(١)
١۔صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں نسخ
الف: حضرت آدم اور نوح کی شریعتیں .
ب : نسخ و آیت کی اصطلاح اور ہر ایک کے معنی.
ج : آیۂ کریمہ ''ما ننسخ من آیة ''اور آیۂ کریمہ: ''واذا بدلنا آیة مکان آیة.. .''کی تفسیر
د: موسی کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد ختم ہوگئی.
( ١ )
انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں
اس بحث میں قرآن کریم اور اسلامی روایات کی جانب رجوع کرتے ہوئے صر ف ان امور کو بیان کریںگے جن سے صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں ]نسخ[ کا موضوع واضح اور روشن ہو جائے ، اسی لئے ہود ،صالح ، شعیب جیسے پیغمبروں کا تذکرہ نہیں کریں گے جن کی امتیں نابودہو چکی ہیں ،بلکہ ہماری گفتگوان پیغمبر وں سے مخصوص ہے جنکی شریعتیں ان کے بعد بھی زندہ رہیں،جیسے حضرت آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلوات اﷲ علیھم اجمعین اور اس کو ہم زمانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر کریں گے۔
حضرت آدم ، نوح ، ابراہیم اور محمدۖ کی شریعتوںمیںاتحاد و یگانگت
اوّل: حضرت آدم ابوالبشر
روایات میں منقول ہے کہ حضرت رسول اکرم ۖ نے فرمایا :روز جمعہ تمام ایاّم کا سردار ہے اور خدا کے نزدیک ان میں سب سے عظیم دن ہے، خدا وندعالم نے حضرت آدم کو اسی دن خلق فرمایا اور وہ اسی دن باغ(جنت) میں داخل ہوئے اور اسی دن زمین پر اترے(١) اور حجرالاسود ان کے ہمراہ نازل کیا گیا ۔(٢)
دوسری روایات میں اس طرح آیا ہے : خدا وند عالم نے پیغمبروں، اماموں اور پیغمبروں کے اوصیاء کو جمعہ کے دن خلق فرمایا۔
اسی طرح روایات صحیحہ میں آیا ہے کہ جبرائیل حضرت آدم ـ کو حج کیلئے لے گئے اور انہیں مناسک کی
..............
(١) صحیح مسلم،ج ٥،ص ٥ کتاب الجمعة باب فضل الجمعة،طبقات ابن سعد،ج١،طبع یورپ.
(٢) مسند احمد،ج٢،ص ٢٣٢،٣٢٧اور٥٤٠۔ اخبار مکہ ازرقی(ت ٢٢٣ھج) طبع، ١٢٧٥ھج ص ٣١.
انجام دہی کا طریقہ سکھا یا اور بعض روایات میں مذکور ہے:
بادل کے ٹکڑے نے بیت اﷲپر سایہ کیا، جبرائیل نے سا ت بار آدم کو ا س کے ا رد گرد طواف کرایا پھر انہیں صفا و مروہ کی طرف لے گئے اور سات بار ان دونوں کے درمیان سعی]رفت و آمد[ کی،پھر اسکے بعد ٩ ذی الحجہ کو عرفات میں لے گئے حضرت آدم نے عرفہ کے دن عصر کے وقت خدا وندعالم کی بارگاہ میں تضرع و زاری کی اور خدا وند عالم نے ان کی توبہ قبول کر لی ،اسکے بعددسویں کی شب کو مشعر الحرام لے گئے تو وہاں آپ صبح تک خدا وندعالم سے راز و نیاز اور مناجات میں مشغول رہے اور دسویں کے دن منیٰ لے گئے تو وہاں پر توبہ کے قبول ہونے کی علامت کے عنوان سے سر منڈوایا پھر دوبارہ انھیں مکّہ واپس لائے اور سات بار کعبہ کا طواف کرایا، اسکے بعد خدا کی خوشنودی کی خاظر نماز پڑھی پھر نماز کے بعد صفا و مروہ کی سمت روانہ ہوئے اور سات بار سعی کی ، خدا وند عالم نے حضرت آدم و حوا کی توبہ قبول کرنے کے بعد دونوں کو آپس میں ملا دیا اور دونوں کو یکجا کر دیا اور حضرت آدم کو پیغمبری کے لئے برگزیدہ فرمایا۔(١)
دوم : ابو الا بنیاء حضرت نوح علیہ السلام
دا وندسبحان نے سورئہ نوح میں ارشاد فرمایا:
