سوم : خلیل خدا حضرت ابرا ہیم ـ
ہماری بحث میں حضرت ابراہیم سے مربوط آیات درج ذیل ہیں:
الف۔سورہ حج َ :
(وَ اِذ بَوّ انا لِابراہیم مکان البیتِ ان لا تشرک بی شیئا وطھر بیتی للطا ئفین و القائمین والرکع السجود٭ واذن فی الناس بالحج یأ توک رجالا و علیٰ کل ضامر یأ تین من کلّ فج عمیق ٭ لیشھدوا منافع لھم و یذکروا اسم اﷲ فی أیام معلومات علی مارزقھم من بھیمة الا نعام ) (١)
اورجب ہم نے ابراہیم کیلئے گھر( بیت اللہ) کو ٹھکانا بنایا توان سے کہا : کسی چیز کومیرے برابر اور میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں ، رکوع اور سجودکرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور لوگوں کو حج کی دعوت دو تا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار دور دراز راہ سے تمھاری طرف آئیں ، تا کہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور خدا وند عالم کا نام معین ایام میں ان چوپایوں پر جنھیں ہم نے انکا رزق قرار دیا ہے اپنی زبان پر لائیں:
ب ۔ سورئہ بقرہ:
(و اِذ جعلنا البیت مثابةً للناس و امناً و اتّخد وا من مقام اِبراہیم مصلی و عھدنا الی ابراہیم و اسماعیل ان طھرابیتی للطائفین و العا کفین و الرکع السجود... واذ یرفع أبراہیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منا اِنک اَنت السمیع العلیم ۔ ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا أمة مسلمة لک و أرنا منا سکنا وتب علینا اِنّک اَنت التوّاب الرحیم)(٢)
اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا ٹھکانہ اور ان کے امن و امان کا مرکز بنایا اور ان سے فرمایا مقام ابراہیم کو اپنا مصّلیٰ قرار دو اور ابراہیم و اسما عیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں ،مجاورں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور جب ابراہیم و اسما عیل خانہ کعبہ کی
..............
(١) حج٢٦۔٢٨
(٢) بقرہ ١٢٥۔١٢٨
دیواریں بلند کر رہے تھے تو کہا : خدایا ہم سے اسے قبول فرما اس لئے کہ تو سننے اور دیکھنے والا ہے ،خدایا !ہمیں اپنا مسلمان اور مطیع و فرما نبردار قرار دے اور ہماری ذریت سے بھی ایک فرمانبردار ، مطیع ومسلمان امت قرار دے نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا اور ہماری توبہ قبول کر اس لئے کہ تو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔
ج۔ سورئہ بقرہ :
(و قالو ا کونوا ھوداً او نصاریٰ تھتدوا قل بل ملّة ابراہیم حنیفاً و ما کان من المشرکین قولو ا آمنّا با للہ و ما أنزل الینا و ما أنز ل ا لیٰ اِبراہیم واِسماعیل و اسحٰق ویعقوب و الأِسباط وما أوتی موسیٰ وعیسیٰ و ما أوتیٰ النبےّون من ربّھم لا نفرق بین أحد منھم و نحن لہ مسلمون)(١)
اور انھوں نے کہا : یہودی یا نصرانی ہو جائو تاکہ ہدایت پائو؛ ان سے کہو : بلکہ حضرت ابراہیم کے خالص اور محکم آئین کااتباع کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے ان سے کہو ہم خدا پر ایمان لائے ، نیزاس پر بھی جو ہم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ابراہیم ،اسماعیل ، اسحق ،یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوا ہے ، نیز جو کچھ موسیٰ ،عیسیٰ اور تمام انبیاء پر خداوندا عالم کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ہم ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتے اور ہمصرف خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔
د۔سورئہ آل عمران:
( ما کان اِبراہیم یھودیاً ولانصرانیاً و لکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین(٢)
ابرا ہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ ایک خالص خدا پر ست اور مسلمان تھے اور وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔
نیز اسی سورہ میں :
(قل صدق اﷲ فاتبعوا ملّة ابراہیم حنیفاً وما کا ن من المشرکین )(٣)
کہو! خداوند عالم نے سچ کہا ہے ،لہٰذا براہیم کے خالص آئین کی پیروی کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔
..............
