنی انسان اپنی گا ڑھی کمائی کا نتیجہ کھاتا ہے، اس کے باوجود خدا فرماتا ہے:
( کلوا مماّرزقکم اﷲ)(١)
خدا وند عالم نے جو تمھیں روزی دی ہے اسے کھاؤ!
نیز فرماتا ہے :
(یا ایھاالذین آمنوا کلوا من طےّبات مارزقنا کم)(٢)
اے صاحبان ایمان ! ہم نے تمھیں جو پاک و پاکیزہ رزق دیا ہے اس سے کھاؤ۔
اور فرما تاہے:
( لا تقتلوا أولا دکم خشےة ِاملاقٍ نحن نرز قھم و اِےّاکم)(٣)
اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انھیں اور تمھیں رزق دیتے ہیں۔
اور ہم نے یہ بھی کہا :یہ اس لئے ہے کہ انسان اس مجموعۂ عالم میںاس شخص کے مانند ہے جو''self servic''والے میں جاتا ہے اپنے کام آپ انجام دیتا ہے اوراسے چاہئے کہ اپنے ہاتھوں اپنی مہمان نوازی اور پذیرائی کرے، ایسی جگہوں پر جس نے مہمان کو کھا نا کھلایا ہے اور انواع واقسام کے کھانے کی چیزیں ان کے لئے فراہم کیں وہ میز بان ہے، لیکن مہمان خود بھی کھانا پسند کرنے اوراسے پلیٹوں میں نکالنے میں آزاد اور مختار ہے اگر اقدام نہ کرے اور چمچہ اور پلیٹ ہاتھ میں نہ لے اور کھانے کے دیگ کے قریب نہ جائے اور اپنی مر ضی و خواہش کے مطابق اس میں سے کچھ نہ لے تو بھو کا رہ جائے گا اور اسے اعتراض کا بھی اسی طرح اگرحدسے زیادہ کھالے یا نقصان دہ غذا کھالے تواس کا نتیجہ بھی خوداسی پر ہے کیونکہ یہ خوداسی کا کیا دھرا ہے۔
انسان اپنے معنوی اعمال کے نتائج سے استفادہ کرنے میں بھی کچھ اس طرح ہے کہ اپنے کردار کے بعض نتائج مکمل طور پر اسی دنیا میں دریافت کر لیتا ہے، جیسے کافر کے صلۂ رحم کا نتیجہ کہ اس کے لئے دنیا ہی
..............
(١)مائدہ ٨٨ ؛ نحل ١١٤.
(٢) بقرہ ١٧٢.
(٣) اسراء ٣١ .
میں پاداش ہے ، بعض اعمال کی جزا صرف آخرت میں ملتی ہے جیسے شہا دت کے آثار جو صرف مو منین سے مخصوص ہیں، بعض اعمال ایسے ہیں جن کا فائدہ دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی جیسے مومن کا صلہ رحم کرنا دنیا وآخرت دونوں میں پاداش رکھتا ہے۔
جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کے مطابق، انسان اپنی معنوی رفتار کا نتیجہ اپنی مادی رفتار کے نتیجہ کی طرح مکمل دریافت کرتا ہے یا دنیامیںیا آخرت میں یا دنیا و آخرت دونوں میں یہی حال بُرے اعمال کے نتا ئج کا بھی ہے۔
قیامت کے دن حق شفاعت اور یہ کہ خدا بعض انسان کو ایسی کرامت عطا کرے گا ، یہ بھی اُن اعمال کا نتیجہ ہے جو انسان دنیا میں انجام دیتا ہے یہی صورت ہے انسان کے حبط اعمال کی قیامت کے دن جو اس کے بعض دنیاوی کردار کا نتیجہ ہے کیونکہ:( لیس لِلِاْنِسان اِلاّ ماسعیٰ)
جو انسان نے کیا ہے اس کے علاوہ اس کے لئے کوئی جزا نہیں ہے۔
اسی طرح قرآن کریم نے خبر دی ہے کہ جنات بھی انسان کی طرح اپنے اعمال کی مکمل پاداش آخرت میں دریافت کریں گے۔
جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ تقدیر '' رب العالمین''کی اساس پراور اس کے بعض ربوبی صفات کے اقتضاء کے مطابق ہیں انشاء اﷲآئندہ بحث میں''ربّ العا لمین'' کے دیگر صفات کو تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

(٣)

ربّ العا لمین کے بعض اسماء اور صفات
١-اسم کے معنی
٢- ٣- رحمن اوررحیم
٤-ذوالعرش اور رب العرش


١۔اسم کے معنی
اسم ؛قرآن کی اصطلاح میںاشیاء کے صفات، خواص اور ان کی حقیقت بیان کرنے والے کے معنیٰ میں ہے، اس بنا پر جہاںخدا وند عالم فرماتا ہے۔
(وعلمّ آدم الأسماء کلّھا)(١)
اور خدا وند عالم نے سارے اسماء کا علم آدم کو دیا !
اس کے معنی یہ ہوں گے، خدا وند عالم نے اشیاء کی خاصیتوں اور تمام علوم کا علم آدم کو سکھا یا، جز علم غیب کے کہ کوئی اس میں خدا کا شریک نہیں ہے مگر یہ کہ کسی کو وہ خود چاہے اور بعض پوشیدہ اخبار اس کے حوالے کر دے۔

