اسلام کے عقائد(دوسری جلد )
 

٦۔
انسان اور جنت و جہنم میں اس کی جزا
خدا وندعالم انسان کو عالم آخرت میںاس کے اعمال کے مطابق جو اس نے اس دنیاوی زندگی میں انجام دئیے ہیں اوراس عا لم میں اس کے سامنے مجسم ہوں گے بہشتی نعمتوں کے ذریعہ جزا اور عذاب جہنم کے ذریعہ سزا دے گا ، جیسا کہ اس کے بارے میں خود ہی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:
١۔(اِنّ اﷲ ید خل الذین آمنو ا وعملو االصالحات جنّٰاتٍ تجری من تحتھا الأنھار)(١)
خداوندعالم ایمان لانے والوںاورعمل صالح انجام دینے والوں کو بہشت کے باغوں میںجن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی داخل کرے گا۔
٢۔ ( ومَن عمل صالحاً من ذکر أو أنثیٰ وھو مؤمن فأولئک یدخلون الجنة یرزقون فیھا بغیرِ حساب)(٢)
جو کوئی بھی عمل صالح انجام دے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، وہی لوگ بہشت میں جائیں گے اوراس میں بے حساب رزق پائیں گے۔
٣۔(… من یعمل سوء اً یجز بہ و لا یجد لہ من دونِ اﷲ ولےّا و لا نصیراً۔ و من یعمل من الصّا لحات من ذکرٍ أو أنثیٰ و ھو مؤمن فأولئک ید خلونَ الجنة و لا ےُظلمونَ نقیراً)
جو شخص بُرے کام کریگا اسے اس کی سزا ملے گی اور خدا کے علاوہ کسی کو ولی اور یاور نہیں پائے گا اور اگر کوئی اعمال صالحہ انجام دے گا ، خواہ عورت ہو یامرد ، جب کہ وہ مومن بھی ہو وہ جنت میں جائے گا اوراس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا۔(٣)
٤۔(و یوم القیا مة تری الذین کذبوا علیٰ اﷲ وجوھھم مسو دّة الیس فی جھنم مثویً للمتکبرین)
..............
(١)حج٢٣
(٢)مومن٤٠
(٣)نسائ١٢٣،١٢٤
(... ووفّیت کلّ نفسٍ ما عملت)(...وسیق الذین اِتّقواربّھم اِلی الجنةِ زمراً...)(١)
جن لوگوں نے خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے انھیں دیکھو گے کہ ان کے چہرے قیامت کے دن سیاہ ہوں گے،آیا متکبر ین کے لئے جہنم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے؟ اور جس نے جو بھی عمل انجام دیا ہے بغیر کسی کم وکاست کے اسے دیا جائے گا … اور جن لوگوں نے تقوائے الٰہی اختیار کیا ہے وہ جوق در جوق بہشت میں لے جائے جائیںگے۔
٥۔( الذین آمنوا بآ یا تنا و کانوا مسلمین۔ أدخلوا الجنة انتم وأزواجکم تحبرون)(٢)
جو لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے اور مسلمان بھی ہیں]اُن سے کہا جائے گا[تم اور تمہاری بیویاں جنت میں خوش وخرم داخل ہو جاؤ۔
٦۔ ( وتلک الجنة التی أورثتموھا بما کنتم تعملون)( ِأن المجر مین فی عذاب جھنم خا لدون )( وما ظلمنا ھم و لکن کانوا ھم الظّا لمین )(٣)
اوریہ وہ بہشت ہے جس کے تم اپنے اعمال کی جزا کے طور پر وارث ہو گے،(لیکن) گناہ کاروں کے لئے جہنم کا عذاب ابدی ٹھکانہ ہے... ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ہے بلکہ وہ خود ظالم تھے ۔
٧۔ (و الذین یکنزون الذھب والفضّة ولا ےُنفقونھا فی سبیل اﷲ فبشّرھم بعذابٍ ألیمٍ۔ یوم یحمیٰ علیھا فی نارجھنم فتکویٰ بھا جبا ھھم و جنو بُھُم و ظھو رُ ھم ھذا ما کنزتم لأنفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون) (٤)
جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں لیکن اسے راہ خدا میں انفاق نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دیدو! جس دن انھیں جہنم کی آگ میں گرم کرکے ان کے چہروں ، پہلووں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اورا ن سے کہیں گے )یہ وہی چیز ہے جس کا تم نے اپنے لئے خود ہی ذخیرہ کیا ہے ! لہٰذا جو تم نے جمع کیا ہے اسکا مزہ چکھو۔
شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول اکرمۖ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
'' اربعة یؤذون أھل النار علی ما بھم من الأ ذی ینادون بالویل و الثبور: رجل علیہ تا بوت من حجر فِانہ مات وفی عنقہ أموال الناس لم یجد لھا فی نفسہ ادائً ولا مخلصاً ورجل یجرأ معاء ہ ،فأ نہ کان لا یبالی أین أصاب البول جسدہ ورجل یسیل فوہ قیحاً و دماً، فأنہ
..............