ِنَّا َرْسَلْنَا نُوحًا ِلَی قَوْمِہِ َنْ َنذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ َنْ یَْتِیَہُمْ عَذَاب َلِیم٭ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی لَکُمْ نَذِیر مُبِین٭ َنْ اعْبُدُوا اﷲَ وَاتَّقُوہُ وََطِیعُونِی ٭وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ٭(٢)
بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور کہا : اپنی قوم کو ڈرائو، نوح نے کہا:اے قوم ! میں آشکارا ڈرانے والا ہوں تاکہ خدا کی بندگی کرو اور اس کی مخالفت سے پرہیز کرو نیز میری اطاعت کرو۔
ان لوگوں نے کہا :اپنے خداؤں کو نہ چھوڑو اور ودّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو نہ چھوڑو۔
قرآن کریم میں حضرت نوح کی داستان کا جو حصہ ہماری بحث سے تعلق رکھتا ہے ،وہ سورئہ شوریٰ میں خدا وند متعال کا یہ قول ہے کہ فرماتا ہے:
..............
(١) طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج،١ ص ١٢،١٥،٣٦،مسند احمد، ج،١۔٥ ص ١٧٨ اور ٢٦٥،مسند طیالسی(حدیث ٤٧٩) بحار الانوار ج١١،ص ١٦٧ اور ١٩٧ حضرت آدم کی کیفیت حج سے متعلق متعدد اور مختلف روایات پا ئی جاتی ہیں.
(٢) نوح:٢٣٣٢١.
(شَرَعَ لَکم مِّن الدِّ ینِ مَا وَصَّیٰ بِہِ نُوحَاً وَ الَّذِی اَوحینَا اِلیکَ وَ مَا وَ صّیناَ بِہ اِبراھِیمَ وَ موَسیٰ وَ عِیسیٰ اَن اَقِیمُواا لدِّینَ وَ لاَ تَتَفَرَّقُوا فیہ) (١)
وہی آئین و قانون تمہارے لئے تشریع کیا جس کا نوح کو حکم دیا اور جس کی تم کو وحی کی اورابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا ، وہ یہ ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔
کلمات کی تشریح
١۔ودّ، سواع، یغوث اور نسر : علاّمہ مجلسی رحمة اﷲ علیہ حضرت امام جعفر صادق سے بحارالانوار میں ایک روایت ذکر کرتے ہیں جسکا مضمون ابن کلبی کی کتاب الاصنام اور صحیح بخاری میں بھی آیا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے :
ودّ ، سواع، یغوث اور نسر ، نیکو کار، مومن اور خدا پرست تھے جب یہ لوگ مر گئے تو انکی موت قوم کے لئے غم واندوہ کا باعث اور طاقت فرسا ہوگئی ،ابلیس ملعون نے ان کے ورثاء کے پاس آکر کہا: میں ان کے مشابہ تمھارے لئے بت بنا دیتا ہوں تاکہ ان کو دیکھو اور انس حاصل کر وخدا کی عبادت کرو ،پھر اس نے ان کے مانند بت بنا ئے تو وہ لوگ خدا کی عبادت کرتے اور بتوں کا نظارہ بھی اورجب جاڑے اور برسات کا موسم آیا تو انھیں گھروں کے اندر لے گئے اور مسلسل خدا وند عزیز کی عبادت میں مشغول رہتے ،یہاں تک کہ انکا زمانہ ختم ہوگیا اور ان کی اولاد کی نوبت آگئی وہ لوگ بولے یقینا ہمارئے آباء و اجداد ان کی عبادت کرتے تھے ، اس طرح خدا وندکی عبادت کے بجائے انکی عبادت کرنے لگے، اسی لئے خداوند عالم ان کے قول کی حکایت کرتا ہے:
( وَلاَتَذَرُنَّ وداًّ وَ لا سُواعاً)(٢)
٢۔ وصیت : انسان کا دوسرے سے وصیت کرنا یعنی ، ایسے مطلوب اور پسندیدہ کاموں کے انجام دینے کی سفارش اور خواہش کرنا جس میں اس کی خیر و صلاح دیکھتا ہے۔
خدا وندعالم کا کسی چیز کی وصیت کرنا یعنی حکم دنیا اور اس کا اپنے بندوں پر واجب کرنا ہے۔(٣)
..............
