اسلام کے عقائد(دوسری جلد )
 

ایک پیغمبرۖ کی شریعت میں نسخ کے معنی
ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:
یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:
(یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْہَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ اﷲَ غَفُور رَحِیم (١٢) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اﷲُ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا اﷲَ وَرَسُولَہُ وَاﷲُ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (١٣)(١)
اے صاحبان ایمان! جب رسول اﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔
اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:
بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبر ۖ سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبر ۖ کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرم ۖ کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔
..............
(١)مجادلہ ١٢، ١٣،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )
اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبر ۖ سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمۖ سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ
جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔
اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔
حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاء ۖ کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:
١۔ (شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ بہ نوحاً...)(١ )
تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔
٢۔( و ِأن من شیعة لأِبراہیم)
ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔(٢)
٣۔ خاتم الانبیاء ۖ اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:
الف۔( اتبع ملّة ابراہیم حنیفاً )
ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔
ب ۔(فاتّبعوا ملّة أِبراہیم حنیفاً)
..............
(١)شوری ١٣
(٢)،صافات ٨٣
پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔ (١)
اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتم ۖ کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میںآیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
١۔(کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسہ)(٢)
کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔
٢۔( و علیٰ الذین ھادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل)(٣)
اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔
٣۔ (اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیہ) (٤)
سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔
توریت کے سفر تثنیہ کے ٣٣ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''
اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔
..............
(١)آل عمران٩٥
(٢)آل عمران ٩٣
(٣)نحل ١١٨
(٤)نحل ١٢٤
دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میںالواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔(١)نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔
حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔
حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میںشمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔
حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد اﷲ ۖنے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :
( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراة و الأنجیل یأمرھم بالمعروف وینھا ھم عن المنکر ویحلّ لھم الطےّبا ت و یحرّم علیھم الخبائث و یضع عنھم أِصر ھم والأغلال الّتی کا نت علیھم)(٢)
..............
(١) سورئہ بقرہ ٢٨٤
(٢)اعراف١٥٧
وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔
خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:
( اِنّا انزلناالتوراة فیھا ھدیً و نور یحکم بھا النبےّون الذین أسلموا للذین ھادوا...) (و کتبنا علیھم فیھا أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق بہ فھو کفّارة لہ و من لم یحکم بما انزل اﷲ فأولائک ھم الظالمون)(١)
ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرۖاسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔
جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔
..............
(١)مائدہ ٤٤ ،٤٥

آیۂ تبدیل کی شان نزول
جب خدا وند سبحان نے شریعت موسیٰ کے بعض احکام کو دوسرے احکام سے حضرت خاتم الانبیاء ۖ کی شریعت میں تبدیل کردیا( جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے) توقریش نے رسول پر شورش کی اور بولے : تم خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہو!تو خدا وند عالم نے ا ُن کی بات انھیں کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا:
(واِذا بدّلنا آےة مکان آےة و اﷲ اعلم بما ینزّل قالوا اِنّما أنت مفتر...) (اِنما یفتری الکذب الذین لایؤمنون بآیات اﷲ ...)( فکلوا ممّا رزقکم اﷲ حلا لاً طیباً)(١)
اور جب ہم کسی حکم کو کسی حکم سے تبدیل کرتے ہیں (اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے )تو وہ کہتے ہیں : تم صرف ایک جھوٹی نسبت دینے والے ہو ...،صرف وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے… لہٰذا جو کچھ خدا نے تمہارے لئے رزق معین فرمایا ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔
یعنی کچھ چیزیں جیسے اونٹ کا گوشت ،حیوانات کے گوشت کی چربی تم پر حرام نہیں ہے ، صرف مردار ، خون ، سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانورجن کے ذبح کے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، حرام ہیں، نیز وہ قربانیاں جو مشرکین مکّہ بتوں کو ہدیہ کرتے تھے اسکے بعد خدا وند عالم نے قریش کو خدا پر افترا پردازی سے روکا اور فرمایا : من مانی اور ہٹ دھرمی سے نہ کہو : یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے !چنانچہ ان کی گفتگو کی تفصیل سورۂ انعام میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
( وقالوا ھذہ أنعام و حرث حجر لا یطعمھا اِلاّ من نشاء بزعنمھم و أنعام حرّمت ظھور ھا و أنعام لا یذکرون اْسم اﷲ علیھا أفترائًً علیہ و سیجزیہم بما کانوا یفترون)( و قالوا ما فی بطون ھذہ الأنعام خالصة لذکورنا و محرّم علیٰ أزواجنا و ِان یکن میتةً فھم فیہ شرکاء سیجز یھم و صفھم أنّہ حکیم علیم)(٢)
انھوں نے کہا : یہ چوپائے اور یہ زراعت ممنوع ہے، بجزان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں(ان کے اپنے گمان میں)کوئی دوسرا اس سے نہ کھا ئے اور کچھ ایسے چوپائے ہیں جن پر سواری ممنوع اور حرام ہے ! اور وہ
..............
