٧۔
صبر وتحمل کی جزا
جس طرح خدا وندعالم نے انسان کے ہر عمل کے لئے دنیوی جزا اور اخروی پاداش رکھی ہے اسی طرح مصائب و آلام پر انسان کے صبر و تحمل کیلئے دنیاوی جزا اور اخروی پاداش مقرر کی ہے، امام علی ـنے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آ نحضرتۖ نے فرمایا:
'' الصبر ثلاثة صبر عند المصیبة، و صبر علی الطاعة و صبر عند المعصیة''(١)
صبر و شکیبائی کی تین قسمیںہیں:
١۔مصیبت کے وقت صبر کرنا ۔
٢۔ اطاعت میں استقامت و پائیداری۔
٣۔ معصیت کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرنا۔
خدا وند عالم سورہ ٔاعراف میں فرماتا ہے:
''بنی اسرائیل کو اس وجہ سے جزا دی ہے کہ انھوں نے دنیاوی زندگی میں صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کیا''۔
( واورثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الأرض و مغاربھا التی بارکنا فیھا و تمت کلمت ربّک الحسنی علی بنی اِسرائیل بما صبروا ودمّرنا ما کان یصنع فرعون و قومہ و ما کانوا یعر شون)(٢)
مشرق ومغرب کی سر زمینوں کو جس میں ہم نے برکت دی ہے مستضعف قوم (بنی اسرائیل) کومیراث میںدیدیا اور تمہارے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل سے ان کے صبر و استقامت کے مظاہرے کے نتیجہ میں
..............
(١)بحار ، ج ٨٢ ،ص ١٣٩، مسکن الفؤاد کے حوالے سے.
(٢)اعراف ١٣٧.
پورا ہوا اور فرعون اور فرعون کی قوم والے جو کچھ بنا رہے تھے ان کو اور ان کی اونچی اونچی عمارتوں کو مسمار کر دیا ۔
نیز صبر کی سہ گانہ اقسام کی پاداش کے بارے میں فرماتا ہے۔
١۔( ولنبلو نّکم بشیئٍ من الخوف والجوع و نقصٍ من الأموال و الأ نفس و الثمرات و بشّرالصا برین الذین اذا أصابتھم مصیبة قالوا اِنّا للہ و اِنّا اِلیہ را جعون۔ اولآء ک علیھم صلوات من ربّھم و رحمة و اولاء ک ھم المھتدون)(١)
یقینا ہم تمھیں خوف، بھوک، جان ومال اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ آزمائیں گے اور بشارت دیدو ان صبرکرنے والوں کو کہ جب کوئی مصیبت ان پر پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اوراسی کی طرف ہماری بازگشت ہے، ان ہی لوگوں پرپروردگار کا درودو رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
٢( لیس البرّ ان تولّوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب و لکنّ البر من آمن باﷲ و الیوم الآ خر و الملا ئکة و الکتاب والنبیےّن و أتی المال علیٰ حبہ ذوی القربیٰ و المساکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرّقاب وأقام الصّلاة وآتی الزکاة و الموفون بعھد ھم اذا عاھدوا والصابرین فی البأ ساء و الضرّاء و حین البأس اولئک الذین صدقوا و أولآء ک ھم المتقون)(٢)
نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کومغرب اور مشرق کی طرف کرلو،بلکہ نیکی اور نیک کردار وہ ہے جو خدا ،روز قیامت ، فرشتوں ، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے ہو اور باوجود اس کے کہ اسے خود مال کی سخت ضرورت ہے، اپنے رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں،ابن سبیل، سائلوں اور غلاموں پر انفاق کرے،نماز قائم کرتا ہو اور زکوة دیتا ہو، نیز وہ لوگ جو عہد وپیمان کرتے ہیں اور اپنے عہد کو وفا کرتے ہیںاور محرومیوں، بیماریوںاور جنگ کے موقع پر ثبات قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ لوگ ایسے ہیں جو سچ کہتے ہیں اور یہی لوگ متقی اور پرہیز گار ہیں!
سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیات کا خلاصہ یہ ہوا کہ پرہیز گار، نیک وصالح اور ہدایت یافتہ یہ وہ لوگ ہیںجو اچھے اور شائستہ عمل انجام دیتے ہیںاور صبر کے تینوں اقسام سے آراستہ اور مالامال ہیں۔
طاعت و مصیبت پر صبرکرنے کے منجملہ نمونے اور مصادیق میں سے اذیت وآزار اورتمسخر واستہزا پر مؤمنین کا خدا پر ایمان لانے کی وجہ سے صبر و شکیبائی اختیار کرنا جیسا کہ خدا وند عالم اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:
..............