(١)شوری ٰ: ١٣
(٢) بحار الانوار۔ج٣،ص ٢٤٨ اور ٢٥٢؛ صحیح بخاری،ج٣ ص ١٣٩ سورہ نوح کی تفسیر کے ذیل میں.
(٣) معجم الفاظ القرآن الکریم مادۂ وصی.
آیات کی مختصر تفسیر
خدا وندعالم نے گزشتہ آیات میں خبر دی ہے کہ نوح کو انکی قوم کے پاس بھیجا تاکہ انھیں ڈرائیں نوح نے ان سے کہا: میںتمہیں ڈرانے والا(پیغمبر) ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم سے کہوں : خدا سے ڈرو اور صرف اسی کی بندگی اور عبادت کرو اور خداوندا عالم کے اوامر اور نواہی کے سلسلے میں میری اطاعت کرو ،ان لوگوںنے انکار کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے جواب میں کہا : اپنے خدا کی عبادت سے دستبردار نہ ہونا! خدا وند عالم نے آخری آیتوں میںبھی فرمایا:
اے امت محمد! خداوند عالم نے تمہارے لئے وہی دین قرار دیا ہے جو نوح کے لئے مقرر کیا تھا اور جو کچھ تم پر اے محمد ۖ وحی کی ہے یہ وہی چیز ہے جس کا ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا گیا تھا ، پھر فرمایا اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔(١)
اورجو کچھ اس مطلب پر دلالت کرتا ہے وہی ہے جو خدا وند عالم سورئہ ( صافّات ) میں ارشاد فرماتا ہے:
(سَلام عَلَیٰ نُوحِ فِی العَالَمےِنَ ۔ اِنَّاکذٰلِکَ نَجزِیَ المُحسِنِینَ ۔ اِنَّہ مِن عِبَادِنَا المُؤمِنِینَ۔ ثُمَّ اَ غرَقنَا ا لآ خرِینَ ۔وَاِنَّ مِن شِیعتِہ لاَ بِراھِیمَ اِذ جَا ئَ رَبَّہُ بِقلبٍ سَلےِم)(٢)
عالمین کے درمیان نوح پر سلام ہو ہم اسی طرح نیکو کاروںکو جزا دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مومن بندوں میں تھے ،پھر دوسروں کو غرق کر دیا اور ابراہیم ان کے شیعوں میں سے تھے ، جبکہ قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ خدا وندی میں آئے۔
شیعہ یعنی ثابت قدم اور پائدار گروہ جو اپنے حاکم و رئیس کے فرمان کے تحت رہے،شیعہ شخص ، یعنی اسکے دوست اور پیرو۔(٣)
اس لحاظ سے، آیت کے معنی: (ابراہیم نوح کے شیعہ اور پیرو کارتھے)یہ ہوںگے کہ ابراہیم حضرت نوح کی شریعت کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرتے تھے۔
خدا وندعالم کی توفیق و تائید سے آئندہ مزید وضاحت کریں گے۔
..............
(١)آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر تبیان اور مجمع البیان میں ملاحظہ ہو .
(٢) آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر ''تبیان'' ملاحظہ ہو(٣) لسان العرب مادہ :شیع .
|