(١)نحل ١٠١ ، ١٠٥، ١١٤
(٢)انعام ١٣٨، ١٣٩
چوپائے جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا کی طرف ان سب کی جھوٹی نسبت دیتے تھے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا اور وہ کہتے تھے : جو کچھ اس حیوان کے شکم میں ہے وہ ہم مردوں سے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ! اور اگر مر جائے تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا وند عالم جلد ہی ان کی اس توصیف کی سزا دے گا وہ حکیم اور دانا ہے۔
سورۂ یونس میں بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
(قل أراْیتم ماأنزل اﷲ لکم من رزق فجعلتم منہ حراماًوحلالاً قل آأﷲ أذن لکم أم علیٰ اﷲ تفترون)(١)
کہو: جو رزق خدا وند عالم نے تمہارے لئے نازل کیا ہے تم نے اس میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر دیا، کیا خدا نے تمھیں اس کی اجازت دی ہے ؟ یا خدا پر افترا پردازی کر رہے ہو؟
اس طرح رسول خدا ۖ اور مشر کین قریش کے درمیان حلال و حرام کا مسٔلہ قریش کے خود ساختہ موضوعات سے لے کر شریعت موسیٰ کے احکام تک کہ جنہیں جسے خدا نے مصلحت کی بناء پر حضرت خاتم ۖ کی شریعت میں دوسرے احکام سے تبدیل کر دیا ،سب کے سب موضوع بحث تھے۔
مکہ میںقریش ہر وہ حلال و حرام جسے رسول اکرم ۖخداکے فرمان کے مطابق پیش کرتے تھے اور وہ ان کے دینی ماحول کے اور جو کچھ موسیٰ ابن عمران کی شریعت کے بارے میں جانتے تھے اس کے مخالف ہوتا تو عداوت و دشمی کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے اسی دشمنی کا مدنیہ میں بھی یہود کی طرف سے سامناہوا، وہ پیغمبرۖ سے ان احکام کے بارے میں جو توریت کے بعض حصے کو نسخ کرتے تھے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں اس جدال کو بیان کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے:
( أفکلما جاء کم رسول بما لا تھوی انٔفسکم اْستکبرتم ففر یقاً کذبتم و فریقاً تقتلون) (٢)
کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی رسول نے تمہاری نفسانی خواہشات کے برعکس کوئی کسی چیز پیش کی ، تو تم نے تکبر سے کام لیا،لہٰذا کچھ کو جھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟
..............
(١)یونس ٥٩
(٢)بقرہ ٨٧
(و اِذا قیل لھم آمنوا بما أنزل اﷲ قالوا نؤمن بما أنزل علینا ویکفرون بما ورائہ...)(١)
اور جب ان سے کہا گیا :جو کچھ خدا نے نازل کیا ہی اسپر ایمان لاؤ!تو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو خود ہم پر نازل ہو اہے اوراس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔
اور پیغمبر سے فرماتا ہے:
(ما ننسخ من آےة أو ننسھا نأت بخیر منھا أَومثلھا…)
ہم اُس وقت تک کوئی حکم نسخ نہیں کرتے یااسے تاخیر میں نہیں ڈالتے ہیں جب تک کہ ا س سے بہتر یااس جیسا نہ لے آئیں۔(٢)
(ولن ترضیٰ عنک الیھودولا النّصاریٰ حتیٰ تتّبع ملّتھم…)(٣)
یہود ونصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کے ان کے دین کا اتباع نہ کرلو۔
توریت کے نسخ شدہ احکام بالخصوص تبدیلی قبلہ سے متعلق بنی اسرائیل کے رسول خدا ۖ سے نزاع و جدال کرنے کی خبر دیتے ہوئے خدا وند عالم سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے :
''ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہ کو دیکھ رہے ہیں ؛ اب اس قبلہ کی سمت جس سے تم راضی اور خشنود ہو جاؤ گے تمہیں موڑ دیں گے ،جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لو،اہل کتاب(یہود و نصاریٰ ) خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اوران کے رب کی طرف سے ہے اور تم جیسی بھی آیت اور نشانی اہل کتاب کے سامنے پیش کرو وہ لوگ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔ (٤)
پس اس مقام پر نسخ آیت سے مراد اس حکم خاص کا نسخ تھا ، جس طرح ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلنے سے مراد کہ جس کے بارے میںقریش رسول اکرم ۖ سے نزاع کر رہے تھے، مکّہ میں قریش اور غیر قریش کے درمیان بعض حلال و حرام احکام کو تبدیل کرنا ہے ۔
بنابراین واضح ہوا کہ خدا کے کلام : '' واِذا بدّلنا آےة مکان آےة '' میں لفظ آیت سے مراد حکم ہے ، یعنی :'' اِذا بدلنا حکماً مکان حکم'' جب بھی کسی حکم کو حکم کی جگہ قرار دیں…
اور خدا وندعالم کے اس کلام '' ما ننسخ من آےة أو ننسھا'' سے بھی مراد یہ ہے : جب کبھی کو ئی حکم ہم نسخ کرتے یا اسے تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااس جیسا اس کی جگہ لاتے ہیں۔
..............