(١) بقرہ ١٣٥ و ١٣٦
(٢) آل عمران٦٨
(٣)آل عمران٩٥
ہ۔ سورئہ انعام:
( قل انّنی ھدانی ربّی الی صراط مستقیم دیناً قیماً ملّة ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین)(١)
کہو! ہمارے خدانے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے استوار و محکم دین اور ابراہیم کے خالص آئین کی وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔
ز۔سورئہ نحل:
(ثمّ أوحینا الیک ان اتّبع ملّة اِبراہیم حنیفاًو ما کان من المشرکین)(٢)
پھر ہم نے تم کو وحی کی کہ ابراہیم جو کہ خالص اور استوار ایمان کے مالک تھے نیز مشرکوں میں نہیں تھے ان کے آئین کی پیروی کرو۔
کلمات کی تشریح:
١۔ بوّانا: ھّیأنا :ہم نے آمادہ کیا ،جگہ دی اوراسے تمکن بخشا۔
٢۔اَذِّن: اعلان کرو ، دعوت دو ،صدا دو ،لفظ اذا ن کا مادہ یہی کلمہ ہے۔
٣۔ رجالاً: پا پیادہ ، جو سواری نہ رکھتا ہو،راجل یعنی پیادہ ( پیدل چلنے والا)
٤۔البھیمة: ہر طرح کے چوپائے۔
٥۔ ضامر: دبلا پتلا لاغر اندام اونٹ۔
٦۔فجّ: پہاڑوں کے درمیان درّہ کو کہتے ہیں۔
٧۔مثابة: اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ رجوع کرتے ہیں:
(و أِذجعلنا البیت مثابة للناس)
یعنی ہم نے گھر کو حجاج کے لئے رجوع اورباز گشت کی جگہ قرار دی تاکہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف آئیں، نیز ممکن ہے ثواب کی جگہ مراد ہو ، یعنی لوگ مناسک حج و عمرہ کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ثواب و
..............
(١) انعام ١٦١
(٢) نحل١٢٣
جزاکے بھی مالک ہوں،نیز ان کے امن و امان کی جگہ ہے۔
٨۔( مناسکنا،عباداتنا)''نُسک ''خدا کی عبادت اور وہ عمل جو خدا سے نزدیکی اور تقرب کا باعث ہو ،جیسے حج میںقربانی کرنا کہ ذبح شدہ حیوان کو '' نسیکہ''کہتے ہیں ؛ منسک عبادت کی جگہ اورمناسک: عرفات ،مشعر اور منیٰ وغیرہ میں اعمال حج اور اس کے زمان و مکان کو کہتے ہیں۔
٩۔ مقام ابراہیم :کعبہ کے مقابل روئے زمین پر ایک پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔
١٠۔ حنیف : استوار، خالص ، ضلا لت و گمراہی سے راہ راست اور استقامت کی طرف مائل ہونے والا ؛ حضرت ابراہیم کی شریعت کا نام ''حنیفیہ'' ہے۔
١١۔قِیماً، قِیماور قَےِّم: ثابت مستقیم اور ہر طرح کی کجی اور گمراہی سے دور۔
١٢۔ ملة۔ دین، حق ہو یا باطل ، اس لحا ظ سے جب بھی خدا ، پیغمبر اور مسلمان کی طرف منسوب ہو اس سے مراد دین حق ہے۔
آیات کی مختصر تفسیر:
خدا وندا عالم فرماتا ہے: اے پیغمبر!اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ سے آگاہ کیا تاکہ اس کی تعمیر کر یں اور جب ابراہیم و اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو وہ دونوںاپنے پروردگار کو آواز دیتے ہوئے کہہ رہے تھے : خدا یا !ہم سے اس عمل کو قبول کر اور ہمیں اپنا مطیع و فرما نبردار مسلمان بندہ قرار دے، نیز ہماری ذریت سے ایک سراپا تسلیم رہنے والی مسلمان امت قرار دے، نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا ،خدا وند سبحان نے انکی دعا قبول کر لی ، ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو راہ خدا میں قربان کر رہے ہیں۔(١ ) اس وقت اسماعیل سن رشد کو پہنچ چکے تھے اور باپ کے ساتھ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے، ابراہیم نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اسماعیل کو اس سے آگاہ کر دیا، انھوں نے کہا : بابا آپ جس امر پرمامور ہیںاسے انجام دیجئے ،آپ مجھے عنقریب صابروں میں پائیں گے، لہٰذا جب دونوں فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہو گئے اور ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو زمین پر لٹا دیا تاکہ راہ خدا
..............