(١)بقرہ ١٥٥، ١٥٧
(٢)بقرہ ١٧٧.
١۔(اِنّہ کان فریق من عبادی یقولون ربنا آمنّا فاغفرلنا وأرحمنا وأنت خیر الرّاحمین فأ تخذ تموھم سخرےّا حتیٰ أنسوکم ذکری وکنتم منھم تضحکون انی جزیتھم الیوم بھا صبروا أنّھم ھم الفائزون) (١)
بتحقیق ہمارے بندوں کا ایک گروہ کہتا ہے: خداوند ا! ہم ایمان لائے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر کیونکہ تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے،تم نے ان کا مسخرہ کیااور مذاق اڑایا یہاں تک کہ انھوں نے تمھیں میرے ذکر سے غافل کر دیا اور تم لوگ اسی طرح مذاق اڑاتے رہے ، ہم نے آج ان کے صبرو استقامت کی وجہ سے انھیں جزا دی ہے،یقینا وہ لوگ کامیاب ہیں ۔
٢۔(الذین اتینا ھم الکتاب من قبلہ ھم بہ یؤمنون و اذا یتلیٰ علیھم قالوا آمنّا بہ اِنّہ الحق من ربّنا اِنّا کنا من قبلہ مسلمین أولائک یؤتون اَجرھم مر تین بما صبروا و یدرأون با لحسنة السّےّئة و مِمّا رزقنا ھم ینفقون۔ واِذا سمعوا اللّغو اعرضوا عنہ و قالوا لنا أعمالنا ولکم أعمالکم سلام علیکم لانبتغی الجاھلین)(٢)
وہ لوگ جنھیں ہم نے قرآن سے پہلے آسمانی کتاب دی اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب ان پر تلاوت ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہم یہ اس پر ایمان لائے، یہ سب کا سب حق ہے اور ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم اس سے پہلے بھی مسلمان تھے ، ایسے لوگ اپنے صبر و استقامت کی بنا پردومرتبہ جزا دریافت کرتے ہیں اور نیکیوں سے بُرائیوں کو دور کرتے ہیں، جوکچھ ہم نے انھیں روزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اور جب کبھی بیہودہ اور لغو بات سنتے ہیںتواس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلام کہ ہم جاہلوں کو دوست نہیں رکھتے۔
٣۔خدا وند عالم نے سورۂ رعد میں نماز قائم کرنے والوں اور صابروں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:
(و الذین صبروا ابتغاء وجہ ربھم ؤقامو االصلاة و أنفقوامِمّارزقنا ھم سراً و علا نےةً و یدرء ون بالحسنة السیئة أولآئک لھم عقبیٰ الدار)(جنات عدنٍ ید خلونھا و من صلح من آبائھم وأزواجھم وذر ےّا تھم و الملا ئکة یدخلون علیھم من کل بابٍ سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار)(٣)
..............
(١)مومنون ١٠٩، ١١١
(٢)قصص ٥٢، ٥٥.
(٣)رعد ٢٢۔٢٤
اور جو خدا کی مرضی حاصل کرنے کے لئے صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ انھیں ہم نے روزی دی ہے اس میں سے آشکارا اور پوشیدہ طور پر انفاق کرتے ہیں اور نیکیوں کے ذریعہ بُرائیوں کودور کرتے ہیں ، اس دنیا یعنی عقبیٰ کا نیک انجام صرف ان سے مخصوص ہے دائمی اور جاوید بہشتوں میں اپنے نیک اور صالح آباء و اجداد،بیویوں اور فرزند وں کے ساتھ رہیں گے اور فرشتے ہر در سے ان پر داخل ہو کر کہیں گے:تم پر سلام ہو کہ تم نے صبر کا مظاہرہ کیا!اور کتنا اچھا ہے اس دنیا کاانجام!