٢ - ٣- رحمن ورحیم کے معنی
قرآن کریم میں خدا وند عالم کے اسماء اور مخصوص صفات ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض دنیوی آثار بعض اخروی اور بعض دینوی اور اخروی دونوں آثار کے حامل ہیں، منجملہ ان اسماء اور صفات کے'' رحمن ورحیم'' جیسے کلمات ہیںجن کے معنی تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔
لغت کی کتابوں میں'' رحم ، رحمت اور مرحمت'' مہر بانی، نرمی اور رقت قلب کے معنی میں ذکر ہوئے ہیں '' مفردات الفاظ القرآن'' نامی کتاب کے مصنف راغب کا '' رحم'' کے مادہ میں جو کلام ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
رحمت؛رقت قلب اور مہر بانی ہے اس طرح سے کہ جس پر رحمت نازل ہوتی ہے اسکے لئے احسان وبخشش کا باعث ہوتی ہے، یہ کلمہ کبھی صرف رقت اور کبھی احسان وبخشش کے معنی میں بغیررقت کے استعمال ہوتاہے:جب رحمت خدا وندی کی بات ہوتی ہے تواس سے مراد بغیر رقت صرف احسان وبخشش ہوتا ہے، اس
..............
(١)بقرہ ٣٠ .
لئے روایات میںآیا ہے: جو رحمت خدا کی طرف سے ہوتی ہے وہ مغفرت وبخشش کے معنی میں ہے اور جو رحمت آدمیوں کی طرف سے ہوتی ہے وہ رقت اور مہر بانی کے معنی میں ہو تی ہے۔
لفظ ''رحمان'' خدا وند متعال سے مخصوص ہے اور اس کے معنی خدا کے علاوہ کسی اورکو زیب نہیں دیتے کیونکہ تنہا وہی ہے جس کی رحمت تمام چیز وںکو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔
لفظ '' رحیم'' خدا اور غیر خدادونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، خدا وند عالم نے اپنے بارے میں فرمایا ''انّ اﷲ غفور رحیم'' خدا وند عالم بخشنے والا مہر بان ہے اور پیغمبر ۖکے بارے میں فرمایا:
(لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزیز علیہ ما عنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم)(١)
یقینا تم ہی میں سے ایک رسول تمہاری جانب آیا کہ تمہاری مصیبتیں اس کے لئے گراں ہیں تمہاری ہدایت کے لئے حرص رکھتاہے اور مومنین کے ساتھ رؤوف و مہربان ہے۔
نیز کہا گیا ہے : خدا وند عالم دنیا کا رحمن اور آخرت کا رحیم ہے، کیونکہ خدا کا احسان دنیا میں عام ہے جو کہ مومنین اور کافرین دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں صرف مومنین سے مخصوص ہے، خدا وند عالم نے سورۂ اعراف میں فرمایا:
(و رحمتنی وسعت کل شی ئٍ فسأ کتبھا للذین یتقون) (٢)
میری رحمت ساری چیزوں کو شامل ہے عنقریب میں اسے ان لوگوں سے مخصوص کر دوں گے جو تقوی اختیار کرتے ہیں۔
یعنی میری رحمت دنیا میں مومنین اور کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں صرف مومنین سے مخصوص ہے۔
تاج العروس'' کتاب کے مصنف بھی اس سلسلے میں اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:''رحمن'' خداوند عالم کامخصوص نام ہے جو اس کے علاوہ کسی اور کے لئے سزا وار نہیں ہے ،کیو نکہ ، اس کی رحمت تمام موجودات کو خلق کرنے ، رزق دینے اور نفع پہنچانے کے لحاظ سے شامل ہے۔
رحیم'' ایک عام نام ہے ہراس شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے جو صفت رحمت سے متصف ہو،اس
..............
(١)توبہ ١٢٨ .
(٢)اعراف ١٥٦ .
کے بعد کہتے ہیں : امام جعفر صادق کے کلام کے یہی معنی ہیں جو آپ نے فرمایا :'' رحمان'' عام صفت کے لئے ایک خاص نام ہے اور رحیم ایک خاص صفت کے لئے ایک عام نام ہے ۔
جو کچھ ان لوگوں نے کہا ہے اس کا مؤید یہ ہے کہ،''رحیم'' قرآن کریم میں٤٧مقام پر'' غفور''، ''بَرّ''،''رؤف'' اور ''ودود ''(١) کے ہمراہ ذکر ہوا ہے۔
کلمہ ''رحمن''سورۂ الرحمن میںاس ذات کا اسم اور صفت ہے جس نے انسان کو خلق کرنے اور بیان سکھا نے کے بعد قرآنی ہدایت کی نعمت سے نوازا ہے اور زمین کو اس کی ساری چیزوں کے ساتھ جیسے میوہ جات، کھجوریں،دانے اور ریا حین (خوشبو دار چیزیں) وغیرہ اس کے فائدہ کے لئے خلق فرمائی ہیں پھر جن وانس کو مخاطب کر کے فرمایا : (فبأَیّ آلاء ربّکما تکذبان)
پھر تم اے گروہ جن و انس خدا کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے!
پھر بعض دنیاوی نعمتیں شمار کرنے کے بعد کچھ اخروی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
( لمن خاف مقام ربّہ جنتان)
اُس شخص کے لئے جو اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، بہشت میں دو باغ ہوںگے یہاں تک کہ آخر سورہ میںفرماتا ہے:
( تبارک اسم ربّک ذوالجلال والاِکرام)
بابرکت اور لا زوال ہے تمہارے صاحب جلال اورعظیم پروردگار کانام!
..............
(١) دیکھئے:'' معجم المفہرس'' مادہ ٔ '' رحم''