(١) پیغمبر جو خواب میں دیکھتا ہے وہ ایک قسم کی وحی ہو تی ہے۔
میں قربان کریں تو خدا وند عالم نے آواز دی : اے ابراہیم !تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھا یا!کیو نکہ اسمٰعیل کو ذبح کرنے میں مشغول ہو گئے تھے اور یہ وہی چیز تھی جس کا انھوںنے خواب میں مشاہدہ کیا تھا ، انھوں نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذ بح کر چکے ہیں اسی اثنا میں خدا نے دنبہ کو اسماعیل کا فدیہ قرار دیا اور ابراہیم کے سامنے فراہم کردیا اور انھوں نے اسی کی منیٰ میں قربانی کی ۔
خدا وند عالم نے ابراہیم کو حکم دیا کہ حج کااعلان کردیں کہ عنقریب لوگ پاپیادہ اورسواری سے دور دراز مسافت طے کر کے حج کے لئے آئیں گے اور خدا وندعالم نے اس گھر کو امن و امان کی جگہ اور ثواب کا مقام قرار دیا اور حکم دیا کہ لوگ مقام ابراہیم کو اپنا مصلیٰ( نماز کی جگہ) بنا ئیں۔
خدا وند عالم دیگرآیات میں ابراہیم کے دین اور ملت کے بارے میں خبر دیتے ہو ئے فرماتا ہے :
ابراہیم خالص اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے ، وہ نہ تو مشرک تھے اور نہ یہودی اور نصرانی ، جیسا کہ بعض اہل کتاب کا خیال ہے ، خداوندعالم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آئین ابراہیم کی پیروی کریں اور پیغمبرۖ کو اس کام کے لئے مخصوص فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگو ں سے کہیں:
ہمارے خدا نے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے ، جواستوار دین اور حضرت ابراہیم کی پاکیزہ ملت جوکہ شرک سے رو گرداں اور اسلام کی طرف مائل تھے منجملہ حضرت خاتم الا نبیاء کا اپنے جد ابراہیم کی شریعت کی پیروی میں مناسک حج بجا لا نا بھی ہے اس طرح کہ جیسے انہوں نے حکم دیا تھا ، رسول ۖ خدا کی امت بھی ایسا ہی کرتی ہے اور مناسک حج اسی طرح سے بجا لاتی ہے جس طرح ابراہیم خلیل الر حمن نے انجام دیا تھا۔
بحث کا نتیجہ
جمعہ کا دن حضرت آدم اور ان تمام لوگوں کے لئے جوان کے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے مبارک دن تھا، یہ دن حضرت خاتم الانبیا ء اور ان کی امت کے لئے بھی ہمیشہ کے لئے مبارک ہے۔
خانہ خدا کا حج آدم ، ابراہیم اور خاتم الانبیاء نیز ان کے ماننے والے آج تک بجا لا تے ہیں اور اسی طرح ابد الآبادتک بجا لا تے رہیں گے، خدا وند عالم نے حضرت خاتم الا نبیاء اوران کی امت کے لئے وہی دین اور آئین مقرر فرما یا جو نوح کے لئے تھا اورحضرت ابراہیم حضرت نوح کے پیرو اور ان کی شریعت کے تابع تھے ،اسی لئے خدا وند عالم نے خا تم الانبیاۖ اور ان کی امت کو حکم دیا کہ شریعت ابرا ہیم اور ان کے محکم اور پائدار دین کے تابع ہوں۔
پیغمبروں کی شریعتوں میں حضرت آدم سے پیغمبر خاتمۖ تک کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور اگرکچھ ہے بھی تو وہ گزشتہ شریعت کی آئندہ شریعت کے ذریعہ تجد ید ہے اور کبھی اس کی تکمیل ہے، یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت آدم نے حج کیا اور حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی تعمیر کرکے حج کی بعض علا متوں کی تجد ید کی اور خا تم الانبیا ئۖ نے احرام کے میقا توں کی تعیین کی مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنایا اور تمام نشانیوں کی وضاحت کر کے اس کی تکمیل کی۔