(١) زمر٦٠ ،٧٠ ،٧٣
(٢) زخرف ٦٩، ٧٠
(٣)زخرف٧٢، ٧٤، ٧٦.
(٤)توبہ٣٤، ٣٥
کان یحاکی فینظر کل کلمةٍخبیثةٍ فیفسدُ بھا و یحاکی بھا و رجل یأکل لحمہ،فأنہ کان یأ کل لحوم الناس بالغیبة و یمشی بالنمیمة''(١)
چار گروہ ایسے ہیں کہ جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو آہ وواویلا اور دہائی کا شور مچائیں گے جس سے اہل جہنم کو اذیت ہوگی۔
١۔ایک وہ شخص جس پر پتھر کا تابوت ہو گا کیونکہ وہ ایسی حالت میں دنیا سے گیا ہے کہ لوگوں کے اموال و مال حقوق اس کی گردن پر تھے جن کے نیز ادا کرنے اور ان سے چھٹکارا پانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تھا ۔
٢۔وہ شخص جو اپنی آنتیں خود گھسیٹتا پھرے گا وہ ایسا آدمی ہے جو بدن کے کسی حصّہ پر پیشاب کے لگ جانے کی پرواہ نہیں کرتا ۔
٣۔ وہ شخص جس کے منھ سے پیپ اور خون جاری ہوگا ، اس لئے کہ وہ ان کے اوران کے منھ سے بُری باتیںلیکر دوسروں کے سامنے بیان کرتا تھا اور فتنہ وفساد برپا کرتا تھا۔
٤۔وہ شخص جواپنا گوشت کھائے گا ،وہ ایسا شخص ہے جو لوگوں کا گوشت غیبت اور چغلی کر کے کھاتا تھا۔
خدا وند متعال جنت اور جہنم کے متعدد دروازوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:
(…واِنّ للمتقین لحسن مآبٍ۔جناتِ عدنٍ مفتحةً لھم الأبواب)(٢)
پرہیز گاروں کا انجام بخیر ہے، جاوداںبہشتی باغات جس کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔
ابلیس سے خطاب کرتے ہوئے (اس پر خدا کی لعنت ہو) فرمایا:
(اِنّ عبادی لیس لک علیھم سلطان اِلاّمن أتبعک من الغاوین۔ و اِنّ جھنم لموعدھم أجمعین،لھاسبعةُ ابوابٍ لکل بابٍ منھم جزء مقسوم) (٣)
تو کبھی ہمارے بندوں پر مسلط نہیں ہوپائے گا، سوائے ان گمراہوں کے جو تیری پیر وی کریں اور جہنم ان سب کا ٹھکانہ اور وعدہ گاہ ہے،جس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لئے ان میںسے ایک معین گروہ تقسیم ہوا ہے۔

کلمات کی تشریح:
١۔''نقیر'': خرمے کی گٹھلی کی پشت پر معمولی نشیب اور نقطہ کو کہتے ہیں کہ ہلکی اور بے ارزش چیزوں
..............
(١)عقاب الاعمال ص ٢٩٥ ،٢٩٦
(٢)ص٤٩،٥٠.
(٣)حجر ٤٢، ٤٤.
کی اس سے مثال دیتے ہیں۔
٢۔''مثوی'' : استقرارو اقامت کی جگہ، ٹھکانہ وغیرہ۔
٣۔'' زمرا ً '': گروہ گروہ، زُمَر ، زُمْرہ کی جمع ہے فوج اور گروہ کے معنی ہے۔
٤۔'' مآب'' : باز گشت، عاقبت ، انجام ۔
٥۔''جنات عدن'' : سکون و اطمینان کی جنتیں.