کلمات کی تشریح:
١۔''یعرشون'': اوپرلے جاتے ہیں،یہاں پر اس سے مراد وہ محکم اور مضبوط عمارتیں ہیں جنھیں فرعونیوں نے اپنی املاک میں بنائی تھیں۔
٢۔''البأ س و الباسآئ'': سختی اور ناخوشی اور جنگ یہاں پر باساء سے مراد سختی اورناخوشی ہے اور (بأس) سے مراد جنگ کا موقع ہے۔
٣۔''یدرؤن، ید فعون'': دور کرتے ہیں اور اپنے سے ہٹاتے ہیں۔
روایات میں صابروں کی جزا
بحار میں اپنی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق ـسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت رسول خدا ۖ نے فرمایا:
جب نامۂ اعمال کھو لا جائے گا اور اعمال تولنے کے لئے میزان قائم ہوگی تو مصیبتوں کا سامنا کرنے والے صابروں کے لئے نہ اعمال تولنے کا ترازو ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال نامے کھولے جائیںگے ! اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:
( اِنّما یوفیّٰ الصابرون ٔاجر ھم بغیرحساب)
صابروں کو ان کے صبر کی بے حساب جزا ملے گی۔ (١)
نیز بحار میں اپنی سند سے امام زین العابدین سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
..............
(١) بحارج ٨٢ ، ص ١٤٥ا ور زمر ١٠.
''جب خدا وند عالم تمام اولین وآخرین کوجمع کرے گا ،تو ایک منادی ندا کرے گا : کہاں ہیں صبر کرنے والے تاکہ بے حساب بہشت میں داخل ہوں ؟کچھ سرفراز اور ممتاز لوگ اٹھیں گے ، فرشتے ان کے پاس جاکر کہیں گے : اے اولاد آدم کہاں جارہے ہو ؟ کہیں گے : بہشت کی طرف : کہیں گے: حساب سے پہلے ہی؟کہیں گے ہاں، پھر وہ لوگ سوال کریں گے تم لوگ کون ہو؟کہیں گے صابرین! پھر وہ کہیں گے : تمہارا صبر کس طرح کا تھا ؟ جواب دیں گے :اطاعت الٰہی میں ثابت قدم اوراس کی معصیت سے ہم نے خود کو اس وقت تک بچایا جب تک کہ خدا نے ہمیں موت نہ دیدی اور روح نہ قبض کر لی ، فرشتے کہیں گے:تم ویسے ہی ہو جیسا کہ تم نے کہا، جنت میں داخل ہو جاؤ کیو نکہ اچھا کام کر نے والوں کی جزا بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔(١)
اور شیخ صدوق ثواب الاعمال میںاپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر ـسے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
''جو شخص دنیا سے اندھا جا ئے ، جبکہ اس نے خدا کے لئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہو اور محمد و آل محمد ۖ کا چاہنے والا ہو تو وہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی حساب نہ ہوگا''۔ (٢)
یہ سب اس جزا کے نمونے ہیں جسے انسان غم واندوہ پر صبر کر نے یا عمل کی بنیاد پر دریافت کر ے گاآیندہ بحث میں خدا کی مدداو رتوفیق سے اس بات کی تحقیق و بر رسی کر یں گے کہ اعمال کے نتیجے کس طرح سے میراث بن جاتے ہیں۔
..............
(١)بحار : ج،٢٨، ص ١٣٨.
(٢)ثواب الاعمال،ص ٦١ اور ٢٣٤.
٨۔
عمل کی جزا نسلوں کی میراث ہے
خدا وند عالم نے خبر دی ہے کہ عمل کی جزا اور پاداش بعد کی نسلوں کے لئے بھی باقی رہ جاتی ہے جیسا کے سورۂ نساء میںفرماتا ہے:
(ولیخش الذین لو ترکوا من خلفھم ذرّےةً ضعافاً خافوا علیھم فلیتّقوا اﷲ و لیقولوا قو لاً سد یدا)( اِنّ الذین یأ کلون أموال الیتامی ظلماً اِنّما یأ کلون فی بطو نھم ناراً و سیصلون سعیراً)(١)
جو لوگ اپنے بعد چھو ٹے اور ناتواں بچے چھوڑ جاتے ہیںاوران کے آئندہ کے بارے میں خوفزدہ رہتے ہیں، انھیں چاہئے کہ ڈریں ، خداکا تقویٰ اختیار کریں،سنجیدہ اور درست باتیں کہیں، نیزوہ لوگ جو یتیموں کے اموال بعنوان ظلم وستم کھاتے ہیں ، وہ اپنے شکم کے اندر صرف آتش کھاتے ہیں اور عنقریب آگ کے شعلوں میں جلیں گے ۔
سورۂ کہف میں ارشاد ہوتا ہے:
(فانطلقا حتیّٰ اذا اتیا اھل قرےة ٍ استطعما اھلھا فا بوا ان یضیفو ھما فوجدا فیھا جداراً یرید ان ینقض فا قا مہ قال لو شئت لتخذت علیہ اجراً … و اما الجدار فکان لغلا مین یتیمین فی المدینة و کان تحتہ کنز لھما و کان ابو ھما صالحاً فا رادربک ان یبلغا اشُدَّ ھُما و یستخرجا کنز ھما رحمةً من ربک…) (٢)
حضرت خضر و حضرت موسی اپنا راستہ طے کرتے رہے ،یہاں تک کہ لوگوں کی ایک بستی میںتک پہنچے اوران سے غذا کی درخواست کی ، لیکن ان لوگوں نے انھیں مہمان بنا نے سے انکارکیا ، وہاں ایک گرتی ہوئی
..............
