١٠۔
پاداش اور جز ا کی بربادی ، بعض اعمال کی سزا ہے
الف:عمل کے حبط اور برباد ہو نے کی تعریف
کسی عمل اورکام کا حبط ہونا اس کام کے نتیجہ کا باطل اور تباہ ہونا ہے ،انسان کے اعمال کا نتیجہ آخرت میں درج ذیل وجوہات کی بنا پرتباہ ہوتا ہے:
١۔ خدا وند عالم اور روز قیامت پر ایمان نہ لائے یا مشرک ہو اور خداو رسول سے جنگ کرے۔
٢۔ دنیاوی فا ئدہ کے لئے عمل انجام دیا ہو جس کی جز ا بھی حسب خواہش دنیا میں دریافت کرتا ہے۔
٣۔ متقی نہ ہو اور آداب اسلامی کو معمولی اور سمجھے اور ریا کرے وغیرہ...۔
ب: حبط عمل قرآن کریم کی رو شنی میں
خدا وند سبحان نے قرآن کریم میں انسانوں کے نیک اعمال کی تباہی اور حبط کی کیفیت ان کے اسباب کے ساتھ بیان کی ہے خواہ وہ کسی بھی صنف اور گروہ سے تعلق رکھتے ہوں سورۂ اعراف میں آیات خدا اورروز قیامت کے منکر ین کے بارے میں فرماتا ہے :
(و الذین کذبو ا بآ یا تنا و لقاء الآخر ة حبطت أعما لھم ھل ےُجزون اِلاّ ما کانوا یعملون)(١)
جو لوگ آیات خدا اور قیامت کو جھٹلاتے اور تکذیب کرتے ہیں ان کے اعمال تباہ ہو جا ئیں گے،آیا جو کچھ عمل کرتے تھے اس کے علاوہ جز ا پائیں گے؟!
مشرکین کے بارے میں سورۂ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:
..............
(١)اعراف ١٤٧۔
( ما کان للمشر کین أن یعمروا مساجد اﷲ شاھد ین علیٰ أنفسھم با لکفر اولآئک حبطت أعما لھم و فی النار ھم خالدون)( اِنّما یعمر مساجد اﷲ من آمن باﷲ و الیوم الآخر و أقام الصلاة و أٰتی الزکاة و لم یخش اِلاّ اﷲ فعسی اولآئک أن یکونوا من المھتدین)(١)
یہ کام مشرکین کا نہیں ہے کہ وہ مساجد خدا کو آباد کریںجب کہ وہ خود ہی اپنے کفر کی گواہی دیتے ہیں ! اس گروہ کے اعمال تباہ و برباد ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ آتش جہنم میں رہیں گے، مساجد خدا وندی کو صرف و ہ آ باد کرتا ہے، جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اور نماز قائم کرتا اور زکاة دیتا ہواور خدا کے سوائے کسی سے نہ ڈرتا ہو امید ہے کہ یہ گروہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوگا۔
مرتد اور دین سے بر گشتہ افراد سے متعلق سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:
(…و مَن یر تدد منکم عن دینہ فیمت و ھوکافرفأولائک حبطت اَعما لھم فی الدنیا و الآخرة و أولآئک أصحاب النار ھم فیہاخالدون)(٢)
تم میں سے جو بھی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے اور کفر کی حالت میں اس کی موت واقع ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت بر باد ہیں اوروہ اہل جہنم ہیں اوراس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
کافروں اور رسول خدا ۖ سے جنگ و جدال کرنے والوں سے متعلق سورۂ محمد ۖ میں ارشاد ہوتا ہے:
(ان الذین کفروا وصدّ وا عن سبیل اﷲ و شاقو ا الر سول من بعد ما تبین لھم الھدیٰ لن یضُرُّو ا اﷲ شیئاً و سےُحبط أعما لھم)( یا أ ّیھا الذین آمنوا أطیعوا اﷲ وأطیعوا الرّ سول ولا تُبطلو ا أعما لکم)(٣)
وہ لوگ جو کافر ہو چکے ہیں اورلوگوں کو راہ خدا سے دور کرتے ہیں اور جب کہ ان پر راہ ہدایت روشن ہوچکی ہے ( پھر بھی) رسول خدا سے جھگڑاکرتے ہیں ایسے لوگ کبھی خدا کو نقصان نہیں پہنچا سکتے( بلکہ خدا) بہت جلد ان کے اعمال کو تباہ او رنا بود کردے گا، اے صاحبان ایمان! خدا اور رسول کی اطاعت و فرما نبر داری کرو اور اپنے اعمال کو تباہ نہ کرو!
اعمال کا حبط اوربرباد ہونا( جیسا کہ گزرچکا ہے اور آگے بھی آئے گا) صرف کافروں ہی کو شامل نہیں ہے بلکہ اس کے دائرہ میں مسلمان بھی آتے ہیں، خدا وند عالم سورۂ حجرات میںارشاد فرماتا ہے:
..............
(١) توبہ ١٧ ، ١٨ .
(٢) بقرہ ٢١٧.
(٣)محمد ٣٢ ، ٣٣ .