خدا وند سبحان نے اسلا می احکام کواس وقت کے انسانوں کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم کے لئے ارسال فرمایا جو انسان اپنی کھیتی باڑی اور جانورں کے ذریعہ گز ر اوقات کرتا تھا اور شہری تہذیب و تمدن سے دور تھا ،جب نسل آدمیت کا سلسلہ آگے بڑھا اور حضرت نوح کے زمانے میں آبادیوںکا وجود ہوا اور بڑے شہروں میں لوگ رہنے لگے تو انھیں متمدن اور مہذ ب افراد کے بقدر وسیع تر قانون کی ضرورت محسوس ہو ئی ، (انسان کی تجارتی ، سماجی اور گونا گوں مشکلات کو دیکھتے ہوئے جن ضرورتوں کا بڑے شہروں میں رہنے والوں کو سامنا ہوتاہے) تو خدا وندعالم نے اسلامی احکام کی جتنی ضرورت تھی حضرت نوح پر نازل کیا ،تا کہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے جس طرح خاتم الا نبیاء ۖپرزمانے کی ضرورت کے مطابق احکام نازل فرمائے ۔
گزشتہ امتیں عام طور پر اپنے نبیوں کے بعد منحرف ہوکر شرک کی پجاری ہو گئیں جیسا کہ اولاد آدم کا کام حضرت نوح کے زمانے میں بت پرستی تھا ،ایسے ماحول میں پیغمبر ۖنے سب سے پہلے خالق کی توحید کی دعوت دی اور بتوں کی عبادت کو ترک کرنے کا حکم دیا جیسا کہ حضرت نوح ، ابراہیم اور حضرت خاتم الانبیاء تک تمام نبیوں کا یہی دستور اور معمول رہاہے چنانچہ آ نحضرت عرب کے بازاروں اور حجاج کے خیموں میں رفت و آمد رکھتے اور فرماتے تھے ( لاالہ الا اﷲ ) کہو !کا میاب ہو گے! کبھی بعض امتوں کے درمیان ان کے سرکش اور طاغوت صفت رہبر نے '' ربوبیت'' کا دعوی کیا جیسے نمرود ملعون نے حضرت ابراہیم کے ساتھ ان کے پروردگار کے بارے میں احتجاج کیا اور سرکش اور طاغی فرعون نے (انا ربکّم الا علیٰ )کی رٹ لگائی ،ایسے حالات میں خدا کے پیغمبر سب سے پہلے اپنی دعوت کا آغاز تو حید ربوبی سے کرتے تھے ، جیسا کہ ابر اہیم نے نمرود سے کہا: ( ربّی الذی یحیی و یمیت) میرا پر وردگار وہ ہے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔
اور حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا :
(ربّنا الذی اعطیٰ کلّ شیئٍ خلقہ ثمّ ھدیٰ)۔(١)
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر مو جود کو اس کی خلقت کے تمام لوازم عطا کئے ،اس کے بعد ہدایت فر مائی۔
حضرت موسیٰ کی فر عون سے اس گفتگو کی تشریح سورئہ اعلی میں موجود ہے:
(سبّح اسم ربّک الأ علیٰ ۔ الذی خلق فسوّیٰ ۔ و الذی قدّر فھدیٰ ۔ و الذی أخرج المرعیٰ ۔ فجعلہ غثاء ً أ حویٰ) (٢)
اپنے بلند مرتبہ اور عالی شان پروردگار کے نام کو منزہ سمجھو ، وہی جس نے زیور تخلیق سے منظم و آراستہ فرمایا ، وہی جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت فرمائی ، وہ جس نے چرا گاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ بنادیا ۔
سورئہ اعراف میں بیان ہوتا ہے :
( اِنّ ربّکم اﷲ الذی خلق السّموات و الا ٔرض)(٣)
بیشک تمہارا ربّ وہ خدا ہے جس نے آسمان و زمین خلق کیا ہے۔
اس بنا پر بعض گزشتہ امتیں بنیادی عقیدہ تو حید سے منحرف ہوجاتی تھیں جیسے حضرت نوح اور ابراہیم وغیرہ کی قومیں اور بعض عمل کے اعتبار سے اسلام سے منحرف ہو جاتی تھیںجیسے قوم لوط اور شعیب کے کرتوت.