(١)نساء ٩ ، ١٠.
(٢) کہف ٧٧ ،٨٢ .
دیوار ملی ،خضر نے اسے سیدھا کر دیا موسیٰ نے کہا : اس کام کے بدلے اجرت لے سکتے تھے... لیکن وہ دیواراس شہر میں دو یتیموں کی تھی اوراس کے نیچے ایک خزانہ تھا جو انھیں دو سے متعلق تھا ، ان کا باپ نیک انسان تھا اور تمہارے پروردگار نے چاہا کہ جب وہ دونوں بالغ ہو جائیں تو اپنا خزانہ نکال لیں، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک نعمت تھی…۔
کلمات کی تشریح:
١۔''سدید'': درست، قول سدید یعنی درست اور استوار بات جو عدل و شرع کے مطابق ہو۔
٢۔'' سعیر'': بھڑ کی ہوئی سر کش آگ کہ اس سے مراد جہنم ہے۔
٣۔''ینقض''ُّ: گرتی ہے ،یعنی وہ دیوار گرنے اور انہدام کی منزل میں تھی۔
٤۔''اشد ھما'':ان دونوں کی قوت اور توانائی،'' یبلغا اشدّ ھما''یعنی سن بلوغ اور توانائی کو پہنچ جائیں۔
مرنے کے بعد عمل کے نتائج اور آثار
بعض اعمال کے آثار انسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور اس کا نفع اور نقصان اس صاحب عمل کو پہنچتا رہتاہے؛ جناب شیخ صدوق نے خصال نامی کتاب میں امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
'' انسان مرنے کے بعد کسی ثواب اور پاداش کا مالک نہیں ہوتا بجز تین کاموں کی جزا کے''۔
١۔صدقہ جاریہ، یعنی وہ صدقہ جس کا سلسلہ اس نے اپنی زندگی میں قائم کیا ہو ، جیسے وقف کی وہ جائداد جو میراث میں تقسیم نہیں ہوتی، یہ سلسلہ مرنے کے بعد قیامت تک جاری رہتا ہے۔
٢۔ہدایت و راہنمائی کی وہ سنت قائم کی ہو جس پر وہ خود عامل رہا ہو اوراس کی موت کے بعد دوسرے اس پر عمل کریں۔
٣۔ اس نے ایک ایسی نیک اور صالح اولاد چھوڑی ہو جواس کے لئے بخشش ومغفرت کی دعاکرے ۔(١)
..............
(١) خصال صدوق ج ١، ص ١٥٣.
اس حدیث کی شرح دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ امام نے فرمایا:
چھ چیزیں ایسی ہیں جن سے مومن اپنی موت کے بعد فائدہ اٹھا تا ہے:
١۔ صالح اولاد جواس کے لئے بخشش ومغفرت چا ہتی ہے۔
٢۔ کتاب اور قرآن کاپڑھنا۔
٣۔پانی کا کنواں کھودنا۔
٤۔درخت لگانا۔
٥۔پانی جاری کر کے صدقہ کے لئے وقف کردینا ۔
٦۔وہ پسندیدہ سنت جو مرنے کے بعد کام آئے۔(١)
یہاں تک ہم نے دنیا وآخرت میں عمل کے آثار اوران کا بعنوان میراث باقی رہنا بیان کیا ہے، نیک اعمال کے جملہ نتائج وآثار میں ایک''حق شفاعت''ہے کہ پروردگار عالم اپنے بعض بندوں کو عطا کرے گا اور ہم انشاء اﷲ آئندہ بحث میں اس پر سیر حاصل گفتگو کریں گے۔
..............
(١)خصال صدوق ج١ ، ص ٣٢٣
|