(١)بقرہ ٩١
(٢)بقرہ ١٠٦
(٣)بقرہ ١٢٠
(٤) بقرہ١٤٤ ١٤٥
حکم کو تاخیر میں ڈالنے کی مثال : موسی کی شریعت میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کوتاخیر میں ڈالنا اوراس کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم سے تبدیل کرنا ہے کہ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے مفیداور سود مند تھا۔
نسخ حکم اور اسے اسی سے بہتر حکم سے تبدیل کرنے کی مثال خاتم الانبیاء کی شریعت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کا منسوخ کرنا ہے کہ تمام لوگ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کریں۔پس ایک آیت کے دوسری آیت سے تبدیل کرنے کا مطلب ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنا ہے ، اس طرح واضح ہو گیا کہ خدا وند عالم جو احکام لوگوں کے لئے مقرر کرتا ہے کبھی انسان کی مصلحت اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہے اسمیں لحاظ کی جاتی ہے ایسے احکام نا قابل تغییرو تبدیل ہوتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم نے سورۂ روم میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:
(فأ قم وجھک للدین حنیفاً فطرت اﷲ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اﷲ ذلک الدین القیم و لٰکنّ أکثر الناس لا یعلمون) (١)
اپنے رخ کو پروردگار کے خالص اور پاکیزہ دین کی طرف کر لو، ایسی فطرت کہ جس پر خدا وندعالم نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے آفرینش خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی محکم و استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
یعنی اُن قوانین میںجنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی فطرت کے مطابق بنائے ہیں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،سورۂ بقرہ میں اسی کے مانندخدا کا کلام ہے:
(والوالدات یرضعن أولا دھنّ حولین کاملین لمن أراد أن یتم الرضاعة) (٢)
اور جو مائیں زمانہ رضاعت کو کامل کرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں۔
یہ مائیں کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی زندگی گزارتی ہوں ان میںکوئی فرق نہیں ، خواہ حضرت آدم کی بیوی حواہوں جو اپنے نومولودکو درخت کے سائے میں یا غار میں دودھ پلائیں، یاان کے بعد کی نسل ہو ، جو غاروں، خیموںاور محلوں میں دودھ پلاتی ہے دو سال مکمل دودھ پلانا ہے۔
اسی طرح بنی آدم کے لئے کسی تبدیلی کے بغیر روزہ ، قصاص اور ربا (سود) کی حرمت کا حکم ہے، جیسا
..............
(١)روم ٣٠
(٢)بقرہ ٢٣٣۔
کہ خدا وند سبحان سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :
١۔(یا أےّھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون)(١)
اے صاحبان ایمان! روزہ تم پراسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض تھا شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔
٢۔ (یا أےّھا الذین آمنواکتب علیکم القِصاص…)(٢)
اے صاحبان ایمان ! تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔
٣۔(و أحلّ اﷲ البیع وحرّم الرّبا…)(٣)
خدا وندعالم نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیاہے۔
یہ اور دیگر وہ احکام جسے خدا وندعالم نے انسان کی انسانی فطرت کے مطابق اسکے لئے مقرر فرمایا ہے کسی بھی آسمانی شریعت میں تغییر نہیں کرتے، یہ احکام قرآن میں لفظ''وصّٰی ، یوصیکم، وصےةاور کتب'' جیسے الفاظ سے تعبیر ہوئے ہیں۔
لیکن جن احکام کو خداوندعالم نے خاص حالات کے تحت بعض لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے ، ان کی مدت بھی ان حالات کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجاتی ہے جیسے وہ احکام جنھیں بنی اسرائیل سے متعلق ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا جواُن کے خاص حالات سے مطابقت رکھتے تھے، یا وہ احکام جو خدا وندعالم نے پیغمبرۖ کے ہمراہ مکّہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائے اور عقد مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث ہونا انصار مدنیہ کے ساتھ ہجرت کے آغاز میں قانونی حیثیت سے متعارف اور شناختہ شدہ تھا پھر فتح مکّہ کے بعداس کی مدت تمام ہوگئی اور یہ حکم منسوخ ہو گیا، خدا وند عالم سورۂ انفال کی ٧٢ ویں ٧٥ ویں آیت تک اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:
(اِنّ الذین آمنو أوھاجروا)
وہ لوگ جو ایمان لائے اور مکّہ سے ہجرت کی۔
(واّلذین آووا ونصروا)
..............