اگر قرآن کریم ، پیغمبروں کی رو ایات ،انبیا ء کے آثار اور اخبار اسلامی مدارک میں بغور مطالعہ اورتحقیق کی جائے تو ہمیںمعلوم ہو گا کہ بعد والے پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے پہلے والے پیغمبروں پر نازل شدہ شریعت کی تجدید کرنے والے رہے ہیں ، ایسی شریعت جو امتوں کی طرف سے محو اور تحریف ہو چکی تھی ، اس لئے خدا نے ہمیں حکم دیا کہ ہم کہیں:
(آمنّا باﷲ و ما أنزل الینا و ما أنزل ِالیٰ ابراہیم و اِسما عیل و اِسحق و یعقوب و الأسباط و ما أوتی مو سیٰ و عیسیٰ و ما أو تی ٰ النبےّون من ربّھم لا نفرّق بین أحد منھم ونحن لہ مسلمون)(٤)
کہو کہ ہم خدا اور جو کچھ خدا کی طرف سے ہم پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لا ئے ہیںنیز ان تمام چیزوں پر بھی جو ابر اہیم، اسماعیل ، اسحق ، یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوئی ہیں ، نیزجو کچھ
..............
(١) طہ٥٠
(٢) اعلی ١ ۔ ٥
(٣)اعراف٥٤
(٤)بقرہ ١٣٦
موسیٰ، عیسیٰ اور تمام انبیا ء کو خدا کی جانب سے دیا گیا ، ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی سے جدا تصوّر نہیں کرتے ہم تو صرف اور صرف فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں ۔
سوال:
ممکن ہے کوئی سوال کرے: اگر پیغمبروں کی شر یعتیں ایسی ہی ہیں جیسا کہ آپ بیان کرتے ہیں تو انبیاء کی شریعتوں میں نسخ کے معنی ٰ کیا ہوں گے کہ خدا و ندعالم ارشاد فرماتا ہے :
(ما ننسخ من آےةٍ أوننسھا نات بخیر منھا أو مثلھا الم تعلم أنّ اﷲ علی کلّ شیئٍ قدیر)(١)
(کوئی حکم ہم اس وقت تک نسخ نہیں کرتے یا اسکے نسخ کو تاخیر میں نہیں ڈالتے جب تک کہ اس سے بہتر یا ا س جیسا نہ لے آئیں کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے)۔
نیز خدا وند عالم کی اس گفتگو میں ''تبدیل'' کے کیا معنی ہیں کہ فرما تا ہے:
(و اِذا بدّلنا آےة مکان آےة و اﷲ اعلم بما ینزّ ل قالو اِنّما أنت مفتر بل أکثرھم لا یعلمون)(٢)
(اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ہیں ] کسی حکم کو نسخ کرتے ہیں [ توخدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے ، کہتے ہیں: تم افترا پردازی کرتے ہو ، بلکہ ان میں زیادہ تر لوگ نہیں جانتے)
جواب:
ہم اسکے جواب میں کہیں گے : یہاں پر بحث دو موضوع سے متعلق ہے:
١۔ اصطلا ح ''نسخ'' اور اصطلا ح'' آیت'' .
٢۔مذکورہ آیات کے معنی.
انشاء اﷲ آئندہ بحث میں اس کے متعلق چھان بین اور تحقیق کریں گے۔
..............
(١)سورہ ٔ بقرہ ١٠٦
(٢)سورہ ٔ نحل ١٠١.
|