روایات میںآیات کی تفسیر
مذکورہ آیات کی تفسیر سے متعلق رسول خدا ۖ سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جہنم کے سات ، بعض در، دوسرے در سے بہتر ہیں۔ (١)
حضرت امام علی سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
کیا تمھیں معلوم ہے کہ جہنم کے دروزے کیسے ہیں ؟ راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا : انھیں دروازوں کے مانندہیں، فرما یا نہیں ، بلکہ اس طرح ہیں: اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھا اوراُسے کھول دیا ،یعنی جہنم کے دروازے خود جہنم کے مانند ایک دوسرے پر سوار ہیں اور تفسیر قر طبی میںآیا ہے،اس کے بعض دروازے بعض دروازوں پر ہیں اور رسول خدا ۖ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ! ہر طبقے والے اپنے اسی طبقے میں ہیں۔ (٢)
نیز رسول خدا ۖ سے روایت ہے کہ آپ نے '' جزء مقسوم''کی تفسیر میں فرمایا:جہنم کے در وزوںمیں سے ہر در وازے کے لئے اہل جہنم کا ایک معین گروہ تقسیم ہو ا ہے کہ ہر گروہ جواپنے کرتوت کے مطابق عذاب میں مبتلاہو گا۔(٣)

آخر میں ہم بعض احادیث کا ذکر کر کے بحث کو تمام کریں گے جو گزشتہ آیات کی تشریح کر رہی ہیں اور اعمال کے نتائج اجمال واختصار اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہی ہیں اس ۔
١۔اصو ل کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
''جو کسی مومن کو راضی و خوشنود کرے خدا وند عزوجل اس خوشنودگی سے ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو اس کے
..............
(١) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج٤ ،ص ٩٩، ١٠٠،
(٢)اس آیت کی تفسیر کے لئے تفسیر مجمع البیان ، تفسیر قرطبی و سیوطی کی جانب مراجعہ کیجئے.
(٣) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج٤ ،ص ٩٩.
مرنے کے وقت اس سے ملاقات کرے گی ا وراس سے کہے گی: اے خدا کے ولی! تجھے مبارک ہو کہ تو خداوندعالم کی کرامت اور اس کی رضاوخو شنودگی کے ساتھ ہے، پھر وہ اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گی یہا ں تک کے قبر میں جاتے وقت اسے یہی خوشخبری دے گی اور جب محشور ہوگا تب بھی اس کے دیدار کو جائے گی ،اس کے پاس رہے گی یہاں تک کہ سخت اور ہولناک میں ہمیشہ اسے نوید دے گی اوراس کا دل شاد کرتی رہے گی، پھر وہ شخص اس سے
کہے گا : تجھ پر خدا کی رحمت ہو تو کون ہے ؟ کہے گی:''میں وہی خوشی ہوں جو تو نے فلاں شخص کو عطاکی تھی''(١)
٢۔بحار میں جناب صدوق کی ''معانی الاخبار'' سے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:
جو کسی مومن کا غم غلط کرے اوراس کے رنج کو دور کرے خداوند عالم آخرت میں اس کے رنج و غم کو دور کرے گا اور وہ ٹھنڈے دل کے ساتھ خوش حال قبر سے باہر آئے گا اور جو کسی مومن کو گرسنگی اور بھوک سے نجات دے خدا وند عالم اسے بہشت میں میوے کھلائے گا اور جو کوئی اسے پانی پلائے خدا وند عالم اسے جنت کے مہر شدہ جام پانی سے سیراب کرے گا۔(٢)
٣۔ حضرت امام ابو الحسن سے اصول کافی میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
روئے زمین پر خدا کے کچھ ایسے بندے ہیں جو ہمیشہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے رہتے ہیں ،وہ لوگ روز قیامت آسودہ خاطر اور خوشحال افراد میں سے ہوںگے ، ہاں اگر کوئی کسی مومن کو خوش کرے تو خدا وندعالم قیامت کے دن اس کا دل شاد کرے گا۔ (٣)
٤۔اصول کافی میںحضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :
کوئی مسلمان کسی مسلمان کی ضرورت پوری نہیں کر تا مگر یہ کہ خدا وندعالم اسے آواز دیتا ہے تیری جزا مجھ پر ہے اور بہشت کے علاوہ کسی چیز پر تیرے لئے راضی نہیںہوں۔(٤)
٥ ۔جناب صدوق نے ثواب الاعمال میں معروف بن خر ّبوذ کا قول نقل کیا ہے کہ اس نے کہا، میں نے امام باقر ـ کو فرماتے ہوے سناہے:
''جو مومن بھی دنیا میں پریشانی اور مشکلات میں گرفتار ہو اور بوقت مشکل '' انا للہ و انا الیہ راجعون'' کہے ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جا ئیں گے! خدا وند عالم اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دے گا ،
..............