(١)بقرہ ١٨٣
(٢) بقرہ ١٧٨
(٣) بقرہ ٢٧٥.
اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت فرمائی یعنی مدینہ میں پیغمبر ۖکے انصار ۔
(أولآء ک بعضھم أولیاء بعض)
ان لوگوں میں بعض ، بعض کے وارث اور ولی ہیں،یعنی میراث لینے اور نصرت کرنے کی ولایت رکھتے ہیں.
( والذین آمنوا ولم یھاجروا مالکم من ولایتھم من شیئٍ حتّیٰ یھاجروا… والذین کفروا بعضھم أولیاء بعض)
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی تم لوگ کسی قسم کی ولایت ان کی بہ نسبت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں... اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیںاُن میں سے بعض، بعض کے ولی اور سرپرست ہیں۔
پھر خدا نے اس حکم کے نسخ ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے :
(وأولوا الأرحام بعضھم أولی ببعض فی کتا ب اﷲ)
اقرباء کتاب الٰہی میں آپس میں ایک دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ اور سزاوار ترہیں۔
یعنی ان احکام میں جنھیں خدا وند عالم نے تمام انسانوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اقرباء کو حق تقدم اور اولویت حاصل ہے۔(١)
خلاصہ، قوم یہود نے جب قرآن کی الٰہی آیات کو سنا اور دیکھا کہ صفات قرآن جو کچھ حضرت خاتم الانبیاء ۖ کی بعثت کے متعلق ان کے پاس موجود ہے اس کی تصدیق اور اس کاا ثبات کر رہے ہیں تو وہ اس کے منکر ہوگئے اور بولے: ہم صرف اس توریت پر جو ہم پر نازل ہوئی ہے ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ انجیل اور قرآن پر ایمان و یقین نہیں رکھتے ،خدا وندعالم نے بھی قرآن کی روشن آیات اور اسکے معجزات اور احکا م کے ارسال کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: فاسقوں(کافروں )کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں ہوگا اور پھر فرمایا: ہم شریعت کے ہر حکم کو نسخ کرتے ہیں( جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کا منسوخ ہونا) یاہم اسے مؤخرکرتے ہیں تواُس سے بہتر یااسی جیسا حکم لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں ، خدا وند عالم خود زمین و آسمان کا مالک ہے ،وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے یہود و نصاریٰ رسول اﷲ ۖ سے ہر گز راضی نہیں ہوںگے مگر یہ کہ جوان پر احکام نازل ہوئے ہیںان سے دست بردار ہو جائیں اوران کی شریعت کے احکام کے پابند ہوجائیں۔
خدا وندعالم اسی مفہوم کی دوسرے انداز میں تکرار کرتے ہوئے سورئہ اسراء میں فرماتا ہے:
..............
(١)اس آیت کی تفسیر کے لئے مجمع البیان ، تفسیر طبری اور دوسری روائی تفاسیرکی جانب رجوع کیجئے.
(و آتینا موسیٰ الکتاب و جعلنا ہ ھدیً لبنی اِسرائیل) (١)
ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا،پھر فرماتا ہے :
(انّ ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم)(٢)
یہ قرآن محکم اور استوارترین راہ کی ہدایت کرتا ہے،یعنی قرآن کا راستہ اس سے وسیع اوراستوارتر ہے جو موسی کی کتاب میںآیا ہے۔
ہم نے ربوبیت کے مباحث میں بات یہاں تک پہنچائی کہ رب العالمین نے انسان کے لئے اسکی فطرت اور سرشت کے مطابق ایک نظام معین کیا ہے پھر راہ عمل میں ان مقررات اور قوانین کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، انشاء اﷲ آئندہ بحث میں اس بات کی تحقیق و بر رسی کریں گے کہ رب العالمین کس طرح سے انسان کو دنیا و آخرت میں پاداش و جزا دیتا ہے۔
..............
(١) اسرائ٢
(٢)اسرائ٩