(یا اَےّھا الذّ ین آمنوالا ترفعوااَصواتکم فوق صوت النّبی ولاتجھروا لہ با لقول کجھر بعضکم لبعض أن تحبط أعمالکم و أنتم لا تشعرون) (١)
اے صاحبان ایمان ! اپنی آواز وں کونبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور جس طرح تم ایک دوسرے سے بات کرتے ہو نبی سے بلند آواز میںبات نہ کرو کہ تمہارے اعمال بر باد ہوجائیں اور تم سمجھ بھی نہ سکو۔
سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:
(یا أ ےُّھا الذین آمنوا لا تُبطلوا صد قا تکم با لمنّ و الأ ذی کا لّذی ےُنفِقُ ما لہُ رِئاء الناسِ و...)(٢)
اے صاحبان ایمان! اپنے صدقات اور بخششوں کو منت وآزار کے ذریعہ تباہ و برباد نہ کرو،اُس شخص کی طرح جو اپنا مال ریااور خود نمائی کی خاطر انفاق کرتا ہے…۔
ج:حبط عمل روایات کی روشنی میں
اسلامی روایات میں حبط اعمال کے بہت سارے اسباب کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ ہم ذیل میں ان کے چند نمونے ذکر کررہے ہیں:
شیخ صدوق نے ثواب الاعمال نامی کتاب میں رسول خدا ۖ سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: جو شخص ''سبحان اﷲ'' کہتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگاتا ہے اور جو شخص ''الحمد للہ''کہتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگاتاہے اور جو شخص '' لا الہ ا لاّاﷲ'' کہتاہے خدا وندعالم اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگاتاہے اور جو شخص ''اﷲ اکبر''کہتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے بہشت میں ایک درخت پیدا کرتا ہے۔قریش کے ایک شخص نے کہا: اے رسول خداۖ ! اس لحاظ سے تو ہمارے لئے بہشت میں بہت سارے درخت ہیں! فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے، لیکن ہوشیار رہوکہیں ایسا نہ ہو کہ ان سب کو تم آگ بھیج کر خاکستر کر دو، کیونکہ خدا وند عزّوجل فرماتا ہے :
( یا اَےّھا الذین آمنوا اطیعوا اﷲ و اطیعو ا الرّسول و لا تبطلوا أعمالکم)(٣)
اے صاحبان ایمان! خدا اور رسول ۖ کی اطاعت کرو نیز اپنے اعمال کو ( نافرمانی کر کے) باطل نہ کرو۔
صحیح مسلم وغیرہ میں رسول خداۖ سے ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
..............
(١) حجرات٢
(٢)بقرہ٢٦٣. ٢٦٤.
(٣)ثواب الاعمال ص ٣٢اور سورئہ محمد آیہ٣٣
''ِانّ فر طکم علیّ الحوض، مَن وردَ شرب، و مَن شرب لم یظمأ بعد ،وَ لیر دنَّ علیَّ أقوام أعر فُھُم و یعر فونی ثمُّ ےُحٰالُ بینی و بینھم''(١)
میرے پاس طرف حوض کوثر کی جا نب سبقت کرو کیو نکہ جو وہاں پہنچے گا سیراب ہوگا اور جو سیراب ہوگااس کے بعد کبھی پیاسا نہیں ہوگا،وہاں میرے پاس کچھ گروہ آئیں گے جنھیں میں پہنچانتا ہوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے پھراس کے بعد میرے اوران کے ما بین جدائی ہو جائے گی۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
'' لیر دَنَّ علیَّ الحوض رجال ممن صاحبنی حتیٰ اِذا رأیتھم اختلجوُا دونی،فَلاََقوُْلنَّ أیْ ربَّ أصحابی ، فےُقا لنَّ لی : ِانّکَ لا تدری ما أحد ثوا بعدک''۔(٢)
میرے اصحاب میں سے کچھ لوگ میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے لیکن جب تک کہ میں انھیں دیکھوں مجھ سے جدا کر دئے جائیں گے ، میں (جلدی سے) کہوں گا : میرے خدا! میرے اصحاب ہیں! میرے اصحاب ہیں! مجھ سے کہا جائے گا :تمھیں نہیں معلوم کے انھوں نے تمہارے بعد کیا کیا ہے!
رسول خدا ۖ سے ایک دوسری حدیث میں ذکر ہوا ہے:
( ِانَّ المرائی ےُد عیٰ بہ یوم القیامة بأر بعة أسماء ٍ: یا کافر ! یا فاجر! یا غادر! یا خاسر! حبط عملک وبطل أجرک و لا خلاق لک الیوم ، فا لتمس أجرک ممن کُنتَ تعملُ لہُّ)(٣)
قیامت کے دن ریا کار انسان کو چار ناموں سے پکارا جائے گا: اے کافر، اے فاجر، اے مکار ، اے زیانکار! تیرا عمل تباہ و برباد اور تیری جزا باطل ہوگئی ، آج تجھے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا ، اس وقت اپنی جزا کے لئے کسی ایسے سے درخواست کر جس کے لئے کام کرتا تھا!
گزشتہ بحث کا خلاصہ
یہاں تک'' ربّ العا لمین'' کی جانب سے انسانوں کودی جانے والی جزاکے نمونے بیان کئے ہیں آئندہ بحث میں انشاء اﷲالٰہی جزا اور سزامیں جن وانس کی شرکت کے بارے میںگفتگو کر یںگے۔
..............
(١)صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، حدیث ٢٦، ٢٧، ٢٨ اور ٣٢، ٤٠. (٢) صحیح مسلم،کتاب الفضائل حدیث ٢٦ ، ٢٧، ٢٨ ،٣٢، ٤٠
(٣) بحار : ج٧٢، ص ٢٩٥، بحوالہ ٔ امالی شیخ صدوق.
|