(١)اصول الکافی ج٢ص١٩١،ح١٢
(٢)بحار ج٦ ،ص ٣٥٥
(٣)اصول کافی ج٦ ، ص ١٩٧ ،ح٦ (٤)اصول کافی ج١ ، ص١٩٤ ،ح٧
سوائے ان گناہان کبیرہ کے جو جہنم کا باعث ہوں اور فرمایا: جب بھی کوئی اپنی آئندہ عمر میں کسی مصیبت کویاد کرے اور کلمہ استر جاع ''انا للہ و انا الیہ راجعون''کہے اور خدا کی حمد کرے خدا وندعالم اس کے وہ تمام گناہ جو کلمہ استر جاع اوّل اورکلمئہ استرجاع دوم کے فاصلہ میں انجام د یئے ہیں بخش دے گا سوائے گناہان کبیرہ کے''۔(١)
٦۔ بحارالانوار میں امام جعفر صادق سے اور انھوں نے رسول خداۖسے ذکر کیا ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے:
'' کسی بندہ کو بہشت میںا س وقت تک داخل نہیں کروں گا جب تک کہ ا سے جسمانی تکالیف میںمبتلا نہ کردوں، اگر یہ بلا اور مصیبت اس کے گناہوں کے کفارہ کی حد میں ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ کسی جابر و ظالم کواس پر مسلط کر دوںگا اگراس سے اس کے گناہ دھل گئے تو اسی پر اکتفاء کروں گا ورنہ اس کی روزی کو تنگی میں میںقراردوں گا تاکہ اس کے گناہ دھل جائیں اگراگراس سے دھل گئے تو ٹھیک ورنہ موت کے وقت اس پر اتنی سختی کروں گا کہ میرے پاس بے گناہ اورپاک و صاف ا ئے پھراسے اسوقت بہشت میں داخل کروں گا...۔(٢)
٧۔صیح بخاری میں ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:
''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جو مصیبت میں مبتلا ہو اور خدااُس کے گناہوں کو ختم نہ کر دے جیسے کہ درخت سے پتے جھڑتے ہیں''(٣)
٨۔ایک دوسری روایت میں ہے : کسی مسلمان پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر یہ کہ خدا وند عا لم اسکے گناہوں کا کفارہ قرار دیتاہے خواہ وہ ایک خراش ہی کیوں نہ ہو۔(٤)
٩۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں مذکور ہے کہ رسول خداۖ نے فرمایا:
''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جس کوکانٹے کی خراش یااس سے سخت تر کوئی چیز پہنچے مگر یہ کہ خدا وند عالم
اس کے گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دے گا جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں''۔(٥)
١٠۔صحیح بخاری اور مسنداحمدمیں ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
''کسی مسلمان کو کوئی رنج و غم، دشواری، دردو مرض ، مصیبت و اندوہ، یااذیت و آزار،آسیب و گزند حتی کا خراش تک نہیں پہنچتی مگر یہ کہ خداوند عالم ا سے ا سکے گناہوں کا کفّارہ قراردیتا ہے''(٦)
..............
(١)بحارجلد٨٢ ، ص١٢٧، ١٢٨ بہ نقل از ثواب ا لاعمال ص٢٣٤ (٢)بحار ج٦ ، ص ١٧٢ ۔ بہ نقل ازکتاب التمحیص.(٣)صحیح بخاری کتاب المرضی، باب :'' شدة المرض'' (٤)صحیح بخاری ج٣ ، ص ٣، کتاب المرضی، باب : ''ماجاء فی کفا رة المرض''(٥)صحیح بخاری ج٣، ص٣، کتاب المرضی، باب:''شدة المرض''صحیح مسلم،کتاب البر و الصلة والادب، باب'' ثواب المو من فیما یصیبہ ''(٦)صحیح بخاری ج٣، ص٢، کتاب المرضی باب:''ما جاء فی کفارة المرض'' .مسند احمد ج٣، ص ١٨٠.